ایک تھا کوا اور ایک تھی چڑیا۔۔۔
ایک دن کوے کے دل میں خیال آیا کہ یہ چڑیا ہے جو لوگوں کے گھروں میں گھونسلے بنا کر رہتی ہے تو بھی کوئی اسے الف ب نہیں کہتا جبکہ مجھے کوئی دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔۔۔
ہو نہ ہو یہ فساد اس چڑیا کاپھیلایا ہوا ہے۔
جو لوگوں کو میرے خلاف بھڑکاتی ہے ان کے کان بھرتی ہے۔۔۔ بس اب چڑیا کی خیر نہیں ۔
اب وہ رہے گی یا میں۔یہ ٹھان کر کوا چڑیا کی تاڑ میں بیٹھ گیا۔ چند لمحوں بعد چڑیا گھونسلے سے نکلی اور اس کے برابر آبیٹھی ۔۔۔
کوے نے موقع دیکھ کر بات شروع کی ’’بی بی چڑیا۔۔۔ تم دانہ چگنے میں بہت تیز ہو آج ہم آپس میں شرط لگا کر دانہ چگتے ہیں۔ یہ گندم جو گھر کی مالکن نے سوکھنے کے لیے دھوپ میں رکھی ہے اگر تم اسے کھاجائو تو میں تم کو مان جائوںگا، کہ میں ہارا اور تم جیتیں ،
اگر تم ہار گئیں تو پھر تم میرے بس میں ہوگی کہ میں تم کو کھاجائوں۔‘‘بی بی چڑیا بھولی بھالی ہونے کی وجہ سے مکار کوے کی باتوں میں آگئی اور اس نے شرط قبول کرلی اور اگلے ہی لمحے اڑان بھر کے گندم کے ڈھیر پر جابیٹھی اور تیزی سے چونچ چلانے لگی۔
دو تین چونچوں میں ہی اس کا پیٹ بھر گیا اور وہ منہ پھیر کر وہیں ایک طرف ہوکر بیٹھ گئی۔ جس پر کوے نے پوچھا:’’بی بی چڑیا۔۔۔ کیا ہوا۔۔
کچھ تو ہمت کرو۔۔‘‘چڑیا نے دو چار چونچیں اور ماریں مگر آخر وہ چڑیا تھی اس کا پیٹ اپھر گیا۔ وہ خاموش ہو کرایک طرف بیٹھ گئی۔۔۔
کوے کے جوش دلانے پر چڑیا نے ایک بار اور دو تین چونچیں چلائیں اور پھر ۔۔۔ بڑی مشکل سے گندم سے اڑ کر کوے کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
کوا خوشی سے دُم ہلاتا ہوا چڑیا کے پاس آبیٹھا اور بولا :’’بی بی چڑیا۔۔۔۔! تم شرط ہارچکی ہو اور میں جیت گیا ہوں۔۔۔ اب میں تم کو کھائوں گا۔‘‘چڑیا نے موت اپنے سامنے دیکھی تو سکتے میں آگئی۔۔۔
دل ہی دل میں ہمت کی اور کچھ سوچ کر کوے سے بولی۔’’بے شک میں شرط ہارگئی ہوں تم مجھے کھاسکتے ہو مگر پہلے اپنی گندی چونچ دریا سے دھو کر آئو پھر تمہیں کھانے میں مزا آئے گا۔‘‘کوے نے چڑیا کی بات مانی اور خوشی سے دریا کو روانہ ہوا اور چند لمحوں میں دریا پر پہنچ گیا جو وہاں سے نزدیک ہی بہہ رہا تھا۔ کوے نے دریا سے کہا۔۔۔
’’دریا ارے دریا مجھ کو پانی دے کہ پانی سے چونچ دھو کر میں چڑیا کو کھائوں۔‘‘دریا نے کہا :’’پانی میں تم کو کس میں دو ں ،بھینس ہے تم جاکر بھینس سے سینگ لے آئو تو اس میں تم کو پانی دوں پھر تم چونچ دھو کر چڑیا کو کھانا۔‘‘یہ سن کر کوا بھینس کے پاس گیا اور بولا :’’بھینس ارے بھینس ۔۔۔ مجھے سینگ دو۔۔۔ سینگ دریا کو دوں ۔۔۔ دریا پانی دے۔۔۔
پانی سے میں چونچ دھو کر چڑیا کو کھائوں۔۔‘‘بھینس نے کہا :’’سینگ تو میں تم کو دوں مگر تم پہلے گھاس والے سے مجھے گھاس لادو۔۔۔
میں گھاس سے پیٹ بھروں پھر میں تم کو سینگ دوں ۔ تم سینگ دریا کو دو۔۔ دریا تم کو پانی دے اور تم پانی سے چونچ دھو کر چڑیا کھائو۔‘‘کوا اُڑا اور گھاس والے کے پاس گیا اور کہا :’’گھاس والے ارے گھاس والے، مجھے گھاس دو۔۔۔ گھاس میں بھینس کو دوں، بھینس مجھے سنگ دے، سینگ میں دریا کو دوں۔۔۔
دریا مجھ کو پانی دے اور پانی سے چونچ دھو کر میں چڑیا کھائوں۔‘‘گھاس والے نے کوے سے کہا :’’تم مجھے لوہار سے درانتی لادو ، درانتی سے گھاس کاٹ کر میں تم کو دوں، تم گھاس بھینس کو دو۔۔۔
بھینس تم کو سینگ دے۔۔۔ سینگ تم دریا کو دو۔۔دریا تم کو پانی دے ، پھر پانی سے چونچ دھو کر تم چڑیا کو کھائو۔‘‘یہ سن کر کوا لوہار کے پاس گیا اور لوہار سے بولا:’’لوہار ارے لوہار مجھے درانتی دے، درانتی میں گھاس والے کو دوں، گھاس والا گھاس دے، گھاس بھینس کو دوں ،
بھینس سنگ دے، سینگ میں دریا کو دوں، دریا مجھ کو پانی دے، پانی سے میں اپنی چونچ دھو کر چڑیا کو کھاسکوں۔‘‘لوہار نے کہا :’’
میں تمہیں اچھی اور تیز سی درانتی دیتا مگر میری بھٹی بجھی پڑی ہے تم مجھے کہیں سے انگارہ لادو تو میں بھٹی جلاکر تمہیں درانتی بنادوں پھر تم درانتی گھاس والے کو دو، گھاس والا گھاس دے،
گھاس تم بھینس کو دو، بھینس تم کو سینگ دے، سینگ تم دریا کو دو، دریا تم کو پانی دے، پانی سے تم چونچ دھو کر مزے سے چڑیا کھائو۔‘‘کوا انگارے کی تلاش میں اُڑا۔۔۔ اُڑتے اُڑتے تھک گیا بہت دیر بعد اسے زمین پر ایک جگہ آگ نظر آئی اس آگ پر ایک بڑھیا دیگچے میں دال پکارہی تھی۔۔۔ وہ مضطرب اور بے تاب ہو کر زمین پر اُترا اور بڑھیا سے تھوڑے فاصلے پر آکر بیٹھ گیا، اور ہمت کرکے بڑھیا سے بولا:’’بڑھیا ارے بڑھیا ! مجھے انگارہ دو، انگارہ میں لوہار کو دوں، لوہار اپنی بھٹی جلائے ،
درانتی بنائے، درانتی میں گھاس والے کو دوں، گھاس والا گھاس دے، گھاس میں بھینس کو دوں، بھینس مجھے سینگ دے، سینگ دریا کو دوں۔۔ دریا مجھے پانی دے، پانی سے میں چونچ دھو کرچڑیا کو کھائوں۔‘‘بڑھیا نے کہا :’’انگارہ تو میں تم کو دوں مگر تم انگارہ لے کے کیسے جائوگے۔‘‘کوا تو چڑیا کو کھانے کے جنون میں پاگل ہورہا تھا بلا سوچے سمجھے بولا :’’تم انگارہ اٹھا کر میرے پروں کے درمیان میری پیٹھ (پشت) پر رکھ دو،
لوہا رکی دوکان زیادہ دور نہیں، میں پل بھر میں وہاں پہنچ جائوں گا۔ ‘‘بڑھیا نے چمٹے سے انگارہ اٹھا کر کوے کی پشت پر رکھ دیا ۔ کوا انگارہ لے کر اڑا۔ تیز ہوا سے انگارہ دہکنے لگا وہ اور تیز اُڑا ،انگارہ اور دہکنے لگا،
’’کہاں انگارہ کہاں کوے کے پر‘‘ابھی کوا پوری طرح فضا میں بھی نہیں پہنچا تھا کہ اس کے پروں میں آگ لگ گئی۔ کرے تو کیا کرے بھاگے تو کہاں بھاگے۔۔۔ کیسے اپنی جان بچائے اسی بدحواسی میں اس کی نظر نیچے دریا پر پڑی وہ اپنے جلے جسم کے ساتھ دریا میں کود گیا،
پانی سے جسم کی آگ تو بجھ گئی اور سارا جلنے سے بچ گیا مگر ڈوبنے لگا ’’آگ سے بچا تو پانی میں پھنسا‘‘ دریا بھی ساون کے موسم کا۔۔۔
اپنی جوشیلی سرکش روانی میں کوے کو دو تین غوطے آئے اور وہ ڈوبنے لگا کہ اسے دور ایک مچھیرا نظر آیا جو اپنی کشتی میں بیٹھا مچھلیاں پکڑرہا تھا۔ یہ مچھیرا بہت شریف آدمی تھا،
اسے کوے پر رحم آیا سو اس نے کوے کو اپنی کشتی میں بٹھالیا ۔کوا سمٹ کر کشتی کے ایک کونے میں جاکر بیٹھ گیا۔ چڑیا کو کھانے والی بات وہ کب کی بھول چکا تھا۔ اسے اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔
اب وہ اُڑنے سے معذور تھا کئی مہینے بعد جب اس کے پر نکلے تو وہ اُڑ کر ایک طرف چلاگیا۔ پھر کبھی کوے نے چڑیا کو تنگ نہیں کیا ۔
بی بی چڑیا آج بھی لوگوں کے گھروں میں کھونسلے بنا کر مزے سے رہتی ہے اور کوے کا وہی حال ہے جو کل تھا کوئی اسے اپنے گھر دیکھنا پسند نہیں کرتا۔