Written by 3:13 pm عمومی کہانیاں, ناولز

پچھتاوّا

انابیہ خان

“ماں میں تھک گیا ہوں آپکی روز کی دوائیاں لاتے لاتے ، میرے پاس قارون کا خزانہ نہیں ہے ، جو آپ پر لٹاتا رہوں ، آخر میں بھی تو انسان ہوں میرے بھی آخراجات ہیں ، کہاں سے لاوّں میں اتنے پیسے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے اپنی ماں کی کھانستی ہوئی حالت پر بھی ترس نہ آیا تھا ، وہ کھانستے کھانستے نیم جان ہو چکی تھی ، وہ اول فول بکتے گھر سے نکل پڑا تھا ۔۔۔۔
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں


“جگر کیوں پریشان بیٹھا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسد کے دوست نے اسے پریشان حالت میں بیٹھے دیکھ کر پوچھا ؟
“یار آج کل کی مہنگائی کے بارے میں تجھے پتہ تو ہے ، اوپر سے ماں کی روز کی دوائی لیتے لیتے آخری دنوں میں میری جیب میرا ساتھ چھوڑ دیتی ہے ، مجھ سے روز روز کی دوائیاں نہیں لی جاتیں ، سوچ رہا ہوں ماں کو کسی اولڈ ہاوّس چھوڑ آوّں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسد نے اپنی پریشانی اپنے جگری دوست کے سامنے عیاں کی تھی ۔۔۔۔
“ارے میرے جگر کیوں پریشان ہوتا ہے ، ہمارے اس ملک میں بھی ، دوسرے ممالک کی طرح ، ایسے ادارے موجود ہیں ، جہاں ان بوڑھے ماں باپ کو چھوڑا جا سکتا ہے ، تو چل میرے ساتھ جہاں پر میرے ماں باپ رہتے ہیں ، وہیں پر تیرا بھی بندوبست کروا دیتا ہوں ، پھر ساری زندگی مزے سے جینا جس طرح میں جی رہا ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایان نے اپنے فرضی کالر جھاڑتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔
پھر دونوں دوست نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کر دی تھی


“ٹھیک ہے آپ اپنی ماں کو یہاں لے آئیں ، یہ ادارے بنائے ہی اس لیے گئے ہیں ، آپ بس ایسا کریں اپنی ماں کی کو تصویر دکھا دیں ، تاکے کل کو کوئی مسئلہ نہ کھڑا ہو جائے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مینجر نے کہا جو کچھ دن پہلے ایان کا دوست بنا تھا ۔
اسد نے فوراً اپنی جیب سے موبائیل نکل کر اپنی ماں کی تصویر انہیں دکھائی تھی ، اس مینجر کے پاس ایک برزگ بھی بیٹھا تھا جو شاید اس مینجر کا باپ تھا ، اس برزگ نے موبائل سے اس کی ماں کی تصویر دیکھی تو چند لمحے اس تصویر کو دیکھتا رہا ، جیسے اس تصویر والے کو پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو ،
” کیا یہ آپکی ماں ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس برزگ نے اسے پہنچانتے ہوئے پوچھا ،
اسد نے سر اثبات میں ہلایا ۔
” آج سے بیس سال پہلے ، اس عورت نے ، اس ادارے سے ایک یتیم بچا اڈاپٹ کیا تھا ، کہیں وہ بچہ آپ تو نہیں ، کیونکہ اس عورت کی اور تو کوئی اولاد نہیں تھی ، مجھے تو لگتا ہے وہ بچہ آپ ہی تھے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس برزگ نے جیسے ہی یہ لفظ ادا کیا تو اسد کے پیروں سے زمین سرکی ، اور سر پر جیسے آسمان آ گرا ہو ، اس ادارے کی ساری عمارت اس کے ناتواں کندھوں پر آ گری تھی ، وہ برزگ کیا کہہ رہا تھا ، اس نے تو کچھ اور سنا ہی نہیں تھا ، وہ وہاں سے بھاگتے ہوئے گھر کی طرف چلا گیا تھا ، اسے تو موٹر سائیکل لینا بھی بھول گیا تھا ، اس نے باقی کا سفر روتے ہوئے اور الله سے توبہ کرتے ہوئے گزارا تھا ، وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا
ماں سامنے چارپائی پر بے سدھ پڑی ہوئی ملی تھی اسے ۔۔۔
وہ ماں ماں پکارتے ہوئے اسکے قریب آیا تھا ۔
” ماں آنکھیں کھولیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے جیسے ہی ماں کے سر کو ہلایا تو اس کا سر لڑکھڑاتے ہوئے دوسری طرف ڈھلک گیا تھا ، وہ آنکھوں میں آنسو لیے اسے پکارتا رہا ، پر اسکی ماں نے کوئی جواب نہ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
وہ تو خلق حقیقی سے جا ملی تھی اسکے لیے ساری زندگی کا پچھتاوّا چھوڑ کر ۔۔۔۔۔۔

Visited 61 times, 1 visit(s) today
Last modified: February 10, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!