مصنف : راجہ نذیر احمد خان
والد صاحب کا تعلق 1 انجینئر بٹالین سے تھا اور ان کی ریٹائرمنٹ 1983 یا 84 میں ہوئی۔ بطور JCO ریٹائرڈ ہوئے۔ وہ 65 اور 71 کے غازی تھے۔ 1979 میں انکی خدمات سعودیہ کو دی گئیں جہاں انہوں نے 3 سال سرو کیا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ والد صاحب کی یونٹ اسکیم پر تھی، مشقوں کے لئے ان کی کیمپنگ گلگت بلتستان کا ایریا تھا۔ جہاں پر انہوں نے اندازہ ہے کہ ایک ماہ گزارا ہو گا۔
بچپن نے ہم نے والد سے اتنی فوجی کہانیاں سنیں کہ اب تک ازبر ہیں۔ اسکیم کے دوران کیمپ ایریا کے پاس کچھ چرواہے تھے۔ ایک خاتون شام کے ٹائم پر کیمپ ایریا میں آئی اور اپنی زبان میں کچھ فریاد کرنے لگی۔
پتا چلا کہ ان کی چھوٹی سی آبادی (گاؤں) ہے جہاں رات کو جنگلی درندے حملہ کرتے ہیں اور انکا نقصان کر دیتے ہیں۔ اب حملے تیز ہوئے ہیں اور ہر رات کوئی بخری کا بچہ مرغیاں وغیرہ مار دی جاتی ہیں اور غائب ہوتی ہیں۔
والد صاحب JCO تھے انہوں نے اس وقت خاتون کو واپس بھیج دیا اور علاقہ کی سن گن لی کہ یہاں کونسا درندہ ہو سکتا ہے۔ معلومات کی بنا پر پتا چلا کہ یہاں ریچھ کی اکثریت ہے غالب گمان یہی تھا کہ ریچھ ہی حملہ آور ہوتا ہے۔ کیونکہ چھوٹے جانور مرغی یا میمنے(بکری کا بچہ) حملہ میں مارے جاتے یا غائب ہو جاتے تھے۔
صوبیدار صاحب چند سپاہیوں کے ہمراہ اس بستی پہنچے جو پہاڑ کے دامن میں ایک ندی کنارے تھی۔ گاوں والوں نے خوب آو بھگت کی۔ زبان شناسی کے لئے بھی کوئی موجود ہو گا یہاں پہاڑ کے رہنے والے لوگ اردو یا کوئی اور زبان نہیں جانتے۔ ہمارے ہاں یہاں راولپنڈی میں گلگت کے رہنے والے بھائی شینہ زبان بولتے ہیں قیاس کرتا ہوں کہ اس علاقے کی زبان شینہ ہی ہو گی۔
مہم ترتیب دیکر والد محترم نے 2 دن کی چھٹی لی اور اپنے ساتھ راجہ لیاقت خان (بی ایچ ایم) Battalion Havaldar Major اور 2 بہادر سپاہی بھی رکھے۔ راجہ لیاقت خان صاحب والد کے دیرینہ دوستوں میں سے تھے۔ فوج کا ڈیکورم اجازت نہیں دیتا کہ کوئی دوران ڈیوٹی کسی مہم کا حصہ ہو۔
پہاڑ کی راتیں بہت خوفناک ہوتی ہیں، صبح جنت کا نظارہ ہوتا ہے اور شامیں پرندوں کی چہچہاہٹ میں اداس۔
والد صاحب اور ساتھیوں کو گاوں کنارے ایک مکان میں ٹھہرایا گیا۔ اسلحہ کا بندوبست گاون والوں کے ذمہ تھا۔ مغرب کے بعد والد محترم نے اپنے جانبازوں کو گاوں کنارے تعینات کیا، اور خود بھی چوکنے ہو کر اپنی کمین گاہ میں آ گئے۔
رات جوں جوں گہری ہو رہی تھی ندی کا شور اور درندوں کی آوازیں خوف کا سماں باندھ رہیں تھیں۔
والد نے بتایا، آدھی رات کے وقت میرے دروازے پر قدموں کی آہٹ ہوئی اور ہلکی دستک نے میرا دھان اپنی طرف کھینچا۔ میں نے جھٹ سے دروازہ کھولا تو ایک سپاہی باہر موجود تھا۔ اس نے بتایا کہ گاوں کے مغربی کنارے جانب کچھ ہل چل ہے اس نے اطمینان کرنے کے بعد ہی مجھے اطلاع دی تھی۔ میں اس جانب لپکا اور سپاہی سے کہا کہ دیگر لوگوں کو لیکر خاموشی سے اس طرف آو یاد رہے زیادہ آہٹ یا شور نہ ہو کہ شکار ہاتھ سے نکل جائے۔ یہ کہتے ہوئے والد نے بندوق لی جس کے بیرل پر خنجر بھی نصب تھا، یہ جی 3 ریفل تھی، اور اس جانب دوڑ لگا دی
ابو نے بتایا میرے دوڑنے سے پاوں کے نیچے آنے والے پتے چیخ رہے تھے۔ میں نے خود کو شور سے روکا اور دھیرے دھیرے منزل کی جانب بڑھنے لگا۔ تھوڑی دور جاکر گاوں کی گلیاں ختم ہونے کو تھیں کہ بائیں جانب سے آتی گلی میں آہٹ سنائی دی۔ میں ساتھ ہی ایک درخت کی اوڑھ لیکر چھپ گیا اور آنے والے کسی بھی لمحے کے لئے تیاری پکڑ لی۔ چند ساعتوں گزرے تھے کہ اندھیرے میں کچھ ہیولے دھرے دھیرے گلی کی نکڑ جانب آتے محسوس ہوئے۔ اندھیرے نے سب کو کیموفلاج کر رکھا تھا۔ پتا نہیں چل رہا تھا کہ کہ کون ہے۔ پھر تھوڑی ٹارچ کی روشنی نظر آئی تو میں سمجھ گیا کہ میرے آدمی ہیں۔ میں اپنی کمین گاہ سے نکل کر گلی کی نکڑ پر آ گیا اور مخصوص آواز سے آنے والوں کو خبر دار کیا۔ جواب میں بھی ایسی ہی آواز سے میں مطمئن ہو گیا کہ اپنے سپاہی ہیں۔
قریب آنے پر پتا چلا کہ میرے سپاہیوں کے علاوہ گاؤں کے دو چار نوجوان بھی ساتھ تھے جن کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں تھیں جبکہ میرے سپاہی اسلحہ بردار تھے۔ یہ اسلحہ سرکاری نہیں تھا بلکہ گاوں والوں کا ارینج کردا تھا۔ اس علاقہ میں اسلحہ وہ بھی لائسنس کے بغیر رکھنا آج بھی شغف سمجھا جاتا ہے۔
اشاروں میں باتیں کر کے والد نے اس سپاہی سے پوچھا کہ کس جانب شک ہے کہ وہاں کوئی ذی روح موجود ہونگی۔ سپاہی نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے سمت بتائی اور میں نے کمان سنبھال کر آگے بڑھنا شروع کر دیا ۔۔۔
راستہ کے دونوں جانب خاردار جھاڑیاں تھیں جو کپڑوں کے ساتھ لگتی تو سرسراہٹ پیدا ہوتی، جس سے خود کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔
تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ دائیں جانب اوپر کی جھاڑیوں میں کسی ذی روح کا احساس ہوا۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اپنی ساتھیوں کو روکا اور خود جھاڑیوں کے قریب جانا شروع کیا۔ پاوں کے سنگریزے کڑکنے کی آواز سے حملہ آور چوکنا ہو سکتا تھا اس لئے میری رفتار نہایت کم تھی۔
ٹارچ ہاتھ میں تھی لیکن بند۔ میں بغیر روشنی، ٹارچ بجھائے آگے بڑھ رہا تھا۔ میرے ساتھی میرے پیچھے پیچھے تھے۔
میں ان جھاڑیوں کے پاس پہنچ چکا تھا جس میں کسی ذی روح کا احساس تھا۔ میں نے ایک دم ہی ٹارچ آن کی اور ان جھاڑیوں پر اس کا رخ کر دیا۔ روشنی پڑتے ہی ان جھاڑیوں سے ایک کالا ریچھ اور اس کے دو بچے نکل کر پہاڑ پر ڈھلوان کے اوپر بھاگے۔ کہ۔ ان تینوں کی ایک جھلک ہی دیکھ سکا۔
مادہ ریچھ نے بھانپ لیا تھا کہ خطرہ ہے، اگر وہ اکیلی ہوتی تو شاید خطرہ کا سامنا کرتی۔ ہم نے بھی تیز قدموں سے ریچھ کا پیچھا کرنے کی کوشش کی لیکن یہ جانور خود کو اپنے ماحول سے مانوس کر کے اپنی رفتار بناتے ہیں جس سے انکا پیچھا کرنا اور وہ بھی رات میں مشکل امر ہے۔ دوسرا اس جگہ پر جھاڑیاں زیادہ تھیں اور ہمیں اندھیرے میں رستہ کا تعین کرنا بھی مشکل تھا باوجود اس کے کہ ٹارچ کی روشنی تھی۔
ایک جگہ رک کر میں نے پلان B ترتیب دیا اور اپنے ساتھیوں کو واپس چلنے کو کہا۔
رات بھر ہم گاوں میں پہرا دیتے رہے لیکن فجر تک کوئی درندہ واپس گاوں کی جانب نہ آیا۔
صبح ہوتے ہی ہم نے تھوڑا آرام کا فیصلہ کیا اور سو گئے، 9 بجے کا وقت ہو گا ایک لڑکا ہانپتا کانپا گاوں میں داخل ہوا جس نے بتایا کہ پہاڑ میں تھوڑی دوری پر اس نے 4 عدد ریچھ دیکھیں ہیں۔ شاید آج کی رات ماں بھوکی رہی ہو گی جس کی وجہ سے اس کے بچے بھی بھوکے رہے۔ اب شکار کے ساتھ یہ۔احساس بھی تھا کہ بچوں والی ماں کے ساتھ سلوک کیا کیا جائ
والد گرامی صوبیدار محمد اسحاق خان کا بیان ہے، کہ ریچھ کے بچوں کو لیکر وہ پریشان تھے کہ کیا کیا جائے۔ بچوں والی ماں کو مارا نہیں جا سکتا، جبکہ وہ اور ان کے سپاہی پورا پروگرام ترتیب دیکر آئے تھے کہ اس جانور کو ختم کرنا ہے جو نقصان کرتا ہے۔
چار عدد اگھٹے ریچھوں کا سن کر والد گرامی کا خون گرم ہو گیا اور وہ نئا عظم و حوصلہ لیکر اپنے سپاہیوں اور چند دیہاتیوں کے ہمراہ اس جانب چل پڑے جہاں سے خبر تھی کہ وہاں 4 ریچھ موجود ہیں۔
والد کا بیان ہے کہ، میں پہاڑ کے درمیانی علاقہ میں پہنچا جہاں درخت اور جھاڑیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔
برفانی علاقہ میں خشک موسم میں یہ پہاڑ ویران اور سرد رہتے ہیں یہاں کا موسم اچھی گرمی میں بھی 20 ڈگری سے زیادہ نہیں ہوتا۔ ریچھ سال کا زیادہ عرصہ اپنے غاروں میں سو کر گزارتے ہیں جبکہ مارچ اپریل میں اپنے غاروں سے نکل کر دریائوں اور ندی نالوں پر زیادہ تر مچھلی کا شکار کرتے ہیں یا پھر چھوٹے جانوروں کو اپنی خوراک بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دیہاتوں میں اناج پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں۔ اگست تک اپنا وزن چار گناہ زیادہ کر کے خود پر چربی چڑھاتے ہیں اور پھر سردیوں کے آغاز سے ہی اپنی غاروں کو لوٹ جاتے ہیں اور چربی بطور خوراک استعمال کرتے سردیاں اپنی گفاوں میں گزارتے ہیں۔
گاوں سے تقریبا 1 کلومیٹر دور اوپر پہاڑ پر ایک چھوٹی گھاٹی تھی دائیں جانب فلک پوش پہاڑ تھا اور بائیں جانب اسی پہاڑ پر موجود ایک ٹیلہ یا چھوٹی چوٹی تھی اور درمیانی رستے نے اسکو گھاٹی بنا رکھا تھا۔ دائیں جانب پہاڑ پر ایک بڑی چٹان تھی۔ والد گرامی نے بتایا کہ وہ اس چٹان پر چڑھ گئے تاکہ ارد گرد جہاں تک نظر جائے ریکی کی جا سکے۔ انہوں نے بتایا “میں چٹان پر اوپر گھڑا نیچے ندی تک کا۔نظارہ کر سکتا تھا۔ جبکہ سامنے والا ٹیلہ میرے بالکل سامنے تھا جس کے دوسری طرف دیکھنا ناممکن تھا لیکن اس کے دائیں بائیں اور پہاڑ کے پچھلے جانب میری نظر جا رہی تھی۔ کچھ کچھ فاصلہ پر چند درخت تھے باقی سارا چٹیل پہاڑ عیاں تھا۔ گھاٹی سے آگے نیچے ندی کی جانب مجھے دو تین کالے نقطے نظر آئے اور غور کرنے پر مجھے پتا چلا کہ یہ وہی جنگلی جانور ہیں جن کی تلاش ہمیں یہاں تک لائی ہے۔
میں نے جوانوں کو آمادہ کیا اور اس جانب اترنا شروع کر دیا جس جانب مجھے ریچھ نظر آئے تھے۔ ہم اپنی رفتار سے زیادہ جوش سے ڈھکوان اتر رہے تھے، تھوڑا ٹائم گزرا تو ہم ان جانوروں کے اتنے قریب تھے کہ انکی کل تعداد کا بخوبی مشاہدہ کر سکتے تھے۔
وہ تعداد میں چار تھے دو بڑے اور دو چھوٹے۔ بڑے ریچھ بھی کچھ زیادہ قد آور نہیں تھے، اکثر مداری کے پاس درمیانی قد کا ریچھ ہوتا ہے والد بتاتے تھے کہ اسی قد کاٹھ کے دو ریچھ تھے اور دو بچے۔ ہم ایک قدرتی رستے سے نیچے اتر رہے تھے جبکہ اسی رستے کے عین نیچے 200 میٹر کی دوری پر 4 ریچھ ندی کی جانب جا رہے تھے۔
یہ حیرت کی بات تھی، مادہ ریچھ کے بارے سنا تھا کہ وہ بچے جننے کے بعد کسی اور ریچھ کو قریب نہیں آنے دیتی اسکو ڈر رہتا ہے کہ اس کے بچے مار دیئے جائیں گے۔ ایک ماں تھی، دو بچے تھے تو یہ چوتھا جانور کہاں سے آیا اور وہ کون تھا جس سے یہ پریوار مانوس تھا۔
بہرحال، جانور کا تعاقب جاری رکھا گیا لیکن حملہ کرنے کی ہمت کسی کو نہ تھی۔ شاید سب کو اس بات کا احساس تھا کہ ماں کے ساتھ بچے ہیں، جن کو ابھی ماں کی ضرورت ہے۔ دوسرا والد صاحب کے اشارے کے بغیر کوئی اپنی طرف سے خود فیصلہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔
قدرتی رستہ چھوڑ کر ہم نے ڈھلوان اتری اور درندوں رک رسائی حاصل کر لی، اب ایک چٹان درمیان میں حائل باقی تھی جہاں سے ریچھ ندی کی طرف اتر رہے تھے اور چٹان کی پچھلی جانب ہم لوگ موجود تھے۔
والد بتاتے ہیں کہ میں نے اپنے دیرینہ دوست لیاقت خان سے مشورہ کیا کہ اب کیا کیا جائے؟ آیا ان تمام کو گولی مار دی جائے یا پھر کچھ اور ممکن ہو سکے تو؟ راجہ لیاقت خان ایک بہادر اور نڈر انسان تھے، انہوں نے جھٹ سے کہا کہ انکا سامنا کر کے انکو گولی ماری جائیگی کہ یہ نقصان کرتے ہیں لیکن والد گرامی اس کے حق میں نہیں تھے۔ دیہاتیوں سے پوچھا گیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ انکو مار دیا جائے۔
والد بتاتے ہیں، میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔ میں نےاپنے لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ اگر متفق ہوں ہو ہم انکو ڈراتے ہیں اور ان کو ہانک کر اس علاقے سے دور کر دیتے ہیں۔ ندی نالوں میں مچھلی کی کمی ہر گز نہیں تھی کہ وہ بھوکے مر جاتے اور اگر انکو اس علاقے سے دور دھکیل دیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ یہ واپس اس علاقے میں نہ آئیں اور نقصان نہ کریں۔ لیکن سب مضر تھے کہ ان کا علاج گولی ہے۔ میں نے وقتی طور پر حامی بھر لی اور ان لوگوں سے کہا کہ گولی میں چلاونگا۔ سب متفق تھے۔ یہ بھی عہد کیا گیا کہ اگر درندوں نے جوابی حملہ کیا تو سب ان پر حملہ کر دیں گے۔
اس بات پر متفق ہو کر، میں نے ہلکے قدموں سے چٹان کے ساتھ پیش قدمی کی اور جب دوسری جانب جھانکا تو پتا چلا کہ کہ ریچھ شست سے نکل چکے ہیں چنانچہ دوبارہ انکا پیچھا کیا گیا۔ ریچھوں کی رفتار بتا رہی تھی کہ شاید انہوں نے ہوا سے خطرے کی بو سونگھ لی تھی۔ اس لئےوہ بہت تیزی سے ڈھلوان اتر رہے تھے۔ ہم نے بھی اپنی طاقت سے دوڑ لگائی اور فاصلہ کم ہو گیا۔ ایک پتھر پر کھڑے ہو کر میں نے ان کی رفتار دیکھی۔ اس رفتار سے انکو شوٹ کرنا ممکن نہ تھا جبکہ میرےپاس جی تھری تھی جس کاایک فائر نہ صرف انکو چوکنا کر دیتا بلکہ ان پر دسترس کو ناممکن بنا دیتا۔ ابھی تک انکو صرف خطرے کا احساس ہوا تھا خطرے دیکھ کر وہ اسی طرح بھاگتے جیسے رات کو تینوں بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔
اب ندی نزدیک آ رہی تھی اور ڈھلوں کم ہوکر وادی کی شکل اختیار کر رہی تھی ایسی زمین پر نشانہ لینا اور مار گرانا قدرے آسان تھا۔ ندی کنارے عمودی چٹان تھی جس کی لمبائی 200 گز تک تھی دور تک اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ مشرقی جانب دو سو گز دور ہی ندی میں اترنے کا رستہ موجود تھا۔
ہم نے ایک چٹان کے ساتھ پہنچ کر کمر کسی اور میں نے فائر کرنے کا ارادہ کر دیا۔ چٹان کے اوپر لیٹ کر میں نے شست لی اور ایک جانور پر نشانہ لگا لیا جو نسبت سب سے بڑا تھا۔ وہ جانور سب سے پیچھے تھا سب سے آگے جانور کا وزن میری آنکھ میں درمیانہ تھا اور اسی کو میں ماں سمجھ رہا تھا۔
ریچھ، عمودی چٹان کے اوپری حصہ پر مشرق کی جانب جا رہے تھے جہاں 200 گز کے اختتام پر شاید وہ ندی میں اترتے۔ وقت بہت کم تھا اور جو بھی کرنا تھا جلدی کرنا تھا۔ میں نے شست لیکر بڑے جانور کو نشانہ پر لیا لیکن جان بوجھ کر میں نے فائر خطا کر دیا۔ ٹریگر دباتے ہی علاقہ میں گولی کی گونج اٹھی اور ریچھ سرپٹ دوڑنے لگے، راجہ لیاقت نے اچانک رائفل سیدھی کی اور کھڑے کھڑے ایک اور فائر کر دیا جس کو سن کر ریچھوں کے رہے اوسان بھی خطا ہو گئے۔ وہ تیزی سے عمودی چٹان کے کنارے کی جانب دوڑے اور تھوڑے ہی وقت میں وہ عمودی چٹان کے آخری کونے سے ڈھلوان میں اتر گئے۔ ہم دوڑ کر عمودی چٹان کے اوپر پہنچے جہاں سے ندی میں چار ریچھوں کو تیرتے ہوئے ہم بآسانی دیکھ سکتے تھے۔
والد بتاتے ہیں کہ، میں نے دو ہوائی فائرنگ اور کئے جبکہ راجہ لیاقت غصہ میں تھے اور چاہتے تھے کہ وہ شست لیکر فائر کریں اور انکو مار گرائیں۔ لیکن میری وجہ سے وہ رکے رہے۔
ہم اس چٹان پر اس خاندان کو ندی کراس کر کے دور تک دیکھتے رہے، جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے تو واپسی گاوں کی جانب قصد کیا۔
والد نے بتایا، کہ میں نے دشمن پر کبھی رحم نہیں کھایا، لیکن میں باوجود کوشش کے ایک ماں کو نہ مار سکا۔ اس بات کی خوشی مجھے ساری زندگی رہی۔
گاوں واپس آ کر میں نے گاوں والوں کو تسلی دی کہ ریچھوں کو اتنا ڈرا دیا گیا ہے کہ اب وہ شاید اس علاقہ کا رخ نہ کریں۔ لیکن پھر بھی کوئی اندیشہ ہو تو ہم حاضر ہیں۔
گاوں والوں نے محبت کے ساتھ ہمیں رخصت کیا اور ہم اسکیم پر دوبارہ پہنچ گئے۔ ہمارے وہاں سے کوچ کرنے تک ہمیں تسلی تھی کہ دوبارہ ریچھ نے اس علاقہ کا رخ نہیں کیا۔
ختم شد