اپندر ناتھ اشک
پی سکندر کے مسلمان جاٹ باقر کو اپنے مال کی طرف حریصانہ نگاہوں سے تا کتے دیکھ کر اد کا نہ کے گھنے درخت سے پیٹھ لگائے نیم غنودگی کی حالت میں بیٹھا چوہدری نندو اپنی اونچی گھرگھراتی آواز میں للکار اٹھا رے رے اٹھے کے کرت ہے؟ اس کا چھ فٹ لمبا کیم شیم جسم سن ہو گیا اور بٹن ٹوٹ جانے کی وجہ سے موٹی کھاری کے کرتے سے اس کا چوڑا چکلا سینہ اور مضبوط کندھے صاف دکھائی دینے لگے۔ پاتر ذرا نزد یک آگیا۔ گرد سے بھری ہوئی کیلی داڑھی اور شرعی مونچھوں کے اوپر گڑھوں میں دھنسی ہوئی دو آنکھوں میں ایک لمحہ کیلئے چمک پیدا ہوئی اور ذرا مسکرا کر اس نے کہا اچی دیکھ رہا تھا چوہدری کیسی خوبصورت اور جوان ہے ۔ دیکھ کر بھوک مٹتی ہے ۔“ اپنے مال کی تعریف سن کر چوہدری نندو کا تناؤ کچھ کم ہوا۔ خوش ہو کر بولا ” کونسی ڈاچی ۔وہ پرلے سے چوتھی باقر نے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اوکانہہ کے ایک گھنے پیڑ کے سائے میں آٹھ دس اونٹ بندھے تھے انہی میں وہ جوان سانڈنی اپنی لمبی خوبصورت اور سڈول گردن بڑھائے پتوں میں منہ مار رہی تھی۔ مال منڈی میں ڈور ۔۔۔۔ جہاں تک نظر کام کرتی تھی، بڑے اونچے اونٹوں ، خوبصورت سانڈنیوں گدھے بھی تھے پر نہ ہونے ہی تھے پر نا ہونے کے برابر زیادہ تر تو اونٹ ہی تھے بہاول نگر کے ریگستانی علاقے میں ان کی کثرت ہے بھی قدرتی اونٹ ریگستان کا جانور ہے اس لیے ریتلے علاقے میں آمد و رفت کھیتی باڑی اور بار بر داری کا کام اس سے ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں جب گائیں دس دس اور بیل روپے میں مل جاتے تھے تب بھی اچھا اونٹ پچاس سے کم میں ہاتھ نہ آتا تھا اور اب بھی جب اس علاقے میں نہر آگئی ہے اور پانی کی اتنی قلت نہیں رہی ۔ اونٹ کی وقعت کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی ہی ہے اور سواری کے اونٹ دو دوسو سے تین تین سو تک پائے جاتے ہیں۔ ذرا آگےبڑھ کر باقر نے کہا۔ سچ کہتا ہوں چوہدری اس جیسی خوبصورت سانڈنی مجھے ساری منڈی میں دکھائی نہیں دیتی مسرت سے بندہ کا سینہ دگنا ہو گیا بولا ” ایک ہی کے او یہ تو سنگلی پھوڑی ہیںہوں تو انہیں چارہ پھانسی نیر یا کروں۔آہستہ سے باقر نے پوچھا ” بیچو گے اسے؟“ٹھی بیچنے نئی تو لایا ہوں “ ہندو نے ذرا ترشی سے کہاتو پھر بتاؤ کتنے کو دو گے“ باقر نے پوچھا۔نندو نے باقر پر سر سے پاؤں تک ایک نگاہ ڈالی اور ہنستے ہوئے بولا تنے چاہی مجے کا تیرے دھنی ہیئی مول لیسی مجھے چاہیے“ باقر نے ذرا سختی سے کہا۔نندو نے ذرا بے پروائی سے سر ہلایا ۔ اس مزدور کی یہ بساط کہ ایسی خوبصورت ڈاچی مول لے ۔ وہ آبولا توں کی لیسی“ باقر کی جیب میں پڑے ہوئے ڈیڑھ سو کے نوٹ جیسے باہر اچھل پڑنے کو بےقرار ہو اٹھے ۔ ذرا جوش سے اس نے کہا ” تمہیں اس سے کیا کوئی لے تمہیں تو اپنی قیمت سے غرض ہے تم مول بتاؤ ؟نندو نے اس کے بوسیدہ کپڑوں، گھٹنوں سے اٹھے ہوئے تہہ بند اور نوح کے وقت سے بھی پرانے جوتے کو دیکھتے ہوئے ٹالنے کی غرض سے کہا جاتو اشی وشی مول لے آئی
ایہنگومول تو آٹھ بیسی سوں گھاٹ کے نہیں۔”ایک لمحہ کیلئے باقر کے تھکے ہوئے جسم میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ اسے ڈر تھا کہ چوہدری نہیں اتنا مول نہ بتادے جو اس کی بساط سے باہر ہو لیکن اب جب اپنی زبان ہی سے اس نے ایک سو ساٹھ بتائے تو اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ ڈیڑھ سو تو اس کے پاس تھے ہی اگر اتنے پر بھی چوہدری نہ مانا تو دس روپے کا اس سے ادھار کر لے گا ۔ بھاؤ تاؤ کرنا تو اسے آتا نہ تھا۔ جھٹ سے ڈیڑھ سو کے نوٹ نکالے اور نو کے آگے پھینک دیئے ۔ بولا ” من لو ان سے زیادہ میرے پاس ایک پائی نہیں اب آگے تمہاری مرضی ہندو نے باول نا خواستہ نوٹ گنتے شروع کیے لیکن گنتی ختم ہوتے ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں ۔ اس نے تو باقر کو ٹالنے کی غرض سے ایک سو ساٹھ بتایا تھا۔ اس سانڈنی کے تو ایک سو چالیس پانے کا خیال اسے خواب میں بھی نہیں تھا دل کی خوشی کو دل ہی میں دبا کر اور باقر پر احسان کا بوجھ لادتے ہوئے نندو بولا سانڈنی تو میری دوسو کی ہے ۔ پن جاسکی مول میاں تنے دس چھانڈیا اور یہ کہتے کہتے اس نے اٹھ کر سانڈنی کی رسی باقر کے ہاتھ میں دے دی ۔ ایک لمحہ کیلئے اس وحشی صفت انسان کا دل بھی بھر آیا ۔ یہ سانڈنی اس کے یہاں ہی پیدا ہوئی اور پلی بڑھی تھی ۔ آج پال پوس کر اسے دوسرے کے ہاتھ میں سونچتے ہوئے اس کے دل کی کچھ ایسی ہی حالت ہوئی جولڑ کی کو سرال بھیجتے وقت باپ کی ہوتی ہے ۔ آواز اور لہجے کو ذرا نرم کر کے اس نے کہا ” آسانڈ سو ہری رہ میری ہے تو انہیں رہٹری میں نہ گیرو یہی ایسے ہی جیسے خسر داماد سے کہہ رہا ہو میری لڑکیلاڈوں پلی ہے دیکھنا اسے تکلیف نہ ہو ۔“ خوشی کے پروں پر اڑتے ہوئے باقر نے کہا ” تم فکر نہ کرو۔ جان دے کر پالوںگا۔نندو نے نوٹ انٹی میں سنبھالتے ہوئے جیسے سوکھے ہوئے گلے کو ذرا تر کرنے کیلئے گھڑے سے مٹی کا پیالہ بھرا۔ منڈی میں چاروں طرف دھول اڑ رہی تھی۔ شہروں کے مال منڈیوں میں بھی جہاں بیسیوں عارضی نلکے لگ جاتے ہیں اور سارا سارا دن چھڑکاؤ ہوتا رہتا ہے۔ جہاں دھول کی کمی نہیں ہوتی پھر اس ریگستان کی منڈی میں تو دھول ہی کی سلطنت تھی۔ گنے والے کی گنڈیریوں پر حلوائی کے حلوے اور جیلیبیوں پر اور خوانچے والے کے دہی پکوڑوں پر غرض سب جگہ دھول نظر آتی تھی گھڑے کا پانی ٹانچیوں کے ذریعے نہر سے لایا گیا تھا پر یہاں
آتے آتے کیچڑ جیسا گدلا ہو گیا تھا۔ نندو کا خیال تھا نتھر نے پر پیئے گا پر گلا کچھ سوکھ رہا تھا ایک ہی گھونٹ میں پیالے کو ختم کر کے نندو نے اس سے بھی پینے کیلئے کہا ، باقر آیا تھا تو اسے غضب کی پیاس لگی ہوئی تھی پر اب اسے پانی پینے کی فرصت کہاں تھی۔ رات ہونے سے پہلے پہلے وہ اپنے گاؤں میں پہنچ جانا چاہتا تھا۔ ڈاچی کی ری پکڑے ہوئے گردو غبار کو جیسے چیرتا ہوا وہ چل یک خوبصورت اور جوان ڈاچی خریدنے کی آرزو تھی پڑا۔ باقر کے دل میں بڑی دیر سے ایک خوبصورت اور جوان ڈ ذات سے وہ کمین تھا۔ اس کے آباؤ اجداد کمہاروں کا کام کرتے تھے لیکن اس کے باپ نے اپنا قدیم پیشہ چھوڑ کر مزدوری سے اپنا پیٹ پالنا شروع کر دیا تھا اور باقر بھی اسی پیشہ کو اختیار کیے ہوئے تھا۔۔ مزدوری وہ زیادہ کرتا ہو یہ بات نہ تھی ۔ کام سے ہمیشہ اس نے جی چرایا تھا اور چراتا بھی کیوں نہ۔ جب اس کی بیوی اس سے دو گنا کام کر کے اس کے بوجھ کو ہٹانے اور اسے آرام پہنچانے کیلئے موجود تھی۔ کنبہ بڑا تھا نہیں ایک وہ ۔، ایک اس کی بیوی اور ایک منفی سی بچی ۔ پھر کس لیے وہ جی ہلکان کرتا ؟ لیکن یہ فلک پیر ۔۔۔۔۔ اس نے اسے سکھ سے نہ بیٹھنے دیا ۔ اس کو نیند سے بیدار کر کے اسے اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کیلئے مجبور کر دیا ۔ اسے بتا دیا کہ زندگی میں سکھ ہی نہیں آرام ہی نہیں اس میں دکھ بھی ہے محنت اور مشقت بھی ہے۔ پانچ سال ہوئے اس کی وہی آرام دینے والی عزیز بیوی گڑیا سی ایک لڑکی کو چھوڑکر اس جہاں سے رحلت کر گئی ۔ مرتے وقت اپنے سوز کو اپنی پھیکی اور اداس آنکھوں میں بھر کر اس نے باقر سے کہا تھا ” میری رضیہ اب تمہارے حوالے ہے اسے تکلیف نہ ہونے دینا اس کے ایک فقرے نے باقر کی زندگی کے رخ کو پلٹ دیا تھا اپنی شریک حیات کی وفات کے بعد وہ اپنی بیوہ بہن کو اس کے گاؤں سے لے آیا تھا اور اپنی آنکسی اور غفلت کو چھوڑ کر اپنی مرحوم بیوی کی آخری آرزو کو پورا کرنے میں جی جان سے منہمک ہو گیا تھا ۔ یہ ممکن بھی کیسے تھا کہ وہ اپنی اس بیوی کی جسے وہ روح کی گہرائیوں کے ساتھ محبت کرتا تھا جس کی موت کا غم اس کے دل کے نا معلوم پر دوں تک چھا گیا تھا جس کے بعد عمر ہونے پر بھی مذہب کی اجازت ہونے پر بھی رشتہ داروں کے مجبور کرنے پر بھی اس نے دوسری شادی نہ کی تھی اپنی اس بیوی کی آخری کاخواہش کو بھلا دیتا۔وہ دن رات جان توڑ کرکام کرتا تا کہ اپنی مرحوم بیوی کی اس امانت کو ۔۔۔ اپنی اس ننھی سی گڑیا کو طرح طرح کی چیزیں لا کر دے سکے۔ جب بھی کبھی وہ منڈی سے آتا تھی
رضیہ اس کی ناگوں سے لپٹ جاتی اور اپنی بڑی بڑی آنکھیں اس کی گرد سے آئے ہوئے ے پر جما کر پوچھتی ” ابا میرے لیے کیا لائے ہو ۔ تو وہ اسے اپنی گود میں لے لیتا اور کبھی معالی اور کبھی کھلونوں سے اس کی جھولی بھر دیتا ۔ تب رضیہ اس کی گود سے اتر جاتی اور اپنی سہیلیوں کو اپنی مٹھائی اور کھلونے دکھانے کیلئے بھاگ جاتی ۔ یہی گڑیا سی لڑکی جب آٹھ برس کی ہوئی تو ایک دن چل کر اپنے ابا سے کہنے لگی ابا ہم تو ڈاچی لیں گے ۔ ابا ہمیں ڈاچی لے دوبھولی معصوم لڑکی اسے کیا معلوم کہ وہ ایک مفلس اور قلاش مزدور کی لڑکی ۔ ہے جس کیلئے سانڈنی خریدنا تو کجا اس کا تصور کرنا بھی گناہ ہے ۔ روکھی ہنسی کے ساتھ باقر نے اسے گود میں اٹھا لیا اور بولا تو تو خود ڈاچی ہے” پر رضیہ نہ مانی اس دن مشیر مال اپنی سانڈنی پر چڑھ کر اپنی چھوٹی سی لڑکی کو آگے بٹھائے اس کاٹ میں کچھ مزدور لینے آئے تھے۔ منی رضیہ کے ننھے سے دل میں ڈاچی پر سوار ہونے کی زبر دست خواہش پیداہ اٹھی تھی اور اسی دن سے باقر کی رہی سہی غفلت بھی دور ہوگئی تھی ۔ اس نے رضیہ کو ٹال تو دیا تھا پر دل ہی دل میں اس نے عہد کر لیا تھا کہ چاہے جو بھی ہو وہ رضیہ کیلئے ایک خوبصورت ڈاچی ضرور مول لے گا اور تب اسی علاقے میں جہاں اس کی آمدنی کی اوسط مہینہ بھر میں تین ۔ آنہ روزانہ بھی نہ ہوتی تھی، وہیں اب آٹھ دس آنے ہو گئی ۔ دور دور کے دیہات میں اب وہ مزدوری کیلئے جاتا ۔ کٹائی اور بجائی کے دنوں میں دن رات جان لڑا تا فصل کا شتا دانے نکالتا کھلیانوں میں اناج بھرتا نیرا ڈال کر کپ بناتا بجائی کے دنوں میں ہل چلاتا پلیاں بنا تا ترائی کراتا ۔ ان دنوں اسے پانچ آنے سے آٹھ آنے تک روزانہ مزدوری مل جاتی ۔ جب کوئی کام نہ ہوتا تو علی صبح اٹھ کر آٹھ کوس کی منزل مار کر منڈی پہنچتا اور آٹھ دس آنے کی مزدوری کر کے ہی واپس لوٹتا۔ ان دنوں میں وہ روز چھ آنے بچاتا آ رہا تھا ۔ اس معمول میں اس نے کسی طرح کی ڈھیل نہ آنے دی تھی ۔ اسے جیسے جنون سا ہوگیا تھا۔ بہن کہتی با تراب تو تم بالکل ہی بدل گئے ہو پہلے تو کبھی تم نے اس طرح جی توڑ کر با ت نہ تھی بار رہتا اور کہتا تم چاہتی ہو میں تمام عمر اس طرح لکھتا بیٹا ر ہوں“ بہن کہتی کیا مجھے کوتو میں ہیں کہتی لیکن صحت گنوا کر دھن جمع کرنے کی صلاح بھی نہیں دے سکتی ۔ ایسے وقت ہمیشہ باقر کے سامنے اس کی مرحوم بیوی کی تصویر کھینچ جاتی۔ اس کی
آخری آرزو اس کے کانوں میں گونج جاتی اور وہ صحن میں کھیلتی ہوئی رضیہ پر ایک پیار کی نظر ڈال کر ہونٹوں پر پر سوز مسکراہٹ لیے ہوئے پھر اپنے کام میں لگ جاتا اور آج ۔۔۔۔ آن ڈیڑھ سال کی کڑی مشقت کے بعد وہ مدت سے پالی ہوئی اپنی اس آرزو کو پوری کر سکتا تھا۔ سانڈنی کی رسی اس کے ہاتھ میں تھی اور سرکاری کھانے کے کنارے وہ چلا جا رہا تھا۔ شام کا وقت تھا اور مغرب میں غروب ہوتے ہوئے آفتاب کی کرنیں دھرتی کی سونے کا آخری دان دے رہی تھیں ۔ ہوا میں کچھ جنگی آگئی تھی اور کہیں دور کھیتوں میں ٹھیٹر کی ٹیہوں ٹیموں کر کے اڑ رہی تھی ۔ باقر کے تصور میں ماضی کے تمام واقعات ایک ایک کرکے آرہے تھے ۔ ادھر ادھر سے کئی کسان اپنے اونٹ پر سوار جیسے پھر کہتا ہوا نکل جاتا اور بھی کبھی کھیتوں سے واپس آنے والے کسانوں کے لڑکے چھکڑے پر رکھے ہوئے گھاس کے گھٹوں پر بیٹھے بیلوں کو پکارتے کسی دیہاتی گیت کا ایک آدھ بند گاتے یا چھکڑے کے پیچھے بندھےہوئے خاموشی سے چلے آنے والے اونٹوں کی تھو تھینوں سے کھیلتے چلے آتے تھے ۔ باقر نے جیسے خواب سے بیدار ہو کر مغرب کی طرف غروب ہوتے آفتاب کودیکھا اور پھر سامنے کی طرف ویرانے میں نظر دوڑائی ۔ اس کا گاؤں ابھی بڑی دور تھا ۔ مسرت سے پیچھے کی طرف دیکھا اور چپ چاپ چلی آنے والی سانڈنی کو پیار سے پچکار کر وہ اور بھی تیزی سے چلنے لگا۔ کہیں اس کے پہنچنے سے پہلے رضیہ سو نہ جائے ۔ اسی خیال سے مشیر مال کا کاٹ نظر آنے لگی ۔ یہاں سے اس کا گاؤں نزدیک ہی تھا ۔ یہی کوئی دوکوس ۔۔۔۔۔ باقر کا چال دھیمی ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی تصور کی دیوی اپنی رنگ برنگی کوچی سے اس کے دماغ کی قرطاس پر طرح طرح کی تصویریں بنانے لگی۔ باقر نے دیکھا کہ اس کے گھر پہنچتے ہی تھی رضیہ مسرت سے ناچ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی ہے اور پھر ڈاچی کو دیکھ کر اس کی بڑی بڑا آنکھیں حیرت اور مسرت سے بھر گئی ہیں۔ پھر اس نے دیکھا وہ رضیہ کو اپنے آگے بٹھا ۔سرکاری کھانے کے کنارے کنارے ڈاچی پر بھاگا جا رہا ہے ۔ شام کا وقت ہے ۔ مست ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اور کبھی کبھی کوئی پہاڑی کو اپبڑے بڑے پروں کو پھیلائےاپنی موٹی آواز سے ایک دوبار کائیں کائیں کر کے اوپر اڑتا ہم جاتا ہے۔ رضیہ کی خوشی کا وار پار نہیں۔ وہ جیسے ہوائی جہاز میں اڑی جارہی ہے۔ پھر اسے بولا محسوس ہوا جیسے وہ رضیہ کو لیے بہاولنگر کی منڈی میں کھڑا ہے تبھی رضیہ بھونچکی سی ہے حیران سی
کھڑی وہ ہر طرف اناج کے ان بڑے بڑے ڈھیروں کو بے انتہا چھکڑوں کو اور قصر حیرت میں تم کر دینے والی ان بے شمار چیزوں کو دیکھ رہی ہے۔ ایک دکان پر گراموفون بجنے لگتا ہے کڑی کے اس ڈبے سے کس طرح گانا نکل رہا ہے کون اس میں چھپا گا رہا ہے یہ سب باتیں راضیہ کی سمجھ میں نہ آئیں اور یہ سب جاننے کیلئے اس کے دل میں جو اشتیاق ہے وہسے پکا پڑتا ہے۔اپنے تصور کی دنیا میں محو وہ کاٹ کے پاس سے گزرا جا رہا تھا کہ اچانک کچھ خیال آجانے ۔ سے وہ رکا اور کاٹ میں داخل ہو گیا ۔ مشیر مال کی کاٹ ابھی کوئی بڑا گاؤں نہ تھا ادھر کے سب گاؤں ایسے ہی ہیں ۔ زیادہ ہوئے تو تمہیں چھپر ہو گئے۔ کڑیوں کی چھت کا یا مکی ایتوں کا مکان بھی اس علاقہ میں نہیں خود باقر کی کاٹ میں پدرہ گھر تھے گھر کہاں سرکنڈوں کی جھگیاں تھیں ۔ مشیر مال کی کاٹ بھی ایسی ہی ہیں پچیس جھگیوں کی بستی تھی ۔ صرف مشیر مال کا مکان کچی اینٹوں سے بنا تھا ۔ لیکن چھت اس پر بھی سرکنڈوں ہی کی تھی ۔ نا تک بڑھتی کی جھگی کے سامنے وہ رکا۔ منڈی جانے سے پہلے وہ اس کے ہاں ڈاچی کا گدرا بننے کیلئے دے گیا تھا اسے خیال آیا کہ اگر رضیہ نے ڈاچی پر چڑھنے کی ضد کی تو وہ اسے کیسے ٹال سکے گا۔ اسی خیال سے وہ پیچھے مڑ آیا تھا ۔ اس نے نائک کو دو ایک آواز میں دیں اندر سے شاید اس کی بیوی نےجواب دیا۔گھر میں نہیں منڈی گئے ہیں ۔“ باقر کی آدھی خوشی جاتی رہی ۔ وہ کیا کرے؟یہ نہ سوچ سکا نا تک اگر منڈی گیا ہے تو گدرا کیا خاک بنا کر گیا ہو گا لیکن پھر اس نے سوچا شاید بنا کر رکھ گیا ہوگا ۔ اس نے پھر آواز دی ۔ میں ڈاچی کا پالان بنانے کے لئے کہہ گیا تھا۔” جواب ملا۔ ہمیں نہیں معلوم ۔ باقر کی سب خوشی جاتی رہی ۔ گورے بغیر وہ ڈاچی لے کر کیا جائے۔ نانک ہوتا تو اس کا پالان اگر نہ بنا ہوتا کوئی دوسرا ہی اس سے مانگ کر لے جاتا ۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے سوچا چلو مشیر مال سے مانگ لیں اس کے تو اتنے اونٹ رہتے ہی کوئی نہ کوئی پرانا پلان ہوگا ہی ابھی اسی سے کام چلا لیں گے تب تک نا تک گدرا بنا کر دےگا یہ سوچ کر وہ مشیر مال کے گھر کی طرف چل پڑا۔نے کافی دولت جمع کر لی تھی اور اپنی ملازمت کے دوران میں مشیر مال صاحب ۔ جب ادھر نہ نکلی تو اپنے اثر ورسوخ سے ریاست ہی کی زمین میں کوڑیوں کے مول کئی مربعے
زمین حاصل کر لی تھی اب ریٹائرڈ ہو کر یہی آ رکھے ہوئے تھے امدنی بھی کر رہے تھے کئی نوکر خوب تھی اور مزے سے بسر ہو رہی تھی ۔ پر سفید صافہ نہ گلے میں سفید قمیص اس پر سفید جاکٹ اور کمر میں دو دھیا جیسا سفید تہ بند مرد سے آئے باقر کو دیکھ کر انہوں نے پوچھا ۔ کہو باقر کدھر سے آرہے ہو؟ باقر نے جھککر سلام کرتے ہوئے کہا۔ منڈی سے آرہا ہوں مالک ۔“یہ ڈاچی کس کی ہے؟“میری ہی ہے مالک ابھی منڈی سے لا رہا ہوں۔“کتنے کو لائے ہو؟“باقر نے چاہا کہہ دے آٹھ میسی کو لایا ہوں ۔ اس کے خیال میں ایسی خوبصورت ڈاچی دوسو میں بھی سنتی تھی ۔ پر دل نہ مانا بولا حضور مانگتا تو آٹھ جیسی تھا پر سات بیسی ہی کولے آیا ہوں۔“مشیر مال نے ایک نظر ڈاچی پر ڈالی ۔ وہ خود دیر سے ایک خوبصورت کی ڈاچی اپنی سواری کیلئے لینا چاہتے تھے۔ ان کے پاس ڈاچی تو تھی پر اسے گذشتہ سال سیمک ہو گیا تھااور اگر چه نیل وغیرہ دینے سے اس کا روگ تو دور ہو گیا تھا پر اس کی چال میں وہ مستی وہ لچک نہرہی تھی ۔ یہ ڈاچی ان کی نظر میں بچ گئی تھی ۔کیا سڈول اور متناسب اعضاء ہیں، کیسا سفیدی مائل بھورا بھورا رنگ ہے ۔ کیاپلچاتی لبی گردن ہے بولے ” چلو ہم سے آٹھ جیسی لے لو ہمیں ایک ڈاچی کی ضرورت بھیہے دس تمہاری محنت کے رہے ۔“باقر نے پھیکی ہنسی کے ساتھ کہا حضور ! بھی تو میرا چاؤ بھی پورا نہیں ہوا ۔“مشیر مال اٹھ کر ڈاچی کے گردن پر ہاتھ پھیرنے لگے تھے ” واہ کیا اصیل جانورہے بظاہر بولے ”چلو پانچ اور لے لو اور انہوں نے نوکر کو آواز دی تورے ابے او نورے نو کرنوں سے میں بیٹھا بھینسوں کیلئے پٹھے کر رہا تھا۔ گنڈا سا ہاتھ ہی میں لیے ہوئے بھاگا آیا۔مشیر مال نے کہا یہ ڈاچی لے جا کر باندھ دو کہو کیسی ہے۔؟“سانورے نے حیران سے کھڑے باقر کے ہاتھ سے رہی لے لی اور سر سے پاؤں ۔ تک ایک نظر ڈاچی پر ڈال کر بولا ” خوب جانور ہے اور یہ کہ کو نو ہرے کی طرف چل پڑا ۔“
تب مشیر مال نے انٹی سے ساٹھ روپے کے نوٹ نکال کر باقر کے ہاتھ میں دیتے ہوئے مسکرا کر کہا ابھی یہ رکھ لو ۔ باقی بھی ایک مہینے تک پہنچا دوں گا ہو سکتا ہے تمہاری قسمت کے پہلے ہی آجائیں اور بغیر کوئی جواب سنے وہ تو ہرے کی طرف چل پڑے نو را پھر چارہ کر نے لایا تھا دور ہی سے آواز دے کر انہوں نے کہا “بھینس کا چارہ رہنے دے پہلے ڈاچی کیلئے گورے کا نیرا ڈال بھو کی معلوم ہوتی ہے ۔ کرشن چکش کا چاندا بھی طلوع نہیں ہوا تھا ویرانے میں چاروں طرف کہرا سا چھایا ہوا تھا سر پر دو ایک تارے جھانکنے لگے تھے اور ببول اور کا نہو کے درخت بڑے بڑے سیاہ دھبے بن رہے تھے ۔ ساٹھ روپے کے نوٹوں کو ہاتھ میں لئے اپنے گھر سے ذرا فاصلے پر ایک جھاڑی کی اوٹ میں بیٹھا باقر اس مدھم ٹمٹماتی روشنی کی شعاع کو دیکھ رہا تھا جو سرکنڈوں سے چھن چھن کر اس کے گھر کے آنگن سے آرہی تھی ۔ وہ جانتا تھا رضیہ جاگ رہی ہوگی ۔ اس کا انتظار کر رہی ہوگی اور وہ یہ سوچ رہا تھا کہ روشنی بجھجائے اور رضیہ سو جائے تو وہ چپ چاپ گھر میں داخل ہو ۔