Written by 6:16 pm شاعری

گزر گئی

مجھ کو تو کچھ خبر نہیں کیسے گزر گئی
اپنی گزرنی ایسے تھی ویسے گزر گئی

قربت سے دھیرے دھیرے بڑھی آگ کی تپش
پھر یوں ہوا کہ وہ رگ و پے سے گزر گئی

ماتم سرائے شام ہوئی رونق حیات
ہجراں میں آنکھ چاند سی شے سے گزر گئی

شہر خیال پور سے اس دلربا کی یاد
جیسے گلی گزرتی ہے ایسے گزر گئی

ہر شخص اپنی ذات میں سلطان ہو گیا
تہذیب آخرش جم و کے سے گزر گئی

تاثیر کے عمل میں میرے دور کی مثال
وہ بانسری جو نغمہ و نے سے گزر گئی

گاتے ہوئے جو رات لتا روئی تو غزل
سرگم سے سُر سے سـاز سے لے سے گزر گئی

اٹھتی ہوئی جوانی ترے عشق میں سلیم
ساقی سے خُم سے جام سے مے سے گزر گئی

شـــہــزاد ســــلــیـم

Visited 3 times, 1 visit(s) today
Last modified: February 13, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!