~غالب برہان وانی
وہ خوش جمال نہ ہو چہرہ آفتاب نہ ہو
مگر کسی میں اسے دیکھنے کی تاب نہ ہو
اگرچہ اُس کا ارادہ ہو کامیابی کا
مگر وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہو
نہ ہوں شمار دیے جائیں اتنے زخم ہمیں
ستم ہو اتنا کہ جس کا کوئی حساب نہ ہو
نچوڑتا رہوں تجھ لب سے میں شرابِ حیات
سو کر دعا کہ ترا ذائقہ خراب نہ ہو
وہ خوش بدن کہ تمنا ہو جس کو چھونے کی
خدا کرے کہ کبھی تجھ کو دستیاب نہ ہو
کہ کاٹنی ہی نہ پڑ جائے عمر بھر کی سزا
کسی سے جرمِ محبت کا ارتکاب نہ ہو
بچو جو تم کو نگل جائے ایسی خلوت سے
اور ایسی بزم سے جس میں کوئی شراب نہ ہو
حسین بھی ہو ذہانت بھی خوب ہو لیکن
تمام عمر کسی کا وہ انتخاب نہ ہو
وہ شخص جس کو محبت نہیں ہوئی ہو کبھی
اور ایک باغ کہ جس میں کوئی گلاب نہ ہو
مجھے سفر کی اجازت تو مل گئی وانی
مگر یہ ڈر ہے کہ اب راستہ خراب نہ ہو