Written by 9:19 am بچوں کی کہانیاں, ناولز

پیاری ستارہ

کسی گاوں میں ایک چھوٹا سا گھر تھا جس میں تین لوگ رہتےتھے۔اس گھر میں میاں بیوی اور ان کی اکلوتی بیٹی رہتے تھے۔مگر وہ لوگ بہت غریب تھے۔ان کا گزارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا۔ان کی بیٹی بیس سال کی تھی۔جس کا نام ستارہ تھا۔وہ بہت خوبصورت تھی کہ پورے گاوں والے اس کے دیوانے تھے۔کشادہ پیشانی،ستواں ناک،گال سرخی ماہل بھرے بھرے ،ہونٹ گلاب کی طرح سرخ،چہرے کی رنگت کندنی اور سلکی لمبے بال تھے۔مگر اس کی آنکھیں ویران تھیں کیونکہ وہ دیکھ نہیں سکتی تھی۔لوگ اس کو پسند بھی کرتے تھے مگر اس کی بینائی کی وجہ سے اس سے کوئی شادی نہیں کرتا تھا۔اس کے گھر والے اس کی وجہ سے بہت فکرمند تھے کہ اس سے شادی کون کرئے گا؟ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنی بیٹی کا علاج کروا سکیں۔وہ ہر روز اپنے ماں باپ کو کہہ رہی ہوتی تھی کہ میں اس غربت میں رہ رہ کر تنگ آگی ہوں۔اتنی غربت تھی کہ کبھی کبھی تو وہ بھوکے ہی سو جاتے تھے۔آہستہ آہستہ کرکے یوں ہی دن گزرتے چلے گئے۔ایک دن ستارہ اپنے گھر کے صحن پر بیٹھی تھی کہ اس کے گھر کے پاس سے ایک لڑکا گزرا۔وہ ستارہ کو دیکھ کر حیران ہوگیا کہ اتنی خوبصورت لڑکی (جیسے کوئی پری ہو)اس نے اپنے دوست سے کہا کہ اللہ کی قدرت دیکھو!کتنے خوبصورت لوگ اللہ نے اس دنیا میں پیدا کیے ہیں۔اس کے دوست نے کہا کہ ہاں یہ لڑکی بہت خوبصورت ہے مگر یہ دیکھ نہیں سکتی۔وہ لڑکا اپنی دوست کی بات سن کر پریشان ہوگیا اور کہنے لگا کہ مجھے یقین نہیں ہوتا کہ یہ لڑکی دیکھ نہیں سکتی۔اس کے دوست نے کہا کہ اچھا اگر میری بات پر یقین نہیں ہے تو خود ہی جا کر دیکھ لو وہ تمہاری طرف دیکھی گی یا نہیں۔اس کی بات سن کر وہ لڑکا ستارہ کے قریب گیا مگر ستارہ نے اس کی طرف نا دیکھا۔اس نے اس کے آگے آکر اپنے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا مگر اس کو کوئی فرق نہیں پڑا۔اس کو سمجھ آ گئ کہ واقعی یہ لڑکی نابینا ہے۔وہ واپس اپنے دوست کے پاس آیا اور اس کو کہا کہ اتنی خوبصورت لڑکی مگر نابینا ہے۔وہ اپنے دوست کے ساتھ واپس گھر چلا گیا۔جب گھر پہنچا تو وہ بہت بے چین ہو رہا تھا۔اس نے اپنے دوست کو اپنے کمرے میں بلایا اور اس کو کہا کہ وہ لڑکی کون ہے؟کیا کرتی ہے؟اس کے دوست نے کہا کہ کیا بات ہے؟تم اس لڑکی کا کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس نے کہا کہ جتنا پوچھا ہے اس کا جواب دو۔اس نے کہا کہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہے۔وہ لوگ اتنے غریب ہیں کہ ان کی ضروریات زندگی بہت مشکل سے پوری ہوتی ہیں۔وہ اپنی بیٹی کی وجہ سے بہت پریشان ہیں کیونکہ اس کی بینائی کی وجہ سے اس سے کوئی شادی نہیں کرتا ہے۔اس لڑکے نے کہا کہ کوئی بات نہیں اگر کوئی اور اس سے شادی نہیں کرتا تو میں اس کے ساتھ شادی کر لوں گا۔وہ میرے پاس آکر عیش کرئے گی۔اس کی تمام ضروریات میں پوری کروں گا۔اس کو کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔میں اس کو ملکہ بنا کر رکھوں گا۔اس کا دوست اس کی سب بتایں سن کر حیران ہوجاتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تم کس قسم کی باتیں کر رہے ہو۔اس کے ماں باپ کبھی بھی نہیں مانے گے۔اس نے کہا کہ کیوں نہیں مانے گے؟ان کو سب کچھ دوں گا جو کچھ وہ میرے سے مانگیں گے۔اس کے دوست نے کہا تو تمہاری شکل کا کیا؟کتنے برے لگتے ہو؟سب لوگ تم سے دور بھاگتے ہیں۔بچے تمہیں دیکھ کر چیخیں مارنے لگتے ہیں۔تو کیا وہ تمہاری شادی اپنی بیٹی سے کروا دیں گے۔اس کو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔اس نے اپنے دوست سے کہا کہ کوئی بات نہیں مجھے پتا ہے کہ میری شکل جلی ہوئی ہے اور میں خوفناک لگتا ہوں مگر میں ان لوگوں کو منا لوں گا اور وہ لوگ مان بھی جائیں گے۔بس تم تیاری کرو میں کل ہی ان کے گھر جاوں گا۔وہ پوری رات بے چین رہتا ہے کہ کب صبح ہو اور وہ ستارہ کے گھر جائے۔اگلی صبح ہوتے ہی سب لوگ ستارہ کے گھر جانے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔سب نوکر اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے۔اس نے اپنے دوست کو کہا کہ آج میں بہت خوش ہوں کہ میں اپنی پسند کی لڑکی کے گھر اس کا ہاتھ مانگنے جا رہا ہوں اور اس سے شادی کروں گا بس وہ مان جائے۔اس کے دوست نے کہا کہ تم بہت جلد بازی میں فیصلہ تو نہیں کر رہے۔ابھی بھی سوچ لو یہ سب کچھ مجھے صحیح نہیں لگ رہا۔اس نے کہا کہ تم پریشان نا ہو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔اس کے دوست نے کہا کہ ٹھیک ہے جاو کوئی اچھی خبر لے کر آنا۔وہ ستارہ کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ستارہ کے بابا نے دروازہ کھولا۔وہ ایک نوجوان لڑکے کو دیکھ کر حیران ہوگئے۔وہ اس کو اندر لے آئے۔ستارہ کے بابا نے اس لڑے سے پوچھا کہ بیٹا تم کون ہو اور یہاں کیوں آئے ہو؟ اس نے اپنا تعارف کروایا کہ میرا نام ارسلان ہے۔میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں۔میرے والدین کا انتقال ہوگیا ہے۔میں گھر میں اکیلا رہتا ہوں۔اپنے والد کے انتقال کے بعد میں ہی زمینوں کو سنبھالتا ہوں۔ستارہ کا باپ تھوڑا سا پریشان ہوگیا اور وہ ارسلان سے کہنے لگا کہ تم اس غریب خانے میں کیوں آئے ہو؟ارسلان نے کہا کہ مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے تو مہربانی فرما کر انکار مت کیجئے گا۔انہوں نے کہا کہ بیٹا یہ غریب بندہ آپ کو کیا دے سکتا ہے؟ہمارے پاس آپ کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ارسلان نے کہا کہ میں آپ سے کچھ ایسا مانگنا چاہتا ہوں جو آپ کے لیے بہت قیمتی ہے۔ ستارہ کے باپ نے کہا کہ ستارہ کے باپ نے کہا کہ بیٹا میرے پاس تو کوئی ایسی قیمتی چیز نہیں ہے جو آپ مجھ سے مانگنا چاہتے ہیں۔ارسلان نے کہا کہ دراصل بات یہ ہے کہ میں آپ کی بیٹی کے لیے اپنا رشتہ لے کر آیا ہوں۔اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔میں اس کو بہت خوش رکھوں گا۔اس کی تمام ضروریات کو پورا کروں گا۔ستارہ کی ماں کو غصہ آجاتا ہے اور وہ کہنے لگتی ہے کہ ہماری بیٹی نابینا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنی بیٹی کی شادی ایک ایسے جلے ہوئے شکل کے لڑکے سے کروا دیں۔ہم غریب ہیں مگر ہمیں کسی قسم کا لالچ نہیں ہے کہ ہم اپنی بیٹی کی شادی تم جیسے لڑکے سے کریں۔ستارہ کا باپ اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ تم کو کیا ہوگیا یہ کیسی باتیں کر رہی ہو؟ارسلان نے کہا کہ آپ لوگ صحیح کہہ رہے ہیں۔مگر ایک بات تو ہے وہ یہ کہ ستارہ نابینا ہے وہ دیکھ نہیں سکتی ہے تو اس کو کس طرح میری شکل کا پتا چلے گا۔یہ راز صرف آپ دونوں کو ہی پتا ہے۔ہم اس کو کچھ نہیں بتائیں گے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ستارہ کی ماں آگ بگولا ہوئی جا رہی تھی۔وہ کہنے لگی کہ کیا میری بیٹی ساری زندگی کے لیے نابینا ہی رہے گی؟ارسلان نے کہا کہ میں تو اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے آپ کی بیٹی بہت پسند ہے۔میں اس کو ہمیشہ خوش رکھوں گا۔اس کو کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہونے دوں گا۔یہ میرا آپ دونوں سے وعدہ ہے۔وہ یہ کہہ کر گھر سے چلا جاتا ہے۔ ستارہ کی ماں ارسلان کے گھر سے باہر نکلتے ساری ہی غصے سے دروازہ بند کر دیتی ہے جس پر اس کا شوہر اس کو کہتا ہے کہ تم کو کیا ہوگیا ہے؟آرام سے دروازہ بند کر دیتی پتا نہیں وہ لڑکا ہمارے بارے میں کیا سوچتا ہوگا۔اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں آپ کو اتنا پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔وہ چلا گیا اب بس جو وہ کہہ کر گیا اس کو بھول جائیں تو اچھا ہو گا۔ستارہ کے والد نے کہا کہ تم کو کیا ہو گیا ہے؟وہ ہماری بیٹی کے لیے اپنا رشتہ لے کر آیا تھا۔مجھے تو وہ دل کا بہت اچھا لگا اور ویسے بھی اتنے اونچے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔یہ ہماری ستارہ کو خوش رکھے گا۔ہم اپنی بیٹی کے لیے کتنے فکر مند تھے مگر اللہ پاک نے ہماری مشکل آسان کر دی ہے۔ستارہ کی ماں غور سے اپنے شوہر کی باتیں سن رہی ہوتی ہے۔ساری باتیں سننے کے بعد وہ کہتی ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ اس کا تعلق اونچے گھرانے سے ہے اور ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے مگر اس کی شکل کا کیا؟میری بیٹی اتنی خوبصورت ہے۔اس کے ساتھ ایسا ظلم نہ کریں وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کر پائے گی۔اس کے شوہر نے کہا کہ تم پریشان کیوں ہو رہی ہو؟اس کو کوئی بتائے گا تو سب کچھ خراب ہوگا.اس کو کوئی بتائے گا تو سب کچھ خراب ہوگا۔ہم اس کو کچھ بھی نہیں بتایں گے اور وہ اپنے گھر خوشی خوشی رہے گی۔وہ ایک غریب گھر میں پیدا ہوئی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ وہ ساری زندگی اسی غربت میں رہے۔اگر وہ دیکھ نہیں سکتی تو کیا اس کو سکون سے رہنے کا کوئی حق نہیں ہے؟ستارہ کی ماں آخر کار مان جاتی ہے۔ان دونوں کی باتوں کے دوران ستارہ کمرے سے باہر آ جاتی ہے اور ان سے پوچھتی ہے کہ باہر کون آیا تھا؟اس کی ماں نے بتایا کہ میری پیاری بیٹی!تمہارے لیے ایک خوش خبری ہے جس کو سن کر تم خوش ہو جاو گی۔ستارہ نے کہا کہ ایسی کیا بات ہے جس پر آپ دونوں بہت خوش نظر آ رہے ہیں۔اس کے والد نے کہا کہ آپ کے لیے ایک رشتہ آیا ہے۔لڑکا بہت اچھا ہے اور اس کا تعلق بہت اونچے گھرانے سے ہے۔ستارہ اپنے والد کی بات سن کر حیران ہو جاتی ہے اور کہتی ہے کہ بابا ایک اونچے گھرانے سے تعلق رکھنے والا لڑکا مجھ جیسی غریب لڑکی سے شادی کیسے کر سکتا ہے؟ اس کو تو اور بھی لڑکیاں مل جائیں گی جو میرے سے اچھی ہوں گی۔اس کی ماں نے کہا کہ ستارہ بیٹی یہ تو نصیبوں کی بات ہوتی ہے۔وہ لڑکا بہت اچھا ہے وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا۔ستارہ نے کہا کہ اگر آپ دونوں کو وہ اچھا لگتا ہے تو میری طرف سے ہاں ہے۔آپ دونوں جو بھی فیصلہ کریں گے وہ میرے لیے بہتر ہی ہوگا۔ستارہ کے ماں اور باپ دونوں بہت خوش ہوتے ہیں۔کچھ دنوں بعد ارسلان اور ستارہ کی شادی ہوجاتی ہے۔ستارہ اب بڑے گھر کی ملکہ بن جاتی ہے۔ارسلان اس کو کوئی کام کرنے نہیں دیتا تھا۔ہر کام کے لیے الگ الگ نوکر تھے۔ستارہ جب بھی ارسلان کو کہتی کہ میں کام کروں تو وہ اس کو سختی سے منع کر دیتا تھا۔ارسلان اس کا بہت خیال رکھتا تھا۔اس کو کسی چیز کی کمی محسوس ہونے نہیں دیتا تھا۔ایک دن ستارہ ارسلان سے کہتی ہے کہ آپ میرے لیے اتنا سب کچھ کرتے ہیں۔میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔اگر میں آپ سے ایک بات کہوں تو آپ میری بات مانیں گے یا نہیں؟ارسلان نے کہا کہ کیا بات ہے بولو!میں ضرور پوری کروں گا۔ستارہ نے کہا کہ اب تو ہمارے پاس پیسے ہیں۔اب تو میری آنکھوں کی روشنی واپس آسکتی ہے۔ارسلان ستارہ کی بات سن کر گھبرا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اتنی سی بات میں تمہیں کل ڈاکٹر کے پاس لے جاوں گا۔ستارہ ارسلان کی بات سن کر بہت خوش ہوتی ہے۔مگر ارسلان بہت پریشان ہوجاتا ہے۔اگلی صبح ارسلان ستارہ کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہے اور وہاں جاکر ستارہ کو کہتا ہے کہ ستارہ! میں ڈاکڑ سے تمہاری اپوائنمنٹ لے کر آیا۔ستارہ صوفے پر بیٹھ جاتی ہے۔ارسلان ڈاکٹر کے پاس جاکر کہتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب آپ ستارہ کو کسی طرح یہ کہہ دیں کے اس کی آنکھوں کا علاج نہیں ہوسکتا ڈاکڑ نے ارسلان کی ساری بات سن کر اس کو تسلی دی کہ تم پریشان نہ ہو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ارسلان باہر نکلتے ہی ستارہ کو کہتا ہے کہ آو! ڈاکڑ تمہیں بولا رہے ہیں۔ستارا اندر جاتی ہے تو ڈاکٹر اس سے کہتا ہے کہ ستارہ! مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑھ رہا ہے کہ میں آپ کی مدد نہیں کرسکتا۔آپ کی آنکھیں کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوں گی۔ستارہ ڈاکڑ کی بات سن کر بہت دکھی ہوتی ہے۔ارسلان اس کو گھر لے آتا ہے۔ارسلان اس کو کہتا ہے کہ کوئی بات نہیں میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔ستارہ اس کی بات سن کر اس کو کہتی ہے کہ آپ کتنے اچھے ہیں۔بس میں آپ کو اب کبھی بھی نہیں دیکھ سکتی۔ارسلان نے کہا کوئی بات نہیں میں تمہارے پاس ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔ستارہ کی ایک ملازمہ تھی جو ہر روز روتی رہتی تھی۔وہ ستارہ کو بتاتی تھی کہ اس کا شوہر اس کو ہر روز مارتا ہے۔ستارہ بہت پریشان ہوجاتی تھی۔ستارہ اس کو تسلی دیتی تھی کہ کوئی بات نہیں تم فکر نا کرو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ستارہ ہر روز اپنے گھر کے باہر باغ میں بیٹھا کرتی تھی۔وہ آس پاس کی آوازوں کو سن کر خوش ہوتی تھی۔ایک دن اس کے پاس ایک ملازمہ آئی۔اس نے اس کو بتایا کہ باہر کے ملک سے کچھ ڈاکڑ آئے ہیں جو سب لوگوں کا مفت میں علاج کر رہے ہیں۔ستارہ یہ بات سن کر بہت خوش ہوتی ہے اور ملازمہ سے کہتی ہے کہ یہ ڈاکٹر کہاں آئے ہیں۔اس نے ستارہ کو بتایا کہ یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر ان کا کیمپ ہے جہاں بہت سے لوگ اکٹھے ہوئے ہیں۔ستارہ ملازمہ کو کمرے سے باہر جانے کا حکم دیتی ہے۔ملازمہ کے باہر جاتے ہی وہ ڈاکڑ کے پاس جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔وہ دل میں سوچتی ہے کہ ایک دفعہ جاکر تو دیکھوں پتا نہیں میری آنکھیں ٹھیک ہوجائیں۔وہ کسی کو بتائے بغیر وہاں چلی جاتی ہے۔وہاں جاکر اس کو پتا چلتا ہے کہ اس کا علاج ممکن ہے۔وہ بہت خوش ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ میں کسی کو بھی نہیں بتاوں گی اور سب کو حیران کردوں گی جب میری آنکھوں کی روشنی واپس آ جائے گی۔آخر کار ستارہ کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں ۔وہ اپنی آنکھوں کو آہستہ آہستہ کر کے کھولتی ہے۔اس کی آنکھوں پر ایک تیز روشنی پڑتی ہے اور پھر اس کو سب کچھ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔وہ بہت خوش ہوتی اور فورا اپنے گھر جاتی ہے وہ سب سے چھپ کر اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔وہ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتی ہے اور اپنے آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہے۔پھر آہستہ آہستہ اپنے کمرے کی ہر چیز کو دیکھتی ہے۔وہ پھر باہر جاتی ہے جہاں وہ اکثر بیٹھا کرتی تھی۔وہاں جاکر بیٹھ جاتی ہے۔وہ ایسے کر رہی ہوتی ہے کہ اس کو ابھی بھی کچھ نظر نہیں آ رہا۔وہ ہر چیز کو دیکھ رہی ہوتی ہے کہ اس کے سامنے سے اس کی ملازمہ وہ ہر چیز کو دیکھ رہی ہوتی ہے کہ اس کے سامنے سے اس کی ملازمہ کا شوہر گزرتا ہے جو کہ بہت بری نظر سے ستارہ کو دیکھتا ہے۔ستارہ گھبرا جاتی ہے اور اپنی ملازمہ کو اشارہ کرتی ہے کہ مجھے اندر لے جاو۔جب ستارہ کمرے میں آتی ہے تو وہ سوچتی ہے کہ یہ کتنا بدتمیز لڑکا ہے۔یہ ہر روز مجھے ایسے ہی دیکھتا ہوگا۔شکل کا کتنا پیارا ہے مگر اس کی حرکتیں کتنی بری ہیں۔وہ یہ سب سوچ ہی رہی ہوتی ہے کہ اس کے کمرے کا دروازہ کھٹک رہا ہوتا ہے۔ستارہ دروازہ کھولتی ہے تو اس کی وہی ملازمہ ہوتی ہے جو ہر روز اس کے پاس اپنی پریشانی لے کر آتی تھی۔اس نے کہا کہ آج پھر میرے شوہر نے مجھے بہت مارا ہے۔ ستارہ ملازمہ کو دیکھ کر حیران ہوتی ہے اور دل میں کہتی ہے کہ یہ کتنی خوبصورت ہے مگر پھر بھی اس کا شوہر اس کو مارتا ہے۔ملازمہ ستارہ کو دیکھ کر بولتی ہے کہ آپ کیا سوچ رہی ہیں؟ستارہ نے کہا کہ کچھ نہیں۔تم اپنے گھر والوں کو نہیں بتاتی کہ تمہارا شوہر تمہیں مارتا ہے۔اس نے کہا کہ بتاتی ہوں لیکن میری کوئی بات نہیں سنتا ہے۔سب یہی کہتے ہیں کہ تم نے اس کے ساتھ بدتمیزی کی ہوگی اس لیے وہ تمہیں مارتا ہے(وہ یہ کہہ کر رونے لگتی ہے اور کمرے سے باہر چلی جاتی ہے)ستارہ کو اس پر بہت ترس آتا ہے۔وہ ابھی ملازمہ کے بارے میں سوچ ہی رہی ہوتی ہے کہ ارسلان کمرے میں آجاتا ہے۔ستارہ اس کو دیکھ کر ڈر جاتی ہے اور چیخیں مارنا شروع ہوجاتی ہے۔ارسلان اس کو کہتا ہے کہ ستارہ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟کہیں تمہیں چھوٹ تو نہیں لگ گی۔تم اپنا خیال نہیں رکھتی۔میں نے کتنی بار کہا ہے کہ اپنا کام خود نا کیا کرو؟کسی ملازمہ سے کہہ دیتی وہ کر دیتی۔ستارہ ارسلان سے نظریں چھپا لیتی ہے اور کہتی ہے کہ کوئی بات نہیں آپ پریشان نا ہوں میں ٹھیک ہوں۔ارسلان اس کے پاس آتا ہے تو وہ ستارہ کو دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ کیا ہوا ہے؟ستارہ کہتی ہے کہ میرے پاوں میں چوٹ لگ گی ہے۔ارسلان کو غصہ آتا ہے اور وہ چیختا ہوا کمرے سے باہر چلا جاتا ہے۔وہ سب ملازموں کو ڈانٹ رہا ہوتا ہے۔دوسری طرف ستارہ بہت پریشان ہوجاتی ہے اور دل میں سوچ رہی ہوتی ہے کہ یہ میرا شوہر ہے۔ایسا نہیں ہوسکتا ہے۔میرے ماں باپ ایسا نہیں کرسکتے۔وہ پورے کمرے میں چکر لگا رہی ہوتی ہے۔وہ اپنے آپ سے کہہ رہی ہوتی ہے کہ اب میں اس شخص کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔اب تو میری آنکھوں کی روشنی بھی واپس آ گئ ہے۔میں اس کے ساتھ پوری زندگی کیسے گزاروں گی۔وہ اپنی ملازمہ کا سوچتی ہے کہ وہ لڑکی جس کا شوہر اتنا خوبصورت ہے وہ اس کو ہر روز مارتا ہے تو میرا شوہر جس نے مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا۔میری ضروریات کو پورا کیا۔مجھے ہر کام کرنے سے منع کیا.میں اسے چھوڑ کر نہیں جا سکتی ہوں.اب مجھے ساری زندگی اس کے ساتھ ایسے ہی نابینا بن کر پوری ذندگی گزارنی پڑے گی تاکہ اس کو معلوم نہ ہو کہ میری بنائی واپس آ گئی ہے.اگر اس کو معلوم ہوگیا تو وہ میرے سے نظریں نہیں میلا پاے گا. پھر ستارہ ساری زندگی اپنے شوہر کے سامنے نابینا بن کر گزار دیتی ہے.

Visited 5 times, 1 visit(s) today
Last modified: October 13, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!