Written by 11:53 am ڈراؤنی کہانیاں, ناولز

ہوش ربا

“ہوائیں چیخ رہی تھیں۔ موسلا دھار بارش جاری تھی۔ رات کے دو بجے تھے۔ ہولناک تاریک رات، گرجتے بادل، کڑکتی بجلی، بارش کے شور اور دروازے بجاتی ہوا نے ماحول کو پر آسیب بنادیا تھا۔ ایسے میں اس نے وہ خواب پھر سے دیکھ لیا تھا۔ وہ ایک عجیب خواب تھا۔ ہیبت ناک، خوفزدہ اور سہما دینے والا اس خواب کو وہ اب تواتر سے دیکھنے لگی تھی۔ آج جب اس کی آنکھ کھلی تو اس کے جسم پر کپکپی طاری تھی۔ دل بیٹھا جا رہا تھا ۔ حلق میں کانٹے سے پڑ رہے تھے۔ ذہن ماؤف ہو گیا تھا۔ پہلے تو اس کی سمجھ میں ہی نہ آیا کہ اس کی آنکھ کھل گئی ہے یا وہ ابھی تک خواب دیکھ رہی ہے۔

وہ ابھی ایک گھنٹہ پہلے ہی تو سوئی تھی۔ آج شام سے اس کی طبیعت ٹھیک نہ تھی دل پر کچھ بوجھ سا تھا۔ آج اس سے ٹھیک طرح سے کھانا بھی نہیں کھایا گیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد وہ چہل قدمی کے لئے ضرور نکلتی تھی۔ آج وہ ٹہلنے بھی نہ نکلی تھی، بس تھوڑا سا کھانا کھا کر اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ کچھ دیر وہ ٹی وی کے مختلف چینل گھماتی رہی۔ ایک چینل پر انگریزی فلم آرہی تھی۔ وہ دیکھنے بیٹھ گئی۔ فلم بارہ بجے کے قریب ختم ہوئی۔ اس نے ٹی وی بند کردیا فلم پر اسرار تھی اس کے کئی مناظر بار بار اس کی نگاہوں میں گھوم رہے تھے۔ وہ یونہی کمرے سے نکل کر گیلری میں آگئی اور باہر کا نظارہ کرنے لگی۔ تبھی قریب کے درخت سے ایک پرندہ اڑا اور تیزی سے اس کے سر کے پاس سے گزر گیا۔ وہ ایک دم سہم گئی۔ وہ کافی بڑا پرندہ تھا۔ چیل جتنا بڑا تو ہو گا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ رات کے بارہ بجے آخر کس پرندے کو اڑنے کی ضرورت پیش آئی۔ اسے کچھ یوں احساس ہوا جیسے وہ پرندہ اسے گیلری میں دیکھ کر اس کی طرف لپکا تھا۔ اس خیال نے اسے سہما دیا۔ وہ فوراً کمرے میں آگئی۔ دروازہ اچھی طرح بند کیا اور بستر پر لیٹ گئی۔
نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ ایک تو پر اسرار فلم کا اثر، پھر اس پرندے کا نہایت قریب سے گزرجانا۔ اس نے سوچا کہ وہ نیچے جا کر سو جائے یا نیچے سے کسی کو اپنے پاس بلا لے لیکن یہ دونوں صورتیں اسے مناسب محسوس نہ ہوئیں۔ کیسٹوں کے ریک سے اس نے ایک کیسٹ منتخب کیا اور میوزک سننےلگی۔
دھیمی موسیقی کے اس کیسٹ نے دھیرے دھیرے اس پر اثر کرنا شروع کیا اسے نیند آنے لگی۔ اس نے لیٹے لیٹے ریموٹ کنٹرول سے کیسٹ آف کیا اور کروٹ لے کر آنکھیں بند کر لیں۔ پھر اچانک ہی اسے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سنائی دی اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی پرندہ اس کے سر پر سے گزر گیا ہو۔ وہ فوراً ہی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ کمرے کی لائٹ روشن ہی تھی، جب سے پراسرار خوابوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ کمرے میں لائٹ جلا کر سوتی تھی۔ دروازہ بھی بند تھا۔ کسی پرندے کا اس کے سر پر سے گزر جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ یہ محض اسکا وہم تھا۔ اپنے اس خیال پر اسے شرمندگی محسوس ہوئی۔ وہ روز بروز اس قدر ڈرپوک کیوں ہوتی جارہی تھی۔ ریموٹ کنٹرول اٹھا کر اس نے کیسٹ پلیئر پھر آن کر دیا۔ لوری دیتی ہوئی موسیقی پھر سے کمرے میں سنائی دینے لگی۔ موسیقی سنتے سنتے بالاخر وہ نیند کے آغوش میں چلی گئی۔ ابھی وہ ایک گھنٹہ ہی سوئی ہوگی کہ اس ڈراؤنے خواب نے اچانک اس کی نیند کا قفل کھول دیا۔ جب وہ سوئی تھی تو دور تک بارش کے آثار نہ تھے۔ آنکھ کھلی تو فضا کا رنگ ہی کچھ اور تھا کچھ دیر تو اس کی سمجھ میں ہی نہ آیا کہ وہ ابھی خواب دیکھ رہی ہے یا جاگ گئی ہے۔ کہیں دور بادلوں کی گڑگڑاہٹ سنائی دی۔ اچانک ہی بجلی بڑے زور سے چمکی اور باہر دھماکے سے ہونے لگے ۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ کیسٹ پلیئر ابھی تک آن تھا۔ اس کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ دل کسی پتے کی طرح لرز رہا تھا۔ اس میں ہمت نہ تھی کہ ریموٹ کنٹرول اٹھا کر کیسٹ پلیئر آف کر دے۔ کچھ دیر بعد جب اس کے حواس درست ہوئے، اعصاب قابو میں آئے تو اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھے جگ سے پانی نکالا اور غٹ غٹ کر کے پی گئی۔کچھ اس طرح جیسے صدیوں سے پیاسی ہو، خشک حلق تر ہوا۔ ماؤف ذہن کھلا تو اسے وہ خواب یاد آیا جس کی وجہ سے اس کی آنکھ کھلی تھی۔ یہ عجیب خواب وہ کئی ماہ سے دیکھ رہی تھی۔ شروع میں یہ خواب مہینے دو مہینے کے بعد نظر آتا تھا۔ پھر دھیرے دھیرے وقفہ کم ہونے لگا ہفتہ، دس دن کے بعد اب روز ہی یہ خواب نظر آنے لگا مگر پچھلے پانچ روز سے وہ اس خواب کو مسلسل دیکھ رہی تھی۔وہ دیکھتی کہ اندھیری رات ہے۔ کہیں دور سے بھیڑیوں کی غراہٹ کی آواز آرہی ہے۔ پھر اچانک ہی تاریک رات ایک روشن دن میں تبدیل ہو جاتی۔ اب اسے ایک لق دق صحرا دکھائی دیتا دور تک ریت ہی ریت اڑتی دکھائی دیتی۔ اس صحرا میں وہ خود کو بھٹکتا محسوس کرتی۔ ننگے پاؤں اور گرم ریت پر چلتے چلتے اچانک ایک جھونپڑی اس کے سامنے آجاتی اس جھونپڑی کی چھت پر اسے ایک الو بیٹھا دکھائی دیتا اور جھونپڑی کے دروازے پر کنڈلی مارے ایک سانپ کالے رنگ کا پھن اٹھائے بار بار زبان نکالتا نظر آتا اس عجیب و غریب منظر کو دیکھ کر وہ ڈر کر بھاگنے لگتی ہے تو پیچھے سے آواز آتی۔آؤ جھونپڑی کے اندر آجاؤ۔ ” ڈرومت
یہ کسی مرد کی آواز ہوتی۔ پکارنے والے کی آواز میں ایک درد کی سی کیفیت ہوتی جیسے بلانے والا کسی
تکلیف میں مبتلا ہو اور اپنی مدد کے لئے کسی کو اندر بلانا چاہتا ہو۔ اس آواز پر وہ پلٹ کر دیکھتی تو پکارنے والا تو دکھائی نہ دیتا البتہ وہ سانپ اچانک اس کی طرف جھپٹتا۔ اور وہ چیخ مار کر دوڑ نے لگتی۔ تب ہی گھبرا کر اس کی آنکھ کھل جاتی۔ اس وقت بھی اس نے یہی خواب دیکھا تھا لق دق صحرا، گول جھونپڑی کی چھت پر بیٹھا الو، سانپ اور اندر سے آتی آواز ۔
ڈرومت !! آؤ جھونپڑی کے اندر آجاؤ ۔ “
اس نے اپنے دماغ پر بہت زور ڈالا تھا کہ وہ اس آواز کو پہچان جائے۔ لیکن وہ پہچان نہیں سکی تھی۔ یہ آواز قطعاً اجنبی تھی۔ اس کے کسی عزیز، رشتے دار یا جاننے والے کی آواز نہ تھی۔ وہ ایک نڈر لڑکی تھی لیکن اس خواب نے اس کی جرات مندی میں دراڑیں ڈالنا شروع کر دی تھیں۔ اب وہ سوچنے لگی تھی کہ کل سے وہ نیچے سوئے گی یا پھر اپنے ساتھ کمرے میں کسی کو سلائے گی لیکن سلائے گی کس کو؟؟؟
لے دے کے ایک دردانہ تھی جو اس کے ساتھ سو سکتی تھی یا پھر خالہ فرزانہ تھیں۔ مگر وہ اوپر نہیں آسکتی تھیں۔ وہ گٹھیا کی مریض تھیں۔ سیڑھیاں چڑھنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ بس یہی ہو سکتا تھا کہ وہ ان کے کمرے میں جاکر سو جائے۔
ابھی تک اس نے اپنا یہ خواب کسی کو بتایا تھا خالہ فرزانہ کو بھی نہیں لیکن اب اس میں ہمت نہیں رہی تھی۔ اس نے طے کر لیا تھا کہ وہ صبح ہوتے ہی خالہ فرزانہ کو اپنا یہ خواب ضرور بتائے گی۔ یوں تو ابھی اس کی عمر خیر سے خواب دیکھنے والی تھی۔ سہانے اور میٹھے خواب ۔۔ اس عمر میں لڑکیاں ایسے پر اسرار اور خوفزدہ کرنے والے خواب کہاں دیکھتی ہیں؟ انہیں تو ہر طرف گھوڑے پر سوار ایک خوبرو شہزادہ نظر آتا ہے۔ وہ اپنی اپنی پسند کے مطابق اپنے اپنے آئیڈیل کے خواب دیکھتی ہیں۔ وہ کون ہو گا؟ کہاں سے آئے گا؟ کب آئے گا؟
لڑکیاں ہی کیا خواب تو سبھی دیکھتے ہیں۔ کیا بوڑھے ؟ کیا بچے؟ کیا جوان ؟ اپنی اپنی نا آسودہ خواہشوں کو آسودہ کرنے کے لئے۔ عمر طبعی کا آدھا حصہ انسان آنکھیں بند کر کے گزار دیتا ہے یہ بند آنکھیں کسی قدر نعمت ہیں یہ بات کوئی ان لوگوں سے پوچھے جو راتیں کروٹیں بدل کر کھلی آنکھوں سے گزار دیتے ہیں۔ نیند اور خواب اوپر والے کا تحفہ ہیں۔ اگر انسان سے اس کی نیند، اس کے خواب چھین لئے جائیں تو یہ زندگی جہنم بن جائے ۔ کیسی عذاب ناک ہو جائے۔ یہ خواب غریب کو امیر بناتے ہیں اور کنواروں کو شادی شدہ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ ان خوابوں پر کوئی احتساب نہیں انسان کیسے کیسے خواب دیکھتا ہے اگر یہ خواب قابل تعزیر ہو جائیں تو کیسے کیسے معصوم کیسی کیسی سزا پائیں۔اسے دینے والا یہ خواب اس کے لئے کسی سزا سے کم نہ تھا۔ وہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوئی جارہی تھی کہ آخر اسے یہ سزا کیوں مل رہی تھی۔ وہ خواب اس پر کیوں مسلط کر دیا گیا تھا۔ اس دل ہلا دینے والے خواب کے بارے میں سوچتے سوچتے بالآخر اسے نیند آگئی۔ صبح اگر دردانہ اسے آکر نہ اٹھاتی تو وہ نہ جانے کب تک سوئی رہتی۔

بی بی کیا ارادہ ہے۔ آج اٹھنا نہیں کیا ؟
دردانہ نے اس کا بازو ہلایا۔
دردانہ، کیا بجا ہے ؟” اس نے آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا۔ بہت کچھ بچ گیا بی بی اور بہت کچھ ہو گیا۔ اب اٹھ جاؤ۔
“ کیا ہو گیا ؟” وہ ایک دم چونک گئی۔ رات کا خواب بڑی سرعت سے اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ خیر تو ہے، دردانہ ” ؟
ہاں، بی بی خیر ہے۔ پریشانی والی بات کوئی نہیں۔ وہ آپ کے ایک دادا تھے نا … ارے وہی دادا اعظم … وہ جی چل بسے گھر کے سب لوگ جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ “
ارے، دردانہ تم نے پھر مجھے اٹھایا کیوں نہیں ؟ ” وہ تیزی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ ” تم بھی حد کرتی ہو۔ ” اوہو بی بی۔ ابھی فون آیا ہے۔ بڑی بی بی نے جیسے ہی مجھ سے کہا۔ میں فوراً آپ کو اٹھانے آگئی
ہوں ۔ ” کیا خالہ بھی جارہی ہیں وہاں ؟”
جارہی ہیں ؟… وہ تو دروازے پر کھڑی ہیں تیار ہیں جانے کے لئے ۔ “
اچھا، دردانہ، تم خالہ سے کہو، میں منہ دھو کر فوراً نیچے آرہی ہوں ۔ ” وہ یہ کہہ کر باتھ روم کی طرف بڑھی۔ ”میرا انتظار کریں، میں انہی کے ساتھ جاؤں گی۔ “
ٹھیک ہے بی بی آپ ذرا جلدی سے آجائیں۔ “

وہ جلدی جلدی تیار ہو کر نیچے پہنچی۔ الٹا سیدھا ناشتہ کیا اور پھر وہ خالہ فرزانہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ افضل جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا اس نے ذرا سا تر چھا ہو کر اسے دیکھا اور بولا۔ ” آج آپ کچھ زیادہ دیر سے نہیں اٹھیں۔ ؟ “
ہاں بھائی، آج کچھ زیادہ دیر ہو گئی۔ ” اس نے مختصر سا جواب دیا۔

یہ جواب دے کر اسے فوراً ہی گزری ہوئی بھیانک رات یاد آگئی تھی۔ وہ خوفناک خواب اس کی نظروں میں گھوم گیا تھا اس نے دھیان بٹانے کے لئے ایسے ہی خانہ فرزانہ سے پوچھا۔
”خالہ دادا اعظم کا انتقال کب ہوا۔ ؟
” صبح فجر کے وقت۔ ” خالہ فرزانہ نے بتایا۔ ” بڑے خوش نصیب شخص تھے وہ اللہ ایسی موت سب کو دے۔ “
وہ کیسے خالہ ؟” اس نے تجسس سے پوچھا۔
فجر کی نماز پڑھتے پڑھتے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے گھر کے افراد جب اٹھے تو انہوں نے انہیں سجدے میں پایا۔ وہ قضا نماز پڑھنے کے عادی نہ تھے اور فجر کا وقت کب کا قضا ہو چکا تھا پہلے انہیں آواز دی گئی وہ جائے نماز پر ہوتے تو اٹھتے پھر ہاتھ لگایا گیا ہاتھ لگاتے ہی وہ ایک طرف کو لڑھک گئے ۔

” خالہ فرزانہ نے گرا ٹھنڈا سانس لیا۔
“خالہ، کیا عمر ہوگی دادا کی۔ “

بس ایک سال کی کسر رہ گئی، اگر ایک سال اور جی جاتے تو پورے سو سال کے ہو جاتے۔ “
“واقعی خالہ، اتنی عمر تھی ان کی۔ “
اب تو وہ دوبارہ سے جوان ہونے لگے تھے۔ بال کالے ہو رہے تھے اور دانت دوبارہ ابھر رہے تھے۔ “
” رہنے دیں خالہ ۔ ” اس مرتبہ افضل بولا۔ اسے خالہ کی بات پر جیسے یقین نہ آیا۔
کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں ؟ ” خالہ فرزانہ نے ناراضی سے کہا۔
یہ کون کہہ رہا ہے لیکن خالہ کیا یہ انوکھی بات نہیں۔ ” افضل . نے بڑے مودبانہ لہجے میں مودبانه کہا

” تم نے کب دیکھا تھا انہیں ۔ “

میں دو سال پہلے ان کے گھر گیا تھا تب تو کوئی ایسی بات نہ تھی۔ “ افضل نے بتایا۔
اور تم نے کب دیکھا تھا۔ ” خالہ اس مرتبہ اس سے مخاطب ہوئیں۔
میں تو خالہ پچھلی عید پر انہیں سلام کرنے گئی تھی۔ ” تم دونوں کو ملے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا یہ بات ابھی تین چار ماہ پہلے کی ہے فرخندہ آپا ہمارے گھر
آئی تھیں انہوں نے بتایا تھا۔ “
خالہ کیا یہ سچ ہے۔ کیا واقعی مرد سو سال کا ہو کر جوان ہونے لگتا ہے۔ “ اس نے پوچھا۔
او باولی .. یہ مرد بوڑھے ہوتے ہی کب ہیں۔ ” خالہ فرزانہ نے ایک جاندار قہقہہ لگا کر کہا۔
خالہ، یہ محض ایک مفروضہ ہے ۔ ” افضل نے پلٹ کر کہا۔ ” اس بات میں کوئی صداقت نہیں سب مرد بوڑھے ہو جاتے ہیں بلکہ میں نے جوان بوڑھے بھی دیکھے ہیں۔ “
افضل خالہ کی طرف دیکھ کر بولا
اچھا، گاڑی سامنے دیکھ کر چلاؤ ۔ ” خالہ فرزانہ نے بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہوئے کہا
ایک بات اور مشہور ہے ان کے بارے میں وہ خواب کی تعبیر بہت اچھی بتاتے تھے ۔ “
ہیں خالہ ۔ ” وہ ایک دم چونک گئی۔ اور سوچنے لگی

ہائے دادا اعظم آپ نے جانے میں اتنی جلدی کیوں کی۔ کاش! وہ اپنا خواب انہیں سنا سکتی اور ان سے رہنمائی حاصل کر سکتی۔
”ہاں، یہ سچ ہے۔ ” خالہ فرزانہ نے سنجیدگی سے کہا۔
خالہ، ایک بات بتائیں۔ الو کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ۔ ؟”
ارے، یہ تمہیں اچانک الو کا خیال کیسے آگیا ہے ” خالہ فرزانہ بڑی حیران تھیں۔
بڑا پر اسرار پرندہ ہے ۔ ” خالہ کے جواب دینے سے پہلے افضل بول اٹھا۔
”مغرب والے اسے فلسفی سمجھتے ہیں عقل و دانش کی علامت جانتے ہیں مغرب کے ایک بڑے پبلشر نے اتو کی تصویر کو بطور مونو گرام اپنایا ہوا ہے اور مشرق والے الو کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ کسی کو بے وقوف کہنا ہو تو اسے الو کہہ دیتے ہیں۔ “

عقل مند بے وقوف کا تو مجھے معلوم نہیں البتہ اپنے بڑوں سے اس کی نحوست کے بارے میں ضرور سنا ہے الو جہاں بیٹھتے ہیں وہاں ویرانی پھیلنے لگتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے الو بولنے کا محاورہ بنا ہے ویسے ایک بات ہے” یہ کہہ کر خالہ چپ ہو گئیں اپنے ریشمی بٹوے سے پان کی ڈبیہ نکالی، پان کھایا اور جلدی جلدی منہ چلانے لگی۔
ہاں خالہ، کیا بات ؟” اس نے تجس سے پوچھا۔
جادو ٹونے کے کام آتا ہے۔ “
وہ کیسے خالہ ۔ ” اس نے پوچھا۔

سچی بات ہے مجھے توان جادو ٹونوں پر یقین نہیں ہے لیکن ایک واقعہ میں اپنی آنکھ سے دیکھ چکی ہوں ۔ “

وہ آصفه چچی والا تو نہیں۔ ؟” افضل نے پوچھا۔
ہاں وہی۔ ” خالہ فرزانہ نے تصدیق کی۔ تمہیں معلوم ہے ہاں تم نے کہاں سنا ہو گا ان دنوں تم یہاں کہاں تھیں۔”
کیا ہوا تھا خالہ ؟” وہ ایک دم چونک کر بولی ۔
ہونا کیا ہے بیٹی، آصفہ کا شوہر ایک مرتبہ بیمار ہوا اور یہ بیماری طول پکڑتی گئی۔ دنیا بھر کے ڈاکٹروں کو دکھا لیا، ہر طرح کے ٹیسٹ کرا لئے مگر کوئی بیماری تشخیص نہ ہو پائی۔ ٹیسٹوں کی رپورٹیں دیکھ کر ہر ڈاکٹر یہی جواب دیتا انہیں کوئی بیماری نہیں لیکن بیماری تو انہیں تھی وہ روز بروز کمزور ہوتے چلے جارہے تھے۔ ایک دن تو اتنی حالت خراب ہوئی کہ رونا پیٹنا میچ گیا آصفہ کو جانے کیا ہوا کہ وہ اپنے شوہر کے پاؤں پکڑ کر بیٹھ گئی اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ روتی جاتی تھی اور کہتی جاتی تھی۔
ہائے شاکر مجھے معاف کر دو، مجھ سے غلطی ہو گئی۔”
جس نے یہ سنا وہ پریشان ہوا، شاکر کی اماں اس وقت حیات تھیں۔ ان کے کان کھڑے ہوئے وہ بھاگی ہوئی آئیں اور آصفہ سے پوچھا۔
”دلہن کیا ہوا ؟ تم کیوں معافی مانگ رہی ہو ؟ “
اماں آپ بھی مجھے معاف کر دیں۔ ” آصفہ نے روتے ہوئے کہا۔
آخر ہوا کیا ؟ کچھ تو بتاؤ ۔ ” شاکر کی امی جھنجلا کر بولیں۔
“اماں، میں نے ان کے غصے سے تنگ آکر ایک عامل سے عمل کروایا تھا۔ ” آصفہ نے انکشاف کیا۔
اری کم بخت کیسا عمل ؟ “
اماں کا پارہ اچانک چڑھ گیا۔
” تجھے موت آئے تو نے میرے بیٹے کا کیا حال کر دیا۔”
اماں، مجھ سے غلطی ہو گئی۔ آپ معاف کر دیں۔ “

بتا تو ک
سہی۔ آخر ہوا کیا ؟ “
شاکر کی اماں نے غصے سے پوچھا۔
پھر رو رو کر آصفہ نے پورا قصہ سنایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاکر غصے کا بہت تیز تھا۔ اس کا غصہ خاندان بھر میں مشہور تھا کھانے میں اگر نمک تیز ہو گیا تو کھانے کی پلیٹ اٹھا کر پھینک دینا، کپڑے استری نہ ہوں ، جوتے پالش نہ ہوں، قمیض کا کوئی بٹن ٹوٹا نکل آئے۔ وقت پر کھانا نہ ملے، کھولتی گرم چائے نہ ملے غرض ذراسی کو تاہی ہوتی اور قیامت آجاتی۔ زندگی بھر کام کوئی کیا نہیں زمیندار آدمی تھے۔ زمینوں سے اس قدر آمدنی تھی کہ کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ پھر شوق بھی سارے تھے شکار کھیلنا، پتنگ بازی، سیر و تفریح وغیرہ وغیرہ۔ ایک دن کسی بات پر شاکر نے آصفہ پر ہاتھ اٹھا دیا۔ وہ پہلے ہی اس کی عادتوں سے تنگ تھی کہ مار پیٹ نے اسے بالکل ہی باؤلا کر دیا کسی پڑوسن نے کسی عامل کا پتہ بتا دیا وہ اس سے ملنے چلی گئی عامل نے ساری بات سن کر اسے تسلی دی اور کہا کہ وہ اسے ایک الو فراہم کر دے تو وہ اس کے خون سے تعویذ لکھ دے گا۔ اس تعویذ کو شاکر کے تکئے میں سینا ہو گا تعویذ کے اثر سے نہ صرف شاکر کا غصہ ختم ہو جائے گا بلکہ وہ اس کا مطیع اور فرمانبردار ہو جائے گا اندھے کو کیا چاہئیں دو آنکھیں اس نے ایمپریس مارکیٹ سے ایک الو خریدا جو خاصا مہنگا ملا خیر وہ الو عامل کے حوالے کر دیا گیا عامل سفلی علم کا ماہر تھا اس نے ایک تگڑی رقم لے کر تعویذ آصفہ کے حوالے کر دیا۔ آصفہ نے اس تعویذ کو بہت احتیاط سے ہدایت کے مطابق شاکر کے تکئے میں سی دیا۔ اس عامل نے کہا تھا کہ شوہر کے مطیع ہونے کے تین ماہ بعد اس تعویذ کو نکال کر سمندر میں پھینک دیا جائے۔ اس تعویذ نے واقعی اثر دکھا یا شاکر کا مزاج تبدیل ہونے لگا۔ آہستہ آہستہ غصہ ہوا ہوگیا۔ ساری شوقین مزاجی کو آگ لگی اور شاکر آصفہ کی پٹی پکڑ کر بیٹھ گیا۔ آصفہ کی زندگی میں بہار آگئی۔ عامل نے تین ماہ کا عرصہ دیا تھا مگر وہ لالچ میں آگئی۔ اس انتظار میں وقت گزارتی گئی کہ ابھی اور مطیع ہو جائے فرمانبرداری میں مزید اضافہ ہو جائے اب وہ بے چارہ تخت پر کسی الو کی طرح ساکت و جامد بیٹھا رہتا تھا اس طرح تعویذ کرائے ہوئے چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ آصفہ بھول ہی گئی یا پھر اس نے دانستہ بھلا دیا کہ عامل نے کیا تاکید کی تھی۔ اب آہستہ آہستہ شاکر کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ وہ دن بدن کمزور ہوتا جا رہا تھا۔ علاج جاری تھا ڈاکٹر پر ڈاکٹر بدلے جارہے تھے مہنگے سے مہنگے ٹیسٹ ہو رہے تھے پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا تھا مگر اس کی طبیعت سنبھلنے میں نہیں آرہی تھی اور ایک دن تو اس کی طبیعت اس قدر خراب ہوئی کہ گھر میں رونا پیٹنا مچ گیا تب گھبرا کر آصفہ نے شاکر کے پاؤں پکڑ لئے معافی مانگی اور سارا قصہ بتایا۔سارا قصہ سننے کے بعد شاکر کی اماں نے فوراً وہ تکیہ ادھیڑ ڈالا تاکہ اس تعویذ کو بلا تاخیر سمندر کے حوالے کیا جاسکے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ تعویذ نہ ملا تکیے کو تار تار کر دیا گیا تعویذ اس میں ہوتا تو ملتا۔ “
ہائے خالہ، تعویذ کہاں گیا؟” وہ پریشان ہو کر بولی ۔
اللہ جانے بی بی۔ ” خالہ فرزانہ نے گہرا سانس لے کر کہا۔
” وہ جانے کہاں غائب ہو گیا۔ فوری طور پر اس عامل سے رابطہ کیا گیا اس نے ساری بات سن کر کہا ،
اب بہت دیر ہو چکی۔ میں کچھ نہیں کر سکتا تعویذ کو تین ماہ کے بعد ہر صورت میں سمندر کے حوالے کر دینا چاہئے تھا”
عامل کی منت سماجت کی گئی اس سے کہا گیا کہ جو جادو کرتا ہے وہ اس کے توڑ سے بھی واقف ہوتا ہے آصفہ کی خوشامد سے مجبور ہو کر عامل نے جادو کا توڑ کرنے کا وعدہ کر لیا لیکن ہوا کچھ نہیں روحانی علاج بھی کرایا مگر بے سود، شاید وقت گزر چکا تھا۔ شاکر کی حالت روز بروز خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ بالآخر ایک رات وہ اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو گیا۔ “
اوہ، خالہ، بہت افسوسناک۔ ” اس نے اداس ہو کر کہا۔ ہاں، اس جادو ٹونے کے ہاتھوں وہ بے چارہ تو جان سے گیا ہی پر بچ آصفہ بھی نہ سکی۔ شاکر کی موت نے اسے بری طرح متاثر کیا۔ وہ احساس جرم میں مبتلا ہو گئی گھر کے افراد تو اس پر لعنت ملامت بھیجتے ہی تھے مگر وہ خود اپنی نگاہوں میں خوار ہو گئی۔ اس کے دل میں ایک کانٹا سا چھ گیا ہر وقت پریشان اور گھبرائی گھبرائی سی رہنے لگی۔ کھانا پینا بھول گئی۔ بننے سنورنے کی تو خیر سے کوئی گنجائش نہیں تھی کمرہ بند کر کے روتی رہتی پھر جانے اسے کانچ چبانے کی کہاں سے عادت پڑ گئی۔ سسرال والوں نے اسے اپنے گھر سے دھکے دے کر نکال دیا تھا۔ اب وہ اپنے والدین کے قدموں میں آپڑی تھی۔ اگرچہ اس کی اس حرکت سے وہ بھی ناراض تھے لیکن وہ ان کی بیٹی تھی اسے دھکے مار کر باہر نہیں کر سکتے تھے خیر کانچ کھانے کی عادت جڑ پکڑتی گئی۔ اب وہ دواؤں کی شیشیاں توڑ کر چبانے لگی۔ گھر والوں کو اس کی اس عادت کا پتہ چل گیا تھا لہذا اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ آصفہ کے ہاتھ کہیں سے کوئی شیشی نہ لگے۔ نگرانی کے باوجود وہ کہیں نہ کہیں سے کانچ کا ٹکڑا مہیا کر لیتی۔ پھر اس عادت نے آہستہ آہستہ انتہائی سنگین صورتحال اختیار کرلی۔ آصفہ کو کمرے میں بند رکھا جانے لگا اس کے کمرے سے شیشے کی تمام چیزیں ہٹالی گئیں مگر پھر بھی وہ باز نہ آئی ایک دن شربت کی ایک بوتل تمام پابندیوں کے باوجود جانے اس کے ہاتھ کہاں سے لگ گئی بس وہ بوتل اس نے توڑ کر پوری کی پوری چبالی ۔ اس کامنہ لہولہان ہو گیا گھر والے اسے اسپتال لے کر بھاگے مگر وہ راستے میں ہی دم توڑ گئی۔
” اوہ خالہ، کتنا برا ہوا ۔ ” وہ افسردہ ہو گئی تھی۔
ہاں برا تو ہوا مگر یہ عورتیں جادو ٹونوں سے باز نہیں آتیں۔ “ افضل نے تبصرہ کیا۔
عورت بے چاری بھی کیا کرے ۔ تم مرد لوگ ہمیشہ سے اسے ستاتے چلے آئے ہو۔ ” خالہ فرزانہ نے پان کھانے کے لئیے بٹوہ کھولا
دیکھیں خالہ مجھے کچھ مت کہئے گا میں نے آج تک کسی عورت کو نہیں ستایا ہے۔ آپ جانتی ہیں کہ میں نے ابھی تک شادی نہیں کی ہے اور نہ آئندہ کرنے کا ارادہ ہے۔
” افضل کیا کنوارے ہی اٹھ جانے کا ارادہ ہے۔ ” خالہ نے ہنس کر وار کیا۔
ہاں خالہ آپ کا بھانجا جو ہوا، آپ کے نقش قدم پر چلوں گا۔ ” افضل بھلا کہاں چوکنے والا تھا۔
افضل دیکھ میری مثال مت دینا، میرا کچھ اور معاملہ ہے۔ “
خالہ فوراً ہی سنجیدہ ہو گئیں۔
اچھا چھوڑیں خالہ، یہ بور ہو رہی ہیں، آپ آصفہ چچی کی بات کریں۔ “
افضل نے اس کی طرف اشارہ کیا۔
بس اب آصفہ کی بات کیا کروں۔ نہ آصفہ رہی، نہ شاکر رہا، کہتے ہیں کہ شاکر کی قبر پر آج بھی ایک الو بیٹھا رہتا ہے۔ ” خالہ فرزانہ نے انکشاف کیا۔
خالہ ایسی بات تو کبھی نہیں سنی۔ “
اس نے اپنا شبہ ظاہر کیا۔
ہاں لیکن یہ سچ ہے۔ مجھے کئی لوگوں نے بتایا ہے جنہوں نے اپنی آنکھ سے اس کی قبر پر الو کو بیٹھے
ہوئے دیکھا ہے۔ “
خالہ اب مجھے آصفہ چچی کی قبر پر جانا ہی پڑے گا۔“ افضل بولا۔
”ہاں، ضرور جاؤ مجھے صحیح صورتحال کا پتہ چل جائے گا۔ لوگوں نے ایسے ہی اڑا دی ہے یا واقعی اس کی قبر پر الو بیٹھا رہتا ہے۔ ” خالہ نے کہا۔
” بھائی، میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی۔ ” اس نے پرشوق انداز میں کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔ ضرور چلنا ؟ “
”بی بی۔ پاگل ہوئی ہو قبرستان میں عورتوں کا جانا ممنوع ہے۔ ” خالہ فرزانہ نے تنبیہی لہجے میں
پر میں نے آصفہ چچی کی قبر ضرور دیکھنا ہے ۔
” ایک کام ہو سکتا ہے۔ لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی اور سانپ بھی مر جائے گا۔ “ افضل نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
وہ کیا بھائی ؟ “
ارے میں کیمرہ لے جاؤں گا قبر اور الو کی تصویر بنالاؤں گا۔ “
ونڈر فل۔ گڈ آئیڈیا بھائی ۔ ” وہ خوش ہو کر بولی۔ “آپ کب جائیں گے بھائی ۔ “
جلدی جاؤں گا ۔ ” افضل نے اسے یقین دلانے والے انداز میں کہا۔

بس اسی طرح کی باتیں کرتے یہ لوگ دادا اعظم کے گھر پہنچ گئے کافی لوگ اکٹھا ہو چکے تھے اور جیسے جیسے لوگوں کو ان کی موت کی خبر ملتی جارہی تھی رش بڑھتا جا رہا تھا۔ انسان کی اصل مقبولیت کا اندازہ اس کی موت کے بعد ہوتا ہے۔ زندگی میں تو بہت سی مصلحتیں آدمی کو ایک دوسرے کے در پر لے جاتی ہیں لیکن آدمی مرنے کے بعد تمام مصلحتوں سے آزاد ہو جاتا ہے نہ دولت رہتی ہے، نہ کر سی رہتی ہے، نہ حیثیت رہتی ہے، خاک کا پتلا، خاک میں ملنے کو تیار ہوتا ہے تب معلوم ہوتا ہے وہ کس کے کتنے کام آیا۔ ظہر کے بعد دادا اعظم کا جنازہ اٹھا تو معلوم ہوا کہ دادا کیا چیز تھے بے شمار لوگ تھے ان کے جنازے میں ہر آنکھ اشکبار تھی دادا اعظم نے اپنی زندگی میں جانے کتنے لوگوں کا درد بانٹا ہو گا کتنے لوگوں کا بوجھ اٹھایا ہو گا آج وہی لوگ دادا کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ تدفین کے بعد افضل گھر واپس چلا گیا تھا جبکہ خالہ فرزانہ اور وہ وہیں رہ گئی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ دونوں عصر کے بعد خود ہی گھر پہنچ جائیں گی۔ اسے آنے کی ضرورت نہیں۔ اگر ممکن ہوا تو دادا کے گھر سے کوئی چھوڑ دے گا۔ ورنہ وہ ٹیکسی یا رکشہ میں گھر پہنچ جائیں گی۔ دادا اعظم کے سات بیٹے تھے اور مزے کی بات یہ تھی کہ وہ ساتوں کے ساتوں اس گھر میں رہتے تھے
اور ساتوں زندہ تھے بڑا بیٹار اغب ساٹھ سال سے اوپر کا ہو گا۔ ریٹائر زندگی گزار رہا تھا۔ سب کی شادیاں ہو چکی تھیں سب کے بچے تھے اور ان میں بعض کی شادی ہو چکی تھی گویا دادا اعظم، محض دادا نہ تھے بلکہ پر دادا تھے ساتوں بھائیوں میں بڑی یگانگت تھی لیکن ان بھائیوں کی اولاد میں یہ محبت نہ تھی ان میں کئی لڑکے گھر چھوڑ کر جاچکے تھے وہ علیحدہ مکانوں میں رہ رہے تھے ان ساتوں بھائیوں کی بیویاں بھی بہت اچھی تھی انہوں نے اس گھر میں آکر گھر کو جوڑنے کی تو کوشش کی تھی توڑنے کی کوشش نہ کی تھی۔

خاله فرزانه، دا دا اعظم کے بڑے بیٹے راغب سے محو گفتگو تھیں۔ راغب دادا کی سیرت پر روشنی ڈال رہا تھا۔ وہ بھی بڑی دلچسپی سے دادا اعظم کی باتیں سن رہی تھیں۔ اتنے میں راغب کی بیوی ذکیہ ہاتھ میں ٹرے لئے اندر داخل ہوئی۔ ٹرے میں چائے کے چار کپ رکھے تھے۔ ذکیہ نے تینوں کو چائے کا ایک ایک کپ دیا اور چوتھا کپ لے کر صوفے پر بیٹھ گئی پھر جانے کیا خیال آیا چائے کا کپ میز پر رکھا اور راغب کے پاس جاکر اس کے کان میں کچھ کہا۔ راغب نے اپنی بیوی کی بات سن کر اس کی طرف غور سے دیکھا۔ پھر کہا۔ ”ٹھیک ہے جاؤ لے آؤ۔ “
فرزانہ، میں ابھی آئی۔ ” یہ کہتی ہوئی ذکیہ کمرے سے نکل گئی۔
“راغب بھائی، خیریت تو ہے۔ ” خالہ فرزانہ بے چین ہو کر بولیں۔
اس لڑکی کی ایک امانت ہے، میرے پاس۔ ” راغب نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”ابانے مرنے سے ایک دن پہلے میرے حوالے کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب یہ یہاں آئے تو اسے دے دینا۔ “
ایسی کیا چیز ہے جو دادا اعظم اس کے لئے دے گئے ہیں۔ “
یہ تو خود مجھے بھی نہیں معلوم۔ وہ ایک لفافہ ہے۔ ” راغب نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے
کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ لفافہ اس کے لئے ہے۔ یہ دادا اعظم سے صرف ایک مرتبہ ملی ہے؟”
خالہ فرزانہ نے بے یقینی سے کہا۔
فرزانہ کیا یہ تمہاری بھانجی نہیں ہے ؟
” کیا لفافے پر اس کا نام لکھا ہے۔ مجھے نہیں خیال کہ مرحوم نے محض ایک ملاقات میں اسے یاد رکھا ہو میرا خیال ہے کہ تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ لفافہ کسی اور کے لئے ہو گا۔ “
ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ ذکیہ ایک لمبا سا سفید رنگ کا لفافہ ہاتھ میں لئے اندر داخل ہوئی اور اس تتنے وہ لفافہ راغب کے ہاتھ میں دے دیا۔ راغب نے اس لفافے کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر بولا ۔ فرزانہ لفافے پر کوئی نام نہیں لکھا لیکن تم مجھے میرے سوال کا جواب دو کہ کیا یہ تمہاری بھانجی نہیں ؟ “

بھانجی ہے لیکن سگی نہیں اور یہ بات سب جانتے ہیں۔ “
یہاں بات سگے یا سوتیلے کی نہیں ہے۔ یہ تمہاری بھانجی ہے نا چاہے رشتے کی سہی اور اس کا نام۔۔۔۔ راغب کچھ بولتے بولتے ایک دم رک گیا۔
اس کا نام تانیہ ہے۔ ” خالہ فرزانہ نے اس کا نام بتایا۔
” مجھے ابا نے لفافہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لڑکی فرزانہ کے ساتھ یہاں آئے گی۔ اسے یہ لفافہ دے دینا اور اسے ہدایت کر دینا کہ وہ یہ لفافہ سب کے سامنے نہ کھولے۔ اپنے گھر جاکر تنہائی میں کھولے اس لفافے میں اس کا خواب بند ہے..
خواب ! ” خواب کا ذکر سن کر وہ ایک دم چونک اٹھی۔ ” میرا خواب لیکن دادا اعظم کو کیسے پتہ چلا ؟
میں نے ابھی اپنا خواب کسی کو بتایا ہی نہیں یہاں تک کہ خالہ کو بھی نہیں۔ “
” یہ مجھے نہیں معلوم لیکن تمہارے اقرار کرنے سے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ یہ لفافہ تمہارے ہی لئے ہے ایک بات اور ابا نے کی تھی۔
” وہ کیا۔ ؟؟”
انہوں نے کہا تھا کہ اس لڑکی کا نام تانیہ ہے لیکن یہ اس کا اصل نام نہیں ہے۔ اس کا اصل نام ترکش ہے ۔ “
ترکش! ” تانیہ پریشان ہو کر بولی۔ لیکن میرا نام تو تانیہ ہے اور میرا نام پورا خاندان جانتا ہے۔
” اس سلسلے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ابا نے مجھے جو کہا تھا، وہ میں نے تمہیں بتادیا یہ لو اپنی امانت ۔”

یہ کہہ کر راغب نے وہ سفید لفافہ تانیہ کی طرف بڑھا دیا۔ تانیہ نے لرزتے ہاتھوں سے وہ لفافہ تھام لیا۔ اسے الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر اپنے بیگ میں رکھ لیا۔

تانیہ، شاید تمہیں یہ بات معلوم نہ ہو کہ ابا خوابوں کی تعبیر کے ماہر تھے لوگ دور دور سے اپنے خوابوں کی تعبیر معلوم کرنے آتے تھے۔ “
مجھے معلوم ہے۔ خالہ نے راستے میں مجھے بتایا تھا۔ ” آج مجھے اپنے ابا کے بارے میں، ایک بات اور معلوم ہوئی کہ وہ خواب کی تعبیر کے ساتھ خواب دیکھنے والے سے بھی اچھی طرح واقف ہوتے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ بڑے پہنچے ہوئے بزرگ تھے.. لیکن انہوں نے خود کو ہمیشہ پوشیدہ رکھا۔
” ارے آپ کو نہیں معلوم ہو گا۔ مجھے تو اباجی کے بارے میں اچھی طرح اندازہ تھا کہ وہ کس پایہ کے بزرگ ہیں۔ آخر لوگ ان کے پاس یونہی تو نہیں آتے تھے ۔ ” ذکیہ نے فورا ہی اپنی اہمیت کا اظہار کر دیا۔

کچھ دیر بیٹھ کر خالہ فرزانہ اور تانیہ نے راغب سے اجازت لی ۔ راغب نے فوراً اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ وہ دونوں کو اپنی گاڑی میں گھر تک چھوڑ آئے۔ تانیہ اور خالہ فرزانہ نے منع بھی کیا کہ اس تکلف کی ضرورت نہیں۔ وہ بآسانی رکشہ ٹیکسی کے ذریعے گھر پہنچ جائیں گی لیکن راغب نے ایک نہ سنی۔ وہ گھر کے گیٹ تک انہیں رخصت کرنے آئے اور جب تک وہ گاڑی میں بیٹھ کر چلی نہ گئیں وہ گھر کے گیٹ پر کھڑے رہے۔

واپسی کا سفر بڑی خاموشی سے کٹا۔ خالہ فرزانہ نے بات کرنا بھی چاہی لیکن تانیہ نے جواب میں انہیں خالی خالی نگاہوں سے دیکھا تو وہ سمجھ گئیں کہ تانیہ اندر سے پریشان ہے۔
وہ واقعی پریشان تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ دادا اعظم کو اس کے خواب کے بارے میں کس طرح پتہ چل گیا تھا اور اس لفافہ میں اس کے بھیانک خواب کی کیا تعبیر بند تھی وہ جلد از جلد اس سے واقف ہو جانا چاہتی تھی۔ گھر پہنچ کر اس نے فوراً ہی اپنے کمرے کا رخ کیا۔ سیڑھیاں چڑھ کر وہ اپنے بیڈ روم میں داخل ہوئی اندر سے دروازہ بند کیا بیگ بیڈ پر اچھال دیا اور واش روم میں گھس گئی۔ اچھی طرح منہ ہاتھ دھو کر باہر نکلی۔ ابھی اس نے بیگ سے لفافہ نکالا ہی تھا اور کھولنا چاہتی ہی تھی کہ ایک دم دروازے پر دستک ہوئی۔
دروازہ بڑے زور سے دھڑ دھڑا یا جا رہا تھا ۔
ساتھ ہی دردانہ چیخ رہی تھی۔ جلدی دروازہ کھولیں۔ بی بی۔ “
تانیہ نے وہ لفافہ فوراً بیگ میں ڈالا۔ اور بیگ بیڈ پر پھینک کر دروازے کی طرف بڑھی۔ اس کا دل بڑے زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔
الہی خیر۔ تانیہ نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو
” اسے ” دیکھ کر وہ بے اختیار چیخ مار کر پیچھے ہٹ گئی۔
دردانہ کے ہاتھ میں ایک پنجرہ تھا اور اس پنجرے میں ایک الو بند تھا۔ تانیہ نے پنجرے میں بند الو کو دیکھ کر چیخ ماری۔ دردانہ نے وہ پنجرہ فوراً دہلیز پر رکھ دیا اور تسلی دیتے ہوئے بولی۔ ”ڈریں نہیں بی بی یہ
پنجرے میں بند ہے۔ “
یہ پنجرہ کہاں سے آیا، کون لایا ہے اس الو کو ۔ ” تانیہ نے دور ہی سے پنجرے میں بند اس اُلو کو وحشت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”بی بی، ابھی ایک آدمی آیا تھا، وہ دے گیا ہے۔ ” دردانہ نے پنجرے کا کنڈا چھوتے ہوئے کہا۔
“بی بی اسے اندر لے آؤں۔؟؟
” نہیں، نہیں، دردانہ تم پاگل ہو گئی ہو کیا۔ ؟ ” تانیہ نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ” تم اندر آجاؤ اسے وہیں رہنے دو “
دردانہ اس پنجرے کو دروازے پر چھوڑ کر اندر آگئی۔ تانیہ لرزتی ٹانگوں سے اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ بیڈ پر اس کا بیگ اور وہ بند لفافہ پڑا تھا جسے دادا اعظم نے دیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ اسے سب کے سامنے نہ کھولا جائے۔ تانیہ نے فوراً وہ لفافہ اٹھا کر بیگ میں ڈال لیا اور اس کی زپ بند کرتے ہوئے دروازے پر رکھے اس پنجرے کو دیکھنے لگی وہ الو اپنی بڑی بڑی زرد آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا۔

دردانہ تم نے اس پنجرے کو کیوں لے لیا؟ کون شخص تھا وہ ؟ “
تانیہ پریشانی سے بولی ۔
بی بی، اس آدمی نے زیادہ بات ہی نہیں کی۔ میں نے جیسے ہی گیٹ کھولا اس نے یہ پنجرہ میری طرف بڑھا دیا اور بولا کہ ترکش کو دیدو، میں نے کہا کہ کون ترکش، یہاں کوئی ترکش نہیں ہے تو وہ بولا اپنی بی بی تانیہ کو جا کر دیدو۔ اچھا میں چلتا ہوں یہ کہہ کر اس نے پنجرہ میرے ہاتھ میں تھمایا اور میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ چلا گیا۔ ” دردانہ نے بتایا۔

کیسا شخص تھا وہ ؟ تم نے بڑی غلطی کی دردانہ مجھے فوراً بلا لینا تھا۔ “ تانیہ پریشان ہو کر بولی ۔ اس نے میری بات سنی ہی نہیں ۔ ” دردانہ نے کہا۔ ” وہ کچھ عجیب سا آدمی تھا بی بی۔ کالے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ بڑے لمبے لمبے بال تھے جو اس کے کندھوں پر پڑے ہوئے تھے۔ سانولے رنگ کا تھا، لمبا چہرہ ، کانوں میں چاندی کی بالیاں، ایک ہاتھ میں موٹا سا کڑا، اور انگلی میں چاندی کی پتھر لگی انگوٹھی، کالی چمکیلی آنکھیں بس میں اور کیا بتاؤں بی بی کہ وہ کیسا آدمی تھا۔ میں نے اس طرح کا آدمی آج تک نہیں
دیکھا۔ “

تانیہ فوراً کھڑکی کی طرف گئی۔ اس کھڑکی سے گھر کا گیٹ صاف نظر آتا تھا۔ کھڑکی کھول کر اس نے ادھر اُدھر دیکھا مگر اسے کوئی آدمی نہ دکھائی دیا۔ اس نے کھڑکی بند کی اور دردانہ سے مخاطب ہو کر بولی ۔

تمہیں یقین ہے کہ اس شخص نے میرا نام لیا تھا۔؟؟ “
” جی بالکل بی بی۔ پہلے تو اس نے ترکش کہا۔ پھر جب میں نے انکار کیا تو بولا اپنی بی بی تانیہ کو جاکر دے دو اس نے صاف آپ کا نام لیا بی بی۔ کیا آپ اسے نہیں جانتیں۔ ” دردانہ نے حیران ہو کر پوچھا۔
“نہیں، دردانہ پتہ نہیں وہ شخص کون تھا اور وہ دے کر بھی کیا گیا ہے۔ ” تانیہ پریشان تھی۔
ہاں، دیکھو بھلا، یہ بھی کوئی دینے کی چیز ہے۔ “
بھائی ہیں کیا گھر میں۔ ” تانیہ نے پوچھا۔
نہیں بی بی، وہ ایک گھنٹہ پہلے کہیں گئے ہیں۔ “
اور خالہ ؟”
” وہ نماز پڑھ رہی ہیں۔ “
اچھا، دردانہ تم اس پنجرے کو لے کر نیچے چلو، میں آتی ہوں ۔ “
ٹھیک ہے بی بی۔ “

پھر دردانہ نے جیسے ہی پنجرے کا کنڈا پکڑنے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو الو نے بے چین ہو کر فوراً پر پھڑ پھڑائے اور ایک بھیانک چیخ ماری۔ دردانہ نے گھبرا کر فوراً ہاتھ پیچھے کر لیا۔

دردانہ اسے فوراً نیچے لے جاؤ ۔ ” تانیہ نے حکم دیا۔ دردانہ نے اس کے حکم کی تعمیل میں جیسے ہی پنجرہ اٹھانا چاہا، وہ فوراً دردانہ کی طرف جھپٹا اور زور زور سے اپنے پر پھڑ پھڑائے اگر چہ پنجرہ چھوٹا تھا اس کے پورے پر بھی نہیں کھل رہے تھے لیکن جتنے بھی کھل رہے تھے وہ بندے کو خوفزدہ کرنے کیلئے بہت تھے۔ دردانہ نے ڈر کر ایک مرتبہ پھر اپنا ہاتھ کھینچ
لیا۔

ارے دردانہ کیا کر رہی ہو ؟ پنجرہ اٹھا لو۔ ” تانیہ نے سختی سے کہا۔ دردانہ نے پھر اسے اٹھانا چاہا تو اس نے ایک مرتبہ پھر بھیانک چیخ ماری اور اپنے پر پھڑ پھڑانے لگا۔
”بی بی، میں اس پنجرے کو نہیں اٹھا سکتی۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ “
اچھا، ٹھہرو میں اٹھا کر دیکھتی ہوں ۔ ” یہ کہہ کر تانیہ آگے بڑھی اس کے آگے بڑھتے ہی وہ الو اپنی جگہ ساکت ہو گیا۔ تانیہ نے ہمت کر کے پنجرے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ وہ تیار تھی کہ جیسے ہی الو چیخے گا
وہ فوراً اپنا ہاتھ کھینچ لے گی۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ الو بالکل ساکت بیٹھا رہا۔ تانیہ نے ہمت کر کے پنجرہ اٹھا لیا۔ اُلو نہ پھڑ پھڑایا اور نہ جھپٹا اور نہ ہی اس نے خوفناک آواز نکالی۔
“لو دردانہ، اب تم نیچے لے جاؤ اسے۔ ” یہ کہہ کر تانیہ نے پنجرہ، دردانہ کے ہاتھ میں دیدیا۔ پنجرے کا دردانہ کے ہاتھ میں آنا تھا کہ وہ فوراً پھڑ پھڑا اٹھا۔ ساتھ ہی اس نے ایک بھیانک چیخ ماری کچھ اس طرح کہ دردانہ نے فوراً وہ پنجرہ زمین پر رکھ دیا اور تیزی سے سیڑھیاں اترتی نیچے چلی گئی۔ شاید وہ بری طرح ڈر گئی تھی۔
دردانہ کے جانے کے بعد تانیہ نے پنجرے پر ایک نظر ڈالی وہ بڑی خاموشی سے بت بنا تانیہ کو اپنی بڑی سے زرد آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں جانے کیا بات تھی کہ ایک خوف کی لہر اس کے بدن میں اترتی چلی گئی۔ تانیہ نے پنجرے کو وہیں چھوڑا ، اپنے کمرے میں داخل ہو کر اس نے دروازہ اندر سے بند
کر لیا۔۔۔”

بیڈ پر بیٹھ کر اس نے اپنا بیگ اٹھا لیا۔ لفافہ نکالا۔ لفافہ ہاتھ میں آتے ہی اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ ہاتھ میں لرزش آگئی وہ سوچنے لگی اس لفافے میں جانے کیا بند ہے۔ وہ نو انچ لمبا اور چار انچ چوڑا ایک سفید رنگ کا لفافہ تھا۔ روشنی کی طرف کر کے تانیہ نے دیکھا تو اس میں کوئی خط رکھا دکھائی دیا۔ تانیہ نے ہمت کر کے لفافہ چاک کیا اور اس میں رکھا خط باہر نکال لیا۔ وہ خط ہر گز نہ تھا۔ کاغذ پر کوئی تحریر نہیں تھی۔ اس پر پینسل سے ایک اسکیچ بنا ہوا تھا اور یہ وہ اسکیچ تھا جسے وہ مسلسل پانچ راتوں سے دیکھ رہی تھی۔ ایک گول جھونپڑی، جھونپڑی کی چھت پر بیٹھا ہوا الو دروازے پر کنڈلی مارے بیٹھا سانپ، جھونپڑی کے اندر اندھیرا، یہی تو وہ منظر تھا جو اسے خواب میں نظر آتا تھا۔
بس ایک آواز کی کسر تھی پھر اچانک ہی اس کے دماغ میں وہ آواز بھی گونجنے لگی۔ ڈرومت آؤ اندر آجاؤ۔ “
وہ کاغذ بھی سفید تھا۔ اس خواب والے منظر کے علاوہ اس پر کچھ نہیں لکھا تھا۔ تانیہ نے کاغذ پلٹ کر دیکھا تو اس پر ایک اور اسکیچ دکھائی دیا وہ ایک دروازہ تھا، بند دروازہ ۔۔ اس دروازے کے ہینڈل پر ایک تعویذ لٹکا
ہوا تھا۔
تانیہ نے اس کاغذ کو کئی بار الٹ پلٹ کر دیکھا۔ اس پر بس دو تصویریں بنی تھیں۔ ایک طرف اس کے خواب کی تصویر تھی تو کیا دوسری طرف اس کے خواب کی تعبیر تھی ؟ یہ کیسی تعبیر تھی۔ بند دروازہ جس کے ہینڈل پر ایک تعویذ لٹکا ہوا تھا۔ تب ہی اس کے دماغ میں ایک چھنا کا سا ہوا اور اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ”ارے یہ تو نیچے والے کمرے کا دروازہ ہے۔ “
اس نے جلدی سے اس کاغذ کو لفافے میں ڈالا۔ اور دروازہ کھول کر باہر نکلی۔ دروازے پر وہ پنجرہ جوں کا توں رکھا تھا۔ وہ الو بڑے سکون سے بیٹھا تھا۔ تانیہ کو دیکھ کر اس اُلو نے اپنی گردن ذرا سی ٹیڑھی کی اور پھر ایک عجیب سی آواز نکالی تانیہ کو یوں محسوس ہوا جیسے اس الو نے اسے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا ہو۔ تانیہ نے کنڈا پکڑ کر پنجرے کو اٹھا لیا۔ اُلو نے کوئی اچھل کود نہ مچائی۔ تانیہ پنجرے کا گلکنڈا پکڑے نیچے اتر آئی۔ اس نے ادھر اُدھر دیکھا۔ اسے خالہ فرزانہ کی تلاش تھی۔ اس زینے کا ایک راستہ گھر کے اندر جاتا تھا اور دوسرا راستہ ذرا سا گھوم کر باہر لان کی طرف جاتا تھا اس نے پنجرے کو باہر والے دروازے کی طرف چھوڑا اور خود خالہ فرزانہ کے کمرے کی طرف بھاگی۔ اسے معلوم تھا کہ خالہ اس وقت اپنے کمرے میں ہوں گی۔ خالہ ابھی نماز سے فارغ ہی ہوئی تھیں، تانیہ کو جو اس طرح کمرے میں گھستے ہوئے دیکھا تو ایک لمحے کو وہ گھبرا گئیں۔
کیا ہوا تانیہ ؟ خیر تو ہے۔ “
خیر کہاں ہے خالہ ۔ ” وہ نیچے ہی قالین پر ان کے نزدیک بیٹھ گئی۔
بی بی، آپ کی چائے یہیں لے آؤں یا باہر پئیں گی۔ ” دردانہ نے کمرے میں داخل ہو کر پوچھا۔
دردانہ، دیکھو وہ پنجرہ سیڑھیوں کے نزدیک رکھا ہے تم ذرا اسے اٹھا کر باہر دیوار کے ساتھ رکھ آؤ۔ کہتے ہیں کہ اُلو بڑا منحوس ہوتا ہے جہاں بیٹھتا ہے ویرانی پھیل جاتی ہے ۔ “
الو ! ” خاله فرزانہ ایک دم چونکیں۔
کہاں ہے الو”
ہائے بی بی، مجھے ڈر لگتا ہے۔ وہ میرے پنجرہ اٹھاتے ہی مجھ پر جھپٹتا ہے۔ ” دردانہ سہم سی گئی۔
اچھا، تم اسے رہنے دو، اور میری چائے ادھر ہی لے آؤ۔ ” جی ٹھیک ہے بی بی۔ ” دردانہ نے بڑے مودبانہ انداز میں کہا اور تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔
اسے ڈر تھا کہ تانیہ کہیں اسے پنجرہ اٹھانے کو نہ کہہ دے۔
خالہ فرزانہ کا منہ ابھی تک حیرت سے کھلا تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اچانک یہ الو کہاں سے آگیا۔ اور وہ بھی پنجرے میں، خالہ نے پھر سوال کرنا چاہا تو تانیہ نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں صبر کرنے کو کہا اور بولی۔
” میں بتاتی ہوں خالہ، آپ پریشان نہ ہوں ۔ “
اور پھر تانیہ نے اس اُلو کی داستان سنا دی کہ وہ کہاں سے آیا اور کیسے آیا۔ اس اثناء میں دردانہ چائے دے گئی۔ ارے۔ وہ کون منحوس شخص تھا جو اپنے لگے سگے کو ہمارے حوالے کر کے چلا گیا۔ ” خالہ نے پریشان ہو کر کہا۔ ”تانیہ تم جلدی سے اس منحوس کو اپنے گھر سے نکالو۔ مجھے ایسی باتوں سے بہت ڈر لگتا ہے ارے کہیں کوئی جادو ٹونا تو نہیں کر گیا۔ “
خالہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ابھی اس کا کچھ بندوبست کرتی ہوں ۔ ” تانیہ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔ حالانکہ خود اس کی اپنی جان نکلی جا رہی تھی۔
خالہ سنئے، یہ لفافہ میں نے کھول لیا ہے ۔ ” تانیہ نے ان کے سامنے لفافہ لہرایا۔
ہاں کیا نکلا اس میں۔ ” خالہ اس الو کو ایک لمحے کیلئے بھول گئیں۔
خالہ اس میں ایک کاغذ ہے۔ اس پر ہاتھ سے دو تصویر میں بنی ہوئی ہیں۔ ” تانیہ نے بتایا۔
لیکن وہ تو تمہارے کسی خواب اور اس کی تعبیر کا ذکر کر رہے تھے۔ اے، تانیہ تم نے مجھے بتا یا نہیں تم نے کیسا خواب دیکھا تھا ۔ “
بس خالہ آج میں آپ کو بتاتی ہوں، میں پانچ دن سے مسلسل وہ خواب دیکھ رہی تھی ۔ “
ارے تانیہ، کوئی ڈراؤنا خواب تھا وہ ۔ “
ایسا ویسا۔۔ خواب دیکھنے کے بعد جب میری نیند ٹوٹتی تو میری جان نکلی ہوئی ہوتی ۔
” تو پگلی مجھے بتایا کیوں نہیں۔ اکیلی اوپر سوتی ہے۔ اب مت سونا اوپر ۔ “
ارے نہیں خالہ، ایسا بھی کیا ڈرنا مجھے بس تھوڑی ہی دیر ڈر لگتا ہے، پھر میں سو جاتی۔ میں آپ کو خواب بتاتی ہوں، پھر آپ کو یہ تصویر دکھاؤں گی۔ دادا اعظم کی ہدایت کے مطابق میں نے اس لفافے کو اکیلے میں کھولا ہے۔ خواب بتانے یا اس تصویر کو نہ دکھانے کی تو انہوں نے کوئی ہدایت نہیں کی۔ ” تانیہ نے کہا۔
پھر تانیہ نے بڑی تفصیل سے اپنا وہ خواب خالہ کے سامنے دہرایا۔
ارے یہ منحوس وہی الو تو نہیں جو تمہیں جھونپڑی کی چھت پر بیٹھا دکھائی دیا تھا۔ “
خالہ فرزانہ کو خواب سن کر الو پھر یاد آگیا۔ ”تانیہ تم بھی عجیب لڑکی ہو، تم خواب میں کوئی ڈھنگ کی چیز نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ “
خالہ، خواب اپنی مرضی سے کہاں دکھائی دیتے ہیں۔ “
“اچھا، لفافے میں کیا ہے ؟ “
یہ دیکھئے میرے خواب کی تصویر ۔ ” تانیہ نے کاغذ نکال کر ان کے سامنے کیا۔ پہلے اس نے وہ تصویر دکھائی جس میں جھونپڑی، الو اور سانپ بنا تھا۔
ارے، یہ تو ہو بہو تمہارا خواب ہے۔ “
اب ذرا پلٹ کر دیکھیں، تب آپ کو اس خواب کی تعبیر نظر آئے گی ۔ ” خاله فرزانہ نے فوراً کاغذ پلٹا، پچھلی طرف بنی ہوئی تصویر دیکھتے ہی خالہ فرزانہ کپکپا اٹھیں۔۔ بے اختیار ان کی زبان سے نکلا۔ “نہیں۔ “
اور چہرہ زرد ہوتا چلا گیا۔
خالہ کیا ہوا ؟ ” تانیہ نے فکر مندی سے پوچھا۔ ” آپ نے اس دروازے کو پہچانا۔ “
پہچان ہی تو لیا ہے۔ اسی لئے اس قدر خوفزدہ ہو رہی ہوں ۔ ” خالہ فرزانہ فکرمند ہو کر بولیں۔
یہ اسی کمرے کا دروازے نہیں جسے آپ ہمیشہ لاک رکھتی ہیں ؟ تانیہ نے تصدیق چاہی۔
ہاں، وہی ہے۔ ” خالہ کی زبان میں لرزش تھی۔
خالہ، ایک بات بتائیں، کیا دادا کبھی اس گھر میں آئے ہیں۔ ” تانیہ نے سوال کیا۔
آج تک نہیں۔ ” خالہ فرزانہ نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ پھر یہ کس قدر حیران کن بات ہے کہ انہوں نے نہ صرف میرے خواب کو جان لیا بلکہ اس کمرے کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کر دی۔ اگر دروازے کے ہینڈل پر تعویذ لٹکا ہوا نہ دکھاتے تو شاید اس دروازے کو پہچاننا مشکل ہوتا ۔ “
سوال یہ ہے تانیہ کہ تمہارے خواب سے اس دروازے کا کیا تعلق ہے۔ ” خالہ نے سوال کیا۔
خالہ ضرور کوئی تعلق ہے ورنہ دادا اعظم کو اس کی تصویر بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ “
تم اس کمرے کے بارے میں کچھ جانتی ہو ؟ ” خالہ فرزانہ نے سوال کیا۔
میں جب سے اس گھر میں آئی ہوں، ہمیشہ اسے بند ہی دیکھا ہے اور دروازے پر کالے کپڑے میں تعویذ جو ہینڈل میں لٹکا ہوا ہے، آپ نے اس کمرے کے بارے میں یہی بتایا کہ اس کمرے میں کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔ ایک طرح کا اسٹور ہے۔ ” تانیہ نے کہا۔
نہیں تانیہ میں نے غلط کہا تھا، دراصل میں نہیں چاہتی تھی کہ تم اس کی حقیقت جان کر ڈر جاؤ لیکن اب تم سے کچھ چھپانا بیکار ہے۔ اب یہ معاملہ خطرناک صورت اختیار کر گیا ہے۔ “
اگر یہ اسٹور نہیں ہے، اس میں کسی قسم کا سامان نہیں ہے تو پھر اس میں کیا ہے ؟ ” سوال کیا
کچھ نہیں بالکل خالی ہے۔ ” جواب ملا مگر کتنا سادہ ۔ آئیں خالہ، ذرا اس کا تالا کھولیں، میں اسے اندر سے دیکھنا چاہتی ہوں ۔ ” خواہش کا اظہار ہوا
ہائے نہیں تانیہ، ایسی بات سوچنا بھی نہیں۔ “
کیا مطلب خالہ … کیا ہو جائے گا۔ “
یہ تو مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہو جائے گا، لیکن اتنا ضرور یقین ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہو جائے گا ہمیں اس کمرے کو کھولنے سے منع کیا گیا ہے۔ ” خالہ فرزانہ کی آواز میں لرزش پیدا ہو گئی تھی۔
کس نے منع کیا ہے خالہ ۔ ” تانیہ نے پوچھا۔
اس شخص نے جس سے ہم نے یہ مکان خریدا۔ ” خالہ فرزانہ نے بتایا۔ ” وسیم نامی اس شخص نے اس مکان کو بڑے شوق سے بنوایا تھا لیکن اسے رہنا نصیب نہ ہوا۔ “

اس مکان کی کہانی بڑی عجیب تھی۔ ایک ہزار گز پر بنا ہوا یہ دو منزلہ مکان گلشن اقبال میں تھا۔ اس مکان کے دائیں بائیں کوئی مکان نہیں تھا۔ دائیں طرف محض چار دیواری کھنچی ہوئی تھی اور بائیں طرف والے پلاٹ کی صرف بنیادیں بھر کر چھوڑ دی گئی تھیں۔ البتہ پچھلے والے پلاٹ پر مکان بنا ہوا تھا اور وہ آباد بھی تھا۔ اس مکان کے سامنے ساٹھ فٹ چوڑی سڑک تھی۔ سڑک کے اس طرف تمام مکان بنے ہوئے تھے۔
مکانوں کی تعمیر سے پہلے یہاں جھونپڑیاں پڑی ہوئی تھیں یہاں اوڈ لوگ آباد تھے جن کی عورتیں اور مرد دونوں مل کر روزی کماتے تھے۔ تب کہیں جا کر شام کو ان کے گھروں کے چولہے روشن ہوتے تھے۔ یہ برابر کے تینوں پلاٹ، تین بھائیوں نے خریدے تھے۔ دو بھائی باہر تھے، تیسرا جو کہ کراچی میں رہائش پذیر تھا وہ ایک فرنیچر کی بڑی دوکان کا مالک تھا۔ سب سے پہلے اس نے اپنے مکان کی تعمیر شروع کی۔ اسنے تینوں پلاٹوں کی باؤنڈری بنوا دی اور چوکیدار ملازم رکھ دیا جو چوبیس گھنٹے ان خالی پلاٹوں پر رہتا تھا۔ایک رات جب عامل خان کی اچانک آنکھ کھلی تو اس نے گھنگھروں کی آواز سنی۔ کوئی ایک بجے کا عمل ہو گا۔ چاند کی تیرہ تاریخ تھی۔ ہر طرف چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔ وہ اپنی چارپائی سے اٹھ کر اپنی جھونپڑی کے دروازے پر آیا تو اس نے سامنے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا۔
وہ کوئی ملنگ قسم کا بندہ تھا۔ دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے ایک ٹانگ سے چھ فٹ اونچی دیوار پر رقص کر رہا تھا ۔ گھنگھرؤوں کی چھنک سے پوری فضا میں ارتعاش سا تھا وہ ملنگ قسم کا شخص دیوار پر اس مہارت اور خوبصورتی سے رقص کر رہا تھا جیسے وہ دیوار پر نہ ہو، زمین پر ہو۔
اگر چہ یہ منظر ایک اچھے بھلے آدمی کے ہوش اڑا دینے کیلئے کافی تھا لیکن عامل خان پر اس کا کوئی خاص
اثر نہ ہوا، وہ فوراً پلٹ کر اپنی جھونپڑی میں آیا لالٹین کی لو کو ذرا تیز کیا۔ چارپائی کے سرہانے رکھی موٹی لاٹھی اٹھائی اور آیت الکرسی پڑھتا ہوا باہر آگیا۔
باہر آکر اس نے پانی کے کنستر میں زور زور سے لاٹھی ماری۔ کنستر کی آواز سے پورا علاقہ گونج اٹھا۔
رقص کرتا وہ ملنگ دیکھتے ہی دیکھتے دیوار پر غائب ہو گیا۔
اس طرح رقص کرتے ہوئے اس ملنگ کو عامل خان نے ہی نہیں، جھونپڑی میں رہنے والے لوگوں نے بھی دیکھا۔ کچھ دن کے بعد یہ رقص ایک طرح کا معمول بن گیا۔ لوگ اس رقص کے عادی ہو گئے۔ اگر کوئی شخص دیوار پر ناچتا ہے تو ناچا کرے، ان کا کیا بگڑتا ہے ، عامل خان نے شروع شروع میں تو اس شخص کی پروا نہ کی۔ اٹھ کر آیت الکرسی پڑھی۔ لاٹھی سے کنستر بجایا۔ لیکن جب روز ہی اس نے رقص بسمل دکھاتا شروع کر دیا تو عامل خان نے اس پر سو بار لعنت بھیجی اور پیر پسار کر آرام سے سونے لگا۔
جلد ہی درمیان والے پلاٹ پر تعمیر شروع ہو گئی، لوگوں نے دیکھا کہ راتوں رات خالی زمین پر ایک خوبصورت مکان نے ابھرنا شروع کر دیا ہے ۔ جلد ہی اس مکان پر چھت پڑ گئی چھت پڑتے ہی ایک حادثہ ہوا، ایک رات عامل خان اپنی چار پائی پر مردہ پایا گیا۔ یہ پتہ نہ چل سکا کہ وہ کیسے مرا، بظاہر اس کے جسم پر کسی قسم کے نشانات نہ تھے۔ نہ ہی اسے قتل کیا گیا تھا۔ جن لوگوں نے اس کی لاش دیکھی تھی وہ بتاتے ہیں کہ عامل خان اپنی چارپائی پر اس طرح لیٹا تھا جیسے سو رہا ہو۔ ایک امکان یہ بھی تھا کہ سوتے میں اس کا ہارٹ فیل ہو گیا ہو۔
عامل خان کے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد کوئی چوکیدار زیادہ عرصے تک اس مکان کی نگرانی نہ کر سکا۔ وہ بغیر بتائے ہی غائب ہو جاتا۔ غالب گمان یہ تھا کہ شاید خوف کی وجہ سے چوکیدار بتائے بغیر ہی یہاں سے رفوچکر ہو جاتے ہیں۔ پھر اس مکان کی تعمیر رک گئی۔ مالک مکان باہر چلا گیا۔
رات کے وقت یہ ادھورا مکان بڑا بھیانک منظر پیش کرتا۔ اس ملنگ کا رقص جاری تھا اب یہ رقص اس ادھورے مکان کی چھت پر ہوتا۔ سڑک کے اس پار جھونپڑیوں میں رہنے والے اوڈ اکثر اس رقص کودیکھا کرتے۔سات سال کے بعد پھر اس مکان کی تعمیر شروع ہوئی۔ دو تین ماہ کام ہوا۔ اس کے بعد پھر بند ہو گیا۔ کام بند ہونے کی وجہ بھی معقول تھی۔ ایک دن مالک مکان اپنے بیوی بچوں کو مکان کی تعمیر دکھانے لایا۔ بیوی اور اس کے بچوں نے اچھی طرح مکان کو دیکھا۔ یہ لوگ چھت پر بھی گئے۔کوئی آدھے گھنٹے کے بعد بیوی بچے گھر جانے کیلئے گاڑی میں بیٹھنے لگے تو معلوم ہوا کہ چار سالہ لڑکا عمر علی غائب ہے۔ پہلے تو انہوں نے اسے آوازیں دیں لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ گھبرا کر دونوں میاں بیوی زیر تعمیر مکان کے اندر بھاگے۔ گھر کے ہر کونے میں اسے تلاش کیا مگر عمر کہیں نہیں تھا۔ اچانک خیال آیا کہ واٹر ٹینک میں بھی دیکھ لیا جائے۔ بس دیکھنا ہی غضب ہو گیا۔ ماں ٹینک میں جھانکتے ہی چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی۔ وہ چار سالہ بچہ ٹینک میں تیر رہا تھا۔ اسے جلدی سے نکال کر ماں سمیت اسپتال پہنچایا گیا مگر وہ تو کب کا مر چکا تھا۔
مکان کی تعمیر پھر رک گئی ۔ تعمیراتی سامان پڑا تھا لیکن وہاں کوئی چوکیدار دو تین دنوں سے زیادہ ٹکتا ہی نہ تھا۔ اب یہ بات ثابت ہو گئی کہ اس مکان پر کسی قسم کا اثر ہے کوئی سایہ ہے۔ عاملوں کی تلاش شروع ہو گئی۔ کئی لوگوں کو ” جائے واردات ” پر لایا گیا لیکن کوئی ایسا پکا عمل نہ کر سکا جس سے مکان سے برے اثرات دور ہو جاتے۔ عامل کی تلاش جاری رہی پھر کسی نے پاکستان کوارٹر کے ایک عامل کا پتہ بتایا لیکن وہ پیشہ ور عامل نہ تھے۔ سرکاری ملازم تھے۔ روحانی عملیات کے ماہر تھے۔ ضرورت مندوں کو تعویذ گنڈے دیتے تھے لیکن یہ سارے کام کار خیر کے طور پر کرتے تھے، بدلے میں دعاؤں کے طالب ہوتے تھے پیسوں کے نہیں۔
مالک مکان کی پریشانی دیکھ کر انہوں نے اس مکان کا آسیب دور کرنے کی ہامی بھر لی ۔ دوپہر کو جب سخت تیز دھوپ تھی، وہ عامل صاحب جن کا نام روشن علی تھا، مالک مکان کے ساتھ اس زیر تعمیر مکان پر آئے، پورے گھر کا ایک چکر لگایا، اس کے بعد ایک کمرے میں آکر کھڑے ہو گئے۔ مالک مکان کو اشارہ کیا کہ وہ باہر گاڑی میں جا کر بیٹھے، کوئی آدھے گھنٹے کے بعد روشن علی مکان سے باہر آئے۔ پسینے میں نہائے ہوئے ۔ اشارے سے مالک مکان کو اپنے ساتھ آنے کو کہا۔ روشن علی پھر اس کمرے میں جا کھڑے ہوئے جہاں وہ پہلے کھڑے ہوئے تھے ۔ اس کمرے میں ابھی چوکھٹ دروازے نہیں لگے تھے۔
اس کمرے کو غور سے دیکھ لیں ؟ ” روشن علی نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
میں سمجھا نہیں۔ ” مالک مکان نے پریشان ہو کر پوچھا۔
آپ چاہتے ہیں کہ اس مکان کی تعمیر مکمل ہو جائے ؟ ” روشن علی نے پوچھا۔
صاف ظاہر ہے، آپ کو میں اسی لئے یہاں لایا ہوں ۔
“پھر ایک کام کرنا ہو گا ” روشن علی نے کہا۔
جی فرمائیے۔ میں ہر کام کرنے کو تیار ہوں ۔
” اس کمرے میں کوئی کھڑکی نہیں ہوگی ۔ ” پہلی ہدایت ملی۔
ٹھیک میں یہ کھڑکیاں بند کروا دوں گا۔ ” ہدایت پر عمل کرنے کی ہامی بھر لی گئی۔
اس کمرے میں جو رنگ بتاؤں گا، وہ ہو گا۔ “
دوسری ہدایت ہوئی۔
یہ بھی منظور ۔ ” دوسری ہدایت بھی مان لی گئی۔
جب یہ کمرہ اور پورا امکان تعمیر ہو جائے گا تو ایک رات میں اس کمرے میں گزاروں گا۔ صبح فجر کے وقت میں باہر آؤں گا۔ اس کمرے کو لاک کروں گا۔ اس کے ہینڈل میں ایک تعویذ لٹکاؤں گا اور یوں یہ کمرہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا۔ ” روشن علی نے بتایا۔
ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا؟” مالک مکان پریشان ہو گیا۔ جی ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا۔ ” یقین سے کہا گیا۔
ارے یہ کتنی عجیب بات ہو گی۔ پھر اس کے بعد تو یہاں کچھ نہیں ہو گا۔ ؟؟
” کچھ نہیں ہو گا۔ ہمیشہ کے لئے سکون ہو جائے گا۔ ” یقین دلایا گیا۔
روشن صاحب۔ یہ سب کیا ہے ؟ ” مالک مکان بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا تھا۔
جو کچھ بھی ہے، آپ کے سامنے ہے۔ اتنے عرصے سے بھگت رہے ہیں پھر بھی پوچھ رہے ہیں ؟”

میری تو عقل دنگ ہے۔ ” مالک مکان کی سمجھ میں واقعی کچھ نہیں آرہا تھا۔
میاں صاحب زادے …. یہ دنیا ایک عجائب خانہ ہے جو میں دیکھتا ہوں، اگر وہ تم دیکھ لو تو بولائے بولائے پھرو، آؤ اب یہاں سے چلیں روشن علی نے کچھ نہ کہا اور کہہ بھی گئے۔ کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے۔ مرض کی تشخیص کے بعد مالک مکان وسیم نے زیادہ دیر نہ لگائی ۔ فوراً دوا دارو شروع کر دی۔ اس نے دگنی لیبر لگا کر تیزی سے مکان کی تعمیر مکمل کر لی۔ پھر رنگ و روغن شروع ہوا۔ وسیم نے آسیب زدہ کمرے میں کوئی کھڑکی نہیں رکھی تھی۔ دوسری ہدایت کے مطابق روشن علی سے پوچھ کر اس کمرے میں مطلوبہ رنگ کرانا تھا … وسیم نے فون پر روشن علی سے بات کی۔ انہوں نے ساری بات سن کر شام کو اپنے گھر پر بلایا۔ وہ گھر پہنچا تو انہوں نے ایک چھوٹی سی شیشی میں کالے رنگ کا سیال دیا اور ہدایت کی کہ اس پورے کمرے میں کالا رنگ کروانا ہے۔ حتی کہ چھت پر بھی کالا رنگ ہو گا۔ اس شیشی کا پانی رنگ میں ملوا دینا۔ یہ عمل کیا ہوا پانی ہے۔ ایک بات کا اور خیال رکھنا رنگ کا کام ایک دن میں اور مغرب سے پہلے ہر صورت میں ختم ہونا چاہئے۔ رنگ ہونے کے بعد دروازہ بند کر کے لاک کر دینا۔ اس کے بعد کوئی بشر اندر نہ جائے تم بھی اندر نہیں جاؤ گے۔ جب مکان ہر طرح سے مکمل ہو جائے تو مجھے مطلع کرنا، میں رات کو وہیں رہوں گا۔ سمجھ گئے میری بات۔ ” –
جی بالکل۔ ” وسیم نے شیشی کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔ ” اس میں کیا ہے؟
یہ اُلو کی کلیجی کا پانی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ایک چیز اور ملائی گئی ہے۔
“وہ کیا؟” وسیم نے پوچھا۔
یہ نہیں بتاؤں گا۔ ” روشن علی نے کورا جواب دیا۔
ٹھیک ہے، کوئی حرج نہیں۔ “ وسیم نے کہا۔
وسیم نے روشن علی کی ہدایت کے مطابق اپنی نگرانی میں سارے کام کروا دیئے۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب مکان ہر طرح سے مکمل ہو گیا۔ وسیم نے روشن علی کو مکان کی تکمیل کی اطلاع دی۔ اتفاق کی بات دیکھئے کہ اگلے دن نو چندی جمعرات تھی یہ جمعرات اس کام کیلئے نہایت موزوں تھی۔ وہ جمعرات کی رات کو ٹھیک بارہ بجے کمرے میں داخل ہوئے اور صبح فجر کے وقت کمرے سے باہر آگئے۔ اندر کمرے میں انہوں نے کیا کیا وہ رات انہوں نے کس طرح گزاری اس کے بارے میں انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔ انہوں نے دروازہ بند کیا۔ پھر اسے لاک کیا۔ اور جیب سے ایک کالے رنگ کا تعویذ نکال کر دروازے
کے ہینڈل پر لٹکا دیا اور وسیم کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔
گاڑی میں بیٹھ کر دونوں نے قریبی مسجد میں فجر کی نماز پڑھی۔ پھر انہوں نے راستے میں بتایا۔
میاں صاحب زادے ایک بات کہنا چاہتا ہوں مگر سمجھ میں نہیں آتا کس طرح کہوں ۔
” روشن علی صاحب خیر تو ہے۔ ” وسیم نے پوچھا۔
میاں ہم نے تو بہت سمجھایا مگر وہ مان کر ہی نہیں دیا۔ ” روشن علی نے بتایا۔
کون روشن صاحب؟” و سیم سمجھ نہ سکا۔
وہی کالے کمرے والا ۔ ” روشن علی نے گمبھیر لہجے میں کہا۔
” آپ نے کیا کہا اور اس نے کیا نہیں مانا۔ ” وسیم نے وضاحت چاہی۔
میاں صاحب زادے، میں جانتا ہوں کہ تم نے یہ مکان بہت شوق سے بنوایا ہے مگر تمہیں اس مکان میں رہنا نصیب نہیں ہو گا۔ وہ کالے کمرے والا تمہیں قبول کرنے کو ہر گز تیار نہیں۔ تمہیں یہ مکان ہر قیمت پر فروخت کرنا ہو گا۔ اگر تم نے اس مکان میں رہنے کی ضد کی تو تباہی پھیلے گی۔ ہم اتنا ہی بتا سکتے ہیں۔ پھر اس کی ایک ہدایت اور بھی ہے کہ یہ مکان ایسے لوگوں کو فروخت کیا جائے جن کے افراد خانہ کم ہوں۔ بچے بالکل نہ ہوں ۔ “
عجیب شرط ہے۔ ” وسیم نے اپنا سر پکڑتے ہوئے کہا۔ ” پھر کیا فائدہ ہوا آپ کے وہاں جانے کا جب میں اس مکان میں نہ رہ سکوں گا۔
“فائدہ یہ ہوا کہ تمہارا یہ مکان فروخت ہو جائے گا۔ دوسری صورت میں یہ مکان تعمیر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ زندگی بھر یونہی پڑا رہتا۔ جیسے دائیں بائیں کے پلاٹ پڑے ہیں۔ ان پلاٹوں پر کبھی کوئی مکان تعمیر نہ ہو سکے گا۔ ” انہوں نے انکشاف کیا۔
یہ میرے بھائیوں کے پلاٹ ہیں۔ آپ کچھ کیجئے نا۔
“میں جو کر سکتا تھا وہ کر دیا ہے جو بتا سکتا تھا بتا دیا ہے میاں اب تم جانو تمہارا کام جانے۔ بس ہمیں ہمارے گھر تک چھوڑ دو اتنا کہنے کے بعد وہ بالکل خاموش ہو گئے۔ جب گھر آگیا تو گاڑی سے اتر کراللہ حافظ کہا اور پیچھے پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ روشن علی واضح ہدایت کے باوجود وسیم کے دل میں بے یقینی پیدا ہو گئی۔ اس نے سوچا کہ روشن علی نے آسیب کو کمرے میں تو بند کر ہی دیا ہے۔ اب کمرے والوں کو اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مکان میں وسیم رہ رہا ہے یا سجاد قیام پذیر ہے۔ پھر کچھ عزیز رشتے داروں نے بھی اس کے خیال کی تائید کی۔
تب اس نے اپنے اس محنت سے بنائے، بے انتہا خوبصورت مکان میں شفٹ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔
اپنے اس مکان کے لئے اس نے نیا فرنیچر بنوایا تھا سب سے پہلے اس نے اسے شفٹ کیا۔ پورے گھر میں قالین پہلے ہی بچھائے جاچکے تھے فرنیچر سیٹ کرنے کے بعد گھر ایک دم جگمگا اٹھا۔ دوسرے دن جب صبح وسیم مزید سامان لے کر آیا، اور وہ گھر میں گھسا تو اس کی سٹی گم ہو گئی ہر کمرے میں بچھا ہوا قالین اور فرنیچر کوئلے کی طرح کالا ہو چکا تھا۔ آگ کے آثار دیواروں اور دروازوں پر کہیں موجود نہ تھے لیکن فرنیچر اور قالین جل کر کوئلہ ہو چکے تھے۔ جھٹکا لگا تو وسیم کو روشن علی یاد آئے۔ انہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ وسیم کے رہنے کی صورت میں مکان میں تباہی پھیلے گی۔ تباہی واقعی پھیل چکی تھی۔
وسیم نے فوراً کان پکڑے اور مکان فروخت کرنے کا اشتہار دیدیا۔ افضل نے یہ اشتہار پڑھا تو اس نے فوری رابطہ قائم کیا۔ شام کو مکان دیکھا۔ مکان بے حد شاندار تھا۔ اسے بہت پسند آیا وسیم نے اس سے کوئی بات نہ چھپائی اس مکان بنانے کے سلسلے میں اس پر جو گزری تھی وہ بلا کم و کاست سناڈالی۔ مکان کے بارے میں پوری تفصیل سن کر افضل ذرا ہچکچایا وسیم نے فوراً فورا اسے روشن علی کا فون نمبر دیدیا کہ وہ ان سے مل کر مزید تسلی کرے۔
افضل روشن علی سے ملا۔ اس نے بتایا کہ وہ کالے کمرے والا مکان خریدنا چاہتا ہے گھر میں صرف دو بندے ہیں ایک وہ ہے اور ایک اس کی خالہ، دونوں ہی کا شادی کرنے کا ارادہ نہیں۔ روشن علی کے خیال میں اس مکان کے لئے آئیڈیل پارٹی تھی۔ لہٰذا انہوں نے افضل کو ہدایت کی کہ وہ بلا ہچکچاہٹ اس مکان کو خرید لے انشاء اللہ اس مکان سے اسے کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ اور یوں افضل نے وسیم سے اس مکان لو خرید لیا۔۔ اس مکان میں رہتے ہوئے اب ایک عرصہ ہو گیا تھا ایسی کوئی بات سامنے نہ آئی تھی۔ البتہ روشن علی کی ہدایت پر پورا پورا عمل کیا تھا۔ اس کالے کمرے کے سلسلے میں اپنے کسی تجسس کا اظہار نہ کیا تھا۔ نہ کبھی کسی آنے جانے والے کو اس بارے میں بتایا تھا ویسے بھی یه کمرہ بالکل آخر میں تھا۔ مکان کے پچھلے حصے میں جانے کیلئے اس کے سامنے سے گزرنا پڑتا تھا۔ باہر کا آدمی ادھر شاذ ہی جاتا تھا اور گھر کے لوگوں کو پچھلے حصے میں جانا ہوتا تو وہ بیڈ روم والے دروازے کو استعمال کرتے تھے۔ خالہ فرزانہ کے بیڈ روم کا ایک دروازہ باہر کی طرف کھلتا تھا۔ دردانہ کو بھی اس کمرے کی حقیقت کا پتہ نہ تھا اسے بھی بس اتناہی پتہ تھا کہ اس میں کاٹھ کباڑ پڑا ہے خالہ فرزانہ سے افضل نے کوئی بات نہ چھپائی تھی۔ تانیہ کو اس گھر میں آئے ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ خالہ فرزانہ نے اسے اس کمرے کے بارے میں بتا رکھا تھا۔ تانیہ کے مزاج میں تجسس نہ تھا لہذا اس نے اس کمرے کو بحیثیت اسٹور قبول کر لیا تھا۔ لیکن آج جب تانیہ نے خالہ فرزانہ کو دادا اعظم کے دیئے اس لفافے میں نکلنے والے کاغذ کو دکھایا اور اس کاغذ پر بنی تصویر پر خالہ کی نظر پڑی تو چند لمحوں کے لئے وہ کانپ کر رہ گئیں۔ پھر مجبوراً خالہ فرزانہ کو اس مکان اور کالے کمرے کی روداد کو تانیہ کے گوش گزار کرنا پڑیں۔
اوہ، مائی گاڈ۔ ” تانیہ اس مکان اور کالے کمرے کی کہانی سن کر دبل اٹھی۔ ” یہ سب کیا ہو رہا ہے خالہ ؟
” کچھ سمجھ میں نہیں آرہا بھئی ۔ تمہارا خواب دیکھنا۔ پھر تمہارے دادا اعظم کا تمہیں لفافہ دیتا۔ لفافے میں کالے کمرے کے دروازے کی تصویر نکلنا اور کسی شخص کا پنجرے میں بند الو دے جانا۔ تانیہ اللہ رحم کرے۔ جانے کیا ہونے والا ہے۔ ” خالہ فرزانہ نے بڑی فکر مندی سے کہا۔ اسی وقت دردانہ کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ بے حد گھبرائی ہوئی تھی۔ اس کے منہ سے صرف اتناہی نکل سکا بی بی .. وہ الو”
ہاں کیا ہوا الو کو؟ ” تانیہ نے گھبرا کر پوچھا۔
وہ دردانہ کی حالت دیکھ کر سہم گئی تھی۔
بی بی، وہ مر گیا . اسے کسی نے مار دیا۔ وہاں خون ہی خون پڑا ہے۔ ” دردانہ نے اٹک اٹک کر بتایا۔
” یہ کیسے ہو سکتا ہے دردانہ، یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟ ” تانیہ کا دل کانپ رہا تھا۔
جو میں نے دیکھا ہے، وہی کہہ رہی ہوں، آپ خود چل کر دیکھ لیں۔ ” دردانہ کی حالت خراب تھی۔
کہاں ہے اس کا پنجرہ ؟” تانیہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔ اس کی ٹانگوں میں لرزش تھی۔
وہیں، جہاں آپ نے چھوڑا تھا۔ سیڑھیوں کے نیچے۔ ” دردانہ نے بتایا۔
” تم نے اس کا پنجرہ اٹھا کر باہر نہیں رکھا تھا کیا ؟ ” تانیہ نے سوال کیا۔
نہیں بی بی، میری ہمت ہی نہ ہوئی . میں فوراً کچن میں چلی گئی۔ آپ کو چائے دینے کے بعد – کچن میں کام کرتی رہی۔ کام کرتے کرتے خیال آیا کہ ذرا چل کر دیکھوں کہ وہ الو کس حال میں ہے۔ جا کر دیکھا تو وہاں خون پھیلا ہوا تھا اور وہ پنجرے میں مرا پڑا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے۔ فوراً آپ کو بتانے آگئی۔ ” دروانہ نے جلدی جلدی تمام روداد بیان کر دی۔
چلو، میں دیکھتی ہیں۔ “
تانیہ نے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
میں بھی چلتی ہوں ۔ ” خالہ فرزانہ نے بھی اپنے گھٹنے پکڑ کر اٹھتے ہوئے کہا۔
جب تانیہ سیڑھیوں کے نزدیک پہنچی تو چند لمحوں کے لئے سہم اٹھی۔ دردانہ نے صحیح کہا تھا۔ پنجرے کے چاروں طرف خون ہی خون پڑا تھا۔
اتنا خون ؟ ایک اتنے سے پرندے میں بکرے جتنا کہاں سے آیا بھلا؟ اس الو کا ایک پر کھلا ہوا تھا۔ گردن عجیب طرح سے مڑی ہوئی تھی اور پیٹ میں شگاف تھا۔ یوں جیسے کسی نے تیز دھار کے آلے سے اس کا پیٹ چاک کر دیا ہو۔ اس کا پنجرہ بالکل درست حالت میں تھا۔ دروازہ بند تھا۔ یہ بھی شبہ نہیں کیا جاسکتا تھا کہ پنجرے کا دروازہ کھل جانے کی صورت میں کسی بلی وغیرہ نے اسے بھنجھوڑ ڈالا ہو۔ گھر میں موجود تینوں خواتین بڑی خاموشی سے ابھی اس پرہیبت منظر کا نظارہ کر رہی تھیں کہ اچانک تانیہ کی نظر قدموں کے ان نشانوں کی طرف پڑی جو اُلو کے خون سے نکل کر بر آمدے کی جانب چلے گئے تھے۔
یہ ننگے پیروں کے نشان تھے کیونکہ پیروں کی پانچوں انگلیاں اور ایڑی کا نشان بہت واضح تھا۔
ہائے، یہ پیروں کے نشان کس کے ہیں ؟ ” تانیہ نے خالہ فرزانہ کی طرف سمی نگاہوں سے دیکھا۔
دردانہ کیا تو گھسی تھی، اس خون میں۔ ” خالہ فرزانہ نے پوچھا۔
بڑی بی بی کیا بات کر رہی ہیں۔ میں جاؤں گی خون میں …. میرا تو دیکھ کر ہی دم باہر آرہا ہے۔ “
خالہ قدموں کے یہ نشان تو بر آمدے کی جانب مڑ گئے ہیں۔ آئیے آگے چل کر دیکھیں۔ ” دیکھیں۔ ” تانیہ نے کہا۔
یہ افضل نہیں آیا ابھی تک۔ ” خالہ فرزانہ نے دروانہ کی طرف دیکھا۔
نہیں، بڑی بی بی۔ ” دردانہ نے جواب دیا۔
یہ اس طرف کون جا سکتا ہے۔ تانیہ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔ ” خالہ فرزانہ مضطرب ہو کر بولیں
ڈر تو مجھے بھی لگ رہا ہے خالہ ۔ ” تانیہ نے خالہ کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔
بی بی …. جان تو میری بھی نکل رہی ہے۔ ” دردانہ بولے بنا نہ رہ سکی اور تانیہ کے نزدیک ہوگئی
جس نے اُلو کو مارا ہے، وہ ضرور گھر کے پچھواڑے چھپا بیٹھا ہے۔ “
یہ کیا ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے وہ مار کر جا چکا ہو۔ ” لیکن، یہ کون ہو سکتا ہے ۔ ” سوال اٹھا۔
” کہیں بی بی… وہی کالے کپڑوں والا عجیب سا آدمی تو واپس نہیں آیا۔ ” وردانہ دور کی کوڑی لائی
وہ کون؟” تانیہ کو وہ شخص یاد نہ آیا۔
وہی بی بی، جو یہ پنجرہ دے گیا تھا۔ ” دردانہ نے وضاحت کی۔
اسے اس اُلو کو مارنا ہوتا تو دے کر جانے کی کیا ضرورت تھی۔ ؟ ” سوال ہوا۔
اس بندے کی بھی سمجھ نہیں آئی کہ آخر وہ کون تھا۔ یہ پنجرہ کس خوشی میں دے گیا اور میرے نام سے کس طرح واقف تھا جبکہ میں ایسے عجیب و غریب حلئے کے آدمی کو سرے سے نہیں جانتی۔
” آؤ۔ ہمت کر کے ذرا آگے چلیں۔ ” خالہ فرزانہ نے کہا۔
”بی بی، میں تو ادھر جاؤں گی نہیں۔ پتہ نہیں ادھر کون بیٹھا ہو ۔
“ کوئی بات نہیں تو ادھر ہی کھڑی رہ ۔ ہم آگے جا کر دیکھتے ہیں۔ یہ قدموں کے نشان کہاں تک گئے ہیں۔ “
ٹھیک ہے خالہ ہم دونوں چلتے ہیں؟“
تانیہ اور خالہ فرزانہ ہمت کر کے آگے بڑھیں۔ جب یہ ذرا دور ہو گئیں تو دردانہ کو خوف کے مارے پنجرے کے پاس تنہا کھڑا رہنا مشکل ہو گیا۔ وہ بھی ان دونوں کے پیچھے پیچھے چل دی۔ گھر کی ساری بتیاں روشن تھیں۔ اس روشنی میں، خون میں سنے قدموں کے نشان واضح نظر آرہے تھے۔ راہداری کے گھومتے ہی یہ نشان دور جاتے دکھائی دے رہے تھے جوں جوں یہ آگے بڑھ رہی تھیں قدموں کے نشان مدھم ہوتے جا رہے تھے۔
نہ تو یہ نشان مکان کے پچھواڑے کی طرف گئے تھے، نہ ہی دائیں جانب سیڑھیوں سے نیچے اترے تھے کہ قیاس کر لیا جاتا کہ آنے والا پھلانگ کر خالی پلاٹ کے احاطے میں چلا گیا۔ بلکہ یہ نشان آگے جاکے آخری کمرے کے دروازے پر رک گئے تھے۔
یہ آخری کمرہ ، وہی مقفل کمرہ تھا، جس کے دروازے کے ہینڈل پر کالا تعویذ لٹکا ہوا تھا۔
قدموں کے نشان دروازے پر رک گئے تھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ شخص کمرے کے اندر چلا گیا۔ اور اس نے اندر جاکر دروازہ بند کر لیا ہے لیکن اس کالے کمرے کا دروازہ بند تھا اور اس کے ہینڈل پر تعویذ جوں کا توں لٹکا ہوا تھا۔ قدموں کے نشان یہاں ختم ہوتے دیکھ کر تینوں خواتین کے دل تیزی سے دھڑکنے لگے وہ تینوں غیر ارادی طور پر ایک دوسرے کے قریب آگئیں۔
خالہ، یہ کیا ؟ ” تانیہ نے خالہ کی طرف ڈری ڈری نگاہوں سے دیکھا۔
الہی خیر ۔ ” خالہ فرزانہ اندر سے لرز اٹھیں۔ ”آجا میری بچی آجا۔ “
بی بی، یہ تو اسٹور میں گھس گیا ہے۔ ” دردانہ نے اپنی رائے پیش کی۔ اسے اس بند کرے داستان معلوم نہ تھی۔ ورنہ وہ اس گھر کی ملازمت چھوڑ کر کب کی جاچکی ہوتی۔ خاله فرزانہ نے تانیہ کا ہاتھ پکڑا اور اپنی تکلیف کے باوجود جس قدر تیز چل سکتی تھیں، چلیں۔ انہوں نے اپنے کمرے میں آکر ہی دم لیا۔ اتنی سی ہی دیر میں وہ بری طرح ہانپنے لگی۔ اشارے سے انہوں ۔ پانی مانگا۔ دردانہ نے ان کے کمرے میں رکھے ہوئے چھوٹے سے فریج میں سے پانی نکال کر انہیں پلایا۔ پانی پی کر انہوں نے گہرا سانس لیا۔
یہ اس گھر میں کیا شروع ہو گیا ہے ۔ ” خالہ فرزانہ نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔
میں کیا کہوں خالہ ؟؟ جواب دیا گیا۔
آج صبح ہی سے میری بائیں آنکھ پھڑک رہی تھی۔ مجھے پتہ تھا آج ضرور کچھ ہونے والا ہے۔ “
خالہ کا وہم جاگ اٹھا۔
خالہ آنکھ وانکھ پھڑکنے سے کچھ نہیں ہوتا، یہ محض اتفاق ہے۔ “
خالہ فرزانہ نے جواب دینے کے لئے ابھی منہ کھولا ہی تھا کہ گھر کی گھنٹی بجی۔
افضل آگیا۔ ” خالہ فرزانہ نے خوش ہو کر کہا۔
” جا، دردانہ جاکر دروازہ کھول۔ “
یہ انہوں نے گھنٹی کیوں بجائی ہے، گاڑی کا ہارن کیوں نہیں دیا۔ ” تانیہ نے سوال کیا۔
ہاں تمہاری یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ ” خالہ فرزانہ بولیں۔ ” دردانہ دیکھ تو کون آیا ہے؟”
دروازے پر افضل ہی تھا، گاڑی میں کچھ خرابی تھی، اس لئے وہ گیراج میں چھوڑ آیا تھا، خود ٹیکسی سے آگیا تھا۔ دردانہ نے اس کی آواز پہچان کر چھوٹا گیٹ کھول دیا۔ وہ اندر داخل ہوا۔
خالہ اور تانیہ آگئیں ۔ ” اس نے اندر داخل ہوتے ہی پوچھا۔
جی صاحب، وہ عصر کے وقت آگئی تھیں۔ ” دردانہ نے بتایا۔
خالہ کہاں ہیں ؟ ” سوال ہوا۔
اپنے کمرے میں ہیں۔ ” دردانہ نے بتایا۔
” صاحب بڑی گڑ بڑ ہو گئی ہے ۔
” کیا ہوا دردانہ، خیر تو ہے؟” افضل خالہ فرزانہ کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ ”تانیہ اوپر ہیں؟ “
نہیں جی … بی بی، بڑی بی بی کے پاس ہیں ان کے کمرے میں۔ “
جب وہ سیڑھیوں کے پاس پہنچا تو ایک پنجرہ اور اس کے چاروں طرف تازہ تازہ خون دیکھ کر ایک دم بوکھلا گیا۔
”یہ کیا ہے ” پھر اس کی نظر پنجرے کے اندر الو پر پڑی۔ ” یہ پنجرہ کہاں سے آیا؟ اور اسںپنجرے میں یہ کونسا پرندہ ہے۔ اسے کس نے مارا؟”
صاحب جی۔ اندر چلیں۔ بڑی بی بی کے پاس۔ ” دردانہ نے اتنے سارے سوال کا ایک جواب دیا۔
افضل جب خالہ فرزانہ کے کمرے میں پہنچا تو دونوں کے چہرے پر ہوائیاں اُڑی ہوئی تھیں۔ خالہ فرزانہ بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھی تھیں۔ تانیہ ان کے قدموں میں قالین پر بیٹھی تھی۔ افضل بھی تانیہ کے ساتھ بیٹھ گیا اور فکر مند لہجے میں بولا۔ ” یہ باہر کیا ہوا ہے ؟ “
افضل، میں نے تمہیں کیا بتایا تھا؟” خالہ فرزانہ نے سوال کیا۔
کیا بتایا تھا، خالہ مجھے تو یاد نہیں؟” افضل نے جواب دیا۔
صبح میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ میری بائیں آنکھ پھڑک رہی ہے۔ خدا خیر کرے ۔ ” خالہ نے یاد دلایا۔
ہاں، کہا تو تھا۔ ” افضل کو یاد آگیا۔
بس پھر دیکھ لو ۔ ” خالہ فرزانہ نے افضل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
یہ سب کیا چکر ہے۔ یہ مرا ہوا پرندہ ، یہ خون، ی پنجرہ ؟” افضل حیرت زدہ تھا۔ ”تانیہ آپ کچھ بتائیں۔
” جی بھائی، میں آپ کو ساری بات بتاتی ہوں ۔
” اور پھر بہانے سے دردانہ کو باہر بھیج دیا۔ اور پھر ساری داستان افضل کے گوش گزار کر دی۔ یہ کہانی تانیہ کے خواب سے شروع ہوتی تھی. پہلے اس نے اپنا خواب بتایا۔ اس کے بعد دادا اعظم کے بند لفافے کا ذکر کیا۔ پھر ایک پر اسرار شخص کا الو کا پنجرہ دے جانے کا تذکرہ کیا۔ پھر یہ بتایا کہ اس لفافے میں سے کیا نکلا۔ اس کے بعد اُلو کے خون کی کہانی سنائی اور یہ بتایا کہ خون آلود قدموں کے نشان کہاں جا کر ختم ہوئے ہیں۔ افضل کے ہوش اڑ گئے۔ چند گھنٹوں میں بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی۔ اسے ان واقعات کی زیادہ فکر نہ تھی، لیکن یہ بات کالے کمرے پر ختم ہو رہی تھی۔ سب سے تشویش ناک بات یہ تھی۔ افضل نے جب سے یہ مکان خریدا تھا اور اس مکان کو خریدے ہوئے سات آٹھ سال ہو گئے تھے۔ ابھی تک کوئی خوف میں مبتلا کر دینے والا واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ اس کالے کمرے کو وہ سرے سے بھلا چکا تھا بلکہ وہ کبھی کبھی سوچتا تھا کہ سابقہ مالک مکان کوئی توہم پرست شخص تھا خواہ مخواہ خوف میں مبتلا ہو کر اس نے سستے داموں اپنا مکان فروخت کر دیا۔ یہاں آسیب واسیب نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
لیکن تانیہ کی اس ہوشربا داستان نے اس کے ہوش واقعی اڑا دیئے تھے۔ وہ خالہ فرزانہ کے کمرے سے نکل کر کالے کمرے کے سامنے پہنچ گیا۔ اس نے ان خون آلود قدموں کے نشان کو بغور دیکھا وہ واقعی اس دروازے پر آکر ختم ہو گئے تھے۔ پھر وہ ان قدموں کو غور سے دیکھتا ہوا پنجرے تک پہنچا۔ اس نے مرے ہوئے الو پر ایک نظر ڈالی اور پھر سے ان قدموں کے نشان کے تعاقب میں چلا۔ تانیہ اس کے پیچھے چل رہی تھی۔ خالہ فرزانہ اپنے کمرے سے نہیں نکلی تھیں۔
تانیہ، کیا آپ نے ان قدموں کے نشان کو غور سے دیکھا ہے ۔ ” افضل نے سوال کیا۔
جی دیکھا تو ہے، اس شخص نے جوتے نہیں پہنے ہوئے ننگے پاؤں ہے۔ یہی بات کہنا چاہتے ہیں۔ “
ہاں، یہ بات تو ٹھیک ہے کہ یہ شخص ننگے پاؤں ہے ۔ ” افضل نے خون آلود پیر کے نشان کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ” اس کے علاوہ ایک بات اور ہے ۔
” وہ کیا بھائی ؟ ” تانیہ نے پر تجسس لہجے میں دریافت کیا۔
یہ ایک پیر کا نشان ہے۔ “ افضل نے بتایا۔
ایک پیر کا نشان ؟ ” تانیہ کچھ الجھ کی گئی۔ ”میں سمجھی نہیں بھائی ۔ “
یہ شخص ایک ٹانگ کا ہے۔ “ افضل نے انکشاف کیا۔
یہ سن کر تانیہ کے جسم میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ایک ٹانگ کا ۔ ” وہ سہم کر بولی۔ ” یہ آپ نے کیسے پہچانا ۔ “
یہ بات بس اتفاق سے میرے ذہن میں آگئی۔ ” افضل نے تانیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
یہاں سے وہاں تک جتنے بھی قدموں کے نشان ہیں۔ یہ سب ایک پیر کے ہیں اور یہ دایاں پیر ہے، کیونکہ ان نشانوں میں انگوٹھے کا نشان پیر کے بائیں جانب ہے۔ اگر یہ دونوں پیروں کے نشان ہوتے تو انگوٹھے کا نشان پیروں کے دونوں جانب ہوتا۔ اس شخص کا بایاں پیر نہیں ہے۔ “بھائی آپ نے خوب پہچانا، واقعی یہ سارے کے سارے ایک پیر کے نشان ہیں۔ ” تانیہ نے افضل کو سراہتے ہوئے کہا۔
” لیکن اب ایک سوال اٹھتا ہے۔ “
وہ کیا؟” افضل نے پوچھا۔
اگر یہ شخص ایک ٹانگ کا ہے تو یہ پھر کسی بیساکھی یا لاٹھی کے سہارے چلتا ہو گا۔ “
ہاں۔ صاف ظاہر ہے۔ ” افضل نے تائید کی۔
تو پھر پیر کے ساتھ بیساکھی کا نشان کیوں نہیں ہے؟”
ہاں واقعی۔ ” افضل نے اثبات میں گردن ہلائی۔ ” یہ بات بھی غور طلب ہے؟
” بھائی ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس کی بیساکھی یا لاٹھی خون آلود نہ ہوئی ہو۔ ” تانیہ نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا۔
ہاں، یہ بھی ہو سکتا ہے ۔ “ افضل نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
اس مکان کی کہانی سناتے ہوئے سابقہ مالک مکان نے ایک ملنگ قسم کے شخص کا تذکرہ کیا تھا جو چاندنی راتوں میں چھ فٹ اونچی دیوار پر ایک ٹانگ سے رقص کیا کرتا تھا۔ اس وقت وہی ایک ٹانگ کا ملنگ افضل کو یاد آگیا تھا۔ اس نے چاہا کہ وہ تانیہ کی توجہ اس ملنگ کی طرف دلائے لیکن وہ کچھ سوچ کر رہ گیا۔
اب یہ معاملہ خاصا سنگین صورت اختیار کر گیا تھا۔ لیکن صورتحال کی اس سنگینی کو وہ تانیہ کے سامنے گہری کرنا نہیں چاہتا تھا، اس لئے اس نے دردانہ کو آواز دے کر حکم دیا۔
” دردانہ سارے کام چھوڑ کر یہ خون صاف کر دو۔ ” صاحب جی اگر آپ پنجرے سے اس اُلو کو نکال کر باہر پھینک دیں تو میں یہ پنجرہ بھی دھو دوں ۔ “ وہ بولی۔
ٹھیک ہے۔ ” افضل سمجھ گیا کہ دردانہ اس مرے ہوئے الو سے ڈر رہی ہے۔ وہ فوراً آگے بڑھا اس نے پنجرے کو پیر سے ذرا آگے کھسکایا۔ خشک فرش پر بیٹھ کر اس نے پنجرے کا دروازہ کھولا اور ہاتھ ڈال کر الو کا پھیلا ہوا پر پکڑ کر افضل نے اس الو کو باہر کھینچ لیا۔ اس نے سوچا تھا کہ اس مرے ہوئے اُلو کو برابر والے خالی پلاٹ کی طرف اچھال دے گا۔ ابھی وہ اُلو کا پر پکڑ کر کھڑا ہی ہو رہا تھا کہ ایک دم زبردست پھڑ پھڑاہٹ کی آواز آئی۔ اُلو کا بازو افضل کے ہاتھوں سے نکل گیا اور اس منظر نے سب کو دم بخود کر دیا۔ وہ الو افضل کے ہاتھ میں بری طرح پھڑ پھڑایا تھا جیسے ہی افضل کی گرفت ڈھیلی ہوئی، وہ اس کے ہاتھ سے نکل کر اڑتا ہوا چھت کی طرف پرواز کر گیا۔
تانیه چیخ مار کر پیچھے ہٹی۔ دردانہ بھی بری طرح چلائی ۔ افضل نے اپنے حواس پر قابو رکھا وہ ایک دم قیقه مار کر ہنسا۔
” کم بخت زندہ تھا۔ “
” یہ کیا ہوا ؟ ” تانیہ چکرا گئی تھی۔
کچھ نہیں ہوا۔ ” افضل نے مسکراتے ہوئے کہا۔ “ہاتھوں کے طوطے اڑنے کے بجائے آج ہاتھوں کے الو اڑ گئے ہیں ؟“
آپ کو مذاق سوجھا ، میری جان پر بنی ہے۔
” دردانہ، اب فٹافٹ یہ خون دھو ڈالو ۔ ” افضل نے تانیہ کی بات پر کوئی توجہ نہ دی اور بغیر مزید بات کئے وہ اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔ یہ دوسرے دن شام کی بات ہے۔ تانیہ سامنے والے گھر میں اپنی دوست حمیرا سے ملنے گئی ہوئی تھی۔ افضل اپنے دفتر میں تھا۔ گھر پر خالہ فرزانہ اور دردانہ کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ یہ وہی وقت تھا کہ گھر کی گھنٹی بجی۔
دردانہ نے چھوٹا گیٹ کھول کر باہر جھانکا تو اس کا اوپر کا سانس اوپر نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔ سامنے وہ پراسرار شخص کھڑا تھا۔ اس وقت وہ جیسے غصے میں تھا۔ اس نے دردانہ کو دیکھ کر بڑے خشک لہجےمیں کہا۔ ”ہمارا پرندہ واپس کر دو۔۔۔
” پرنده اچھا وہ اُلو؟ وہ تو جی مر گیا۔” دردانہ نے جلدی سے کہا۔ “نہیں جی وہ تو اڑ گیا۔۔”
ترکش کو ایک امانت دی گئی تھی، بڑے افسوس کی بات ہے کہ وہ اس کی حفاظت نہ کر سکی۔
” ہیں جی۔ ” دردانہ منہ کھول کر رہ گئی۔
وہ آزاد ہو گیا ہے اور یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ ” اس پراسرار شخص نے بدستور تیکھے لہجے میں کہا۔
اپنی ترکش بی بی کو بلاؤ ۔
” ہیں جی میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟” دردانہ بوکھلا گئی تھی۔
تمہاری تانیہ بی بی کہاں ہیں ؟ “
” وہ تو جی گھر پر نہیں ہیں۔ “
جانتا ہوں . ان سے کہنا کہ اب میری ملاقات ان سے صحرا میں ہوگی۔ لاؤ وہ خالی پنجرہ میرے حوالے کر دو۔
” اچھا جی، آپ ٹھہریں میں لاتی ہوں ۔ ” دردانہ بہت تیزی سے وہ پنجرہ اٹھالائی ۔ وہ نزدیک ہی دیوار کے ساتھ رکھا تھا۔ ” یہ لیں جی۔ “
اس پر اسرار شخص نے وہ پنجرہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ پھر ہاتھ اونچا کر کے پنجرے کو بڑی حسرت بھری نظروں سے دیکھا اور جانے کے لئے مڑا۔
” وہ جی۔ آپ کا نام کیا ہے ؟ بی بی سے میں کیا کہوں کہ کون آیا تھا۔ “
کالا چراغ ۔ ” اس پراسرار شخص نے جاتے جاتے مڑ کر کہا۔ ” میرا پیغام دینا مت بھولنا۔ “۔۔

“نہیں جی۔ ” دردانہ نے یقین دلایا۔
ہاں، ان سے کہنا کہ کوئی صحرا میں ان کا منتظر ہے۔ یہاں وقت برباد نہ کریں۔
“ اچھا جی، کہہ دوں گی۔ ” دردانہ نے بڑی فرمانبرداری سے کہا۔
پھر وہ خالی پنجرہ گھماتا ہوا، تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ دردانہ نے فوراً گیٹ بند کر لیا۔ کچھ دیر وہ گیٹ بند کئے خاموشی سے کھڑی رہی۔ پھر اس نے گیٹ کھول کر باہر جھانکا۔ وہ جاچکا تھا۔ دردانه فوراً سڑک پار کر کے سامنے والے گیٹ پر پہنچی۔ جلدی سے اس نے کال بیل پر ہاتھ رکھا اور کسی کے گیٹ پر آنے کا بے چینی سے انتظار کرنے لگی۔ چند لمحوں بعد گیٹ حمیرا کے ملازم نےکھولا۔
ہاں، کیا ہے؟“ اس نے پوچھا۔
بی بی کہاں ہیں، تانیہ بی بی۔ ” دردانہ بولی۔
اندر ہیں۔ ” اس نے جواب دیا۔
پھر جلدی سے ہٹ میرے سامنے سے، پورا گیٹ گھیر کر کھڑا ہو گیا ہے۔ ” دردانہ نے اس ملازم کو ڈانٹا اور بے دھڑک اندر چلی گئی۔ تانیہ نے دردانہ کو اندر آتے دیکھا تو اس کا ماتھا ٹھنکا۔ وہ فوراً بولی۔
“کیا ہوا دردانہ ؟ خیر تو ہے۔ “
ہاں جی، بالکل خیر ہے … وہ جی آپ کو بڑی بی بی بلا رہی ہیں۔
” کوئی خاص بات ہے یا مجھے بیٹھے ہوئے کافی دیر ہو گئی ہے؟” تانیہ نے سوال کیا۔
خاص بات کا تو مجھے پتہ نہیں، بس انہوں نے کہا ہے بی بی کو فوراً بلا لاؤ ۔ “
اچھا ، ” تانیہ فوراً کھڑی ہو گئی۔
“حمیرا، میں چلتی ہوں، تم آنا۔ “
ہاں، میں ضرور آؤں گی۔ ” حمیرا اسے گیٹ تک چھوڑنے آئی۔
جب وہ دونوں سڑک پار کر کے اپنے گیٹ کے نزدیک آگئیں تو دردانہ نے تانیہ کے قریب ہو کر بڑی راز داری سے کہا۔ ”بی بی، وہ آیا تھا۔ ” .
” وہ کالے کپڑوں والا ؟ “
ہاں جی، پر آپ کو کیسے پتہ چل گیا۔ “
تیری شکل دیکھ کر، ہوائیاں جو اڑی ہوئی ہیں۔ “
وہ جی خالی پنجرہ لے گیا ہے اور آپ کے نام ایک پیغام دے گیا ہے۔ “ یہ کہہ کر دردانہ نے اس کے ساتھ ہوئے مکالمے کو پوری تفصیل سے دہرا دیا ہے
دردانہ کی زبانی، ملاقات کی پوری روداد سن کر تانیہ فکرمند ہو گئی۔ وہ بات کرتی ہوئی اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ اس وقت وہ ایک کرسی پر بیٹھی تھی اور دردانہ اس کے بیڈ کے ایک کونے پر بیٹھی تھی۔
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کون شخص ہے جو اچانک ہی کہیں سے نازل ہو جا تا نام بھی بڑا عجیب تھا۔ کالا چراغ بھلا یہ بھی کوئی نام ہوا۔ چراغ سے تو روشنی پھوٹتی ہے اور روشنی کالی کب ہوتی ہے۔ وہ اسے پیغام دے گیا تھا کہ اب صحرا میں ملاقات ہو گی۔ اسے صحرا میں جانے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر کوئی اس کا صحرا میں منتظر ہے تو پھر زندگی بھر وہ انتظار ہی کرتا رہے گا وہ یہاں آرام سے رہ رہی تھی۔ اسے صحرا میں بھٹکنے کی بھلا کیا ضرورت تھی۔
وہ یہ سب سوچ رہی تھی اور نہیں جانتی تھی کہ وہ جو سوچ رہی ہے غلط سوچ رہی ہے۔ آنے والا وقت اس کے لئے جو جال بن رہا تھا، اس جال میں پھنس کر اس نے جانے کہاں کہاں بھٹکنا تھا۔ دردانه، تانیہ کو خاموش بیٹھا دیکھ کر کھڑی ہو گئی۔
”بی بی، میں نیچے جارہی ہوں۔ ذرا کچن دیکھوں، آپ کے لئے کوئی خاص چیز تو نہیں پکنی۔؟؟ “
نہیں دردانہ، جو پکاؤ گی وہ کھالوں گی “
تانیہ نے سادگی سے جواب دیا۔
مجھے پتہ ہے بی بی۔ ” دردانہ نے ہاتھ نچا کر کہا۔ ” مجھے حسرت ہی رہی کہ کبھی آپ اپنی پسند کی ڈش بتائیں “

تانیہ جواب میں مسکرا کر رہ گئی۔ وہ کیا جواب دیتی بھلا۔ دردانہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔ تانیہ کو دراصل کھانے پینے کا کوئی خاص شوق نہ تھا جو بھی سامنے آتا کھا لیتی۔ البتہ کوئی پسند کی چیز ہوتی تو تھوڑا سا زیادہ کھا لیتی۔ دردانہ کے نیچے چلے جانے کے بعد وہ کرسی سے اٹھی۔ ٹیلیفون اٹھا کر بیڈ پر لے آئی اور آلتی پالتی
مار کر بیٹھ گئی۔ اس نے افضل سے بات کرنے کی ٹھانی۔ نمبر ملا کر اس نے ریسیور کان سے لگا لیا۔ دو گھنٹیاں بجنے کے بعد کسی نے ریسیور اٹھایا۔ ادھر سے ” ہیلو“ کہنے والا شخص افضل نہیں تھا اس کا نائب شاہد تھا۔ بھائی کہاں ہیں ؟ ” تانیہ نے اس کی آواز پہچان کر سوال کیا۔
شاہد، تانیہ کی آواز پہچانتا تھا، اس لئے وہ فوراً سمجھ گیا کہ کس بھائی کو پوچھا جا رہا ہے، اس نے بتایا۔
جی وہ تو چلے گئے ۔ “
” کہاں ؟ ” تانیہ نے پوچھا۔
کسی صاحب سے ملنے پاکستان کوارٹر گئے ہیں وہاں سے گھر چلے جائیں گے۔ “ شاہد نے بتایا۔
” اچھا ٹھیک ہے۔ ” یہ کہہ کر تانیہ نے فون بند کر دیا۔

اچانک ہی بارش شروع ہو گئی اور وہ بھی بہت تیز۔ بڑی موٹی موٹی بوندیں پڑنا شروع ہوئیں اور پھر موٹی بوندیں موسلا دھار بارش میں تبدیل ہو گئیں۔ تانیہ کو بارش بہت پسند تھی ۔ وہ بارش کا نظارہ کرنے کے لئے پچھلی گیلری میں چلی گئی۔ پیچھے جو مکان تھا اس کے احاطے میں ایک آم کا درخت لگا ہوا تھا۔ جس سے مکان کا پچھلا حصہ کافی ڈھک گیا تھا۔ آم کے درخت پر پڑتی ہوئی بوندیں اور ہوا کے زور پر شاخوں کا ہلنا تانیہ کو بہت بھلا لگتا تھا وہ گیلری میں کھڑی بس یہی نظارہ کیا کرتی یا پھر وہ سڑک کی طرف کھلنے والی کھڑکی کی طرف آکر کھڑی ہو جاتی اور سامنے بنے مکانوں کو دیکھا کرتی۔اس مکان میں نظارے بہت تھے کیونکہ یہ تین طرف سے کھلا ہوا تھا۔ ایک طرف خالی پلاٹ تھا تو دوسری طرف ایک ایسا زیر تعمیر مکان تھا جس کی صرف بنیادیں بھری ہوئی تھیں۔ ان دونوں پلاٹوں کے بعد اگرچہ مکان بنے ہوئے تھے لیکن وہ خالی پلاٹ اور زیر تعمیر مکان والی سائیڈ پر بہت کم جاتی تھی۔ ان خالی زمینوں کو دیکھ کر اس کے دل میں جانے کیوں ویرانی سی پھیل جاتی تھی۔ آدھے گھنٹے تک دھواں دھار بارش ہونے کے بعد کچھ ہلکی ہو گئی۔ وہ پھر اپنے کمرے میں آئی۔ اس نے کمرے میں آکر میوزک لگا دیا اور بیڈ پر نیم دراز ہو گئی۔ کچھ دیر کے بعد دردانہ کمرے میں داخل ہوئی، اس کے ہاتھ میں ڈھکی ہوئی ٹرے تھی۔
پکوڑے اور چائے ۔ ” دردانہ نے نعرہ لگایا۔
واه، دردانہ واہ، تمہارا کوئی جواب نہیں۔ ” تانیہ نے خوش ہو کر کہا۔ دردانہ نے ٹرے بیڈ پر ہی رکھ دی۔ تانیہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پکوڑے بہت مزے کے تھے۔ پھر برسات کے اس موسم میں ان پکوڑوں کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔
بی بی، پکوڑے اور لاؤں۔ ” وروانہ نے پوچھا۔
تانیہ نے پکوڑوں سے بھری پلیٹ پر نظر ڈالی ابھی اس نے دو تین پکوڑے کھائے تھے۔ پکوڑے اسے بہت پسند تھے۔ لیکن اتنے پکوڑے وہ کہاں کھا سکتی تھی بھلا۔ وہ ہنس کر بولی ۔ ” دردانہ خیر تو ہے۔؟؟ یہاں تجھے میرے علاوہ کوئی اور بھی نظر آرہا ہے۔ “
ہائے بی بی، ایسا نہ بولیں، مجھے بہت ڈر لگتا ہے ۔ ” وہ جلدی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ میں چلتی ہوں، ابھی بڑی بی بی کو دینے ہیں پکوڑے۔ صاحب تو ابھی آئے نہیں۔ آجاتے تو وہ بھی کھا لیتے گرم گرم “
دردانہ کے جانے کے بعد وہ یونہی دروازے کو دیکھتی رہی۔ دروازے کو دیکھتے دیکھتے اسے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی اندر آیا ہے۔ یہ اس کی عجیب عادت تھی وہ بیٹھے بٹھائے اپنے ارد گرد کسی اور مخلوق کو محسوس کرنے لگتی۔۔ وہ اکثر یہ بات کہتی بھی تھی کہ گھروں میں انسانوں کے ساتھ کوئی اور مخلوق بھی رہتی ہے۔ اس مخلوق کے بارے میں اس کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہ تھا۔ ٹھوس تو دور کی بات ہے اس کے پاس کوئی سیال ثبوت بھی نہ تھا۔ وہ بس پانی پر لکیر بناتی تھی اور اسی ان دیکھی لکیر کے ذریعے وہ دریا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتی تھی وہ ایک طاقتور تخیل کی مالک تھی۔ بے حد حساس ہونے کی بناء پر دیوار پر رینگتی چھپکلی کی سرسراہٹ بھی محسوس کر لیتی تھی۔ کبھی کبھی لوگوں کو ڈرانے کے لئے وہ اس طرح کی بات بھی کرتی۔
بھئی دیکھو، کرسی پر بیٹھنے سے پہلے پوچھ لیا کرو، کبھی کوئی اس پر بیٹھا نہ ہو۔ سننے والا اگر وہمی مزاج کا ہوتا تو بیٹھتے بیٹھتے رک جاتا اور اگر ذرا بہادر ہوتا تو اس کے جملے سے محظوظ ہوتا اور کرسی پر بیٹھی اس ان دیکھی شخصیت سے یہ کہہ کر کہ “بھائی تم اٹھ جاؤ اب مجھے بیٹھنا ہے۔ ” ہنستا ہوا بیٹھ جاتا
غیر انسانی مخلوق کے بارے میں سوچتے سوچتے اس کا دھیان اس بند کمرے کی طرف چلا گیا۔ بے اختیار اسکا جی چاہا کہ وہ اٹھے، اس کمرے کا تالا کھولے اور اندر چلی جائے۔ اندر جا کر دیکھے تو سہی اسمیں کیا ہے۔ اُلو کا خون، قدموں کے نشان، زخمی الو کا اڑ جانا، دادا اعظم کا لفافہ، بند کمرہ اس پر لٹکا ہوا تعویذ، ان سب چیزوں نے اسے سخت الجھن میں ڈال دیا تھا، اس کی پر تجسس طبیعت اسے اس بات پر اکسا رہی تھی کہ وہ کسی طرح اس کالی دیواروں والے کمرے میں داخل ہو جائے۔ اسے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کمرے کی چابی کس کے پاس ہے۔ اس نے سوچا اس سلسلے میں خالہ فرزانہ سے بات کرنا چاہئے۔ چابی اگر اس گھر میں ہوئی تو انہیں ضرور معلوم ہو گا کہ کہاں ہے۔ یہ سوچ کر اس نے جلدی جلدی دو چار پکوڑے اور کھائے، چائے پی اور فوراً نیچے بھاگی۔ خالہ فرزانہ کے بیڈ روم میں پہنچی تو اس نے دیکھا کہ افضل بیٹھا ہوا خالہ سے باتیں کر رہا ہے۔ اسے
دیکھ کر دونوں نے خوش آمدید کہا۔
“آؤ تانیہ ۔ ” خالہ فرزانہ نے مسکرا کر کہا۔
بارش کا مزہ لے رہی ہیں آپ ؟” افضل نے ہنس کر پوچھا۔
ہاں، بھائی، مجھے بارش بہت پسند ہے، میرا جی چاہتا ہے، ایسی بارش میں نہاؤں ۔ “
تو نہاؤ، کس نے روکا ہے۔
” ارے، افضل کیا بات کر رہے ہو ؟؟ خالہ فرزانہ نے تنبیہہ کی۔ ” ہرگز نہیں، بیمار ہو جاؤگی۔”
سن لیا بھائی ۔ “ تامیہ نے ہنس کر کہا۔
ارے تانیہ اچھا ہوا، تم آگئیں، میں تمہیں بلوانے والی تھی۔ ” خالہ فرزانہ نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ”ابھی میں افضل سے یہی بات کر رہی تھی ۔ “
“کیا خالہ ؟”
وہ در دانه بتارہی تھی کہ وہ موا کالے کپڑوں والا پھر آیا تھا۔ اپنا الو واپس لینے۔ ؟؟”
” الو تو اسے ملا نہیں، خالی پنجرہ لے گیا اور ساتھ میں آئندہ ملاقات کا وقت دے گیا۔ “ افضل نے معنی خیز تبسم کے ساتھ کہا۔
جی بھائی، وہ کہہ گیا ہے کہ صحرا میں ملے گا۔ ” تانیہ نے بڑی سادگی سے کہا۔ ” پتہ نہیں کون شخص ہے ، میں نے تو آج تک اسے دیکھا نہیں۔
” اب تو اس سے ملنے کے لئے صحرا کا رخ کرنا پڑے گا۔ “ افضل نے کہا۔
اللہ نہ کرے۔ افضل تم فضول باتیں بہت کرتے ہو ۔ “ خالہ فرزانہ نے افضل کو پیار سے ڈانٹا۔

” بھائی، ایک بات تو بتائیں۔ ” تانیہ نے موضوع تبدیل کیا۔
” جی فرمائیے۔ ” افضل نے پوچھا۔
اس کالی دیواروں والے کمرے کی چابی کہاں ہے؟” تانیہ نے سوال کیا۔
کیوں خیریت؟” خالہ فرزانہ ایک دم سہم گئیں۔ “اے تانیہ، یہ اچانک تمہیں چابی کا خیال کیسے آیا؟؟”
ایسے ہی پوچھ رہی ہوں ۔ ” تانیہ نے سادگی سے کہا۔ چابی کہاں ہے۔ مجھے خود یاد نہیں ہے۔ وسیم صاحب نے چابی مجھے دی بھی تھی یا نہیں۔ سات آٹھ سال ہو گئے مکان خریدے۔ اب کچھ یاد نہیں ویسے بھی جب یہ بات وسیم نے مجھے بتادی تھی کہ اس کمرے کو کبھی کھولنا نہیں ہے تو پھر میں نے اس کمرے کی چابی کے بارے میں زیادہ تردد نہ کیا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ وسیم نے چابی مجھے دی ہی نہیں۔
” ہاں، نہیں دی تھی چابی، ویسے ہم نے مانگی بھی نہیں۔ ” خالہ فرزانہ نے تائیدی بیان دیا۔
چابی کے بارے میں اس انکشاف نے کہ وہ گھر میں موجود نہیں، بڑا مایوس کیا۔ کمرے میں جانے، اسے اندر سے دیکھنے کی خواہش میں برابر اضافہ ہو رہا تھا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی باقاعدہ اسکے کان میں آکر کہتا تھا کہ “آؤ، تانیہ، چلو وہ کمرہ دیکھ لو۔ “
رات کوٹی وی دیکھتے دیکھتے اس کا دل اچاٹ ہو گیا تو اس نے ٹی وی بند کر کے ڈیک کھول لیا۔ کمرے کا دروازہ بند تھا۔ وقفے وقفے سے بارش ہو رہی تھی۔ بجلی کی چمک کھڑکی کے پردوں سے دکھائی دے جاتی تھی۔ بادل گرج رہے تھے۔ خوف کی ایک ہلکی سی لہر اس کے جسم میں سرایت کر رہی تھی۔ کمرے کی لائٹ روشن تھی۔ دھیمی آواز میں موسیقی بج رہی تھی یہ اس کا پسندیدہ کیسٹ تھا۔ اسے سنتے سنتے وہ سوجاتی تھی۔
اب بھی ایسا ہی ہوا۔ کیسٹ سنتے سنتے جانے کب اسے نیند آگئی۔ رات کے دو بجے کا عمل ہو گا۔ بارش بند ہو چکی تھی۔ اچانک اس کی آنکھ کھلی۔ اس کا گلا خشک ہو رہا تھا۔ اس نے اٹھ کر سائیڈ ٹیبل پر رکھے جگ سے پانی نکالنا چاہا مگر جنگ تو خالی تھا آج دردانہ پانی رکھنا بھول گئی تھی۔ اس نے جگ اٹھایا اور دروازہ کھول کر سیڑھیاں اترنے لگی تا کہ نیچے رکھے فریج سے پانی لے کر آجائے۔ نیچے پہنچی تو اس کا خیال بدل گیا۔ اس نے جگ ڈائٹنگ ٹیبل پر چھوڑا اور اس بند کمرے کی طرف بڑھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ابھی کچھ دیر پہلے پیاس کی وجہ سے اس کے گلے میں کانٹے سے چبھ رہے تھے ، مگر اب پیاس کا نام ونشان بھی نہ تھا۔ وہ بڑے اطمینان سے اس پراسرار کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔ جب وہ اس کمرے کے نزدیک پہنچی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ خالہ فرزانہ پہلے ہی وہاں موجود ہیں۔ آؤ، تانیہ آؤ مجھے معلوم تھا تم یہاں ضرور آؤ گی۔ ” ابھی وہ کوئی جواب دینے کا سوچ رہی تھی کہ خالہ فرزانہ بڑی تیزی سے اس کی طرف لپکیں۔ جیسے وہ اسے مارنا چاہتی ہیں۔
” بیوقوف لڑکی، کیوں اپنی زندگی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہے۔ ٹھہر جا میں تجھے بتاتی ہوں ۔ “
خالہ کو اپنی طرف لپکتے دیکھ کر وہ پلٹ کر بھاگی، پھر وہ کسی چیز سے الجھ کر گری تو اس کی چیخ نکل گئی ۔
اس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو اپنے کمرے میں، اپنے بیڈ پر پایا، اس کا مطلب تھا کہ وہ خواب دیکھ رہی تھی، اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھے جگ پر نظر ڈالی ۔ وہ پانی سے بھرا ہوا تھا اس نے اٹھ کر تھوڑا سا پانی پیا۔ اس کے حواس بحال ہوئے تو وہ اٹھ کر واش روم گئی۔ وہاں سے نکلی وہ خیال جو شام سے اس کے دل میں بار بار آرہا تھا۔ اچانک اس نے پھر سر اٹھایا۔ کوئی اسے اس بات پر اکسارہا تھا کہ وہ اٹھ کر نیچے جائے۔ باہر اب بھی ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ اور تب وہ بے اختیار ہو کر اٹھی اور کسی سحر زدہ معمول کی طرح آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترنے لگی۔ رات کے سناٹے میں جھینگروں کے بولنے کی آوازیں بہت صاف سنائی دے رہی تھیں۔ اس کے دل میں نیچے جانے کا خیال شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔
اسے معلوم ہی نہ ہوا کہ کب وہ اس بند دروازے کے سامنے پہنچ گئی۔ جس کے ہینڈل میں دھاگے اور کالے کپڑے میں لپٹا ایک تعویذ لٹکا تھا۔ کالے تعویذ کو ہاتھ لگائے بغیر اس نے ہینڈل پر ہاتھ رکھا۔ تب بے اختیار اس کی زبان سے نکلا۔
“ارے”
واقعی یہ بڑی حیرت کی بات تھی۔ اس کی زبان سے ٹھیک ہی ”ارے ” نکلا تھا۔ ایک طویل عرصے سے اس دروازے کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ مقفل ہے لیکن وہ مقفل نہ تھا۔ تانیہ نے جیسے ہی تعویذ کو ہاتھ لگائے بغیر ہینڈل کو گھمایا تو وہ فوراً گھوم گیا۔ دروازہ تھوڑا سا کھل گیا۔
دروازہ کھلتے ہی اندر سے سردی کی ایک تیز لہر آئی۔ سخت ٹھنڈی ہوا تھی۔ یوں محسوس ہوا جیسے اندر ایک ساتھ کئی ایئر کنڈیشنر چل رہے ہوں۔ سردی کی لہر کے ساتھ ہی خوف کی لہر بھی آئی جو سیدھی ریڑھ کی ہڈی میں اترتی چلی گئی دل کپکپا اٹھا۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔
یہ کیفیت چند لمحوں میں ہوئی۔ اس سے پہلے تانیہ پر خوف کی کیفیت کے بجائے شوق کی کیفیت طاری تھی۔ شام ہی سے کوئی اسے دروازے کی طرف کھینچ رہا تھا۔ پھر رات کو جب وہ ایک خواب سے چونک کر اٹھی تو دروازے پر جانے والی خواہش نے شدت اختیار کرلی اور وہ کسی سحر زدہ معمول کی طرح اس پر اسرار دروازے پر آکھڑی ہوئی اور پھر اس نے بے دھڑک ہینڈل پر ہاتھ رکھ دیا۔
تھوڑا سا دروازہ کھلتے ہی خوف چمگادڑ بن کر اس کے جسم سے چمٹ گیا۔ وہ تھرا اٹھی۔ اس نے فوراً دروازے کا ہینڈل اپنی طرف کھینچ لیا، دروازہ ہلکی سی ”کٹ“ کی آواز کے ساتھ بند ہو گیا۔ اس نے اپنے دائیں بائیں دیکھا راہداری میں کوئی نہیں تھا۔ اس وقت وہاں کون ہوتا بھلا۔ سب اپنے کمروں میں سور ہے تھے۔
وہ لڑکھڑاتے قدموں سے چلتی زینے کی طرف آئی اور پھر جلدی جلدی سیڑھیاں پھلانگتی اوپر پہنچی
اپنے کمرے میں پہنچ کر دروازہ اندر سے بند کر لیا اور دروازے سے پشت لگا کر ہانپنے لگی۔

لتبھی بڑے زور سے بجلی چمکی، بادل گرجے اور ایک دم موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ فضا بڑی ہولناک سی ہوگئی۔ وہ دھیرے دھیرے چلتی اپنے بیڈ کی طرف آئی اور دھم سے کٹے ہوئے شہتیر کی طرح اس کے اوپر گر پڑی ۔ کچھ دیر اسی طرح بے حس و حرکت پڑی رہی۔ پھر ہاتھ بڑھا کر جگ اٹھایا اور اس سے منہ لگا کر دو گھونٹ پانی پیا۔ پھر سیدھی لیٹ کر چھت کو خالی نظروں سے گھورنے لگی۔ دھیرے دھیرے اس کا خوف کم ہوتا جا رہا تھا۔ یہ بڑا عجیب تجربہ تھا۔ یہ اس کی توقع کے خلاف ہوا تھا۔ اسے ہرگز امید نہ تھی کہ دروازہ اس طرح کھلا مل جائے گا۔ وہ اس کمرے کے اندر جانے کی خواہش تو رکھتی تھی کیونکہ دادا اعظم نے اس دروازے کی تصویر بنا کر اس کے خواب کو اس دروازے سے منسلک کر دیا تھا۔ اسی لئے وہ اس پراسرار دروازے کی چابی تلاش کر رہی تھی۔ جب چابی کے بارے میں اسے کوئی واضح معلومات حاصل نہ ہو سکیں تو وہ مایوس سی ہو گئی تھی لیکن سورج ڈوبتے ڈوبتے اس کی مایوسی پر تجسس اور شوق غالب آتا چلا گیا۔ جیسے وہ کسی نادیدہ مخلوق کے اثر میں آگئی ہو۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے کسی غیر انسانی مخلوق نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا ہو اور گن پوائنٹ پر اغوا کر کے کسی کو اپنی مرضی کے مطابق چلنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے بالکل ایسے ہی اس نادیدہ مخلوق نے تانیہ کو اس طرح جکڑ لیا کہ وہ بے بس ہو کر اس کا حکم مانتی چلی گئی۔ تب اس پر منکشف ہوا کہ وہ پر اسرار دروازہ کھلا ہوا ہے لاک نہیں ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ دروازہ مقفل نہیں ہے، وہ اندر نہیں جاسکی۔ اندر جانا تو دور کی بات ہے، وہ دروازہ کھول کر دیکھ نہ سکی۔ ذرا سا دروازہ کھلتے ہی ایسی ٹھنڈی ہوا آئی کہ خدا کی پناہ۔ اس کمرے میں تو کھڑکیاں بھی نہیں تھیں پھر بھی اس قدر ٹھنڈی ہوا۔ اس تجربے سے یہ تو فائدہ ہوا کہ اسے یہ معلوم ہو گیا کہ دروازہ مقفل نہیں ہے۔ یہ بات وہ خالہ فرزانہ اور افضل بھائی کو بتائے تو وہ کتنے حیران ہوں گے۔ شاید خوفزدہ بھی ہو جائیں۔ ایک صورت یہ بھی تھی کہ وہ اس راز کو راز ہی رہنے دے۔ کسی کو نہ بتائے کہ دروازہ کھلا ہے اور دن میں موقع پاکر خاموشی سے اندر چلی جائے۔
اسی طرح کی باتیں سوچتے سوچتے کوئی تین بجے کے قریب اسے نیند آگئی۔ رات کو دیر سے سوئی تھی تو صبح جلدی اٹھنے کا سوال ہی نہ تھا۔ دردانہ کئی بار اوپر کے چکر لگا گئی تھی۔ ہر بار اسے دروازہ بند ملا تھا۔ تانیہ کے بارے میں خالہ فرزانہ کئی مرتبہ پوچھ چکی تھیں۔ انہیں ہر بار یہی جواب ملا تھا۔
” بڑی بی بی، وہ سورہی ہیں، دروازہ اندر سے بند ہے۔ ؟ تب انہوں نے مجبوراً اپنے بیڈ پر ہی ناشتہ منگوا کر کر لیا تھا۔ اپنے بٹوے سے دوبار پان نکال کر بھی کھاچکی تھیں۔ اخبار بھی پڑھ لیا تھا۔ مگر تانیہ کے اٹھنے کی خبر ابھی تک نہیں آئی تھی ساڑھے نوبجے کے قریب افضل دفتر جانے سے پہلے انہیں اللہ حافظ کہنے آیا تو خالہ فرزانہ کو وقت کی سنگینی کا احساس ہوا۔ انہوں نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی ٹائم پیس پر نظر ڈالی۔ ساڑھے نو بج رہے تھے۔ انہوں نے بڑی بے چینی سے آواز لگائی ۔
” دردانہ ” ۔
دردانہ ان کے کمرے ہی کی طرف آرہی تھی۔ آواز سن کر وہ باہر ہی سے بولی۔ ” آئی بڑی بی بی”. ۔
کمرے میں آئی تو وہاں افضل کو بھی کھڑا پایا۔
”اچھا خالہ، میں چل رہا ہوں، اللہ حافظ ” ۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکلنے لگا۔
بڑی بی بی .. وہ دودھ پھٹ گیا ۔ ” دردانہ نے خبر سنائی، وہ یہ خبر دینے کے لئے ہی ادھر آرہی تھی کہ خالہ فرزانہ نے اسے آواز لگادی تھی۔
ہائے ۔ ” خالہ فرزانہ نے بڑا سا منہ کھول کر اس طرح اپنے دونوں ہاتھ سینے پر رکھے جیسے دودھ نہ پھٹا ہو، بم پھٹ گیا ہو۔
”اری، یہ تو نے صبح ہی صبح کیا خبر سنادی۔ یہ تو بہت برا ہوا۔ ہائے افضل ذرا ایک منٹ ٹھہرو ۔ “
یہ کہہ کر خالہ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگیں۔
ارے، خالہ کچھ نہیں ہوا، دودھ پھٹا ہے اور آجائے گا۔ میں دودھ والے سے کہتا جاؤں گا، وہ ابھی آکر دے جائے گا۔ آپ تو دن بدن وہمی ہوتی چلی جارہی ہیں۔ “ افضل نے مسکراتے ہوئے کہا۔
افضل تمہیں نہیں معلوم، دودھ کا پھٹنا اچھا نہیں ہوتا۔ “ افضل پر تین پھونکیں مار کر کہا۔
کیا ہو جاتا ہے ؟” اس نے سوال کیا۔
اللہ کرے آج کا دن خیریت سے گزر جائے ۔ ” سوال کا براہ راست جواب نہ ملا۔
ارے چھوڑیں خالہ ۔ کچھ نہیں ہو گا۔ خراب دودھ تھا، پھٹ گیا۔ اچھا میں چلتا ہوں ۔ وہم مت کیجئے گا۔ “
اچھا۔ ٹھیک ہے تم جاؤ ۔ اللہ حافظ ” ۔ افضل کے جانے کے بعد وہ دردانہ سے مخاطب ہوئیں۔
دردانہ ، ایسا کرو پھٹے ہوئے دودھ میں ایک لال مرچ ڈال کر اسے ایک ابال دے دو۔ “
اس سے کیا ہو گا بڑی بی بی ؟ ” دردانه نے پوچھا
جو کہتی ہوں، وہ کرو، زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ” خالہ فرزانہ نے غصے ۔ کہا۔
جی، بڑی بی بی۔ ” وہ فورا سنبھل گئی۔ ” آپ نے مجھے آواز لگائی تھی ؟ “
ہاں، دیکھو، جاکر تانیہ کو اٹھاؤ۔”
دروازہ بند ہو تو کھٹکھٹا دوں ۔ ہاں کچھ کہیں تو میرا نام لے دینا۔ ” خالہ فرزانہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”اور سن ! جانے سے پہلے کچن میں جانا۔ دودھ میں لال مرچ ڈال کر، اسے ابال دے کر سنک میں بہا دینا۔ سمجھی میری بات۔ “
جی اچھی طرح ” دردانہ نے بڑی سعادت مندی سے کہا اور ان کے کمرے سے نکل آئی۔ پتہ نہیں یہ بڑی بی بی کو کیا ہوتا جارہا تھا۔ بات بات پر وہم کرنے لگی تھیں۔ کوئی چھینک دیا تو کیوں چھینکا۔ بالوں میں کنگھی الجھ گئی یا بال سلجھاتے ہوئے کنگھا ہاتھ سے نکل کر زمین پر جا پڑا۔ دیوار پر بلی گزر گئی۔ کوئی گملا ٹوٹ گیا۔ منی پلانٹ کا کوئی پتا زرد ہو گیا۔ کسی کو ہچکی آگئی۔ رات کو کہیں مرغ کی بانگ کی آواز آگئی۔ یہ یا اسی طرح کی کوئی بات ہو گئی اور بڑی بی بی لگ گئیں اس کے پیچھے ۔ دوہو پھٹنا بھی کوئی وہم میں مبتلا کرنے والی بات ہے۔ مگر نہیں، ان کے نزدیک تو یہ بڑی خطر ناک بات تھی۔ برا شگون تھا اور اس کے توڑ کے لئے انہوں نے لال مرچ ڈال کر پھٹے ہوئے دودھ کو ایک ابال دینے کو کہا تھا۔ پر دردانہ بھی ایک ہی چیز تھی۔ وہ ان کے سامنے تو کچھ نہ بولتی تھی لیکن ان کے کہے پر کبھی نہ چلتی تھی۔ اس وقت بھی وہ ان کی ہدایت پر کچن میں چلی گئی تھی اور دودھ بھی سنک میں بہا دیا تھا مگر اس میں لال مرچ نہ ڈالی تھی۔ دیگچی دھو کر وہ جلدی سے اوپر چلی گئی۔ اوپر پہنچی تو دردانہ کو دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت نہ پڑی۔ دروازہ کھل چکا تھا اور تانیہ تولیہ سے منہ پونچھتی ہوئی واش روم سے نکل رہی تھی۔ تانیہ اسے دیکھ کر مسکرائی اور دھیرے سے بولی۔ “جی؟”
سلام بی بی ” دردانہ نے اس کے ہاتھ سے تولیہ لے کر گیلری میں پھیلا دیا اور پھر واپس آکر بولی۔
“بی بی آپ کو بڑی بی بی نے بلایا ہے۔
” مجھے آج اٹھنے میں دیر ہو گئی۔ کیا خالہ نے ناشتہ کر لیا۔ “
ہاں جی، ناشتہ کر لیا اور پان بھی کھا لیا۔ اب وہ پریشان ہیں کہ آپ اب تک کیوں نہیں اٹھیں۔ “
ان کی پریشانی بجا ہے۔ ” تانیہ نے فرمانبرداری سے کہا۔
ایک خبر یہ ہے بی بی کہ دودھ پھٹ گیا۔ ” دردانہ نے بڑی سنجیدگی سے بتایا۔

تو اور آجائے گا۔ اس میں پریشانی والی کیا بات ہے بھلا۔ “ وہ ہنس کر بولی ۔
ہائے بی بی، آپ کتنی اچھی ہیں۔ ” دردانہ اس کا جواب سن کر خوش ہو گئی۔
میں سمجھی نہیں تمہاری بات دروانہ ؟”
بڑی بی بی نیچے پریشان بیٹھی ہیں۔ ان کے خیال میں آج کے دن ضرور کچھ ہو کر رہے گا۔ ” دردانہ کا یہ جملہ اس کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح لگا اسے فوراً رات کا واقعہ یاد آگیا۔ پر اسرار کمرے کا دروازہ مقفل نہ تھا، وہ ہاتھ لگاتے ہی کھل گیا تھا۔ اور یہ بات کسی کو معلوم نہ تھی۔ اگر وہ یہ راز جاکر خالہ فرزانہ کو بتادے تو ان کا وہم یقین میں بدل جائے گا۔ اس سے بڑی اور اس سے بری خبر آج کے دن اور کیا ہو سکتی تھی۔آپ کو کیا ہوا بی بی۔ آپ کا چہرہ ایک دم بدل کیوں گیا ” ؟ دردانہ نے ٹوکا۔
“کچھ نہیں دردانہ مجھے تو کچھ نہیں ہوا، میں تمہاری بڑی بی بی کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ وہ ضرورت سے زیادہ وہمی نہیں ہوتی جارہیں۔ “
ہاں بی بی، بہت زیادہ، انہوں نے کہا تھا کہ پھٹے ہوئے دودھ میں لال مرچ ابال کر دودھ سنک میں بہادو۔ بی بی میں ایسے ہی دودھ بہا آئی ہوں۔ میں نے ٹھیک کیا نا ؟؟۔ ” ہاں، دردانہ تم نے ٹھیک کیا یہ سب بیکار کی باتیں ہیں۔ ” تانیہ نے اس کی تائید کی۔
بی بی، اللہ آپ کو خوش رکھے۔ “
دردانہ، ایک بات بتاؤ، تم اس گھر میں کب سے ہو ؟ ” کوئی چار سال تو ہو گئے ہوں گے۔ ” دردانہ نے فوراً جواب دیا۔
” تم نے کبھی اس دروازے کو کھلا دیکھا ہے جس پر تعویذ لٹکا ہوا ہے۔
” نہیں بی بی۔ ” دردانہ نے تانیہ کو الجھے انداز میں دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
کبھی تمہارے دل میں تجسس نہیں ہوا کہ اس دروازے کو کھول کر دیکھا جائے ۔ “ تانیہ نے سوال کیا۔
شروع شروع میں خواہش تو ہوئی کہ دیکھوں اس کمرے میں کیا رکھا ہے لیکن بڑی بی بی نے کچھ اس طرح تنبیہ کر دی تھی، اس کمرے کے بارے میں کہ میں کبھی اس دروازے کے سامنے بھی نہیں کھڑی ہوئی ۔ پھر بڑی بی بی نے تعویذ کی وجہ سے دروازے کی صفائی کو بھی منع کر دیا تھا۔ وہ کبھی کبھی خود ہی صاف کر دیا کرتی ہیں دروازے کو …. لیکن آپ کیوں پوچھ رہی ہیں ۔ ؟ “
ایسے ہی پوچھ رہی ہوں ۔ ” تانیہ نے سیڑھیاں اترتے ہوئے کہا۔
بی بی بی آپ کو اس گھر میں آئے ہوئے ایک سال کے قریب ہو گیا۔ آج تک تو آپ نے کبھی پوچھا نہیں۔
” میں نے ایک مرتبہ خالہ فرزانہ سے پوچھا تھا تو انہوں نے بتایا کہ اس میں کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔ ایک طرح کا اسٹور ہے۔ اس تعویذ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ سابقہ مالک مکان نے لٹکایا ہے۔ تاکہ گھر میں برکت رہے۔ میری طبیعت میں کیونکہ کھوج نہیں۔ اس لئے کبھی اس کمرے کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔ “
تو اب کیا ہوا ؟ ” دردانہ نے سوال کیا۔ ؟؟”
اب میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس کمرے کا راز معلوم کروں ۔ دردانہ کیوں نہ ہم دونوں مل کر اس کمرے میں چلیں۔ “
مجھے تو بی بی آپ معاف رکھیں۔ ” دردانہ نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ ” مجھے ابھی یہاں ملازمت کرنی ہے جی ۔ ایسا اچھا گھر ایسے اچھے لوگ مجھے کہاں ملیں گے؟؟ مجھے آپ نوکری کرنے دیں۔
“ اچھا جاؤ، میرا ناشتہ لاؤ اور اس بات کا تذکرہ خالہ سے نہ کرنا۔ میں خالہ کے کمرے میں جا رہی ہوں میرا ناشتہ وہیں لے آنا۔ پر دودھ کا کیا ہو گا ۔ “
آپ بے فکر ہو کر جائیں، میں بڑی بی بی سے کچھ نہ کہوں گی۔ ” دردانہ نے بڑی صداقت ہے ۔ کہا۔ ” صاحب دودھ والے کو کہتے گئے ہوں گے۔ دودھ ابھی آجاتا ہے۔ ویسے گھر میں خشک دودھ بھی ہے” ۔
خالہ فرزانہ کے کمرے میں جاتے ہوئے جب تانیہ کی نظر اس پر اسرار دروازے پر پڑی تو اچانک اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ دروازہ جوں کا توں بند تھا اور ویسے ہی دروازے کے ہینڈل پر کالا تعویذ جھول رہا تھا۔ خالہ فرزانہ کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور اندر سے خالہ کے بولنے کی آواز آرہی تھی۔
وہ کمرے میں داخل ہوئی تو اس نے خالہ فرزانہ کو ٹیلیفون پر چیخ چیخ کر باتیں کرتے ہوئے پایا۔ تانیہ نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں سلام کیا اور ان کے قدموں میں قالین پر بیٹھ گئی۔
لو وہ آگئی۔ ” خالہ فرزانہ نے سر کے اشارے سے سلام کا جواب دیا اور ٹیلیفون پر اس کے بارے میں بتایا۔

خالہ کسی کا فون ہے۔ ” تانیہ نے خوش ہوکر تجسس سے پوچھا۔
تمہارے عامر انکل کا۔ ” خالہ فرزانہ کے چہرے پر ایک رنگ آیا ہوا تھا۔
ہاں ۔ ” وہ خوشی سے چلائی۔ ”لائیں فون مجھے دیں۔ “
لو بھئی، تانیہ سے بات کرو۔ ” خالہ فرزانہ نے ریسیور تانیہ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔
السلام علیکم انکل ۔ ” تانیہ نے پر خلوص لہجے میں کہا۔ “کیسے ہیں آپ؟؟
“وعلیکم السلام .. میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ “
انکل آپ نے اتنے دنوں کے بعد فون کیوں کیا؟”
اتنے دنوں کے بعد ؟ کیا مطلب چار پانچ مہینے ہو گئے کیا؟ ابھی پانچ دن پہلے ہی تو کیا تھا۔ ” انکل عامر نے ہنس کر کہا۔ ” کیوں خیریت تو ہے تانیہ ۔ “
”ہاں، انکل سب خیریت ہے۔ ” تانیہ نے گہرا سانس لے کر کہا۔
لیکن مجھے تو تم کچھ پریشان نظر آرہی ہو۔ ” انکل عامر نے قیافے سے کام لیا۔
ارے نہیں انکل … ایسی کوئی بات نہیں۔ بے شک آپ خالہ فرزانہ سے پوچھ لیں ” ۔ تانیہ نے خالہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
ہاں، ہاں، مجھ سے پوچھ لو، کیا پوچھنا ہے ؟ ” خالہ فرزانہ نے بات سمجھے بغیر تانیہ کی تائید کردی۔
تانیہ تم وہاں خوش تو ہو ۔ ” انکل عامر نے فکر مند لہجے میں کہا۔ ”فرزانہ تمہارا خیال تو رکھتی ہیں؟؟”
کوئی ایسا ویسا۔ ” تانیہ نے بڑے جوش سے کہا۔ ” خالہ فرزانہ تو مجھ پر جان چھڑکتی ہیں جان “
کمال ہے بھئی یہ تمہاری خالہ فرزانہ آخر کس کس پر جان چھڑکتی ہیں۔ ” انکل عامر نے ہس کر
خالہ نے آپ کو کچھ کہا ہے کیا؟ ” تانیہ نے خالہ فرزانہ کو شوخ نظروں سے دیکھتے ہوئے معنی خیر لہجے میں پوچھا
اے تانیہ، تم آخر میرا نام بار بار کیوں لئے جارہی ہو؟ میں نے کیا کیا ہے” ۔ خالہ فرزانہ نے مداخلت کی۔
خالہ پریشان ہو رہی ہیں، وہ کہہ رہی ہیں کہ بار بار میرا نام کیوں لے رہی ہو، میں نے کیا کیا ہے؟”
تانیہ نے خالہ فرزانہ کی بات دہرائی۔
ان سے پوچھو کہ اب اور کیا کرنے کا ارادہ ہے ؟ ” ادھر سے عامر انکل نے کہا۔
اس کا مطلب ہے کہ اس سے پہلے بھی کچھ کر چکی ہیں۔ ” تانیہ شرارت سے بولی۔
بہت کچھ کر چکی ہیں۔ ” انکل عامر نے فوراً جواب دیا۔ اچھا، میں خالہ کو بتاتی ہوں ۔ ” تانیہ نے ریسیور میں کہا، پھر خالہ فرزانہ سے مخاطب ہو کر بولی۔ “خالہ، انکل پوچھ رہے ہیں، اب اور کیا کرنے کا ارادہ ہے ؟ ساتھ میں وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خالہ بہت کچھ کر چکی ہیں۔ ” “غضب خدا کا ۔ ” خالہ فرزانہ نے اپنا سر پیٹ لیا۔ ” یہ عامر کو کیا ہوتا جارہا ہے۔ کسی قسم کی گفتگو کرنے لگے ہیں۔ “
خالہ پوچھوں، انکل سے۔ “ تانیہ نے سوال کیا۔
کیا کہہ رہی ہیں۔ ” ادھر سے پوچھا گیا۔
تانیہ، اگر تم نے فضول بکواس کی تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔ ” خالہ فرزانہ کچھ پریشان کی ہو گئیں۔
کیا کہہ رہی ہیں، کچھ بولو تو ۔ ” ادھر سے مسلسل اصرار ہو رہا تھا۔
سوری انکل، میں کسی کی ذاتی باتیں آپ کو نہیں بتا سکتی۔ ” تانیہ نے خالہ فرزانہ کے تیور دیکھ کر کہا۔
اچھا چلو چھوڑو، یہ بتاؤ تم خوش تو ہو وہاں ۔ ” عامر انکل نے پوچھا۔
میں یہاں بہت خوش ہوں، خالہ فرزانہ میرا بہت خیال رکھتی ہیں۔ پھر بھی میرا لاہور جانے کو جی چاہتا ہے۔” کچھ اور رک جاؤ، میں تمہیں خود لینے آؤں گا ۔ ” انکل عامر کے لہجے میں فکر مندی تھی۔
یہ بات تو آپ پچھلے کئی ماہ سے کہہ رہے ہیں۔ ” تانیہ نے الجھ کر کہا۔
تمہیں کچھ اور پیسے بھیج دوں ۔ ” انکل عامر نے اسے بہلانا چاہا۔
انکل میں پیسوں کا کیا کروں، آپ نے پہلے جو پیسے بھیج رکھے ہیں، وہی خرچ نہیں ہوئے۔ میں مزید پیسے منگوا کر کیا کروں گی۔ پیسے میرا مسئلہ نہیں ہے انکل۔ “
میں تمہارے مسئلے کو اچھی طرح جانتا ہوں لیکن تمہیں کچھ صبر کرنا ہو گا۔ “
ٹھیک ہے انکل جیسا آپ حکم فرمائیں۔ ” تانیہ نے گہرا سانس لے کر موضوع بدلا ۔
وہ صائمہ کیسی ہے؟“
بالکل ٹھیک ہے۔ تمہیں اکثر یاد کرتی ہے۔
” میں بھی اسے یاد کرتی ہوں ۔ ” تانیہ نے کہا۔ انکل عامر نے دو چار باتیں اور کیں۔ اور انہوں نے وہی کہا جو وہ اکثر کہا کرتے تھے ان کے ٹیلیفون کا مقصد یہی ہوتا تھا کہ وہ خود کو خوش رکھے اور یہ کہ وہ جلد ہی اسے آکر لاہور لے جائیں گے۔ تانیہ نے چاہا کہ وہ خواب دیکھنے سے لے کر اس پر لاسرار کمرے تک کی ساری روداو بیان کردے ۔ مگر وہ کچھ سوچ کر رک گئی وہ جانتی تھی کہ یہ سب سن کر وہ پریشان ہو جائیں گے وہ نہیں چاہتی تھی کہ انکل عامر اس کی وجہ سے پریشان ہوں ۔ وہ اس کی وجہ سے پہلے ہی پریشان تھے۔ یہ واقعات تو انہیں بوکھلا کر رکھ دیں گے۔ انکل عامر نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی۔ ان کی عمر پچاس سال سے کیا کم ہوگی۔ خالہ فرزانہ ان سے دو چار سال چھوٹی ہوں گی۔ نوجوانی کے زمانے میں انکل عامر اور خالہ فرزانہ کے درمیان زبردست عشق چلا تھا۔ دونوں ایک دوسرے پر جان دیتے تھے لیکن اپنی اس محبت کو انہوں نے کبھی رسوا نہ ہونے دیا۔

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جن خاندانوں میں دشمنیاں ہوتی ہیں وہیں محبت بھی سر اٹھا لیتی ہے۔ اسی خاندان میں وہ باغی پیدا ہو جاتے ہیں جو اپنی محبت کے آبشار سے نفرت کے الاؤ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ نفرت کے اس قلعے کو مسمار کرنا تو دور کی بات ہے، وہ اس کی فصیل کا ایک پتھر بھی نہیں اکھاڑ سکیں گے، خاندان جتنا بڑا ہوتا ہے اتنی ہی وہاں دشمنیاں ہوتی ہیں۔ خاندان کے لوگ ان دشمنیوں کو کم کرنے کے بجائے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عامر اور فرزانہ بھی ایسے ہی خاندان کے فرد تھے۔
دونوں یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ جو کھیل وہ شروع کر رہے ہیں۔ اس کا انجام جدائی کے سوا کچھ نہیں۔ وہ کبھی ایک نہیں ہو سکیں گے۔ والدین ان دونوں کو ایک قبرستان میں دفنانا تو گوارہ کر لیں گے لیکن زندگی کے آنگن میں اکٹھا نہ ہونے دیں گے۔ پھر یہ محبت بھی بڑی عجیب چیز ہوتی ہے کسی مصلحت کو نہیں جانتی نہ اس کی آنکھیں ہوتی ہیں اور نہ کان ہوتے ہیں، اندھی اور بہری ہوتی ہے۔ نہ ذات دیکھتی ہے، نہ رنگ و نسل دیکھتی ہے۔ غربت اور امارت اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ خیر عامر اور فرزانہ کے خاندان میں زمین آسمان کا فاصلہ تھا۔ اور اس فاصلے کو سرے سے مٹانا تو دور کی بات ہے، کم کرنا بھی آسان نہ تھا۔
عامر نے فرزانہ کو سب سے پہلے ایک شادی کی تقریب کی ویڈیو میں دیکھا تھا۔ فرزانہ کو دیکھ کر اس نے ایسا محسوس کیا تھا جیسے اچانک ہی زندگی کی منزل سامنے آگئی ہو۔ پھر اس نے فرزانہ کو مہندی کی ایک تقریب میں دیکھا۔ ایسی تقریبوں میں اتنا شور، اتناجوش و خروش ہوتا ہے کہ کچھ دیر کے لئے آدمی اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے فرزانہ کو معلوم نہیں تھا کہ کوئی اس کے تعاقب میں ہے۔ عامر لڑکے والوں کی طرف سے تھا اور فرزانہ لڑکی والوں کی جانب سے مدعو تھی۔ اسے اگرچہ گانا نہیں آتا تھا لیکن اس کی سہیلیوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا تھا۔ گانوں کا مقابلہ جاری تھا۔ ایسی محفلوں میں سنجیدگی کم بے ہودگی زیادہ دکھائی دیتی
ہے۔ ہر طرف ایک شور بپا تھا۔ اور اسی شور ہنگامے میں وہ ایک طرف کھڑا اسے ایک ٹک دیکھے جاتا تھا۔ نظر کی یہ ٹکٹکی بالآخر اپنا اثر دکھانے میں کامیاب ہو گئی۔ تالیاں بجاتے بجاتے فرزانہ کی جو نظر بائیں جانب اٹھی تو اٹھی رہ گئی۔ عامر بلاشبہ ایک پر کشش اور اسمارٹ لڑکا تھا۔ اس کی سفید رنگت، قد کاٹھ، بالوں کا اسٹائل، آنکھوں کی جاذبیت نے فرزانہ کو مسحور کر دیا۔ عامر تو فرزانہ کی شخصیت سے پہلے ہی متاثر ہو چکا تھا۔ آج اسے اپنے سامنے دیکھا تو احساس ہوا کہ کیمرے نے اسے صحیح طرح ایکسپوز نہ کیا تھا۔ فرزانہ کا انداز بڑا شاہانہ تھا جس نے اسے مزید دیوانہ کر دیا تھا۔ جب دونوں کی نظریں پہلی بار ایک دوسرے سے ملیں تو کہیں دور بجلی کڑکی اور اس کی چمک نے ۔ آنکھوں کو خیرہ کر دیا۔ نظروں کے ٹکراؤ نے دونوں کے دلوں میں روشنی سی کر دی تھی۔ خوشبو سی بھر دی تھی۔
فرزانہ بی اے کے پہلے سال میں تھی جبکہ عامر ایم اے کر چکا تھا اور ملازمت کی تلاش میں تھا۔ پھر جلد ہی اسے ایک کالج میں لیکچرر شپ مل گئی۔ وہ لڑکوں کو انگلش ادب پڑھایا کرتا تھا وہ استاد تھا لیکن محبت کے مکتب میں ابھی طالب محبت تھا۔ کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔ آپ کسی سے سچی محبت کریں، کسی کو ٹوٹ کر چاہیں تو یہ ناممکن ہے کہ وہ آپ کی طرف متوجہ نہ ہو۔ ویسے خاموش محبت بڑے ظلم ڈھاتی ہے۔ دانا کہتے ہیں کسی سے محبت کرو تو اسے فوراً بتادو ورنہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ البتہ زندگی بھر دلوں سے دھواں ضرور اٹھتا رہتا ہے۔ لیکن عامر نے تو کمال ہی کر دیا۔
اس نے اپنی محبت کا اظہار، اس تیزی اور اس انداز سے کیا کہ فرزانہ سکتے میں آگئی۔ اور اپنی اس جرأت پر وہ خود ششدر رہ گیا وہ اتنا بہادر تو نہ تھا، شاید محبت آدمی میں طاقت پیدا کر دیتی ہے کیونکہ وہ بذات خود بہت طاقتور ہوتی ہے۔
فرزانہ کا تعاقب کرتے ہوئے اور نظروں سے نظریں ملاتے ہوئے ایک ایسا موقع آیا کہ عامر نے فرزانہ کو اپنے بہت قریب پایا اتنے قریب دیکھ کر عامر کو جانے کیا ہوا شاید وہ خود پر قابو نہ رکھ پایا اس نے بے اختیار اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنا منہ اس کے کان کے نزدیک لے جاکر سرگوشی کی۔ ”مجھ سے شادی کریں گی۔”
فرزانہ ایک دم سنائے میں آگئی۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کرے حواس بحال ہوئے تو سب کے سے پہلے اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا ، اس نے ہاتھ اتنے زور سے پکڑا تھا کہ کئی چوڑیاں ٹوٹ کر اس کی کلائی کو زخمی کر گئیں۔ ہاتھ چھڑاتے ہوئے اس نے دھیمے مگر سخت لہجے میں کہا۔
چھوڑیں میرا ہاتھ ۔ “
عامر نے فوراً اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ کچھ دیوانے ہیں آپ؟؟
فرزانہ یہ کہ کر پیچھے ہٹ گئی۔ خدا کا شکر تھا کہ اس ہاؤ ہو ” میں کسی نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ اس کی کلائی زخمی ہو گئی تھی لیکن یہ زخم صرف کلائی پر نہ لگا تھا کہیں دل پر لگا تھا۔ اگرچہ اسے اس لڑکے کی اس حرکت پر غصہ تھا لیکن یہ غصہ دھیرے دھیرے غائب ہوتا جا رہا تھا۔ ۔ جب اسے معلوم ہوا کہ عامر کس گھر کا لڑکا ہے تو وہ ایک دم سہم اٹھی ۔ یہ آگ کس نے اس کے دل میں بھڑکا دی تھی۔ بہر حال یہ آگ جس نے بھی بھڑکائی تھی، بھڑک اٹھی تھی، فرزانہ خود کو جلنے سے محفوظ کرنے کی ہزار تدابیر کے باوجود، اپنے وجود کو آتش عشق سے نہ بچا سکی۔ عامر بھی عجیب لڑکا تھا اس نے اپنی محبت کو ابتداء کے بجائے انتہا سے شروع کیا تھا لوگ پہلے محبت کرتے ہیں۔ پھر شادی کی آفر دیتے ہیں اس نے پہلے شادی کی پیشکش کی، بعد میں اقرار محبت کیا۔ کلائی زخمی ہونے کے بعد فرزانہ کو عامر جہاں کہیں نظر آتا، وہ اسے دیکھتے ہی بھاگتی، چھپنے کی کوشش کرتی لیکن یہ اس کی خام خیالی تھی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا توں توں ان دونوں کے درمیان فاصلے کم ہوتے گئے اور پھر یہ محبت عام ہونے لگی دونوں اپنی محبت کو رسوائی سے بچانا چاہتے تھے لیکن کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ دونوں طرف کے لوگ اس محبت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔
ساری کوششوں کے بعد بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ خفیہ شادی کر لی جائے۔ اس کے بعد جو ہو گا دیکھا جائے گا لیکن یہ شادی بھی اس شہر میں نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کے لئے دونوں کو اپنا شہر، اپنا گھر چھوڑنا تھا۔ فرزانہ اگرچہ اپنا گھر چھوڑنے پر راضی نہ تھی لیکن عامر کے مجبور کرنے پر مجبوراً راضی ہوگئی تھی۔
اور جس رات فرزانہ نے اپنا گھر چھوڑنا تھا اتفاق سے اسی شام اس کے والد نے اپنے کمرے میں بلایا تھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر رکھا تھا اور کہا تھا۔ فرزانہ میری قسم کھاؤ کہ تم کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاؤ
گی جس سے اس گھر کی عزت مٹی میں مل جائے۔ “

تب فرزانہ کو اپنی بھیگی آنکھوں سے یہ قسم کھانی پڑی اور یوں حالات نے ایک عجیب رخ اختیار کر لیا فرزانه تڑپتی رہی مگر گھر سے نہ نکل سکی عامر وقت مقررہ پر گلی کے اس موڑ پر کھمبے کے نیچے پہنچ چکا تھا۔
اسے فرزانہ کا انتظار تھا۔ مگر فرزانہ نہ آئی۔ بارش آگئی۔ سردی کے موسم میں وہ کئی گھنٹے اس کے انتظار میں کھڑا بارش میں بھیگتا رہا۔ جب وہ فرزانہ کی آمد سے بالکل مایوس ہو گیا تو لڑکھڑاتے قدموں سے چلتا ہوا مین روڈ پر آیا۔ صبح نزدیک تھی۔ ایک ٹیکسی روک کر وہ اس میں بیٹھ گیا اور اس میں بیٹھتے ہی بے ہوش ہو گیا۔
ٹیکسی والے نے اسے اسپتال پہنچایا۔ اس کے ساتھ ایک سوٹ کیس تھا وہ اس نے اسپتال والوں کے حوالے کیا اور اپنی ٹیکسی لے کر وہاں سے نکل گیا۔ صبح صبح اتنی نیکی بھی بہت تھی۔
بارش میں مسلسل بھیگنے، کئی گھنٹے ایک جگہ کھڑے رہنے، سخت سردی، محبوب کا انتظار اور پھر محبوب کے نہ آنے کا سخت صدمہ، عامر کے اعصاب شکستہ ہو گئے۔ نروس بریک ڈاؤن ہوا۔ ٹیکسی والے کے دل میں نیکی آگئی ورنہ وہ اسے سڑک کے کنارے پھینک کر سوٹ کیس لے کر نکل جاتا تو عامر کی زندگی ختم ہونے میں کوئی شبہ نہ رہتا۔ بروقت طبی امداد نے عامر کی زندگی بچادی ۔ اگرچہ اسے اپنی زندگی بچ جانے کی کوئی خوشی نہ تھی۔ اس کے دل کی دنیا تو تہہ و بالا ہو گئی تھی۔ عامر کو فرزانہ پر شدید غصہ تھا، اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ وعدے کے مطابق مقررہ جگہ پر کیوں نہیں پہنچی تھی۔ اسے غصہ ضرور تھا لیکن وہ غصے کے بجائے ہوش سے کام لینا چاہتا تھا جب تک اسے اصل صورتحال کا علم نہ ہو جائے، وہ فرزانہ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پھر ایک اور مشکل در پیش تھی۔ وہ اپنی اس حالت کے بارے میں کیا بیان دے ؟ گھر والوں ، خاندان والوں نے دوستوں نے، سب ہی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا کہ عامر صحیح صورتحال بتادے لیکن اس نے اپنے لب سی لئے وہ اپنی محبت کو کسی قیمت پر رسوا نہیں کرنا چاہتا تھا۔
جب فرزانہ کو یہ معلوم ہوا کہ عامر کو بے ہوشی کی حالت میں اسپتال میں داخل کیا گیا ہے تو وہ تڑپ اٹھی۔ اس کا بے اختیار جی چاہا کہ وہ ہر قسم، ہر رسم ہر بندھن کو توڑ کر اسپتال پہنچ جائے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بہت دیر تک روتی رہے۔ وہ اسپتال نہ جاسکی کہ یہ اس کے بس کی بات نہ تھی لیکن وہ رو تو سکتی تھی، یہ اس کے بس کی بات تھی۔ وہ تکئے میں منہ دیئے بہت دیر تک روتی رہی …. روتی رہی اور اس زندگی کی دعائیں مانگتی رہی۔
شاید یہ فرزانہ کی دعاؤں کا ہی اثر تھا کہ عامر بڑی تیزی سے صحت یاب ہو کر اسپتال سے گھر آگیا ورنہ شروع میں ڈاکٹروں نے اس کی زندگی سے مایوسی کا اظہار کر دیا تھا۔ صحت یاب ہونے کے بعد بس اسے ایک ہی فکر تھی کہ کسی طرح فرزانہ سے رابطہ کیا جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ وہ کیوں نہیں آئی۔
خود فرزانہ بھی پریشان تھی، وہ چاہتی تھی کہ غامر سے کسی طرح بات ہو جائے۔ وہ اس سے آخری بار کرنا چاہتی تھی اور آخری بار بات کرنا چاہتی تھی۔ پھر اسی نے راہ نکالی ۔ اپنی ایک سہیلی کے ذریعے ٹیلیفون پر اس کے کالج پیغام بھجوایا۔ فرزانہ مقررہ وقت پر اپنی سہیلی کے گھر پہنچ گئی۔ سہیلی نے کمرہ بند کر لیا عامر کی فون کال کا انتظار شروع ہو گیا۔ وقت مقررہ پر ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ فرزانہ کی سہیلی نے فون اٹھایا۔ عامر کی شناخت کے بعد اس۔ ریسیور فرزانہ کے ہاتھ میں دے دیا۔ فرزانہ نے کانپتے ہاتھوں سے ریسیور لیا۔
“عامر”
لرزتے ہونٹوں پر بمشکل اس کا نام آیا۔ اور پھر ڈیم کے جیسے سارے گیٹ کھل گئے جذبات کا ریلا آیا۔ دل میں دھواں سا اٹھا۔ گھٹی گھٹی سی چیخ اس کے منہ سے نکلی۔ اندر سے امنڈتے آنسوؤں کے سیلاب کو وہ باوجود کوشش کے روک نہ سکی۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ عامر سے غیر جذباتی انداز میں بات کرے گی۔ بات کرتے ہوئے ذرا بھی نہ روئے گی مگر سب معاملہ الٹا ہو گیا۔ وہ بات کرنے۔ پہلے ہی رو پڑی اور اس قدر ٹوٹ کر روئی کہ فرزانہ کی سہیلی پریشان ہو گئی۔ اس نے اس کے ہاتھ ۔ ریسیور چھین کر عامر کو ہولڈ کرنے کو کہا۔ اسے ایک گلاس پانی پلایا۔ تسلی دی، ڈانٹا ڈپٹا تب کہیں جاکر
فرزانہ کے اعصاب قابو میں آئے۔
لو بات کرو، خدا کے واسطے اب رونا مت۔ ” فرزانہ کی سہیلی نے اس کے ہاتھ میں ریسیور دیتے ہوئے کہا۔

عامر مجھے معاف کر دو، میں نے تم سے بے وفائی ضرور کی ہے لیکن یقین کرو کہ میں بے وفا نہیں ہوں
فرزانہ، میں پوری رات بارش میں بھیگتا رہا، سردی میں ٹھٹھرتا رہا۔ کھڑے کھڑے میں نے پوری رات کاٹ دی۔ میں نے قیامت کا انتظار کیا۔ تم کیوں نہیں آئیں فرزانہ ” ؟
بس اسی شام مجھ پر قیامت گزر گئی۔ ابو نے مجھ سے قسم لے لی۔ پھر میں گھر سے نکل کر انہیں کیسے رسوا کرتی ۔ عامر مجھ سے جرم ہوا لیکن میں مجرم نہیں ہوں ۔ مجھے اب اپنے باپ سے کیا ہوا عہد نبھانا ہے۔ اب میں تم سے نہیں ملوں گی۔ لیکن میں تمہیں بھولوں گی نہیں۔ میں تمہاری ہوں، ہمیشہ تمہاری رہوں گی، یہ میرا تم سے عہد ہے۔ میری تم سے شادی نہ ہو سکی تو کیا ہوا اب کوئی مجھ سے شادی نہ کر سکے گا۔ لیکن تم ضرور شادی کر لینا۔ مجھے بے وفا سمجھ کر بھول جانا “
فرزانہ اور جانے کیا کیا کہتی رہی، وہ جانے کیا کیا سنتا رہا، پھر اس نے کیا کہا اور فرزانہ نے کیا سنا یہ کسی کو یاد نہ رہا۔
پھر وقت نے ایک نئی کروٹ لی۔ پانچ چھ ماہ بعد فرزانہ کے لئے ایک رشتہ آیا۔ لڑکا خاندان کا تھا۔ ڈاکٹر تھا، امریکہ میں رہائش پذیر تھا۔ اس رشتے سے کون انکار کر سکتا تھا بھلا۔
فرزانہ کو اس رشتے کی بھنک پڑ گئی۔ اسے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ رشتہ فوراً منظور کر لیا جائے گا تو اس سے پہلے کہ اس کے ابو اس رشتے کے سلسلے میں اس سے بات کرتے، وہ ابو کے کمرے میں چلی گئی۔ اس نے ابو کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر رکھا اور بولی۔
“ابو آپ کو میرے سر کی قسم ..”
?

“مجھے اپنے آپ سے جدا مت کیجئے گا۔میں اس گھر کی دہلیز کو کبھی نہیں چھوڑوں گی۔ میں زندگی بھر شادی نہیں کروں گی۔ “
اور پھر یہی ہوا۔ فرزانہ کے ابو نے، امی نے دیگر گھر والوں نے، خاندان والوں نے بہت زور لگایا، بڑا مجبور کیا مگر فرزانہ اپنے قول سے نہ پھری۔ اس نے اپنے باپ کی بھی عزت رکھی اور اپنی محبت کی بھی لاج نبھائی۔
شادی عامر نے بھی نہ کی۔ اب نہ وہ دشمنیاں رہیں۔ نہ وہ والدین رہے۔ نہ وہ خاندان والے رہے وہ چاہتے تو شادی کر لیتے۔ لیکن انہوں نے ایسا کیا نہیں۔ ہر چیز وقت پر اچھی لگتی ہے۔ اور گیا وقت کبھی لوٹ کر آیا نہیں..خالہ فرزانہ کو لاہور چھوڑے ہوئے ایک طویل عرصہ ہو چکا تھا۔ بہنوئی کے انتقال کے بعد خالہ فرزانہ نے مستقل ہی بہن کے ساتھ رہائش اختیار کرلی تھی۔ ان کی بہن کا ایک ہی بیٹا تھا افضل، بہن کے انتقال کے بعد افضل اور وہ تنہا رہ گئے۔ خالہ فرزانہ کو ورثے میں جو کچھ ملا، وہ اپنے بھانجے کے حوالے کر دیا۔ افضل کنسٹرکشن کا کام کرتا تھا۔ بنگلے بنا کر فروخت کرتا تھا۔ وہ خالہ فرزانہ سے آٹھ سال چھوٹا تھا، اب وہ چالیس کے پیٹے میں تھا۔ شادی اس نے بھی نہ کی تھی۔ اور نہ ہی کرنے کا ارادہ تھا۔ کہتا وہ یہی تھا کہ میں شادی نہیں کروں گا اور کیوں نہیں کروں گا، یہ آج تک اس نے کسی کو نہیں بتایا تھا۔ بتایا تو خیر خالہ فرزانہ نے بھی کسی کو کچھ نہیں تھا وہ تو انکل عامر کی فون پر گفتگو سے تانیہ کو کچھ شبہ ہوا تھا۔ تب اس نے خالہ فرزانہ سے بہت سارے سوال کئے تھے۔ اس کے اصرار پر بالآخر خالہ فرزانہ کو اپنی کہانی سنانا پڑی تھی اور تانیہ اس داستان محبت کی پہلی سامع ثابت ہوئی تھی۔ تانیہ میں جانے ایسی کیا بات تھی کہ اس سے اپنے دل کی بات کہنے کو جی چاہتا تھا اور وہ ایسی تھی کہ اپنے دل کی بات کسی کو نہ بتاتی تھی اور اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ کسی کو اپنا ہمدرد یا ہمراز نہ پاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے اندر ایک دنیا آباد کر لی تھی۔
جب وہ تنہا ہوتی تو دراصل تنہا نہ ہوتی۔ خیالات کا ایک ہجوم ہوتا وہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھ رہی ہوتی۔ اس کا تخیل بہت طاقتور تھا۔ اگر وہ ٹیلی ویژن پر برف پوش پہاڑوں کے مناظر دیکھ رہی ہوتی اور اگر وہ چاہتی کہ ان مناظر کا حصہ بن جائے تو وہ اپنے تخیل کے ذریعے ان مناظر کا حصہ بن جاتی تھی۔ فوراً اسے ٹھنڈ محسوس ہونے لگتی تھی۔
انکل عامر کے فون نے تانیہ کو الجھا دیا تھا۔ انہوں نے مزید یہاں ٹھہرنے کو کہا تھا۔ ایسا کیوں تھا؟ یہ وہ نہیں جانتی تھی۔ انکل عامر اسے یہاں کیوں چھوڑ گئے تھے اور خواہش کے باوجود وہ اسے لاہور کیوں نہیں بلاتے تھے۔ اس کے پیچھے کیا مسائل تھے۔ یہ وہ نہیں بتاتے تھے۔ ہس کر ٹال جاتے تھے یا کہتے تھے اچھا بتاؤں گا صبر کرو۔ صبر کرتے ہوئے تو اسے ایک سال ہو گیا تھا اگرچہ اسے یہاں کوئی پریشانی نہ تھی خالہ فرزانہ اور افضل دونوں ہی اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ویسے وہ یہاں کسی پر بوجھ نہ تھی۔ اوپر والے کمرے میں جہاں وہ رہتی تھی اس کی ہر چیز انکل عامر کے پیسے سے خریدی گئی تھی۔ اس کے علاوہ وہ ہر ماہ اتنے پیسے بھیج دیتے تھے کہ تانیہ سے باوجود کوشش کے خرچ نہ ہو پاتے تھے۔ اسے میوزک کا زیادہ شوق تھا۔ ایک سال کے عرصے میں اس نے ہزاروں آڈیو کیسٹ خرید ڈالے تھے۔ اسے فلمیں بھی پسند تھیں۔ اپنی پسند کی فلم وہ کسی ویڈیو شاپ سے کرائے پر لا کر دیکھنے کے بجائے فلم کا کیسٹ خرید لاتی تھی۔ اس طرح اس کے پاس فلموں کے سیکڑوں کیسٹ جمع ہو گئے تھے۔ فلم وہ اکیلی نہ دکھتی تھی۔ کوئی نئی فلم لاتی تو دردانہ کو اپنے ساتھ بٹھا لیتی تھی۔ دردانہ کو بے انتہا شوق تھا فلموں کا۔ بعض اوقات وہ اس کی فرمائش پر بھی فلم خرید لاتی تھی۔
فلم وہ دوپہر کو دیکھتی تھی۔ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر دردانہ اوپر آجاتی۔ اگر کوئی فلم پاس ہوتی تو دیکھ لی جاتی ورنہ دردانہ کچھ دیر گپ شپ کے بعد نیچے اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ تین چار دن پہلے وہ ایک نئی فلم خرید کر لائی تھی لیکن اسے دیکھنے کا ابھی تک موقع نہ ملا تھا یا دیکھنے کو جی نہ چاہا تھا۔
جب سے اسے وہ خواب دکھائی دینا شروع ہوا تھا۔ وہ الجھن کا شکار ہو گئی۔ اس کے دل کا چین لٹ گیا تھا۔ واقعات بھی عجب ہو شربا ہو رہے تھے۔ وہ ڈراؤنا خواب، دادا اعظم کا لفافہ، پر اسرار شخص کا الو دے جانا، الو کا خون، قدموں کے نشان، پراسرار کمرہ … کمرے میں جانے کی شدید خواہش، کمرے کا مقفل نہ ہوتا۔
دو پہر کا کھانا کھا کر وہ اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی یہ سب سوچ رہی تھی کہ اچانک اس کے دل میں ایک لہر سی اٹھی۔ اس کی آنکھیں بند سی ہونے لگیں۔ اس کے کانوں میں جیسے کوئی کہہ رہا تھا کہ “چلو تانیہ، اس پراسرار کمرے کی طرف چلو۔ ” یہ خواہش اتنی شدید تھی کہ تانیہ کسی معمول کی طرح اٹھ گئی۔ وہ نیچے پہنچی تو اسے کوئی نہ دکھائی دیا۔ خالہ فرزانہ اپنے کمرے میں تھیں اور ان کا دروازہ بند تھا۔ دردانہ بھی اپنا کام سمیٹ کر اپنے کمرے میں جا چکی تھی اور افضل تو گھر میں تھا ہی نہیں۔ وہ بڑے اطمینان سے چلتی ہوئی اس پراسرار کمرے کے سامنے پہنچ گئی۔ دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا تو اس کا دل بری طرح دھڑکنے لگا۔ ہینڈل پر ہلکا دباؤ ڈال کر اس نے دروازہ کھولا۔ ابھی دروازہ تھوڑا سا کھلا تھا کہ اندر سے ایک مردانہ آواز آئی۔
“ابھی نہیں، رات کو آنا۔ “
اس آواز میں ایک تنبیہ تھی۔۔ ترغیب یا بلاوا نہ تھا۔ بڑی گونج دار آواز تھی ۔ لہجہ اگر سخت نہیں تو نرم بھی نہ تھا۔ اگر کوئی آدمی ضروری کام میں مصروف ہو اور آپ اس کے کام میں مخل ہونا چاہیں تو پھر اسی طرح کا جملہ سنائی دیتا ہے۔ اس آواز کو سن کر تانیہ کو بھی یہی محسوس ہوا تھا جیسے وہ دروازہ کھول کر مداخلت بیجا کی مرتکب ہوئی ہو۔
اس نے فوراً دروازہ بند کر دیا۔ اول تو دروازہ کھلا ہی کتنا تھا۔ جتنا کھلا تھا اس سے اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہ آیا تھا۔ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ بھاگتی ہوئی سیڑھیوں تک آئی، تیزی سے سیڑھیاں چڑھیں اور دھم سے اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ خدا کا شکر تھا کہ کسی نے اس پراسرار کمرے کو کھولتے اور پھر فوراً ہی وہاں سے بھاگ کر آتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
رات کو اس نے جب دروازہ کھولا تھا تو دروازہ کھولتے ہی یخ ہوا کا ایک تیز جھو نکا اندر سے آیا تھا جیسے کمرے میں چار پانچ ایئر کنڈیشنز ایک ساتھ چل رہے ہوں لیکن اس وقت ایسا محسوس نہیں ہوا تھا۔ ٹھنڈی ہوا تھی نہ گرم ہوا تھی اور نہ ہی وہ بو تھی جو عرصے سے بند کمروں میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اس مرتبہ ہوا کے بجائے آواز آئی تھی یہ بڑی پر رعب آواز تھی۔
“ابھی نہیں رات کو آنس “
تنبیہ کے ساتھ اسے ہدایت کی گئی تھی اور اس ہدایت کے مطابق اسے رات کا انتظار کرنا تھا۔ جب سے اس نے اس کمرے کے بارے میں سنا تھا، وہ یہی سوچتی رہی تھی کہ اس کمرے کے اندر کوئی اسرار نہیں ہے، محض کسی غلط فہمی کی بناء پر اسے بند کر دیا گیا ہے۔ مگر اب آہستہ آہستہ اس کمرے کے اسرار اس پر کھلتے جارہے تھے۔ اور وہ یہ بات سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی کہ اس کمرے میں ضرور کوئی چیز ہے۔ اس آواز نے ہر شہے کو یقین میں بدل دیا تھا۔
اس نے بھی طے کر لیا تھا کہ وہ اس کمرے میں جاکر رہے گی۔ یہ معلوم کر کے رہے گی کہ وہاں کیا ہے۔ دادا اعظم نے اس کمرے کے دروازے کی تصویر بنائی تھی تو کچھ سوچ کر ہی بنائی ہوگی۔ وہ بے چینی سے رات کا انتظار کرنے لگی۔
بالآخر رات کا فسوں ہر سو پھیلا۔
آسمان تاریک تھا اور گہرے سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ دو بجے کا عمل تھا۔ ایک الو اس مکان کے اوپر سے کئی بار گزر چکا تھا اور وہ جب بھی گزر تا تو ایک تیز چیخ مارتا اور پروں کی پھڑ پھڑاہٹ کی آواز دور تک گونج جاتی۔ اس مکان کے سات چکر لگانے کے بعد وہ تانیہ کے کمرے کی چھت پر بیٹھ گیا۔ جبھی تانیہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی بڑا سا پرندہ اس کے سینے پر آبیٹھا ہو۔ آنکھ کھلی تو اسے احساس ہوا کہ وہ جیسے خواب دیکھ رہی تھی۔ گھڑی پر نظر ڈالی ۔ دو بج کر پانچ منٹ ہوئے تھے۔ رات کا کھانا کھا کر وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ پھر یہ سوچتے سوچتے کہ کس وقت کمرے میں جائے اسے نیند نے آدبوچا تھا۔ اور اب اس کی آنکھ کھلی تو دو سے اوپر کا عمل تھا۔ کمرے میں لائٹ جل رہی تھی۔ دروازہ بند تھا۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سینے پر کسی بڑے سے پرندے کا احساس، خواب تھا، خیال تھا یا اس کا وہم تھا۔ خیر اب وہ اٹھ گئی تھی۔ رات کو آنے کی ہدایت اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ نیچے جانے کی خواہش اس کے دل میں گہری ہوتی جارہی تھی۔ کوئی اسے کہہ رہا تھا چلو نیچے چلو۔ پھر وہ کسی معمول کی طرح اٹھی۔ اور سحر زدہ انداز میں زینہ اترنے لگی۔
بر آمدے کی لائٹ روشن تھی۔ وہ بڑے اطمینان سے اس پراسرار کمرے کے دروازے پر جاکھڑی ہوئی۔ پھر اس نے تعویذ چھوئے بنا ہینڈل کو ہلکا سا گھمایا، دروازہ کٹ کی آواز کے ساتھ تھوڑا سا کھل گیا۔
ایک لمحے کو اس نے توقف کیا۔ جیسے اندر آنے کی اجازت چاہی ہو۔ تبھی اندر سے آواز آئی۔ اندر آجاؤ، کب تک دروازے پر کھڑی رہو گی ۔ “
وہ فورا ہی دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ اندر داخل ہوئی تو کمرے کا منظر دیکھ کر اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ اس کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ اندر یہ سب کچھ ہو گا۔ اس کے تصور میں یہ تھا کہ کمرہ اندر سے بے حد تاریک ہو گا کیونکہ اسے بتایا گیا تھا کہ کمرے کی دیواروں حتی کہ چھت پر بھی کالا رنگ کروایا گیا ہے۔ جگہ جگہ جالے لگے ہوں گے۔ اندر کیڑے مکوڑے رینگ رہے ہوں گے۔ بند کمرے کی بو ہوگی۔ سیلن ہوگی لیکن یہاں کا تو نقشہ ہی الٹا ہوا تھا۔ جب وہ دروازہ کھول کر اندر آئی تو اس سے کہا گیا۔ ” دروازہ بند کر دو۔ “
دروازہ بند کر کے پلٹی تو اس نے دیکھا کہ کمرے میں بے حد روشنی ہے جیسے دن نکلا ہو۔ کمرے کے عین وسط میں ایک اونچی مسند پر ایک شخص زرق برق لباس میں بیٹھا ہے۔ کمرے میں سرخ رنگ کا دبیز قالین بچھا ہوا ہے۔ وہ ادھیڑ عمر کا شخص کسی ریاست کا راجہ محسوس ہورہا تھا۔ اس کے بیٹھنے کا انداز، قیمتی زرق برق لباس اور گلے میں پڑے موتیوں کے ہار اس کے والی ریاست ہونے کے غماز تھے۔
گھنگھریالے بال، سرخی مائل سانولی رنگت، صحت مند جسم ایک ہاتھ میں سانپ کی طرح بل کھایا عصا تھا۔
“آؤ بیٹھو۔ ” اس شخص نے پر تمکنت انداز میں کہا۔
ابھی تانیہ سوچ ہی رہی تھی کہ وہ کہاں بیٹھے کیونکہ اس کمرے میں کرسی نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ چند لمحوں میں اس شخص کے سامنے چند قدموں کے فاصلے پر محمل کی گدی والا ایک اسٹول نمودار ہو گیا۔ اس شخص نے مسکرا کر اس نشست کی طرف اشارہ کیا۔ تانیه سحر زدہ انداز میں ایک اسٹول پر بیٹھ گئی۔ تب تانیہ کی نظر اس کے پیروں پر پڑی۔ وہ ننگے پاؤں تھا۔ مگر اس کا ایک پیر تھا۔
تم حیران ہو ؟ ” اس ادھیڑ عمر والی ریاست جیسے شخص نے بڑی گرج دار آواز میں سوال کیا۔
”ہاں ! ” تانیہ بمشکل بول پائی
اس کمرے کا ماحول دیکھ کر ؟” اس نے سوال کیا۔
ہاں ۔ ” اس نے مختصر جواب دیا۔
جو رات تم لوگوں کے لئے رات ہے، وہ رات ہمارے لئے دن ہے۔ ہماری راتیں روشن ہوتی ہیں اور دن تاریک۔ جب تم لوگ سو جاتے ہو تو ہم باہر آجاتے ہیں۔ ہر سو ہمارا راج ہوتا ہے۔ “
آپ کون ہیں ؟ ” تانیہ نے ہمت کر کے سوال کیا۔
یہ میں بتانا بھی چاہوں تو نہی بتا سکتا سمجھانا چاہوں بھی تو نہیں سمجھا سکتا۔ بس تم اتنا کجھ لو کہ تمہاری
وجہ سے مجھے آزادی ملی ہے۔ میں تمہارا ممنون احسان ہوں ۔
” میری وجہ سے ؟ ” تانیہ حیرت زدہ تھی۔ ” وہ کیسے ؟؟
نہ تم یہاں آتیں، نہ پنجرے میں وہ آتا، نہ خون پھیلتا اور نہ اس خون میں ہم غسل کرتے۔
” میں سمجھی نہیں، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟” وہ واقعی کچھ نہیں سمجھی تھی۔
ہم سمجھا بھی نہیں سکتے۔ اور تمہیں کچھ سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں۔ ” یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ پھیلایا تو اس کی ہتھیلی پر ایک کتاب نمودار ہو گئی۔
” یہ لو یہ ہماری طرف سے چھوٹا سا تحفہ ہے اسے رکھ لو”
تانیہ نے اٹھ کر اس کے ہاتھ پر رکھی ہوئی کتاب کو لے لیا اور چاہتی تھی کہ اسے کھول کر دیکھے۔ اس نے فوراً کہا

“نہیں ابھی نہیں، اپنے کمرے میں جاکر دیکھنا”
۔ جی بہتر … آپ کا شکریہ ۔ “
تب وہ ادھیڑ عمر کا شخص جو اپنی وضع قطع سے کسی تاریخی ڈرامے کا کردار لگتا تھا، اپنے بل کھاتے عصا کے سہارے اٹھا، اور بولا۔
اب تم جاؤ ۔ اور ہاں کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہمارے راز تم اپنے لوگوں پر کھولتی پھرو۔ میری بات سمجھ گئیں نا تم ۔
” ہاں ۔ “ تانیہ نے فرمانبرداری سے گردن ہلائی۔ اور واپسی کے لئے مڑی ۔ اس نے واپسی کے لئے دو قدم ہی بڑھائے ہوں گے کہ کمرے میں اچانک تاریکی چھا گئی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ گھپ اندھیرا تھا اور ایک عجیب طرح کی ٹھنڈک ۔ وہ دروازے کے نزدیک تھی مگر اسے دروازہ نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے جلدی سے ٹٹول کر دروازے کا ہینڈل ڈھونڈا اسے گھمایا اور کمرے سے باہر آگئی۔ باہر کا وہی ماحول تھا۔ اس نے پلٹ کر دروازہ بند کیا۔ لمبے لمبے دو تین گہرے سانس لئے۔ پھر وہ تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی اپنے کمرے میں آگئی۔ اور دروازہ بند کر لیا۔ جب وہ دروازہ بند کر رہی تھی تو اسے کسی پرندے کی چیخ اور پروں کے پھڑ پھڑانے کی تیز آواز سنائی دی تھی۔ پروں کی پھڑ پھڑاہٹ اور چیخ سن کر اس کی نظروں کے سامنے پنجرے والا الو آگیا تھا۔ پنجرے میں الو کا زخمی ہونا، بے پناہ خون کا پھیلنا، خون آلود پیر کے نشان اور اس زخمی اُلو کا پنجرے سے اڑ جاتا۔
تب اسے اس کا جملہ یاد آیا۔

نہ تم یہاں آتیں، نہ پنجرے میں وہ آتا، نہ خون پھیلتا اور نہ اس خون میں ہم غسل کرتے۔ “

کیا تھا یہ سب کچھ ۔ یہ کیا گورکھ دھندا تھا۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ بہر حال وہ خوش تھا اور اپنی آزادی کو تانیہ سے منسوب کرتا تھا اور اسی خوشی میں وہ اسے ایک تحفہ دے گیا تھا۔ تانیہ نے بیڈ پر بیٹھ کر اس تحفے کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ خوبصورت چمڑے کی جلد تھی۔ وہ کتاب نہ تھی، ڈائری تھی۔ بغیر لائنوں کا سفید چمکدار کاغذ ۔ سارے ورق سادہ تھے۔ ان پر کچھ نہ لکھا تھا۔ یہ عجیب تحفہ تھا۔
اس نے اس ڈائری کو ایک کیسٹ نکال کر اس کے کور میں رکھ دیا۔ وہ ڈائری بڑے آرام سے ایک کور میں آگئی۔ تب اس نے اس کور کو ویڈیو کیسٹوں کے درمیان رکھ دیا۔ اب اس تحفے پر آسانی سے کسی کی نظر نہیں پڑ سکتی تھی۔ ویسے بھی اس کے کمرے میں دردانہ کے سوا کوئی نہیں آتا تھا۔ دردانہ اپنے کام سے کام رکھتی تھی۔ وہ اس کی چیزوں کو بالکل نہ چھیڑتی تھی۔ بہت احتیاط سے صفائی کر کے چلی جاتی۔ کبھی کبھار افضل آجاتا تھا، وہ بھی تانیہ کے اصرار پر ۔ تھوڑی دیر بیٹھتا، گپ شپ لگاتا اور چلا جاتا۔ خالہ فرزانہ اپنے مرض کی وجہ سے اوپر آتی ہی نہ تھیں۔ جب تانیہ یہاں نئی نئی آئی تھی اور اس نے اپنا کمرہ سیٹ کیا تھا تو کچھ اس کے اصرار اور کچھ اپنے شوق میں اس کا کمرہ دیکھنے کے لئے اوپر آگئی تھیں۔ اب تانیہ کی آنکھوں میں نیند اتر رہی تھی۔ اس کی آنکھیں بوجھل ہورہی تھیں۔ وہ بستر پر لیٹی تو پانچ منٹ کے اندر گہری نیند میں چلی گئی۔ صبح جب وہ منہ ہاتھ دھو کر نیچے پہنچی تو خالہ فرزانہ ڈائننگ ٹیبل پر حسب معمول اس کی منتظر تھیں۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرائیں اور بولی۔ “آؤ، تانیہ ۔
” آگئی خالہ ۔ ” تانیہ نے خوش اخلاقی سے کہا۔ انہیں سلام کیا اور کرسی کھینچ کر ان کے قریب بیٹھ گئی۔ سلام کے جواب میں خالہ فرزانہ نے دعائیں دی۔
دردانہ کہاں ہے ؟ ” تانیہ نے پوچھا۔
آرہی ہے، چائے لینے گئی ہے۔
” میں آگئی بی بی۔ “
دردانہ یہ کہتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی ۔ چائے کی کیتلی میز پر رکھی۔ اسے ٹی کوزی سے ڈھکا۔ اور کرسی گھسیٹ کر خود بھی بیٹھ گئی۔ جب سے تانیہ آئی تھی، وہ اسے ناشتے کی میز پر ساتھ ہی بٹھاتی تھی۔ خالہ فرزانہ کو شروع شروع میں اعتراض ہوا تھا، وہ نوکر اور مالک کے درمیان تھوڑے بہت فاصلے کی ضرور قائل تھیں۔ مگر تانیہ کی خوشی کی خاطر اس معاملے کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا
بھائی کہاں ہیں ؟ ” تانیہ نے ٹوسٹ پر مکھن لگاتے ہوئے کہا۔
بھائی اپنے کمرے میں ہو گا اور سو رہا ہو گا۔ “
ناشتہ نہیں کریں گے وہ ؟ “
اس نے کبھی ہمارے ساتھ ناشتہ کیا ہے جو آج کرے گا۔ ” اب خالہ ایسا بھی نہیں۔ انہوں نے کئی بار ہمارے ساتھ ناشتہ کیا ہے۔ ؟ “
اب رہنے بھی دو تانیہ ۔ سال میں ایک دو مرتبہ کر لیا تو اس کو باقاعدہ ناشتہ کرنا کہتے ہیں۔ “
اچھا ٹھہریں . میں انہیں اٹھا کر لاتی ہوں ۔
” لیجئے میں خود ہی آگیا ۔ ” افضل نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ ” یہ خالہ ضرور میری برائیاں کر رہی ہوں گی۔ “
بھائی ایسی ویسی ۔ ” تانیہ نے ہنس کر کہا۔ دردانہ اسے دیکھ کر اٹھ گئی۔ اس کے لئے سکے ہوئے سلائس لانے کے لئے۔
خالہ آپ مجھ کنوارے کے پیچھے کیوں پڑی رہتی ہیں۔ “ افضل نے مسخرے پن سے کہا۔
تو کرلے نا شادی میں نے منع کیا ہے۔ ” خالہ جل کر بولیں۔ انہوں نے منع کیا ہے۔ ” افضل نے بڑی معصومیت سے کہا۔
خالہ فرزانہ سمجھیں کہ افضل نے تانیہ کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ وہ ایک دم چونک گئیں۔ خود تانیہ بھی سمجھی کہ اشارہ اس کی طرف ہے۔ وہ حیرت بھری نظروں سے افضل کو دیکھنے لگی۔
وہ انہوں نے۔ ” افضل نے کمرے کے باہر کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔
” باہر کون ہے۔ کسی کو کھڑا کر کے آئے ہو کیا؟” خالہ فرزانہ نے پوچھا
اوہو خالہ اتنی عقلمند ہو کر بھی آپ میرا اشارہ نہیں سمجھیں۔ وہ کمرے والے صاحب۔
افضل نے یہ کہہ کر ایک لمحے کو توقف کیا۔ خالہ فرزانہ کی آنکھوں میں الجھن کے آثار پیدا ہوئے۔ تب وہ بولا ۔ ” “اس گھر کو فروخت کرنے کی دوسری شرط یہ تھی کہ گھر میں بچے نہ ہوں تو اچھا ہے۔ اب اگر خالہ شادی کر لیتا تو ان آٹھ سالوں میں کتنے بچے آپ کے دائیں بائیں کھیل رہے ہوتے تو پھر ہم کہاں ہوتے۔ ؟؟ا
فضل کی یہ بات سن کر تانیہ بے اختیار مسکرا پڑی۔
” آپ بھی کمال کرتے ہیں بھائی۔ آپ نے اس وجہ سے اب تک شادی نہیں کی ۔ ؟ “
ارے تانیہ تم کس کی باتوں میں آرہی ہو۔ یہ ایک نمبر کی چیز ہے۔ افضل جس کا نام ہے۔ “
” خدا کا شکر ہے خالہ آپ نے مجھے دو نمبر کی چیز نہیں کہا۔ ” افضل ہنس کر بولا۔
بھائی ایک بات بتائیں۔ ” تانیہ نے سنجیدگی اختیار کی۔
ایک نہیں، دو بات پوچھیں لیکن یہ باتیں شادی سے متعلق نہیں ہوں گی۔
” ٹھیک ہے۔ ” تانیہ نے وعدہ کر لیا، پھر بولی ۔ ” میں یہ پوچھ رہی تھی کہ اس پر اسرار کمرے کو کبھی کسی نے کھولنے کی کوشش کی۔ “
نہیں، آج تک نہیں ۔ ” افضل نے کہا۔ لیکن یہ خیال آپ کے دل میں کیوں آیا۔ ؟”
ہو سکتا ہے۔ یہ دروازہ بند ہی نہ ہو۔ ” تانیہ نے سادگی سے کہا۔ “کیوں نہ یہ دیکھا جائے کہ وہ دروازہ بند ہے یا کھلا ہوا۔ اگر کھلا ہو تو اندر جانے کی ہمت کی جائے آخر پتہ تو چلے کہ بند دروازے کے پیچھے کیا ہے؟
آپ کا مطلب ہے کہ یہ دروازہ مقفل نہیں ہے ۔ ” افضل نے سوال کیا۔
ہاں ہو سکتا ہے۔ کیونکہ آپ میں سے کسی نے اس دروازے کے ہینڈل کو گھمانے کی کوشش نہیں کی یا کی ہے ؟ ” تانیہ نے پوچھا۔
نہیں کی اور وہ اس لئے نہیں کی کہ سابقہ مالک مکان وسیم نے مجھے سختی سے اس سلسلے میں منع کیا ۔ پھر میں کیوں خواہ مخواہ مصیبت مول لیتا .. ویسے میں روشن علی صاحب کی تلاش میں پاکستان کوارٹر گیا تھا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ وہ اسلام آباد شفٹ ہو چکے ہیں۔ وہ جس محلے میں ملازم تھے، وہ دفتر ہی اسلام آباد منتقل ہو گیا ہے ۔ “
“تانیہ تمہارے سر پر اس کمرے کا بھوت کیوں سوار ہو گیا ہے۔ تم آخر کیا کرنا چاہ رہی ہو۔ پہلے ہی گھر میں کیا کم پر اسرار واقعات پیش آرہے ہیں۔ اس رات کا واقعہ جب بھی یاد آتا ہے۔ دل دھڑ دھڑ کرنے لگتا ہے۔ “
ارے خالہ … آپ روز بروز اتنی بزدل کیوں ہوتی جارہی ہیں۔ آپ ڈریں نہیں۔ میں کروں گی یہ کام ۔ ” تانیہ نے بڑے مستحکم لہجے میں کہا۔
” شی ” خاله فرزانہ نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے بولنے سے منع کیا۔ تب اس نے دیکھا کہ دردانہ آرہی ہے۔ وہ خاموش ہو گئی پھر ناشتہ بھی سب نے بڑی خاموشی سے کیا۔۔
ناشتے کے بعد جب دردانہ برتن اٹھا کر کچن میں چلی گئی تو تانیہ افضل سے مخاطب ہوئی ۔
” آپ کیا کہتے ہیں ؟
” بھئی جب آپ خاتون ہو کر جرأت کا مظاہرہ کرنے کو تیار ہیں، میں تو پھر مرد ہوں، میں بھلا کیسے پیچھے ہٹ سکتا ہوں ۔ “ افضل نے پالیسی بیان دیا۔
آئیے، بھائی، پھر چلئے۔ چل کر دیکھتے ہیں۔ نیک کام میں دیر کاہے کی۔ “
اے، تانیہ کچھ ہوش کے ناخن لو۔ باؤلی ہوئی ہو کیا؟ “
خاله جب دروازہ مقفل ہے تو وہ ہمارے ہاتھ لگانے سے تھوڑا ہی کھل جائے گا۔ ہم کوئی تالا توڑ کر کمرے میں نہیں داخل ہو رہے ۔ ہم تو صرف ہینڈل گھما کر دیکھیں گے اگر تالا کھلا ہو گا تو تھوڑا سا دروازہ کھول کر دیکھیں گے ۔ ” تانیہ نے بڑے پر سکون انداز میں کہا۔ “خاله، تانیہ بات تو ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ “
تم دونوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ جو مرضی آئے کرو، میں تو جاتی ہوں، اپنے کمرے میں۔ “
خالہ فرزانہ اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھنے لگیں۔
” خالہ ٹھیک ہے، آپ چلیں اپنے کمرے میں۔ ہم ابھی آکر آپ کو رپورٹ دیتے ہیں ؟ ” تانیہ بھی کرسی پیچھے کسکا کر کھڑی ہو گئی۔
تانیہ کے دل میں ذرا سا بھی خوف نہ تھا۔ اسے معلوم تھا کہ دروازہ کھلا ہوا ہے اور اب اس کمرے میں وہ نہیں ہے جو تھا، وہ رخصت ہو چکا ہے اس لئے وہ بے خوفی سے آگے بڑھنے لگی۔ پیچھے پیچھے افضل تھا خاله فرزانہ کمرے سے ابھی نکل نہ پائی تھیں۔
تانیہ اور افضل اس پراسرار دروازے کے سامنے آکر رک گئے۔ افضل کو اگرچہ اس گھر میں شفٹ ہوئے سات آٹھ سال ہو چکے تھے مگر اس نے آج تک اس دروازے کو بغور نہ دیکھا تھا۔ آج اس نے پہلی بار اس پراسرار دروازے کو بغور دیکھا۔ دروازہ بند تھا۔ وہ تعویذ کالے کپڑے میں سلا ہوا تھا اور نائیلون کی کالی ڈوری اس میں لگی ہوئی تھی۔ سفید اسٹیل کے ہینڈل میں، اس کالی ڈوری کو تین چار بل دے کر تعویذ لٹکا دیا گیا تھا۔ ڈوری اس طرح ہینڈل کے گرد لپیٹی گئی تھی کہ وہ تعویذ گر نہیں سکتا تھا۔ افضل دروازہ کھولنے کے لئے آگے بڑھنے لگا تو تانیہ نے اسے روک دیا اور خود آگے بڑھ کر ہینڈل پر پہلے ہی ہاتھ رکھ دیا۔ افضل کا دل دھاڑ دھاڑ کرنے لگا۔ تانیہ بھی تھوڑی سی پریشان ہوئی اس اثناء میں اسنے ہینڈل پر دباؤ ڈال کر اسے گھمانا چاہا۔ ہینڈل تھوڑا سا گھوما لیکن دروازہ نہ کھلا۔
دروازہ مقفل تھا۔ تانیہ نے دو تین بار ہینڈل کو اوپر نیچے کیا۔ دروازہ کھولنے کے لئے زور لگایا لیکن دروازہ نہیں کھلا ۔۔ تب وہ گہرا سانس لے کر پیچھے ہٹ گئی۔ اسے بڑی حیرت ہورہی تھی۔ اس نے تین مرتبہ اس دروازے کو کھولا تھا اور جب بھی ہینڈل پر ہاتھ رکھا تھا۔ دروازہ کھل گیا تھا۔ وہ رات ہی کو تو اس کمرے میں گئی تھی۔ اس لنگڑے شخص سے ملی تھی جو کسی ریاست کا راجہ دکھائی دیتا تھا۔ کیا یہ سب اس کا وہم تھا۔ اس کے تخیل کی پرواز تھی۔ اس کے ذہن کی کرشمہ سازی تھی۔

“بھائی آپ ذرا کوشش کریں۔ “
افضل نے خاموشی سے آگے بڑھ کر ہینڈل کو زور دے کر اوپر نیچے کیا۔ مگر دروازہ نہیں کھلا۔ دروازہ لاک تھا
”تانیہ یہ لاک ہے ۔ “
اب تانیہ یہ کیسے کہتی کہ اب تک یہ دروازہ لاکڈ نہیں تھا ۔ تین مرتبہ وہ اس دروازے کو کھول چکی ہے ۔۔ ایک مرتبہ اس کمرے کے اندر جا چکی ہے۔ وہ یہ بات نہیں کہہ سکتی تھی۔ اگر کہتی تو یقینی طور پر اسکی دماغی حالت پر شبہ کیا جانے لگتا۔
مگر اسے خود اپنی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگا تھا۔ یہ اسے کیا ہو رہا تھا۔ کیا وہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہو گئی تھی۔ پھر اسے خیال آیا کہ “لنگڑے راجہ ” نے اسے ایک تحفہ دیا تھا۔ وہ ایک خوبصورت ڈائری تھی۔ اس ڈائری کو اس نے ویڈیو کیسٹ کے کور میں چھپا کر کیسٹوں کی قطار میں لگادیا تھا۔ اوپر جاکر اس ڈائری کو دیکھنا چاہئے۔
“ارے کیا ہوا؟” پیچھے سے خالہ فرزانہ کی آواز آئی۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اب پہنچی تھیں اور اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑی ہوئی ان دونوں کو پریشانی سے دیکھ رہی تھیں۔
خالہ، دروازہ لاک ہے۔ ” افضل نے اطلاع دی۔
میرے لئے یہ کونسی نئی اطلاع ہے۔ یہ بات میں جب سے اس گھر میں آئی ہوں، جانتی ہوں اور تھا۔ اس بات کوجانتے ہوئے مجھے سات آٹھ سال ہو گئے ۔ ” یہ کہہ کر خالہ فرزانہ اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
پھر افضل نے بغیر کچھ کہے اپنے کمرے کا رخ کیا، اسے دفتر جانے کی تیاری کرنا تھی۔ اب وہ دروازے کے سامنے تنہا رہ گئی ۔ اس نے اوپر جانے کے لئے زینے کی طرف قدم بڑھائے۔ دو چار قدم چل کر وہ پھر رک گئی۔ واپس پلٹی۔ اس نے سوچا ایک مرتبہ اور کیوں نہ دروازے کی آزمائش کرے۔ اس وقت اس کے آس پاس کوئی نہیں تھا۔
اس نے بہت احتیاط سے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا نیچے کی طرف دباؤ ڈالا۔ ہینڈل نیچے ہو گیا مگر دروازہ نہ کھلا۔ دروازہ واقعی مقفل تھا۔
اسے اپنی ذات کے بارے میں فکر لاحق ہو گئی تھی۔ اب وہ یقین اور غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہو گئی تھی۔۔ ہونے یا نہ ہونے کا دارو مدار اب اس ڈائری پر تھا جو اس نے کیسٹوں کی قطار میں چھپائی ہوئی تھی۔
وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر پہنچی۔ دروازہ بند کیا اور دھڑکتے دل سے کیسٹوں کے شیلف کی طرف بڑھی۔ نزدیک جاکر اس نے بے قراری سے کیسٹوں کی قطار پر نظر ڈالی تب اسے وہ کیسٹ کور نظر آگیا۔ جس پر کوئی لیبل نہیں لگا تھا اس نے جلدی سے وہ کور باہرنکال لیا۔ اور اس کور میں سے وہ ڈائری کھینچ لی۔
چمڑے کی جلد والی خوبصورت ڈائری موجود تھی۔ اس نے آنکھیں بند کر کے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اگرڈائری کھینچ لی۔ چھڑے کی جلد والی خوبصورت ڈائری موجود تھی۔ اس نے آنکھیں بند کر کے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اگر یہ ڈائری نہ ملتی تو وہ اپنی نظروں میں ہی پاگل قرار پاتی۔ اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی کہ اب تک جو کچھ ہوا، وہ اس کے ذہن کی اختراع تھی مگر اب وہ یہ سوچ رہی تھی کہ لنگڑے راجہ ” کا تحفہ موجود تھا اور یہ تحفہ
اسے کمرے کے اندر دیا گیا تھا۔ وہ کمرے میں کس طرح گئی تھی۔ اگر دروازہ اس وقت کھلا تھا تو اب کسی طرح بند ہو گیا تھا ۔
یہ سب کیا اسرار تھا۔ یہی کیا اس کی زندگی میں بہت اسرار تھے۔ اس کی زندگی کسی معمہ سے کم نہ تھی۔ چاروں طرف اشارے ہی اشارے تھے۔ ان اشاروں کا کوئی حل نہ تھا۔ لوگ اسے ترکش کیوں کہتے تھے۔ دادا اعظم نے اس کا اصل نام ترکش بتایا تھا پھر وہ پراسرار شخص کالا چراغ، اس نے بھی آکر ترکش ہی کہا، اسے نہیں معلوم تھا کہ یہ نام کس نے رکھا؟ اس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا، اپنا نام تانیہ ہی سنا تھا۔ پھر وہ جس گھر میں پلی بڑھی اور جن کو وہ اپنا ماں باپ سمجھتی رہی وہ اس کے ماں باپ ثابت نہ ہوئے۔ لاہور سے اسے کراچی کیوں منتقل کیا گیا۔ انکل عامر اسے لاہور واپس کیوں نہیں بلاتے تھے۔ پھر وہ پر اسرار خواب … دادا اعظم کا لفافہ۔ پراسرار کمرہ ۔ ایک سلسلہ تھا سوالوں کا۔ سوال ہی سوال تھے جواب کسی کے پاس نہ تھا۔
اس کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی۔ کاش کوئی ایسا ہو، جو اس کی ذات سے پردہ اٹھا سکے جو بتا سکے کہ وہ کون ہے۔ کاش کوئی بتا سکتا۔ بڑی شدید خواہش تھی۔ اتنی شدت سے تو اس نے آج تک نہ سوچا تھا۔
بھلا کیسے معلوم ہو گا، یہ سب کچھ، کون بتائے گا۔ تبھی اس کے ہاتھ سے ڈائری چھوٹ کر قالین پر گر پڑی۔ اس نے جھک کر ڈائری اٹھائی اور بیڈ پر بیٹھ کر ایسے ہی اس کے ورق کھول کر تیزی سے دیکھنے لگی۔
اچانک اس کی نظر پڑی تو وہ کچھ حیران سی ہوئی۔ ڈائری کے اندر اسے چند صفحات پر کوئی تحریر نظر آئی حالانکہ جب اس نے ڈائری کور میں رکھی تھی تو اس وقت اس میں ایک لفظ بھی تحریر نہ تھا۔ اپنا شبہ دور کرنے کے لئے اس نے ڈائری کے صفحات کو پھر دیکھا اور پھر اس نے ان صفحات کو پکڑ لیا جن پر واقعی کچھ چھپائی ہوئی تحریر تھا۔
وہ بڑی خوش خط تحریر تھی۔ ایک ایک لفظ موتیوں کی طرح ٹنکا ہوا تھا۔ یہ تحریر کالی روشنائی سے لکھی تھی۔ اس نے تحریر کا پہلا صفحہ نکالا اور پڑھنے لگی۔ لکھا تھا۔
“تم پریشان کیوں ہوتی ہو؟ ہم بتائیں گے کہ تم کون ہو؟ تمہارے دماغ میں آنے والے ہر سوال کا جواب ملے گا۔ چلو پہلے اپنے بارے میں جان لو، پھر جو چاہے سوال کر لینا۔ تمہارے والد ایک بہت بڑے زمیندار کے بیٹے تھے۔ تمہارے دادا سر راؤ فرمان علی بڑے اثر و رسوخ والے آدمی تھے۔ انہوں نے انگریزوں سے “سر” کا خطاب پایا۔ بڑے نیک دل انسان تھے۔ ساون پور میں انہوں نے اپنی رہائش کے لئے جو حویلی بنوائی تھی وہ اپنے طرز کی انوکھی تھی۔ دور دور سے لوگ اس حویلی کو دیکھنے آیا کرتے تھے۔ سر فرمان کو دیہات کی زندگی بہت پسند تھی لیکن ان کے بیٹے یعنی تمہارے والد راؤ شمشاد گاؤں کی زندگی سے الرجک تھے۔ انہوں نے تمہارے دادا سے ضد کر لکے ماڈل ٹاؤن لاہور میں کوٹھی بوائی تھی۔ ماڈل ٹاؤن کی اس کوٹھی میں رہتے ہوئے انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔۔
تمھارے والد راؤ شمشاد اپنے باپ کی طرح نیک نیت انسان تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ اس کے مقابلے میں تمہارے چار راوث احمد علی نے کبھی کسی سے سیدھے منہ بات نہ کی تھی۔ نیکی کرنا اور غریبوں کے کام آنا تو دور کی بات ہے۔ وہ ایک سازشی ذہن کا شخص تھا۔ وہ بچپن سے ہی اتنا شاطر تھا کہ شرارت خود کرتا تھا لیکن ڈانٹ بڑے بھائی یعنی تمہارے والد کو پڑتی تھی اور تمہار والد راؤ شمشاد اپنے بڑے پن میں اسے معاف کر دیا کرتے تھے۔ ان دونوں بھائیوں کی زندگی بھر یہی عادت رہی۔ تمہارے چچا نے اپنی خو نہ چھوڑی اور تمہارے والد نے اپنی وضع نہ بدلی۔ سر فرمان علی کے انتقال کے بعد وصیت کے مطابق زمینیں اور دیگر جائداد تقسیم ہو گئی۔ جائداد کی تقسیم کے ساتھ ہی ساون پور کی حویلی بھی منقسم ہو گئی تھی لیکن تہمارے والد والے حصے پر بھی تمہارے چچا کا قبضہ تھا کیونکہ تمہارے والد کو دیہاتی زندگی پسند نہ تھی اس لئے وہ شاذ ہی ساون پور کا رخ کرتے تھے۔ پھر والد کے انتقال کے بعد تو انہوں نے ساون پور کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اس طرح زمینیں، باغات حویلی نام تو راؤ شمشاد کے ہی تھی لیکن عملاً قبضہ راؤ احمد علی کا تھا۔
سال چھ مہینے بعد وہ ساون پور آکر اپنی زمینوں کی آمدنی لے جایا کرتے تھے۔ اور ساون پور وہ پیسوں کی غرض سے نہیں آتے تھے، انہیں اصل میں شکار کا شوق تھا۔ وہ یہاں شکار کھیلنے کے لئے آیا کرتے تھے۔ تب راؤ احمد علی زمینوں کی آمدنی کے نام پر کچھ رقم ان کے بریف کیس میں رکھ دیا کر تا تھا۔۔
انہوں نے کبھی اپنے بھائی سے اپنی جائداد اپنی آمدنی کا حساب نہ لیا تھا۔ لیکن راؤ احمد علی بڑے حساب کتاب کا آدمی تھا۔ وہ بڑی خوبصورتی سے ایک ایک پائی کا حساب رکھے ہوئے تھا۔ اور ایک ایک قدم ہوشیاری سے اٹھا رہا تھا۔ تمہارے والد آرٹ کی دنیا کے آدمی تھے۔ شعر و شاعری سے لگاؤ تھا، خود بھی شعر کہتے تھے پینٹنگ کا بھی شوق تھا۔ اپنا شوق پورا کرنے کے لئے انہوں نے لاہور میں ایک ذاتی گیلری کھولی تھی۔ اس آرٹ گیلری کے ساتھ ہی انہوں نے ایک ریستوران کھول رکھا تھا۔ پیسوں کی ان کے پاس کوئی کمی نہ تھی، یہ کاروبار انہوں نے اپنا دل لگانے کے لئے کھولا تھا۔ تمہارے والد نے ابھی تک شادی نہ کی تھی۔۔ اور شادی نہ کرنے کی کوئی خاص وجہ بھی نہ تھی۔ ان کے مشاغل کچھ اس طرح کے تھے کہ انہی سے انہیں فرصت نہ ملتی تھی بس یونسی زندگی گزرتی جاتی تھی تمہارے دادا نے اس طرف توجہ بھی دلائی مگر وہ ہنس کر ٹال جاتے تھے۔ ماں تھیں نہیں۔ وہ دو بیٹوں کو جنم دے کر کب کی ملک عدم جا چکی تھیں۔ اپنی بیوی سے سر فرمان کو اتنی محبت تھی کہ اس کے بعد انہوں نے زندگی بھر شادی نہ کی۔ بیٹوں کی شادی میں ماؤں کی دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔ وہ اپنے بیٹوں کو ضد کر کے شادی کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ یہاں کوئی اصرار کرنے والا نہ تھا اور راؤ شمشاد کو شادی سے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا۔ پھر تمہارے چچا بھی یہی چاہتے تھے کہ بڑا بھائی شادی نہ کرے تو اچھا ہے۔ شادی ہو گئی تو اولاد بھی ہوگی اور اولاد ہوگی تو جائداد بھی تقسیم ہو جائے گی۔ راؤ احمد علی نے کبھی شادی کی طرف توجہ دلانے کی کوشش نہ کی تھی بلکہ وہ ان کے سامنے اپنی اولاد کی نالائقی کا رونا رونے لگتا تھا۔ وہ اولاد کو مصیبت کہتا تھا اور تمہارے والد کو خوش نصیب گردانتا تھا کہ انہوں نے شادی نہ کر کے بڑی عقلمندی کا ثبوت دیا ہے۔ اور وہ ہر طرح کے جنجال سے بچے ہوئے تھے۔
بات یہ ہے بی بی، کہ کسی کے چاہنے یا نہ چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ شادی بیاہ کا معاملہ تقدیر سے منسلک ہوتا ہے۔ جب تقدیر انسان کی زندگی میں خوشگوار لمحے لانا چاہتی ہے تو ویسے ہی اسباب پیدا کر دیتی ہے۔۔
تمہارے والد راؤ شمشاد علی چالیس سال کے ہونے کو آئے تھے۔ شادی کا معاملہ کبھی ان کے ذہن میں آیا بھی تھا تو اتنی عمر ہو جانے کے بعد وہ بالکل ذہن سے نکل گیا تھا۔
تب اچانک ہی ایک خاتون تمہارے والد کی زندگی میں آگئی تھیں۔ تمہارے والد نے اپنی آرٹ گیلری میں ایک آرٹسٹ کی چند تصاویر کی نمائش کی تھی۔ انہوں نے بہت منتخب لوگوں کو نمائش دیکھنے کے لئے مدعو کیا تھا۔ وہ خاتون مہوش کسی مہمان کے ساتھ آئی تھیں جب اس مہمان نے تمہارے والد سے مہوش کا تعارف کرایا تو یہ تعارف زندگی بھر کا تعلق بن گیا۔ پہلی ملاقات میں گویا دونوں نے جانا کہ وہ ایک دوسرے کے لئے بنے ہیں جب دو اجنبی ایک دوسرے کو دیکھ کر یہ محسوس کرنے لگیں کہ ہم ایک دوسرے کو صدیوں سے جانتے ہیں تو پھر یہ انجانا تعلق، ایک خوشگوار بندھن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جلد ہی دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔”۔۔

" تمہارے چچا احمد علی نے جب اپنے بڑے بھائی کی شادی کی خبر سنی تو بظاہر تو اس نے بڑی خوشی کا اظہار کیا لیکن اندر ہی اندر اس کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے۔ اگر اس کے لئے کسی طرح ممکن ہوتا تو وہ ہر ممکن کوشش کر کے اس شادی کو رکوا دیتا۔ وہ بے بسی سے ہاتھ ملتا رہ گیا اور تمہارے والد نے شادی کرلی

تمہاری ماں مہوش بہت سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔ وہ خود بڑے باپ کی بیٹی تھیں، اس لئے روپے پیسے سے انہیں کوئی لگاؤ نہ تھا۔ ان کی جگہ کوئی دوسری عورت ہوتی تو وہ اپنے شوہر کی لمبی چوڑی جائداد دیکھ کر اس پر اپنا قبضہ بحال کرنے کی کوشش ضرور کرتی ۔ مہوش نے دیکھا کہ ان کے شوہر کو زمین جائداد سے کوئی لگاؤ نہیں ہے تو انہوں نے کبھی اس مسئلے پر ان سے کوئی بات ہی نہ کی۔ تمہارا چچا راؤ احمد علی خوش تھا کیونکہ شادی کو ایک سال سے اوپر ہو گیا تھا مگر ابھی تک کسی بچے کی ولادت کی کوئی خبر نہ آئی تھی۔ تمہارے والد راؤ شمشاد اپنی ماڈل ٹاؤن والی کوٹھی میں خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ تمہارے چچا نے کئی مرتبہ انہیں ساون پور آنے کو کہا تھا مگر وہ وہاں جانے سے کتراتے تھے۔ شادی کے فوراً بعد بس ایک مرتبہ وہ ساون پور گئے تھے۔اب تمہارے چچا اور چچی کو یہ فکر دن رات گھن کی طرح کھائے جاتی تھی کہ راؤ شمشاد کے ہاں اگر کوئی وارث آگیا تو کیا ہو گا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہاتھ میں آئی ہوئی جائداد وارث آجانے کے بعد ان کے ہاتھوں سے نکل جائے۔ چچا چچی نے ان دونوں یعنی تمہارے والد اور والدہ پر ٹونے ٹوٹکے بھی کروائے لیکن بچے تو اللہ کی دین ہوتے ہیں۔ نہ وہ کسی کی خواہش پر روکے جاسکتے ہیں اور نہ کسی کی خواہش پر پیدا ہو سکتے ہیں۔ کائنات کا مالک ہی انسانوں کو وارث دے سکتا ہے۔ شادی کے دو سال کے بعد راؤ شمشاد کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا اس کا نام محسن رکھا گیا۔ وہ محسن راؤ کہلایا۔ بیٹے کی ولادت نے ساون پور کی حویلی میں صف ماتم بچھادی جبکہ تمہارے ماں باپ بہت خوش تھے۔
ہاں، بھائی کے نام پر چونکو مت۔ تمہارا ایک سگا بھائی اس دنیا میں موجود ہے۔ وہ اس وقت کہاں ہے، یہ بعد میں پتہ چلے گا۔ فی الحال یہ سنو کہ محسن راؤ کی پیدائش نے تمہارے چچا کے دل میں کیسی آگ بھر دی۔ اس کے سارے ٹونے ٹوٹکے بیکار گئے۔
محسن راؤ بہت ذہین لڑکا تھا۔ دس بارہ سال کی عمر میں پہنچتے پہنچتے اس نے بہت سے فن سیکھ لئے۔ تیراکی، گھڑ سواری، ڈرائیونگ، کشتی رانی، نشانہ بازی، اس کی اٹھان بھی بہت اچھی تھی۔ وہ بارہ سال کی عمر میں چودہ پندرہ سال کا لگتا تھا۔ تمہارے والد کے بر خلاف اسے دیہات کی زندگی سے بہت لگاؤ تھا۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ ساون پور میں مستقل رہائش پذیر ہو جائے ۔ محسن راؤ نے بہت جلد اندازہ لگالیا تھا کہ اس کے چچا نے اپنے بڑے بھائی کے سیدھے پن سے خوب فائدہ اٹھایا تھا۔ محسن راؤ اپنی زمین جائداد کے بارے میں متجسس تھا، وہ جانتا تھا کہ اس کے والد کی زمین جائداد کتنی ہے۔
جب راؤ احمد علی نے محسن راؤ کو سر اٹھاتے ہوئے دیکھا تو وہ فکر مند ہو گیا۔ اور لگا مختلف تدابیر سوچنے۔ اسے اپنے بھائی سے کوئی خطرہ نہ تھا کیونکہ وہ چون (54) سال کا ہو چکا تھا وہ اپنی عمر طبعی کو پہنچ رہا تھا مگر محسن راؤ تو اس کے نزدیک وہ ڈاکو تھا جو گھر کی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اگر اسے فوراً نہ روکا گیا تو اس کا گھر میں گھس آنا یقینی تھا۔
راؤ احمد علی کا شاطر ذہن بڑی تیزی سے کام کر رہا تھا۔ وہ تمہارے بھائی محسن راؤ کے بارے میں مختلف منصوبہ سازی میں مصروف تھا۔
ادھر تمہارا چچا مصروف کار تھا تو ادھر تقدیر اپنے کھیل میں مصروف تھی۔ وہ کسی طرح راؤ شمشاد کے اکلوتے وارث سے چھٹکارہ چاہتا تھا کہ ایک اور وارث دنیا میں آگیا وہ تم تھیں۔ بارہ سال کے بعد اللہ نے پھر راؤ شمشاد کے گھر میں رونق پیدا کر دی۔ راؤ شمشاد کو بیٹی کی بہت خواہش تھی۔ آخر یہ خواہش تمہاری موہنی صورت میں پوری ہو گئی۔
محسن راؤ نے جب سے ساون پور کے چکر لگانے شروع کر دیئے تھے تب سے راؤ احمد علی کے تیور بدلنے لگے تھے۔ ان تیوروں کو شمشاد اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ محسن راؤ جب بھی ساون پور جاتا تو راؤ شمشاد کا دل ایک انجانے خوف سے دھڑکنے لگتا۔ وہ اپنے بیٹے کو جانے سے روکتے نہیں تھے لیکن اندر سے چاہتے تھے کہ وہ ساون پور نہ جائے۔ ان کے دل میں وسوسے سے اٹھتے تھے۔ کسی انجانے خوف کے پیش نظر انہوں نے محسن راؤ کے ساتھ دو تربیت یافتہ محافظ بھیجنے شروع کر دئیے تھے۔ جب محسن راؤ اپنے محافظوں کے ساتھ، اپنی حویلی کے سامنے جیپ سے اترتا تو راؤ احمد کی آنکھوں میں کسی کانٹے کی طرح چبھ جاتا۔
بالآخر راؤ احمد علی نے پروگرام بنا ہی لیا کہ کیا کرتا ہے۔ راؤ احمد علی کا چھوٹا بیٹا اقبال راؤ اگرچہ محسن سے عمر میں بڑا تھا لیکن اس سے اس کی دوستی تھی۔ ساون پور میں وہ جہاں جاتے اکٹھے جاتے۔ محسن راؤ اپنے والد کی طرح شکار کا شوقین تھا۔ ایک مرتبہ جب وہ ساون پور آیا تو حسب معمول تیتر کے شکار کا پروگرام بن گیا۔
راؤ احمد علی نے اس مرتبہ ساری منصوبہ بندی کرلی تھی۔ محسن راؤ کے دونوں محافظوں کو دودھ میں افیون ملا کر دے دی گئی۔ علی الصباح جب محسن راؤ اپنے چچازاد بھائی اقبال راؤ اور دیگر ملازمین کے ساتھ شکار پر جانے کے لئے نکلا تو حویلی کے گیٹ پر اسے اطلاع دی گئی کہ اس کے دونوں محافظ بہت گہری نیند میں ہیں۔ بار بار اٹھائے جانے پر نہیں اٹھے۔ شاید دونوں رات بھر تاش کھیلتے رہے ہیں۔ محسن راؤ کو شکار پر
ان محافظوں کی ضرورت بھی نہ تھی۔ وہ ان دونوں کو سوتا ہوا چھوڑ کر شکار پر نکل گیا۔ اور پھر اسپتال میں تمہارے والد کو دو خبریں ملیں۔
تم اندازہ کر سکتی ہو کہ وہ دو خبریں کیا ہوں گی ؟ بھئی پہلی خبر تو تمہارے بارے میں تھی یہ خوشخبری تمہارے والد کو پورے بارہ سال بعد ملی تھی۔ جب نرس نے ایک پھول سی بچی پیدا ہونے کی اطلاع تمہارے والد کو دی تو یہ خبر سن کر ان کا دل باغ باغ ہو گیا۔ اتنی خوشی تو انہیں تمہارے بھائی محسن راؤ کی پیدائش پر بھی نہ ہوئی تھی۔ تمہارے والد کو لڑکیاں بہت پسند تھیں۔ وہ تمہاری پیدائش کو بڑی دھوم دھام سے منانا چاہتے تھے لیکن وقت نے کچھ اور ہی گل کھلا دیا۔ ایک اچھی خبر کے بعد فوراً ہی دوسری بری خبر ملی اور یہ بری خبر تھی تمہارے بھائی محسن راؤ کے بارے میں۔۔
اور یہ خبر لیکر آیا تھا راؤ احمد علی کا بڑا بیٹا آفتاب راؤ ۔
تمہارے والد راؤ شمشاد علی کے چہرے پر خوشی کے آثار پھوٹ رہے تھے اور وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ یہ خوشی کی خبر فوراً کس کو سنائیں۔ ان کی نظر آفتاب راؤ پر پڑی۔ وہ اچانک ہی کہیں سے آکر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا اور چہرے پر دہشت برس رہی تھی۔ راؤ شمشاد اس کی صورت دیکھ کر اپنی خوشی بھول گئے۔ ان پر تھراہٹ طاری ہو گئی فوری طور پر ان کے دماغ میں جو خیال آیا وہ یہ تھا کہ راؤ احمد علی کا انتقال ہو گیا۔ لیکن راؤ احمد بھلا آسانی سے مرنے والی چیز کہاں تھا۔ یہ خبر تمہارے والد کے بھائی کے بجائے تمہارے بھائی کے بارے میں تھی۔ آفتاب راؤ نے بڑے ڈرامائی انداز میں اپنا سر اٹھایا۔ بانہیں پھیلائیں اور تمہارے والد سے لپٹ کر بے تحاشا رو پڑا، اور روتے روتے بولا۔
تایا …. تایا جی . ہمارے بھائی کو ڈاکو اٹھا کر لے گئے۔۔
یہ سن کر راؤ شمشاد کی روح میں سناٹا اتر گیا وہ گھبرا کر بولے ۔
”کس بھائی کو ؟“
بھائی محسن راؤ کو ” ۔ آفتاب راؤ نے اپنی بھیگی پلکیں پونچھتے ہوئے کہا۔
ان کا جو حال ہوا سو ہوا لیکن جب راؤ احمد علی کو یہ خبر ملی کہ بڑے بھائی کے ہاں بارہ سال کے بعد ایک بچی نے جنم لیا ہے تو وہ خوشی جو اسے راؤ محسن کو ڈاکوؤں کے اٹھا لے جانے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ دل میں تیر بن کر چبھ گئی۔ اس نے تو اپنے تئیں جائداد کا وارث مٹانے کی کوشش کی تھی لیکن اوپر والے نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔ وہ بڑے خبیث مزاج کا آدمی تھا اس کے دماغ میں جو خناس بھر جاتا تھا اسے نکالنا پھر آسان نہ ہوتا۔ جائداد کے لالچ نے اس کو اندھا کر دیا تھا۔ اس کے دماغ میں یہ بات بڑے پختہ انداز میں بیٹھ چکی تھی کہ جائداد کے مالک کو کچھ کہنا نہیں ہے کہ وہ خود بخود قبر کے نزدیک ہوتا چلا جا رہا ہے اور جائداد کے وارثوں کو چھوڑنا نہیں ہے تاکہ لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور جتنے سانپ بھی راہ میں آئیں وہ مر جائیں اور اس پر کوئی انگلی بھی نہ اٹھا سکے۔
تمہارے بھائی محسن راؤ کے ساتھ کیا ہوا؟ جنگل سے اسے کس نے اغواء کیا اور کس نے کروایا۔ وہ کہاں پہنچا اور اس پر کیا بیتی؟ اگر موقع ملا تو یہ سب بعد میں بتاؤں گا۔ فی الحال تم اپنے بارے میں جان لو۔ ایک بے نام سی کھٹک جو تمہارے والد کے دل میں ہوتی رہتی تھی اور کئی انجانے وسوسے جو ان کے دماغ میں سر ابھارتے رہتے تھے محسن راؤ کے اغواء نے اسے سچ ثابت کر دیا تھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ محسن، ساون پور جائے لیکن وہ لڑکا مانتا ہی نہ تھا۔ بالآخر نتیجہ سامنے آگیا۔ اب وہ اپنے بھائی کی طرف سے مشکوک ہو گئے۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ ان کا بھائی تھا بغیر ثبوت کے وہ اس سے کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔
تمہارے والد بغیر ثبوت کے راؤ احمد علی پر انگلی اٹھانے کے لئے تیار نہ تھے اور وہ ایسا شاطر تھا کہ کوئی ثبوت نہ چھوڑتا تھا۔ تمہارے بھائی کو اغواء کروا کے وہ بہت خوش تھا وہ جانتا تھا کہ اب اس کی راہ میں کوئی کا نشانہ آئے گا مگر تمہارے جنم نے اسے جنم جلا بنا دیا اور وہ کسی طرح جنم جلا بننے کو تیار نہ تھا۔ اس نے اپنے ذہن کی کمان میں سازش کا ایک تیر اور چڑھایا۔ اب تم اس کے نشانے پر تھیں لیکن وہ جانتا نہ تھا جس لڑکی کو وہ نشانہ بنانے جا رہا ہے وہ خود ترکش ہے تیروں سے بھری۔ جس نام کو سن کر تم بار بار چونکتی ہو۔ یہ نام دراصل تمہارے دادا، راؤ فرمان علی کو بہت پسند تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر میری کوئی لڑکی ہوتی تو میں اس کا نام ترکش رکھتا۔ اللہ نے انہیں کوئی بیٹی نہ دی۔ تم نے جنم لیا تو تمہارے والد کو اپنے والد کی خواہش یاد آئی۔ اس خواہش کی تکمیل کے لئے انہوں نے تمہارا نام ترکش رکھ دیا۔ لیکن یہ نام چل نہ سکا۔ حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ تمہارا نام تبدیل کر کے تانیہ رکھ دیا گیا اس طرح تم اپنے اصل نام کے بارے میں کچھ نہ جان سکیں۔ یہ نام بس چند ذہنوں میں محفوظ ہو کر رہ گیا۔ تمہارے والد راؤ شمشاد، اپنے بھائی احمد علی کی طرف سے مشکوک تو ہو چکے تھے لیکن ان کی ازلی شرافت نے کوئی راست اقدام اٹھانے نہ دیا۔ وہ ظالم کے بجائے مظلوم بننا پسند کر لیتے تھے۔ وہ تھپڑ مارنے والے کے منہ پر جوابًا تھپڑ مارنے کے بجائے اپنا دوسرا گال پیش کر دینے کے عادی تھے۔
ہر شخص انہیں سمجھا رہا تھا کہ تمہارا بھائی تمہیں صفحہ ہستی سے مٹاکر زمین، جائداد پر قبضہ کر لینا چاہتا ہے۔ محسن راؤ کو بھی اس نے غائب کروایا ہے اور اس کے بعد اب ترکش کا نمبر ہے ہوشیار ہو جاؤ۔ جواب میں وہ ہنس کر کہتے۔ ”ارے نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے”۔

لیکن ایسا ہو رہا تھا۔ تمہاری والدہ مہوش تمہیں جنم دینے کے بعد مشکل سے تین ماہ زندہ رہ سکیں۔ انہیں اپنے بیٹے محسن راؤ سے بہت محبت تھی۔ اس کے گم ہونے کی خبر نے انہیں دنیا سے بیگانہ کر دیا۔ راؤ شمشاد جب بھی گھر میں داخل ہوتے وہ بس ایک ہی سوال پوچھتیں۔
”میرا محسن کہاں ہے ؟ “
راؤ شمشاد علی کوئی چھوٹے موٹے آدمی نہ تھے۔ وہ وسیع تعلقات رکھتے تھے پھر روپے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی۔ پولیس نے اس علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا لیکن محسن راؤ کا کوئی سراغ نہ ملا۔ اس کا سراغ بھلا ملتا بھی کیسے ۔ اسے ڈاکوؤں نے کب اٹھایا تھا۔ بہر حال محسن ملا، نہ اس کے بارے میں کوئی خبر ملی اور نہ اس کی لاش ملی۔ تمہاری والدہ اپنے بیٹے کی یاد میں ہوش گنوا بیٹھیں۔ بالآخر تین ماہ کے قلیل عرصے میں تڑپ تڑپ کر مر گئیں۔ مرتے وقت ایک فریم شدہ تصویر ان کے سینے پر رکھی ہوئی تھی یہ محسن راؤ کی تصویر تھی۔

محسن راؤ کی گمشدگی اور مہ وش کے انتقال نے تمہارے والد کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ بہت سی باتیں سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اب انہیں تمہاری فکر دن رات کھائے جاتی تھی۔ کچھ اس طرح کے شواہد ملے تھے جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ راؤ احمد علی اب تمہاری جان کا دشمن بن چکا ہے۔ اب سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ تمہاری زندگی کو کس طرح محفوظ کیا جائے ۔ تمہارے والد نہیں چاہتے تھے کہ تم جائداد کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دی جاؤ ۔ وہ تمہیں، تمہارے چچا کی دست برد سے ہمیشہ کیلئے بچا دینا چاہتے تھے۔ اس کے لئے انہوں نے منصوبہ بندی کی اور خوب کی۔ تمہارے والد کے ایک بہت اچھے دوست تھے رحمت خان ۔ وہ کوئٹہ میں قیام پذیر تھے۔ انہوں نے فوراً رحمت خان کو فون کر کے لاہور بلوالیا ۔ انہیں ساری صورت حال سمجھائی اور ان سے درخواست کی وہ تمہیں اپنے ساتھ لے جائیں اور تمہیں اپنی بیٹی بنا کر پرورش کریں۔ اصل مسئلہ جائداد کا نہ تھا، تمہاری زندگی کا تھا۔ تمہارے والد کا خیال تھا کہ مجھے اپنی بیٹی کی زندگی بچانی ہے۔ اگر یہ بچ گئی تو بڑے ہو کر اپنا حق خود حاصل کرے گی ۔ اگر یہ مار دی گئی تو پھر جائداد کو برتنے والا کون ہو گا۔ محسن راد کو پہلے ہی غائب کیا جا چکا تھا اور وہ خود بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ رہے تھے۔ تم اس وقت تین ماہ کی تھیں جب تمہیں رحمت خان کے ساتھ کوئٹہ روانہ کر دیا گیا۔ یہ کام بڑی احتیاط اور مکمل رازداری کے ساتھ کیا گیا تھا۔ رحمت خان اپنی بیگم کے ساتھ آئے تھے جب وہ تمہیں لیکر ساتھ خیریت کے کوئٹہ پہنچ گئے تو انہوں نے تمہارے والد کو مطلع کر دیا۔ خیریت سے پہنچنے کی اطلاع ملتے ہی تمہارے والد نے ایک خبر تمہارے چچا کو بھجوائی۔ جانتی ہو یہ خبر کیا تھی؟ یہ خبر تھی تمہارے انتقال کی۔ اس خبر کو سن کر تمہارا چچا جھوم اٹھا، خواہ مخواہ اس کا دامن تمہارے خون سے رنگین ہوتا۔ وہ اس گناہ سے بچ گیا تھا۔ اب اس کی راہ میں کوئی پتھر نہ تھا۔ کوئی دیوار نہ
تھی۔
انتقال کی خبر سن کر وہ اپنی بیوی کے ساتھ غمزدہ صورت بنائے تمہارے والد کی کوٹھی پہنچا۔ اس وقت
تمہارے انتقال کو ہوئے تین دن گزر چکے تھے۔

اگرچہ قبرستان میں تمہاری ماں کے پہلو میں ایک ننھی سی قبر بنا دی گئی تھی مگر راؤ شمشاد یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ تین ماہ کی بھتیجی کے لئے قبرستان جانے کی ہر گز زحمت نہ کرے گا اور ہوا بھی ایسا ہی۔ صبح آکر وہ بمشکل شام تک رکا۔ اسے ساون پور لوٹنے کی جلدی تھی۔ وہ رات کو اپنی حویلی پہنچ کر
گھی کے چراغ جلانا چاہتا تھا۔
تمہارے والد کا ڈرامہ کامیاب رہا۔ راؤ احمد علی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آسکی کہ اس کے سیدھے سے بھائی نے اسے کھلا فریب دیدیا ہے۔ وہ بہت خوش تھا دونوں وارثوں سے اسے نجات مل چکی تھی۔ بس بھائی رہ گیا تھا تو اس کا کیا تھا .. وہ عملی طور پر زمین، باغات اور حویلی سے بہت دور تھا۔ جب تک جیتا ہے جیئے۔ اس کے بیٹے لاہور جاتے تو وہ اپنے تایا سے کچھ نہ کچھ جھاڑ ہی لاتے تھے۔ مختصر یہ کہ تم مرحوم ہو کر کوئٹہ میں پرورش پانے لگیں۔ تمہارا نام ترکش سے بدل کر تانیہ رکھ دیا گیا۔ رحمت خان تمہارے والد بن گئے اور ایک لمبے عرصے تک تمہیں معلوم نہ ہو سکا کہ رحمت خان تمہارے اصل والد نہیں ہیں۔
کوئٹہ میں تم رحمت خان کے گھرانے میں پلی بڑھیں۔ تعلیم حاصل کی۔ یہاں کے کالج سے گریجویشن کیا۔ اس عرصے میں تمہارے والد کئی مرتبہ کوئٹہ آکر تمہیں دیکھ گئے تھے تم انہیں رحمت خان کے دوست کی حیثیت سے جانتی تھیں۔ میٹرک کرنے کے بعد پہلی مرتبہ تم لاہور گئیں۔ رحمت خان اور ان کے گھر والے ساتھ تھے۔ اس دوران راؤ شمشاد کے غیر معمولی روئیے سے کچھ شبہات تمہارے دل میں پیدا ہوئے لیکن رحمت خان نے یہ کہہ کر معاملہ صاف کر دیا کہ راؤ شمشاد کیونکہ تنہا آدمی ہیں اسبلئے وہ تمہیں بیٹیوں کی طرح چاہنے لگے تھے۔ گریجویشن کے بعد تم جب دوسری مرتبہ لاہور گئیں تو حسب معمول رحمت خان کی فیملی بھی ساتھ تھی۔ رحمت خان ایک بہت مخلص انسان تھے۔ انہوں نے تمہارے سلسلے میں جو عہد کیا تھا اسے پوری دیانتداری سے نبھایا۔ اس مرتبہ جب وہ تمہیں اپنے ساتھ لاہور لیکر پہنچے تو دل میں بڑی بے کلی سی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ اب تمہیں، تمہارے والد کے بارے میں بتا دیا جائے۔ اتفاق سے تمہارے والد بھی یہی چاہتے تھے کہ اس راز سے پردہ ہٹا دیا جائے۔ دنیا والوں کے سامنے نہیں بلکہ اپنی حد تک۔ تب رات کو تنہائی میں اپنے کمرے میں بلا کر انہوں نے تمہارا ہاتھ ، تمہارے والد کے ہاتھ میں دیدیا اور کہا ۔ یہ تمہارے اصل والد ہیں۔ بس اتنا ہی بتایا۔ اور یہ بتا کر تمہیں مزید امتحان میں ڈال دیا ، تمہارے دل میں زبردست خلش نے جنم لیا۔ اگر والد راؤ شمشاد علی ہیں تو وہ کیا حالات تھے جن کے تحت رحمت خان نے تمہیں باپ بن کر پالا ۔ اس راز سے وہ دونوں پردہ اٹھانے کے لئے تیار نہ تھے۔ اسی رات ایک حادثہ پیش آیا۔ رحمت خان پر دل کا دورہ پڑا اور وہ اسپتال جاتے جاتے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اب تمہارے کوئٹہ رہنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ تمہیں لاہور میں روک لیا گیا۔ دنیا والوں کو یہ بتایا گیا کہ تم یہاں ایم اے جوائن کرنا چاہتی ہو۔ لہٰذا اعلیٰ تعلیم دلوانے کیلئے تمہیں یہاں روک لیا گیا ہے۔ تمہیں روک تو لیا گیا لیکن اب اب ایک اور مسئلہ کھڑا ہوا۔ تمہاری شکل، تمہاری ماں مہ وش سے بہت ملتی ہے اور جوں جوں تمہاری عمر بڑھ رہی ہے۔ یہ شباہت گہری ہوتی جاتی ہے۔ کچھ جھلک تم میں، تمہارے والد کی بھی ہے۔ راؤ شمشاد کے گھر میں جو بھی تمہیں دیکھتا وہ دیکھتا ہی رہ جاتا۔ وہ فوراً مہوش کا ذکر کئے بغیر نہ رہتا۔ ایک مرتبہ لاہور کسی کام سے اعتبار راؤ آیا۔ اس نے تمہیں دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ اسے فورا تائی یاد آگئیں۔ اس بات کا ذکر اس نے اپنے باپ سے کیا۔ وہ فوراً ہی اپنی بیوی کو لیکر لاہور پہنچ گیا۔ اور خلاف توقع دو تین دن یہاں رہا۔ ایک رات جب سب کھانا کھانے میں مصروف تھے تو راؤ احمد علی کی نظریں بار بار تمہاری طرف اٹھ رہی تھیں۔ ان نظروں کی الجھن کو تمہارے والد بھی محسوس کر رہے تھے لیکن وہ خاموشی سے کھانا کھانے میں مشغول تھے۔
تب اچانک راؤ احمد علی تمہارے والد سے مخاطب ہوا۔ ”بھائی جان، یہ آپ کے دوست کی بیٹی تو ہو بہو ہماری مرحومہ بھابھی پر گئی ہے۔ کمال کی مشابہت ہے۔ یہ تو آپ کی بیٹی لگتی ہے “
۔ل تمہیں اگر چہ یہ بتا دیا گیا تھا کہ تم راؤ شمشاد علی کی بیٹی ہو لیکن ساتھ ہی تمہیں یہ بات راز رکھنے کے لئے بھی کہی گئی تھی۔ تمہیں کہا گیا تھا کہ اس راز کے فاش ہونے سے تمہاری جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس لئے تم راؤ احمد علی کی بات سن کر چونکی ضرور مگر خاموش بیٹھی رہیں۔ راؤ احمد علی کی اس بات نے تمہارے والد کی روح میں سناٹا اتار دیا۔ انہیں یوں محسوس ہوا جیسے اس نے ان کی بیٹی کو پہچان لیا ہو۔ وہ اندر ہی اندر لرز اٹھے۔ انہوں نے فوراً فیصلہ کر لیا کہ وہ جلد ہی تمہیں کوٹھی سے کہیں اور منتقل کر دیں گے۔ کیونکہ راؤ احمد علی کا منحوس سایہ تم پر پڑ چکا تھا۔ اور اس منحوس سائے سے تمہیں فوری طور پر بچانا ضروری تھا۔ ان لوگوں کے جاتے ہی تمہارے والد نے عامر کو فون کیا۔ یہ ایسے شخص تھے جن پر ہر طرح کا بھروسہ کیا جا سکتا تھا۔
عامر سے تمہارے والد کی دور کی رشتے داری تھی اور دوستی بھی تھی۔ وہ تمہارے والد کے ریستوران میں روز ہی آتے تھے۔ لیکن آج انہوں نے عامر کو ماڈل ٹاؤن بلوایا تھا۔ انہوں نے ان سے ضروری صلاح مشورہ کیا۔ تمہارے والد نے ہر وہ بات جو تمہارے متعلق بتائی جا سکتی تھی بتادی۔ ہر راز سے پردہ اٹھادیا۔
راؤ احمد علی کے شبہے کے تحت تمھاری زندگی کی جو ممکنہ خطرہ پیدا ہوچکا تھا اس سے بچنے کے لئیے فوری طور پر تمہیں عامر نے اپنے گھر منتقل کر دیا۔ ماڈل ٹاؤن سے راوی روڈ تمہاری منتقلی بظاہر بڑے سکون کا باعث تھی۔ لیکن یہ سکون زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکا۔ تمہارے تینوں چچا زاد بھائی اور تمہارے چچا اپنے کاموں سے لاہور آتے رہتے تھے۔ ایک شام جب تم صائمہ کے ساتھ انار کلی میں گھوم رہی تھیں تو تمہارے چچا۔چچی نے تمہیں دیکھ لیا۔ تمہیں دیکھتے ہی انہیں سانپ ساسونکھ گیا۔
وہ دونوں شاپنگ کرنا بھول گئے۔ اور سیدھے ماڈل ٹاؤن پہنچے۔ شام کا وقت تھا تمہارے والد ریستوران جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ وہ اپنے ریستوران میں شام کو دو ڈھائی گھنٹے بیٹھا کرتے تھے اور یہاں بیٹھ کر بزنس سے زیادہ اپنے دوستوں میں وقت گزارتے تھے۔ اپنے چھوٹے بھائی اور بھاوج کو دیکھ کر انہوں نے ریستوران جانے کا پروگرام ملتوی کر دیا اور بہت محبت سے ان کی خیر و عافیت دریافت کی۔ تب انہیں معلوم ہوا کہ وہ لوگ صبح کے لاہور آئے ہوئے ہیں اور رات تک واپس لوٹ جانے کا ارادہ تھا اس لئے انہوں نے ماڈل ٹاؤن کا رخ نہیں کیا تھا لیکن اب وہ ایک رات قیام کر کے کل صبح واپس جائیں گے۔
کھانے کی میز پر باتوں باتوں میں تمہارے چچانے تمہیں انار کلی میں دیکھنے کا ذکر کیا۔ اور اپنی بھاری مونچھوں کو مروڑتے ہوئے بولا۔
” بھائی جان ! وہ تو بالکل آپ کی بیٹی لگتی ہے وہ یہاں سے کیوں چلی گئی۔ اسے اپنے پاس رکھیں ” ۔
بظاہر یہ ایک سادہ سا جملہ تھا لیکن اس جملے کے پیچھے جو زہریلے عزائم چھپے ہوئے تھے ان کا احساس کر کے تمہارے والد کسی خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپنے لگے ۔ انہوں نے سوچا کہ اب تمہارا لاہور میں رہنا کسی
خطرے سے خالی نہیں۔ راؤ احمد علی کے جانے کے بعد تمہارے والد گھبرائے ہوئے عامر کے گھر راوی روڈ پہنچے۔ صلاح مشورہ ہوا۔ طے پایا کہ تمہیں فوری طور پر کراچی منتقل کر دیا جائے اور یوں تم ایک سال قبل لاہور سے کراچی آگئیں۔
ہمارا خیال ہے کہ ہم نے تمہاری زندگی سے متعلق تمام اہم سوالوں کا جواب دیدیا ہے۔ ہم نے تو وہ راز بھی بتا دیتے ہیں جو تمہارے والد نے تم سے چھپا کر رکھے ہیں۔ وہ تم سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ تمہاری زندگی کی حفاظت کیلئے انہوں نے جو کچھ کیا ہے وہ شاید ہی کوئی باپ اپنی بیٹی کے لئے کر سکے۔
اچھا ہم چلتے ہیں ہمیں گیا وقت نہ سمجھنا، ہم پھر آئیں گے۔ پھر کچھ عجب ہوا۔ ابھی وہ آخری جملے پر نظر ڈال ہی رہی تھی کہ لفظ اڑنا شروع ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ صفحہ ایسا ہو گیا جیسے اس پر کچھ لکھا ہی نہ ہو۔ یہ داستان تو کافی لمبی تھی۔ بیس بائیس صفحات پر مشتمل ۔ اس نے جلدی جلدی ورق الٹے لیکن اب کسی صفحے پر کچھ نہ تھا۔ کوئی تحریر نہ تھی۔ کوئی جملہ نہ تھا۔ کوئی لفظ نہ تھا۔ وہ ڈائری پہلے کی طرح کوری ہو گئی تھی۔
تانیہ اس ڈائری کو پکڑے دیر تک محو حیرت رہی۔ اس کی زندگی کیا تھی فسانہ عجائب تھی۔ اب کوئی بات ایسی نہ تھی جو اسے معلوم نہ ہو۔ لیکن کہاں ؟ ابھی اسے معلوم ہی کیا ہوا تھا۔ ابھی تو کئی باتیں صیغہ راز میں تھیں۔ اس کا بھائی کہاں تھا۔ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ یہ اسے معلوم نہ تھا۔ اس سے انتظار کرنے کو کہا گیا تھا۔ وقت آنے پر بتانے کو کہا گیا تھا۔

راؤ احمد علی کا چہرہ بار بار اس کی نظروں کے سامنے آ رہا تھا۔ اس لالچی شخص نے اس کے باپ کی زندگی میں کیسا زہر گھول دیا تھا۔ ساری جائداد پر اسی کا قبضہ تھا۔ پھر بھی اسے سکون نہ تھا۔ بڑے بھائی کی شرافت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر وہ ہر چیز پر قبضہ کرتا چلا جا رہا تھا۔ وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ قسمت اس کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی ہے۔ جو دوسروں کے لئے گڑھا کھودتے ہیں بالآخر وہ گڑھے ہی ان کی بربادی کا سبب بن جاتے ہیں ہر ظلم کا ایک انجام ہوتا ہے۔ ہر رات کا ایک سویرا ہوتا ہے۔
وہ سوچ رہی تھی کہ اس کے والد نے اپنے آپ پر کسی قدر ظلم کیا تھا بیٹی کی زندگی بچانے کے لئے اسے مرحوم کیا پھر اس سے خود محروم ہوئے۔ اس بڑھاپے میں تنہا زندگی گزارنا گوارا کرلی۔ اس کے والد کس
قدر عظیم ہیں۔ ایسی قربانی تو کبھی کسی باپ نے اپنی بیٹی کے لئے نہ دی ہوگی۔
میرے باپ، میرے عظیم باپ۔ میں آپ کی عظمت کو سلام کرتی ہوں آپ کی محبت کو سلام کرتی ہوں۔ آپ کے جذبہ ایثار کی قدر کرتی ہوں۔ لیکن مجھے آپ سے ایک شکوہ ہے۔ آپ نے مجھے اپنا ہمراز کیوں نہ بنایا۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ اگر اسے سارے حالات کا علم ہو گیا تو یہ لڑکی ہے پریشان ہو جائے گی۔ الجھ جائے گی۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ راز کو راز نہ رکھ سکے۔ دشمن جان کے درپے ہے
جانے وہ کب وار کر جائے۔ یہی سوچا ہو گا نا آپ نے۔
آپ نے بحیثیت باپ تو ٹھیک سوچا لیکن مجھے میری سوچ سے محروم کر دیا۔ اولاد کا بھی تو کوئی حق ہوتا ہے کوئی فرض بنتا ہے۔ آپ نے اب تک اپنا فرض نبھایا۔ اب میں اپنا فرض نبھاؤں گی۔ میرا انتظار کیجئے۔ میں آرہی ہوں۔ میں ایک ایک کو دیکھ لوں گی۔ اپنی زمین کا ایک فٹ ٹکڑا بھی کسی کے قبضے میں نہیں جانے دوں گی۔ آپ بے فکر ہو جائیے میں اپنے بھائی کو تلاش کروں گی۔ آپ اگر بوڑھے ہو گئے ہیں تو کیا ہوا ؟ میں تو جوان ہوں ۔ لڑکی ہوں تو کیا ہوا ، میں آپ کو لڑکا بن کر دکھاؤں گی۔ اب آپ کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بہت دیر تک اسی طرح کی باتیں سوچتی رہی۔ اسے اپنے باپ پر بہت ترس آ رہا تھا اور ظالم چچا پر حد غصہ ۔ وہ کافی دیر تک پیچ و تاب کھاتی رہی۔ پھر ایک مصم ارادے کے ساتھ اٹھی۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ لاہور جائے گی۔ وہ ابھی تک بڑی فرمانبرداری سے ہر فیصلہ مانتی چلی آرہی تھی۔ لیکن اب اس نے سوچ لیا تھا کہ کسی کی بات نہیں مانے گی ۔ وہ کرے گی جو اس کے دل میں آئے گا اس کے دل میں طوفان اٹھ رہے تھے اور ان طوفانوں پر بند باندھنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ انکل عامر نے اسے منع کیا تھا کہ وہ بھول کر بھی لاہور ٹیلیفون نہ کرے۔ جب بھی فون کریں گے وہ خود ہی کریں گے۔ ان کی اس ہدایت پر وہ مسکرائی۔ بڑے پر عزم انداز میں اٹھی۔ سائیڈ ٹیبل پر رکھے ٹیلیفون کو اٹھا کر بیڈ پر رکھا۔ اور انکل عامر کے گھر کا ٹیلیفون نمبر نہایت اطمینان سے ملانے لگی۔
کچھ دیر کے بعد ادھر گھنٹی بجنے لگی۔
کئی گھنٹیاں بجنے کے باوجود کسی نے ریسیور نہ اٹھایا تو اسے تشویش ہوئی۔ یہ بات وہ اچھی طرح جانتی تھی۔ کہ اس وقت انکل عامر گھر پر نہیں ہوں گے کالج گئے ہوں گے۔ لیکن گھر میں، گھر کے دیگر افراد تو ہوں گے۔ لیکن اس وقت تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔ پھر اسے خیال آیا، ہو سکتا ہے۔ غلط نمبر مل گیا ہو۔ اس خیال کے تحت اس نے دوبارہ نمبر ملایا مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات … بیل ہوتی رہی مگر کسی نے فون اٹھایا نہیں۔ تانیہ نے مایوس ہو کر فون اٹھا کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ اس کی طبیعت میں ایک عجیب ہیجان ساتھا۔ وہ اڑ کر لاہور پہنچ جانا چاہتی تھی وہ اپنے باپ کے قدموں میں بیٹھ کر انہیں بتانا چاہتی تھی کہ وہ ہر اس راز سے آگاہ ہو گئی ہے جو آج تک چھپایا گیا ہے۔ اس کے دل میں لاوا ابل رہا ہے۔ وہ کسی قیمت پر اپنے سفاک چچا کو نہیں چھوڑے گی۔ وہ انہیں شوٹ کر دے گی۔ تانیہ نے بیڈ پر اپنا تکیہ درست کیا۔ پھر ڈائری اٹھا لیٹ گئی وہ ڈائری کو تکئے کے نیچے رکھ کر کچھ دیر آنکھیں بند کر کے لیٹنا چاہتی تھی۔ ڈائری کو تکئے کے نیچے رکھتے رکھتے ایسے ہی اس کے صفحات کو تیزی سے پلٹ کر دیکھا۔ تب اسے اچانک ان صفحات کے درمیاں کہیں سرخی سی محسوس ہوئی۔
اس نے جلدی جلدی ایک ایک ورق پلٹ کر وہ صفحہ نکالا۔ وہ ایک چھوٹا سا اٹھنی کے برابر سرخ دھیہ تھا۔ یہ بالکل تازہ خون تھا۔ ڈائری بند ہونے کی وجہ سے خون دوسرے صفحے پر بھی لگ گیا تھا اورںصفحے کی پشت پر بھی چھلک آیا تھا یہ خون کہاں سے آیا؟ وہ اس خون کو دیکھ کر سہم گئی۔ تب اچانک اس کے دل میں وہ جان لیوا خیال آیا لیکن اس قیامت خیال کو فوراً ذہن سے جھٹک دیا۔
نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ اس کے باپ کا خون نہیں ہو سکتا ۔ اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اس خون
کے دھبے کو دیکھ کر اسے راؤ شمشاد علی کا خیال کیوں آیا۔ یہ خیال جس طرح بھی آیا۔ بہر حال اسے بے چین کر گیا۔ اس کی روح میں کانٹے بھر گیا۔
پھر وہ خون دیکھتے ہی دیکھتے خشک ہونے لگا۔ کچھ دیر میں ہی صفحہ ڈائری سے مٹ گیا اس نے ڈائری
کے اوراق پر دوبارہ تیزی سے نظر ڈالی لیکن اب ڈائری پھر سے سادہ ہو چکی تھی
اس نے ڈائری تکئے کے نیچے رکھی اور پھر تیزی سے انکل عامر کا ٹیلیفون نمبر ملانے لگی۔ چند سیکنڈ کے بعد ادھر بیل ہونے لگی مگر فون کسی نے نہیں اٹھایا۔
تب اس نے افضل کے دفتر فون ملایا دو گھنٹیاں بجنے کے بعد ادھر سے افضل نے فون اٹھا کر “ہیلو” کہا۔افضل کی آواز پہچان کر تانیہ بولی۔ ” بھائی، میں بول رہی ہوں تانیہ ” ۔
جی، تانیہ خیریت ” ۔ جی بھائی خیریت ہے۔ آپ میرا ایک کام کر دیں میں فوری طور پر لاہور جانا چاہتی ہوں ۔ آپ کسی بھی فلائٹ سے میری سیٹ کنفرم کراویں “
۔ سیٹ تو مل جائے گی۔ لیکن یہ آپ کو لاہور جانے کی کیا سوجھی ۔ “ افضل نے پوچھا۔ ۔
بس میرا جی، بہت گھبرا رہا ہے، میں فوری طور پر لاہور جانا چاہتی ہوں ” ۔ اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
اچھا ٹھیک ہے، میں ابھی آدمی بھیج کر سیٹ کا انتظام کرواتا ہوں۔ اس اثناء میں آپ جانے کی تیاری مکمل کر لیں ” ۔
ٹھیک ہے بھائی۔ آپ کا بہت شکریہ ” ۔ وہ ممنون ہو کر بولی ۔
“ہیلو” ۔ افضل نے جلدی سے کہا۔
جی، جی” ۔ تانیہ ریسیور رکھتے رکھتے رک گئی۔
آپ نے خالہ سے بات کر لی۔ انہوں نے آپ کو اکیلے جانے کی اجازت دے دی ؟
” نہیں بھائی۔ میں نے خالہ سے ابھی بات نہیں کی ہے ابھی نیچے جا کر انہیں بتاتی ہوں۔ انہیں راضی کرتی ہوں ۔ آپ بس میرے ٹکٹ کا انتظام کر دیں”۔
ٹھیک ہے۔ میں کرتا ہوں اور جیسے ہی کوئی انتظام ہو جاتا ہے میں فون پر بتاتا ہوں ” ۔ او کے بھائی۔ اللہ حافظ ” ۔ تانیہ نے ریسیور رکھ کر ایک گہرا سانس لیا اور پھر وہ فوراً ہی کھڑی ہوگئی۔ نیچے پہنچی تو دردانہ کو کچن میں مصروف پایا۔ وہ کچن میں جھانک کر خالہ فرزانہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ خالہ فرزانہ نظر کا چشمہ لگائے کوئی موٹا سا ناول پڑھنے میں مصروف تھیں۔ تانیہ بہت خاموشی سے چلتی ہوئی ان کے نزدیک بیڈ پر بیٹھ گئی۔ تانیہ کو ان کے قریب پاکر خالہ فرزانہ نے ناول پرے پھینکا اور مسکرا کر بولیں۔ سو کر آرہی ہو ؟؟
نہیں خالہ ” ۔ اس کے لہجے میں بڑی اداسی تھی۔
تانیہ، خیر تو ہے” ۔ وہ ذرا سنبھل کر بیٹھ گئیں۔
خالہ، میں نے بھائی کو فون کر کے جہاز کا ٹکٹ منگوایا ہے۔ میں لاہور جانا چاہتی ہوں “
ہائے” ۔ خالہ فرزانہ نے اپنا ہاتھ سینے پر رکھتے ہوئے کہا۔ “کب اور کیوں ؟؟
آج ،، چاہے جس فلائٹ کا ٹکٹ مل جائے ” ۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے ” ۔ خالہ فرزانہ ایک دم فکر مند ہو گئیں۔ ” تم جانتی ہو کہ تمہارے انکل عامر نے تمہارے بارے میں کیا کہہ رکھا ہے ” ۔
میں جانتی ہوں ” ۔ تانیہ نے کہا۔ یہی ناکہ مجھے یہاں سے کہیں جانے نہ دیا جائے“ ۔
ہاں یہی ” ۔ خالہ فرزانہ نے الجھے لہجے میں کہا۔
خاله .. انکل عامر میرے بارے میں فیصلہ کرنے والے کون ہیں ؟ ” تانیہ کا عجب تیکھا انداز تھا
یہ تم کس طرح کی باتیں کر رہی ہو ” ۔
خالہ آپ میرے بارے میں کچھ نہیں جانتیں . کاش آپ میرے بارے میں کچھ جانتیں۔ آپ کو سب کچھ بتا سکتی ” ۔ ۔
میں سمجھی نہیں”۔
لاہور سے واپس آکر سمجھاؤں گی”۔ اس نے ایسے ہی ان کی تسلی کے لئے کہہ دیا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ لاہور جانے کے بعد وہ وہاں سے واپس بھی آئیگی یا نہیں۔ خالہ فرزانہ بڑی پیاری خاتون تو تانیہ کو ان سے محبت ہو گئی تھی خود خالہ فرزانہ اس پر کیا کم جان چھڑکتی تھیں۔ وہ جانتی تھی کہ لاہور جانے کے بعد وہ انہیں بہت مس کرے گی۔ کوئی تین بجے کے قریب افضل کا فون آگیا۔ اس نے بتایا کہ شام کی فلائٹ سے اس کی سیٹ کروا دی ہے۔ وہ جانے کی تیاری کرے ۔ وہ خود اسے پھر ایئر پورٹ چھوڑ دے گا۔ تانیہ کے اچانک لاہور جانے کے ارادے سے خالہ فرزانہ پریشان ہو گئی تھیں عامر نے زندگی میں پہلی بار کوئی ذمہ داری سونپی تھی وہ اس ذمہ داری کو بخیر و خوبی نباہ رہی تھیں۔ وہ تانیہ کا بے حد خیال تھیں۔ وہ اسے ایک منٹ کو بھی گھر سے باہر نہیں جانے دیتی تھیں۔ اگر جاتی تھی تو انہیں معلوم ہوتا تھا کہ
کہاں گئی ہے اور کب آئے گی۔ ویسے خود تانیہ نے انہیں اس معاملے میں قطعاً پریشان نہ کیا تھا۔ وہ فرمانبردار اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔
اسی سلجھی لڑکی کے دماغ میں اب جانے کیا خناس سمایا تھا کہ وہ اچانک لاہور جانے پر تل گئی تھی۔ سیٹ بھی کنفرم ہو گئی تھی۔ اور وہ اوپر سوٹ کیس میں ضروری سامان رکھ رہی تھی۔
اس دوران خالہ فرزانہ، عامر کو کئی مرتبہ فون کر چکی تھیں مگر وہاں کوئی اٹھا ہی نہیں رہا تھا محسوس ہوتا تھا جیسے گھر بند کر کے سب لوگ کہیں چلے گئے ہوں۔
خاله فرزانه بہت دیر سے پاؤس لٹکائے بیڈ پر بیٹھی تھیں۔ ان کا دل مضطرب تھا۔ وہ عامر کو فون پر صورت حال سے آگاہ کرنا چاہتی تھیں۔ مگر لائن مل ہی نہیں رہی تھی۔ پھر خالہ فرزانہ جانے کیا سوچ کر مسکرا دیں۔ بڑی پھیکی سی مسکراہٹ تھی۔ عامر اور وہ شاید دو مختلف کہکشاؤں کے سیارے تھے
دونوں نے پوری زندگی گزار دی تھی ایسے ہی بغیر لائن ملے۔
ان کی نظر بار بار ٹیلیفون کی طرف اٹھ جاتی تھی۔ وہ اضطراب میں اب تک کئی پان کھا چکی تھی۔ جب بھی پریشان ہوتیں پان پر پان کھانے لگیں۔
پھر اچانک ہی ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ انہوں نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھایا۔
“عامر” ۔ ادھر سے رنج میں ڈوبی ہوئی آواز ابھری۔
عامر، آپ کہاں ہیں ؟ میں کب سے آپ کو فون کر رہی ہوں ؟ ” لہجے میں بے قراری تھی۔
میں ماڈل ٹاؤن گیا ہوا تھا، میں موقع نکال کر گھر آیا ہوں تاکہ تمہیں فون کر سکوں “۔
آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟” خالہ فرزانہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
بہت بری خبر ہے فرزانہ ” ۔ ادھر سے بڑے ٹھنڈے اور گہرے سانس کی آواز سنائی دی۔
اللہ رحم کرے ” ۔ خالہ فرزانہ کا دل دھک سے رہ گیا۔ تانیہ کہاں ہے۔ اسے بلاؤ اور جتنی جلد ممکن ہو سکے، اسے لاہور بھیج دو ” ۔
“آخر کیوں ؟ “

فرزانہ اس کے والد راؤ شمشاد علی کا انتقال ہو گیا ہے۔ انہیں کسی نے قتل کر دیا ہے ” ۔ دھما کہ خیز انکشاف ہوا۔ ہائے اللہ ” ۔ خالہ فرزانہ نے اپنا دل پکڑ لیا۔ ” عامر، یہ کتنا عجیب اتفاق ہے ” ۔
کیا ؟ ” عامر بات کو سمجھ نہ پائے۔
وہ خود لاہور جانے کیلئے تڑپ رہی ہے۔ شام کی فلائٹ سے اس کی سیٹ بک ہو چکی ہے اور اس قت وہ اپنا سامان پیک کر رہی ہے۔ میں دراصل اس سلسلے میں تم سے فون پر بات کرنا چاہتی تھی کہ اسےلاہور بھیجوں یا نہ بھیجوں ؟ “
چلو یہ تو اچھا ہوا ۔ تم ایسا کرو، اسے آنے دو، میں ایئر پورٹ سے اسے لے لوں گا۔ اب مجھے یہ مشوره دو کہ اسے موت کی اطلاع ابھی دے دوں یا لاہور آنے کے بعد ” ۔
“میرا تو خیال ہے کہ اسے اپنے والد کی موت کی اطلاع مل چکی ہے ” ۔
” وہ کیسے ؟ ” عامر حیران ہوئے۔
یہ تو مجھے نہیں معلوم ۔ لیکن اچانک اس کا لاہور کے لئے عازم سفر ہونا اور اس کے چہرے کی اداسی، ا س بات کی غماز ہیں کہ اس کے دل نے اس حادثے کو کسی نہ کسی طرح محسوس کر لیا ہے ” ۔
حیرت کی بات ہے ” ۔ عامر حیران ہو کر بولے۔
فرزانہ، تم یوں کرنا چلتے وقت اس احساس کو گہرا کر دینا۔ پھر میں جب یہاں اسے تفصیل بتاؤں گا تو وہ اس وقت تک خود کو سنبھال چکی ہوگی۔ اچھا تم اسے بلا دو۔ میں اسے بتادوں کہ ایئر پورٹ پر میں اسے لینے آؤں گا۔ اس سے فلائٹ نمبر وغیرہ پوچھ لوں ” ۔
شام کو جب تانیہ گھر سے رخصت ہونے لگی تو خالہ فرزانہ نے اسے گلے سے لگا کر بس اتنا کہا۔
اپنے دل کی گواہی پر لاہور جارہی ہو تو اس دل کو قابو میں رکھنا، حوصلے سے کام لینا۔ شاید ایئرپورٹ پر کوئی بری خبر سننے کو ملے ” ۔
میں اس بری خبر کے لئے تیار ہوں خالہ۔ مجھ میں بڑا حوصلہ ہے آپ فکر مند نہ ہوں ” ۔
یہ کہہ کر افضل کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی اور گاڑی نے ایئر پورٹ کی طرف رخ کر لیا۔

لاہور ایئر پورٹ پر عامر اس کے منتظر تھے تانیہ کے گیٹ سے باہر نکلتے ہی وہ اس کی طرف لپکے ۔ ان کا جی چاہا کہ تانیہ کو بے اختیار لپٹا کر رو پڑیں۔ مرنے والا رشتے دار کے علاوہ ان کا بہت پیارا دوست تھا اور آنے والی مرنے والے کا خون تھی۔ اسے لپٹا کر نہ روتے تو پھر کسے لپٹا کر روتے۔ ان کی حالت بری ہو رہی تھی۔ لیکن پھر انہوں نے فوراً ہی اپنے آپ کو سنبھالا۔ انہوں نے تانیہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے ہلکا سا گلے لگایا اور بولے۔
کیسی ہو تانیہ ؟”
تانیہ نے جواب دینے کے بجائے ان کی آنکھوں میں دیکھا اور بڑی جرأت سے بولی۔ ” میرے بابا کی موت کیسے ہوئی ؟ ” :
یہ جملہ سن کر عامر ہر بڑا گئے وہ تو یہی سوچ کر پریشان ہو رہے تھے کہ تانیہ کو اس کے باپ کے مرنے اطلاع کن الفاظ میں دیں گے۔ لیکن وہ تو اس منزل سے آگے نکل چکی تھی۔ تو کیا فرزانہ نے اسے کچھ سب کچھ
وہیں بتا دیا۔
فرزانہ نے تمہیں کیا بتایا ” ۔ انہوں نے پوچھا۔
خالہ نے تو مجھے کچھ بھی نہیں بتایا۔ یہ بھی نہیں کہ میرے بابا مر چکے ہیں ” ۔ وہ عجیب لہجے میں بات کر رہی تھی۔
پھر تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ تمہارے بابا کا انتقال ہو چکا ہے ؟ ” سوال ہوا۔
انتقال نہیں خون کہئے خون ۔ میرے بابا کا خون ہوا ہے ” ۔ تانیہ نے بڑے پر اسرار انداز میں کہا۔
اوه ” ۔ عامر کا حیرت کے مارے منہ کھل گیا۔ ” آؤ، گاڑی میں چلو، راستے میں تمہیں سب بتاتا ہوں ” ۔
راؤ شمشاد علی اپنی کوٹھی میں تنہا رہتے تھے۔ اب ان کی عمر بھی مزاحمت کرنے والی نہیں رہی تھی انہیں قتل کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ گھر میں ان کے ساتھ ایک ملازم اور ملازمہ رہتے تھے۔ یہ دونوں میاں بیوی تھے اور راؤ صاحب کے بہت پرانے ملازم تھے۔ عبدل اور رشیدہ کی ایک ہی بیٹی تھی جو شادی شدہ تھی۔ رات کو اچانک اس کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع ملی تو وہ دونوں راؤ صاحب سے اجازت لیا ۔
بیٹی کے گھر دھرم پورے چلے گئے۔ ان کی بیٹی اسپتال سے گھر پہنچ چکی تھی۔ بس وہ رات ہی قیامت کی تھی۔ شاید قاتل گھات لگائے بیٹھا تھا۔
صبح کو دودھ والے نے بیل بجائی، گھر کا گیٹ کھٹکھٹایا۔ کوئی باہر نہ نکلا۔ تو اسے پریشانی ہوئی کیونکہ آج تک نہ ہوا تھا۔ اس نے برابر والی کوٹھی والوں کو بتایا۔ جب لوگوں نے گیٹ کے اندر کود کر اندر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ راؤ شمشاد علی خون میں لت پت پڑے تھے۔ دائیں ہاتھ میں ان کے ریوالور تھا۔
قاتل نے اسے خود کشی کا کیس بنانے کی کوشش کی تھی۔ گولی کنپٹی میں لگی تھی۔ گولی بہت قریب چلائی گئی تھی۔ بائیں کنپٹی میں سوراخ ہو گیا تھا اور گولی اندر ہی کہیں دھنس گئی تھی۔ قاتل سے ،غلطی ہو گئی تھی۔ سوراخ بائیں جانب تھا جبکہ قاتل ریوالور ان کے دائیں ہاتھ میں پکڑا گیا تھا۔ ابتدائی تفتیش سے ہی یہ بات سامنے آگئی تھی کہ راؤ صاحب نے خود کشی نہیں کی بلکہ انہیں مارا گیا ہے راؤ صاحب معمر ضرور تھے پھر بھی عمر کے لحاظ سے ان کی صحت قابل رشک تھی۔ وہ کسی برے فعل میں نہ تھے بہت نیک اور صاف ستھرے انسان تھے۔ انہیں خود کشی کرنے کی کیا ضرورت تھی بھلا۔
اپنے باپ کی قتل کی روداد سن کر وہ گم صم ہو گئی۔ اس پر سکتہ سا طاری ہو گیا۔ عامر اسے راستے بھر تسلی دیتے رہے۔ سمجھاتے رہے۔ وہ خاموشی سے سب سنتی رہی۔ اور خالی نگاہوں ے سے عامر کو دیکھتی رہی۔
ماڈل ٹاؤن کی وہ کوٹھی جہاں راؤ شمشاد علی کو قتل کیا گیا۔ رشتے داروں، عزیزوں، دوستوں اور بھی خواہوں سے بھری ہوئی تھی۔ راؤ احمد علی کا پورا گھرانہ موجود تھا۔ اور پیش پیش تھا۔
بھائی کے غم میں راؤ احمد علی کی بری حالت تھی۔ بار بار اس پر غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ اس کے بیٹے اسے سنبھال رہے تھے۔ اور سرگوشی میں اس سے کہہ رہے تھے۔ “ابا، یہ کیا کر رہے ہو ؟؟
کوئی نہیں جانتا تھا کہ عامر اس وقت کہاں ہے کس کو لینے گیا ہے۔ راؤ احمد علی چند آنسو بہا کر بازی
جیت لینا چاہتا تھا۔ ساون پور کی جائداد تو اس کے قبضے میں تھی ہی… اب یہ کوٹھی اور ریستوران بھی
اس کا ہونے والا تھا۔ کیونکہ راؤ شمشاد کا وارث اب وہ تھا۔
بالآخر اس کی شاطرانہ منصوبہ بندی کامیاب ہو گئی تھی۔ وہ اپنی کامیابی پر جس قدر خوش ہو تا کم تھا۔ لیکن یہ وقت تو رونے کا تھا۔ اور وہ رو رہا تھا۔ سسک سسک کر رو رہا تھا۔ رہ رہ کر رو رہا تھا۔
عامر کی پڑھائی ہوئی پٹی کے مطابق، تانیہ خاموشی سے عورتوں میں ایک طرف جا کر بیٹھ گئی۔ اس کا آدھا چہرہ چادر سے ڈھکا تھا۔
جنازہ اٹھائے جانے سے پہلے مرنے والے کا چہرہ دکھایا گیا۔ ہر سو اعلان کیا گیا کہ جو چہرہ دیکھنا چاہتا ہے آکر دیکھ لے۔ میت کمرے میں رکھی تھی۔ لوگ ایک دروازے سے داخل ہو کر چہرہ دیکھتے ہوئے دوسرے دروازے سے نکل رہے تھے۔
جب گھر کی عورتوں کی باری آئی تو تانیہ بھی ان عورتوں میں شامل تھی۔ وہ میت کے نزدیک پہنچتے ہی اپنے ہوش گنوا بیٹھی۔ ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر وہ اپنے باپ کی لاش پر جھک گئی۔ اور چیخ مار کر رونے لگی۔ صائمہ اس کے ساتھ تھی وہ اسے سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی۔
تبھی دروازے میں اچانک راؤ احمد علی داخل ہوا۔ اسے دیکھ کر عورتیں ادھر ادھر ہونے لگیں۔ تانیہ کے نزدیک پہنچ کر وہ جھکا اور اس کے بھدے اور کھردرے ہاتھ کی گرفت، تانیہ کے نرم ملائم ہاتھ پر مضبوط ہوتی گئی۔
روتی ہوئی تانیہ ایک دم خاموش ہو گئی۔
پہلے اس نے اپنے ہاتھ کو پھر اپنا ہاتھ پکڑنے والے کو دیکھا۔ اور بڑے سرد لہجے میں بولی ۔ ” راؤ احمد علی اپنا ناپاک ہاتھ پرے کر لو “۔۔

راؤ احمد علی سے اس انداز میں بات کرنے والا آج تک پیدا نہ ہوا تھا۔ وہ ساون پور کا حکمراں تھا، اونچا بولنا تو دور کی بات ہے لوگ اس کے سامنے سر اٹھا کر بات نہیں کرتے تھے۔ پھر آج کس کی شامت آئی۔ بولنے والے کا نہ صرف لہجہ سخت تھا بلکہ جو بات اس نے کہی تھی، وہ بات نہیں تیر تھا جو اس کے دل میں ترازو ہو گیا تھا۔ وہ بڑا کائیاں شخص تھا۔ ایسا شاطر آدمی تھا جو سانپ کو لاٹھی توڑے بغیر مارنا جانتا تھا۔ اس لڑکی نے جو کہا وہ اس نے اچھی طرح سن لیا تھا اور سن کر اس بات کا اندازہ کرنے میں اسے ذرا بھی دیر نہ لگی کہ سننے والا کسی وزن دار شخصیت کا مالک ہے۔
وہ کوئی چیز ہے جو اس نے اس کا نام لے کر اتنی بڑی بات آسانی سے کہہ دی ہے۔
یہ ایک نازک موقع تھا اور وہ بڑا موقع شناس شخص تھا۔ وہ اپنی جذباتیت سے جیتی ہوئی بازی ہارنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے فورا پسپائی اختیار کرنے کے بارے میں سوچا۔ اس وقت سنی ان سنی کر دینا ہی بہتر تھا تاکہ اندھیرے میں چھپا ہوا شخص باہر آجائے۔ جب تانیہ نے ہاتھ پکڑنے والے کو گھور کر سرد لہجے میں کہا۔ ” راؤ احمد علی اپنا نا پاک ہاتھ پرے کرلو۔”
تو راؤ احمد علی کو فیصلہ کرتے ہوئے ایک سیکنڈ بھی نہیں لگا، اس نے اپنا ہاتھ فوراً ہٹا لیا جیسے کسی غلطی
کے تحت اس نے تانیہ کا ہاتھ پکڑ لیا ہو۔ اس کے ہاتھ چھوڑتے ہی تانیہ فوراً سیدھی کھڑی ہو گئی اس نے ترچھی نظروں سے راؤ احمد علی کو دیکھا۔ وہ بھی بہت غور سے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ وہاں رکی نہیں عورتوں کو ہٹاتی ہوئی اندر چلی گئی۔
تانیہ اندر گئی تو راؤ احمد علی اپنے بائیں ہاتھ سے بھاری مونچھ کو بل دیتا باہر نکل آیا۔ کسی اور عورت نے یہ بات سنی ہو یا نہ سنی ہو لیکن صائمہ نے بہت اچھی طرح سن لی تھی۔ وہ حیران رہ گئی تھی۔ وہ تانیہ کی اصل سے واقف نہ تھی، وہ اسے رحمت خان کی بیٹی سمجھتی تھی، وہ کیا سبھی اسے رحمت خان کی بیٹی سمجھتے تھے۔۔ سوائے عامر کے اس کے باپ کو کوئی نہیں جانتا تھا۔
صائمہ، عامر کی بھانجی تھی۔ بہن کے بیوہ ہو جانے کے بعد عامر نے دونوں ماں بیٹی کو اپنے پاس بلالیا تھا۔ اب وہی ان دونوں کے کفیل تھے۔ صائمہ تیزی سے اپنے ماموں عامر کی تلاش میں نکلی۔ وہ اس خطر ناک بات کو فوری طور پر اپنے ماموں کے گوش گزار کر دینا چاہتی تھی۔ ادھر راؤ احمد علی کو بھی عامر کی تلاش تھی۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ گستاخ لڑکی آخر ہے کون ؟ اگر رحمت خان کی بیٹی ہے تو راؤ شمشاد علی کی لاش سے لپٹ کر رونے کے کیا معنی؟ یہ اب تک کہاں تھی؟ اتنی دیر سے کیوں پہنچی۔ پھر اس نے اس کا نام لے کر اس قدر نفرت سے ہاتھ ہٹانے کو کیوں کہا۔ یہ سب کیا گورکھ دھندا ہے؟
راؤ احمد علی سے پہلے صائمہ نے اپنے ماموں کو تلاش کر لیا۔ پھر وہ انہیں ایک گوشے میں لے گئی اور سارا ماجرا کہ سنایا۔ عامر یہ بات سن کر پریشان ہو گئے۔ وہ گھبرا کر بولے۔ ”ارے تانیہ نے یہ کیا بیوقوفی کی ہے؟
میں کیا جانوں، ماموں ؟ “
اچھا، دیکھو، وہ کہاں ہے تم اسے باہر بلا لاؤ۔ “
جی اچھا۔ ” کہہ کر صائمہ دوڑتی ہوئی اندر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد تانیہ صائمہ کے ساتھ آتی ہوئی دکھائی دی۔ کالی چادر میں اس نے اپنا آدھا چہرہ ڈھک رکھا تھا۔ عامر نے ادھر ادھر دیکھا، پھر کچھ سوچ کر سرونٹ کوارٹر کی طرف چل دیئے۔ صائمہ اور تانیہ بھی ان کے تعاقب میں وہاں پہنچ گئیں عبدل اور رشیدہ کوٹھی میں تھے۔
ہاں کیا ہوا تھا ؟ ” عامر نے پوچھا۔
صائمہ آپ کو بتا تو چکی ہے۔ ” تانیہ نے جواب دیا۔
تمہیں، ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا، میں نے راستے بھر تمہیں اتنا سمجھا یا پھر بھی
” اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ بس پھر میں اپنا غم بھی بھول گئی، اس پر برس پڑی ۔ تانیہ نے اپنی صفائی پیش کی۔
حیرت ہے، اس نے جواب میں کچھ نہ کہا۔ “
اچھا ہی ہوا کہ وہ کچھ نہ بولا، ورنہ میں بھی اسے بتا دیتی کہ میں کون ہوں ؟؟
وہ بہت چالاک ہے، تمہارے روتے ہی کسی نے اسے اطلاع دیدی اور وہ کسی عذاب کی طرح نازل ہوگیا۔ اس نے تمہارا ہاتھ پکڑ کر اٹھانا چاہا کہ وہ تم سے پوچھ سکے کہ تم کون ہو، لیکن تمہارے جواب نے اسکے ہوش اڑا دیئے اب اس کا شبہ یقین میں بدل چکا ہو گا اور وہ ہماری تلاش میں گھوم رہا ہو گا۔ “
عامر نے قیاس آرائی کی جو بالکل سچی تھی۔
میں اس سے کب تک چھپوں گی ؟ یہ سوال بھی تھا اور احتجاج بھی تھا۔
” تم نہیں جانتی ہو، وہ کس قدر سفاک آدمی ہے۔ ” عامر نے سمجھانے کی کوشش کی۔
میں اس سے زیادہ سفاک بن جاؤں گی۔ ” تانیہ نے سمجھنے سے انکار کر دیا۔
ہم قانونی جنگ لڑیں گے۔ جائداد کے کاغذات اور وصیت نامہ ہمارے وکیل کے پاس موجود ہے، کل وکیل صاحب یہاں آئیں گے، وصیت سب کے سامنے پڑھ کر سنائی جائے گی۔ مجھے معلوم ہے وصیت میں کیا ہے۔ راؤ صاحب مجھے سب بتا چکے ہیں، تب پھر میں کھڑے ہو کر اعلان کروں گا کہ راؤ صاحب کا وارث کون ہے۔ خیر یہ تو کل کی بات ہے فی الحال میں یہ چاہتا ہوں کہ تم صائمہ اور اس کی امی کے ساتھ فوری طور پر گھر چلی جاؤ۔ میں تم لوگوں کے جانے کا انتظام کر دیتا ہوں۔ آؤ میرے ساتھ” یہ کہہ کر عامر کوارٹر سے باہر نکل آئے۔ اور ڈرائیور کے ساتھ خاموشی سے انہیں راوی روڈ کی طرف روانہ کر دیا۔ یہ کام اس قدر تیزی اور راز داری سے ہوا کہ کوئی اندازہ بھی نہ کر سکا کہ تانیہ جو ابھی میت سے لپٹ کر رو رہی تھی، وہ اب یہاں نہیں ہے۔ عامر نے خدا کا شکر ادا کیا کہ تانیہ نے اس کی بات بڑی فرمانبرداری سے مان لی تھی۔ جانے سے انکار نہیں کیا تھا۔

عامر نے اندر آتے ہی جنازہ اٹھائے جانے کا اشارہ دیا۔ بس پھر راؤ احمد علی کو عامر سے بات کرے موقع نہ ملا۔ تدفین میں رات کے ساڑھے گیارہ بج گئے۔ عامر نے قبرستان سے اپنے گھر کا رخ کیا۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ رات کو یہیں قیام کریں گے۔ بدلے ہوئے حالات کی وجہ سے انہوں نے راؤ احمد سے دور ہی رہنا مناسب سمجھا۔ دوسرے دن خاندان کے معزز لوگوں کے سامنے وکیل صاحب نے وصیت کھول کر پڑھی۔ وصیت کے مطابق ماڈل ٹاؤن کی کوٹھی اور مال روڈ والا ریستوران تانیہ کے نام کیا گیا تھا۔ ساون پور جائداد کا حق دار محسن راؤ کو ٹھہرایا گیا اس کے نہ ملنے کی صورت میں پھر تانیہ اس جائداد کی مالک ہو گی یہ وصیت راؤ احمد علی کے سر پر کسی پتھر کی طرح لگی۔ وہ اس وصیت کو سنتے ہی کسی باؤلے کتے کی طرح کاٹنے کو دوڑا اس نے وصیت کی نقل پھاڑ کر پرزے پرزے کر دی اور پھنکارتا ہوا کوٹھی سے نکل گیا عامر کو اب تانیہ کی فکر تھی۔ راؤ احمد علی باؤلا ہو چکا تھا۔ وہ کسی بھی وقت تانیہ کو کاٹ سکتا تھا۔
عامر نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جو بھی فلائٹ دستیاب ہوئی، اس سے تانیہ کو کراچی کیلئے روانہ کر دیا۔
چوبیس گھنٹے کے اندر وہ کراچی واپس پہنچ گئی۔
تانیہ اب کراچی واپس جانا نہیں چاہتی تھی۔ عامر نے مرحوم باپ کی قسم دے کر اسے کراچی بھیجا تھا۔
انہوں نے اسے سمجھایا تھا کہ تمہارے باپ نے تمہاری جان بچانے کی خاطر اپنی زندگی اجیرن کر لی
تمہاری زندگی کی حفاظت کیلئے انہوں نے تمہیں مرحوم بنا دیا۔ پوری زندگی تمہارے لئے ترستے رہے اپنی محبت کیلئے تمھیں موت کے منہ میں دھکیلنا پسند نہ کیا۔ اب تم چاہتی ہو کہ میں اس کام کی اجازت دیدوں۔ تمہیں بھیڑیوں کے بھٹ میں چھوڑ دوں۔ وہ مجھے تمہارا گارجین بنا کر گئے ہیں۔ خدا نخواستہ تمہاری زندگی کو کچھ ہو گیا تو اس کی روح کس قدر تڑپے گی۔ تانیہ تمہیں اپنے مرحوم والد کی قسم تمہیں کراچی جانا ہو گا۔ میں یہاں موجود ہوں۔ تمہاری طرف سے قانونی جنگ لڑنے کیلئے۔ بے فکر ہو ۔۔ میرے ہوتے ہوئے تمہارا حق تم سے کوئی نہ چھین سکے گا۔ “
ٹھیک ہے، انکل میں چلی جاتی ہوں، لیکن یہ بات میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ راؤ احمد علی میرے بڑے بھائی محسن راؤ کو اغواء کیا ہے۔ وہ زندہ ہیں، مجھے شبہ ہے کہ وہ راؤ احمد علی کی تحویل ہیں۔ انکل میں زمین جائداد پر لعنت بھیجتی ہوں مجھے اپنا بھائی چاہئے۔ میں انہیں ڈھونڈنا چاہتی ہوں۔ وہ مجھے مل گئے تو پھر میں یہاں سے وہاں تک ایک ایک کو دیکھ لوں گی۔” تانیہ نے بڑے جوش سے کہا۔
تانیہ، میں اس سلسلے میں تمہاری ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہوں انشا اللہ ہمارا محسن راؤ ضرور واپس آئے گا۔ تم فکر نہ کرو، اچھا جاؤ، جہاز اب جانے والا ہے۔ اپنا خیال رکھنا۔ اللہ حافظ ۔ “
عامر نے کو گلے لگا کر کہا۔
اللہ حافظ ۔ انکل۔ ” تانیہ کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ اپنے آنسو روکتی ہوئی تیزی سے اندر چلی گئی۔ وہ جہاز میں بیٹھ کر پیچ و تاب کھاتی رہی۔ ایک طرف اسے اپنے باپ کی موت کا شدید صدمہ تھا تو دوسری طرف اس بات کا دکھ تھا کہ وہ بزدلوں کی طرح وہاں سے جان بچا کر بھاگ آئی تھی۔ انکل عامر نے اس کے ساتھ بڑا ظلم کیا تھا خواہ مخواہ بابا کی قسم دیدی تھی۔ پھر تو اسے مجبوراً لاہور چھوڑنا ہی تھا وہ لاہور چھوڑ آئی تھی۔ ظالموں کیلئے کھلا میدان چھوڑ دیا تھا۔ اسے اپنے چچا راؤ احمد علی پر اس قدر غصہ تھا کہ اس کا جی چاہتا تھا کہ اڑتے جہاز سے چھلانگ لگا کر ساون پور پہنچے اور راؤ احمد علی کے سینے پر اس قدر گولیاں برسائے کہ ایک سوت بھی جگہ باقی نہ بچے۔
کاش ! وہ لڑکا ہوتی تو انکل عامر اسے اس قدر پریشان ہو کر کراچی روانہ ہر گز نہ کرتے۔ وہ اس وقت اپنے باپ کی کوٹھی میں ہوتی اور وہاں بیٹھ کر دشمن کے خلاف منصوبہ بندی کر رہی ہوتی۔ خیر کوئی بات نہیں، وہ لڑکی ہے تو کیا ہوا ، وہ لڑکی رہتے ہوئے ایسی جرأت کا مظاہرہ کرے گی کہ راؤ احمد علی کے ہوش اڑ جائیں گے ہوش تو اس نے اس وقت ہی اڑا دیئے تھے جب اس نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا۔ اس کی ڈانٹ سن کر وہ کیسا بھیگی بلی بن گیا تھا۔ اس احساس نے اسے بڑی تقویت دی۔ کراچی ایرپورٹ پر افضل موجود تھا۔ افضل کا اداس چہرہ دیکھ کر اسے یاد آیا کہ وہ اپنے باپ کو لاہور دفنا کر آرہی ہے۔
تانیہ قریب آئی تو افضل نے دکھی لہجے میں کہا۔ ” بڑا افسوس ہوا، تانیہ۔ “
ہاں بھائی۔ میں بڑا عجیب نصیب لکھا کر لائی ہوں ، بھائی سب کچھ ختم ہو گیا۔ ” تانیہ کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے۔
تانیہ کچھ ختم نہیں ہوا ۔ ہم لوگوں کی زندگیاں ایک دوسرے کے پاس اللہ کی امانتیں ہیں جو دیتا ہے وہ لینے کا بھی حق رکھتا ہے۔ اس نے اپنا حق استعمال کر لیا۔ اب آپ کو صبر کرنا ہو گا۔ “ افضل نے اسے ڈھارس دینے کی کوشش کی۔ تانیہ نے جواب میں کچھ نہ کہا۔ وہ کیا کہتی، وہ سیڑھیوں پر گاڑی کا انتظار کرنے لگی۔ جب افضل گاڑی لے کر آیا تو اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ خالہ فرزانہ گاڑی کی پچھلی نشست پر موجود ہیں وہ دروازہ کھول کر گاڑی سے باہر آنا چاہتی تھیں لیکن تانیہ نے انہیں گاڑی سے اترنے کا موقع نہ دیا۔ وہ بیٹھے بیٹھے
ان سے لپٹ گئی۔ اس کی سسکیاں بندھ گئیں۔ افضل نے گھوم کر تسلی آمیز لہجے میں کہا۔ تانیہ پلیز روئیں نہیں۔“
پھر اس نے گاڑی سے اتر کر اس کا سامان ڈگی میں رکھا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ اس اثناء میں تانیہ ٹھیک سے بیٹھ کر گاڑی کا دروازہ بند کر چکی تھی۔
سارے راستے خالہ فرزانہ کے کندھے پر اپنا سر رکھے بیٹھی رہی اور خالہ فرزانہ دھیرے دھیرے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی رہیں، بس اسی طرح خاموشی سے راستہ کٹ گیا۔
تانیہ رات گئے تک خالہ فرزانہ کے کمرے میں بیٹھی رہی۔ اس نے اپنی زندگی کا پورا کچا چٹھا خالہ فرزانہ کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ اس کی زندگی ایک معمہ بن کر رہ گئی تھی۔ ایک راز ، ایک سر درد بن کر رہ گئی تھی۔ اب اس نے سوچ لیا تھا کہ اپنی زندگی سے متعلق قطعی کوئی بات چھپا کر نہ رکھے گی اسے اپنی اس راز بھری زندگی سے نفرت ہو گئی تھی۔ اب وہ اپنے پیاروں کو ہر بات بتا دینا چاہتی تھی۔ خالہ فرزانہ اور افضل کو اس کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا لیکن آج کی رات انہیں سب کچھ معلوم ہو گیا تھا۔ اب وہ اس کی زندگی کی حفاظت بہتر انداز میں کر سکتے تھے۔ رات کے تین بجے کے قریب جب تانیہ اپنے کمرے میں جانے کیلئے اٹھنے لگی تو خالہ فرزانہ نے اس کابہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا اور بولیں
” اب اوپر جا کر کیا کرو گی، یہیں سو جاؤ۔ “
ہاں، خالہ یہی بہتر رہے گا۔ ” افضل نے تائید کی اور خود کمرے سے نکل کر باہر آگیا۔ افضل کے جانے کے بعد خالہ فرزانہ نے کمرہ اندر سے بند کر لیا۔ تانیہ ان کے بازو پر سر رکھ کر لیٹ گئی اور جلد ہی نیند کی آغوش میں چلی گئی۔ فجر کے وقت خالہ فرزانہ نماز کیلئے اٹھیں تو تانیہ کی بھی آنکھ کھل گئی۔
کیا ہوا؟ میں نے لائٹ جلا دی، اس لئے تمہاری آنکھ کھل گئی۔ میں لائٹ بند کئے دیتی ہوں۔ “
خالہ فرزانہ نے کہا اور سوئچ کی طرف بڑھیں۔
نہیں خالہ رہنے دیں۔ میں بھی اٹھ رہی ہوں، اپنے کمرے میں جا کر نماز پڑھوں گی،”
یہ کہہ کر وہ سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں پہنچی تو اچانک اس پر نیند کا غلبہ ہونے لگا وہ یہ سوچ کر تھوڑی دیر اپنے بیڈ پر لیٹ جاؤں، پھر اٹھ کر نماز پڑھتی ہوں، لیٹی تو ایسی سوئی کہ صبح نو بجے آنکھ کھلی۔ اس نے اٹھ کر فجر کی نماز پڑھی، پھر یہ سوچ کر کہ آج اس کے بابا کا سونم ہے، وہ قرآن شریف پڑھنے بیٹھ گئی۔ اس نے ارادہ کیا کہ پورا قرآن شریف ختم کر کے اپنے بابا کو بخش دے گی۔ مرنے والے کیلئے اس سے اچھا ثواب کا کام کیا ہو سکتا ہے ۔۔ ساڑھے نو بجے کے قریب جب دردانہ اوپر آئی تو اس نے دیکھا کہ تانیہ پورے انہماک سے قرآن شریف کی تلاوت کر رہی ہے۔ دردانہ کے لئے تانیہ کا یہ روپ نیا تھا۔ وہ بڑی محویت سے اسے دیکھنے لگی۔
تانیہ کے چہرے پر اداسی کے ساتھ ایک وقار پھیلا ہوا تھا۔ تین پارے پڑھ کر اس نے قرآن شریف بند کیا ، آنکھوں سے لگایا تو سامنے دردانہ کو کھڑا پایا۔
کیا۔
دردانہ کیسے آئی ہو؟” تانیہ نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
بی بی، آپ کا ناشتہ یہیں لے آؤں ۔
” نہیں۔ میں نیچے آرہی ہوں۔ خالہ کے کمرے میں ناشتہ کروں گی۔ ” اس نے دھیمے لہجے میں کہا

پھر جب وہ خالہ فرزانہ کے کمرے میں پہنچی تو اس نے دیکھا کہ وہ قرآن شریف پڑھ رہی ہیں۔ اس کی آہٹ محسوس کر کے انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے قریب بیٹھنے کو کہا۔ اس نے نزدیک بیٹھ کر خالہ کے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ دیر کے بعد جب خالہ نے آدھا پارہ مکمل کر لیا تو قرآن شریف بند کر کے چوما اور اس کو الماری کے اوپر رکھنے کیلئے اٹھنے لگیں تو تانیہ نے فوراً قرآن شریف اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ”لائیں، خالہ میں رکھ دوں ۔ “
تانیہ میں تیزی سے قرآن شریف نہیں پڑھ سکتی انشاء اللہ آدھا آدھا پارہ کر کے قرآن شریف . مکمل کروں گی۔ قرآن شریف مکمل ہونے پر تمہارے والد کو بخش دوں گی ۔ ” خالہ فرزانہ نے بڑی محبت سے کہا۔
خالہ آج میں نے خود قرآن شریف شروع کیا ہے، ابھی تین پارے پڑھ کر آرہی ہوں، انشاء اللہ جلد ہی مکمل کر لوں گی۔ “
ہاں بیٹی ضرور پڑھو، ایصال ثواب کیلئے اس سے اچھی کوئی چیز نہیں ہے۔ “
بالکل صحیح کہا آپ نے۔ “
ساڑھے آٹھ بجے کے قریب عامر کا فون آیا تھا۔ میں نے تمہیں دکھوا یا تم سو رہی تھیں۔ میں نے اٹھانا مناسب نہ سمجھا۔ پھر عامر نے بھی اٹھانے سے منع کیا وہ بتارہے تھے کہ آج ظہر کے بعد سونم ہے لیکن تمہارا چچا اپنے ٹبر کے ساتھ واپس جا چکا ہے۔ جاتے جاتے وہ عامر کو دھمکیاں دے گیا ہے۔ “
کسی قسم کی دھمکی؟” تانیہ سے پوچھا۔
یہی کہ وہ عامر پر مقدمہ قائم کرے گا۔ تانیہ راؤ شمشاد علی کی اصلی بیٹی نہیں ہے۔ یہ سارا سوانگ عامر نے رچایا ہے۔ تاکہ ماڈل ٹاؤن والی کوٹھی اور ریستوران پر قبضہ کر سکے ۔
“ انکل عامر تو یہ سن کر پریشان ہو گئے ہوں گے۔ “
ارے نہیں۔ تم نے عامر کو کیا سمجھا ہے، وہ بہت نڈر اور ضدی قسم کے انسان ہیں، شریف اور مخلص ہیں مگر اس وقت تک جب تک سامنے والا شرافت کا مظاہرہ کرے۔ “
کاش! میرے بابا بھی ایسے ہی ہوتے۔ شریفوں کیلئے شریف اور بد معاشوں کیلئے بدمعاش ۔
” تم اپنے والد کی کیا بات کرتی ہو، وہ بہت پیارے انسان تھے، درویش صفت، وہ شریفوں کیلئے تو شریف تھے ہی بد معاشوں کے لئے بھی شریف تھے ۔۔میں تمہارے والد کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہوں ۔ آج کے اس فریبی دور میں ایسے لوگ ڈھونڈے نہیں ملتے۔ ” خالہ فرزانہ نے بڑی عقیدت سے کہا۔
ابھی یہ باتیں جاری تھیں کہ دردانہ ناشتہ لے کر آگئی۔
بڑی دیر کر دی تم نے دردانہ ۔ ” خالہ فرزانہ نے ٹوکا۔
بڑی بی بی۔ سب کچھ تازہ بنا کر لائی ہوں۔ اس لئے تھوڑی سی دیر ہو گئی۔ “
اس نے ناشتے کی ٹرے بیڈ پر رکھنا چاہی۔
نیچے قالین پر ۔ ” تانیہ نے کہا، پھر وہ لوازمات سے بھری ہوئی ٹرے کو دیکھ کر بولی۔
”بھئی کتنے لوگوں کا ناشتہ بنا ڈالا ہے تم نے۔ “
صرف آپ کیلئے جی۔ ” دردانہ نے بڑی معصومیت سے کہا۔ ارے کہاں ہے زیادہ, کر لو، تم نے رات کو بھی مشکل سے دو لقمے کھائے تھے۔ “ خالہ فرزانہ نے اسے محبت سے دیکھا۔
تانیہ ناشتہ کرنے کے بعد اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اس کا سوٹ کیس ابھی تک بند پڑا تھا۔ سوٹ کیس کھول کر اس اس نے نے اپنے کپڑے کپڑے نکالے۔ انہیں اپنی جگہ پر پہنچائے۔ سب سے نیچے ڈائری پڑی تھی وہ ڈائری اپنے ساتھ لاہور لے گئی تھی۔ اس نے وہاں کئی بار کھول کر دیکھی تھی مگر کوئی تحریر نظر نہ آئی تھی۔
وہ چاہتی تھی کہ اپنے بابا کے بارے میں اسے کوئی اشارہ ملے ؟ کس نے انہیں قتل کیا ہے لیکن اسے کچھ پتہ نہ چل سکا۔ اس نے سوٹ کیس کی تہہ سے وہ ڈائری اٹھائی اور کیسٹوں کے درمیان اسے رکھنے چلی۔ چلتے چلتے ایسے ہی ڈائری کے اوراق پر نظر ڈال لی۔ تب اس کی حیرت کی انتہانہ رہی کہ اسے ڈائری میں چند صفحات لکھے ہوئے نظر آئے۔ وہ فوراً واپس آگئی۔ بیڈ پر بیٹھ گئی۔ پھر خیال آیا، دروازہ کھلا ہوا ہے، اس نے جلدی سے دروازہ بند کیا اور بیڈ پر بیٹھ کر ڈائری کا ایک ایک ورق پلٹنے لگی۔ تب اچانک وہ لکھا ہوا صفحہ سامنے آگیا، وہ بے تابی سے پڑھنے لگی۔

“ہم جانتے ہیں کہ تم کیا معلوم کرنا چاہتی ہو، ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ تمہارے والد راؤ شمشاد علی کو کس نے قتل کیا ہے۔ ایک جملے میں جواب یہ ہے کہ راؤ احمد علی نے۔ ہاں تمہارا چچا نے تمہارے باپ کا قتل کیا ہے۔ ایک دن وہ شام کو ساون پور سے لاہور پہنچا تھا۔ وہ پورے انتظام سے آیا تھا۔ تمہارے والد نے شام اور رات کی تمام مصروفیات کینسل کر دی تھیں اور عبدل کو حکم دیا تھا کہ وہ راؤ احمد علی کی مرضی کا کھانا پکائے۔ کھانے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد جب راؤ شمشاد علی باہر لان میں ٹہل رہے تھے کہ عبدل نے اپنی بیٹی کے ایکسیڈنٹ کی خبر دی۔ یہ اطلاع اسے فون پر ملی تھی بیٹی اسپتال سے گھر پہنچ چکی تھی عبدل نے دھرم پور جانے کی اجازت چاہی جو راؤ شمشاد علی نے فوراً دیدی اور ساتھ ہی پانچ سو روپے کا نوٹ بھی عنایت کر دیا۔ ان کے جانے کے بعد راؤ احمد علی نے تمہارے والد سے کہا کہ
“بھائی صاحب آئیے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔
وہ اسے اپنے ساتھ لاؤنج میں لے آئے اور بڑے بازو والی کرسی پر بیٹھ گئے ۔ وہ عام طور سے ٹی وی اسی کرسی پر بیٹھ کر دیکھتے تھے یہ برسوں پرانی کرسی تھی۔ گھر کا تمام فرنیچر بدل گیا تھا مگر نہیں بدلی تھی تو یہ کرسی، خیر وہ اس کرسی پر بیٹھ گئے اور راؤ احمد علی سے پوچھا کہ وہ کیا بات کرنا چاہتا ہے۔ جواب میں راؤ احمد علی نے اپنے بریف کیس سے کاغذات کی ایک فائل انہیں تھمادی اور کہا۔
” بھائی صاحب! آپ ان کاغذات کو پڑھنا چاہیں تو پڑھ لیں اگر نہ پڑھنا چاہیں تو بھی کوئی ہرج نہیں۔ آپ کو
دستخط ہر صورت میں کرنا ہوں گے۔ “
بھائی کے اس انداز پر وہ چونکے۔ اسے سر اٹھا کر دیکھا اور پوچھا۔ ”کیا مطلب ہے تمہارا ۔ “
بھائی صاحب مطلب یہ ہے کہ اب مجھ سے آپ کی موت کا انتظار نہیں ہوتا جو جائداد مجھے آپ کی موت کے بعد نصیب ہوگی میں چاہتا ہوں کہ وہ آپ کی زندگی میں ہی مل جائے تو اچھا ہے۔ “
اچھا تو یہ زمینوں کے کاغذات ہیں ؟”
جی یہ تمام جائداد کے کاغذات ہیں آپ کے دستخطوں کے بعد یہ سب کچھ میرا ہو جائے گا۔
” تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ تم کہو گے اور میں حکم کے غلام کی طرح ان کاغذات پر دستخط کر دوں گا۔”
بھائی صاحب! آپ اس جائداد کو کہاں لے جاؤ گے۔ “
“اس جائداد کے وارث موجود ہیں۔ “
“موجود ہیں، کیا ایک سے زائد ہیں۔ ؟؟”
تمہارا چچا یہ سن کر پریشان ہوا۔
” ہاں، دو ہیں۔ “
کون کون، ذرا بتائیں، مجھے بھی تو پتہ چلے۔ “
میرا بیٹا محسن راؤ ایک دن وہ ضرور واپس آئے گا ۔ ” راؤ شمشاد علی نے بڑے یقین سے کہا۔۔
اور دوسرا۔ ” راؤ احمد علی نے پوچھا۔
دوسرے وارث کا میرے مرنے کے بعد تمہیں پتہ چلے گا۔ ” اس نے فوراً کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے اپنا بریف کیس کھولا اور اس سے ریوالور نکال کر تان لیا اور پھر بولا۔ ” چلو پھر مرنے کیلئے تیار ہو جاؤ ۔ “
” یہ کیا بکواس ہے۔ تم پاگل ہو گئے ہو کیا؟ اس جائداد کے لئے تم اپنے بھائی کی جان لے لو گے کیا ؟”
“جائداد چیز ہی ایسی ہے، میں کیا کروں ۔
” تم جانتے ہو کہ میری زمینیں زندگی بھر تمہارے تصرف میں رہی ہیں۔ میں نے کبھی تم سے حساب نہیں مانگا جو تم دے دیتے ہو وہ رکھ لیتا ہوں ۔ پھر بھی تم میرے قتل کے درپے ہو۔ “
تو پھر کر دیجئے نا دستخط تاکہ آپ کے حصے کی زمینیں مکمل طور پر میری ہو جائیں آپ کو ضرورت بھی کیا ہے پیسے کی۔ ریستوران سے آپ کو اچھی خاصی آمدنی ہے۔ آپ کے آگے کوئی اولاد بھی نہیں۔ میرا تو بھرا پڑا گھر ہے۔ “
میرا محسن راؤ گم ہوا ہے۔ مرا نہیں۔ ” .
یہ آپ کا خیال ہے بھائی صاحب۔ محسن راؤ اب اس دنیا میں نہیں۔ “
تم یہ بات کس طرح کہہ سکتے ہو ؟ “
آج میں آپ کو ایک راز کی بات بتائے دیتا ہوں ۔ محسن راؤ کو جنگل سے میرے آدمیوں نے اٹھایا تھا اور اسے جہاں پہنچایا تھا، وہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں لوٹا۔ ” کمینے تو نے میرے بیٹے کو مار دیا، میں تیرا خون پی جاؤں گا۔ “ وہ کاغذات کی فائل کو زمین پر پھینک کر اٹھنے لگے تو راؤ احمد علی نے آگے بڑھ کر ریوالور ان کی کنپٹی پر رکھ دی۔
بھائی صاحب زیادہ جوش میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہوشمندی کا ثبوت دیجئے اور خاموشی سے کاغذات پر دستخط کر دیجئے۔ “
کسی قیمت پر نہیں۔ ” تمہارے والد نے اس سفاک شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں اور بہت جرات مندی سے بولے ۔
” چلاؤ گولی۔ ” یہ لو۔ “
راؤ احمد علی نے ایک سیکنڈ کا بھی انتظار نہ کیا۔ اس نے گولی چلا دی۔ جیسے گولی چلانا کوئی کھیل ہو۔
چند لمحوں میں اس گولی نے تمہارے والد کا کام تمام کر دیا۔ یہ ریوالوار تمہارے والد ہی کا تھا، اور اسنے میز کی دراز سے نکال کر اپنی واسکٹ کی جیب میں ڈال لیا تھا۔ وہ ریوالور اس نے راؤ شمشاد علی کے دائیں ہاتھ میں تھمایا، کاغذات سمیٹے اور پورے اطمینان سے کوٹھی کا گیٹ بند کر کے وہاں سے نکل گیا اور راتوں رات ساون پور پہنچ گیا۔
وہ در اصل پوری منصوبہ بندی کے ساتھ آیا تھا۔ اس نے گھر کے ملازم عبدل کو دھمکی اور رقم کی چمک سے خرید لیا تھا۔ وہ دونوں اس کے اشارے پر کوٹھی سے چلے گئے تھے۔۔ اس کی بیٹی کا ایکسیڈنٹ نہیں ہوا تھا۔

اگر چہ اس قتل کی واردات کا کوئی عینی شاہد نہیں ہے لیکن اگر عبدل اور اس کی بیوی کو پولیس کی تحویل میں دیدیا جائے تو وہ راؤ احمد علی کی آمد، اس کی دھمکی اور ایک لاکھ روپے کی پیشکش کے بارے میں بتائے ہوئے زیادہ دیر نہیں لگائیں گے۔ ایک لاکھ روپے بھی برآمد ہو جائیں گے۔ راؤ احمد علی نے منصوبہ سازی اس لئے کی تھی کہ وہ معاملے کو آر یا پار کرنے آیا تھا اور پار کر کے چلا گیا تھا۔
اچھا ہم چلتے ہیں، ہمیں گیا وقت نہ سمجھنا۔ ہم پھر آئیں گے۔

اور پھر وہی ہوا کہ تانیہ آخری جملے پر نظر ڈال رہی تھی کہ لفظ ہلکے ہونا شروع ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ ڈائری پھر کوری کی کوری رہ گئی۔ تانیہ کو شبہ تھا کہ یہ قتل اس کے چچا نے کروایا ہے لیکن یہاں تو معاملہ اور سنگین نکلا تھا۔ یہ قتل خود اس کے چچا نے کیا تھا۔ کیسا درندہ صفت انسان تھا۔ ایسے انسان کو تو سوئیاں چبھو چبھو کو مارنا چاہئے۔ فکر مت کر و احمد علی وقت آنے پر تمہارے ساتھ وہ ہوگا کہ تم زندگی بھر یاد رکھو گے۔ یہ ایک اہم انکشاف تھا۔ پوری زندگی ساتھ گزارنے والا ملازم بک گیا تھا۔ یہ کوئی ایسی حیرت میں ڈالنے والی بات نہ تھی۔ جب پیسے کے لئے بھائی نے بھائی کو اس سفاکی سے قتل کر دیا تو کسی غیر کا لالچ میں آجانا کیا معنی رکھتا ہے۔ اس نے سوچا کہ فوراً انکل عامر کو فون کرنا چاہئے ۔ انہیں بتانا چاہئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اس انکشاف کا ذریعہ کیا بتائے گی۔ کیا یہ بتائے گی کہ اس کے پاس ایک ایسی ڈائری ہے جس میں اس کی زندگی کے راز لکھے ہوئے آجاتے ہیں اور پھر وہ لفظ خود بخود مٹ جاتے ہیں۔ اس بات پر کون ہوشمند یقین کرے گا۔ اس بات پر کوئی یقین نہیں کرے گا وہ خواہ مخواہ مذاق کا نشانہ بن جائے گی۔ لوگ کہیں گے کہ باپ کی موت کے صدمے نے اس کے دماغ کو متاثر کیا ہے اس کی ذہنی رو بہک گئی ہے۔ پاگل ہو گئی ہے۔
لیکن انکل عامر ایسے نہیں ہیں وہ اس کی بات پر ضرور توجہ دیں گے۔ پولیس اس کیس کی تفتیش کر رہی ہے۔ پولیس نے اپنے طور پر عبدل کو شامل تفتیش تو کیا ہو گا۔
اوہ، بات بن سکتی ہے۔ ایک دم معنی خیال کے تحت چٹکی بجائی اور ٹیلیفون کی طرف بڑھی لیکن اس وقت انکل عامر راوی روڈ والے گھر میں کہاں ہوں گے۔ وہ ماڈل ٹاؤن گئے ہوئے ہیں۔ وہاں فون کرے لیکن وہاں کا فون نمبر اس کے پاس نہیں تھا۔
پھر یہ سوچ کر کہ خالہ فرزانہ سے اس مسئلے پر بات کرنا چاہئے، وہ نیچے چلی آئی۔ خالہ فرزانہ نیچے قالین پر بیٹھی پان بنا رہی تھیں تانیہ کو دیکھ کر بولیں۔ ” پان کھاؤ گی؟”
نہیں خالہ ، جی نہیں چاہ رہا۔ “
آؤ بیٹھو۔ “
خالہ انکل عامر سے بات کرنی ہے۔ “
وہ اس وقت گھر پر کہاں ہوں گے۔ “
ماڈل ٹاؤن ہوں گے۔ پر وہاں کا فون نمبر کیسے معلوم ہو” ؟
عامر کے گھر فون کر کے دیکھ لو، ہوسکتا ہے ساجدہ اور صائمہ گھر پر ہوں، ان سے معلوم ہو جائے گا فون نمبر “
گڈ آئیڈیا۔ ” تانیہ نے خوش ہو کر کہا اور پھر وہ ٹیلیفون قالین پر رکھ کر ڈائل کرنے لگی۔
دو گھنٹیاں بجنے کے بعد ادھر سے کسی نے فون اٹھا کر کہا۔
”ہیلو۔ ” تانیہ نے صائمہ کی آواز فوراً پہچان لی۔ وہ جلدی سے بولی۔
” صائمہ میں تانیہ بول رہی ہوں”
کیسی ہو تانیہ ۔ “
میں ٹھیک ہوں، یہ بتاؤ انکل عامر کہاں ہیں؟“
ماڈل ٹاؤن، وہ تو صبح کے گئے ہوئے ہیں، گاڑی آنے والی ہے، میں اور امی بھی جانے وا۔للے ہیں۔
” پھر تم ایک کام کرو، ماڈل ٹاؤن پہنچ کر انکل عامر سے کہنا کہ مجھے فوری طور پر فون کریں اور یہ بتاؤ تمہارے پاس وہاں کا فون نمبر ہے؟”
”ہاں ہے۔ تمہیں چاہئے۔ “
ہاں، دیدو۔ “
اچھا ٹھہرو، ڈائری میں دیکھ کر بتاتی ہوں پھر کچھ دیر بعد بولی ”ہاں، لکھو۔ “
ایک منٹ ” تانیہ نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا اخبار اور بال بین اٹھا لیا۔ ”ہاں بتاؤ۔ “
صائمہ کا بتایا ہوا نمبر اس نے اخبار کے حاشیے پر لکھ لیا۔ اور پھر دو چار ادھر ادھر کی باتیں کر کے فون رکھ دیا۔ اب اسے انکل عامر کے فون کا بے چینی سے انتظار تھا۔ بالآخر انتظار رنگ لے آیا۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے کے بعد فون کی گھنٹی بجی تانیہ نے جھپٹ کر ریسیور اٹھا
“ہیلو۔ “
ہاں تانیہ میں عامر بول رہا ہوں ۔ “
آپ کہاں سے بات کر رہے ہیں؟”
میں ایک محفوظ جگہ سے بات کر رہا ہوں ۔ کوٹھی سے تو بات نہیں کر سکتا تھا نا۔ “
انکل عامر، مجھے آپ سے ایک بہت اہم بات کرنا ہے۔ “
ہاں کہو۔ “
کیا پولیس نے عبدل اور اس کی بیوی کو شامل تفتیش کیا ہے ؟؟
ہاں، پولیس انسپکٹر نے اس کا بیان لیا تھا میرے سامنے ہی بات ہوئی تھی، پولیس اس طرح کے معاملات میں سب سے پہلے گھر کے ملازمین پر شک کرتی ہے۔ “
” انکل عامر بالکل ٹھیک کرتی ہے۔ ” .
میں عبدل کو ایک عرصے سے جانتا ہوں ، وہ راؤ صاحب سے بہت محبت کرتا تھا۔ وہ انکا وفادار ملازم
انکل، میرا دل گواہی دیتا ہے کہ عبدل قاتل سے اچھی طرح واقف ہے۔ ” تانیہ نے کہا
یہ تم کس طرح کہہ سکتی ہو ۔ ” عامر الجھ گئے۔
آپ صرف اتنا کریں کہ اپنے طور پر یہ معلوم کرالیں کہ اس کی بیٹی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا یا نہیں”
” یہ تو کوئی ایسا مشکل کام نہیں۔ میں ابھی دھرم پورے ایک آدمی بھیج دیتا ہوں ۔ وہ کسی بہانے سے
معلوم کر آئے گا۔ “
جب یہ معلوم ہو جائے کہ ان کی بیٹی کا کوئی ایکسیڈنٹ نہیں ہوا تو پھر عبدل کو چھوڑیئے گا نہیں۔ پولیس کے ذریعے ڈرائنگ روم کی سیر کروا دیجئے گا۔ پھر وہ خود ہی قاتل راؤ احمد علی کا نام بتادے گا “..
“تمہیں عبدل جیسے وفادار ملازم پر آخر کیوں شک ہوا ؟ ” اس شک کی وجہ میں آپ کو بتاؤں گی تو آپ یقین نہیں کریں گے۔ بس میں نے آپ سے جو کہا ہے اس پر عمل کر کے دیکھ لیجئے، جو بھی بات ہے سامنے آجائے گی۔ ” “اچھی بات ہے، میں اپنے طور پر ایکسیڈنٹ کی تصدیق کروائے لیتا ہوں ۔ ٹھیک ہے تم بے فکر ہو جاؤ۔۔ میں پھر رات کو گھر سے بات کروں گا۔ اللہ حافظ ۔ “
اللہ حافظ ۔ ” تانیہ نے ریسیور رکھ کر ایک گہرا اور ٹھنڈا سانس لیا اور سوچا۔ اب ضرور کچھ نہ کچھ ہوجائے گا۔

اور واقعی کچھ نہ کچھ ہو گیا۔ اس ہونی کے لئے اسے رات دس بجے تک انتظار کرنا پڑا۔
رات دس بجے انکل عامر کا فون آیا۔ تانیہ خالہ فرزانہ کے کمرے میں بیٹھی تھی فون بھی اسی نے اٹھایا۔
“ہیلو” ۔ تانیہ بولی۔
ہاں، تانیہ مین عامر بات کر رہا ہوں ۔ “
کیا ہوا انکل آپ نے معلوم کروایا تھا۔ “
تمہارا شک ٹھیک نکلا۔ عبدل کی بیٹی کا کوئی ایکسیڈنٹ نہیں ہوا، اس دن وہ گھر سے نکلی ہی نہیں تو ایکسیڈنٹ کہاں سے ہوتا۔ ” انہوں نے بتایا۔
” یہ لوگ اپنی بیٹی کے پاس رہے بھی تھے یا وہاں سرے سے گئے ہی نہیں؟” تانیہ نے پوچھا۔
نہیں، رات کو وہیں رہے تھے۔ “
اب بتائیں، انکل، میرا شبہ ٹھیک تھا نا۔ ” تانیہ نے داد چاہی۔
تمہارا شبہ بہت پکا نکلا۔ میں حیران ہوں۔ کاش یہ بات میرے دماغ میں بھی آجاتی۔
” پھر آپ نے کیا کیا ؟ “
ظہر کے بعد میں نے قرآن خوانی رکھی تھی۔ ماشاء اللہ بہت لوگ شریک ہوئے۔ عصر سے پہلے سوئم ختم ہو گیا۔ راؤ احمد علی تو کل ہی اپنے خاندان کو لے جاچکے تھے۔ لیکن آج ان کا ایک بیٹا اعتبار راؤ سوئم میں شرکت کیلئے آیا تھا۔ وہ بھی اجنبیوں کی طرح بیٹھا رہا اور فاتحہ ہوتے ہی مجھ سے ملے بغیر نکل گیا۔
مغرب تک کوٹھی مہمانوں سے خالی ہو گئی۔ ساجدہ اور صائمہ کو بھی میں نے گھر بھیج دیا۔ بس کوٹھی میں، میں اکیلا رہ گیا یا پھر عبدل اور اس کی بیوی موجود تھے جو کوٹھی کے کام سمیٹتے پھر رہے تھے۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھا اس لڑکے کا انتظار کر رہا تھا جسے میں نے تحقیق کے لئے عبدل کی بیٹی کے گھر تھا۔ “
آپ نے لڑکے کو دیر سے بھیجا۔ آپ تو کہہ رہے تھے میں ابھی کسی کو بھیجے دیتا ہوں ۔
” ہاں، میں نے دیر سے بھیجا، ایک تو سوئم کی مصروفیت تھی دوسرے جس لڑکے کو میں اس مشن پہ روانہ کرنا چاہتا تھا اسے میں نے کئی کام سونپے ہوئے تھے۔ وہ فارغ ہوتے ہی دھرم پورے چلا گیا اب اسے گئے ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی۔ میں اس کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ کوئی آٹھ بجے کے قریب وہ واپس آیا، اس نے آکر بتایا کہ وہ بھلی چنگی ہے اس کے ہاتھ کی کوئی ہڈی وڈی نہیں ٹوٹی، نہ ہی اسکے ہاتھ پر کسی قسم کا بینڈیج تھا۔ دستک دینے پر وہ خود ہی دروازے پر آئی تھی۔ لڑکے نے اسے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔
تم زبیدہ ہو، عبدل کی بیٹی،
اس نے کہا ہاں۔ تب لڑکے نے جیب سے سو روپے کا نوٹ نکالا اور اس کی طرف بڑھایا۔
یہ سو روپے تمہارے ابا نے بھیجے ہیں، کہا ہے کہ انجکشن خرید کر لگوا لے ورنہ ہاتھ کی ہڈی جڑنے میں دیر لگے گی۔
ویسے یہ تو بتائیں کہ آپ کے کون سے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹی ہے۔ ؟؟؟”
وہ فوراً گھبرا کر بولی ۔ اللہ نہ کرے کہ میرے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹے، تم یہ کیا بات کر رہے ہو۔ !؟؟”
اس نے پوچھا۔ کل تمہارا ایکسیڈنٹ نہیں ہوا ؟”
وہ سن کر پریشان ہو گئی۔ اللہ نہ کرے کہ میرا ایکسیڈنٹ میں تو کل گھر سے ہی نہیں نکلی۔ تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔_
لڑکے نے پوچھا۔ تمہارے ابا عبدل ہی ہے نا،؟؟”
وہ بولی۔ ہاں میرے ابا کا نام عبدل ہی ہے۔ وہ کل ہی تو ایک رات رہ کر یہاں ڈے گئے ہیں،
لڑکے نے پوچھا۔ کیا تم نے فون کر کے انہیں بلایا تھا۔؟
اس نے جواب دیا۔ نہیں وہ خود ہی آئے تھے۔ انہیں میں یاد آرہی تھی۔ مجھ سے ملنے آئے تھے۔۔
لڑکے نے کہا۔ اچھا، پھر میں ان سو روپوں کو واپس لے جاؤں؟
زبیدہ نے سادگی سے جواب دیا۔ جیسی تمہاری مرضی،” لڑکے نے سن کر جیب میں نوٹ واپس ڈالا اور وہاں سے بھاگ نکلا۔ اس لڑکے نے کامیابی سے اپنا مشن پورا کر دیا تھا، میں نے وہ سو کا نوٹ اسے بخش دیا۔ اور اس سے کہا کہ ذرا عبدل کو بلا لاؤ۔ میں نے سوچا کہ ذرا اس سے پوچھ گچھ کروں، پھر تھانے فون کر کے انسپکٹر کو ساری صورتحال بتاتا ہوں ۔ ایک منٹ کے بعد وہ لڑکا واپس آیا بولا سر۔ عبدل تو کوٹھی میں نہیں ہے
” اور اس کی بیوی۔؟؟ میں نے پوچھا۔
وہ بولا۔ وہ بھی نہیں ہے۔
میں نے کہا وہ دونوں شاید اپنے کوارٹر میں ہوں گے۔ تم ذرا وہاں سے بلا لاؤ۔
لڑکے کے جانے کے بعد میں نے سوچا کہ عبدل کے کوارٹر سے آنے میں ابھی دیر لگے گی کیوں نہ تھانے فون کر کے انسپکٹر سے بات کرلوں۔ میں ڈرائنگ روم سے نکل کر لاؤنج میں آیا۔ یہاں فون تھا میں نے تھانے کا نمبر ڈائل کیا۔۔ انسپکٹر افتخار تھانے میں موجود تھا۔ میں نے اس سے اپنا تعارف کرا کے کہا کہ میرے ہاتھ ایک اہم ثبوت لگا ہے۔ اگر وہ فوری طور پر کوٹھی آجائے تو قاتل تک پہنچنا آسان ہو جائے گا۔ میری بات سن کر اسنے کہا۔ ٹھیک ہے عامر صاحب میں فوری طور پر کوٹھی پہنچ رہا ہوں۔ آپ میرا انتظار کیجئے ادھر سے مطمئن ہو کر میں نے ریسیور رکھا تو وہ لڑکا کمرے میں داخل ہوا وہ بے حد گھبرایا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں وہ بمشکل بولا
سر، وہ، کوارٹر ۔۔ جلدی چلئے۔ میں فوراً اس لڑکے کے ساتھ ہو لیا، لڑکے کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ اس سے چلا نہیں جارہا تھا۔ میں نے اسے سیڑھیوں پر بیٹھنے کو کہا اور خود تیزی سے کوارٹر کی طرف بھاگا۔ کوارٹر کا دروازہ چوپٹ کھلا ہوا تھا۔ میں تیزی سے اندر گھستا چلا گیا اندر جاکر میں نے جو منظر دیکھا اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ لڑکے کی حالت صحیح خراب ہو گئی تھی ۔ وہ منظر ہی ایسا تھا کہ مضبوط سے مضبوط دل کا انسان بھی کانپ کر رہ جائے ۔ “
انکل عامر اتنا کہہ کر خاموش ہو گئے۔ شاید وہ منظر ان
کی نگاہوں میں گھوم کیا تھا۔
“کیا ہوا انکل۔ کیا وہ دونوں اپنا سامان سمیٹ کر فرار ہو چکے تھے ۔ “ تانیہ نے پوچھا۔
نہیں، تانیہ کمرے میں دونوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ تیز دھار آلے سے ان دونوں کی گردنیں کاٹ دی گئی تھیں۔ فرش پر خون پھیلا تھا۔
” اوہ، مائی گاڈ ۔ ” تانیہ دل تھام کر رہ گئی۔
کیا ہوا تانیہ ؟ خیر تو ہے۔ ” خالہ فرزانہ نے گھبرا کر پوچھا۔
ابھی بتاتی ہوں خالہ ۔ ” تانیہ نے ریسیور پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ پھر وہ ہاتھ ہٹا کر انکل عامر سے مخاطب ہوئی “انکل یہ تو بہت برا ہوا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ قاتل آنًا فانًا قتل کر کے نکل گئے اور آپ کو پتہ بھی نہ چل سکا۔ جبکہ آپ کوٹھی میں موجود تھے۔ کیا وہ لوگ چیخنے چلائے بھی نہیں۔ ان کے کوارٹر سے کوئی آواز نہیں آئی۔ ؟؟؟”
“میں تو ڈرائنگ روم میں بیٹھا لڑکے کا انتظار کر رہا تھا۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ دونوں کب اپنے کوارٹر چلے گئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قاتل پہلے سے کوارٹر میں چھپ کر بیٹھ گئے تھے۔ یہ واردات ایک بندے کے بس کی بات نہیں کم از کم وہ دو تھے۔ عبدل اور رشیدہ جیسے ہی کوارٹر میں داخل ہوئے دونوں کو ریوالور دکھا کر قابو میں کر لیا گیا۔ دونوں کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اور کپڑا منہ میں ٹھنسا ہوا تھا۔ میرا خیال ہے کہ دونوں کے ہاتھ پیچھے باندھ کر اور ان کے منہ میں کپڑا ٹھونسنے کے بعد کسی تیز دھار آلے سے دونوں کے گلے کاٹ دیئے گئے۔ اس طرح وہ حلق سے کوئی آواز نہ نکال سکے اور جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔ “
پولیس کیا کہتی ہے۔ ؟”
“پولیس کے پاس فی الحال کچھ کہنے کو نہیں۔ بہر حال لاشیں پوسٹ مارٹم کے لئے اسپتال بھجوائی جاچکی ہیں۔ اسپکٹر افتخار کو میں نے اپنی تفتیش سے آگاہ کر دیا ہے۔ میرے بیان کی روشنی میں اس نے اپنا شبہ ظاہر کیا کہ راؤ شمشاد کا قتل عبدل نے کیا۔ اور جس کے اشارے پر اس نے قتل کیا اس نے راز فاشہونے سے بچنے کے لئے اپنے بندوں سے عبدل اور اس کی بیوی کا قتل کروا دیا۔ “
” یہ سب بکواس ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پولیس پیسہ کھا گئی ہے اور حقائق مسخ کرنے کے لئے الٹے سیدھے مفروضے بیان کئے جارہے ہیں۔ انکل میں آپ کو بتاؤں، میرے بابا کا قتل، میرے چچا راؤ احمد ر علی نے کیا ہے اور اس نے عبدل اور اس کی بیوی کو مروایا ہے تاکہ وہ پکڑے جانے پر اس کے خلاف گواہی نہ دے سکیں۔ میں جانتی ہوں راؤ احمد علی کس قدر شاطر آدمی ہے۔ اس کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ وہ اس کیس کو ختم کرانے میں پیسہ پانی کی طرح بہادے گا۔ “
کاش، عبدل زندہ رہتا ۔ “
میرا جی چاہتا ہے کہ لاہور آکر راؤ احمد علی کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دوں ۔ انہیں بتاؤں کہ قاتل کون ہے۔ ؟”
ایف آئی آر تو کسی نہ کسی طرح درج ہو جائے گی لیکن پولیس اور عدالت میں کیا ثبوت جائے گا۔ کسی کو قاتل ثابت کرنے کے لئے ٹھوس ثبوت یا چشم دید گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کہاں سے فراہم کریں گے؟؟.”
“یہی تو سارا مسئلہ ہے کہ راؤ احمد علی نے گواہی مٹادی ہے۔ عدالت میں پیش کرنے کو ہمارے پاس اب کوئی گواہ ، کوئی ثبوت موجود نہیں۔ ” تانیہ نے گہرا سانس لے کر کہا۔ ” خیر کوئی بات نہیں اللہ دیکھ رہا ہے۔ اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے وہ جب ظالم کو پکڑتا ہے تو پھر اس کو نیست و نابود کرکے چھوڑتا ہے۔ انشاء اللہ راؤ احمد علی بھی ایک دن اپنے بھیانک انجام کو پہنچے گا اور اسکو انجام تک میں پہنچاؤنگی۔”
تانیہ تم فکر مند نہ ہو، وہ وقت زیادہ دور نہیں جب راؤ احمد علی اپنے انجام کو پہنچے گا۔ اللہ کے واسطے جذبات میں اگر تم لاہور کا رخ نہ کر لینا۔ میری تم سے درخواست ہے کہ جب تک میں نہ بلاؤں اس وقت تک لاہور مت آتا۔ تم میری بات سمجھ رہی ہونا۔ “ عامر نے فکر مند لہجے میں
جی انکل، میں سب سمجھتی ہوں ۔ ” تانیہ نے بڑے گمبھیر انداز میں کہا۔
دیکھو تانیہ تمہیں اپنی زندگی کی ہر قیمت پر حفاظت کرتی ہے۔ تم نہ رہیں تو پھر اس فرعون کے انجام کو دیکھ کر خوش کون ہو گا۔ “
انکل، میں اتنی آسانی سے مرنے والی نہیں۔ اگر مری بھی تو راؤ احمد علی کو ساتھ لے کر مرونگی۔۔ ابھی تو مجھے اپنے بھائی کو بھی تلاش کرنا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ میرے بھائی محسن راؤ زندہ ہیں۔ انشاء اللہ بہت جلد ان تک پہنچ جاؤں گی، اس بات کا مجھے پکا یقین ہے۔ ” ”میری دعا ہے کہ اللہ تمہارے اس یقین کی تعبیر دے ۔
کوئی ایسا معجزہ ہو جائے کہ محسن راؤ آملے ۔ ” انکل عامر نے بڑے خلوص سے کہا۔ ” ویسے راؤ شمشاد بھی کہا کرتے تھے کہ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرا بیٹا زندہ ہے اور ایک دن اچانک میرے سامنے آجائے گا۔ “ میرے بابا کو تو مرتے دم تک یقین تھا ورنہ وہ ساون پور کی جائداد ان کے نام نہ کرتے ”
قتل سے ایک دن پہلے، ریستوران میں بیٹھے وہ بہت دیر تک محسن راؤ کی باتیں کرتے رہے اسی دن انہوں نے مجھے اپنی وصیت کی تفصیلات بتائی تھیں۔ شاید انہیں اپنے اس دنیا سے اٹھنے کا علم ہو گیا تھا۔
“میرا بابا، کس قدر بد نصیب تھا۔ وہ اپنی اولاد کا سکھ نہ دیکھ سکا۔ ایک اولاد کو تقدیر نے اس سے جدا کر دیا اور دوسری اولاد کو اس نے خود تقدیر بن کر اپنے آپ سے الگ کر دیا اور پھر خود وقت کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔ مقتول بن گیا۔ اور میں کونسی خوش نصیب ہوں ۔ در در بھٹک رہی ہوں اپنا باپ ہوتے ہوئے کسی اور کو باپ کہتی رہی۔ اصل باپ ملا بھی تو اس کے ساتھ رہ نہ سکی۔ اس سے جی بھر کے بات نہ کر سکی۔ اسے جی بھر کے دیکھ نہ سکی۔ کیسی کم نصیب ہوں میں۔ کیسی بد نصیب ہوں میں۔ “
یہ کہتے کہتے جانے کیا ہوا کہ سمندر کے جذبات میں جوار بھاٹا سا آگیا۔ ضبط کا بند ٹوٹ گیا۔ وہ بےچاری تو اپنے باپ کی لاش سے لپٹ کر رو بھی نہ سکی۔ باپ کی میت دیکھ کر اس کے ضبط کا بند ٹوٹا بھی تو اس خبیث نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کا غم اچانک غصے میں تبدیل ہو گیا۔ اس کا غم دل میں رہ گیا۔
اب جو باپ کا ذکر ہوا۔ اس کی محرومیوں کا تذکرہ آیا تو وہ اپنے آپ کو روک نہ سکی، بے اختیار اس کے آنسو بہہ نکلے۔ شدت جذبات سے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
خالہ فرزانہ نے اس کے ہاتھ سے ریسیور لے لیا اور بولیں ۔ “عامر، اب پھر بات کر لینا۔ اب وہ اس قابل نہیں رہی کہ مزید بات کر سکے۔ میں اسے سنبھالتی ہوں ۔
” ہاں، فرزانہ اسے سمجھاؤ، اسے سنبھالو، اسے بتاؤ کہ جانے والا جا چکا اب رونے کا کوئی فائدہ نہیں. اب زندگی کو حوصلے سے جینا ہے۔
” اچھا ٹھیک ہے عامر میں تانیہ کو سمجھاتی ہوں۔ آپ صبح فون کر لیں۔ اچھا اللہ حافظ ۔ “
خالہ فرزانہ نے عامر کے جواب کا بھی انتظار نہیں کیا، فوراً فون بند کر دیا۔ تانیہ بیڈ پر اوندھی لیٹی تکئے میں منہ دیئے بے اختیار روئے چلی جارہی تھی۔
خالہ فرزانہ نے اس کا سر تکئے سے اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا۔ اور اس کے بالوں کو سہلانے لگیں۔
خالہ فرزانہ نے زبان سے کچھ نہ کہا۔ وہ بس اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی رہیں۔ اپنے دوپٹے سے اس کے آنسو پوچھتی رہیں اسے بھینچ بھینچ کر پیار کرتی رہیں اور وہ ان سے لپٹ لپٹ کر روتی رہی۔ شاید وہ زندگی میں پہلی بار اتنا روئی تھی۔ خالہ فرزانہ نے اسے رونے دیا تھا۔ انہوں نے تسلی کا ایک لفظ بھی اس سے نہیں کہا تھا کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ اس کی تسلی رونے میں ہے، تسلی آمیز باتوں میں نہیں۔ دل پر جو غبار تھا، وہ آنسووں سے دھل گیا، اس طرح دل کو قرار آگیا۔ وہ روتے روتے خالہ فرزانہ گود میں سر رکھے رکھے سو گئی۔ خالہ فرزانہ اپنی انگلیوں سے اس کی ریشمی زلفوں میں کنگھی کرتی رہیں۔
ایک تو تانیہ تھی ہی بہت حسین لیکن سوتے ہوئے اس کا حسن اور نکھر گیا تھا۔ سوگوار حسن… خالہ فرزانہ اس کے حسین چہرے کو تکے جارہی تھیں۔ ان کا بے اختیار جی چاہ رہا تھا کہ وہ تانیہ کے حسین رخساروں کو چوم لیں۔ لیکن وہ اس کے اٹھ جانے کے خوف سے ایسا نہ کر سکیں۔
کوئی آدھے گھنٹے کے بعد تانیہ کی اچانک آنکھ کھل گئی۔ پہلے تو اس کی سمجھ میں ہی نہ آیا کہ وہ کہاں۔ پھر خالہ کی گود میں اپنا سر دیکھ کر اسے خیال آیا کہ شاید وہ بیمار ہے۔ جب حواس تھوڑے سے اور بیدار ہوئے تو اسے یاد آیا کہ وہ روتے روتے سو گئی تھی۔
اسے ایک دم شرمندگی کا احساس ہوا وہ جانے کتنی دیر تک سوئی ہے۔ بے چاری خالہ اس کی وجہ بیٹھی رہی ہیں ان کے تو گھٹنوں میں ویسے ہی تکلیف رہتی ہے۔ یہ سوچ کر وہ ہڑ بڑا کر اٹھنے لگی تو خالہ فرزانہ نے اسے اٹھنے نہ دیا۔ وہ اس کی پیشانی چومتے ہوئے بولیں۔ “کیا ہوا تانیہ ؟ لیٹی رہو، مجھے اچھا لگ رہا ہے۔ “
وہ اٹھتے اٹھتے دوبارہ ان کی گود میں لیٹ گئی۔ اسے خود خالہ فرزانہ کی گود میں لیٹنا اچھا لگ رہا تھا۔
کوئی ساڑھے گیارہ بجے کے قریب گھر کے باہر گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔ افضل آیا تھا۔ دردانہ نے جا کر گیٹ کھولا افضل نے گاڑی اندر کھڑی کی اور اسے لاک کر کے دردانہ سے پوچھا۔
“خالہ سوگئیں، کیا ؟”
نہیں، جاگ رہی ہیں، تانیہ بی بی بھی انہی کے پاس ہیں۔
اچھا۔ “
پھر وہ اپنے کمرے میں جانے کے بجائے سیدھا خالہ فرزانہ کے کمرے میں چلا گیا۔ ۔ تانیہ کو خالہ فرزانہ کی گود میں لیٹا دیکھ کر وہ ایک لمحے کو دروازے پر رکا اور بولا۔
” خیریت تو ہے؟؟ اندر آسکتا ہوں۔ “
ہاں آجاؤ افضل۔ ” خالہ فرزانہ نے اسے اندر آنے کی اجازت دی۔
تانیہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کے چہرے پر ابھی تک ایک حزن پھیلا ہوا تھا۔
کیا ہوا ؟” اس نے تانیہ کا چہرہ بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
ایک اور بری خبر لاہور سے آئی ہے۔ “
”تانیہ کے والد کے انتقال کے بعد اب اور کیا بری خبر ہو سکتی ہے۔ ؟”
راؤ صاحب کے گھریلو ملازم عبدل اور رشیدہ کو کسی نے گلا کاٹ کر ہلاک کر دیا۔ ” خالہ فرزانہ نے خبر سنائی۔
ارے…… یہ کیسے ہوا ؟ ” پوری بات تو خالہ فرزانہ کو بھی معلوم نہ تھی۔ انہوں نے تفصیل پوچھی ہی نہ تھی اور افضل صبح کا اب گھر آیا تھا اسے بھی کچھ پتہ نہ تھا تانیہ نے دونوں کو ساری بات پوری تفصیل کے ساتھ بتادی۔ پوری تفصیل جان کر افضل کو بھی دکھ ہوا عبدل کی گرفتاری کے بعد قاتل تک پہنچنا کوئی مشکل نہ تھا.۔۔ لیکن قاتل نے گواہ ہی مٹا دیئے تھے۔ اب گواہی کون دیتا۔
وہ تقریباً ایک بجے تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ افضل نے کھانا بھی یہیں بیٹھ کر کھایا تھا۔ اب نیند آرہی تھی وہ اپنے کمرے میں جانے لگا تو تانیہ بھی اٹھ گئی۔

” افضل نے اپنے کمرے کا رخ کیا اور تانیہ نے اپنے۔۔۔۔
تانیہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچی تو اس نے اپنے کمرے کے دروازے کو کھلا پایا تانیہ کی یہ عادت تھی جب بھی اپنے کمرے سے نکلتی تھی تو دروازہ ہمیشہ بند کر کے نکلی تھی۔ دروازہ پورا کھلا دیکھ کر اسے عجیب سا احساس ہوا جیسے کوئی اس کے کمرے میں گیا ہو۔ پھر اس نے سوچا ہو سکتا ہے، وہی دروازہ کھلا چھوڑ گئی ہو۔۔ کمرے کی لائٹ جل رہی تھی۔ جب وہ کمرے کے سامنے پہنچی تو ایک لمحے کے لئے ٹھٹھک گئی۔ دروازے کے بالکل سامنے کرسی پہ اسے اپنے بابا بیٹھے دکھائی دیئے۔ ان کے چہرے پر دلاویز مسکراہٹ تھی۔
بابا، آپ کب آئے؟” تانیہ کے منہ سے بے اختیار نکلا اور وہ تیزی سے ان کی طرف لپکی۔
لیکن وہاں تو کچھ نہیں تھا، کرسی خالی پڑی تھی۔ وہ پریشان ہو گئی یہ کیا تھا یہ محض اس کا وہم تھا فریب
نظر تھا؟؟ لیکن فریب نظر اور وہم تو اس صورت میں ہوتا ہے کہ آدمی پہلے سے سوچتا آیا ہو کہ وہ اوپر پہنچے گا تو وہاں کسی کو پائے گا، ایسی صورت میں خیال مجسم ہو سکتا ہے۔ لیکن تانیہ کے تصور میں، ایسی کوئی بات نہ تھی۔۔
وہ تو دروازہ کھلا ملنے پر تذبذب میں مبتلا ہو گئی تھی۔ لیکن اس نے کمرے کے دروازے سے جو کچھ دیکھا تھا وہ اس قدر حقیقی تھا کہ وہ بے اختیار پوچھ بیٹھی تھی۔ بابا آپ کب آئے؟”
یہ کہتے ہی، تانیہ کے بولتے ہی جیسے فسوں ٹوٹ گیا تھا اور اس کے مسکراتے ہوئے بابا جیسے پانی پر نظر آنے والی تصویر بن گئے تھے۔
وہ تیزی سے بھاگتی ہوئی کرسی کے نزدیک پہنچی اس نے گدی پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیئے۔ گدی گرم ہورہی تھی جیسے اس پر سے ابھی ابھی کوئی اٹھ کر گیا ہو۔ وہ اسی کرسی پر بیٹھ گئی اور کمرے میں اس نے چاروں طرف نظریں گھمائیں کمرے میں سناٹا تھا۔ باہر کہیں جھینگروں کے بولنے کی آواز آرہی تھی۔
اب اس کمرے میں کچھ نہ تھا، اگر کوئی آیا بھی تھا تو جا چکا تھا۔
اس نے کرسی سے اٹھ کر دروازہ بند کیا۔ لائٹ چلی چھوڑ دی۔ اور اپنے بیڈ پر آکر لیٹ گئی اور نظریں چھت پر جمائے سوچنے لگی۔ آج وہ کس قدر روئی تھی۔ اپنے جلے نصیب پر، اپنے بابا کے نصیبوں پر کیا بابا سے میرا رونا برداشت نہیں ہوا تھا، وہ مجھے دیکھنے آگئے تھے ان کے چہرے پر کیسی دلاویز مسکراہٹ تھی کیا واقعی وہ میرے بابا ہی تھے کیا روحیں اس طرح آسکتی ہیں؟ اس طرح نظر آسکتی ہیں ؟
سوچتے سوچتے اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اس کا دماغ ماؤف ہونے لگا اسے لگا جیسے وہ روئی کے گالوں میں دھنستی چلی جارہی ہے اس کی آنکھوں میں نیند اتر آئی تھی چند سیکنڈ کے بعد وہ بے خبر سوچکی تھی
پھر وہ نمودار ہوئے۔ انہوں نے کرسی کا رخ سوئی ہوئی تانیہ کی طرف گھمایا اور آرام سے کرسی پر بیٹھ گئے اور اسے بہت محبت سے دیکھنے لگے۔
وہ ان کی بہت پیاری بیٹی تھی۔ اس بیٹی کی زندگی کی حفاظت کے لئے انہوں نے بڑے کشٹ بھوگے تھے۔ وہ گہری نیند میں تھی اور ایسے پیارے انداز میں سورہی تھی کہ اس پر سے ان کی نظریں نہیں ہٹ رہی تھیں۔ آج وہ انہیں یاد کر کے کسی قدر روئی تھی۔ ابھی تک اس کے چہرے پر اداسی چھائی تھی۔ ان کا جی چاہا کہ وہ اٹھ کر اپنی بیٹی کی پیشانی چوم لیں۔ پھر یہ سوچ کر رک گئے کہ اگر وہ اٹھ گئی تو انہیں دیکھ کر پریشان ہو جائے گی۔ وہ اس کی محبت سے مجبور ہو کر آگئے تھے ورنہ انہیں اس منحوس دنیا سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔
وہ جہاں چلے گئے تھے وہاں سکھ ہی سکھ تھا، وہ ہر غم سے آزاد ہو گئے تھے۔ ابھی انہیں تانیہ کے کمرے میں بیٹھے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ وہ قریب کے درخت سے اڑا۔ پروں کی تیز پھڑ پھڑاہٹ فضا میں ابھری۔ اس الو نے اس گھر کے سات چکر لگائے تانیہ بے خبر سورہی تھی اور اس کے بابا کرسی پر بیٹھے اسے بڑی محبت سے تکے جارہے تھے۔ ساتویں چکر کے بعد وہ الو تانیہ کے کمرے کی چھت پر آبیٹھا۔ ایک دم تانیہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی بھاری پرندہ اس کے سینے پر آبیٹھا ہو۔ وہ بری طرح چونک گئی فوراً اس کی آنکھ کھل گئی اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا ابھی وہ اس خوف سے نہ نکلی تھی کہ ایک پرندہ اس کے سینے پر آکر بیٹھ گیا تھا۔
اس نے کمرے میں عجیب منظر دیکھا اس منظر نے اسے مزید دہلا دیا۔
اس نے دیکھا کہ ایک بڑا سا پرندہ جو یقیناً الو تھا اس کے بابا پر جھپٹ رہا ہے۔ اس کے بابا جو کرسی پر بیٹھے تھے اور ان کا رخ تانیہ ہی کی طرف تھا اس اچانک افتاد سے گھبرا کر وہ ہاتھ پاؤں ہلا رہے تھے اس الو کاحملہ اس قدر تند و تیز تھا کہ وہ اس سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے توازن برقرار نہ رکھ سکے ان کی کرسی پیچھے طرف الٹ گئی۔
تب وہ گھبرا کر چیخی۔ ” نہیں۔ “

اس کی یہ ہزیانی چیخ پورے کمرے میں گونج گئی۔ اس کے “نہیں” کہتے ہی کمرے کا منظر ایک لمحے میں تبدیل ہو گیا وہاں اب کچھ نہ تھا۔۔۔ نہ بابا تھے اور نہ وہ حملہ آور الو تھا۔
اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ اس نے کوئی بھیانک خواب دیکھا تھا یا حقیقت میں یہ سب کچھ ہوا تھا اس نے سائیڈ ٹیبل سے جگ اٹھا کر پانی پیا اس کا حلق بری طرح خشک ہو رہا تھا اور دل کی دھڑکن ابھی تک قابو میں نہ تھی۔۔ وہ اب پوری طرح بیدار ہو چکی تھی۔۔
شاید وہ خواب دیکھ رہی تھی کیونکہ سونے سے پہلے اس نے اپنے بابا راؤ شمشاد علی کو کرسی پر محسوس کیا تھا اور وہ ان کے بارے میں سوچتے سوچتے سو گئی تھی شاید اس لئے وہ اس کے خواب میں آئے تھے۔۔
یہ خواب کیا ہیں تشنہ آرزوؤں کا دفینہ ۔
لیکن آرزوؤں کے اس دفینے سے تو یہ بڑا بھیانک خواب برآمد ہوا تھا۔ وہ سوچنے لگی یہ کس قسم کا خواب تھا اس اُلو کا اس بری طرح اس کے بابا پر حملہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے یہ پرندہ اس کے پیچھے کیوں لگ گیا ہے۔ کیا یہ وہی الو ہے جس کا خون ہوا تھا اور بعد میں وہ زخمی الو افضل کے ہاتھ سے یوں اڑ گیا جیسے وہ زخمی ہی نہ ہو۔ یہ الو کالا چراغ نامی ایک پر اسرار شخص دے گیا تھا۔ پھر دوسرے دن وہ اسے واپس لینے آیا تھا۔ الو تو اڑ چکا تھا، وہ خالی پنجرہ ہی لے کر چلا گیا تھا اس نے کہا تھا۔ ” وہ آزاد ہو گیا ہے اور یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ “وہ کون تھا ؟

اور وہ آزاد کیسے ہو گیا ؟یہ بری بات کیوں تھی۔ ؟
وہ تو اپنی آذادی پر بہت خوش تھا۔ اس کا ممنون ۔ وہ خوش ہو کر اسے ایک ڈائری دے گیا تھا جو اس کی شدید خواہش پر اس کی زندگی کے راز کھول دیتی تھی۔
تب اس کی نظر کرسی پر پڑی تھی جو پیچھے کی جانب الٹی ہوئی تھی ارے یہ کیسے الٹ گئی اگر وہ سب خواب تھا تو اس کرسی کو کون الٹا گیا اس کا مطلب ہے کہ اس نے جو کچھ دیکھا جاگتی آنکھوں سے دیکھا، وہ خواب نہ تھا، حقیقت تھا سچ تھا۔
جب وہ اٹھی تو اس کے بابا کمرے میں موجود تھے وہ کرسی پر بیٹھے تھے شاید وہ اسے دیکھنے آئے ہوں۔ اگر وہ اسے دیکھنے آئے تھے تو اس سے کسی اور کو کیا پریشانی ہو سکتی ہے۔ زندگی میں تو اس کے چچانے چین نہ لینے دیا اب مرکر انہوں نے سکون پایا اور اپنی چاہت سے مجبور ہو کر وہ اسے دیکھنے چلے آئے تو یہ کون درمیان میں آگیا۔ ؟
زندگی کے کاٹے ہوئے لوگ گھبرا کر کہتے کہ مرجائیں گے جب مرکز بھی چین نہ پائیں تو کدھر جائیں۔
کیا اس کے بابا کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ وہ مرکر سکون نہیں پاسکے ہیں۔ اپنی بیٹی کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ اب ان کی راہ میں حائل ہونے والا کون ہے؟
وہ بیڈ سے اٹھی اس نے اٹھ کر کرسی سیدھی کی دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازہ بند تھا دروازے کے اوپر دیوار گیر گھڑی لگی ہوئی تھی اس میں دو بج کر بیس منٹ ہوئے تھے۔
واش روم سے فارغ ہو کر وہ بیڈ پر بیٹھ گئی اب وہ مکمل طور پر جاگ چکی تھی۔ اپنے حواسوں میں تھی۔۔
اس نے سوچا، وہ نہ جانے کتنے زور سے چیخی تھی اس کی آواز جانے کہاں تک گئی ہوگی۔ اس کے کمرے کے بالکل نیچے افضل کا کمرہ تھا اگر افضل تک اس کی چیخ کی آواز گئی ہوتی تو وہ کب کا اوپر آچکا ہوتا۔ اچانک اسے خیال آیا کہ وہ ڈائری نکال کر دیکھے شاید کوئی تحریر نمودار ہو گئی ہو۔ اس نے بیڈ سے اٹھ کر کیسٹوں کے درمیان سے ڈائری کھینچی اور اسے دیکھتی ہوئی اپنے بیڈ پر آگئی!
اطمینان سے بیٹھ کر وہ ایک ایک ورق کرکے، اس کی ورق گردانی کرنے لگی۔ وہ ہر ورق اس امید پر پلٹ رہی تھی کہ شاید اگلے ورق پر اسے کچھ لکھا ہوا نظر آجائے گا۔ ورق الٹتے جب وہ مایوس ہونے لگی اور صفحات بھی چند ہی رہ گئے تو امید کی کرن اچانک چمکی۔ وہ ورق الٹتے الٹتے رہ گئی۔ ایک صفحے پر محض چند سطریں لکھی تھیں۔ وہ پڑھنے لگی، لکھا تھا۔
” دیکھو، اپنے بابا کو سمجھاؤ ۔ اس دنیا سے اب ان کا کوئی واسطہ نہیں رہا ہے تو وہ کیوں پریشان ہو ر ہے ہیں ؟ انہیں اب اس دنیا سے اپنا ربط توڑنا ہو گا اتنی چاہت اچھی نہیں ہوتی۔ اچھا ہم چلتے ہیں ہمیں گیا وقت نہ سںمجھنا، ہم پھر آئیں گے۔”
بس پھر فوراً ہی لفظ دھندلے ہونے لگے ۔ مٹنے کا عمل شروع ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ لفظ صفحہ ہستی سے مٹ گئے اس نے ڈائری بند کر کے تکئے کے نیچے رکھی اور لیٹ گئی۔ یہ کسی قسم کی تنبیہ تھی۔ تنبیہ تھی یا مشورہ تھا یہ اسے کیسی ہدایت کی گئی تھی وہ ایک ایسے آدمی کو کیا سمجھائے جس کا کوئی وجود ہی نہ ہو جن کا وجود عدم میں جا چکا ہو اور اب وہ محض روح رہ گیا ہو۔ اس ڈائری کے یہ الفاظ اس بات کے مظہر تھے کہ اس کے بابا راؤ شمشاد علی اس کی محبت میں بھٹک رہے تھے۔
مرنے کے بعد بھی انہوں نے اس دنیا سے رابطہ نہیں توڑا تھا۔ وہ بار بار اس کے پاس آرہے تھے۔
چاہت اب ان کے حق میں بہتر نہ تھی۔ سوال یہ تھا کہ وہ اپنے بابا کو کیسے سمجھائے؟
وہ بہت دیر تک جاگتی اور سوچتی رہی یہاں تک کہ صبح کے آثار دکھائی دینے لگے۔ اس نے اٹھ کر فجر کی نماز پڑھی اور پھر قرآن شریف پڑھنے بیٹھ گئی۔ اور اس وقت تک پڑھتی رہی جب تک دردانہ ناشتے کے بارے میں دریافت کرنے نہ آگئی۔ ناشتہ اس نے خالہ فرزانہ کے ساتھ ہی کیا ناشتے پر تانیہ نے روحوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا انہوں نے کہا۔
” روحوں کے بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی لیکن کبھی کبھی یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ مرنے کے بعد مرنے والے کی روح گھر کے مکینوں کو دکھائی دی ہے۔ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ جن لوگوں کی دلچسپی دنیا یا دنیا والوں کے ساتھ بہت زیادہ ہوتی ہے ان کی روحیں بھٹکتی رہتی ہیں ۔۔ لوگ جو حادثاتی طور پر مر جاتے ہیں اور ان کی کوئی شدید آرزو، موت کی وجہ سے تشنہ رہ جاتی ہے ان کی روحیں دنیا کا طواف کرتی رہتی ہیں۔”
” خالہ، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے بابا کی روح بھی ابھی یہیں چکر لگا رہی ہے۔ “
یہ احساس تمہیں کیسے ہوا؟ کیا تمہیں وہ خواب میں نظر آئے۔ “
خواب میں نظر آتے تو اچھا ہوتا، میں ان سے بات بھی کر لیتی۔ میں نے انہیں جاگتی آنکھوں سے دیکھا ہے “
” ہائے وہ کب ؟ “
اگر میں آپ کو بتاؤں تو آپ ڈریں گی تو نہیں۔؟؟ “
“نہیں، ایسی باتوں سے میں کبھی نہیں ڈرتی۔”
تب اس نے رات کی روداد خالہ فرزانہ کے گوش گزار کر دی لیکن اس نے اتنا ہی بتایا جتنا خالہ فرزانہ کو بتایا جاسکتا تھا۔ ساری بات سن کر خالہ فرزانہ نے کہا۔
” اس کا مطلب ہے کہ تمہاری محبت انہیں در بدر کئے ہوئے ہے۔”
خالہ کیا کوئی ایسا طریقہ نہیں کہ اس پر عمل کر کے بابا کو اس دنیا میں آنے سے روکا جاسکے ؟۔ “
ایسا میں کوئی وظیفہ نہیں جانتی۔ یہ بات کوئی عالم ہی بتا سکتا ہے ۔ “
کاش! دادا اعظم اس وقت زندہ ہوتے تو ان سے پوچھ لیتے ۔ “
دیکھو ذرا دردانہ کو آواز دے کر پوچھو کہ افضل ہے یا نہیں۔ ویسے وہ ہو گا، مجھ سے ملے بغیر وہ کبھی دفتر نہیں جاتا۔ “
دردانه ! ” تانیہ نے آواز دی۔
” جی بی بی۔ ” وہ دوڑی ہوئی آئی۔
بھائی کیا کر رہے ہیں؟” تانیہ نے پوچھا۔
نہا رہے ہیں جی وہ …. میں ان کا ناشتہ تیار کر رہی ہوں”
”اچھا، وہ نہا کر نکلے تو اس سے کہنا کہ بڑی بی بی بلا رہی ہیں۔ “
خالہ فرزانہ نے حکم دیا۔ دردانہ نے شاید اسے واش روم سے نکلتا دیکھ کر ہی خالہ فرزانہ کا حکم سنادیا اور وہ بھی فرمانبردار بن کر تولیہ سے سر پونچھتا ہوا خالہ کے سامنے آکھڑا ہوا۔
”جی خالہ ۔ “
او ہو، کیا غسل خانے سے سیدھے ادھر ہی چلے آرہے ہو۔ ایسی تو کوئی ایمر جنسی نہیں تھی۔ “
میرے خیال میں، دردانہ نے کچھ کہا ہی اس انداز میں ہوگا۔ ” تانیہ نے کہا۔
ایسا کوئی ارجنٹ کام نہیں ہے تم اطمینان سے بال وال بنا کر کپڑے تبدیل کر کے آؤ میں تمہارا ناشتہ اپنے کمرے میں منگوائے لیتی ہوں ۔
” جی ٹھیک ہے خالہ میں دو منٹ میں آیا۔ “
اس کی آمد کے ساتھ ہی دردانہ بھی ناشتہ لے آئی جب دردانہ ناشتہ رکھ کر چلی گئی تو خالہ فرزانہ نے
بات چھیڑی۔
“افضل، وہ روشن علی کہاں ہیں ؟ “
روشن علی کا نام سن کر افضل کے کان کھڑے ہوئے۔ اس کا چہرہ ایک دم فکر مند ہو گیا۔
” خالہ خیر تو ہے پھر کچھ ہوا کیا ؟ “
نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوا۔ البتہ تانیہ کو ضرورت ہے ان کی۔ “
کس سلسلے میں؟” افضل نے پوچھا۔
”تانیہ، بھائی کو پوری بات سمجھاؤ ۔ “
تب تانیہ نے اپنے بابا سے متعلق ضروری معلومات فراہم کر دیں۔ افضل ساری تفصیل سن کر سوچ میں پڑ گیا یہ بات اس کے گلے سے نہیں اتر رہی تھی کہ تانیہ نے اپنے باپ کی روح کو دیکھا تھا وہ اس بات کو اس کا وہم سمجھ رہا تھا لیکن تانیہ نے سارا واقعہ کچھ اس یقین سے سنایا تھا کہ وہ کسی طرح کی تردید نہ کر سکا تھا
اس نے بس اتنا ہی کہا۔ ”روشن علی تو اسلام آباد چلے گئے ہیں ؟ “
ارے تو کیا اتنے بڑے شہر میں ایک روشن علی ہی رہ گئے ہیں کسی اور عالم کے بارے میں پتہ کرو۔ “
خالہ فرزانہ نے اسے ڈانٹنے والے انداز میں کہا۔
ابھی افضل نے جواب دینے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ اچانک ٹیلیفون کی گھنٹی بجی تانیہ ٹیلیفون کے زیادہ نزدیک تھی اس نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھا لیا۔
“ہیلو۔ “
تانیہ، میں عامر بول رہا ہوں ۔ ” عامر نے اس کی آواز پہچان کر کہا۔
“انکل عامر آپ کیسے ہیں۔ ؟ “
میں، ٹھیک ہوں … رات کو میں نے خواب میں کئی مرتبہ تمہارے بابا کو دیکھا۔ “
کیا کہہ رہے تھے۔ ” تانیہ نے پوچھا۔
کہا تو انہوں نے کچھ نہیں. جب نظر آئے بے چین اور بے قرار سے نظر آئے۔
” آپ نے انہیں ، بالکل صحیح دیکھا، وہ واقعی بہت بے قرار ہیں۔ “
کیا مطلب؟ کیا تم نے بھی انہیں خواب میں دیکھا ۔ “
نہیں انکل .. وہ یہاں آئے تھے میں نے انہیں جاگتی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
” جاگتی آنکھوں سے ….. وہ کس طرح ؟ ” عامر کی سمجھ میں نہ آیا۔
تب تانیہ نے اپنے بابا کو جس طرح دیکھا تھا اس کی روداد سنادی۔۔
ان پر الو کا حملہ اور ڈائری والی تحریر ذکر وہ گول کر گئی۔ یہ بات اس نے کسی کو نہیں بتائی تھی۔
“اس کا مطلب ہے کہ وہ تمہارے لئے اب تک فکر مند ہیں۔ “
کاش، میں ان کو کسی طرح سمجھا سکتی۔ “
تانیہ نے بڑی دردمندی سے کہا۔
” آپ ان کی قبر جاکر ان سے مخاطب تو ہوں، انہیں جا کر تسلی دیں انہیں بتائیں کہ میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ “
تمہارا خیال ہے کہ اس سے کچھ فرق پڑے گا؟”
میں نہیں جانتی لیکن آپ ایسا کر کے تو دیکھیں۔ ؟”

وہ واقعی اس سلسلے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ ٹیلیفون پر بات کرتے کرتے اچانک ہی یہ خیال اس کے دل میں آگیا تھا اور اس نے فوراً ہی انکل عامر کے گوش گزار کر دیا تھا۔
اچھا، تانیہ میں عصر کے بعد قبرستان جاؤں گا۔ “
جی ٹھیک ہے۔ “
تانیہ تم ذرا اپنا خیال رکھنا گھر سے اکیلی مت نکلنا۔ ” کیوں، خیریت؟ کوئی نیا مسئلہ ۔ “

“تمہارے بارے میں ایک فون آیا تھا۔ فون صائمہ نے اٹھایا تو اس نے تمہارے بارے میں سوال کیا کہ تم کہاں ہو۔ صائمہ نے جواب دینے کے بجائے پلٹ کر اس سے سوال کیا کہ وہ کون بول رہا ہے تو اس نے جواب دیا کہ میں ان کے وکیل کا اسسٹنٹ بول رہا ہوں کچھ کاغذات پر ان کے دستخط کرانے ہیں۔ نے جواب دیا کہ اس وقت تو تانیہ گھر پر نہیں ہیں وہ گلبرگ گئی ہوئی ہیں۔ ماموں آئیں گے تو میں ان کو بتادوں گی۔ صائمہ نے مجھے بتایا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ ایسے کون سے کاغذات ہیں جن پر اتنے ایمرجنسی میں دستخط ہونے ہیں۔ میں نے وکیل کو فون کیا اس نے کہا کہ اس کی طرف سے کوئی فون نہیں کیا گیا۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ کسی نے محض تمہارے بارے میں سراغ لگانے کے لئے فون کیا۔ “
کوئی بات نہیں انکل عامر …. آپ فکر مند نہ ہوں کسی کا مجھ تک پہنچنا اتنا آسان نہیں۔ “
پھر بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔ ” عامر نے کہا۔
ٹھیک ہے انکل عامر میں محتاط رہوں گی۔ “

کہنے کو تو اس نے کہہ دیا تھا کہ وہ محتاط رہے گی لیکن اس لفظ سے اسے چڑ ہو گئی تھی جب سے وہ پیدا ہوئی تھی اس وقت سے یہ لفظ کسی جونک کی طرح اس کی زندگی سے لپٹا ہوا تھا اب وہ اس لفظ کو کسی سے سنتی تو اس پر شدید رد عمل ہو جاتا۔۔ اس کا جی چاہتا کہ ساری احتیاط بالائے طاق رکھ کر میدان میں آجائے۔ اس کی زندگی عجیب و غریب نہج پر گزر رہی تھی۔ جو وہ کرنا چاہتی تھی وہ نہیں کر پارہی تھی اور جو نہیں
کرنا چاہتی تھی۔ وہ کرنے پر مجبور تھی۔ وہ قید میں نہیں تھی لیکن نامعلوم دیواریں ہر وقت اس کے گرد کھڑی محسوس ہوتی تھیں۔ اسے کس قدر چھوئی موئی بنا دیا گیا تھا۔
پورے دن وہ اسی سوچ میں رہی تھی۔ رات کو بھی وہ الجھی الجھی رہی۔ سوتے سوتے اچانک اس کی آنکھ کھل جاتی۔ اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کے بابا آس پاس ہی ہیں وہ اسے نظر تو نہیں آتے تھے لیکن ان کے ہونے کا احساس بدستور قائم رہتا تھا۔
اسی طرح سوتے جاگتے وہ چار بجے کے قریب گہری نیند میں چلی گئی۔ تب اس نے دادا اعظم کو خواب میں دیکھا ان کا پرنور، پر شفیق اور پر سکون چہرہ دیکھ کر اس کے دل کو ایک دم قرار سا آگیا۔ دادا اعظم کسی گھنے درخت کے نیچے بیٹھے تھے تانیہ پانی کی تلاش میں کئی گھنٹے سے صحرا میں بھٹک رہی تھی پیاس کی شدت سے اس کے حلق میں کانٹے پڑ رہے تھے بھٹکتے بھٹکتے اچانک دادا اعظم سامنے آگئے۔ دادا اعظم نے اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا پاس رکھی صراحی سے مٹی کے پیالے میں پانی انڈیل کر اسے دیا۔۔ وہ بڑا لطیف اور میٹھا پانی تھا۔ پانی پی کر اس کی روح تک سیراب ہو گئی۔ وہ خاموشی سے بہت مودب ہو کر ان کے سامنے بیٹھ گئی۔ تب دادا اعظم نے بڑے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔
“گھبراؤ مت۔ بہت حوصلے سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ آئندہ آنے والا وقت بہت سخت ہو گا۔ “
اتنا کہ کر دادا اعظم نے اسے کچھ پڑھنے کو بتایا پھر بولے۔ ”اسے پڑھتے ہی تمہارا بابا، تمہاری محبت کی گرفت سے آزاد ہو جائے گا اسے قرار آجائے گا”
پھر فوراً ہی اس کی آنکھ کھل گئی دادا اعظم کو خواب میں دیکھ کر جو ایک خوشگوار تاثر قائم ہوا تھا وہ اب تک قائم تھا اور انہوں نے جو پڑھنے کو بتایا تھا وہ بھی اس کے ذہن میں تازہ تھا وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی۔
وضو کر کے اس نے گھڑی دیکھی ابھی فجر کی اذان ہونے میں وقت تھا اس نے سوچا کہ تب تک قرآن شریف پڑھ لے۔
دادا اعظم نے جو پڑھنے کے لئے بتایا تھا اسے عشاء کی نماز کے بعد تین دن تک پڑھنا تھا۔ تین دن کے عمل کے بعد تانیہ نے دادا اعظم کے بتائے ہوئے طریقے پر ایک گلاس پانی پر سات مرتبہ پھونکیں ماریں اور اس پانی کو گلاب کے پودے کے گملے میں ڈال دیا اب اس کو کسی سے بات

نہیں کرنا سیدھے اپنے بیڈ پر لیٹ کر سو جانا تھا۔ تیسرے دن کا عمل اس نے دیر سے شروع کیا تھا تا کہ سونے کا وقت ہو جائے اور وہ کسی سے بات کئیے بنا سو جائے اگرچہ وہ دیر سے سونے کی عادی تھی اور نیند بھی اسے کروٹیں بدل بدل کر آتی تھی لیکن ایسا نہ ہوا، بستر پر لیٹنے کے بعد کوئی دس منٹ کے اندر اسے نیند نے اپنے آغوش میں لے لیا۔ اس رات اس نے اپنے بابا کو خواب میں دیکھا وہ ایک بہت اونچی سی کرسی پر براجمان تھے ان سامنے دس بارہ آدمی نیم دائرے کی شکل میں بیٹھے تھے اچانک انہیں سامنے سے تانیہ آتی ہوئی نظر آتی ہے تو وہ ان لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔
“آپ لوگ اب جائیں، میں ذرا اپنی بیٹی سے بات کرلوں ۔ “
وہ لوگ فوراً ہی ادھر ادھر ہو کر غائب ہو جاتے ہیں۔ راؤ شمشاد علی اپنی کرسی سے نیچے اتر آتے ہیں
اور آگے بڑھ کر تانیہ کو گلے سے لگا لیتے ہیں۔ تانیہ ان کے گلے سے لگ کر خلاف توقع رو پڑتی ہے اپنے ہاتھوں سے اس کے آنسو صاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔” بیٹی رومت روؤگی تو مقابلہ کیسے کروگی ؟؟
میں دیکھ رہا ہوں کہ تم شیطانوں میں گھری ہو، غیر انسانی مخلوق کی گرفت میں ہو۔ ڈرو مت اللہ پر یقین رکھنا جو کچھ ہے بس اللہ ہے اس کے سوا کچھ نہیں تم دیکھو گی کہ یہ سب چیزیں پانی کا بلبلہ ثابت ہوں گی۔ “
تانیہ روتے روتے بے اختیار مسکرا پڑی اور کہخو ی ی” انشاء اللہ، ایسا ہی ہو گا بابا۔ “
پھر وہ اپنے بازو پھیلا کر بولی۔ ”بابا، مجھے ایک مرتبہ اور اپنے گلے سے لگا لیں میں آپ کی محبت کو بہت ترسی ہوں۔ “
ہاں کیوں نہیں، میری بیٹی آؤ ۔ “
راؤ شمشاد علی نے تانیہ کو اپنے سینے سے لگالیا۔ ادھر تانیہ خواب دیکھ رہی تھی، ادھر وہ قریب کے درخت سے اڑا۔ اس نے بہت تیزی سے اس گرد کے سات چکر لگائے اور پھر تانیہ کے کمرے کی چھت پر اتر گیا۔ تانیہ کو یوں محسوس ہوا جیسے کوئی بھاری پرندہ اس کے سینے پر آبیٹھا ہو۔ وہ ہر بڑا کر اٹھ بیٹھی کمرے میں اندھیرا تھا ذہن ماؤف تھا کچھ دیر کے بعد جب اس کے حواس بحال ہوئے تو وہ بیڈ سے اٹھی کمرے کی لائٹ جلائی جگ سے پانی نکال کر پیا تب اسے یاد آیا کہ وہ عمل کر کے سوئی تھی اور خواب میں اس نے اپنے باپ کو دیکھا تھا پھر وہ پورا خواب اسے یاد آگیا۔
یہ ایک عجیب خواب تھا۔
اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ اس قدر تشنہ ہے ، اپنے باپ کی محبت کو اس قدر ترسی ہوئی اپنے باپ کے گلے لگ کر جو ایک آسودگی کا احساس ہوا تھا وہ احساس ابھی تک برقرار تھا یہ خواب اس قدر جلد کیوں ٹوٹ گیا۔ ،
وہ منحوس پرندہ کہاں سے آکر اس کے سینے پر بیٹھ گیا تھا۔
ابھی چند روز پہلے بھی تو ایسا ہی ہوا تھا اس کے بابا جب اس سے ملنے آئے تھے اور وہ کرسی پر بیٹھے سوتی ہوئی تانیہ کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے تو وہ منحوس پرندہ کہیں سے اچانک نمودار ہو گیا تھا۔ وہ اس کے سینے پر آبیٹھا تھا اور جب اس کی آنکھ کھلی تھی تو اس نے اس منحوس پرندے کو اپنے باپ پر جھپٹتے ہوئے دیکھا تھا اور پھر وہ منظر بھاپ کی طرح غائب ہو گیا۔
یہ کون ہے جو باپ بیٹی کی محبت کے درمیان آنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس سوال کا جواب تانیہ کے پاس نہ تھا۔ کمرے میں کچھ حبس کا احساس ہوا تو اس نے کھڑکی کی طرف دیکھا کھڑکی بند تھی اس نے اٹھ کر کھڑکی کھول دی تازہ ہوا کا جھونکا آیا وہ کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو کر لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ اس وقت رات کے ڈیڑھ بجے تھے ۔ سامنے دور تک رات اپنے بال کھولے سورہی تھی۔ رات کا اپنا ایک سحر ہوتا ہے۔ اس کا اپنا ایک فسوں ہوتا ہے تبھی اسے پراسرار کمرے میں “لنگڑے راجہ ” سے ملاقات یاد آئی اس کی بات یاد آئی۔
” جب تم لوگ سو جاتے ہو تو ہم باہر آجاتے ہیں ہر سو ہمارا راج ہوتا ہے۔ “
اس کی بات یاد کر کے ایک دم اسے خوف کا سا احساس ہوا وہ کھڑکی بند کر کے وہاں سے ہٹ آئی اس نے سوچا کمرے کی لائٹ بند کر دے لیکن لائٹ بند کرنے کی ہمت نہ ہوئی وہ ایسے ہی بیڈ پر لیٹ گئی اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔
پھر اچانک ہی اس کی آنکھ کھلی۔ کمرے میں کچھ عجیب سا شور ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کی آنکھ کھلی تھی۔ آنکھ کھلنے پر اس کے سامنے جو منظر تھا اسے دیکھ کر وہ بے اختیار چیخی۔ ”ایسا، مت کرو۔ “

وہ گول گول آنکھوں والا شاید تخریب کاری پر اترا ہوا تھا۔ تانیہ کی آنکھ جس شور پر کھلی وہ پروں کی پھڑپھڑاہٹ تھی۔ پہلے تو تانیہ کی سمجھ میں ہی نہ آیا کہ کس قسم کا شور ہے۔ کمرے کی لائٹ روشن تھی اور اس کے سامنے کچھ نہ تھا۔ پھر اس نے اپنے دائیں جانب کسی چیز کو اچھلتے ہوئے دیکھا۔ جب اس نے تکیے
سے سر اٹھا کر نیچے قالین پر دیکھا تو اس کی سمجھ میں آیا کہ وہ شور پروں کی پھڑ پھڑاہٹ کا ہے۔ وہ گول گول آنکھوں والا پرندہ کیسٹوں کے ریک کے سامنے قالین پر کسی چیز پر اچھل اچھل کر حملہ کر رہا تھا۔۔اور وہ جس چیز پرحملہ کر رہا تھا وہ تھی ڈائری۔
یہ وہ ڈائری تھی جو اسے ” لنگڑے راجہ ” نے تحفے میں دی تھی اور جو اس کی زندگی کے واقعات کو کسی آئینے کی طرح اس کے سامنے پیش کر دیتی تھی۔ وہ ڈائری اس کے لئے بے حد اہم تھی، بے حد قیمتی تھی اور وہ گول گول آنکھوں والا اس ڈائری کے صفحات کو اپنے تیز پنجوں سے نشانہ بنا رہا تھا۔ وہ ڈائری درمیان سے کھلی قالین پر پڑی تھی۔
ایسی قیمتی شے کی پامالی دیکھ کر وہ دہل اٹھی تھی۔ تب ہی اس نے چیخ کر کہا۔
”ایسا مت کرو”
اس کی آواز سن کر گول گول آنکھوں والے نے بڑی غصیلی نظروں سے اسے دیکھا تھا اور پھر وہ دیکھتے ہی دیکھتے فضا میں تحلیل ہو گیا تھا۔ دھواں بن کر غائب ہو گیا تھا۔ تانیہ لپک کر ڈائری کے پاس پہنچی. ڈائری اٹھا کر اس کا جائزہ لیا۔ محض دو تین صفحات کو نقصان پہنچا تھا۔ اس نے اپنے پنجوں سے صفحات پھاڑنے کی کوشش کی تھی اس نے اس طرح پنجے مارے تھے کہ صفحات پھٹ کر الگ ہو جائیں لیکن ایسا ہو نہیں سکا تھا۔ کوئی صفحہ مکمل نہیں پھٹا تھا۔ اگر اس کی آنکھ نہ کھلتی تو شاید اس ڈائری کو نقصان پہنچ جاتا۔
اس نے ڈائری اٹھا کر پھر کیسٹوں کی قطار میں رکھنا چاہی لیکن کچھ سوچ کر اس نے ارادہ بدل دیا او اسے الماری کے لاکر میں رکھ کر تالا بند کر دیا۔ اسے خیال آیا کہ یہ کام اس نے پہلے کیوں نہ کیا ؟اگر ڈائری الماری کے لاکر میں ہوتی تو اس گول گول آنکھوں والے کے پنجوں کی دستبرد سے محفوظ رہتی۔ لیکن اسے اندازہ کب تھا کہ ڈائری کے ساتھ اس طرح کی تخریب کاری بھی ہو سکتی ہے۔
ڈائری کو محفوظ کر کے وہ بیڈ پر لیٹ گئی اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔ جلد ہی اسے نیند آگئی ۔
صبح دیر سے اس کی آنکھ کھلی اور وہ بھی اس وقت جب دردانہ نے آکر دروازہ بجایا۔ گھڑی پر نظر ڈالتی ہوئی وہ دروازے کی طرف بھاگی۔ دروازہ کھولا تو دردانہ کا پریشان چہرہ نظر آیا۔
خیر تو ہے بی بی۔ آج کیا اٹھنے کا ارادہ ہی نہیں تھا چار پھیرے مار چکی ہوں ۔ اب دروازہ کھلے تب دروازہ کھلے۔ تنگ آکر بڑی بی بی نے دروازہ کھٹکھٹانے کا حکم دے ہی دیا۔ چلئے وہ آپ کا انتظار کر رہی ہیں ۔
خالہ نے ناشتہ تو کر لیا نا؟” تانیہ نے فکر مند ہو کر پوچھا۔
ہاں، ناشتہ تو کر لیا۔ ” دردانہ نے بتایا۔ لیکن آپ کا کافی انتظار کر کے کیا “
” چلو، شکر ہے۔ ” تانیہ نے کہا۔ “اچھا، دردانہ تم چلو میں نہا کر آتی ہوں ۔ “
دروانہ کے جانے کے بعد وہ واش روم میں گھس گئی۔ وہاں سے تروتازہ ہو کر نکلی۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر وہ اپنے بال خشک کرنے لگی۔ اس کے بال گہرے سیاہ، انتہائی چمکیلے اور ریشمین تھے لمبے اتنے کہ گھٹنوں سے نیچے آتے تھے۔ بالوں میں برش پھیرتے ہوئے اس کی نظر اپنے چہرے پر ٹھہر گئی۔
کافی دنوں کے بعد اس نے اپنے چہرے پر نظر کی تھی جب سے پر اسرار واقعات کا سلسلہ شروع ہوا تھااسے اپنا ہوش ہی نہ رہا تھا۔ آج اسے کچھ سکون محسوس ہوا تھا اس کی نظر اپنے وجود پر جم گئی تھی۔ وہ اتنی ہی حسین تھی کہ کوئی اسے ایک نظر دیکھتا تو بار بار دیکھنے کی خواہش کرتا۔ سفید گلابی رنگت، سروقد، پرکشش آنکھیں، گھنی اور لمبی پلکیں، ترشے ہوئے خوبصورت ہونٹ، کتابی چہرہ، لمبی حسین گردن، متناسب جسم، نرم و نازک ہاتھ، کومل پاؤں، چال ایسی کہ وقت اپنی رفتار بھول جائے۔ آواز ایسی کہ جو دیکھے سحرزدہ رہ جائے۔ اس وقت وہ خود کو اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ وہ اپنے آپ میں کھوسی گئی۔ برش ہاتھ سے چھٹا تو ہوش آیا جلدی جلدی اس نے اپنے بالوں میں برش پھیرا اور نیچے اتر گئی۔ ناشتے کے بعد وہ خالہ فرزانہ سے محو گفتگو رہی اس نے انہیں اپنا خواب سنایا۔ یہ بتایا کہ اس نے اپنے بابا کو کسی طرح خواب میں دیکھا۔ کس طرح انہوں نے گلے لگایا اور کیا کہا۔ ساری بات سن کر خالہ فرزانہ بولیں۔
” یہ بات تمہارے بابا نے عجیب کہی کہ تم غیر انسانی مخلوق کی گرفت میں ہو۔ ؟ “
خالہ، یہ غیر انسانی مخلوق کیا ہوتی ہے۔ ؟” تانیہ نے پوچھا۔
جو انسان نہ ہو۔ “
یعنی جن ہو۔ “
جن بھی ہو سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں اس دنیا میں انسانوں اور جنوں کے علاوہ ایک تیسری مخلوق
بھی ہوتی ہے۔ ” خالہ فرزانہ نے اظہار خیال کیا۔
وہ کونسی؟”
” شیطانی مخلوق ۔ “
شیطانی مخلوق ؟ ” تانیہ نے وضاحت طلب انداز میں دہرایا۔
خبیث روحیں، چڑیلیں، پچھلی پائیاں، سرکٹے، چھلاوے، بھوت اور نہ جانے کیا کیا۔۔ یہ سب شیطانی مخلوق ہیں۔“ خالہ فرزانہ نے سمجھایا۔
اور جانور ؟ ” تانیہ نے پوچھا۔
” کیا جانور بھی پر اسرار ہو سکتے ہیں۔ ؟ “
کچھ جانور بھی بڑے پر اسرار ہوتے ہیں مثلا بلی، کتا، الو اور چمگادر وغیرہ ۔ ” خالہ فرزانہ نے بتایا۔
کتے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان چیزوں کو بھی دیکھ لیتا ہے جنہیں انسان نہیں دیکھ پاتا۔ “
خالہ کیا انسانوں میں غیر انسان نہیں پائے جاتے؟”
یہ عجیب سوال تھا۔
” ہاں، کیوں نہیں, تم اپنے چچا راؤ احمد علی کو ہی لے لو، وہ کدھر سے انسان لگتا ہے، وہ پکا شیطان کا چیلا ہے” ۔
آپ نے بہت صحیح بات کی۔ یہ کہہ کر آپ نے میرا دل خوش کر دیا ۔ ” تانیہ نے نے مسکرا کرکہا۔
” خدا کا شکر ہے کہ میری کسی بات پر تمہارے لبوں پر مسکراہٹ تو آئی۔ ” خالہ فرزانہ خوش ہو کربولیں۔
“خالہ، میں اب کیا کروں ؟ ” تانیہ نے پوچھا۔
” تم نے کیا کرنا ہے؟”
یہ غیر انسانی مخلوق جو میرے گرد گھیرا ڈال رہی ہے، ان سے کس طرح نمٹوں ۔ “
دادا اعظم سے مدد لو۔ ” خالہ فرزانہ نے مشورہ دیا۔

دادا اعظم سے مدد لوں ؟ ” تانیہ نے حیران ہو کر دہرایا۔ ” شاید آپ بھول گئیں کہ دادا اعظم کا انتقال ہو چکا ہے ” ۔
تمہارے خواب میں کون آیا تھا ۔ ؟ ” خالہ فرزانہ نے جواب دینے کے بجائے سوال کیا۔
داد اعظم ” ۔ تانیہ نے بتایا۔
وہ دوبارہ پھر آئیں گے۔ اور وہی تمہیں راستہ دکھائیں گے۔ اس بات پر جانے مجھے کیوں یقین ہے!۔۔ “خالہ فرزانہ نے کہا۔
اگر ایسا ہے تو میں انتظار کروں گی بلکہ میں خواہش کروں گی کہ وہ جلد میرے خواب میں آئیں ۔۔انہیں خواب میں دیکھ کر جانے کیوں قرار سا آجاتا ہے۔ ” تانیہ نے بڑے مطمئن لہجے میں کہا۔”
پھر وہ خالہ فرزانہ سے ادھر ادھر کی باتیں کر کے اوپر اپنے کمرے میں چلی آئی۔
کمرے میں کیسٹوں کی قطار پر نظر جو پڑی تو دل دھک سے رہ گیا۔ کیسٹوں کے درمیان ڈائری موجود نہ تھی کیسٹ کا کور خالی تھا۔
پھر اسے اپنی بے وقوفی پر ہنسی آئی۔ ڈائری تو وہ الماری کے لاکر میں رکھ گئی تھی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ ڈائری نکال کر اس کی ورق گردانی کرے۔ ڈائری کیسٹوں کے ریک میں وہ جب چاہتی، آتے جاتے نکال کر دیکھ لیتی تھی۔ اب اسے ڈائری دیکھنے کے لئے الماری تک جاتا ہو گا لاکر کھول کر اسے دیکھنا ہو گا۔ چلو کوئی بات نہیں وہ ایسا کرلے گی۔ کم از کم وہاں محفوظ تو تھی۔
الماری کا لاکر کھول کر اس نے ڈائری نکالی۔
ایک لمحے کو جانے کیوں اس کے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ ڈائری لاکر سے غائب ہو چکی ہوگی۔ ڈائری موجود تھی اسے دیکھ کر خوشی ہوئی۔ وہ الماری بند کر کے بیڈ کی طرف بڑھی۔ اس نے تیزی سے ڈائری کے صفحات کو پلٹا ایک صفحے پر اسے کچھ سیاہی نظر آئی۔
اس نے جلدی جلدی ایک ایک ورق پلٹ کر بالآخر وہ صفحہ نکال لیا۔
اس صفحے پر اس پر اسرار کمرے کی تصویر بنی ہوئی تھی جس کے ہینڈل میں کالا تعویذ لٹکا ہوا تھا دیکھتے ہی دیکھتے وہ تصویر مدھم ہونے لگی اور مٹتی تصویر پر کوئی اور تصویر ابھر نے لگی۔ چند سیکنڈوں میں پراسرار تصویر غائب ہو گئی اور اس جھونپڑی کی تصویر سامنے آگئی جس کی چھت پر گول گول آنکھوں والا الو اور دروازے پر ایک سانپ کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔
جھونپڑی کی تصویر واضح ہوتے ہی ایک مردانی آواز اس کے ذہن میں گونجی۔ کوئی درد بھری آواز میں اسے مدد کیلئے پکار رہا تھا۔
“رومت …… آؤ جھونپڑی کے اندر آجاؤ۔ “
یہ وہی آواز تھی جو خواب میں ایسے متعدد بار سنائی دی تھی لیکن اس وقت یہ آواز سنائی نہیں دی صرف
اس نے اپنے ذہن میں محسوس کی تھی۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہ تصویر دھندلی ہونے لگی اور اس سے ایک اور تصویر ابھرنے لگی۔ وہ تصویر ابھر کر مکمل ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ پراسرار کمرے کی ہے۔ ایسا تین بار ہوا پراسرار کمرے کے بعد جھونپڑی کی تصویر ابھرتی، ڈوبتی رہی، تیسری بار ایسی ڈوبی کہ پھرںصفحے پر کچھ نہ رہا۔ وہ کورا رہ گیا۔ اب وہ سوچنے لگی کہ ان دونوں تصویروں کا ایک ساتھ دکھائی دینے کا کیا مطلب ہے۔ یہ عجیب اشارہ تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا اگر ان تصویروں کے نیچے کوئی تحریر بھی آجاتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ ڈائری اس کے ہاتھ میں تھی اور یونہی بےدھیانی میں اس کے ورق پلٹتی جارہی تھی کہ اچانک اس کے
سامنے ایک ایسا صفحہ آگیا، جس پر کچھ لکھا تھا۔ وہ خوشی سے جھوم اٹھی۔ یہ چند جملے تھے ان جملوں میں تانیہ کو ہدایت کی گئی تھی چند لمحے پہلے اس کے ذہن میں جو الجھن پیدا ہوئی تھی وہ اس تحریر سے رفع ہو گئی تھی۔ اب اسے سفر کرنا تھا اس سفر کیلئے اس نے ایک بیگ تیار کر لیا جس میں انتہائی ضرورت کی چیزیں رکھی تھیں۔ اشیاء رکھے جانے کے باوجود، یہ بیگ اتنا ہلکا تھا کہ وہ اسے کندھے پر لٹکا کر باآسانی میلوں چل سکتی تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اسے کسی قسم کا سفر در پیش ہو گا، اپنے طور پر اس نے سوچ لیا تھا کہ اگر اسے پیدل بھی چلنا پڑے تو اس کا بیگ اس کیلئے رکاوٹ نہ بنے۔
اپنے مشن پر جانے سے پہلے اس نے آج کی شام کھلی فضا میں گزارنے کا پروگرام بنایا ۔۔ پہلے اس نے خالہ فرزانہ کو راضی کیا۔ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے کہاں باہر نکلتی تھیں۔ خالہ فرزانہ اس کا اصرار دیکھ کر جانے کیلئے راضی ہو گئیں۔ پھر اس نے افضل کو بھی فون کر دیا کہ وہ آج جلدی گھر پر آجائے۔ افضل نے جلد آنے کا وعدہ کر لیا اور تجویز پیش کی کہ اتنے عرصے بعد گھر سے باہر نکل رہے ہیں تو پھر وہیں بیٹھ کر رات کا کھانا کیوں نہ کھائیں۔ تجویز اچھی تھی اس طرح وہ خالہ فرزانہ اور افضل کے ساتھ دیر تک رہ سکتی تھی۔ اس نے اس تجویز کو فوراً منظور کر لیا اور دردانہ سے رات کا کھانا تیار کرنے کا آرڈر دے دیا۔
ارے بی بی، میں آپ کیلئے تین کی جگہ دس ڈشیں تیار کروں گی پر جانا کہاں ہے؟”
گھومنے اور کہاں؟” تانیہ نے مسکرا کر کہا۔
” پہلے ہم سمندر پر جائیں گے وہاں شام گزاریں گے اس کے بعد ہل پارک جائیں گے رات کا کھانا وہاں کھائیں کے پھر راستے میں آئس کریم کھاتے ہوئے گیارہ بجے تک واپس گھر ۔ “
واہ بی بی مزہ آگیا ۔ ” دردانہ خوش ہو کر بولی ۔ ایسا زبردست پروگرام ۔
“بس، دیکھ لو ۔ تانیہ خوش دلی سے بولی۔
”ٹھیک ہے بی بی، میں ابھی سے شام کی تیاریاں شروع کر دیتی ہوں ۔ “
ہاں ہاں، جاؤ بھا گو جلدی کرو۔ “
تانیہ، دردانہ سے بات کر رہی تھی تو خالہ فرزانہ اس کا چہرہ بڑے غور سے دیکھ رہی تھیں۔ تانیہ کااچانک اس طرح گھومنے کا پروگرام بنالینا ان کے گلے سے نہیں اتر رہا تھا۔ دردانہ کے جانے کے بعد نے خالہ فرزانہ کی طرف دیکھا تو انہیں بڑی محویت سے اپنی طرف دیکھتے ہوئے پایا۔
خالہ کیا ہوا؟” تانیہ نے حیران ہو کر پوچھا۔ ؟؟_
یہی تو میری سمجھ میں نہیں آرہا ؟ ” خالہ فرزانہ بدستور اس کی طرف دیکھ رہی تھیں پھر اس کا نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بڑی اپنائیت سے بولیں۔ ”تجھے کیا ہوا ہے، میری جان ۔؟؟ بتا؟ “
لو میں خود آپ سے پوچھ رہی ہوں کہ آپ کو کیا ہوا ہے مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہی ہیں، ہیں کہ الٹا مجھ سے سوال کر رہی ہیں مجھے تو کچھ نہیں ہوا خالہ، بس آؤٹنگ کا پروگرام بنایا ہے۔
مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے تانیہ کہ اس آؤٹنگ کے پیچھے کوئی بات ہے کوئی راز ہے ۔ ” خالہ بہت محبت سے بولیں۔ کیا تو مجھے نہیں بتائے گی۔”
خالہ فرزانہ کی بات سن کر اس کے دل پر دھواں سا چھا گیا۔ وہ انہیں کیسے بتائے کہ آج کی رات وہ ان سے جدا ہو جائے گی۔ جانے اس سفر کا کیا انجام ہو۔ زندگی کی جانے کہاں شام ہو جائے ۔ وہ پھر دیکھ سکے یا نہیں۔
خالہ، کسی کی موت زندگی کا تو کوئی بھروسہ نہیں ہے نا۔ ” تانیہ نے خالہ فرزانہ کو الجھانے کے لئیے ایسے ہی جملہ کہہ دیا۔
اچھا، بھئی خدا کے واسطے اس طرح کی بکواس میرے سامنے نہ کرو۔ یہ آجکل کی لڑکیاں موت زندگی کا ذکر تو ایسے کرتی ہیں جیسے آئس کریم خرید نے جارہی ہوں ۔ “
” ہاں، خالہ اچھا یاد دلایا، ذرا یہ تو بتائیے آئس کریم کون سی کھائیں گی۔ ؟”
” میں اتنی بیوقوف نہیں ہوں، جتنی تم سمجھ رہی ہو۔ سمجھیں۔ ” خالہ خفگی سے بولیں۔
خالہ چھوڑیں بھی عقلمند بننے میں کیا رکھا ہے بعض وقت یہ عقل بندے کو اللہ سے دور کردیتی ہے۔ “
وہ ان کی بات کو پھر لے اڑی۔ خالہ فرزانہ سمجھ گئیں کہ اگر کوئی بات بھی ہے تو تانیہ اسے بتانے کے لئے تیار نہیں ہے لہذا انہوں پلٹ کر اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ وہ پاندان کھول کر اپنے لئے پان بنانے لگیں۔
“خالہ، پان میں بھی کھاؤں گی۔ ” تانیہ بڑی چاہت سے بولی۔
ہاں، ضرور کیوں نہیں؟” انہوں نے اسے محبت سے دیکھا۔ “ہائے، خالہ آپ کتنی اچھی ہیں۔ “
یہ کہہ کر وہ ان سے لپٹ گئی پھر جانے کیوں اس کی آنسوں سے بھر گئیں، وہ تو اچھا ہوا کہ اس کا چہرہ ان کی طرف نہیں تھا، اس نے بڑی مہارت سے اپنی آنکھیں صاف کر لیں اور پان کھا کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔

چار بجے کے قریب وہ پکنک منانے کیلئے نکلے۔ افضل کے برابر والی سیٹ پر خالہ فرزانہ بیٹھ گئیں اور پیچھے تانیہ اور دردانہ نے نشستیں لے لیں۔ پہلے سمندر کی طرف رخ کیا گیا، وہاں سورج غروب ہونے تک رہے۔ کچھ کھایا پیا گیا، تصویر کشی کی گئی اس کے بعد چاروں نے ہل پارک کا رخ کیا۔ خالہ فرزانہ کیونکہ زیادہ چل پھر نہیں سکتی تھیں اس لئے ایک اچھی سی جگہ منتخب کر کے بڑی سفید چادر بچھادی گئی۔ پاس ہی خورونوش کا سامان رکھ دیا گیا۔ دردانہ، خالہ فرزانہ کے ساتھ بیٹھ گئی۔ وہ دونوں چہل قدمی کے لئے نکل گئے۔ نو بجے کے قریب انہوں نے کھانا کھایا۔ دردانہ نے کھانا بہت توجہ سے بنایا تھا۔ اس لئے بہت مزیدار تھا۔ سب نے خوب ڈٹ کر کھایا۔ خوب گپیں ہانکیں، پھر راستے میں ایک جگہ رک کر آئس کریم کھائی اور یوں یہ لوگ سوا گیارہ بجے تک گھر پہنچ گئے۔
تانیہ نے اس آؤٹنگ کو بہت زیادہ انجوائے کیا اس کا تو واپس آنے کو جی ہی نہیں چاہ رہا تھا، مجبوری تھی گھر کو تو واپس آنا ہی تھا۔
اور وہ بھی ایک مقررہ وقت سے پہلے، اس مقررہ وقت پر اس پر اسرار کمرے میں جو داخل ہونا تھا۔۔

اس خوشگوار رات کی صبح بڑی ہولناک تھی۔ خالہ فرزانہ فجر کے وقت اٹھنے کی عادی تھیں حسب معمول آذان کی آواز پر ان کی آنکھ کھل گئی۔ وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئیں۔ واش روم میں جاکر وضو کیا پھر نماز پڑھی،
تھوڑی دیر قرآن شریف کی تلاوت کی۔ پھر اپنے بیڈ پر لیٹ گئیں۔ جب سے اٹھی تھیں ان کی عجیب حالت ہو رہی تھی۔ دل پر ایک گھبراہٹ طاری تھی ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا مسئلہ ہے۔ شاید رات کی آؤٹنگ کی وجہ سے ایسا ہوا تھا۔ رات کو انہوں نے کھانا بھی کچھ ذیادہ ہی کھا لیا تھا۔ ممکن ہے بلڈ پریشر ہو گیا ہو لیکن یہ گھبراہٹ کچھ عجیب قسم کی تھی۔ ایک بے چینی سی تھی
جیسے کچھ ہونے والا ہو یا ہو گیا ہو مگر اس کی اطلاع ابھی تک نہ پہنچی ہو۔ وہ کچھ دیر بیڈ پر بیٹھی رہیں، چین نہ ملا تو سائیڈ ٹیبل سے پاندان اٹھا کر چھوٹا سا ایک پان بنایا اور منہ میں رکھ لیا، سورج کی روشنی ہر سو پھیل گئی تھی۔ وہ باتھ روم کا دروازہ کھول کر پچھلے لان میں نکل گئیں۔
یہاں ان کی ایک کرسی پڑی تھی جس پر بیٹھ کر وہ ماضی کی یادوں میں گم ہو جاتی تھیں۔ تھوڑا سا ٹہلنے کے بعد اپنی کرسی پر براجمان ہو گئیں۔ کرسی پر بیٹھ کر آسمان کی طرف نظر کی، آسمان پر بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تیر رہے تھے۔۔۔ اور کافی اونچائی پر ایک چیل دائرے میں گھوم رہی تھی
چیل کو دیکھ کر انہوں نے فوراً نظریں نیچی کر لیں۔
ان کے دل کی ابھی بھی وہی کیفیت تھی، طبیعت سنبھلنے میں ہی نہیں آرہی تھی۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھیں کہ دردانہ کے پاس کچن میں چلی جائیں اس سے باتیں کر کے دل بہلائیں۔۔کہ وہ انہیں ڈھونڈتی ہوئی خود ہی آگئی
بڑی بی بی آپ یہاں بیٹھی ہیں۔ اور آپ نے یہاں پان بھی کھالیا، کیا مجھے دیر ہو گئی۔ “
دردا نے خالہ فرزانہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” آپ کے لئے جوس لے آئی ہوں، اندر رکھا ہے کیا یہاں لے آؤں ” ۔
نہیں وہیں رہنے دو۔ ” خالہ فرزانہ نے جواب دیا۔
” دردانہ، جانے میرا دل کیوں گھبرا رہا۔ صبح سے میری آنکھ پھڑک رہی ہے۔ اب میں نے آسمان پر اڑتی ہوئی چیل بھی دیکھ لی اللہ رحم کرے۔۔ جانے کیا ہونے والا ہے ” ۔ کچھ نہیں ہو گا، بڑی بی بی، آپ اس طرح کی باتوں پر یقین کیوں رکھتی ہیں ” ۔
اچھا، تم زیادہ ارسطو نہ بنو۔ جاؤ اوپر جاکر دیکھو تانیہ بی بی اٹھ گئی ہیں کیا؟“ وہ اٹھتے ہوئے بولیں۔
اگر دروازہ بند ہو تو کیا کھٹکھٹاؤں ؟”
ایک تو تم سوال بہت کرتی ہو، اوپر جاکر دیکھ لو، میرا خیال ہے کہ وہ اٹھ چکی ہوں گی۔ “
فرزانه واش روم میں داخل ہوتے ہوئے بولیں۔
جی اچھا، بڑی بی بی۔ ” اس نے بڑی سعادت مندی سے کہا اور پچھلی طرف سے ہی اوپر چلی گئی۔

خالہ فرزانہ نے پان تھوک کر کلی کی، اور پھر اپنے بیڈ پر آکر نیم دراز ہو گئیں۔ سائیڈ ٹیبل پر جو گلاس رکھا تھا، ابھی وہ ہاتھ بڑھا کر اٹھانا ہی چاہ رہی تھیں کہ کمرے میں دردانہ داخل ہوئی۔
بڑی بی بی۔ ” دردانہ کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ اپنا نام سن کر ہاتھ فوراً دل پر چلا گیا آنکھیں اٹھا کر دردانہ کو دیکھا تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑتی ہوئی نظر آئیں۔
کیا ہوا دردانه ؟”
تانیہ بی بی کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا ہے لیکن وہ کمرے میں نہیں ہیں؟“
نہیں ہیں اس کا کیا مطلب ہے ۔ ” خالہ فرزانہ نے الجھتے ہوئے کہا۔ ”بھئی وہ واش روم میں ہوگی””
واش روم بھی کھلا ہوا ہے ۔ ” دردانہ نے بتایا۔
گیلری میں کھڑی ہوں گی۔ “
وہ اوپر کہیں نہیں ہیں۔ “
پھر باہر ہوں گی لان میں۔ “
” وہ نیچے بھی کہیں نہیں ہیں۔ : ۔ میں پورا گھر دیکھ آئی ہوں ۔ ” دردانہ نے فکر مندی سے کہا –
کیا گیٹ کھلا ہوا ہے ؟ “
نہیں، بڑی بی بی گیٹ اندر سے بند ہے اور اس میں تالا بھی پڑا ہوا ہے۔”

“اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ باہر بھی نہیں گئیں ۔ ” خالہ فرزانہ کا دل اب دھواں ہونے لگا۔
“ وہ اپنے کمرے میں نہیں ہے، نیچے نہیں ہے، باہر نہیں گئی تو پھر وہ کہاں گئی۔ ہائے دردانہ میرا دل بیٹھا جارہا
ہے۔ جلدی سے جاکر افضل کو اٹھاؤ ” ۔
جی اچھا، بڑی بی بی۔ ” وہ تیزی سے باہر جاتے ہوئے بولی ۔
افضل کو اٹھانا آسان کام نہ تھا۔ وہ بڑی گہری نیند سوتا تھا۔ اس کے سر پر اگر ڈھول بھی پیٹا جاتا تو وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اس وقت جیسے معجزہ ہی ہو گیا۔ ادھر دردانہ نے اس کے دروازے پر دستک دی ادھر اس نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔
کیا ہوا دردانہ ؟” اس نے پوچھا۔
وہ صاحب جی، آپ کو بڑی بی بی نے بلایا ہے فوراً ۔ “
خیر تو ہے ۔ ” وہ اپنے پاؤں میں چپل ڈالتا ہوا بولا ۔ طبیعت خراب ہو رہی ہے کیا ؟ “
نہیں جی، وہ تانیہ بی بی”
دردانہ جملہ پورا نہ کر سکی اس کے حلق میں گولا سا آگیا۔
کیا ہوا، تانیہ کو ؟” وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولا۔
وہ گھر میں کہیں بھی نہیں ہیں۔ ” دردانہ نے بمشکل کہا۔
یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟” افضل ایک دم سناٹے میں آگیا۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟”
خاله فرزانہ پریشانی کے مارے زرد پڑ چکی تھی افضل نے خالہ کا چہرہ دیکھا تو اور پریشان ہو گیا۔
خالہ پریشان نہ ہوں، میں ابھی اوپر جاکر دیکھتا ہوں تانیہ اوپر ہی ہوگی ۔ “
اس نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔
جاؤ جلدی جاکر دیکھو۔ ” خالہ فرزانہ نے رندھے ہوئے گلے سے کہا۔
افضل دو دو سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر پہنچا۔ تانیہ کمرے میں موجود نہ تھی۔ کمرے میں کسی قسم کی بے ترتیبی کے آثار بھی نہ تھے۔ ہر چیز اپنے ٹھکانے پر تھی۔ کھڑکیاں بند تھیں۔ گیلری کا دروازہ بند تھا، بستر پر ایک شکن بھی نہ تھی لگتا تھا جیسے بیڈ پر کوئی سویا ہی نہیں یا اگر سویا تو اس نے اٹھ کر چادر کی شکنیں دور
کر دیں۔
افضل نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں کہ کوئی ایسا سراغ مل جائے جس سے اندازہ ہو سکے کہ وہ کہاں گئی۔ کہیں کچھ نہ نظر آیا سو اس نے تکیہ ہٹا کر دیکھا۔
تکیے کے نیچے ایک کاغذ رکھا تھا، وہ تانیہ کا خط تھا خالہ فرزانہ کے نام۔ افضل اس خط کو پڑھتا ہوا نیچے اتر آیا اور اسے خالہ فرزانہ کے سامنے رکھ دیا۔
خالہ فرزانہ نے بے چین ہو کر اپنا چشمہ تکیے کے نیچے سے نکالا اور جلدی سے آنکھوں پر لگا کر خط پڑھنے لگیں۔
لکھا تھا

“پیاری خالہ ! میں جارہی ہوں۔ کہاں جارہی ہوں معلوم نہیں، کس کے ساتھ جارہی ہوں یہ بھی معلوم نہیں۔ کب واپس آؤں گی، نہیں جانتی، لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ میں واپس آؤں گی۔ ساتھ میرا بھائی محسن راؤ ہو گا۔ آپ میرا انتظار کریں اور پریشان بالکل نہ ہوں۔ آپ کی تانیہ ۔”
یہ ایک عجیب و غریب خط تھا، سب کو چکرا دینے والا۔ افضل اور خالہ فرزانہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے تھے دردانہ بھی دیدے پھاڑے حیران نظروں سے اس خط کو دیکھ رہی تھی۔ خیر یہ مسئلہ تو اپنی جگہ اہم تھا کہ وہ اچانک کہاں چلی گئی لیکن اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ وہ گھر سے کس وقت اور کس طرح گئی، گھر کا گیٹ جوں کا توں بند تھا۔ بس ایک ہی راستہ ہو سکتا تھا کہ وہ گھر کے احاطے کی دیوار جو چھ فٹ سے اونچی تھی، اسے پھلانگ کر باہر چلی جائے لیکن تانیہ جیسی نرم و نازک کے لئے چھ فٹ اونچی دیوار پر چڑھنا اور پھر گھر کے باہر کو دنا کوئی آسان کام نہ تھا۔
وہ گھر کے باہر گئی کب تھی ؟ وہ تو گھر کے اندر ہی سے کہیں گم ہو گئی تھی۔
اسے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ٹھیک ڈھائی بجے اس پراسرار کمرے کے دروازے پر پہنچ جائے جہاں تعویذ لٹکا ہوا ہے۔ اسے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہاں سے اس کا سفر شروع ہو گا۔ سفر کی خبر پر اس نے اپنا چھوٹا موٹا ضرورت کا سامان ایک بیگ میں بھر لیا تھا۔ اس نے ڈائری بہت احتیاط سے رکھ لی تھی اسے معلوم تھا کہ خالہ فرزانہ اس کی اچانک گمشدگی سے بہت متاثر ہوں گی۔ اس لئے اس نے سوچ کر خاله فرزانہ کے نام ایک خط لکھ دیا تھا تا کہ انہیں اتنا اندازہ ہو جائے کہ وہ جہاں گئی ہے، اپنی مرضی سے گئی ہے اور بڑے نیک عزائم لے کر گئی ہے۔
اسے نیند آرہی تھی۔ پکنک مناکر اسے اچھی خاصی تھکن ہو گئی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اگر لیٹ گئی تو گہری نیند سو جائے گی اس لئے اس نے سوچا کہ وہ لیٹے گی نہیں بلکہ بیٹھی رہے گی تاکہ نیند نہ آئے ایک بجے کے قریب جب وہ نیند سے نڈھال ہونے لگی اور بار بار نیند میں جھومنے لگی تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ سوا دو بجے کا الارم لگادے اور بیڈ پر لیٹ جائے اور سو جائے پھر خیال آیا کہ الارم کی آواز کہیں افضل یا خالہ فرزانہ کے کانوں تک نہ پہنچ جائے اور اس کے اٹھنے سے پہلے وہ اٹھ کر بیٹھ جائیں۔ الارم کی آواز کم کرنے کے لئے ایک تہہ کی ہوئی چادر اس پر ڈال دی۔ کھڑکیاں اور دروازے پہلے ہی بند تھے ٹھیک سوا دو بجے گھڑی کا الارم بجا۔ الارم بجتے ہی تانیہ نے ہاتھ بڑھا کر اس کا بٹن دبایا اور فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی۔ واش روم میں جا کر منہ پر چھینٹے مارے۔ اپنے بیگ کو چیک کیا، بستر درست کیا، کمرے کی ہر چیز پر نظر دوڑائی سب چیزیں اپنی جگہ پر موجود تھیں۔ . دو بج کر پچیس منٹ پر وہ اپنے کمرے سے نکلی۔ پلٹ کر ایک الوداعی نظر ڈالی ۔ ایک دم دل بری دھڑکا۔ لائٹ بند کر کے بہت احتیاط سے زینہ اترنے لگی۔ گھر پر ایک پراسرار سناٹا چھایا ہوا تھا۔ پورے چاند کی رات تھی چاندنی کا سحر فضا پر چھایا ہوا تھا۔ وہ کمرہ سب سے آخر میں تھا، وہ بہت محتاط انداز میں چلتی ہوئی اس پراسرار کمربے کے دروازہ پہنچ گئی۔ اس کمرے سے پہلے خالہ فرزانہ کا کمرہ پڑتا تھاجو بند تھا، دروازے کے نیچے اندھیرا تھا، اس کا مطلب ہے کہ ان کے کمرے کی لائٹ بھی بند ہے، ظاہر ہے سورہی ہوں گی، ویسے جب کبھی وہ کوئی ناول پڑھنے بیٹھ جاتیں تو پھر دیر تک پڑھتی رہتیں۔ تانیہ کا جی چاہا کہ خالہ کا دروازہ بجا کر انہیں اللہ حافظ کہے۔۔ پھر اسے اپنے اس خیال پر خود ہی ہنسی آگئی۔ یہ تو آبیل مجھے مار والی بات تھی۔ اس نے غائبانہ ہاتھ ہلا کر خالہ کو اللہ حافظ کہا۔ ٹھیک ڈھائی بجے اس نے دروازہ کھولنے کے لئے ہینڈل پر ہاتھ رکھنا چاہا لیکن ہینڈل پر ہاتھ نہ پڑا۔
دروازہ خود بخود کھل گیا تھا جیسے دروازے کے پیچھے کوئی اس کا منتظر تھا۔ سامنے اندھیرا تھا۔ وہ محض اندازے سے کمرے میں داخل ہو گئی۔ اس کے اندر داخل ہوتے ہی دروازه خود بخود بند ہو گیا۔ اندر گھپ اندھیرا تھا۔ وہ دو چار قدم ہی اندر آئی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ آگے بڑھے یا وہیں کھڑی رہے۔ اگر آگے بڑھے تو کسی جانب بڑھے، اندھیرا اس قدر گہرا تھا کہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے سوچا، وہ جہاں کھڑی ہے وہیں کچھ دیر کھڑی رہے تاکہ آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کی عادی ہو جائیں۔
وہ اندھیرے میں ایسے ہی آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہی تھی کہ کچھ نظر آجائے تب اس نے گھپ اندھیرے میں چھت پر کوئی روشنی ٹمٹماتی ہی دیکھی۔ ایسا لگا جیسے دور آسمان پر کوئی اکیلا ستارہ ٹما رہا ہو پھر دیکھتے ہیں
دیکھتے ایسے ستاروں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ ستاروں کی تعداد کے ساتھ مدھم سا اجالا بھی پھیلتا گیا۔ پھر یہ مدهم روشنی دھیرے دھیرے صاف ہونے لگی اس کی نظریں اوپر چھت کی طرف اٹھی ہوئی تھیں۔ روشنی آہستہ آہستہ بڑھتی جارہی تھی۔ وہ چھت اب آسمان کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ بے شمار ستارے جگمگارہے تھے پھر یہ روشنی اتنی تیز ہو گئی کہ یوں لگا جیسے چاند نکل آیا ہو۔ ساتھ ہی تیز ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس کے ریشمی بدن کو چھوتا چلا گیا۔ اچانک اسے اپنے پاؤں کسی نرم چیز میں دھنستے محسوس ہوئے۔ اس نے فوراً اپنے پیروں کی طرف دیکھا پھر گھبرا کر دائیں دیکھا، بائیں دیکھا، اوپر دیکھا، نیچے دیکھا، تب اسے اپنے دل کی دھڑکن رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔
وہ کسی صحرا میں تھی۔
پورے چاند کی رات تھی۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، تاروں بھرا آسمان تھا۔ چاند اپنے شباب پر تھا۔۔ وہاں تک نظر جاتی تھی جہاں تک وہ دیکھ سکتی تھی۔ ریت کے اونچے نیچے ٹیلے پھیلے ہوئے تھے۔ کوئی آبادی دور تک نہ تھی۔ کھڑے ہی کھڑے چند سیکنڈوں میں جانے کیا سے کیا ہو گیا تھا جانے کہاں آگئی تھی یہ کونسی جگہ تھی، جانے یہ کیا مقام تھا۔
ابھی وہ مقام حیرت پر کھڑی، اپنے ہوش و حواس درست کر رہی تھی کہ ایک سایہ سا اس کے سر پر پڑا آگے نکل گیا پروں کی پھڑ پھڑاہٹ کے ساتھ ہی ایک چیخ کی آواز سنائی دی۔ تانیہ نے ریت پر کسی اڑتے پرندے کا سایہ دیکھا جو اس کے سر سے گزر کر آگے نکل گیا تھا۔ ریت پر اس سائے کا سائز کافی بڑا تھا جیسے وہ پرندہ بالکل سر کو چھوتا گزرا ہے۔ تانیہ نے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ اور چیخ پر فوراً گھبرا کر اوپر دیکھا
لیکن آسمان پر کوئی چیز نہ تھی۔ چاندنی پورے شباب پر تھی۔ دور تک ریت کا صحرا پھیلا ہوا تھا۔ ٹھنڈی ہوا تھی۔ یہ ماحول، یہ جگہ اس کے لئے آئیڈیل تھی، اس طرح کے انوکھے مناظر دیکھ کر وہ مسحور ہو جاتی تھی۔ ایسے مناظر تو اس نے انگلش فلموں میں دیکھے تھے لیکن اب وہ خود کسی فلم کا حصہ بن گئی تھی، ایسی فلم جس کا کوئی ڈائریکٹر کوئی فوٹو گرافر نہیں تھا
پھر کہیں سے چھم چھم کی آواز آنے لگی جیسے کسی کے پاؤں میں گھنگرو بندھے ہوں اور دوڑا چلا آرہا ہو۔ آواز کی سمت پر اس نے نظر اٹھائی تو سامنے سے ایک ہیولا سا آتا دکھائی دیا۔ قریب آنے پر ہیولے نے شکل و صورت اختیار کرلی ۔ وہ ایک اونٹنی تھی جس پر کوئی سوار نہیں تھا۔ وہ اونٹنی اسکے نزدیک آکر ٹھہر گئی اور خود ہی ریت پر بیٹھ گئی۔
تانیہ تذبذب میں مبتلا ہوگئی۔ جان یہ اونٹنی کہاں سے آئی ہے اور یہ یہاں کس لئے بیٹھ گئی۔ تب کہیں نزدیک سے ایک آواز آئی۔ “
اونٹنی پر بیٹھ جاؤ، یہ تمہارے لئے بھیجی گئی ہے۔”
تانیہ نے گھوم کر چاروں طرف دیکھا، آواز والا کہیں دکھائی نہ دیا وہ دھڑکتے دل کے ساتھ اونٹنی پر سوار ہو گئی تانیہ کے بیٹھتے ہی اونٹنی کھڑی ہو گئی اگر چہ اونٹنی بہت احتیاط سے اٹھی تھی پھر بھی تانیہ آگے کو جھول کر رہ گئی۔
چاند کے رخ اونٹنی نے چلنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے اپنی رفتار بڑھائی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہوا سے باتیں کرنے لگی۔
رات کا وقت، اونٹنی کی سواری، چاندنی رات، لق و دق صحرا اور ایک حسین ترین لڑکی، عجیب منظر تھا۔۔ کوئی انسان بھی اس منظر کو دیکھ لیتا تو دم بخود رہ جاتا لیکن یہاں تو دور تک کوئی انسان نہ تھا۔
آدم نہ آدم زاد ہو کا عالم تھا۔ یہ کوئی اور ہی دنیا تھی منظر پر منظر بدلتے جارہے تھے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اونٹنی اڑ رہی ہو، جانے کتنی مسافت طے ہوئی۔

چاند اب بھی سامنے تھا۔ دھیرے دھیرے وہ اپنی تابانی کھوتا جارہا تھا، بالاخر دوڑتے دوڑتے اونٹنی کی رفتار کم ہو گئی یہاں تک کہ وہ ایک جگہ رک گئی۔
سفر کرتے ہوئے جانے کتنا وقت گزر گیا تھا۔ جانے وہ کتنا فاصلہ طے کر آئی تھی۔ رات کا سحر اتر چکا تھا۔ سورج ایک لال توے کی طرح بہت دھیرے دھیرے نمودار ہو رہا تھا۔ اونٹنی کے بیٹھنے پر تانیہ اس کی پیٹھ سے اتر گئی اور کھڑے ہو کر نکلتے سورج کو دیکھنے لگی۔
یہ صحرا کی صبح تھی، یہ عجیب صبح تھی، ایسی خوبصورت اور انوکھی صبح اس نے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔۔
سامنے کچھ نہیں تھا۔ بس ریت کے ٹیلے تھے اور زمین کے آخری سرے سے سر ابھارتا سورج تھا اورآسمان ۔ ۔۔
ان تین چیزوں پر مشتمل یہ اللہ کابنا یا ہوا لینڈ اسکیپ تھا اس منظر کی دلکشی اور حسن کا کوئی جواب نہ تھا۔
وہ صبح کے اس سحر میں کھوئی ہوئی تھی کہ اپنی پشت پر اچانک اسے پروں کی تیز پھڑ پھڑاہٹ سنائی دی۔ پھڑ پھڑاہٹ کے ساتھ ایک تیز چیخ کی آواز تھی۔ اس نے فوراً پلٹ کر دیکھا آسمان پر کچھ نہ تھا لیکن زمین پر کسی اڑتے ہوئے پرندے کا سایہ پڑ رہا تھا۔ یہ عجیب منظر تھا، اصل غائب تھی نقل دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے اس سائے کو دور تک جاتے ہوئے دیکھا۔ ریت پر پڑتا سایہ اتنا بڑا تھا۔ لگتا تھا جیسے وہ پرندہ بہت نیچی پرواز کر رہا ہو ۔ ابھی وہ اس سائے کو غائب ہوتا دیکھ ہی رہی تھی کہ پیچھے ایک سایہ اور نمودار ہوا اور یہ دیو قامت سایہ کسی انسان کا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی چادر اوڑھے ہوئے ہے۔۔
سورج کیونکہ ابھی نکل رہا تھا اور وہ جو کوئی بھی تھا۔ سورج کے سامنے تھا۔ اس لئے اس کے سائے کی جسامت غیر معمولی تھی۔
یہاں بھی وہی معاملہ تھا، صرف سایہ تھا، جس کا سایہ تھا وہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ سایہ اس کی سیدھ میں، اس کی طرف بڑھتا چلا آرہا تھا۔ یہاں تک کہ سائے کا سر تانیہ کے قدموں میں آگیا۔ قدموں پر سائے کے آتے ہی تانیہ کو ایک عجیب سا احساس ہوا اسے لگا جیسے اس کے پیروں میں اگ لگ گئی ہو گھبرا کر اس نے پیچھے ہٹنا چاہا لیکن اب وقت گزر چکا تھا ایک لمحے میں وہ سایہ اس پر چھا گیا۔ اور تانیہ کو یوں محسوس ہوا جیسے اسے جلتے ہوئے تنور میں ڈال دیا گیا ہو اور وہ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئی
یہ احساس، یہ اذیت چند سیکنڈ سے زیادہ کی نہ تھی جب اس کے حواس درست ہوئے تو اس نے دیکھا ہے اس سائے کا دور تک پتہ نہیں پھر وہ جگہ بھی تبدیل ہو چکی تھی۔ اس وقت وہ سخت زمین پر کھڑی تھی۔
ذمین اگر چہ ناہموار تھی لیکن جابجا چھوٹے بڑے پودے نظر آرہے تھے۔ تھوڑے سے فاصلے پر اسے ایک جھونپڑی دکھائی دی۔ اس جھونپڑی پر نظر پڑتے ہی اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی یہ تو وہی خواب والی جھونپڑی تھی وہ تیزی سے اس کی طرف لپکی، قریب ہوتی ہوئی جھونپڑی کی چھت پر اسے الو بیٹھا صاف دکھائی دے رہا تھا جب وہ اور نزدیک ہوئی تو اسے جھونپڑی کے دروازے پر سانپ بھی دکھائی دینے لگا وہ ابھی اندر سے نکلا تھا اور دروازے پر پھن اٹھائے اور کنڈلی مار کر بیٹھ گیا تھا۔ خواب کا پورا منظر اب حقیقت کا روپ دھار گیا تھا۔ سانپ نے اسے اپنے سامنے دیکھ کر ایک زور دار پھنکار ماری۔ پھنکار مارتے ہی جھونپڑی کی چھت پر سے الو اڑ گیا، سانپ جھپٹ کر اس کی طرف بڑھا وہ خوفزدہ ہو کر پلٹ کر بھاگنا ہی چاہتی تھی کہ جھونپڑی کے اندر سے آواز آئی۔
“ڈرو مت آؤ جھونپڑی کے اندر آجاؤ “
وہ ڈرتی کیسے نہیں، وہ سانپ اس کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا۔
وہ خوفزدہ ہو کر ابھی چند قدم ہی پیچھے ہٹی تھی کہاس نے دیکھا کہ وہ سانپ اس کی طرف آنے کے بجائے دوسری طرف مڑ گیا اور گھوم کر چھونپڑی کے پیچھے غائب ہو گیا۔ اب جھونپڑی کی چھت پر کوئی چیز تھی
اور نہ دروازے پر کچھ تھا۔ وہ کھڑی سوچ رہی تھی کہ کیا کرے؟..
تبھی وہ آواز پھر آئی۔
” ڈرومت….. آؤ جھونپڑی کے اندر آجاؤ ۔ “
یہ آواز سن کر وہ جھونپڑی کے چھوٹے سے دروازے کی طرف بڑھی۔ ابھی وہ دروازے میں داخل ہونے کے لئے جھکی ہی تھی کہ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اندر جانے سے روک دیا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کندھے پر ہاتھ رکھنے والے نے ہاتھ ہٹا لیا۔ نہ صرف ہاتھ ہٹالیا بلکہ وہ پیچھے ہٹ کر بھی کھڑا ہو گیا۔ اس کے چہرے پر براہ راست سورج کی روشنی پڑ رہی تھی۔ اس کی رنگت چمک رہی تھی۔ وہ ڈھیلے ڈھالے سیاہ لباس میں تھا۔ کندھوں پر جھولتے لمبے لمبے بال ۔ کانوں میں چاندی کی بالیاں ۔ لمبا چہرہ ۔ اونچا لمبا قد۔ ایک ہاتھ میں موٹا سا کڑا اور انگلی میں چاندی کی پتھر لگی انگوٹھی، سیاہ چمکیلی آنکھیں۔ عجیب شخصیت تھی اس کی۔ اسے دیکھ کر خوف بھی محسوس ہوتا تھا اور اسے دیکھنے کو دل بھی چاہتا تھا۔
وہ دونوں ہاتھ باندھے، پر شوق نگاہوں سے تانیہ کو دیکھ رہا تھا۔
“کون ہو تم؟ ؟ تانیہ نے وضاحت طلب انداز میں پوچھا
” میں کالا چراغ ہوں ۔ ” وہ بولا تو اس کے سفید چمکدار دانت دکھائی دیئے جو بہت بھلے محسوس ہوئے۔
اوہ، اچھا تو وہ آپ ہیں ؟ “
تانیہ کے لہجے میں شناسائی کی جھلک تھی۔
” اب تک میں آپ کے بارے میں سنتی آرہی تھی۔ آج دیکھ بھی لیا۔ “
میں اس صحرا میں تمہیں خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں ایک عرصے سے تمہاری آمد کا منتظر ہوں..”
“کیوں آخر ؟ ” تانیہ نے پوچھا۔
یہی بتانے کے لئے میں نے اندر جانے سے روکا ہے۔ ” اس نے جواب دیا۔
اندر کون ہے؟”
اندر ایک ایسا شخص موجود ہے جسے تمہاری مدد کی سخت ضرورت ہے۔ “
میں تو اندر جارہی تھی، آپ ہی نے مجھے اندر جانے سے روک دیا۔ ” تانیہ نے تاسف بھرے لہجے میں کہا۔
” تم اسے دیکھو گی تو تمہیں شدید تکلیف ہوگی۔ میں چاہتا ہوں کہ تم دیکھنے سے پہلے میری بات سن لو”
“اندر ہے کون آخر کچھ پتہ تو چلے۔ “
“تمہارا بھائی محسن راؤ ۔ “
اس نے بہت سادگی سے جواب دیا۔
“اندر میرا بھائی ہے، وہ مجھے مدد کے لئے پکار رہا ہے اور آپ مجھے اندر جانے سے روک رہے ہیں ۔ یہ کیا ظلم ہے۔ مجھے اندر جانے دیں۔ میں اپنے بھائی کو دیکھنا چاہتی ہوں ۔ “ وہ بے چین ہو کربولی
“تمہارا بھائی اندر جس حالت میں ہے، اسے دیکھ کر تمہیں دکھ ہو گا۔ ” کالے چراغ نے افسوس سے کہا
“آپ مجھے اندر جانے دیں۔ ” تانیہ نے ضد کی۔
تم اندر نہ جاؤ، میرے ساتھ آؤ ۔ ” وہ جانے کے لئے مڑا۔ ”وہ کسی کی قید میں ہے۔ ؟”
“قید میں؟” وہ پریشان ہو کر بولی
“کس نے قید کیا ہے، میرے بھائی کو ؟ “
بقال نے۔ ” کالے چراغ نے قید کرنے والے کا نام بتایا۔

بقال، یہ کسی قسم کا نام ہے۔ کون ہے یہ بقال ؟ “
سب یہیں کھڑے کھڑے معلوم کر لو گی، یا میرے ساتھ کہیں چل کر بیٹھو گی۔ “
” مجھے کہاں جانا ہو گا ؟ “
میرے ساتھ، میری بستی میں ۔ “
اس نے جھونپڑی کے ایک جانب بڑھتے ہوئے کہا۔ تانیہ کا اگر چہ جانے کو جی تو نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ اپنے بھائی کا نام سن کر بے کل ہو گئی تھی۔ وہ جھونپڑی میں گھس کر اپنے بھائی کو دیکھ لینا چاہتی تھی۔ اپنے بھائی کی خاطر ہی تو اس نے یہ پر اسرار سفر اختیار ہیا تھا۔ لیکن کالے چراغ نے جس انداز میں گفتگو کی تھی اس سے معاملے کی سنگینی کا پتہ چلتا تھا۔ لہٰذا اس نے سوچا کہ ضد کر کے معاملے کو بگاڑنے سے بہتر ہے کہ وہ حالات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ کالا چراغ اسے کچھ بتانا چاہتا تھا تو کیوں نہ اس کی بات سن لی جائے۔ آگے جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
وہ اس کے پیچھے چل پڑی۔
کالا چراغ جھونپڑی کی پشت پر پہنچ کر، جھونپڑی سے کچھ فاصلے پر جا کر رک گیا۔ کھڑے ہو کر اس نے اپنے دونوں ہاتھ پروں کی طرح پھیلائے۔ سورج کی طرف اس کی پشت تھی۔ زمین پر اس کا لمبا سا سایہ پڑ رہا تھا۔ ہاتھ پھیلا کر اس نے تانیہ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ” ترکش، میرے سائے میں آجاؤ۔ “
تانیہ جیسے ہی اس کے زمین پر پڑتے سائے میں داخل ہوئی۔ اسے شدید حدت کا احساس ہوا۔ جیسے کسی بھٹی میں جھونک دی گئی ہو۔ یہ احساس چند سیکنڈوں کا تھا۔ جیسے ہی اس کے حواس بحال ہوئے تھے اس نے خود کو ایک کھنڈر میں پایا۔ جہاں وہ کھڑی تھی، وہاں سے سیڑھیاں شروع ہو رہی تھیں۔ یہ سیڑھیاں نیچے اتر رہی تھیں سیڑھیوں کے آخر میں اسے ایک درز سا نظر آرہا تھا۔
کالا چراغ آہستہ آہستہ وہ سیڑھیاں اترتا جارہا تھا۔ چند سیڑھیاں اترنے کے بعد اس نے پلٹ کر دیکھا تانیہ ابھی اوپر ہی کھڑی تھی۔ اس نے ہاتھ کا اشارہ دیا اور بولا۔ ”آؤ ۔ “
تانیہ اس کی تقلید میں سیڑھیاں اترنے لگی۔ یہ سیڑھیاں کافی گہرائی میں نیچے تک چلی گئی تھیں۔ سیڑھیاں اتنی چوڑی تھیں کہ چار پانچ آدمی بیک وقت اتر سکتے تھے۔ سیڑھیوں کے دونوں طرف پتھروں کی دیوار تھی ۔ جہاں سیڑھیاں ختم ہورہی تھیں۔ اس کے سامنے بھی دیوار تھی۔ سامنے والی دیوار کے ساتھ ایک چوڑا در دکھائی دے رہا تھا۔ کالا چراغ اس در میں داخل ہو کر غائب ہو چکا تھا۔ تانیہ اس سے آٹھ دس سیڑھیاں اوپر تھی۔ جب وہ در کے سامنے پہنچی تو کالا چراغ اس کا منتظر تھا۔ جب وہ در میں داخل ہو گئی تو کالا چراغ پھر چل پڑا۔۔در میں داخل ہو کر تانیہ کو ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہوا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ در میں داخل ہوگی تو آگے گھپ اندھیرا ہو گا۔ اور وہ کسی غار نما چیز میں داخل ہو جائے گی۔ لیکن ایسا نہ تھا۔ سامنے ڈھلان تھی۔ تھوڑے سے فاصلے پر ایک محرابی دروازہ تھا اور دروازے کے دونوں بھاری پٹ کھلے ہوئے تھے۔
یہ کسی محل کا سا دروازہ تھا۔ کھلے دروازے میں سے اسے ایک خوبصورت فوارہ اور پس منظر میں پتھروں کی عمارت نظر آرہی تھی۔ اور اس کے سامنے ایک خوبصورت باغ پھیلا ہوا تھا اور بہت گہرے رنگ کا آسماں نظر آرہا تھا۔
جب تانیہ دروازے سے گزر کر اندر پہنچی تو اسے احساس ہوا کہ وہ بہت بڑے میدان میں آگئی۔ سامنے ایک بڑی عمارت تھی۔ اس کے بعد در ہی در تھے۔ یہ شاید گھروں کے دروازے تھے۔ ہر طرف اسی طرح کے گھر تھے اور درمیان میں ایک بہت خوبصورت سرسبز باغ تھا۔ ابھی تک اسے ایک بھی آدمی نظر نہیں آیا تھا۔ کالا چراغ سامنے والی بڑی عمارت کی طرف بڑھ رہا تھا۔
“اتنی بڑی جگہ اتنی خوبصورت جگہ اور ایسی ویران ۔ آدمی تو آدمی یہاں تو کوئی پرندہ بھی نہیں دکھائی دے رہا۔ ” تانیہ نے چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے پرتجسس لہجے میں کہا۔
” دیکھنا چاہتی ہو ؟ “
ہاں، دیکھنا چاہتی ہوں۔ یہاں کچھ ہے دیکھنے کو۔ “
بہت کچھ ہے ۔ ” کالے چراغ نے مسکرا کر کہا۔ ”اپنی آنکھیں بند کرو ذرا” یہ کہہ کر اسنے اپنے ہاتھ کا سایہ اس کے سر پر ڈالا۔ تانیہ نے اس کی ہدایت کے مطابق آنکھیں بند کیں تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ اس نے گھبرا کر
آنکھیں کھول دیں۔
اس نے بند آنکھوں سے ایک ہو شربا منظر دیکھا۔ چاروں طرف بڑی بڑی چمگادڑیں نظر آئیں۔ جو اڑ رہی تھیں اور کچھ الٹی لٹکی ہوئی تھیں۔ ہلکی روشنی تھی۔ ایک بہت بڑا غار نما ہال سا تھا۔
آنکھیں کھولیں تو پھر وہی خوشگوار منظر تھا۔ چمکیلی دھوپ، خوبصورت سا باغ ۔ چاروں طرف در اور بالکل سناٹا۔
“یہ کیا تھا؟” تانیہ نے حیران ہو کر پوچھا۔
“اپنی آنکھیں دوبارہ بند کرو۔ “
کالے چراغ نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اسے ہدایت دی اور اس مرتبہ اس نے اپنے ہاتھ کا سایہ اس کے سر پر نہ ڈالا۔ وہ بے حس و حرکت کھڑا رہا۔
تانیہ نے اس کی ہدایت کے مطابق ڈرتے ڈرتے دوبارہ آنکھیں بند کیں تو اسے اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ اس نے فوراً آنکھیں کھول دیں۔ اور بولی ۔
‘اب تو کچھ نظر نہیں آیا۔ “
پھر دیکھنا چاہتی ہو ؟ ” کا لے چراغ نے مسکرا کر پوچھا۔ نہیں۔ ” تانیہ نے خوفزدہ ہو کر کہا۔ لیکن یہ تھا کیا؟ “
آؤ، میرے ساتھ ۔ ” کالا چراغ آگے بڑھنے لگا ۔
” اور اس منظر کو فریب نظر سمجھ کر بھول جاؤ۔ آئندہ اس طرح کی فرمائش ذرا سوچ سمجھ کر کرنا۔ یہ ہماری بستی ہے، ہماری دنیا ہے۔ یہاں وہ ہوتا ہے جو وہاں نہیں ہوتا۔ “
پتہ نہیں وہ کیا کہہ رہا تھا، اسے کیا سمجھانا چاہتا تھا۔ تانیہ نے اس سے الجھنا مناسب نہ سمجھا اور خاموشی سے اس کے پیچھے چلے گی۔

فوارے سے گزر کر وہ لوگ بڑی عمارت کے دروازے پر پہنچ گئے۔ یہ بڑے بڑے سرخ پتھروں کی عمارت تھی۔ بالکل سیاہ چمکیلا دروازہ تھا اور اس پر جابجا پیتل کی میخیں لگی ہوئی تھیں۔ اسی بڑے دروازے میں ایک چھوٹا دروازہ تھا۔ کالے چراغ نے چھوٹے دروازے کو پیچھے دھکیلا تو وہ کھل گیا۔ وہ اس دروازے میں داخل ہو گیا اور تانیہ کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے دروازے میں داخل ہو گئی۔
اس عمارت میں بھی سناٹا طاری تھا۔ ایک شخص بھی اسے نظر نہیں آیا تھا لیکن اب اس میں کوئی سوال کرنے کی ہمت نہیں تھی، جانے جواب میں چراغ اسے کیا دکھا دے۔ وہ خاموشی سے اس کی تقلید کرتی رہی یہاں تک کہ وہ ایک کمرے میں داخل ہو گئی۔
ایسے کمرے اس نے تاریخی ڈراموں میں دیکھے تھے۔ ایسا کمرہ کسی بادشاہ یا ملکہ کا ہوتا تھا۔ اونچی اونچی مسندیں سرسراتے ہوئے بڑے بڑے پردے۔ جھاڑ فانوس، حسین قالین کمرے میں داخل ہو کر کالے چراغ نے اسے ایک مرصع کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی وہ دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔۔
” تم نے اونٹنی پر ایک تھکا دینے والا طویل سفر کیا ہے۔ کچھ دیر آرام کرلو۔ میں تمہارے ناشتے کا بندو بست کرتا ہوں ۔ “
یہ کہہ کر وہ اٹھ گیا اور اس کا جواب سنے بغیر کمرے کے اندرونی دروازے سے باہر چلا گیا۔
وہ واقعی بہت تھک گئی تھی۔ اس کا انگ انگ دکھ رہا تھا۔ بھوک سے زیادہ اسے نیند ستارہی تھی۔ وہ کرسی سے اٹھ کر ایک کونے میں پڑے بڑے سے چھپر کھٹ کی طرف بڑھی۔ اور جب وہ اس پر لیٹی تو ایسا لگا جیسے گلاب کی پتیوں پر لیٹ گئی ہو۔ اس قدر نرم ملائم بستر تھا۔ اس کے تکئے مہک رہے تھے۔ .
بستر پر لیٹتے ہی اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ وہ سونا نہیں چاہتی تھی کیونکہ کالا چراغ ناشتے کا بندوبست کرنے گیا تھا۔ وہ آتا ہی ہو گا۔ لیکن نیند نے اسے مزید کچھ سوچنے کی مہلت نہ دی، اسے اپنے آغوش میں لے لیا۔
کالا چراغ جب ناشتے کی کشتی لے کر آیا تب تک تانیہ گہری نیند سو چکی تھی۔ کالے چراغ نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ سوئی ہوئی تانیہ کو دیکھا۔ کشتی میز پر رکھی اور خاموشی سے دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔تانیہ بہت تھکی ہوئی تھی۔ وہ سہ پہر تک سوتی رہی۔ پھر جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپکو ایک غیر مانوس سے کمرے میں پایا۔ اس کی نظر سب سے پہلے چھت پر لٹکے بڑے سے فانوس پر پڑی ۔۔ پھر اس نے چھپر کھٹ کو دیکھا۔ حواس بحال ہوئے تو اسے یاد آگیا کہ وہ کہاں ہے۔ اسے سوتے ہوئے شاید بہت دیر ہو چکی تھی۔ وہ ہر بڑا کر اٹھی۔ سامنے میز پر کئی کشتیاں رکھی تھی وہ میز کے نزدیک گئی تو اس نے دیکھا کہ ایک کشتی میں ناشتے کا سامان ہے۔ دوسری کشتی میں کھانا۔ تیسری کشتی میں کچھ پھل ہیں۔ ایک کشتی میں پانی اور گلاس رکھے ہیں۔ تب اسے احساس ہوا کہ ناشتے اور دوپہر کے کھانے کا وقت گزر چکا ہے۔ سونے سے اسکے اعصاب پر سکون ہو گئے تھے۔ اب وہ چاہ رہی تھی کہ باتھ روم میں جا کر نہا دھولے۔ اور کپڑے تبدیل کرلے۔ اس نے اپنے بیگ سے کپڑے نکالے اور کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑانے لگی کہ باتھ روم کس طرف ہے۔
ابھی وہ اندازہ ہی لگارہی تھی کہ دروازہ کھلا اور کالا چراغ اندر داخل ہوا، وہ اسے کھڑا ہوا دیکھ کر مسکرایا
اور بولا۔
“کہاں جانا چاہتی ہو ؟ “
“ذرا منہ ہاتھ دھو کر تازہ دم ہونا چاہتی ہوں ۔ “
” وہ سامنے چلی جاؤ ۔ پردہ ہٹاؤ گی تو دروازہ نظر آجائے گا۔ کالے چراغ نے ایک طرف اشارہ کیا ۔۔اس کے اشارے کے مطابق جب اس نے پردہ ہٹایا تو وہاں واقعی ایک دروازہ موجود تھا۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔
اندر داخل ہو کر جب اس نے دروازہ بند کیا، اس کی آنکھوں میں حیرت بھر گئی۔ ہر طرف وہ ہی وہ نظر آرہی تھی دائیں بائیں، سامنے، پیچھے، چھت پر، فرش پر کہاں نہیں تھی وہ۔۔
وہ نظر کیسے نہ آتی۔ ہر طرف آئینے لگے ہوئے تھے۔ چھت اور فرش پر بھی آئینے تھے۔ حتیٰ کہ دروازے کی پشت پر بھی آئینہ تھا۔ دروازہ بند ہونے کے بعد شیشے کی دیوار میں گم ہو گیا تھا۔ یہ ایک خوبصورت حمام تھا۔ فرش پر ایک حوض تھا۔ جس کی لمبائی چھ فٹ اور چوڑائی چار فٹ رہی ہوگی۔ اس کی گہرائی بھی چار سے چھ فٹ تھی۔ اس حوض کی سطح نیلے رنگ کی تھی، اس لئے حوض اور اس کا پانی نیلا نظر آرہا تھا۔ ورنہ آئینوں کی وجہ سے اتنے عکس دکھائی دے رہے تھے کہ کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کو نسی چیز کس جگہ ہے۔
جب وہ اس آئینہ حمام سے نہا کر باہر نکلی تو بالکل فریش ہو چکی تھی۔ کالا چراغ کمرے میں موجود تھا۔ تانیہ اس وقت اس ترو تازہ گلاب کی مانند لگ رہی تھی جس پر شبنم کے قطرے پڑے ہوں ۔ اسکا حسن مبہوت کرنے والا تھا۔ کالا چراغ اسے بہت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
تانیہ نے اپنے کھلے بالوں میں تولیہ لپیٹا ہوا تھا۔ وہ اس کی پر شوق نگاہوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئی۔ اور میز پر رکھی ہوئی چیزوں کو دیکھنے لگی۔ اب اسے شدت کی بھوک لگ رہی تھی۔
” اب تم کیا کھاؤ گی؟ ” کالا چراغ اٹھ کر میز کی طرف بڑھا۔
“ ناشتے اور دوپہر کے کھانے کا وقت تو نکل چکا ہے۔ اب تو شام کی چائے کا وقت ہے۔ “
میز پر اتنا کچھ موجود ہے۔ کچھ بھی کھالوں گی۔ آپ فکر مند نہ ہوں۔ “
“کھانا لائے ہوئے بھی کئی گھنٹے ہوگئے۔ دیکھ لو، ٹھنڈا تو نہیں ہو گیا۔ “
کوئی بات نہیں، جیسا بھی ہے، میں کھالوں گی۔”
یہ کہتے ہوئے اس نے ڈونگے کا ڈھکن اٹھایا تو کھانے سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ وہ خوش ہو کر بولی۔
“ارے، یہ تو بالکل گرم ہے۔ کیا آپ دوبارہ لائے ہیں۔ “
“نہیں تو، دوپہر ہی کو لایا تھا۔ ” کالے چراغ نے معصومیت سے کہا۔
تانیہ نے اپنے مطلب کا کھانا طشتری میں نکالا اور کھانے لگی۔ کھانا بہت مزیدار تھا۔ اسے فوراً دردانہ یاد آگئی اس کے پکائے ہوئے کھانے بھی بہت مزیدار ہوتے تھے۔ کھانے سے فارغ ہو کر اس نے چائے پی۔ یہ چائے تو صبح کی تھی لیکن ابھی تک اس قدر گرم اور تازہ تھی جیسے ابھی دم دی گئی ہو۔ تانیہ نے کالے چراغ کو چائے کی پیشکش کی لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ
” میں چائے نہیں پیتا۔ “
کھانے پینے سے فارغ ہونے کے بعد کالے چراغ نے برتن اٹھائے۔ تانیہ نے چاہا بھی کہ وہ اس سے کہے۔ برتن میں رکھ آتی ہوں ۔ ” لیکن وہ یہ بات کہہ نہ سکی۔ کالے چراغ نے سارے برتن ایک ساتھ اٹھائے اور دروازے سے باہر نکل گیا۔ اس کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر تانیہ نے اپنے سر سے تولیہ کھولا اور اپنے بال سلجھانے لگی۔ پھر
اس نے اپنے بال باندھے اور آرام سے ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ یہ کیسا ظلم تھا۔ یہ کیسی ہو شربا داستان تھی۔ وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی۔ وہ گھر سے اپنے بھائی محسن راؤ کی تلاش کا عزم لے کر نکلی تھی۔ ایک ہی رات میں، وہ اپنے بھائی کے نزدیک پہنچ گئی تھی۔ وہ جھونپڑی میں گھس کر اسے دیکھنا چاہتی تھی لیکن کالا چراغ وہاں ظالم سماج بن کر پہنچ گیا تھا، اسے ملنے سے روک دیا تھا۔ جانے اس نے ایسا کیوں کیا تھا۔ وہ اس سے کوئی بات کرنا چاہتا تھا۔ شاید محسن بھائی کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا تھا۔ ابھی تک تو اس نے کچھ بتایا ہی نہ تھا۔ پھر اسے اپنے اس خیال پر خود ہی ہنسی آگئی۔ وہ بے چارہ کس وقت بات کرتا، دن بھر تو وہ سوتی رہی تھی۔ اس وقت وہ بالکل چاق و چوبند تھی۔ ذہن پر سکون تھا۔ اب وہ واپس آئے تو اس سے پوچھے گی کہ معاملہ کیا ہے ؟ اس کا بھائی جھونپڑی میں کیوں ہے؟ وہاں ایسی کس حالت میں ہے کہ اسے ایک نظر دیکھنے بھی نہیں دیا گیا۔ وہ کچھ دیر اس کا انتظار کرتی رہی۔ لیکن وہ واپس پلٹ کر نہیں آیا۔ وہ اٹھی اس نے سوچا باہر نکل کر دیکھے۔ باہر بہت خوبصورت باغ تھا۔ شام کاوقت ہے۔ ذرا وہاں جاکر ٹہلے۔ اس نے دروازہ کھول کر باہر ہر نکلنے کی کوشش کی لیکن دروازہ نہ کھلا۔ شاید باہر سے بند تھا۔ پھر وہ اندرونی دروازے کی طرف بڑھی جس سے کالا چراغ اندر گیا تھا اور پھر واپس نہ پلٹا تھا۔ یہ دروازہ بھی بند تھا۔ یہ دروازے بند کیوں ہیں؟ کیا اسے قید کر دیا گیا ہے۔ اس تصور پر وہ ہنسی۔۔۔ وہ کوئی شہزادی تھوڑی ہے جسے کوئی جن یا دیو اپنے محل میں قید کر لے۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ شہزادی نہیں ہے لیکن یہ بھی ٹھیک کہ وہ کسی شہزادی سے کم نہیں۔۔۔۔
نہیں اس کا حسن کوہ قاف کی پریوں کو بھی مات دینے والا تھا۔ تھا۔
پھر کالا چراغ جن نہ سہی لیکن جن جیسی چیز ضرور تھا۔۔۔ عجیب شخصیت تھی اس کی۔ کہیں وہ اس کو بند کر کے تو نہیں نکل گیا۔؟؟
پھر اس نے پردہ ہٹا کر ایک دریچے سے جھانکا۔ یہ عمارت کا پچھلا حصہ تھا۔ اونچے درخت درمیان میں گھاس بچھی ہوئی ۔ گھاس کے ساتھ کناروں پر پھولوں کی کیاریاں تھیں۔ اور کچھ فاصلے پر ایک درخت کے بعد دوسرا درخت تھا۔ یہاں بھی اسے کوئی جاندار نظر نہ آیا، نہ انسان، نہ چرند پرند۔۔ دور تک سناٹا تھا۔ ایک عجب طرح کی خاموشی تھی جیسے چند لمحوں بعد ہی کوئی بم پھٹ جائے گا۔ وہ اس کمرے میں کالا چراغ کے انتظار میں یونہی گھومتی، بیٹھتی اور ٹہلتی رہی مگر وہ نہ آیا۔ یہاں تک کہ شام گہری ہونے لگی۔ سورج ڈوبنے سے کچھ دیر پہلے اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور کالا چراغ چہرے پر گہری اداسی لئے اندر داخل ہوا، اس کے ہاتھ میں بڑی کشتی تھی جس میں کھانا رکھا ہوا تھا۔
کشتی اس نے میز پر رکھ دی۔ تانیہ کھانا دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ اتنی جلدی کھانا ؟ “
“تم کھانا دیکھ کر پریشان مت ہو۔ جب تمہارا جی چاہے، کھانا۔ یہ اسی طرح گرم رہے گا جیسا ابھی ہے۔ کھانا میں اس لئے اس وقت لے آیا ہوں کہ میں اندھیرا ہونے سے پہلے یہاں سے چلا جاؤں؟
گا پھر میں صبح آؤں گا۔ جانا میری مجبوری ہے۔ تم بے فکر رہو۔ کھاؤ پیو اور آرام کرو۔ صبح میں آؤں گا اور تمہارے بھائی سے متعلق ہر سوال کا جواب دوں گا۔ میں تمہیں اس کی زندگی کی کہانی سناؤں گا۔ !! اب میں چلتا ہوں۔ بس تم ایک بات کا خیال رکھنا۔ اس کمرے سے باہر نکلنے کی کوشش مت کر پردے ہٹا کر باہر جھانکنا بھی مت۔ ہو سکتا ہے تمہیں کوئی ایسا منظر نظر آجائے جو تمہارے ہوش و حواس گم کر دے۔ باہر سے سنائی دینے دے والی آوازوں پر بھی دھیان مت دینا۔ اب یہ بتاؤ کمرے میں شمع روشن کروں یا فانوس ؟؟۔ میں فانوس روشن کئے دیتا ہوں ۔ شمع کی روشنی ہلکی رہے گی۔ “
یہ کہہ کر اس نے انگلی سے اشارہ کیا اور کمرے میں لٹکے تینوں فانوس تیزی سے جل اٹھے۔ کمرہ اچھا خاصا روشن ہو گیا۔
آپ صبح کتنے بجے آئیں گے؟” تانیہ نے فکر مند ہو کر پوچھا۔
سورج کی پہلی کرن کے ساتھ، میں حاضر ہو جاؤں گا۔ “ کالے چراغ نے بتایا۔
“میں اپنے بھائی کے بارے میں جلد از جلد سب کچھ جاننا چاہتی ہوں ۔ ” وہ بے چین ہو کر بولی
“بس ایک رات کا انتظار اور ۔۔ صبح میں سب کو بتادوں گا ۔ بتا تو میں آج بھی دیتا مگر جب میں کمرے میں آیا، تمہیں سوتا ہوا پایا۔ “ کالے چراغ نے وضاحت کی۔
آپ مجھے اٹھا دیتے۔ ” تانیہ نے کہا۔
” تم بہت گہری نیند میں تھیں، جی نہ چاہا کہ تمہیں اٹھاؤں۔ اچھا میں چلتا ہوں ۔ صبح ملاقات ہوگی۔ کھانا کھا لینا۔ اور جو ہدایت کی ہے اس پر عمل کرنا۔ دیکھو پھر سمجھاتا ہوں۔ باہر مت جھانکنا اور نہ باہر کی آوازوں پر دھیان دینا۔ آؤ، دروازہ اندر سے بند کرلو، اگر دروازے پر دستک ہو تو ہرگزمت کھولنا۔ دستک دینے والا میں نہیں ہوں گا۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو۔ ٹھیک ہے۔ “

یہ کہہ کر اس نے کمرے کا اندرونی دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا۔ تانیہ نے اس کے جاتے ہی دروازہ اندر سے بند کر لیا، وہ دروازہ بھی بند کر لیا جو باہر کی طرف کھلتا تھا۔ پردے اچھی طرح گرا لئے ۔ کالا چراغ اسے اچھا خاصا ڈرا گیا تھا۔
رات گیارہ بجے کے قریب اسے بھوک محسوس ہوئی۔ وہ میز کے نزدیک کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔ کھانا ابھی تک گرم تھا بالکل اس طرح جیسے ہاٹ پاٹ میں رکھا ہو، کھانا بہت مزیدار تھا، اس نے سیر ہو کر کھایا اور پھر کمرے میں چہل قدمی کرنے لگی۔
وہ بارہ بجے تک ٹہلتی رہی۔
چلتے چلتے اچانک اسے ڈائری کا خیال آیا، وہ گھر سے ڈائری لے کر چلی تھی۔ اس نے اپنے بیگ میں سے ڈائری نکال لی اور مرصع کرسی پر بیٹھ کر ایک ایک ورق الٹنے لگی۔ وہ ایک ایک صفحہ الٹتی جاتی تھی اور اپنے بھائی کے بارے میں سوچتی جاتی۔ لیکن کچھ نہ ہوا، کوئی تحریر نہ دکھائی دی۔ مایوس ہو کر اس نے ڈائری بیگ میں ڈال دی۔ اور پھر بستر پر لیٹ گئی۔ کھانا اس نے خوب سیر ہو کر کھایا تھا۔ کرنے کو کچھ تھا نہیں۔ سوچنے کو بہت کچھ تھا۔ سوچتے سوچتے اس کی آنکھوں میں نیند اترنے لگی۔ ابھی وہ اچھی طرح سو بھی نہ پائی تھی کہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس نے خواب دیکھا ہے یا وہ سب کچھ اس نے جاگتے میں دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ کسی کھنڈر میں پتھر پر لیٹی ہے۔ چاند پورے شباب پر ہے۔ اور ہر طرف چمگادڑیں اڑ رہی ہیں بڑی بڑی چمگادڑیں۔ ایک دو چمگادڑیں اس کی طرف بھی لپکیں۔ تبھی اس کی آنکھ کھل گئی۔
یہ کیسا بھیانک خواب تھا۔ یہ ایسا بھیانک خواب تھا کہ وہ جب بھی سونے لگتی یہ خواب اسے نظر آنے لگتا۔ آنکھیں کھولتی تو باہر سے بھی آوازیں آنے لگتیں۔ کبھی کتے بھونک رہے ہوتے۔ کبھی بلیاں لڑ رہی ہوتیں۔ کبھی الو بول رہے ہوتے۔ کبھی گیدڑ کی آواز سنائی دیتی۔ یہ آوازیں کبھی ہلکی ہو جاتیں اور کبھی تیز ہو جاتیں، اسے ایسا لگ رہا تھا جسے باہر ڈیک پر کوئی ساؤنڈ ٹریک سنایا جارہا ہو۔
ایک مصیبت تھی ۔ وہ سوتی تو بھیانک خواب اس کی آنکھوں میں اتر آتا اور جاگ جاتی تو باہر کی ڈراؤنی آوازیں سنائی دینے لگتیں۔
بس اسی طرح آنکھوں میں رات کٹ گئی۔ صبح ہوئی تو اسے نیند نے آدبوچا۔ اس وقت وہ گہری نیند میں تھی جب کوئی دروازے پر مسلسل دستک دے رہا تھا۔ دستک کی آواز پر بمشکل آنکھ کھلی۔ اس نے کلائی پر بندھی اپنی گھڑی پر نظر ڈالی ۔ سات بج رہے تھے۔
وہ فوراً اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ دروازے پر یقیناً کالا چراغ ہو گا۔ دروازے پر کالا چراغ ہی تھا۔ وہ دن نکلتے ہی اپنے وعدے کے مطابق اس کے کمرے میں آگیا تھا۔ تانیہ کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔ آنکھوں میں لال لال ڈورے پڑے ہوئے تھے جو اس کی آنکھوں کو بے حد پرکشش بنا رہے تھے۔ خوبصورت نشیلی آنکھیں۔ وہ ان آنکھوں کو بغور دیکھنے لگا۔ اس کی نگاہوں کی تاب نہ لاکر تانیہ نے جمائی لی اور بولی۔
” رات میں ایک منٹ نہیں سو سکی۔ “
“جانوروں کی آوازوں سے ڈرتی رہیں؟” کالے چراغ نے پوچھا۔
“جانوروں کی آوازوں سے اتنا ڈر نہیں لگا جتنا چمگادڑوں سے۔ “
“کیا مطلب؟” وہ ایک دم چونک گیا۔
مجھے جب بھی نیند آتی ایک بھیانک خواب دیکھنے لگتی جیسے میں کسی کھنڈر میں پتھر پر لیٹی ہوں ۔ اور بڑی بڑی چمگادڑیں ادھر ادھر اڑتی پھر رہی ہیں۔ ایک دو میری طرف بھی لپکتی محسوس ہوتیں۔ ” تانیہ نےبتایا۔
اوہ ۔ ” کالے چراغ نے اپنا سر پکڑ لیا۔ اصل میں غلطی مجھ سے ہو گئی۔ مجھے اس بات کا خیال ہی نہ رہا۔ ” “کیسی غلطی؟ کس بات کا خیال؟ ” تانیہ اس کی بات سمجھ نہ سکی۔
“بس ہو گئی ایک غلطی ۔ ” کالے چراغ نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا۔ ”آج کی رات تمہیں خواب ہرگز نہیں دکھائی دے گا۔ “
“چلیں، ٹھیک ہے۔ ” تانیہ نے بحث میں الجھنا مناسب نہ سمجھا۔
“اب تم جاکر منہ ہاتھ دھولو، میں تمہارے لئے ناشتہ لے کر آتا ہوں۔ پھر اطمینان سے بیٹھ کر بات کریں گے ۔ “
یہ کہہ کر کالا چراغ اٹھ گیا اور اندرونی دروازے سے باہر نکل گیا۔
اس کے جانے کے بعد تانیہ نے پردہ ہٹا کر باہر جھانکا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا۔ وہ اندر حمام میں گئی۔ اس نے اطمینان سے منہ ہاتھ دھویا اور باہر آگئی۔ ابھی وہ کرسی پر بیٹھی ہی تھی کہ کالا چراغ کشتی اٹھائے اندر داخل ہوا۔ اس نے کشتی میز پر رکھی ناشتے کے لوازمات سے بھری ہوئی تھی۔
“مجھے بڑی شرمندگی ہوتی ہے کہ آپ میرے لئے ٹرے اٹھا کر لاتے ہیں، کیا اس محل نما عمارت ایک بھی ملازم نہیں؟؟” تانیہ نے پوچھا۔
یہاں بہت لوگ ہیں لیکن ایسا کوئی نہیں جو یہ کام کر سکے۔ تمہیں شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔ ناشتہ کرو”

“آپ سمجھ میں نہ آنے والی باتیں بہت کرتے ہیں۔ کیا آپ کو دوسرے کو الجھا کر بہت مزہ آتا ہے؟؟؟”
“میں کسی کو کیا الجھاؤں گا۔ میں خود ایک طویل عرصے سے الجھا ہوا ہوں ۔
” آپ کو کس نے الجھایا ہے؟” تانیہ نے ٹوسٹ پر مکھن لگاتے ہوئے پوچھا۔
“بقال نے۔ “سے
“یہ بقال آخر کیا بلا ہے؟ آپ نے کل بھی اس کا ذکر کیا تھا ؟ “
اسے بلا نہ کہو، میں اس پر مرتا ہوں ۔”
” مرتا ہوں ؟ ” تانیہ ذرا سنبھل کر بیٹھ گئی۔
“ہاں، مرتا ہوں مگر افسوس وہ کسی اور پر مرتی ہے
کس پر۔ “
تمہارے بھائی محسن راؤ پر۔ “
“یہ کیسا مرنا ہے کہ وہ ان پر مرتی بھی ہے اور انہیں قید بھی کر رکھا ہے۔ “
“یہی تو المیہ ہے اور یہی سب بتانے کے لئے تمہیں یہاں لایا ہوں ۔ “
تو پھر بتائیے۔ میں سننے کے لئے بے تاب ہوں ۔ “
تم اپنے بھائی محسن راؤ کے بارے میں کتنا جانتی ہو ؟ “
“اتنا جانتی ہوں کہ میرے بھائی محسن راؤ کو جب وہ بارہ یا تیرہ چودہ سال کے تھے تو میرے چچا راؤ احمد علی نے شکار کھیلتے ہوئے انہیں اغواء کر والیا تھا اور انہیں جان سے مروا دیا تھا۔ میرے والد کو قتل کرنے سے پہلے راؤ احمد علی نے یہی بتایا تھا کہ وہ محسن راؤ کو قتل کروا چکا ہے۔ لیکن میرا بھائی تو آج تک زندہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ راؤ احمد علی کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔”
“غلط فہمی نہیں ہوئی۔ اسے اس کے لوگوں نے یہی بتایا کہ وہ اس کے حکم کے مطابق قتل کر آئے ہیں۔ اس کے لوگوں نے محسن راؤ کی لاش کے ٹکڑے دیکھے تھے۔ ” “میرے بھائی کی لاش کے ٹکڑے۔ ” تانیہ نے گھبرا کر پوچھا۔
ہاں، تمہارے بھائی کی لاش کے ٹکڑے جو ایک ایک کر کے ان لوگوں کے سامنے گرے ۔ “
پھر میرا بھائی زندہ کیسے ہے۔ ” تانیہ فکر مند ہو گئی۔ ”کیا اس جھونپڑی میں میرے بھائی کے علاوہ کوئی اور ہے۔؟؟”
” کوئی اور نہیں، وہ تمہارا اپنا سگا بھائی محسن راؤ ہے۔ ٹھہرو، میں تمہیں شروع سے بتاتا ہوں ۔ “
کالے چراغ نے گہرا سانس لے کر کہا
“تمہارا بھائی لاہور کے ایک بہت اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اس وقت وہ آٹھویں یا نویں کلاس میں تھا۔ وہ ایک ذہین اور تیز طرار لڑکا تھا۔ چھوٹی سی عمر
میں اس نے بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ گاؤس کی زندگی سے اسے عشق تھا۔ شکار کا اسے جنون کی حد تک شوق تھا۔ اس کا نشانہ بہت اچھا تھا۔ اس کے پاس اٹلی کی بنی ہوئی ایک دو نالی بندوق تھی۔ اس بندوق کا لائسنس تو تمہارے والد کے نام تھا لیکن زیادہ تر استعمال محسن راؤ کرتا تھا۔ یہ بندوق، ساون پور کی حویلی میں ہی رہتی تھی۔ راؤ احمد علی کا چھوٹا بیٹا اقبال راؤ اگرچہ اس سے عمر میں بڑا تھا لیکن اس کی دوستی، ان سے زیادہ تھی۔ وہ دونوں ساون پور میں ہر جگہ ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ اس مرتبہ محسن راؤ، ساون پور آیا تو راؤ احمد علی نے اس کے لئے جال بن رکھا تھا۔ محسن راؤ، اس کے لئے خطرہ بنتا جا رہا تھا۔ بے چارے باپ نے تو اپنے بھائی سے کبھی حساب نہ مانگا تھا لیکن بیٹا حساب مانگنے لگا تھا۔ راؤ احمد علی نے سوچ لیا تھا کہ محسن راؤ کا اس مرتبہ مستقل حساب صاف کر دے گا۔ وہ جب ساون پور آتا تو اس کے ساتھ دو محافظ آتے تھے ان محافظوں کی موجودگی میں کوئی کھیل کھیلنا آسان نہ تھا۔ لہذا اس نے محسن راؤ کے لئے جنگل میں پھندا تیار کروایا ۔ شکار کا تو اسے شوق تھا ہی۔ اقبال راؤ نےجب اسے یہ اطلاع دی کہ اس مرتبہ جنگل میں کچھ ہرن دیکھے گئے ہیں تو یہ سن کر محسن راؤ دیوانہ ہو گیا۔ اس نے اب تک تیتر کا شکار کیا تھا۔ بڑے جانور کا شکار نہ کیا تھا۔ اس نے دوسرے ہی دن شکار کا پروگرام بنا لیا۔ صبح سویرے ہی اقبال راؤ اور وہ ، چند ملازمین کے ساتھ شکار پر جانے کے لئے تیار ہو گئے۔ اس کام کے لئے دو جیپیں منتخب کی گئی تھیں۔ سب لوگ بیٹھ چکے تھے۔ محسن راؤ کے محافظوں کا انتظار تھا۔ پھر کسی نے آکر بتایا کہ وہ دونوں گہری نیند سو رہے ہیں۔ اٹھائے نہیں اٹھ رہے۔ دوسرے ملازموں نے بتایا کہ وہ جی رات بھر تاش کھیلتے رہے ہیں، صبح تڑکے سوئے ہیں۔ اصل میں رات کو ان دونوں کو گرم دودھ میں افیون ڈال کر دے دی گئی تھی۔ نتیجے میں وہ انٹا غفیل ہوئے پڑے تھے۔ محسن راؤ کو جنگل میں ان کی ضرورت بھی نہ تھی۔ وہ دونوں پر لعنت بھیج کر شکار پر نکل گیا۔ اقبال راؤ اپنے باپ کے ساتھ اس سازش میں شریک تھا۔ وہ محسن راؤ کو انہی راستوں پر لے گیا جہاں راؤ احمد علی کے آدمی ، ڈاکو کے بھیس میں چھپے ہوئے تھے۔ جیسے ہی وہ دونوں ان کی پہنچ میں آئے۔ ڈاکو گھوڑے دوڑاتے ہوئے باہر نکل آئے اور ایک ڈاکو نے اسے اٹھا کر گھوڑے پر لاد دیا اور خود بھی سوار ہو گیا۔ پھر وہ چاروں ڈاکو محسن راؤ کو لے اڑے۔ اس طرح یہ اغواء کا کھیل مکمل ہوا۔ بعد میں یہ خبر لے کر آفتاب راؤ لاہور پہنچا، جسے سن کر تمہارے والد دیوانے ہو گئے تھے۔
جنگل میں کافی اندر جانے کے بعد وہ چاروں ڈاکو ایک جگہ ٹھہر گئے۔ ایک ڈاکو نے محسن راؤ کو گھوڑے سے اتارا اور سامنے ایک درخت کے تنے سے باندھ دیا۔ محسن راؤ کی سٹی گم تھی۔ اس کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہو چکا تھا۔ اب وہ پچھتا رہا تھا کہ اس نے اپنے باپ کے کہے پر عمل نہ کر کے کتنی بڑی غلطی کی تھی۔ راؤ شمشاد علی نے اسے ہدایت کی تھی کہ بغیر محافظوں کے کہیں نہ جانا۔ اگر شکار پر اس کے ساتھ اپنے محافظ ہوتے تو اتنی آسانی سے اس کا اغواء ممکن نہ تھا۔ خیر اب جو ہونا تھا ہو چکا تھا یا شاید ابھی نہیں ہوا تھا، ہونے والا تھا۔ اسے درخت سے باندھ کر شاید وہ اسے شوٹ کرنا چاہتے تھے۔

تم لوگ کون ہو ؟ کیا چاہتے ہو ؟ ” محسن راؤ نے گھبرا کر پوچھا۔
ہم لوگ تمہاری موت ہیں، تمہیں یہاں قتل کرنے کے لئے لائے ہیں۔ “ ان میں سے ایک نے ہنس کر کہا۔
میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔ کیوں تم لوگ مجھے قتل کرنا چاہتے ہو۔ دیکھو، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم میری جان بخش دو، اس کے عوض تم جتنی رقم کہو گے اپنے بابا سے دلوادوں گا۔ “
رقم تو ہم لے چکے ہیں ۔” ان میں سے ایک ڈاکو بولا۔ ”اور یہ رقم ہم نے تمہاری جان لینے کے لئے لی ہے۔ ہم اپنے کئے ہوئے سودے سے کبھی نہیں پھرتے۔ اب یہ تمہاری قسمت کہ جان لینے کا سودا پہلے ہو گیا۔ “
وہ چار تھے۔ چاروں کے چہرے پر ڈھائے بندھے ہوئے تھے۔ ان میں سے دو اس حق میں تھے کہ حسن راؤ کو فوراً گولیوں سے چھلنی کر دیا جائے۔ ایک کا خیال تھا کہ مارنے کے بجائے اسے یوں ہی بندھا ہوا چھوڑ دیا جائے۔ اس ویران جنگل میں اس کی موت خود بخود ہو جائے گی۔ چوتھا ڈانواں ڈول تھا۔ کبھی وہ سوچتا کہ اسے فوراً مار دیا جائے۔ کبھی اسے اس کے بچے ہونے پر رحم آجاتا اور وہ اپنے اس ساتھی کا ہم نوا بن جاتا جس کا خیال تھا کہ اسے بندھا ہوا چھوڑ کر چلا جائے۔ ابھی وہ چاروں اس مسئلے پر مشاورت کر ہی رہے تھے کہ محسن راؤ زور سے بولا۔ ” بات سنو ۔ “
وہ چاروں دور کھڑے تھے۔ اس کی آواز سن کر ایک اس کے نزدیک چلا گیا۔
”ہاں، بولو۔ “
” اب جبکہ تم مجھے قتل کیا ہی چاہتے ہو، کیا تم مرنے مرنے والے سے اس کی آخری خواہش نہیں پوچھو گے۔”
”ہاں، ہاں کیوں نہیں پوچھیں گے۔ بتاؤ، تمہاری آخری خواہش کیا ہے۔ “
میں اس شخص کا نام جاننا چاہتا ہوں جس نے تمہیں اس کام پر لگایا ہے۔ ” محسن راؤ نے کہا
ٹھیک ہے، میں بتائے دیتا ہوں اس کا نام ۔ ” وہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا۔
”اسکا نام راؤ احمد علی ہے ۔ “
“اوہ، میرا چچا۔ ” محسن راؤ ٹھنڈی سانس لے کر رہ گیا۔ “اے اللہ، تو انصاف کرنے والا ہے۔ “
وہ محسن راؤ کی بات سن کر مسکراتا ہوا اپنے ساتھیوں کے نزدیک آگیا۔
“کیا پوچھتا تھا۔؟ “ ایک نے سوال کیا۔
“قاتل کا نام پوچھ رہا تھا۔ “ اس نے بتایا۔
“کیا تم نے بتادیا ؟ “
“ہاں، میں نے بتا دیا۔ یہ اس کی آخری خواہش تھی۔ جو میں نے پوری کر دی۔ “
” چلو اب اس کی آخری خواہش بھی پوری کر دی گئی۔ اب پھانسی کی تیاری کرو۔ “
“پہلی گولی کون چلائے گا۔ “
“میں چلاؤں گا۔ ” پہلا بولا۔
“اور دوسری گولی کون چلائے گا۔ “
“دوسری میں چلاؤں گا۔ ” دوسرا بولا۔
“اور تیسری ۔ ” پہلے نے پوچھا۔
“یار، دو گولیاں بہت ہیں، کیوں اپنی گولی ضائع کرتے ہو۔ “ تیسرے نے رائے دی۔
” تم کیا کہتے ہو ؟ “
“یار، اس لڑکے پر مجھ سے گولی نہیں چلائی جائے گی ۔ ” چوتھے نے صاف جواب دیا۔ یہ چوتھا وہ ڈاکو تھا جو اسے مارنے کے بجائے بندھا ہوا چھوڑ کر چلے جانے کے حق میں تھا۔
“اوئے ہٹو بزدلو۔ “
پہلے نے تیسرے اور چوتھے شخص کو اپنے سامنے سے ہٹایا اپنے کندھے سےبندوق اتاری ، نال کھول کر کارتوس چیک کیا۔ کارتوس موجود تھا، نال بند کر کے اس نے گھوڑا چڑھایا اور بندوق سیدھی کر کے اس نے محسن راؤ کے دل کا نشانہ لیا اور بولا۔
” پہلی گولی میں چلاتا ہوں ۔ اور وہی آخری بھی ہوگی۔ اسی گولی میں اس کا کام تمام ہو جائے گا۔ “
نشانہ لے کر ابھی اس نے لبلبی پر انگلی دھری ہی تھی، اور وہ اسے دبانا ہی چاہتا تھا کہ کسی نے ایک دم بلا کر کہا کر کہا۔
”گولی مت چلانا۔ “
چاروں نے ایک ساتھ پیچھے مڑ کر دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے۔
آنے والا بڑا عجیب شخص تھا۔ وہ ایک درخت کی اوٹ سے اچانک ہی باہر آیا تھا۔ جانے وہ اس درخت کے پیچھے کب سے کھڑا تھا۔ وہ ایک کھاتا پیتا موٹا تازہ شخص تھا۔ اوپر کا دھڑ ننگا تھا۔ نیچے اسنے ایک مٹیالی سی دھوتی باندھ رکھی تھی۔ اس کے جسم پر بے پناہ بال تھے۔ گلے میں الو کا پنجہ، تعویذ کی طرح لٹکا ہوا تھا۔ بڑی بڑی خوفناک مونچھیں سر منڈا ہوا۔ اور چمکتا ہوا جیسے سر پر تیل چپڑ رکھا ہو، کندھے پر ایک سرخ منه والا بندر بیٹھا ہوا تھا۔ بندر نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے سر پر رکھے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں ایک مضبوط لاٹھی تھی۔ اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کون ہے اور اس جنگل میں کیا کر رہا ہے۔
” یار، یہ بن مانس کہاں سے آگیا ہے؟ کیا خیال ہے چلا دوں اسی پر گولی ؟” پہلے شخص نے برابر میں کھڑے اپنے دوسرے ساتھی سے پوچھا۔
“بلا وجہ اپنے سرخون لینے کا کیا فائدہ، اسے نزدیک آنے دو پتہ تو چلے یہ آخر کون ہے ۔ ” دوسرے نے مشورہ دیا۔ اتنے میں وہ ان چاروں کے نزدیک آگیا۔ اس کے انداز میں ذرا ڈر خوف نہیں تھا۔ وہ اطمینان سے چلتا ہوا اس شخص کے سامنے پہنچ گیا جو محسن راؤ پر گولی چلانے والا تھا۔
“کیوں مارو ہورے، اس چھورا کو ۔ ” اس کی آواز اس کی شخصیت کی طرح بھاری تھی۔
” تم کون ہو اور اس جنگل میں کیا کر رہے ہو ۔ ؟؟”
ہم اپنے جناور سنگ جنگل پھرن آئے ہیں۔ سب مارے کو راج مداری کہوے ہیں۔ ” اس نے اپنے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
” اچھا مداری ہو۔ چلو پھر ادھر جو تماشا ہو رہا ہے۔ وہ دیکھ لو۔ تم بگے صوھی کیا یاد کرو گے۔ “
لو یہ بھی کوئی کھیل ہوا رے۔ دمبوک ( بندوق ) چلا کے مانس کی جان لے لی ۔ کہو تو ہم دکھائیں تماسا؟؟ “
” تم کیا تماشا دکھاؤ گے۔ کیا تم اس لڑکے کو بغیر ہاتھ لگائے ختم کر سکتے ہو۔ “ ایک شخص نے مذاق کیا
” ہاں کر سکیں ہیں۔ ہاتھ لگائے بنا یہ چھورا ٹوٹے ٹوٹے ہو سکے ہے ۔ ” راج مداری نے اس مذاق کے سنجیدگی سے لیا۔
“ٹوٹے ٹوٹے, ہاتھ لگائے بغیر یہ کیسے ممکن ہے۔ “ وہ چاروں پریشان ہوئے۔
“تو پھر دکھاویں تماسا، سرو کریں کھیل ۔ ؟” راج مداری نے اپنے بندر کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئےکہا۔
” یار، اس کے چکر میں کہاں آرہے ہو۔ اپنا کام کرو اور نکل لو۔ “ ان چاروں میں سے ایک نے کہا۔
“ایسی جلدی کیا ہے۔ اس نے دعویٰ کیا ہے کہ ہاتھ لگائے بغیر اس کے ٹوٹے کر دے گا۔ ذرا ہم بھی دیکھ لیں اس تماشے کو۔ ہاں مداری اگر تم نا کام ہو گئے تو پھر کیا ہو گا۔؟ “
پھر کچھ نہ ہوگا۔ تمہاری دمبوک ہوگی اور مارا سینہ ۔ ” راج مداری نے بڑی بے نیازی سے کہا۔
“چلو، پھر ہو گئی بات۔ دکھاؤ اپنا جلوہ ۔ “
“ابھی لو۔ “
راج مداری خوش ہو کر بولا پھر اس نے بندر کا ہاتھ پکڑ کر اسے زمین پر اتارا۔ بندر خاموشی سے ایک جگہ بیٹھ گیا۔ راج مداری نے اپنی لاٹھی سے ایک بڑا دائرہ کھینچا اور ان چاروں سے مخاطب ہو کر بولا۔
” اس چکر کے اندر پیرمت دھرنا۔ “
“چلو ٹھیک ہے ۔ “
چاروں نے اقرار کر لیا۔ پھر وہ راج مداری بڑے دائرے کے ایک طرف بیٹھ گیا۔ آلتی پالتی مار کر اس نے سادھوؤں کی طرح آسن جمایا۔ اس نے اپنی بڑی بڑی سرخ آنکھوں سے ان چاروں کو دیکھا۔ اور پھر اپنی لاٹھی کو زمین
پر پھینک دیا۔ وہ لاٹھی زمین پر گرتے ہی لہرا گئی۔ وہ لاٹھی موٹی رسی کی شکل اختیار کر گئی تھی۔ اور دھیرے دھیرے اوپر کی طرف بلند ہوتی جارہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھے وہ اتنی بلند ہوگئی کہ اوپر کا سرا نظروں سے غائب ہو گیا۔
اس تماشے ہی نے ان چاروں کو حیران کر دیا۔ آگے ابھی تو بہت کچھ ہونا تھا۔ راج مداری نے تب اشارے سے کہا۔
“چھورے نے لاؤ۔ “
“اچھا۔ ” پہلے شخص نے کہا۔ ”کیا اسے کھول کر لانا ہو گا ۔ “
راج مداری نے اشارے سے جواب دیا۔
”ہاں، پھرتی دکھاؤ۔ “
تب پہلے شخص نے اپنے دوسرے ساتھی کو اشارہ کیا کہ وہ محسن راؤ کو کھول کر یہاں لے آئے اس نے راج مداری کی طرف بندوق تان لی تاکہ کسی بھی گڑ بڑ کی صورت میں گولی چلا کر اس مداری کا مداوا کیا جاسکے۔
راج مداری نے اس بات کی پروانہ کی کہ اسے نشانے پر لے لیا گیا ہے۔ وہ پورے آرام سے کچھ پڑھتا رہا۔ دائرے کے قریب جب محسن راؤ اور دوسرا شخص آگیا تو راج مداری نے محسن راؤ کو اندر آنے کو کہا۔ محسن راؤ حیران پریشان دائرے میں آگیا۔ پھر راج مداری نے محسن کو قریب بلا کر آہستہ سے کچھ سمجھایا اور واپس اپنی جگہ جانے کو کہا۔
“چھورے کے نام ہے تیرا۔ ” راج مداری نے پوچھا۔
“محسن راؤ “
” اس رسی پہ چڑھ سکے ہے رے تو ۔ ؟؟“
”ہاں، کیوں نہیں ۔۔بہت آسانی سے ۔ “
‘تو پھر چڑھ جا۔ “
راج مداری ایک بات یاد رکھنا، کوئی چالاکی دکھائی تو اپنی جان سے جاؤ گے۔ ” پہلے شخص نے دھمکی دی
راج مداری نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی اور محسن راؤ سے مخاطب ہو کر بولا۔
” چلو چھورا، رسی پکڑو اور اوپر چلو۔ “
محسن راؤ نے اپنے جوتے اتارے اور رسی پکڑ کر اوپر چڑھنے لگا۔
“چلو اور اوپر، اور اوپر ۔ ” راج مداری ہدایت دے رہا تھا۔
محسن راؤ رسی پکڑ کر تیزی سے اوپر چڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ نظروں سے غائب ہو گیا۔
“محسن اوپر پہنچ گیو رے ۔؟؟ “
“ہاں پہنچ گیا ۔ “
اوپر سے آواز آئی لیکن وہ دکھائی نہ دیا۔ وہ چاروں دم سادھے رسی کے سرے کو دیکھ رہے تھے جس پر چڑھتے چڑھتے محسن اچانک غائب ہو گیا تھا۔
” اپنی کمیج اتار کر نیچے پھینک۔ “
راج مداری نے حکم دیا۔ چند لمحوں بعد ایک قمیص اوپر سے لہراتی ہوئی زمین پر آگری۔ یہ محسن راؤ کی ہی قمیص تھی
” چل اب بنیان بھی اتار ۔ “
یہ حکم ملتے ہی بنیان بھی لہراتی ہوئی نیچے زمین پر آگری۔ اس کے بعد راج مداری نے محسن سے سارے کپڑے ایک ایک کر کے نیچے منگوا لئے۔
اب تھارے بدن پہ کا ہے رے چھورا؟؟؟”
“کچھ نہیں۔ ” اوپر سے محسن راؤ کی آواز آئی۔
” ٹھیک ہے۔ “
راج مداری نے کہا۔ پھر وہ ان چاروں سے مخاطب ہو کر بولا۔
”اب اصل تماسا سرو ہووے ہے جرا حوصلے سے دیکھنا۔ “ اپنی دھوتی کا پٹ کھول کر اس میں لپٹا ہوا چاتو نکالا اور پھر دھوتی کس کر باندھ لی۔ چھ انچ لمبے پھل کا چمکدار چاقو کھول کر اس نے زمین پر رکھ دیا اور اپنے بندر کو اشارہ کیا۔ بندر چاقو اپنے منہ میں دبا کر رسی پر چڑھ گیا۔ واپس آیا تو اس کے منہ میں چاقو نہ تھا۔ وہ خاموشی سے راج مداری کے پاس بیٹھ گیا۔ راج مداری آنکھیں بند کر کے تیزی سے کچھ پڑھنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں تو اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں اس قدر خوفناک نظر آرہی تھیں کہ ان چاروں میں سے ایک کی بھی ہمت نہ تھی کہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکے۔ اب اس نے زمین پر اپنی انگلی سے ایک لکیر کھینچی اور بولا ۔
”سیدھا ہاتھ ۔ “
چند لمحوں میں سیدھا ہاتھ شانے سے الگ ہو کر زمین پر آگرا۔ ایسا لگتا تھا جیسے چاقو سے کاٹ کر نیچےپھینکا گیا ہو۔ وہ خون آلود ہو رہا تھا۔
” الٹا ہاتھ “
راج مداری نے زمین پر دوسری لکیر کھینچی اور بولا۔
چند لمحوں میں ہی الٹا ہاتھ کٹ کر زمین پر آرہا۔
پھر اس نے تیسری لکیر زمین پر کھینچی اور حکم دیا۔ ”سیدھی ٹانگ۔ “
سیدھی ٹانگ آنے میں چند سیکنڈ لگے۔
اس طرح چوتھی، پانچویں اور چھٹی لکیر پر الٹی ٹانگ، سر اور پھر دھڑ کٹ کر نیچے آگرا۔ وہ سر اور جسم کے اعضاء محسن راؤ کے ہی تھے۔ اس منظر نے ان کی سٹی گم کر دی۔ وہ راج مداری کو محض بندر کا تماشا دکھانے والا سمجھ رہے تھے لیکن وہ تو ان سے بڑا قاتل نکلا تھا۔ اس نے اپنے دعوے کے مطابق بغیر ہاتھ کے حسن راؤ کے ٹوٹے کر دیئے تھے جنہیں وہ چاروں اپنی آٹھ آنکھوں سے حیرت زدہ ہو کر دیکھ رہے تھے
“اب کھڑے کھڑے کا دیکھو ہو۔ جاؤ اپنا رستہ پکڑو۔ صبح ہی صبح تاؤ دلا کر ہم سے خون کروا دیا اور وہ بھی ایک چھورا کا۔ بڑا پاپ کر وا دیا رے تم لوگوں نے۔ اب اپنی سکل گم کرو رے۔ مارے کو کہیں گسا آجاوے۔ پھر تم میں سے کوئی ادھر ٹوٹے ٹوٹے نہ ہو جائے۔ جاؤ بھا گو۔ “
یہ بات اس نے اتنےخوف زدہ کرنے والے انداز میں کہی کہ ان چاروں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ویسے بھی وہ محسن راؤ کو قتل کرنے آئے تھے، وہ اسے گولی مار کر قتل کرتے۔ اب وہ بغیر گولی کے ہی ہو گیا تھا۔ قتل بھی ایسا کہ اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔ ایسی سفاکی سے تو وہ بھی اسے نہیں مار ۔ اب یہاں رکنا فضول تھا۔ کیا پتہ یہ راج مداری واقعی غصے میں آجائے اور خواہ مخواہ ان میں سے کوئی ٹوٹے ٹوٹے ہو جائے۔
چاروں نے ایک دوسرے کو آنکھوں آنکھوں میں چلنے کا اشارہ کیا۔ اور پھر وہ اپنے اپنے گھوڑوں کی طرف بھاگے۔ کھٹا کھٹ سوار ہوئے۔ اور انہیں ایڑی مار مار کر ہوا ہوگئے۔ جنگل میں کچھ دیر انکے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز گونجتی رہی۔ پھر وہ معدوم ہو گئی۔
اور پھر اپنے برابر بیٹھے بندر سے بولا
”لارے رسیا، چاکو ۔ “
وہ بے چارہ بندر بھی اتنی دیر سے اپنے منہ میں چاقو دبائے پریشان ہو رہا تھا، اس نے فوراً سامنے آکر چاقو اپنے دانتوں سے چھوڑ دیا۔ راج مداری نے کھلا ہوا چمکتا ہوا چاقو بند کیا اور اپنی دھوتی میں باندھ لیا
جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ چاروں دور جا چکے ہیں تو اس نے اپنی ران پر ہاتھ مار کر زور دار قہقہہ لگایا اور زور سے آواز لگائی۔
”آجارے چھورا۔ “
یہ آواز سن کر محسن راؤ جو ایک درخت کے پیچھے چھپا یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ ہنستا ہوا درخت کی اوٹ سے
باہر نکل آیا۔ اور اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔ اب نہ وہاں محسن کی لاش کے ٹکڑے تھے، نہ آسمان کی طرف جاتی رسی تھی۔ البتہ راج مداری کی رسی زمین پر اسی طرح پڑی تھی جیسے اس نے پھینکی تھی۔ محسن کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ یہ کیا طلسم تھا۔ وہ حیران پریشان راج مداری کو دیکھ رہا تھا۔ البتہ اس بات کی خوشی تھی کہ اس کی جان بچ گئی تھی۔۔ ان کرائے کے قاتلوں سے راج مداری نے اسے بچالیا تھا
بے شک جادو کے زور سے ہی سہی۔
راج مداری یہاں سے کچھ فاصلے پر بیٹھا آسن مارے عملیات میں مصروف تھا۔ اس کا بندر درختوں پر ادھر سے ادھر جھولتا پھر رہا تھا۔ رسیا نے جب محسن راؤ کو درخت سے بندھے ہوئے دیکھا تو فوراً راج مداری کے پاس پہنچا اور اپنے اشاروں سے اسے اٹھنے پر مجبور کر دیا۔ راج مداری نے ادھر کا تماشا دیکھا۔ اسے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ لوگ کرائے کے قاتل ہیں اور اس لڑکے کو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ راج مداری کو محسن راؤ اچھا لگا۔ اس کے کوئی بیٹا نہ تھا۔ بس ایک لڑکی جو محسن راؤ سے ایک دو سال بڑی ہوگی۔ اس نے فوراً اسے اپنا بیٹا بنانے کا ارادہ کر لیا۔
راج مداری نے بندر اور ریچھ ضرور پالے ہوئے تھے لیکن وہ گلی کوچوں میں ریچھ بندر کا تماشا دکھانے والوں میں سے نہ تھا۔ وہ اپنے فن کا مظاہرہ راجاؤں، نوابوں، جاگیرداروں اور بڑے لوگوں میں کیا کرتا تھا۔ جب کسی بڑے آدمی کو اپنے رشتے داروں، عزیزوں کو انوکھی تفریح مہیا کرنا ہوتی تو وہ راج مداری کو بلوا بھیجتا۔ اس کا دو ڈھائی گھنٹے کا تماشا لوگوں کو دم بخود کر دیتا تھا۔ کافی عرصے سے وہ ایک مددگار کی تلاش میں تھا۔ اس کی لڑکی اب جوان ہو گئی تھی۔ راج دا۔ مداری کے ساتھ وہی جاتی تھی لیکن وہ اب چاہتا نہیں تھا کہ ان تماشوں میں اپنی بیٹی کو ساتھ رکھے، محسن راؤ کو دیکھ کر اس کے دل کی کلی کھل گئی اور اس نے کھڑے کھڑے فیصلہ کر لیا کہ ان چاروں قاتلوں سے جان کیسے چھڑانی ہے۔
ان سے جان چھڑانے میں اسے زیادہ محنت نہ کرنا پڑی۔ وہ چاروں احمق خود بخود اس کے جال میں پھنس گئے۔ پھر جب انہوں نے محسن راؤ کے ٹکڑے زمین پر گرتے دیکھے تو ان کے ہوش اڑ گئے
وہ لوگ اپنے گھوڑے سرپٹ دوڑاتے جنگل میں گم ہو گئے تھے۔
قاتل تو چلے گئے تھے۔ لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ محسن راؤ کو اپنا کیسے بنایا جائے۔ وہ چھوٹا ضرور تھا لیکن نادان نہ تھا۔ اب تو اسے یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ اسی شکار کی آڑ میں اس کے قتل کی سازش کی گئی تھی اور یہ سازش اس کے اپنے چچا راؤ احمد علی نے کی تھی۔ اس کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس نے طے کر لیا تھا کہ وہ اپنے چچا سے اس سازش کا بدلہ لے کر رہے گا۔
فی الحال تو اس جنگل سے نکل کر کسی طرح لاہور پہنچنے کا مسئلہ اس کے سامنے تھا۔ اور راج مداری یہ سوچ رہا تھا کہ اس لڑکے کی روح پر کس طرح قبضہ کیا جائے کہ وہ سب کچھ بھول جائے اور اسے چھوڑ کر کہیں جانے کا نام ہی نہ لے۔
“چھورا تو کون ہے رہے ۔ یہ لوگ تو ہے کاں سے لائے ۔ “ جواب میں محسن راؤ نے مختصراً اپنے بارے میں سب کچھ بتادیا۔ راؤ احمد علی اور ساون پور کے بارے راج مداری چونکا۔ اس کا یہ نام کہیں سنا ہوا تھا۔ ساری کہانی سن کر راج مداری نے محسن راؤ کو کہا کہ اب وہ بے فکر ہو جائے ۔ اب اسے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ اس کے ساتھ اس بستی میں چلے۔ وہاں سے لاہور جانے کا بندوبست کر دیا جائے گا۔ راج مداری اگر اسے اپنے ساتھ
لے جانے کی پیشکش نہ کرتا تو بھی اسے اسی کے ساتھ جانا تھا۔ وہ اس جنگل سے اکیلا تو نکل نہیں سکتا تھا۔ اس نے فوراً راج مداری کی پیشکش قبول کرلی اور اس کے ساتھ چلدیا۔
راج مداری نے وہاں سے تھوڑے سے فاصلے پر اپنا آسن جمایا ہوا تھا، وہاں بیٹھا وہ اپنے کسی عمل میں مصروف تھا۔۔ وہ محسن راؤ کو لے کر عمل والی جگہ پر پہنچا۔ رسیا اس کے کندھے پر چڑھا ہوا تھا۔ وہاں زمین پر ریچھ کی کھالی بچھی ہوئی تھی۔ ایک طرف جھولی رکھی تھی۔ کھال کے سامنے پانی سے بھری ایک چھوٹی بالٹی دھری تھی۔ راج مداری نے محسن راؤ کو اس بالٹی سے پانی پلایا۔ اور پھر ریچھ کی کھال تہہ کر کے جھولی میں ڈالی ۔ جھولی اپنے کندھے پر لٹکائی۔ بالٹی ہاتھ میں پکڑی ۔ رسیا کو کندھے پر چڑھایا اور پھر تیز تیز ایک سمت چل پڑا۔ محسن راؤ اس کے پیچھے ہولیا۔
کوئی ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ جنگل سے نکلے۔ جنگل سے نکل کر راج مداری نے اس سے پوچھا
“تو تھکا تو نہیں رے چھورا۔ “
“نہیں، بالکل نہیں۔ میں تو اس سے زیادہ جنگل میں گھوم لیتا ہوں۔ شکار کے لئے تو بہت چلنا پڑتا ہے”
“بہت بڑھیا۔ “
راج مداری خوش ہو کر بولا۔
”ویسے ماری بستی اب جیادہ دور ناہیں۔ وہ سامنے نہر کا پل ہے پل اترتے ہی ماری بستی ہووے ۔ “
راج مداری نے نہر کا پل وہ سامنے ہے اس طرح کہا تھا جیسے ایک ادھ فرلانگ کا فاصلہ ہو گا اس کا وہ سامنے دو میل کے برابر ثابت ہوا تھا۔ خیر نہر کا پل پار کر کے محسن راؤ کو جھونپڑیوں پر مشتمل ایک بستی دکھائی دی۔ انہی جھونپڑیوں میں کچھ کچے پکے مکان بھی دکھائی دے رہے تھے۔ راج مداری کا مٹی کا بنا دو کمرے کا مکان تھا۔ کمروں کے سامنے ایک کھلا صحن تھا۔ اور صحن کے گرد چار فٹ اونچی کچی چار دیواری بنی ہوئی تھی۔
یہ ایک چھوٹی سی بستی تھی زیادہ تر یہاں کھیل تماشے دکھانے والے مداری آباد تھے۔ ہر گھر کے سامنے ریچھ، بندر، بکرے اور کتے بندھے ہوئے تھے۔ راج مداری کا مکان سب سے اچھا اور بڑا صاف ستھرا اور لپا پتا تھا وہ اس بستی کا سردار تھا اور لکھیا جی کہلاتا تھا۔ راج مداری کی بیٹی کا نام یوں تو رکھی تھا لیکن وہ اسے راکھی کہہ کر پکارتا تھا۔ راکھی چودہ پندرہ سال کی ایک پر کشش لڑکی تھی۔ وہ اپنی ماں پر گئی تھی۔ اس کی ماں کو مرے دو سال ہوئے تھے۔ وہ بستی کی سب سے خوبصورت عورت تھی، یہی حال راکھی کا تھا۔ وہ بھی بستی کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی۔ یوں تو راج مداری کے یہاں دو لڑ کے ہوئے تھے لیکن وہ دونوں چار چار سال کے ہو کر چل بسے تھے۔ دونوں کی موت گردن توڑ بخار کی وجہ ہوئی تھی۔ اسے بیٹے کی شدید خواہش تھی۔ یہ خواہش حادثاتی طور پر تسکین پاگئی تھی۔ اسے محسن راؤ کے روپ میں پلا پلایا بیٹا مل گیا تھا۔ وہ راستے بھر سوچتا آیا تھا کہ محسن راؤ پر ایسا کیا جادو ٹونا کرے کہ وہ اسکا مطیع اور فرمانبردار بن کر بستی میں رہ جائے۔ یہاں سے جانے کا نام ہی نہ لے۔ اور راج مداری کے لئے یہ کوئی اتنا مشکل کام نہ تھا۔ کسی کے دل پر قبضہ جمانے کے اسے بہت سے عمل آتے تھے۔
“رات کے شہنشاہ ” کا پنجہ اس کے گلے میں پڑا ہوا تھا۔ جس کے گلے میں الو کا پنجہ ہو، اس کے لئے کسی کو الو بنانا کیا مشکل تھا۔ اس نے گھر پہنچ کر سب سے پہلا کام یہی کیا۔ ایک چھوٹے سے سادہ کاغذ پر اُلو کے پنجے سے کچھ پر اسرار سے نشان بنائے نشان بنانے کے دوران وہ کچھ بڑبڑاتا رہا۔ پھر اس نے راکھی سے ایک گلاس شربت لانے کو کہا۔ راکھی نے شربت سے بھرا گلاس باپ سامنے رکھا تو اس نے اس کاغذ کو شربت میں ڈال کر اسے تھوڑا گھما کر نکال لیا اور راکھی سے کہا کہ وہ راؤ کو شربت دے آئے۔ محسن راؤ دوسرے کمرے میں چار پائی پر نیم دراز تھا، وہ لمبی مسافت طے کر کے آیا تھا، تھک گیا تھا۔ راکھی کمرے میں داخل ہوئی تو محسن نے نظر اٹھا کر راکھی کو دیکھا۔ اگر چہ راکھی نے اسے اپنے گھر آتے ہوئے پہلے ہی دیکھ لیا تھا لیکن وہ اس کے سامنے اب آئی تھی۔ اس نے بھی اسے غور سے دیکھا دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر بیک وقت مسکرائے۔ راکھی نے گلاس آگے بڑھایا۔ ”لو یہ ، اسے پی لو”
محسن راؤ نے گلاس اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ وہ بورا کا شربت تھا، ٹھنڈا اور میٹھا۔ اسے بے حد پیاس لگی تھی وہ غٹ غٹ کر کے ایک ہی سانس میں سارا چڑھا گیا۔ اس شربت نے اپنا کام کر دکھایا۔ اس نے اس کا ماضی تو نہیں چھینا۔ اسے یہ تو یاد رہا کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے لیکن وہ اپنے مستقبل سے بیگانہ ہو گیا۔ راج مداری کے اس کچے گھر کی الفت اس کے دل میں سما گئی۔ کبھی اندر سے کوئی آواز لگاتا اسے یاد دلاتا کہ اسے اپنے گھر لاہور جاتا ہے۔ اندر کی اس آواز پر کبھی وہ اٹھ کھڑا بھی ہوتا۔ باوجود کوشش کے اس بستی کی حدود سے وہ نکل نہ پاتا۔ اس پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی۔
اسی طرح دو سال گزر گئے۔ راج مداری نے آہستہ آہستہ اسے اپنا فن بخشنا شروع کیا۔ اب وہ چھوٹے موٹے تماشے کر کے لوگوں کو حیران کر دیتا تھا۔ راج مداری نے چھوٹے موٹے تماشوں کے ساتھ ساتھ جنگل کا علم بھی اسے سکھانا شروع کیا تھا۔ راج مداری جانوروں کی آوازوں کا ماہر تھا۔ وہ اپنے منہ سے ایسی آوازیں نکالتا تھا کہ مطلوبہ جانور یا پرندہ اس کی آواز سن کر اس کے سامنے آجاتا تھا۔ محسن راؤ کو شکار کا بہت شوق تھا۔ اس نے بہت جلد مختلف پرندوں اور چرندوں کی آوازیں سیکھ لیں۔ اب یہ اس کا بہترین مشغلہ تھا کہ وہ صبح سویرے جنگل کا رخ کرتا۔ اسے تیتر کے شکار کا بہت شوق تھا۔ جنگل میں جہاں کہیں بھی اسے تیتر نظر آتا، وہ جال بچھا کر ایک جگہ بیٹھ جاتا۔ اور اپنے منہ سے تیتر کو لانے کی آواز نکالتا دو چار آوازوں کے بعد ہی تیتروں کا جواب آنے لگتا اور وہ اڑتے ہوئے، دوڑتے ہوئے اس کی طرف کھنچے چلے آتے جب وہ دیکھتا کہ آٹھ سات تیتر جمع ہو گئے ہیں تو وہ جھٹکا مار کر جال کھینچ یتا۔ چار پانچ تیتر جال میں ضرور پھنس جاتے۔ وہ ان تیتروں کو جال سے نکال کر پنجرے میں منتقل کر لیتا ور بستی میں آجاتا۔ راکھی ان تیتروں کو ذبح کر کے پکاتی۔ محسن راؤ بڑے مزے سے یہ گوشت کھاتا۔
بستی کے قریب ہی نہر تھی۔ محسن اپنی تیراکی کا شوق نہر میں تیر کر پورا کرتا۔ وہ دھڑا دھڑ پل سے چھلانگ مار کر پانی میں گرتا اور غوطہ مار کر کہیں کا کہیں جا نکلتا۔
راج مداری اسے اپنے کھیل تماشوں میں ساتھ ہی رکھنے لگا تھا۔ وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ محسن جوان ہو گیا۔ ایک تو محسن خوبصورت تھا اوپر سے جوان تھا اور پھر ساحر تھا۔ ان تینوں چیزوں نے آس پاس کے علاقوں میں اسے بے حد مقبول بنا دیا تھا۔
بستی کی لڑکیاں اس کی ایک نظر کو ترستی تھیں مگر وہ نظر اٹھا کر نہ دیکھتا تھا۔ خود راکھی اگرچہ اس سے دو سال بڑی تھی لیکن اپنا دل ہار بیٹھی تھی۔ اس پر ہر وقت اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار رہتی تھی مگر محسن اپنی دھن میں مگن رہتا تھا۔ راج مداری اسے بیٹوں کی طرح چاہتا تھا لہذا وہ بھی راکھی کو تقدس کی نظر سے دیکھتا تھا۔
ایک روز صبح ہی صبح راجہ بہرام نگر کا کارندہ گھوڑے پر سوار راج مداری کے گھر پہنچا۔ راجہ بہرام نگر کھیل تماشے کے بڑے شوقین تھے۔ وہ راج مداری کو کھیل تماشاد کھانے کے لئے بلاتے رہتے تھے۔ آج ان کا کارندہ ان کا ہی پیغام لے کر آیا تھا۔ راجہ بهرام نگر کی بیٹی نادرہ کی دو دن بعد منگنی تھی لہٰذا اس موقع پر اس کا کھیل تماشا رکھا گیا تھا۔ اور اسے بصد اصرار بلایا گیا تھا۔ راج مداری کی بھلا کیا مجال تھی کہ وہ جانے سے انکار کرتا اس نے فورا ہی ہامی بھرلی اور پروگرام طے کر لیا۔
دو دن کے بعد دوپہر کو راجہ صاحب کی گاڑی انہیں آکر لے گئی۔ دو گھنٹے کے سفر کے بعد وہ دونوں بہرام نگر پہنچ گئے راجہ صاحب کی حویلی اس موقع پر خوب سجی ہوئی تھی۔ حویلی کے سبزہ زار پر اس کھیل کو منعقد ہونا تھا۔ شام کے وقت مہمان آنا شروع ہو گئے۔
راج مداری کے لئے ایک چھوٹا سا اسٹیج بنایا گیا تھا۔ سامنے گھاس پر کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔ لوگ آتے جاتے تھے اور بیٹھتے جاتے تھے۔ راج مداری اور محسن راؤ اسٹیج پر موجود تھے اور اپنے کھیل کی تیاریوں مصروف تھے۔ وہ دونوں آپس میں طے کر رہے تھے کہ کونسا تماشا کب اور کیسے دکھایا جائے گا۔ کچھ دیر کے بعد سامنے کی مرصع کرسیوں پر نادرہ اور اس کا ہونے والا شوہر وقار بیٹھ گئے۔ نادرہ کی طرف اس کے ہونے والے سسر تھے اور ہونے والے شوہر کے ساتھ راجہ بہرام نگر تشریف فرما ہو گیا
اس کے بعد ادھر ادھر اور دوسرے اہم لوگ بیٹھ گئے۔
تب راجہ بہرام نگر نے راج مداری کو کھیل شروع کرنے کا اشارہ کیا۔
راج مداری نے اپنے گلے میں پڑے ”رات کے شہنشاہ “ کا پنجہ چوما اور ایک نعرہ مستانہ لگا کر راجہ بهرام نگر کو جھک کر سلام کیا۔ سلام کے بعد اس نے بانسری اپنے ہونٹوں سے لگائی اور دائیں ہاتھ میں ڈگڈگی لے کر دونوں کو ایک ساتھ بجانا شروع کیا۔ بانسری کی لے اور ڈگڈگی کی تال پر محسن راؤ نے رقص شروع کیا۔ دونوں نے مل کر ایک سماں سا باندھ دیا۔
محسن راؤ کالی پینٹ اور سرخ قمیص پہنے ہوئے تھا۔ سرخ سفید رنگت، گھنگھریالے بال، کانوں میں بالے پرکشش مقناطیسی آنکھیں۔ اس پر ایک خاص انداز کا رقص۔ لوگوں کی اس پر اس نظریں گڑی ہوئی تھیں جیسے وہ اس دنیا کا آدمی نہ ہو کوئی خلائی مخلوق ہو۔
رقص و موسیقی اختتام کو پہنچی تو محسن راؤ اسٹیج سے کود کر راجہ بہرام نگر کے پاس پہنچا اور مودبانہ انداز میں انگریزی میں بولا۔ ” جناب مجھے منگنی کی انگوٹھی درکار ہے۔ “
اسے انگلش بولتا دیکھ کر نادرہ کو ایک خوشگوار حیرت ہوئی اور اس سے پہلے کہ راجہ بہرام نگر اپنی سے منگنی کی انگوٹھی اتارنے کو کہتے ، نادرہ نے جلدی سے انگوٹھی اپنی انگلی سے نکال کر محسن راؤ کے حوالے کرنا چاہی محسن راؤ نے اشارے سے اسے روکا۔ پھر اس نے ایک چوڑے منہ کی شیشے کی بوتل کا ڈھکن کھولا اور اس میں انگوٹھی ڈالنے کا اشارہ کیا۔
نادرہ نے اپنی انگوٹھی اس میں ڈال دی۔ محسن راؤ نے وہیں کھڑے کھڑے بوتل کا ڈھکن بند کیا اگلی رو میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو ایک ایک کر کے شیشے کی بوتل میں بند ہیرے کی انگوٹھی دکھائی۔ اس کے بعد وہ بوتل کو لے کر اسٹیج پر پہنچ گیا اور ایک اسٹول پر بوتل کو رکھ دیا۔ بوتل میں بند انگوٹھی سب کو دکھائی دے رہی تھی۔ پھر اس نے اپنی پینٹ کی جیب سے ایک سیاہ رومال نکالا رومال کو ایک خاص انداز میں لہرا کر بوتل پر ڈال دیا۔ بوتل رومال سے چھپ گئی۔ راج مداری نے بانسری اور ڈگڈگی بجاتے ہوئے اسٹول کے گرد ایک چکر لگایا۔ چکر ختم ہوتے ہی محسن راؤ نے رومال بوتل سے کھینچ لیا۔ تب لوگوں نے دیکھا کہ بوتل سے انگوٹھی غائب تھی۔ نادرہ کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس نے ہونے والے شوہر وقار کی طرف دیکھا۔
” حیرت انگیز۔ “
” راجہ صاحب، مارے چھورے سے گلطی ہو گئی ۔ بی بی کی انگوٹھی ملنا اب مشکل ہے۔ “
“ارے، یہ کیا کہہ رہا ہے۔ ” نادرہ کا منگیتر وقار پریشان ہو کر بولا۔
اس کے برابر راجہ صاحب بیٹھے ہوئے تھے وہ آرام سے بیٹھے مسکراتے رہے۔ انہوں نے کوئی تبصرہ نہ کیا۔ یہ کہہ کر راج مداری دوسرا تما شا دکھانے میں مگن ہو گیا۔ اس مرتبہ اس نے محسن راؤ کو اسٹیج پر لیٹنے کہا جب وہ لیٹ گیا تو راج مداری نے اس کے اوپر ایک بہت بڑی سفید چاور ڈال دی اور لوگوں سے درخواست کی کہ یہ بہت نازک کھیل ہے۔ اس میں لڑکے کی جان بھی جا سکتی ہے۔ اس لئے اس دوران کوئی ایک لفظ نہ بولے اور اپنے ہاتھ بھی ایک دوسرے سے الگ رکھے۔ یہ تنبیہ سن کر سب لوگ مستعد ہو کر بیٹھ گئے۔ کوئی شخص اگر ہاتھ باندھے بیٹھا تھا تو اس نے اپنے دونوں ہاتھ الگ کر لئے اور خاموش ہو کر پوری توجہ سے تماشے کو دیکھنے لگا۔ راج مداری نے اب بانسری اور ڈگڈگی بجا کر محسن کے گرد چکر لگانے شروع کئے۔ تین چکر کے بعد محسن راؤ کا جسم زمین سے اٹھنے لگا۔ یہاں تک کے وہ اٹھتے اٹھتے چار فٹ بلند ہو گیا۔ وہ کسی اکڑی ہوئی لاش کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے جسم کے ساتھ چادر بھی اٹھی تھی۔ چادر بہت بڑی تھی اس لئے اس کے کنارے اسٹیج کو چھو رہے تھے۔ یہ ایک دم بخود کرنے والا منظر تھا۔ کچھ دیر کے بعد راج مداری نے الٹے پھیرے لینے شروع کئے۔ اس طرح محسن راؤ کا جسم آہستہ آہستہ زمین سے لگ گیا۔ اور جب راج مداری نے چادر اس کے اوپر سے اٹھائی تو وہ مسکراتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔ لوگوں نے زبر دست تالیاں بجائیں۔
تب اچانک ہی نادرہ کو اپنی انگوٹھی یاد آئی۔ اس نے راجہ صاحب کو مخاطب کر کے کہا۔ ”بابا جانیبمیری انگوٹھی ؟ “
” بیٹا۔ وہ تو اللہ کو پیاری ہو گئی۔ ” انہوں نے ہنس کر کہا۔
ہائے۔ نہیں۔ “ نادرہ افسردہ ہو کر بولی۔
تب راجہ بہرام نگر نے راج مداری کو اشارہ کیا۔
”بھئی ہماری بیٹی کی انگوٹھی کا کچھ کرو۔ “
راج مداری کے بولنے سے پہلے محسن راؤ بڑے شائستہ لہجے میں مخاطب ہوا۔
”سر، وہ انگوٹھی ہمارے پاس تو نہیں ہے۔ “
پھر کہاں گئی ؟“ اس مرتبہ نادرہ کا منگیتر و قار بولا۔ اس کا لہجہ ذرا سخت تھا۔
“سر، آپ اپنی جیبیں دیکھیں، کہیں آپ کے پاس تو نہیں۔“
“یہ کیا بکواس ہے۔ ” اس مرتبہ اسے سچ مچ غصہ آگیا۔
“بھئی وقار، اس میں اس قدر غصہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ لڑکا کہ رہا ہے تو اپنی جیبیں دیکھ لو ۔ ” راجہ بہرام نگر نے ہنستے ہوئے کہا۔
اپنے سسر کے انداز پر وقار الجھ سا گیا۔ وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اور اس نے کوٹ کی جیبیں دیکھنے کے بعد جیسے ہی پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک انگوٹھی اس کے ہاتھ میں آگئی۔ گھبرا کر اس نے ہاتھ باہر کھینچا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ یہ وہی انگوٹھی تھی جو اس نے نادرہ کو پہنائی تھی۔
محسن راؤ اس کے ہاتھ میں انگوٹھی دیکھ کر فوراً وقار کی طرف لپکا۔ اور اس کے ہاتھ سے انگوٹھی لے کر تمام لوگوں کو دکھائی۔ لوگوں نے ایک فرمائشی قہقہہ لگایا۔ محسن راؤ نے وہ انگوٹھی شکریے کے ساتھ نادرہ کی ہتھیلی پر رکھ دی۔
جانے کیوں نادرہ کا جی چاہا کہ کاش محسن راؤ نے یہ انگوٹھی اس کے ہاتھ پر رکھنے کے بجائے اس کی انگلی میں پہنا دی ہوتی۔ اس خواہش پر وہ اندر ہی اندر مسکرا دی۔ انسان کی زندگی میں بعض باتیں بڑی عجیب ہوتی میں باوجود چاہنے کے بھی سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ شاید محبت کا جذبہ، ایک دوسرے کو پسند کرنے کا رویہ اسی زمرے میں آتا ہے۔ نادرہ کی منگنی ہو چکی تھی۔ منگنی کی انگوٹھی اس کی انگلی میں تھی۔ منگیتر اس کے برابر بیٹھا تھا۔ ایک سال بعد شادی ہونے والی تھی۔ اس کے باوجود اچانک دل میں اس خواہش کا پیدا ہونا که کاش ! وہ انگوٹھی ہاتھ پر رکھنے کے بجائے انگلی میں پہنا دیتا۔ کیسی عجیب بات تھی۔ کیسی عجیب سوچ تھی
اور یہ بات اسکے دل میں کیوں آئی تھی، وہ نہیں بتا سکتی تھی۔ انگوٹھی واپس لوٹاتے وقت خود محسن راؤ بھی بہک گیا تھا۔ اس نے سوچا تھا۔ کاش! وہ یہ انگوٹھی ہمیشہ کے لئے غائب کر سکتا۔ اپنی اس سوچ پر اسے اندر ہی اندر ہنسی آئی۔ راکھی نادرہ کے مقابلے میں کہیں خوبصورت تھی۔ اور وہ محسن سے پیار بھی بہت کرتی تھی لیکن محسن نے اس پر کبھی توجہ نہ دی تھی ۔ نادرہ کو دیکھ کر جانے اس کے دل کو کیا ہوا تھا۔ اپنے اس رویئے پر وہ بار بار غور کر رہا تھا مگر سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔
کھیل کے سلسلے میں اس کا انہماک ٹوٹ گیا تھا۔ ارتکاز بکھر گیا تھا۔ وہ بار بار غلطی کر رہاتھا اور مداری سے ڈانٹ کھا رہا تھا۔
” او، محسنا، ہوس کر، کا کرت رہا۔ “

راج مداری کے بار بار ٹوکنے پر اسے “ہوس ” کرنا پڑا یہ جادو کے کھیل تھے، اس میں توجہ کا بٹنا آدمی کو خاصا نقصان پہنچا سکتا تھا۔ بالآخر یہ کھیل تماشا اختتام کو پہنچا۔ راج مداری نے راجہ بہرام نگر سے انعام اکرام بٹورا اور واپسی کے لئے رخت سفر باندھا۔ رات کو وہ دونوں اپنی بستی میں پہنچ گئے۔ راجہ صاحب کی گاڑی انہیں اپنے ٹھکانے پر چھوڑ گئی لیکن محسن راؤ کا دل اپنے ٹھکانے پر نہیں رہا تھا، وہ کہیں دور بہرام نگر میں رہ گیا تھا۔ اور ایک چہرہ تھا جو اس کی آنکھوں میں منجمد ہو گیا تھا۔ وہ تصویر اس کی نگاہوں سے ہٹتی ہی نہ تھی۔ پھر وہ ہوا جس کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ ایک شام راجہ بہرام نگر کی گاڑی راج مداری کے گھر کے نزدیک آکر کھڑی ہو گئی۔ گاڑی میں ڈرائیور کے سوا کوئی اور نہ تھا۔ وہ محسن راؤ کی تلاش میں یہاں آیا تھا۔
محسن راؤ گھر پر موجود تھا۔ اس نے راجہ صاحب کے ڈرائیور کو اپنے دروازے پر دیکھا تو اس چہرے پر انار سے چھوٹنے لگے۔ ڈرائیور نے ادھر ادھر دیکھ کر اس کے کان کے نزدیک بڑی راز داری سے کہا۔ ”بی بی جی آئی ہیں؟“
کون بی بی ؟ ” محسن راؤ نے اسی راز داری سے اس سے پوچھا۔
” نادرہ بی بی۔”
“کہاں ہیں وہ ؟ “
وہ شہر کے پل پر کھڑی آپ کا انتظار کر رہی ہیں۔؟
“میرا انتظار – محسن راؤ الجھن میں پڑ گیا ۔ آؤ، چلو ۔ “

راجہ صاحب کی گاڑی بستی سے باہر کھڑی تھی۔ محسن راؤ اس میں بیٹھ کر پل پر پہنچا۔ ڈرائیور نے گاڑی روک دی ی۔ محسن راؤ اتر کر تیزی سے بھاگا۔ پل کے اس کنارے چادر میں لپٹی نادرہ اسے نظر آرہی تھی۔ اگرچہ وہ سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوئی تھی۔ اسے دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ راجہ بہرام نگر کی بیٹی نادرہ ہے۔”

جب وہ نادرہ کے قریب پہنچا تو سورج اپنا سفر تمام کر چکا تھا۔ شام گہری ہو رہی تھی۔ اندھیرا تیزی سے پھیلتا جا رہا تھا۔ وہ اس کے نزدیک پہنچ کر خاموشی سے کھڑا ہو گیا۔ نادرہ نے اپنے چہرے سے چادر ہٹائی
اور مدھم سروں میں بولی
”میں ہوں نادرہ ۔ “
“جانتا ہوں ۔”
“سچ بتانا، کیا تمہیں میرے یہاں آنے کی توقع تھی۔ “
“نہیں بالکل نہیں۔ “ محسن راؤ نے بہت سچائی سے کہا۔
“لیکن میں تو آگئی ہوں، تمہاری توقع کے خلاف “
نادرہ کی آنکھوں میں ڈوبتے سورج کی سرخی تھی۔
“کیا تمہیں میرا آنا ناگوار گزرا ۔ “
“نہیں بالکل نہیں۔ “ محسن راؤ نے پھر سچائی سے کہا۔
“تمہیں تو لڑکی ہونا چاہئے تھا۔ “
“وہ کیوں ؟” وہ حیران ہوا۔
“کوئی بات کھل کر کہتے ہی نہیں۔ “
وہ ہنسی، اس کی ہنسی میں بڑا سحر تھا۔
” آپ کیا کہلوانا چاہتی ہیں ؟ “
“تم کون ہو ؟ “
میں محسن راؤ ہوں ۔ “
“‘میں نے تمہارا نام نہیں پوچھا، میں تمہارا نام جان چکی ہوں ۔”
“پھر کیا معلوم کرنا چاہتی ہیں۔ ؟ “
“تم اس پس منظر میں بالکل مس فٹ نظر آتے ہو۔ جیسے ٹاٹ میں مخمل کا پیوند۔ “
“میں اگر یہ کہوں کہ آپ ٹھیک کہتی ہیں تو کیا مان لیں گی ۔ “
“ہاں، ہاں کیوں نہیں۔ “
” میں ایک فریب میں مبتلا ہوں ۔ “
محسن راؤ نے بڑی اداسی سے کہا۔ ”
جانتا ہوں کہ فریب میں مبتلا ہوں ۔ پھر بھی اس سحر سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔ جیسے قیدی ہوں کسی کا۔ “
“کس کے قیدی ہو راج مداری کے؟”
“ہاں، یوں ہی سمجھو۔ “
” بے فکر ہوجاؤ۔۔ میں اسکی قید سے نکال لوں گی۔ اور اپنا قیدی بنالوں گی۔ بولو میرے قیدی بنوگے؟”
نادره کے لہجے میں بڑا رس تھا۔
“ہاں، خوشی سے ۔ “ محسن راؤ نے بے اختیار کیا۔

اتنی جلدی اقرار نہ کرو۔ اچھی طرح سوچ سمجھ لو۔ میں تین دن کے بعد آؤں گی۔ اسی نہر کے پل پر اسی وقت میرا انتظار کرنا۔ کرو گے؟”
“ہاں، کیوں نہیں۔ ” وہ مسکرا کر بولا۔
“تو پھر جاؤ ۔ “
جاؤں کیسے، جانے کو جی نہیں چاہتا۔ زندگی میں پہلی بار احساس ہوا ہے کہ میں ہوں ۔ “
“یہ بڑی اچھی ابتداء ہے۔ آج تمہیں اپنے ہونے کا احساس ہوا ہے۔ پھر وہ دن زیادہ دور نہیں جب تمہیں میرے ہونے کا یقین ہو جائے گا۔ “
” تم بھی تو قید میں ہو کسی کی۔ ؟”
“ہاں، ایک انگوٹھی کی قید میں ۔ “
نادرہ نے بڑے عجیب لہجے میں کہا۔
“تم نے وہ انگوٹھی میرے ہاتھ پر رکھی تھی۔ وہ انگوٹھی ابھی تک میرے ہاتھ میں ہے۔ میں نے آج تک پہنی نہیں۔ ” “لاؤ، دکھاؤ ہاتھ ۔ ” محسن راؤ بولا۔ کہاں ہے وہ انگوٹھی ۔ ؟”
نادرہ نے اپنی چادر سے ہاتھ نکالا اور اس کے سامنے کرکے مٹھی کھول دی۔ لیکن اس کے ہاتھ میں کچھ نہ تھا۔ ہاتھ خالی تھا۔ اپنا ہاتھ خالی دیکھ کر نادرہ پریشان ہو گئی۔
بات بھی پریشان ہونے والی تھی، اس نے سچ کہا تھا جس دن محسن راؤ نے وہ انگوٹھی اس کی ہتھیلی پر رکھی تھی تو اس نے پہننے کے بجائے منگیتر وقار کے کوٹ کی جیب میں ڈال دی تھی، جاتے ہوئے جب وقار نے

اسے انگوٹھی واپس کی تو اس نے اسے اپنے پرس میں ڈال لی۔ اس وقت سے آج تک وہ انگوٹھی اس کے پرس میں تھی، گاڑی سے اترتے ہوئے اس نے انگوٹھی اپنی مٹھی میں دبالی تھی۔ اور چند لمحے پہلے تک وہ انگوٹھی اس کے ہاتھ میں تھی۔ بس مٹھی کھولتے ہی وہ انگوٹھی غائب ہو گئی تھی۔
“کہاں ہے وہ انگوٹھی ؟ ” محسن راؤ نے مسکرا کر پوچھا۔ “مجھے نہیں معلوم کہاں گئی، ابھی تو میرے ہاتھ میں تھی۔ ” نادرہ نے خفت سے کہا۔
تب محسن راؤ نے اپنی بند مٹھی اس کے سامنے کی اور مٹھی کھول کر بولا۔ ” یہ تو نہیں ؟”
محسن راؤ کی ہتھیلی پر اس کی انگوٹھی موجود تھی۔ نادرہ نے خوشی سے نعرہ لگایا۔
“یہی تو ہے یہ تمہارے ہاتھ میں کیسے آگئی ؟؟”
اوہ، جادو،…. تم کتنے بڑے جادو گر ہو؟”
یہ انگوٹھی تم نے اب تک پہنی کیوں نہیں ؟
” جب تم نے مجھے یہ انگوٹھی واپس کی تھی تو میرے دل میں یہ خواہش اٹھی تھی کہ تم مجھے یہ انگوٹھی پہنادیتے۔”
“اس وقت میرے دل میں بھی ایک خواہش جاگی تھی۔ ” محسن راؤ نے اظہار تمنا کیا۔
“وہ کیا؟” نادرہ نے اسے پر شوق نگاہوں سے دیکھا۔
“میں نے سوچا تھا کہ کاش یہ انگوٹھی میں ہمیشہ کے لئے غائب کر سکتا ۔ “
“ایسا ہو سکتا ہے۔ ” نادرہ نے بڑے دلبرانہ انداز سے کہا۔
” یہ انگوٹھی ہمیشہ کے لئے غائب ہو سکتی ہے ۔۔”
“وہ کیسے ؟ ” حسن راؤ نے پوچھا۔
“وہ ایسے.. دیکھو، یوں “
یہ کہہ کر اس نے انگوٹھی نہر کے بہتے پانی میں اچھال دی۔۔جو فوراً ہی ڈوب گئی۔
“یہ تم نے کیا کیا ؟ محسن راؤ پریشان ہو گیا۔
“کچھ نہیں ! میں اس انگوٹھی کی قید سے آزاد ہو گئی ہوں ۔ “
“کہیں تم نے عجلت سے کام تو نہیں لیا ؟ “
محسن راؤ نے خدشہ ظاہر کیا۔
” مجھے نہیں معلوم . نادرہ نے بڑی معصومیت سے کہا۔ ”جو ہوا بے اختیار ہوا ہے، یہ دل کا معاملہ ہے دل ہی جائے۔”
” نادرہ، یہ دل بھی کتنی عجیب چیز ہے، کون جانے کب کہاں کس پر آجائے؟” محسن راؤ بولا
“ہائے ! تم نے میرا نام لیا ذرا پھر سے لینا۔”
“نادرہ ۔ ” محسن راؤ نے اس کا نام دہرایا۔
“محسن میرے محسن”
نادرہ نے جواب میں اس کا نام اس قدر چاہت سے لیا کہ پہلی بار اسے اپنے نام پر فخر ہوا۔
“اچھا.. نادرہ یہ بتاؤ کہ تم اس وقت کہاں سے آرہی ہو؟”
“بہرام نگر سے اور لاہور جارہی ہوں۔ تین دن کے بعد واپس آؤں گی۔ اسی وقت۔ اس نہر کے پل پر میرا انتظار کرنا۔۔ میرا انتظار کرو گے نا محسن “
نادرہ نے بے قراری سے پوچھا۔
“ہاں ، کیوں نہیں۔ میں تمہارا انتظار ضرور کروں گا۔ “ لاہور کا نام سن کر محسن کی عجیب کیفیت ہو گئی اسے لگا جیسے کسی نے اچانک گرد آلود آئینے کو جھاڑ کر اس کے سامنے کر دیا ہو،
لاہور ۔ جہاں وہ پیدا ہوا، جہاں اس کا گھر تھا جہاں اس کے بابا تھے، اس کی پیاری سی امی تھیں۔ یہ تو اس کی زندگی کے سارے ہی زخم ہرے ہو گئے تھے، اس کے دل میں ٹیسیں سی اٹھنے لگی
“کیا ہوا محسن؟ یہ تمہیں اچانک کیا ہوا؟؟”
محسن کی حالت بدلتے دیکھ کر نادرہ نے پوچھا
“کچھ نہیں۔ جب تم لاہور سے واپس آؤ گی تو میں تمہیں اپنے بارے میں بہت کچھ بتاؤں گا۔ “
ابھی وہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ انہیں ڈرائیور ہدایت اللہ اپنی طرف آتا ہوا دکھائی دیا۔
“وہ آرہا ہے، اب تم جاؤ، میں تمہارا انتظار کروں گا۔ “

نادرہ تین دن کے بعد ملاقات کا وعدہ کر کے چلی گئی، تین دن کے بعد جب وہ واپس ہوئی اور نہر کے پل کے پاس پہنچی تو محسن راؤ اس کا منتظر تھا اس دن محسن راؤ نے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ نادرہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ وہ راج مداری کا بیٹا نہیں بلکہ لاہور کی مشہور شخصیت راؤ شمشاد علی کا فرزند ہے اور راؤ احمد علی کا بھتیجا ہے تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، اسے حیرت تھی کہ اتنے بڑے باپ کا بیٹا اپنا گھر بار چھوڑے اس جنگل میں کسی طرح زندگی گزار رہا ہے۔ وہ اصل میں جادو ٹونے کے اثرات سے ناواقف تھی۔ اسی لئے حیرت زدہ تھی، جادو تو اچھے بھلے آدمی کی مت مار دیتا ہے، محسن تو اس وقت بچہ تھا۔ کہتے ہیں کہ جس طرح لوہے کو لوہا کاٹتا ہے، زہر کو زہر مارتا ہے، اسی طرح سحر کا علاج بھی سحر ہی کہ ذریعے ہو سکتا ہے۔ راج مداری کے سحر کا توڑ نادرہ کے سحر سے کیا جا سکتا تھا، نادرہ بڑی پریقین تھی کہ بہت جلد اپنا سر پھونک کر وہ اسے اپنا قیدی بنالے گی۔ محسن خود بھی بڑی خوشی سے اس کا قیدی بننے کے لیے تیار تھا۔ وقت گزرتا رہا .. ان ملاقاتوں کو تین ماہ ہو گئے تین ماہ کسی معاملے کو سلجھانے یا الجھانے لئے بہت ہوتے ہیں، معاملہ آہستہ آہستہ سلجھتا رہا تھا، نادرہ کی محبت کی طاقت اس کی کشش، اس کا سحر دن بدن اسے اپنی گرفت میں لئے جاتا تھا۔ اس کی محبت میں وہ سب کچھ بھولتا جا رہا تھا، راج مداری نے اپنے سحر سے اس کے گھر والوں کو اس کے دل سے نکال دیا تھا، محسن راؤ اس بستی کا ہو کر رہ گیا تھا وہ اکیلا کہیں نکل بھی جاتا تو بندش کی وجہ سے کہیں دور نہ جا سکتا تھا اس کا دل گھبرانے لگتا اس کا جی چاہتا کہ وہ جلد از جلد بستی واپس پہنچ جائے۔ راج مداری اور راکھی کو دیکھ لے۔
اب نادرہ نے اس پر جادو کر دیا تھا اس کی محبت میں کھو کر وہ اپنا آپ بھولتا جا رہا تھا۔ نادرہ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ محسن، راج مداری کے جادو کے زیر اثر ہے اور اس جادو نے اسے اس قدر جکڑا ہوا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کو بھی بھول گیا، ان کی محبت اس کے دل سے نکل گئی، راؤ احمد علی کی دشمنی بھی اس کے دل میں نہ رہی بس راج مداری یاد رہ گیا تھا۔
اب نادرہ جب بھی اس سے ملتی وہ اس سے اس کے شہر کی بات کرتی اس سے اس کے والدین کا تذکرہ کرتی راؤ احمد علی کا ذکر کرتی جس نے اس کے قتل کی سازش کی اور اس کے حصے کی زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ وہ ان باتوں کو بھولا نہیں تھا لیکن ہر بات اس کے دل سے محو ہو گئی تھی۔ اسے اپنے گھر کی، اپنے گھر والوں کی، کسی کی کوئی پروا نہیں رہی تھی لیکن نادرہ نے جب سے اس کے آئینہ دل سے گرد صاف کرنا شروع کی تھی محسن کو اپنا چہرہ دھندلا دھندلا نظر آنے لگا تھا لیکن یہ دھندلاہٹ بھی عارضی ہوتی جب تک وہ نادرہ کے سامنے رہتا، اس کی ہاں میں ہاں ملاتا پھر اس سے جیسے ہی دور ہوتا اور راج مداری کا چہرہ دیکھتا تو پھر
سب کچھ بھول جاتا۔ راج مداری کا جادو اس کے سر پر چڑھ کر بولنے لگتا اور جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔
راج مداری جب بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ پوچھ لیتا کہ
” کیسا ہے رہے تو محسنا تو ہے کوئی تکلیپھ تو نا ہے رے؟” تو محسن کے ذہن میں اٹھنے والے یادوں کے بھنور جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے۔
یہ کوئی معمولی جادو نہ تھا، رات کے شہنشاہ کے پنجے سے بنایا ہوا نقش راج مداری نے اسے پلایا تھا اس جادو کا توڑ اچھے اچھوں کے پاس نہ تھا۔ نادرہ اب اسے یاد دلا دلا کر اسے سمجھا سمجھا کر تھک گئی تھی، محسن اس کے سامنے ہوتا تو اس کی ہاں میں ہاں ملاتا رہتا، لاہور جانے کا ارادہ باندھ لیتا لیکن بستی میں پہنچتے ہی وہ راؤ شمشاد علی کا بیٹا بننے کے بجائے راج مداری کا بیٹا بن جاتا۔ ایک طرح سے وہ راج مداری کا قیدی تھا لیکن ایسا قیدی جس کے پاؤں میں پڑی بیڑی کسی کو نظر نہ آتی تھی۔ نادرہ اب اس کے سلسلے میں خاصی سنجیدہ ہو گئی تھی وہ اس پر مر مٹی تھی اور اس کی خاطر سب کو مٹا دینا چاہتی تھی۔ تب اس نے اپنے رازدار ڈرائیور ہدایت اللہ سے بات کی، اس نے ایک دن بہرام نگر جاتے ہوئے راستے میں اس سے پوچھا
“ہدایت اللہ کیا تمہاری نظر میں کوئی ایسا آدمی ہے جو جادو کا توڑ جانتا ہو؟؟.”
ہدایت اللہ اس کی بات سن کر کچھ سوچتا رہا پھر بولا ۔ ”ہاں ایک ہے تو ایسا بندہ پر اس سے بات کرنا ہوگی، آپ یہ بتائیں کس پر ہوا ہے جادو؟”
“وہ اپنے محسن صاحب ہیں نا ان پر ۔ ” نادرہ نے بتایا۔
محسن کا نام سن کر ہدایت اللہ بے اختیار ہنس پڑا۔
” آپ بھی کیا بات کر رہی ہیں بی بی۔۔۔۔۔۔؟”
“کیوں .. ؟ ایسا میں نے کیا کہہ دیا ؟”
“ارے بی بی آپ بھی کمال کرتی ہیں، محسن صاحب تو خود اتنے بڑے جادو گر ہیں ان پر بھلا کس کا جادو چلے گا؟”
“بس ہدایت اللہ یہیں تو سارا مسئلہ ہے، بے شک وہ بڑے جادو گر ہیں لیکن ان پر ان سے بھی بڑے جادو گر نے جادو کر رکھا ہے، اس نے انہیں قید کر رکھا ہے، تمہیں یاد نہیں جب وہ ایک دن ہمارے ساتھ بہرام نگر آرہے تھے تو راستے میں ان کی کس قدر طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ وہ بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ مجھے میری بستی میں واپس لے چلو، میرا دل کوئی مٹھی میں جکڑ رہا ہے۔ تمہیں یاد آیا نا، پھر ہمیں مجبوراً انہیں ان کی بستی چھوڑ کر آنا پڑا تھا۔ ” نادرہ نے بتایا
” اور اپنی بستی کے قریب پہنچ کر وہ بالکل بھلے چنگے ہو گئے تھے ۔”
” اچھا اچھا تو اس دن یہ بات تھی لیکن انہیں کس نے قید کر رکھا ہے؟ “
ہدایت اللہ نے پوچھا۔
“راج مداری نے ! ” نادرہ نے جواب دیا۔
کیا وہ ان کے بیٹے نہیں ہیں؟“
ہدایت اللہ کو حیرت نے آگھیرا۔
” نہیں وہ ایک بہت امیر باپ کے بیٹے ہیں بس کسی طرح وہ اس کے چنگل میں پھنس گئے ہیں ۔ “
“اچھا پھر تو ان کے لئے کچھ کرنا پڑے گا ! میں ایسا کرتا ہوں کہ کل ہی جوگی رام پال سے یات کرتا ہوں ۔ “
“لیکن ہدایت اللہ وہ تو سپیرا ہے وہ جادو کے بارے میں کیا کر سکے گا؟”
” یہ لوگ بھی جادو جانتے ہیں یہ سب لوگ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہوتے ہیں، شیطان کے چیلے ..”!
ہدایت اللہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
“اگر اس کے بس کی بات نہ ہوئی تو پھر اسی سے کسی اور منتر والے کا پتہ کروں گا۔ “
“ٹھیک ہے پھر شام کو آکر مجھے بتانا اور دیکھو ایک بات کا خیال رکھنا راجہ صاحب کو اس بات کا پتہ نہ چلے۔ “
“آپ بے فکر رہیں بی بی۔ “
ہدایت اللہ نے بڑے یقین سے کہا۔ ہدایت اللہ بڑے کام کا اور بڑے اعتماد کا آدمی تھا یہ اس کی ہمت تھی کہ اس نے جان ہتھیلی پر رکھ کر نادرہ کو محسن راؤ سے ملادیا تھا، وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ جس دن بھی راجہ صاحب کو یہ معلوم ہو کہ ان کی بیٹی کو اس نے مداریوں کی بستی پہنچادیا ہے تو وہ اس کی زندگی کا آخری دن ہو گا۔ جب پہلی بار نادرہ نے محسن راؤ سے ملاقات کی خواہش کی تھی تو ہدایت اللہ نے دبے لفظوں یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو چکی تھی وہ بھلا کہاں ماننے والی تھی، اسنے بڑے یقین سے اس سے کہا تھا کہ اگر وہ نہ گیا تو وہ اکیلی اس سے ملنے چلی جائے گی اور پھر لوٹ کر بھی نہیں آئے گی، اس کی اس دھمکی پر وہ اس کا ساتھ دینے پر مجبور ہوگیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر ایسا ہو گیا تو راجا صاحب زندہ درگور ہو جائیں گے۔ نادرہ ان کی اکلوتی اولاد تھی جس طرح کسی دیو کی جان کسی طوطے میں ہوتی تی ہے ویسے ہی راجہ صاحب کی جان نادرہ میں تھی۔ دوسرے دن ہدایت اللہ نے جوگی رام پال سے ملاقات کی، وہ ہدایت اللہ کو اچھی طرح جانتا تھا کئی بار راجہ بہرام نگر اسے اپنی گڑھی میں بلا چکے تھے۔ راجہ صاحب کھیل تماشے کے بہت شوقین تھے ان کا بس چلتا تو اپنی گڑھی کے سامنے ہی میلہ لگوا لیتے، کھیل تماشے کے سارے انتظامات ہدایت اللہ کرتا تھا جب بھی راجہ صاحب کو سانپ اور نیولے کی لڑائی دیکھنا ہوتی تو جوگی رام پال کو بلوا بھیجے۔ آج صبح ہی صبح جوگی رام پال نے ہدایت اللہ کو اپنے دروازے پر دیکھا تو اس کی باچھیں کھل گئیں سمجھا کہ راجہ صاحب کا بلاوا آگیا اس نے بڑی عزت سے ہدایت اللہ کو اپنے گھر میں بٹھایا اور بولا
“سب خیر ہے بابا؟”
ہاں سب خیر ہے جوگی ایک کام ہے تم سے ۔ ” ہدایت اللہ براہ راست مطلب پر آگیا۔
“ہاں بولو …. ! ہاں بولو بابا ! ” وہ ہمہ تن گوش ہو گیا۔
“تم جادو کا توڑ جانتے ہو یا نرے سپیرے ہی ہو؟ “
” ارے بابا سپرے تو ہم خاندانی ہیں پر جادو بھی جانتے ہیں۔ جادو ہم نے ایک بہت بڑے سنیاسی سے سیکھا ہے۔ بولو کرنا کیا ہے۔ “
” جادو کا توڑ کرنا ہے اور کچھ نہیں کرنا جو بولو گے وہ مل جائے گا۔ خرچ کی بالکل فکر مت کرتا۔ “
“ٹھیک ہے بابا۔ کس پر سوار ہے جادو ..؟”
” کیا اس بندے کو یہاں لانا ہو گا ؟ ” ہدایت اللہ نے پوچھا۔
“ہاں ، بابا۔….”
“پر جوگی جی مہاراج, وہ یہاں نہیں آسکتا۔ “
“وہ کیوں بابا ۔ “
“جادو کے ذریعے اسے باندھ دیا گیا ہے۔ وہ باوجود کوشش کے اپنے علاقے سے نکل نہیں سکتا۔۔ نکلتا ہے تو اس کا دل بیٹھنے لگتا ہے۔ فوراً طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ “
ہدایت اللہ نے بتایا۔
“پھر تو کوئی زبردست بندہ ہے اس کے پیچھے۔ کوئی بکٹ جادو گر ۔ ” جوگی رام پال بولا ۔
“بس ڈر گئے جو گی مہاراج ۔ “
” جوگی رام پال نے ڈرنا نہیں سیکھا بابا۔ ہم چلیں گے تمہارے ساتھ ۔ پر جانا کہاں ہو گا ۔ ؟
” یہاں سے تین چار گھنٹے کا سفر ہے۔ وہ مداریوں کی بستی کہلاتی ہے۔ “
“ٹھیک ہے، ہم چلیں گے۔ وہ مداری، ہم جو گی۔ خوب مقابلہ ہو گا۔ “

ڈرائیور ہدایت اللہ نے جب ساری بات، نادرہ کے گوش گزار کی تو اس نے دوسرے ہی دن اسے مداریوں کی بستی لے جانے کی ہدایت کی ۔ ہدایت اللہ نے حکم کی تعمیل کی اور جوگی رام پال کو نہر کے پل کے قریب بٹھا کر خود محسن راؤ کو بلانے بستی میں چلا گیا۔
محسن راؤ گھر پر موجود تھا۔ دروازے پر ہدایت اللہ کو دیکھ کر راکھی کا ماتھا ٹھنکا۔ وہ دو تین ماہ کے اندر کئی چکر بستی کے لگا چکا تھا۔ جب وہ اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوا تو راکھی نے اسے ٹوکا۔
“کہاں جارہے ہو ؟ “
“راجہ صاحب کا ڈرائیور آیا ہے، شاید وہ راجہ صاحب کا کوئی پیغام لایا ہے۔ اس کے ساتھ جارہا ہوں۔ “ محسن راؤ نے بے نیازی سے کہا۔
“یہ ڈرائیور، کچھ جیادہ نہیں آنے لگا۔ ” راکھی تنک کر بولی ۔
وہ اصل میں میرا دوست بن گیا ہے۔ لاہور آتے جاتے مجھ سے مل کر چلا جاتا ہے ۔ ” محسن راؤ نے بات بنائی۔
“اچھا، پر جلدی آجانا۔ میں کہیں راہ ہی نہ دیکھتی رہوں۔ “ راکھی، تجھے مجھ سے کیا کام ہے۔ “
“مجھے تم سے کوئی کام نہیں ہے۔ ؟ راکھی نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ ” بس تم جلدی آجانا
“اچھا ٹھیک ہے۔ “
محسن یہ کہہ کر گھر سے باہر نکل آیا۔ وہ دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ ابھی بستی میں کوئی بات کرنا مناسب نہ تھا۔ چھوٹی چھوٹی گلیاں آمنے سامنے کچے پکے مکان بنے ہوئے تھے۔ ان کی بات کوئی بھی سن سکتا تھا۔ جب وہ دونوں بستی سے باہر نکل آئے تو اس نے محسن راؤ سے کہا۔
”میں اپنے ساتھ ایک جوگی کو لے کر آیا ہوں ۔ “
” جوگی کو؟؟ کس لئیے؟؟…”
“اسے نادرہ بی بی نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ آپ کو جوگی کی ہدایت پر عمل کرنا ہو گا؟۔۔۔”
” کہاں ہے وہ جوگی ؟ “
“میں اسے پل سے ذرا آگے ایک درخت کے نیچے بٹھا کر آیا ہوں ۔ “
پھر جب وہ دونوں پل کے اس پار ڈھلان اتر کر پہنچے تو جوگی رام پال ان دونوں کا منتظر تھا۔
وہ جگہ ایسی تھی کہ یہاں کسی کی نظر پڑنی مشکل تھی۔ جوگی رام پال نے اسے بغور دیکھا اور پھر اسے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو رام پال نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ چند منٹ اس نے کوئی منتر پڑھا اور پھر اس سے کہا
” اپنے دل میں کسی پرندے کا نام سوچ لو۔ “
” سوچ لیا۔ “محسن راؤ نے فورا کہا۔
“اپنی آنکھیں بند کر لو۔ ” جوگی رام پال بولا۔
“کر لیں۔ ” محسن راؤ نے کہا۔

جوگی رام پال نے پھر محسن راؤ کی آنکھوں کے سامنے اپنی ایک ہتھیلی کی اور بولا۔ ” آنکھیں مت کھولنا۔ آنکھیں کھولے بغیر میری بات کا جواب دینا۔ کیا تمہیں میرا ہاتھ نظر آرہا ہے۔؟ “
“نہیں۔ ” محسن راؤ نے جواب دیا۔ جوگی
رام پال نے پھر کوئی منتر پڑھا اور بولا۔
” اب کچھ نظر آرہا ہے؟”
” جو پرندہ میں نے سوچا تھا، وہ سامنے بیٹھا ہوا نظر آرہا ہے۔ “ محسن راؤ نے جواب دیا۔
“ٹھیک ابھی آنکھیں مت کھولنا۔ ابھی تمہیں میرا ہاتھ بھی نظر آئے گا۔ “
پھر رام پال نے کوئی منتر پڑھا اور پوچھا۔
” اب دیکھو۔ “
“وہ پرندہ غائب ہو گیا۔ اب اندھیرا ہے۔ اندھیرا چھٹنے لگا۔ اوہ۔ اب میں تمہارا ہاتھ دیکھ سکتا ہوں”
“شکر ہے بابا۔ اب میری ہتھیلی میں غور سے دیکھو۔ “

محسن راؤ کی آنکھیں بند تھیں۔ بند آنکھوں سے وہ جوگی رام پال کی ہتھیلی کو غور سے دیکھ رہا تھا تو اس میں ہاتھ کی لکیروں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔ لیکن پھر فوراً ہی وہ لکیریں دھندلا گئیں اور ایک تصویر سامنے آگئی۔
یہ ایک جیتے جاگتے سانپ کی تصویر تھی۔ وہ کنڈلی مارے اور پھن پھیلائے جھوم رہا تھا۔

“بابا۔ کچھ نظر آیا ؟ ” جوگی رام پال نے پوچھا۔
“ایک سانپ نظر آرہا ہے جو پھن پھیلائے لہرا رہا ہے۔ “ محسن راؤ نے جو دیکھا، وہ بتایا۔
“کس رنگ کا سانپ ہے ؟؟..”
جوگی رام پال نے پوچھا۔”
” ایک دم کالا ہے اور چمکیلا۔ “ محسن راؤ نے جواب دیا۔” “اس کے پھن کو غور سے دیکھو۔ “
“ٹھیک سے دیکھ رہا ہوں ۔ ؟
“اس کے پھن پر کسی قسم کا کوئی نشان ہے کیا بابا۔ “
” ہاں، ایک دائرہ سا ہے ۔ “ محسن راؤ نے جواب دیا۔
“غور سے دیکھو۔ یہ دائرہ کسی پرندے کی آنکھ جیسا ہے۔ ؟؟”
“ہاں ہے تو ۔ “ محسن راؤ بولا۔
“بالکل اس پرندے کی آنکھ جیسا جو تم نے سوچا تھا۔ “
“ہاں بالکل۔ “
“کیا اس پرندے کا نام الو ہے ؟ “
“ہاں، جوگی جی۔ “
“کیا تمہیں اب بھی، وہ سانپ نظر آرہا ہے۔ ؟؟؟”
” نہیں۔ “
“میرا ہاتھ دکھائی دے رہا ہے۔ “
“وہ بھی نہیں۔ “
“ٹھیک ہے، اب تم اپنی آنکھیں کھول لو ۔ “

محسن راؤ نے اپنی آنکھیں کھولیں تو اسے کچھ دیر تک کچھ نظر نہ آیا۔ تھوڑی دیر تک وہ آنکھیں کھولتا اور بند کرتا رہا تب جاکر اس کی آنکھوں کی روشنی بحال ہوئی۔
“جاؤ، بابا ۔ اب تم جاؤ ۔ ” اس نے محسن راؤ سے کہا۔

محسن راؤ فوراً کھڑا ہو گیا۔ وہ کھڑا ہوا تو اسے چکر سے آگئے۔ اس نے فوراً ہدایت اللہ کا ہاتھ پکڑلیا

“کیا ہوا؟“ ہدایت اللہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
“کچھ نہیں۔ ایسے ہی سر گھوم گیا تھا۔ “ محسن نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“اچھا، جوگی مہاراج، آپ ادھر ہی بیٹھیں۔ میں انہیں بستی تک چھوڑ کر آتا ہوں ۔ “ ہدایت اللہ نے کہا۔
‘ٹھیک ہے جاؤ پر جلدی آنا، بابا۔ ابھی واپس بھی جانا ہے” جوگی رام پال نے کہا۔
وہ دونوں جانے لگے تو اچانک رام پال کو کچھ یاد آیا۔

“سنو بابا۔ ” جوگی رام پال نے پکارا۔
“ہاں، کیا ہوا جوگی مہاراج ۔ “
ہدایت اللہ نے پلٹ کر پوچھا۔
“اس سے پوچھو، یہ یہاں سے نکلنا بھی چاہتا ہے کہ نہیں۔؟؟؟“
“کیوں محسن صاحب، آپ کیا کہتے ہیں۔؟ ”
“ہاں، جوگی جی، میں یہاں سے بھاگ جانا چاہتا ہوں۔ فرار ہونا چاہتا ہوں۔ “ محسن راؤ نے بے قراری سے کہا۔
“ہدایت اللہ تم نے بتایا تھا کہ وہ راج مداری اپنے گلے میں کوئی چیز لٹکائے رہتا ہے۔ کسی جانور کا پنجہ وغیرہ ؟ ” جوگی رام پال نے سوالیہ انداز میں تذکرہ کیا۔
“۷ ہاں جوگی جی۔ راج مداری کے گلے میں اُلو کا پنجہ ہوتا ہے؟ ..”
ہدایت اللہ کے بجائے محسن راؤ جواب دیا۔
“بابا، کیا تم وہ پنچہ اس کے گلے میں سے نکال سکتے ہو؟“ جوگی نے پوچھا۔
“کام ہے تو مشکل پھر بھی کوشش کروں گا۔ “
محسن راؤ نے کہا۔
“شاباش۔ اگر تم نے اس کے گلے سے پنجہ کاٹ لیا تو میرا کام آدھا رہ جائے گا۔ اس کی طاقت آدھی رہ جائے گی۔ مجھے اسے پچھاڑنے میں آسانی رہے گی۔ “
جوگی رام پال بولا۔
“دیکھو، میں کرتا ہوں کوشش۔ ” محسن راؤ نے کہا۔
” آؤ، ہدایت اللہ چلو۔ “
پھر وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے پل پر آئے راستے میں اس نے بتایا
” نادرہ بی بی کل لاہور جاتے ہوئے تم سے ملنے آئیں گی۔ اس نہر کے پل پر کل ہمارا انتظار کرنا۔ “
“کس وقت ؟ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
” شام تو ہو ہی جائے گی۔ ” ہدایت اللہ نے بتایا۔

“ٹھیک ہے، میں پل پر آجاؤں گا۔ “ محسن راؤ نے وعدہ کر لیا۔

ہدایت اللہ نے محسن راؤ کے جانے کے بعد گاڑی اسٹارٹ کی اور جوگی رام پال کو بٹھا کر بہرام نگر کا رخ کیا۔ بہرام نگر پہنچ کر اس نے جوگی رام پال کو اس کی بستی کے نزدیک اتارا اور گڑھی کی جانب روانہ ہو گیا۔ نادرہ اس کی بے چینی سے منتظر تھی۔ اس نے جوگی رام پال اور محسن راؤ کی ملاقات کا آنکھوں دیکھا حال کہہ سنایا اور جو کچھ وہاں پیش آیا، وہ بھی بتا دیا۔
ساری باتیں سن کر نادرہ نے پوچھا۔
” اب جوگی رام پال کا کیا پروگرام ہے۔ ؟”
“بی بی، کیسا پروگرام ؟” ہدایت اللہ نے وضاحت چاہی۔ “محسن کو جادو کے اثر سے نکالنے کا پروگرام اور کیسا پروگرام ۔ ” ۔
” وہ بتارہا تھا کہ جادو کے توڑ کے لئے سخت محنت کرنا ہوگی۔ اسے کئی راتیں جنگل میں رہ کر جاپ کرنا ہو گا۔ اس کے بعد سانپ اپنا کام دکھائے گا۔ یہ سانپ وہی ہو گا جو محسن صاحب کو جوگی کے ہاتھ میں نظر آیا تھا۔ جوگی رام پال کے عمل کے بعد وہ جنگل سے بر آمد ہو گا۔ جوگی رام پال اسے پکڑ کر اپنی پٹاری بند کرے گا اور پھر وہ راج مداری کے گھر کی طرف روانہ ہو جائے گا۔
” وہ سانپ وہاں کیا کرے گا ؟؟ “
“جوگی مہاراج نے نہیں بتایا ، بس اتنا ہی کہا کہ اس کے بعد محسن صاحب آزاد ہو جائیں گے ۔ “
“اللہ کرے، ایسا ہی ہو۔ ” نادرہ نے خوش ہو کر کہا۔ “کتنی رقم مانگتا ہے ۔ “
“وہ کہتا ہے کہ جو مل جائے گا, لے لے گا۔ “
“تم نے اسے یہ تو نہیں بتایا کہ یہ کام کون کروانا چاہتا ہے ۔؟؟ “
”بی بی، آپ کیا بات کرتی ہیں۔ میں بھلا آپ کا نام لوں گا کیا؟ ویسے اسے اس سے غرض نہیں کہ کون محسن صاحب کے اوپر سے جادو ختم کرانا چاہتا ہے۔ اسے تو بس پیسے سے مطلب ہے…”
” چلو یہ اچھا ہے۔ کام ہو جانے پر میں اسے ایک معقول رقم بھجوادوں کی یا چاہو تو کچھ رقم پیشگی دے
آؤ۔ “
ہاں بی بی، کچھ تم رقم پیشگی دے دی جائے تو اچھا ہے۔ اس کی دلچسپی بڑھ جائے گی ۔ “
“چلو ٹھیک ہے۔ ” نادرہ نے اپنا پرس کھولتے ہوئے کہا۔ ” یہ لو۔ “
وہ سو سو کے دس نوٹ تھے۔ ہدایت اللہ وہ رقم جو گی رام پال کو دے آیا۔ ایک ہزار روپے دیکھ کہ جوگی رام پال کے چہرے پر رنگ آگیا۔ پھر جب ہدایت اللہ نے اسے بتایا کہ کام ہونے پر اسے مزید رقم ملے گی تو اس کی خوشی کی کوئی انتہانہ رہی۔ وہ بہت دیر تک ہدایت اللہ سے اس جادو کے توڑ کے بارے میں باتیں کرتا رہا۔ دوسرے دن حسب وعدہ نادرہ شام ڈھلے پل پر پہنچ گئی۔ وہاں محسن راؤ پہلے سے موجود تھا۔ پھر وہ دونوں پل کے دوسرے کنارے پر پہنچ کر ڈھلان اتر گئے اور درختوں میں غائب ہو گئے ۔ ہدایت اللہ پل پر کھڑا ہو کر بہتے پانی میں ڈوبتے سورج کا نظارہ کرنے لگا۔

ابھی شام گہری نہیں ہوئی تھی لیکن درختوں میں خاصا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ اتنا کہ صورتیں بھی ٹھیک طرح سے دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ تب نادرہ نے محسن کا ہاتھ تھام لیا اور بہت پیار سے بولی۔ “کیسے ہو محسن؟”
“میں ٹھیک ہوں ۔ ” محسن راؤ نے رسما کہا۔
“میں نے تمہاری نجات کا بندوبست کر دیا ہے۔ وہ جوگی رام پال چار دن کے بعد ادھر آئے گا۔ یہاں جنگل میں رہے گا۔ عمل کرے گا۔ اور پھر اماوس کی رات تمہیں اس سحر سے آزادی مل جائے گی۔
محسن سوچو وہ صبح کسی قدر حسین ہوگی۔ جب تم کہیں بھی جانے کے لئے آزاد ہوگے۔ “
“میں تمہارے اس احسان کو زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ ” “مجھے بھول جاؤ گے۔ ” نادرہ نے ہنس کر کہا۔
“کیا بات کرتی ہو؟” وہ پریشان ہو کر بولا۔
“آزادی ایسی ہی چیز ہے۔”

میں آزاد کہاں ہوں گا۔ ایک قید سے نکل کر دوسری قید میں چلا جاؤں گا۔ “
” کس کی قید میں؟”
“ارے بھول گئیں، تم نے پہلی ملاقات میں کیا کہا تھا۔ “
“کیا کہا تھا۔ “
“بے فکر ہو جاؤ، میں اس کی قید سے نکال کر تمہیں اپنا قیدی بنا لوں گی۔ یہی کہا تھا نا۔؟؟ ” محسن راؤ نے کہا
“کیا تم میرے قیدی بننے کے لئے تیار ہو ۔ ” نادرہ نے پوچھا۔
” پہلے بھی اقرار کیا تھا، اب بھی اقرار کرتا ہوں۔ تمہارا قیدی بن کر مجھے خوشی ہوگی ۔ “
“کیا تم اس قید سے نکل کر میرے ساتھ بہرام نگر چلو گے۔ ؟؟”
ضرور چلوں گا۔۔ مگر یہ بتاؤ کہ گڑھی بہرام نگر کے دروازے مجھ پر کھل جائیں گے۔ ؟ “
محسن راؤ نے پوچھا
“میرے ہوتے ہوئے کون وہاں کے دروازے بند کر سکتا ہے۔ میرا نام نادرہ ہے۔ میں کوئی بزدل لڑکی نہیں ہوں۔ میں نے اپنے بابا جان کو بتادیا ہے کہ میں وقار سے شادی نہیں کروں گی۔ ” نادرہ نے انکشاف کیا۔
” پھر انہوں نے کیا کہا۔ ؟ “
“میرے بابا جان مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ انہیں میرے انکار کا افسوس تو ہوا لیکن انہوں نے روایتی باپ کی طرح میرے انکار کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ انہوں نے کہا کہ جس کی وجہ سے تم انکار کر رہی ہو، اس وجہ کو میرے سامنے لاؤ ۔ بس اب تمہیں بہرام نگر لے جا کر اپنے بابا جان کے سامنے کھڑا کر دوں گی اور کہہ دوں گی کہ یہ ہے وہ وجہ۔ “
نادرہ نے بتایا۔
“پھر جانتی ہو، اس کے بعد کیا ہو گا۔؟؟؟..”
“کیا ہو گا محسن جی۔ “
” دھائیں دھائیں، دو گولیاں چلیں گی اور محسن راؤ خون میں لت پت زمین پر لوٹیں لگا رہے ہوں گے..”
“اگر ایسا ہوا تو پہلی گولی میں اپنے سینے پر کھاؤں گی۔“ نادرہ نے دعوی کیا۔
“سچ کہتی ہو ۔ “ محسن راؤ کو یقین نہ آیا۔
“جھوٹ اور سچ کا پتہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ اب اس وقت میں کیا کہوں ۔ “

نادرہ کو لاہور جانے کے لئے دیر ہو رہی تھی، وہ اگلی ملاقات کا پروگرام طے کر کے مستقبل کے سہانے خواب دیکھتی لاہور چلی گئی۔ محسن راؤ دیر تک کھڑا اس کی گاڑی کی سرخ بتی کو دیکھتا رہا، جو نہ جانے کب کی
دکھائی دینا بند ہو گئی تھی لیکن وہ اسی فرضی نقطے پر نظریں جمائے دیکھے جا رہا تھا۔ اندھیرا گہرا ہو چکا تھا۔ دور بستی میں کہیں کہیں روشنی نظر آرہی تھی۔ باقی تین اطراف میں سناٹا طاری تھا۔ محسن راؤ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ واپس بستی میں چلے کہ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ ہاتھ کا دباؤ محسوس کرتے ہی محسن راؤ ایک دم سہم گیا۔ یہ ایک نرم ملائم دباؤ تھا۔ وہ اپنے آپ میں کہاں تھا۔
وہ تو نادرہ کی باتوں میں کھویا ہوا تھا۔ سندر سپنے دیکھ رہا تھا کہ اچانک اسے کسی نے ہلا دیا۔
وہ سمجھ گیا کہ آنے والا کون ہے لیکن اس کی یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ آنے والا یہاں کیوں آیا ہے۔

“یہاں، کیوں کھڑے ہو، محسن ؟” آنے والے نے پوچھا۔
“بس ایسے ہی کھڑا ہو گیا تھا، نہر کے بہتے پانی کو دیکھ رہا تھا ۔ “
”ایسے اندھیرے میں۔ “
“اندھیرا تو اب ہوا ہے۔ ” محسن نے صفائی پیش کی۔ ” تم کیوں آئی ہو راکھی؟”
” تمہیں باپو نے بلایا ہے۔ ” اس نے بتایا۔
“اسے کیسے معلوم ہوا کہ میں یہاں پل پر ہوں ۔ “
” اسے میں نے بتایا کہ تم پل پر ہوگے۔ تم یہاں شام کو آکر کھڑے ہو جاتے ہونا۔ “
“اس نے کیوں بلایا ہے ؟ ” محسن راؤ نے فوراً موضوع بدل دیا، وہ ڈرا کہیں کوئی اور بات نہ اس کے منہ سے نکل جائے۔
“مجھے نہیں معلوم چل کر پوچھ لو۔ “
“چلو۔ “

راکھی نے اس کا ہاتھ تھام کر چلنا چاہا لیکن محسن راؤ نے بہت نرمی سے اس سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا، اور تیز تیز چلنے لگا۔ اگر چہ مکمل اندھیرا تھا لیکن اسے بستی کا راستہ ازبر تھا، وہ جانتا تھا کہ راستے میں کہاں کیچڑ ہے کہاں پتھر ہے اور کہاں گڑھا ہے۔ برسوں ہو گئے تھے ان راستوں پر چلتے ہوئے۔
“محسن۔ ” راکھی جو پیچھے رہ گئی تھی اس نے زور سے آواز دی۔
“ہاں کیا ہوا؟ ” محسن چلتے چلتے رک گیا۔
“محسن ایک بات پوچھوں سچ سچ بتاؤ گے ۔ ” وہ اس کے برابر آگئی۔ اس کے لہجے میں جانے کیا بات تھی۔
“راکھی، کوئی ایسی ویسی بات نہ پوچھ لینا، کیا پتہ میں سچ کہہ سکوں یا نہیں۔ ” محسن راؤ ایک انجانے؛خوف میں مبتلا ہو کر بولا۔
” اگر تم کچھ جانتی ہو تو بہتر ہو گا کہ اسے ڈراؤنا خواب سمجھ کر بھول جاؤ ۔ “
“تم کتنے کٹھور ہو محسن۔ ” راکھی جیسے سسک کر بولی۔

محسن راؤ نے جواب میں کچھ نہ کہا، بس اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اور اسے بستی میں لے آیا۔ وہ اس کے جذبات سے اچھی طرح آگاہ تھا۔ اب اسے یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ وہ نادرہ کے ساتھ ملاقاتوں سے غافل نہیں ہے۔ جب کوئی کسی سے پیار کرتا ہے تو وہ اس سے کبھی غافل نہیں رہ سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ خود کو غافل ظاہر کرے۔ راکھی نے آج تک اس سے کھل کر بات نہیں کی تھی۔ بس اشاروں اشاروں میں ہی اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ محسن راؤ نے اس کے اشارے سمجھتے ہوئے بھی اس کے کسی اشارے کا جواب نہیں دیا تھا۔

محسن راؤ نے راستے میں سوچا ہو سکتا ہے کہ وہ نادرہ کے بارے میں کچھ نہ جانتی ہو۔ اور اپنے حوالے سے کوئی سچ اگلوانا چاہتی ہو، کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتی ہو۔ لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ بات ادھوری رہ گئی تھی۔ اور اسے فی الحال مکمل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ وہ صحن میں داخل ہوا تھا تو راج مداری سامنے ہی مونڈھے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سیدھے ہاتھ پر دو پاؤں پر ریچھ بیٹھا ہواتھا اور بائیں ہاتھ پر بندر کھڑا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ دونوں جانوروں کے سر پر رکھے ہوئے تھے۔ اس کے پیچھے دیوار میں گڑھی ہوئی کیل میں لالٹین لٹکی ہوئی تھی۔ پیچھے سے پڑتی ہوئی روشنی میں وہ تینوں عجیب و غریب دکھائی دے رہے تھے۔ بے حد پر اسرار اور خوف میں مبتلا کر دینے والے۔

“راکھی، یہ تو ہے کاں (کہاں ) ملارے۔ ” راج مداری نے بڑے پر اسرار لہجے میں پوچھا۔
“وہیں باپو، جہاں میں نے بتایا تھا۔ “راکھی نے سادگی سے جواب دیا۔
“نہر والے پل پر ؟ ” راج مداری نے تصدیق چاہی۔
“ہاں، باپو ۔ ” راکھی نے اثبات میں گردن ہلائی۔
“او رسیا۔ ” راج مداری اپنے بندر سے مخاطب ہوا۔ بندر اپنا نام سنتے ہی اس کی گود میں آبیٹھا ریچھ اپنے دو پاؤں پر اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
”ارے، میری گود میں کاہے چڑھ گیارے رسیا۔ جا میرا چکو (چاقو) تو لے کر آرے۔ “

چاقو کا نام سن کر محسن راؤ کی سٹی گم ہو گئی۔ راج مداری کا حکم سنتے ہی رسیا اس کی گود سے کودا اور چھلانگیں لگاتا ہوا اندر کمرے میں چلا گیا۔ چند لمحوں بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے منہ میں چاقو دبا ہوا تھا۔ نزدیک آکر وہ دو پاؤں پر کھڑا ہوا اور اپنے اگلے دو پاؤں اپنے سینے پر باندھ لئے اور اپنا منہ اٹھا دیا۔ راج مداری نے اس کے منہ سے چاقو نکال لیا۔ اسے کھولا تو چھ انچ لمبا پھل لالٹین کی دھندلی روشنی کے باوجود یکبارگی چمک اٹھا۔ محسن کھلے ہوئے چاقو کو دیکھ کر سہم گیا ۔ اسے یوں لگا جیسے راج مداری یہ چاقو پھینک کر اسے ماردے گا۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹ کر فوراً راکھی کی آڑ میں ہو گیا۔

” ادھر آرے چھورا ۔ ” راج مداری نے اسے اپنے نزدیک آنے کا اشارہ کیا۔ راکھی اس کے سامنے سے ہٹ گئی۔ وہ مجبوراً آگے بڑھا۔ اور اس کے نزدیک پہنچ کر خاموشی
سے کھڑا ہو گیا۔

“ویکھ محسنا، ما (میں) نے تجھے بہت سے کام سکھا دیئے ہیں رے۔ اب تجھے وہ کھیل سکھاتا یوں رے جس کی وجہ سے تیری جان بچی۔ ” راج مداری نے کہا۔
یہ سن کر محسن راؤ کی جان میں جان آئی۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ نادرہ سے ملاقاتوں کا راز کھل گیا ہے اب اسے سزا ملنے والی ہے۔ محسن راؤ نے گہرا اور ٹھنڈا سانس لیا اور بولا۔
”ہاں، باپو، سکھاؤ۔”
“سات دن کے بعد اماوس کی رات آنے والی ہے۔ یہ عمل آج سے سرو (شروع) ہو گا اور اماوس کی رات کو پورا ہو گا۔ اماوس کی رات کو تو جنگل میں ہو گا، ڈرمت، میں تیرے ساتھ چلوں گا رے۔ رات بارہ بجے ایک کھاس عمل کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد تو ایک بڑا جادو گر بن جائے گا رے ۔ پر محسنا ایک بات بتا، بڑا جادوگر بن کر تو موہے چھوڑ کر تو نہیں چلا جائے گارے۔ ” راج مداری نے پوچھا۔

“کیسی بات کرتے ہو باپو۔ میں تمہیں چھوڑ کر کیوں جاؤں گا بھلا۔ “
“تمہارا کیا بھروسہ ہے محسن۔ ” راکھی نے اس کے نزدیک آکر آہستہ سے کہا۔ اتنی آہستہ کہ مداری نہ سن پایا۔”لا اپنا ہاتھ آگے بڑھا۔ ” راج مداری نے کہا۔ پھر راکھی سے مخاطب ہو کر بولا۔ راکھی تو پیچھے ہٹ۔ “
” یہ لے باپو ۔ ” راکھی پیچھے ہٹتے ہوئے بولی ۔ ” ہر کوئی مجھے ہی پیچھے ہٹاتا ہے۔ “
راج مداری نے راکھی کی بات پر کوئی توجہ نہ دی لیکن محسن راؤ نے اسے مڑ کر ضرور دیکھا۔ راج مداری نے محسن کا ہاتھ پکڑلیا۔ اور چاقو سے اسکے انگوٹھے پر ہلکا سا چیرہ لگایا۔۔ چاقو کی دھار بہت تیز تھی ۔۔ فوراً ہی خون نکل آیا۔ اس نے اپنے گلے سے اُلو کا پنجہ نکالا۔ اور کوئی منتر پڑھتے ہوئے اس پنجے کی ایک ایک انگلی پر خون لگایا پھر اس خون آلود پنجے کو اس کی پیشانی پر پھیرا، اس کی پیشانی پر خون کی لیکریں بن گئیں۔

“بس جا محسنا، اندر کمرے میں جا۔ اب تو نے کمرے سے سورج نکلنے سے پہلے نہیں نکلنا ہے رے۔ سمجھ گیا نہ میری بات ۔ چاہے تو ہے کوئی کتنا ہی پکارے ۔ دیکھ اگر اس کی پکار پر باہر نکل گیا تو اتنا جان لے کہ اندھا ہو جائے گارے ۔
” ٹھیک ہے، باپو، میں اندر جا رہا ہوں۔ اب صبح ہی باہر نکلوں گا۔ “ محسن راؤ نے اسے یقین دلایا۔

راج مداری بہت عیار آدمی تھا، یہ سارا چکر اس نے محسن راؤ کو جادو سکھانے کے لئے نہیں چلایا تھا۔ یہ چکر اس نے محسن راؤ کو مکمل طور پر اپنا مطیع بنانے کے لئے چلایا تھا۔ نادرہ سے ملتے ہوئے راکھی نے اسے دیکھ لیا تھا۔ اس نے راج مداری کو بتادیا تھا۔ راج مداری زمانہ شناس آدمی تھا، اس نے اندازہ لگا لیا کہ چند دنوں میں طوطا اڑنے کے قابل ہو جائے گا لہذا اس نے نہ صرف اس کے پر کاٹنے بلکہ ایک بڑے پنجرے میں بند کرنے کا بھی بندوبست کر لیا۔
ادھر راج مداری، محسن راؤ کو مزید قید میں جکڑنے کی کوشش کر رہا تھا تو ادھر رام پال جوگی نے اسے آزاد کرانے کا عمل شروع کر دیا تھا۔”

” جوگی رام پال نے بازار سے ایک گز کالا کپڑا، ایک نیا استرا اور ایک کوری مٹی کی ہنڈیا خریدی۔ رات کو اس نے بستی سے نکل کر ایک پیپل کی جڑ میں چھوٹا سا گڑھا کھودا، ہنڈیا کو اس میں رکھ کر دیکھا۔ ہنڈیا اس میں پوری طرح نہیں آئی۔ اس نے گڑھے کو تھوڑا سا اور کشادہ کیا۔ جب ہنڈیا پوری طرح اس گڑھےمیں بیٹھ گئی تو وہ گڑھے کو یوں ہی کھلا چھوڑ کر ہنڈیا کو اپنے ساتھ لے آیا۔ گھر میں آکر اس نے کمرے کا دروازہ بند کیا۔ جلتی لالٹین کو زمین پر رکھا۔ پھر ہنڈیا، استرا اور کالے کپڑے کو لے کر وہ زمین پر آسن جما کر بیٹھ گیا۔ ہنڈیا کو اوندھا کر کے اس نے کچھ پڑھنا شروع کیا۔ وقفے وقفے سے وہ استرے کو ہنڈیا پر مارتا جاتا تھا۔ پھر اس نے ہنڈیا کو سیدھا کیا، کالے کپڑے کو اپنے کندھے پر ڈالا۔ استرا ہاتھ میں پکڑا۔ اور پھر دوسرے ہاتھ سے لالٹین کی چمنی اٹھا کر اس میں پھونک ماری ۔ جلتی لالٹین بھڑک کر بجھ گئی۔ کمرے میں مکمل تاریکی چھا گئی۔ جوگی رام پال نے اپنے کندھے سے کالا کپڑا اتارا اور تیز استرے سے کاٹ کر اس کے تین ٹکڑےکر دیے۔
پھر کالے کپڑے کے دو ٹکڑوں اور استرے کو ہنڈیا میں ڈال دیا اور تیسرے ٹکڑے کو ہنڈیا کے منہ پر باندھ دیا۔ اور اندھیرے میں ہی ہنڈیا کو دونوں ہاتھوں میں اٹھا کر گھر سے نکل پڑا۔ وہ کچھ پڑھتا جاتا اور ہنڈیا پر پھونکتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ بستی کے باہر اس پیپل کے درخت کے
نیچے پہنچ گیا جہاں اس نے کچھ دیر پہلے ہنڈیا کے برابر گڑھا کھودا تھا۔
پہلے اپنے بائیں ہاتھ سے گڑھے کو ٹٹولا۔۔ گڑھے میں پانی بھرا ہوا تھا۔ پانی سے گڑھا بھرا ہوا محسوس کر کے اسے بڑی خوشی ہوئی۔ اس کا عمل کامیابی کی طرف گامزن تھا۔ جوگی رام پال نے وہ بند ہنڈیا اس گڑھے میں رکھ دی۔ کافی پانی اس ہنڈیا میں چلا گیا۔ جوگی رام پال نے پھر اس گڑھے کو اچھی طرح سے مٹی سے بند کر دیا۔ گڑھے پر مٹی ڈالنے کے بعد جوگی رام پال نے مٹی میں اپنی ایک انگلی گھسیڑ دی اور آدھے گھنٹے تک اکڑوں بیٹھا ہوا منتر پڑھتا رہا۔ اس کے بعد وہ اٹھ کر اپنے گھر آگیا۔ اور آرام سے سو گیا۔ دوسرے دن محسن راؤ سو کر اٹھا تو ہشاش بشاش تھا۔ وہ کمرے سے باہر نکل آیا۔ صحن میں چارپائی پر بیٹھی راکھی سبزی کاٹ رہی تھی۔ راج مداری ابھی اپنے کمرے میں پڑا سو رہا تھا۔ محسن راؤ، راکھی کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ راکھی کا ماتھا ٹھنکا۔ آج تک کبھی ایسا ہوا نہیں تھا۔ راکھی کے قریب بیٹھنا تو دور کی بات ہے۔ وہ نظر بھر کر دیکھتا بھی نہیں تھا۔
جوگی رام پال نے اس کو ہدایت کی تھی کہ کسی طرح راج مداری کے گلے سے اُلو کا پنجہ نکال لے۔ یہ کام وہ خود نہیں کر سکتا تھا۔ رات کو اسے خیال آیا تھا کہ یہ کام راکھی سے کیوں نہ کروانے کی کوشش کرے۔ اگر وہ اس پر تھوڑی سی توجہ دے دے۔ اس پر یہ ظاہر کرے کہ اسے، اس سے محبت ہوتی جارہی ہے۔ پھر وہ راکھی سے اُلو کا پنجہ اپنے گلے میں ڈالنے کی خواہش کا اظہار کرے تو راکھی یقینا اسکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے باپ کے گلے سے وہ پنچہ نکال کر اس کے حوالے کردے گی۔
یہ سوچ کر وہ راکھی کے نزدیک چار پائی پر بیٹھا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ جن لوگوں کو فریب دینے چلا ہے وہ کیسے شاطر لوگ ہیں۔ انہوں نے تو پہلے ہی اس کے گرد جال پھیلا دیا تھا۔ راکھی سندر سپنے دیکھنے میں مگن تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب محسن راؤ اپنا ماضی بھول جائے گا۔ اس کی یادداشت جادو کی بھول بھلیوں میں گم ہو جائے گی۔ پھر محسن راؤ کو اس سے کوئی نہ چھین سکے گا۔
خیر وہ چار پائی پر بیٹھا تو راکھی کی توجہ بٹ گئی۔ اور درانتی سے ساگ کاٹتے کاٹتے اس کا ہاتھ بہک گیا اور اس کی انگلی کٹ گئی۔
سی کر کے اس نے ساگ پرات میں ڈال دیا اور اپنی انگلی پکڑ کر دیکھنے لگی جس سے بھل بھل خون بہے جارہا تھا
“ارے، یہ تم نے کیا کیا ؟ “
محسن راؤ نے فوراً اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اور اپنے انگوٹھے سے اسکے زخم کو دبا دیا۔
اس محبت آمیز سلوک نے راکھی پر نشہ سا طاری کر دیا۔ وہ اپنی تکلیف بھول گئی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ اس کا جی چاہا کہ محسن یوں ہی صدیوں تک اس کا زخم دبائے بیٹھا ر ہے ۔
” ارے، یہ خون تو بہے جا رہا ہے۔ “
محسن راؤ نے انگوٹھا ہٹا کر دیکھا۔
“ٹھہرو، میں اندر سے کپڑا پھاڑ کر لاتا ہوں ۔ پانی میں بھگو کر باندھ دوں گا تو خون بہنا بند ہو جائے گا۔ “
تم مت اٹھنا محسن… بہنے دو خون ۔ تھوڑا سا خون بہہ جائے گا تو کیا ہو جائے گا۔ خون میرے پاس بہت ہے۔ ” راکھی نے اپنی آنکھیں کھول کر کہا۔
” پاگل ہوئی ہو ۔ ” وہ اٹھنے لگا۔
“محسن ایک بات بتاؤ ۔ ” راکھی نے اسے اٹھنے نہ دیا۔
“ہاں بولو۔ “
“دیکھو سچ سچ بتانا۔ ” اس نے اقرار کروایا۔
“چلو ٹھیک ہے، سچ سچ بتاؤں گا۔ “ محسن راؤ نے اقرار کر لیا۔
“تم نے کبھی پیار کیا ہے ؟” راکھی نے پوچھا۔
“ہاں کیا ہے۔ ” محسن راؤ نے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ “لیکن یہ مت پوچھنا کس سے؟”
“نہیں، یہ نہیں پوچھوں گی، میں جانتی ہوں ۔ ” اس نے معنی خیز لہجے میں کہا۔
“تم جانتی ہو ؟ ” وہ گھبرایا۔
“نہ صرف جانتی ہوں، بلکہ پہچانتی بھی ہوں ۔ “
“جب جانتی ہو تو پھر پوچھتی کیوں ہو ؟ “
“یہ جاننے کے لئے کہ تم کتنا سچ بولتے ہو۔ خیر اس بات کو چھوڑو، مجھے یہ بتاؤ کہ پیار کسے کہتے ہیں ؟” راکھی نے اپنی بات کا رخ پلٹ دیا۔
“پیار تاحیات قید کا نام ہے۔ ایک ایسی قید جسے آدمی اپنی خوشی سے قبول کرتا ہے۔ “
“اور نفرت ؟ “
“نفرت محبت کا دوسرا رخ ہے۔ ایک ایسا رخ جسے پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ “
“کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔؟
” ہاں بالکل… اصل میں دونوں ایک ہیں۔ نفرت، محبت محبت نفرت، اور شاید یہی زندگی ہے۔ “

محسن راؤ نے محبت کے فلسفے کی وضاحت کی۔ وہ کچھ سمجھی، کچھ نہ سمجھی۔ تبھی اندر سے کھانسنے کی آواز آئی۔ محسن نے فوراً اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ پھر وہ اندر کمرے سے ایک کپڑا پھاڑ کر لے آیا۔ اور اسے پانی میں بھگو کر اس کی انگلی پر لپیٹ دی۔
“راکھی اوری راکھی۔ کاں ہے ری تو ۔ “
”ہاں، باپو، میں باہر ہوں۔ “
“ای جرا مارا حکا تو تاجا کر ۔ “
“اچھا با پو۔ ابھی کرتی ہوں ۔ “
تم رہنے دو، میں حقہ تازہ کر کے دے دیتا ہوں ۔ ” محسن راؤ نے کہا اور راج مداری کے کمرے میں آگیا۔

راج مداری اپنی کارروائی میں لگا رہا، جوگی رام پال اپنے منتر پڑھ کر پھونکتا رہا۔ اس طرح تین دن گزر گئے۔ تین دن کے بعد اماوس کی رات تھی۔ جوگی رام پال پیپل کے درخت نیچے دبائی ہوئی اپنی ہنڈیا اکھاڑ کر ادھر جنگل میں آگیا تھا۔۔۔ ہدایت اللہ نے اسے کھانے پینے کی تمام اشیاء فراہم کر دی تھیں۔ خوردونوش کا اتنا سامان اس کے سامنے ڈھیر کر دیا تھا کہ وہ جنگل میں ایک ہفتہ بھی رہتا تو سامان ختم نہ ہوتا۔ ایک گھنے درخت کے نیچے اس نے اپنا ایک چھوٹا سا خیمہ لگالیا تھا۔ سانپوں کی کئی پٹاریاں وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ ان پٹاریوں میں مختلف سانپ بند تھے، ان میں ایک سانپ بہت خطرناک تھا اتنا خطر ناک کہ اگر محض پھنکار مار دے تو گھاس جل جاتی تھی اماوس کی رات ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب کو تھی ۔ ہفتے کو محسن راؤ جنگل کا چکر لگا گیا تھا۔ اس جوگی رام پال کو بتادیا تھا کہ وہ راج مداری کے گلے سے اُلو کا پنجہ نکالنے میں ناکام رہا ہے۔ جوگی رام نے اسے تسلی دی کہ وہ فکر نہ کرے۔ راج مداری اب اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ جوگی رام پال نے مداری کا استعمال شدہ کپڑا منگوایا تھا، محسن راؤ اس کی ایک دھوتی اٹھالایا تھا۔ جو اس نے جوگی رام پال کے حوالے کردی۔ محسن راؤ نے اسے یہ بھی بتا دیا تھا کہ اماوس کی رات وہ بھی اسی جنگل میں ہوں گے، یہ سن کر وہ خوش ہو گیا تھا۔ اور اس نے اپنی کامیابی کا سو فیصد یقین دلا دیا تھا۔ ادھر نادرہ ایک ایک دن گن کر گزار رہی تھی۔ اسے محسن راؤ کی آزادی کا شدت سے انتظار تھا

طے یہ ہوا تھا کہ وہ اتوار کی شام کو محسن راؤ کو لینے کے لیے آئے گی۔ اس نے کہلوایا تھا کہ اپنا ضروری سامان باندھ کر رکھے۔ اور مقررہ وقت پر پل کے نزدیک مقررہ جگہ پر پہنچ جائے۔ وہ اسے فورا بہرام نگر لے جائے گی۔

پھر ایک نئی اور خوشبو بھری زندگی کا آغاز ہو گا۔
ادھر راکھی کو اماوس کی رات کا شدت سے انتظار تھا۔ اسے یقین تھا کہ اماوس کی رات گزرتے ہی محسن راؤ اس کی پیشانی پر جھومر بن کر سج جائے گا۔ پھر ایک پربہار اور رنگین سفر کی ابتدا ہوگی۔ ہر شخص اپنے اپنے داؤ پر لگا ہوا تھا۔ امیدیں اور آرزوئیں مچل رہی تھیں۔ وقت کا دھارا بہہ رہا تھا۔
آدمی سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔ آدمی جو سوچے وہ ہو جائے تو پھر تقدیر اپنے کھیل کسے دکھائے۔ یہ لوگ اپنے اپنے کھیلوں میں لگے ہوئے تھے اور تقدیر دور بیٹھی اپنا ہی جال بن رہی تھی ۔۔
اماوس کی رات۔ تاریک اور سیاہ ۔ جنگل کا پرہیبت سناٹا۔ جوگی رام پال اور راج مداری ایک دوسرے سے بیگانہ اپنے اپنے منتروں میں مصروف۔
جوگی رام پال نے وقت مقررہ پر ہنڈیا کا منہ کھولا۔ اندر سے سیاہ کپڑے کے دونوں ٹکڑے نکالے انہیں زمین پر اس طرح رکھے کے صلیب کی شکل اختیار کر گئے یا یوں سمجھ لو کہ آدمی کا ڈھانچہ بن گئے۔۔
جوگی رام پال نے استرا کھول کر کپڑے کو چیر کر اسی جگہ زمین میں گاڑ دیا اور پھر استرے پر ہنڈیا اوندھا دی۔
اس کے بعد اس نے وہ کالا ناگ پٹاری سے نکالا جس کی ایک پھنکار سے گھاس جل جاتی تھی۔ ناگ پٹاری سے نکلتے ہی پھن پھیلا کر جوگی رام پال کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ جوگی رام پال نے راج مداری کی دھوتی اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اس کے سامنے لہرائی۔
کالے ناگ نے دھوتی دیکھتے ہی اس پر پھن مارا، دھوتی پر فوراً ہی سیاہ دھبہ پڑ گیا۔ جوگی رام پال نے کوئی منتر پڑھ کر یہ عمل تین بار دہرایا اور پھر وہ دھوتی سامنے کی طرف اچھال دی۔ وہ کالا ناگ فورا اس دھوتی کی طرف لپکا اور پھر جنگل کی زمین پر بڑی سرعت سے پھسلنے لگا۔ کالا ناگ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس نے کیا کرنا ہے اور کدھر جانا ہے۔ خیر یہ بات تو راج مداری بھی
اچھی طرح جانتا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اس نے محسن راؤ پر اپنا مکمل قبضہ جمانے کے لئے چھ دن پہلے جو عمل شروع کیا تھا، اسے آج کی رات مکمل ہو جانا تھا۔ راج مداری ریچھ کی کھال پر بیٹھا دیوائی منتر کا جاپ کر رہا تھا۔ محسن راؤ اس سے پانچ قدم کے فاصلے پر پڑے ایک بڑے پتھر پر بیٹھا تھا۔ ہر سو اندھیرا تھا۔ محسن راؤ اس تصور سے خوش تھا کہ آج کی رات، اس کے قید کی آخری رات ہے۔ آنے والی صبح ان دیکھی بیڑیوں کے کٹنے کی خبر لے کر آئے گی۔ ایک طرف وہ آزاد ہو جائے گا تو دوسری طرف راج مداری اپنی زندگی کا سب سے قیمتی جادو اسے سکھا دے گا۔ اسے بہت سے جادو آتے تھے لیکن اس جادو کی ہیبت کچھ اور ہی تھی۔ اوپر سے کٹ کر گرتے اعضاء دیکھ کر لوگ دم بخود ہو جایا کرتے تھے۔ اور اس کھیل کے بعد ان پر نوٹوں کی بارش ہو جاتی تھی۔ خیر اسے پیسے کی بالکل تمنا نہ تھی۔ وہ کئی کروڑ کی جائداد کا مالک تھا۔ البتہ یہ شعبدے بازی اپنی زندگی کو دلچسپ بنانے کے کام آئے گی۔ پھر جب وہ بہرام نگر کی راجکماری کو اپنے ساتھ لے کر لاہور اپنے گھر پہنچے گا تو اس کے ماں باپ کی حالت قابل دید ہوگی۔
اس بے چارے کو کیا معلوم تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ آئندہ اس اس کی اپنی ہی حالت قابل دید ہو جائے گی۔ جس قید سے نجات کے وہ خواب دیکھ رہا ہے، اس سے کہیں بد تر قید میں چلا جائے گا۔
پتھر پر بیٹھے بیٹھے اور سہانے سپنے دیکھتے دیکھتے اسے اونگھ سی آگئی۔
اسی لمحے کچھ ہوا۔ اور جو کچھ ہوا، وہ اس کے ہوش اڑا دینے کے لئے کافی تھا۔ راج مداری اچانک ہی کسی جانور کی طرح ڈکرایا تھا جیسے کسی نے اس کی گردن پر چھری پھیر دی ہو۔ محسن راؤ نے آنکھیں پھاڑ کر راج مداری کی طرف دیکھا مگر اسے کچھ نظر نہ آیا۔ ریچھ کی کھال، پھر اس پر بیٹھا وہ خود کچھ جیسا۔ پیچھے کالے درخت مکمل اندھیرا بھلا کیا نظر آتا۔
“کیا ہوا با پو؟” وہ پتھر سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
“محسنا، جلدی کر . ، میرے پاس آرے چھورا۔ “
وہ شدت درد سے کراہتے ہوئے بولا۔ محسن راؤ کو اتنا اندازہ تو تھا کہ وہ کہاں بیٹھا ہے اس کے درمیان محض پانچ قدم کا فاصلہ تھا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ شاید منتر الٹا ہو گیا ہے۔ بہر حال جب وہ اندازے سے راج مداری کے نزدیک پہنچا تو اس کے پاؤں کی ٹھوکر اس کے سر کو لگی۔ راج مداری نے فوراً ہی اس کا پاؤں گھسیٹ کر اسے اپنے اوپر گرا لیا۔ اوراس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بمشکل بولا۔
” دیواہ مدد، دیواہ آ “
“کیا ہوا باپو، کچھ بولو تو ؟” اس نے اپنا ہاتھ چھڑا کر راج مداری کے جسم کو ٹٹول کر دیکھنا چاہا لیکن راج مداری کی گرفت مضبوط تھی۔۔اسنے محسن کا ہاتھ نا چھوڑا
“دیواه مدد، دیواه آ” اس نے پھر کہنا شروع کیا
” با پو او با پو، کچھ بتا تو ؟ “
” اب کا بتاؤں رے لومڑی کے بچے۔ تونے کھوب دھوکا دیارے ۔ “
” با پو، کیا کہہ رہے ہو، میں تمہیں بھلا کیوں دھوکا دوں گا۔ تم ہی تو مجھے یہاں لائے ہو اس جنگل میں ” محسن راؤ کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
“اور وہ جو تیرا باپ ادھر بیٹھا ہے رے، اسے کون لایا رے یہاںں؟؟ موہے اب سب پتہ لگ گیا رے، دیواہ کی قسم سب پتہ لگ گیا۔ پر یاد رکھ کہ توہے میں آجاد نہ ہونے دوں رے ۔ دیواہ آ۔۔ دیواہ مدد “
راج مداری نے کسی کو مدد کے لئیے پکارتے ہوئے کہا۔ راج مداری نے اس کا ہاتھ بہت مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ اور ایک ہی بات کہے جا رہا تھا۔
“دیواه آ ۔ دیواہ مدد “

راج مداری کا ہاتھ کافی بڑا تھا۔ بہت سخت تھا۔ اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے یہ احساس ہوتا تھا جیسے کوئی پتھر کا ٹکڑا پکڑ لیا ہے۔ اس وقت جیسے جیسے وہ دیواہ کو مدد کے لئے پکارتا جاتا تھا، اس کا ہاتھ نرم پڑتا جاتا تھا۔
“دیواه کالی دیواه … دیواہ مدد دیواہ آ۔ ” وہ مسلسل بولے جا رہا تھا۔ اس کی آواز میں بلا کا درد تھا
بلا کا سوز تھا۔ کچھ دیر کے بعد ہی محسن راؤ کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ میں آگیا ہو۔ ۔ انتہائی نرم نازک ہاتھ تھا۔ گداز اور ریشمیں ۔ راج مداری کی آواز آرہی تھی۔
”دیواہ، اب یہ تیرے حوالے میں جاتا ہوں، میں جاتا ہوں۔ ” راج مداری کی آواز آہستہ آہستہ دور ہوتی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ وہ بالکل معدوم ہوگئی۔
پھر ایک جھٹکا سا لگا۔ وہ نرم ملائم اور گداز ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ راج مداری اپنے ساتھ لالٹین لایا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ جب جاپ ختم ہو جائے گا اور محسن راؤ کو جادو آجائے گا تو پھر وہ دونوں مل کر کھانا کھائیں گے۔ اور کھانا کھا کر سیدھے گھر چلیں گے۔ لائین راستہ دکھانے کے کام آ ئے گی۔
محسن راؤ نے آنکھیں پھاڑ کر اور ہاتھوں سے ٹٹول کر لالٹین تلاش کی۔ جیب سے دیا سلائی نکال کر لالٹین جلائی۔ پھر اس نے لالٹین اپنے ہاتھ میں پکڑ کر لو ذرا سی اونچی کی اور لالٹین کی مدھم روشنی میں اسے جو کچھ نظر آیا، وہ اس کے ہوش اُڑا دینے کے لئے کافی تھا۔

راج مداری کی لاش پگھل چکی تھی۔ لاش کے گرد سیاہ خون پھیلا ہوا تھا۔ محسن راؤ کو اندازہ ہوا کہ اسے کسی بے حد خطر ناک سانپ نے کاٹا ہے۔ سانپ کا خیال آتے ہی وہ فوراً اس کی لاش سے پیچھے ہٹ گیا اور لالٹین کی مدھم روشنی میں ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگا۔ آس پاس کسی سانپ کا وجود نہ تھا۔ اب اس نے یہاں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا، وہ لالٹین اپنے ساتھ لے کر جوگی رام پال کے خیمے کی طرف چل پڑا۔
جوگی رام پال کا خیمہ یہاں سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ جوگی رام پال کے ٹھکانے پر پہنچ گیا۔ اس کے چھوٹے سے خیمے کا پردہ گرا ہوا تھا اور اندر سے مدھم مدھم روشنی باہر نکل رہی تھی۔ خیمے کے اندر سے کسی قسم کی کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اندر کوئی نہیں ہے۔
محسن راؤ نے جھک کر خیمے کا پردہ ہٹایا تو اسے اندر جوگی رام پال دھونی رمائے بیٹھا نظر آیا۔ اس کے سامنے کالے کپڑے کا ایک پتلا سا بنا ہوا تھا جس کے درمیان میں ایک استرا پیوست تھا اور استرے پر ایک ہنڈیا اوندھی رکھی تھی۔ دائیں طرف ایک کھلی پٹاری رکھی تھی۔ جوگی رام پال کی گود میں ایک بین پڑی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔
جیسے ہی محسن راؤ نے خیمے کا پردہ ہٹایا، اسی وقت جوگی رام پال نے آنکھیں کھول دیں۔
دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔

“کہو، کیا خبر لائے ہو ۔ “ جوگی رام پال نے پوچھا۔
“راج مداری … چل بسا۔ ” محسن راؤ نے خبر سنائی۔
“بدھائی ہو…. آزادی مبارک ہو۔ ” جوگی رام پال خوش ہو کر بولا۔
“کیا میں آزاد ہو گیا ؟ میں جہاں چاہے جاسکتا ہوں۔ اب تو کوئی میرا کلیجہ نہیں پکڑے گا۔”
محسن راؤ نے تصدیق چاہی۔
“ہاں تم آزاد ہو گئے۔ تمہارے اوپر سے جادو کا اثر ختم ہو گیا۔ اس کام کے لئے مجھے بہت محنت کرنا پڑی ہے۔ اس کے علاوہ مجھے اپنے ایک قیمتی ناگ سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ “
“وہ کیسے؟”
“راج مداری کو ٹھکانے لگانے کی قیمت چکانا پڑی۔ “
“کیا مطلب؟”
“اس کام کے بدلے اس نے آزادی طلب کی جو مجھے دینا پڑی۔ مجبوری تھی راج مداری کو ٹھکانے لگانے کا کام کوئی اور کر بھی نہیں سکتا تھا۔ اس ناگ کے علاوہ ۔ “ “اس کا مطلب ہے کہ میرا خیال صحیح نکلا۔ واقعی اسے کسی ناگ نے ڈسا تھا۔ “
ہاں اور ناگ بھی کیسا جس کا کاٹا پانی مانگنا تو دور کی بات ہے خود پانی پانی ہو جائے۔ تم نے اس کی لاش تو دیکھ لی ہوگی ۔ “
“بہت بری حالت تھی لاش کی، مجھ سے تو دیکھی نہیں گئی۔ “ محسن راؤ نے کانپ کر کہا۔
” اس نے ظلم کیا تھا ایک مانس پر زبر دستی قبضہ جمالیا تھا۔ اسے اس کی سزا تو ملنا ہی تھی ۔ ” جوگی
رام پال نے کہا۔

“جوگی مہاراج، میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں ۔ “
” میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔ میں نے اس کام کا معقول محنتانہ لیا ہے۔ ” جوگی رام پال نے بتایا
اس میں کوئی شک نہیں کہ جوگی رام پال نے یہ کام معقول معاوضے پر کیا تھا اور اسکی یہ محنت رائیگاں نہیں گئی تھی ۔۔ ذراسی غفلت سے یہ معاملہ الٹا بھی ہو سکتا تھا۔ اگر راج مداری کو سانپ کے آنے کی اطلاع چند منٹ قبل مل جاتی تو راج مداری کی جگہ خیمے میں جوگی رام پال کی لاش پڑی ہوتی۔ راج مداری کوئی معمولی چیز نہ تھا۔ وہ اپنے تکبر میں مارا گیا۔ اس کے دماغ میں یہ بات آگئی تھی کہ اس وقت دور دور تک اس سے بڑا جادو گر کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔ کوئی نہیں جو اس کے مقابلے پر آسکے ۔ اس کے کئے ہوئے سحر کو توڑ سکے۔ لیکن بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ ہاتھی کو چیونٹی پچھاڑ جاتی ہے۔ راج مداری اس دنیا سے چلا تو گیا تھا لیکن جاتے جاتے ایک کرتب دکھا گیا تھا وہ مداری جو تھا۔ اس نے دیواہ کالی دیواہ ” کو پکار لیا تھا۔ اس طرح محسن راؤ آسماں سے گر کر کھجور میں نہیں اٹکا تھا بلکہ سیدھا پاتال میں چلا گیا تھا اور یہ بات اسے معلوم تھی، نہ جوگی رام پال کو۔ وہ رات محسن راؤ نے جوگی رام پال کے ساتھ اس کے خیمے میں گزاری۔
صبح کو یہاں ہدایت اللہ کو آنا تھا۔ اور شام کو نادرہ کو محسن راؤ سے ملنے کے لئے شہر کے پل پر آنا تھا۔ نادرہ نے کہا تھا کہ وہ اپنا سامان لے کر اس بستی کو خیر باد کہہ کر آئے کیونکہ وہ اسے اپنے ساتھ بہرام نگر لے جانا چاہتی تھی۔
صبح کو وقت مقررہ پر ہدایت اللہ آپہنچا۔ اس نے جو دونوں کو اکٹھا دیکھا تو خوشی سے جھوم اٹھا۔ اسے محسن راؤ کے یہاں ملنے کی توقع نہیں تھی۔

“صاحب جی، آپ کو یہاں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اس کا مطلب ہے کہ جو گی مہاراج نے اپنا چمتکار دکھا دیا ہے۔ ” ہدایت اللہ نے جوگی رام پال کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“ہاں، ہدایت اللہ اس ظالم کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔ ” محسن راؤ نے بتایا۔
” وہ ہے کہاں ؟ “
“جنگل میں پڑا ہے۔ “
“پھر تو آپ کو یہاں رکنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آپ اسی وقت میرے ساتھ چلئے ۔ جوگی مہاراج کو ان کی بستی میں چھوڑ کر ہم گڑھی بہرام نگر چلے جائیں گے۔ بی بی وہاں منتظر بیٹھی ہیں۔ آپکو ساتھ دیکھیں گی تو وہ پھر ہر فکر سے آزاد ہو جائیں گی۔ ” ہدایت اللہ نے تجویز پیش کی جسے محسن راؤ نے نے مان لیا۔

اس کا دل بہت گھبرا رہا تھا۔ وہ اس علاقے سے اب فوراً نکل جانا چاہتا تھا۔ جوگی رام پال اور ہدایت اللہ نے جلدی جلدی سامان سمیٹا، اسے نزدیک ہی کھڑی جیپ میں لادا پھر وہ تینوں بہرام نگر کی طرف روانہ ہو گئے۔ دوپہر تک وہ بہرام نگر پہنچ گئے۔ جوگی رام پال کو اس کی بستی میں چھوڑا، اور پھر ہدایت اللہ، محسن کو لے کر گڑھی بہرام نگر پہنچا۔ اس گڑھی کو دیکھ کر محسن راؤ کو اپنی ساون پور والی حویلی یاد آگئی۔ یادداشت کے آئینے پر جادو کی جو گرد جم گئی تھی، وہ اب بالکل صاف ہو چکی تھی۔ گزرا ہوا وقت انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھا تھا۔ ساون پور کی حویلی کے ساتھ اسے فوراً ہی اپنے چچا راؤ احمد علی کا خیال آیا۔
اس ظالم نے اسے قتل۔کروانے کی سازش کی تھی
اس واقعے کو گزرے کئی سال ہوگئے تھے۔۔ وہ اب تک مطمئن ہو چکا ہوگا کہ اب آسکی راہ میں کوئی کانٹا نہیں رہا۔ وہ خوب چین کی بانسری بجا رہا ہو گا۔ پھر اس نے اس کی گمشدگی کے بارے میں اس کے والدین کو جانے کیا بتایا ہوگا۔ بابا اور امی تو پریشان ہو کر رہ گئے ہوں گے۔ خیر کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ اب بچہ نہیں رہا ہے۔ زیادہ مضبوط، زیادہ طاقتور اور زیادہ تجربہ کار ہو چکا ہے، وہ ایک ایک کو دیکھ لے گا۔
فی الحال تو نادرہ اس کے سامنے کھڑی تھی، ابھی تو اسے دیکھنا تھا۔ جب ہدایت اللہ، محسن راؤ کو ساتھ لے کر گڑھی کے گیٹ میں داخل ہوا تو نادرہ نے فوراً ہی اس کو دیکھ لیا تھا۔ وہ سامنے اپنے اوپر والے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی تھی۔ جیپ کے اندر داخل ہوتے ہی جیسے ہی اس کی نظر محسن راؤ پر پڑی تو وہ خوشی سے دیوانی ہو گئی۔ وہ تیزی سے نیچے اتر کر گڑھی کے اندرونی دروازے پر پہنچ گئی۔
تبھی ہدایت اللہ ، محسن راؤ کے ساتھ گڑھی کے اندرونی دروازے پر پہنچا۔ نادرہ نے محسن کو دیکھا۔ محسن نے نادرہ کو دیکھا۔ آنکھوں سے آنکھیں ملیں۔ ہونٹوں پر تبسم آیا۔ آنکھوں میں شوق وصال جاگا۔ دونوں بے اختیار ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔ ہدایت اللہ کی موجودگی میں حجاب مانع آیا۔ دونوں ترس کر رہ گئے۔

” کمال ہے محسن آپ آگئے! “
نادرہ کے لہجے میں بے پناہ مسرت تھی۔
“ہم تو شام کو آپ کی طرف آنے کا پروگرام بنائے بیٹھے تھے۔ بس ہدایت اللہ کے آنے کا انتظار تھا۔ “
” تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔ نہر والے پل پر پہنچ کر آپ کا انتظار کروں گا۔ “ محسن نے ہنس کر کہا۔
“ہائے۔ اب آپ کو کون جانے دے گا۔ “
نادرہ نے بہت خلوص سے کہا۔ ” میں اس گڑھی میں آپ کو خوش آمدید کہتی ہوں۔ لیکن یہ تو بتائیے، یہ آپ نے اپنا حلیہ کیا بنا رکھا ہے۔ “
“صاحب ہم جنگل سے آرہے ہیں۔ ” محسن راؤ نے نادرہ کی خوبصورت آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کیا۔ ” اس لئے جنگلی بنے ہوئے ہیں۔ “
“اچھا, ہاں وہ راج مداری کے جادو کا کیا بنا ؟ “
نادرہ نے پوچھا۔
” بی بی، اس کا سحر ٹوٹ گیا، تبھی تو محسن صاحب آپ کے سامنے موجود ہیں۔ “۔ ہدایت اللہ نے کہا
“ہاں واقعی ان کا یہاں آنا ہی اس بات کا ثبوت ہے۔ پر یہ سب ہوا کیسے ؟ “
نادرہ نے ہاتھ کے اشارے سے اندر چلنے کو کہا۔ وہ محسن راؤ کو گڑھی کے عالیشان ڈرائنگ روم میں لے آئی۔ محسن راؤ ایک صوفہ پر بیٹھ گیا۔ ہدایت اللہ ہاتھ باندھے کھڑا ہو گیا۔ محسن راؤ نے اب تک جو بیتی تھی، وہ کہہ که سنائی۔ نادره ساری روداد سن کر بولی۔
” اس کا مطلب ہے، رام پال کام کا آدمی نکلا۔ میں تو اسے محض سپیرا سمجھ رہی تھی ۔ “
“نہیں ، وہ محض سپیرا نہیں ہے۔ وہ جادو جانتا ہے، اس نے راج مداری کے جادو کا توڑ کر کے اسے ٹھکانے لگا دیا۔ راستے میں جوگی رام پال نے بتایا کہ راج مداری کی موت ہی اس جادو کا توڑ تھا۔ راج مداری کی زندگی میں مجھے بڑے سے بڑا جادو گر اس کے چنگل سے نہیں چھڑا سکتا تھا۔ جوگی رام پال نے مجھے اس کے چنگل سے چھڑانے کے لئے کئی عمل کئے۔ اس نے بہت محنت کی۔ پھر اس چکر میں اس نے ایک قیمتی سانپ بھی گنوادیا۔ اس کے بارے میں جوگی رام پال نے ایک پر اسرار سی بات کہی جو کم از کم میری تو سمجھ میں آئی نہیں۔ ” محسن راؤ نے بتایا۔
“ایسا کیا کہا ؟ ” نادرہ نے پوچھا۔
“اس نے بتایا کہ اس سانپ نے راج مداری کا کام تمام کرنے کے لئے آزادی طلب کی تھی.. جو جوگی رام پال کو دینا پڑی کیونکہ بقول اس کے اس کام کو کوئی اور ناگ نہیں کر سکتا تھا۔ “
“یہ سپیروں اور سانپوں کی دنیا بھی بڑی عجیب ہے۔ آپ نے جوگی رام پال سے وضاحت طلب نہیں کی۔ ” نادرہ نے پوچھا۔
”ہاں، میں نے اس سے بات کی تھی لیکن اس نے کچھ بتایا نہیں۔ وہ بات ٹال گیا۔ “
“میرا خیال ہے کہ وہ سانپ جوگی رام پال کی قید میں ہو گا۔ ” اس نے اسے آزادی دے کر یہ کا کروالیا۔ ” نادرہ نے بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ “اچھا خیر چھوڑیں اس مسئلے کو۔ آپ جا کر منہ ہاتھ دھولیں۔ میں آپ کے لئے کپڑے بھجواتی ہوں ۔ “
“ٹھیک ہے ؟ ” محسن راؤ فوراً کھڑا ہو گیا۔
“دیکھو، ہدایت اللہ ۔۔۔ محسن صاحب کو مہمانوں والے کمرے میں لے جاؤ۔ فی الحال میں بابا جان کے کپڑے بھجوائے دیتی ہوں۔ پھر ایک دو دن میں نئے کپڑے مل جائیں گے۔۔ ماسٹر رزاق سے کہ دینا شام کو آکر ناپ لے جائے۔ ” نادرہ نے کہا۔
“جی بهتر بی بی، میں ماسٹر رزاق کو بلا لاؤں گا۔ “
“ٹھیک ہے محسن آپ اپنے کمرے میں چلیں۔ نہائیں دھوئیں۔ کپڑے تبدیل کریں۔ آپکو شدت کی بھوک لگی ہوگی۔ میں کھانا لگواتی ہوں۔ ساتھ کھانا کھائیں گے ۔ ” نادرہ نے کہا اور ڈرائنگ روم کے اندرونی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔

محسن راؤ، ہدایت اللہ کی رہنمائی میں مہمان خانے کی طرف چلا ۔ یہ ایک شاندار کمرہ تھا۔ ایک طویل عرصے کے بعد محسن راؤ کو یہ پر آسائش کمرہ نصیب ہوا تھا۔ اب اسے ہر لمحے بات بات پر اپنا گھر اپنی حویلی یاد آرہی تھی۔ اپنے والدین یاد آرہے تھے۔ محسن راؤ کو حیرت ہو رہی تھی کہ اتنے سال اس نے اپنے ماں باپ کے بغیر کیسے گزارے ۔ راج مداری کے عمل نے اس کا دل و دماغ معطل کر دیا تھا۔ وہ اپنا آپ ھی بھول گیا تھا۔ اس کے دل میں راج مداری کے کچے مکان کی محبت بھر گئی تھی۔ وہ اس بستی سے نکلنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اور اب سحر ٹوٹتے ہی وہ بارہ تیرہ سالہ محسن بن گیا تھا۔ شکار پر نکلنے اور قتل کی سازش کے واقعات بار بار اس کے دماغ میں گھوم رہے تھے۔
ہدایت اللہ اسے کمرے میں پہنچا کر چلا گیا۔ محسن راؤ خوبصورت بیڈ پر نیم دراز ہو کر کپڑوں کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد ایک ملازمہ راجہ بہرام نگر کے دو تین جوڑے میز پر رکھ کر چلی گئی۔ محسن راؤ ایک جوڑا لے کر غسل خانے میں گھس گیا۔ یہ ایک پر آسائش غسل خانہ تھا۔ نہا کر جب وہ قد آدم آئینے کے سامنے کھڑا ہوا تو اپنے آپ کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
وہ کیا سے کیا ہو گیا تھا۔
راج مداری کے گھر میں ایک چھوٹا سا آئینہ تھا، اور وہ بھی چٹخا ہوا۔ اس میں پورا چہرہ بھی نظر نہ آتا۔۔
اسے اپنا چہرہ بھی ٹکڑوں ٹکڑوں میں دیکھنا پڑتا تھا۔ آج ایک لمبے عرصے کے بعد اس نے اپنے وجود کو آئینے میں دیکھا تو وہ اپنے آپ میں کھو گیا۔
اس آئینے میں، کبھی وہ تیرہ چودہ سالہ محسن کو دیکھا کرتا تھا۔ آج وہ اٹھارہ انیس سال کا تھا۔ اس کی اٹھان تو بچپن سے ہی اچھی تھی۔ جوانی نے تو قیامت ڈھا دی۔ وہ اس پر ٹوٹ کر برسی تھی۔
محسن کالڑکپن غائب ہو چکا تھا۔ نوجوان محسن اس کے سامنے تھا۔ وہ ایک بہت پر کشش نوجوان بن گیا
کسرتی سڈول جسم ۔ سینے پر کالے اور گھنے بال، چوڑا سینہ، اونچا لمبا قد، سفید رنگت، کتابی چهره،
مقناطیسی آنکھیں۔ وہ آئینے میں خود کو ہر زاویے سے دیکھ رہا تھا اور خوش ہو رہا تھا۔ وہ یہ تو جانتا تھا کہ وہ خوبصورت ہے لیکن یہ نہیں جانتا تھا کہ اس قدر خوبصورت ہے۔ آج اسے اپنے انتہائی حسین ہونے کا یقین ہوا۔
خود کو آئینے میں دیکھتے دیکھتے اچانک اس کو یہ احساس ہوا کہ وہ غسل خانے میں اکیلا نہیں ہے۔ اس احساس کے ساتھ ہی اس نے اپنے قدموں میں پڑے تولیہ کو اٹھا کر فوراً اپنے گرد لپیٹ لیا، اور دروازے کی طرف مڑ کر دیکھا۔
دروازہ بند تھا۔ پھر اس نے غسل خانے میں چاروں طرف نظریں گھمائیں۔ غسل خانے میں اس کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ لیکن یہ احساس اب بھی قائم تھا کہ غسل خانے میں اس کے علاوہ بھی کوئی ہے۔ اس خیال اس کے دل میں خوف سا پیدا ہوا۔ وہ مزید وہاں نہیں ٹھہر سکا۔ اس نے جلدی جلدی کپڑے پہنے اور نکل آیا۔
باہر آیا تو ایک ملازمہ اس کی منتظر تھی۔ اسے دیکھ کر وہ بولی ۔ ”بی بی، آپ کا کھانے کی میز پر انتظار کررہی ہیں۔ ؟”
” ٹھیک ہے چلو۔ ” محسن نے کہا اور اس ملازمہ کے ساتھ چل دیا۔
کھانے کے کمرے میں، کھانا سجائے نادره اس کی منتظر تھی۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرائی۔ راجہ بہرام نگر کپڑوں میں وہ بالکل راجکمار لگ رہا تھا۔ نادرہ نے اسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھا لیکن کچھ بولی

“کیا ہوا کیوں مسکرارہی ہیں۔؟ برا لگ رہاہوں نا؟؟ بھئی مانگے کےکپڑوں میں بندہ ایسا ہی لگ سکتا ہے۔ “
محسن راؤ نے ہنستے ہوئے ایک کرسی کھینچی اور بڑے مہذبانہ طریقے سے بیٹھ گیا۔
“آپ بہت اچھے لگ رہے ہیں جناب ….. بالکل راجکمار ” نادرہ نے اس کی تعریف کی
“راجکمار نہ سہی، چھوٹا موٹا زمیندار ضرور ہوں یہ اور بات ہے کہ فی الحال بے زمین ہوں ۔” محسن نے کھانا نکالتے ہوئے کہا۔
“محسن بے فکر ہو جاؤ۔ میں تمہیں تمہاری زمینیں دلوا کر رہوں گی۔ ذرا بابا جانی آجائیں۔”
نادرہ نے بڑے پر عزم لہجے میں کہا۔
“راجہ صاحب کہیں گئے ہوئے ہیں۔ ؟ ” محسن راؤ نے پوچھا،
” آج کل وہ پیرس میں ہیں۔ ” نادرہ نے اسے بتایا۔
“پیرس میں۔ ؟ “
ہاں ۔ ” نادرہ نے اثبات میں گردن ہلائی ۔
” میرے بابا جانی، بڑے زندہ دل انسان ہیں۔ انجوائے کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ کھیل تماشوں، میلے ٹھیلوں کے بہت شوقین ہیں۔ ان سے وقت بچتا ہے تو شکار کھیلتے ہیں۔ شکار سے دل بھر جاتا ہے تو سیر و تفریح کو نکل جاتے ہیں۔ آج کل ان پر سیاحت کا بھوت سوار ہے۔ ” نادرہ نے بتایا۔
“یہ بھوت کب اترے گا۔ میرا مطلب ہے کہ .. ؟؟”
محسن راؤ نے بات مکمل نہ کی۔
“میں آپ کا مطلب سمجھ گئی ۔ ” نادرہ مسکرا کر بولی ۔ ”بس، وہ دو چار دن میں آنے ہی والے ہیں۔ “
” باپ پر تو سیاحت کا بھوت سوار ہے چلئے مان لیا۔ لیکن بیٹی پر آج کل کون سا بھوت سوار ہے؟؟” محسن راؤ نے ہنس کر پوچھا۔
“یہ جو میرے سامنے بیٹھا ہے ۔ “
نادرہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ محسن راؤ اس کا جواب سن کر خوش ہوا اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور بولا ۔
” بھئی بہت خوب۔ “
” محسن اس گڑھی میں آئے ہوئے مشکل سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ ہوا ہے لیکن جانے کیوں، مجھے محسوس ہو رہا ہے جیسے تم یہاں کافی عرصے سے ہو۔ ایسا کیوں محسوس ہو رہا ہے مجھے؟؟ ۔ “نادرہ نے پوچھا
“میں کیا جانوں ۔ ؟ ” محسن راؤ نے معصومیت سے کہا۔
“اچھا یہ بتاؤ، کیا تمہیں راکھی یاد نہیں آتی۔ “
نادرہ نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھا۔
” وہ بے چاری، میرے جنگل سے لوٹنے کا انتظار کر رہی ہوگی۔ تم جانتی ہو نادرہ کہ راج مداری مجھے جنگل میں جادو سکھانے نہیں لے گیا تھا ۔ ؟ ” محسن راؤ نے انکشاف کیا۔
“تو پھر ۔ ؟ ” نادرہ نے پوچھا۔
” وہ مجھ پر مکمل قبضہ چاہتا تھا۔ اس نے ایسا عمل شروع کیا تھا کہ اگر وہ مکمل ہو جاتا تو میری یادداشت بھی گم ہو جاتی۔ میں ایک دم الو بن جاتا۔ وہ جو کہتا مجھے اس پر عمل کرنا ہوتا۔ یہ بات مجھے جوگی رام پال
نے بتائی ۔ “
“شکر ہے محسن تم بچ گئے ۔ ؟” نادرہ نے ٹھنڈا سانس بھرا۔
“ہاں، واقعی ۔ ” محسن نے کہا۔
“میں راکھی کی بات کر رہی تھی۔ سنا ہے وہ تمہیں بہت چاہتی تھی ۔ ” نادرہ نے اس کی طرف ترچھی نظروں ہوں سے دیکھا۔
“یہ سچ ہے ۔ ؟ ” محسن راؤ نے صدق دل سے کہا۔
“سنا ہے، وہ ہے بھی بہت خوبصورت۔ “
“یہ بھی سچ ہے۔ ” محسن راؤ نے اقرار کیا، پھر پوچھا۔ “لیکن یہ بات تمہیں کس نے بتائی۔ تم نے تو اسے نہیں دیکھا ہے ۔ “
“ہاں، میں نے تو اسے نہیں دیکھا، دیکھنے کی تمنا ہی رہی۔ یہ بات مجھے ہدایت اللہ نے بتائی۔ اس نےراکھی کو دیکھا تھا۔ ” نادرہ نے بتایا۔
“تم راکھی کا ذکر کیوں لے بیٹھی ہو۔ ” محسن راؤ کو تشویش ہوئی۔
“ایسے ہی، تمہیں برا لگ رہا ہے ۔ “
“برا نہیں، غیر ضروری لگ رہا ہے۔ “
“پھر کس کی بات کروں ۔ ؟ “

اپنی صرف اپنی ۔ ” محسن راؤ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
“میں کیا ہوں ؟؟ یہ عجیب سوال تھا۔
” تم ساحرہ ہو “
“اگر میں ساحرہ ہوں تو کم تم بھی نہیں، تم جادو گر ہو، بہت بڑے جادو گر جس نے نادرہ جیسی سرکشیدہ لڑکی کا دل اپنی مٹھی میں لے لیا۔ “
“نادرہ، اگر میں محض ایک مداری کا بیٹا ہوتا تو کیا تم پھر بھی اسی قدر چاہتیں؟” محسن نے پوچھا۔
“واہ، تم نے یہ کیا سوال کیا ؟ ” نادرہ نے کھانا کھاتے ہوئے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
“کھانا تو کھاؤ ۔ “ محسن راؤ نے اسے ٹوکا۔
ہاں، کھاتی ہوں، پہلے تمہارے سوال کا جواب دے دوں ۔ ” نادرہ نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔

“جب تم نے میرے ہاتھ پر انگوٹھی رکھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب میں تمہاری محبت میں گرفتار ہوئی۔ اور جب تم سے ملنے تمہاری بستی پہنچی تو یہ وہ لمحہ تھا کہ میری روح بھی، میری نہ رہی تھی، کسی اور کے قبضے میں چلی گئی تھی اور میں بے قرار ہو کر اپنی روح کی تلاش
میں نہر والے پل پر پہنچ گئی تھی۔ اب تم تم خود ہی
انصاف کرو محسن۔ ان دونوں لمحوں میں مجھے یہ کب معلوم تھا کہ تم کسی بڑے زمیندار کے بیٹے ہو۔ یا مجھے معلوم تھا ؟ “
محسن راؤ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اسے مسکرا کر دیکھتا رہا۔ اسے اندازہ ہو گیا نادرہ اس کے سوال پر خفا ہو گئی ہے۔ اس کے لہجے کی خفگی اس نے صاف محسوس کرلی تھی۔ یہ سوال اس نے برسبیل تذکرہ کر دیا تھا جیسے اس نے راکھی کے بارے میں پوچھا تھا۔ اس نے بھی ایک سوال کردیا تھا۔ حالانکہ اس دوران اسے اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا کہ نادرہ کس قدر دیوانی لڑکی ہے، اس قدر کہ آگ میں کود کر نتیجے کے بارے میں بھی نہیں سوچتی تھی، ایسی لڑکی سے اس طرح کا سوال اس کی بے غرض محبت کا مذاق اڑانے کے مترادف تھا۔ محسن راؤ نے ایک چھوٹا سا نوالہ بنایا اور اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔ ”لو یہ کھاؤ۔۔ خوبصورت لوگوں کو ناراض نہیں ہونا چاہئے۔ وہ برے لگتے ہیں۔ “
اس چھوٹے سے نوالے کے لئے نادرہ نے فوراً بڑا سا منہ پھاڑ دیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر نوالہ اپنے منہ میں لے لیا پھر مسکراتے ہوئے بولی۔ ” میں ناراض تو نہیں ہوں ۔ “

کھانا کھانے کے بعد محسن راؤ مہمان خانے میں چلا آیا۔ یہاں بیٹھ کر ان دونوں نے کافی پی رات بھر کا جاگا ہوا تھا۔ اسے زبر لدست نیند آرہی تھی۔ نادرہ اسے آرام کرنے کا کہہ کر اس کے کمرے سے چلی گئی۔ اور جاتے جاتے کمرے کا دروازہ بند کر گئی۔ محسن نے اٹھ کر کھڑکیوں کے پردے برابر کئے ۔ کمرے میں ایک خوشگوار سا اندھیرا چھا گیا۔ وہ بیڈ پر لیٹا تو فوراً ہی اس کی آنکھوں میں نیند اترنے لگی۔
تب وہ غسل خانے سے نکلی۔ محسن راؤ کے بیڈ کے نزدیک آکر اس نے اسے بغور دیکھا، محسن دلکش مرد تھا جس پر کوئی بھی جنس مخالف اپنا دل ہار سکتی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ چہرے پہ سکون چھایا ہوا تھا۔ وہ سوتا ہوا اتنا حسین لگ رہا تھا کہ وہ بے قرار ہو اٹھی۔ اس نے محسن راؤ کے پیروں کی طرف آکر اس کے دونوں انگوٹھے پکڑ لئے، اور پھر وہ دھیرے دھیرے اس کے جسم میں سرایت کرنے لگی۔ انگوٹھوں سے پیروں میں، پیروں سے پنڈلیوں میں اوپر اور اوپر یہاں تک کہ سینے میں۔
محسن راؤ اس وقت پوری طرح سو نہیں پایا تھا۔ نیم غنودگی کی سی کیفیت تھی۔ اسے یوں محسن ہوا جیسے پاؤں کے انگوٹھوں سے اس کے جسم میں دھواں سا بھر رہا ہے۔ اس پر گھٹا سی چھا رہی ہے۔ ایک خلش ایک سرشاری کی کیفیت اس پر طاری ہو رہی ہے۔ پھر یہ دھواں سا، یہ بادل سے اس کے اندر پرواز کرتے اس کے سینے تک پہنچ گئے۔ اس کے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر بندھے ہوئے تھے۔ تب کسی نے اسے چھوا۔ ایک ریشمیں ہاتھ کا سا احساس اسے اپنے ہاتھ پر ہوا۔ اب اس نے لاحول پڑھنی شروع کی۔ اس کے جسم نے مزاحمت کا آغاز کیا۔ اس نے چیخنا چاہا۔ وہ نادرہ کو چیخ چیخ کر اپنی مدد کے لئے پکار رہا تھا۔
تبھی ایک جھٹکا سا لگا ۔ اور محسن راؤ کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے گردن گھما کر کمرے کا جائزہ لیا ۔۔ کمرے میں کچھ نہ تھا۔ وہ غسل خانے میں جاچکی تھی۔ محسن راؤ کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کس قسم کی کیفیت تھی۔ آیا اس نے خواب دیکھا ہے یا یہ سب جاگتے میں ہوا ہے، اس کے ہاتھ پر کسی نازک ہاتھ کالمس اب بھی موجود تھا۔ اور پاؤں کے انگوٹھے سے سینے تک ایک گھٹا سی چھانے کی کیفیت اس کا لاحول پڑھنا اور نادرہ کو مدد کے لئے پکارنا۔ ہر بات اس کے ذہن میں اچھی طرح نقش تھی۔ شاید وہ لیٹتے ہی سو گیا تھا۔ اس نے سوچا۔۔۔ اس نے خواب سمجھ کر اپنے ذہن کو جھٹکا اور پھر کروٹ لے کر سو گیا۔ شام کو ہدایت اللہ نے اسے آکر اٹھایا ، ملازمہ دو بار دیکھ کر جا چکی تھی۔ وہ گہری نیند سویا ہوا تھا۔ تب نادرہ نے ہدایت اللہ کو بھیجا تھا۔ اس نے محسن راؤ کا بازو چھو کر آواز دی۔
”صاحب جی، صاحب نی۔۔۔”

محسن راؤ نے فوراً آنکھیں کھول دیں اور اس سے پوچھا۔ ”ہاں، کیا ہوا ۔ “
“صاحب جی، شام ہو گئی ہے۔ آپ کب تک سوئیں گے، چائے پی لیں۔ بی بی آپ کا انتظار کر رہی ہیں۔ “
ہدایت اللہ نے بڑے مودبانہ انداز میں کہا۔
“اچھا۔ ” محسن راؤ یہ کہہ کر فوراً اٹھ گیا۔ اور غسل خانے میں داخل ہونے سے پہلے بولا۔
“ہدایت اللہ، میرا پانچ منٹ انتظار کرو، میں تمہارے ساتھ ہی چلتا ہوں۔ “
“جی ٹھیک ہے صاحب جی۔ ” ہدایت اللہ نے کہا۔
محسن راؤ غسل خانے میں داخل ہو گیا۔ اس نے اپنے چہرے پر پانی کے خوب چھپا کے مارے۔۔۔ منہ دھوتے دھوتے اچانک اسے احساس ہوا جیسے غسل خانے میں اس کے ساتھ کوئی اور بھی ہے، اس خیال کے ساتھ ہی ایک اور احساس ابھرا۔ یکدم اس کے دل میں نہانے کی خواہش جاگی۔ اس خواہش پر اسے بڑی حیرت ہوئی کیونکہ وہ چند گھنٹے پہلے ہی تو نہایا تھا۔ پھر اس کا دل اسے نہانے پر کیوں اکسا رہا تھا۔ اس کے پیچھے کیا عزائم تھے۔ کسی کے اندر ہونے کا احساس بدستور قائم تھا۔ اسے خوف سا محسوس ہونے لگا۔ وہ منہ دھو چکا تھا۔ وہ فوراً ہی غسل خانے سے باہر آگیا۔
کمرے میں ہدایت اللہ موجود تھا۔ اسے دیکھ کر محسن راؤ نے سکون کا سانس لیا۔ محسن راؤ نے سوچا کہ ہدایت اللہ کو غسل خانے میں بھیج کر دیکھے، اندازہ ہو جائے گا کہ یہ محض اس کا وہم ہے یا پھر واقعی اندر کوئی چیز ہے،
“ہدایت اللہ ذرا باتھ روم میں تو جاؤ ۔ “
“صاحب جی، باتھ روم میں کیا ہے؟” وہ محسن راؤ کی بات سنتے ہی کانپنے لگا۔
“او بھائی ڈرو مت، وہاں کوئی بھوت پریت نہیں ہے، تم اندر جاؤ ۔ دروازہ بند کرو اور دو منٹ ائینے کے سامنے کھڑے ہو کر باہر آجاؤ۔ “
محسن راؤ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
“اچھا، صاحب جی جاتا ہوں۔ “
وہ بادل نخواستہ غسل خانے کی طرف بڑھا۔ دو منٹ کے بعد جب وہ باہر آیا تو مسکرارہا تھا۔
” صاحب جی، آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔ اندر کچھ نہیں ہے۔ “
” میں نے تم سے کب کہا تھا کہ اندر کچھ ہے۔ “ محسن راؤ نے ہنس کر کہا۔
”ہاں، آپ نے کچھ کہا تو نہیں تھا پر آپ کے انداز سے پتہ چلا جیسے اندر کچھ ہے۔ ” ہدایت اللہ بولا۔
ہدایت اللہ کے اندر جانے اور مسکراتے ہوئے باہر آنے سے اس نے اندازہ لگالیا کہ یہ احساس اندر کچھ ہے، محض اس کا وہم ہے۔ اگر اندر کچھ ہوتا تو ہدایت اللہ بھی اس کو محسوس کرتا۔ کھانے کی میز پر چائے کے ساتھ بہت کچھ تھا۔ نادرہ بصد اصرار اسے ایک ایک کر کے تمام چیزیں کھلائی رہی۔ چائے سے فارغ ہوئے تو ٹیلر ماسٹر رزاق اس کا ناپ لینے آگیا۔ اس نے کل صبح ایک پینٹ شرٹ سی کر دینے کا وعدہ کیا۔ بقیہ اور جوڑے رات تک پہنچانے کا یقین دلایا۔ محسن راؤ اپنے گھر لاہور جانے کے لئے بے قرار تھا۔ اس نے اس سلسلے میں نادرہ سے تذکرہ کیا۔
“نادرہ، میں لاہور جانا چاہتا ہوں ۔ “
” جاؤ ۔ ” نادرہ نے یک لفظی جواب دیا، اس مختصر سے جواب سے وہ اس کے لہجے کا اندازہ نہ لگا سکا کہ اس نے ناراض ہو کر کہا ہے یا خوشی سے۔
” کیسے جاؤں ؟ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
“تمہیں ہدایت اللہ چھوڑ آئے گا۔ اگر کہو تو میں بھی ساتھ چلوں۔ “
“نہیں ابھی نہیں۔ ” محسن راؤ فوراً بولا ۔
“پریشان مت ہو، میں تمہارے ساتھ تمہارے گھر نہیں جاؤں گی، گلبرگ میں، میرے چچا رہتے ہیں۔ میں وہاں جاتی رہتی ہوں۔ میں وہاں چلی جاؤں گی۔ ” نادرہ ہنس کر بولی۔
“خیر ایسی کوئی بات نہیں، تم میرے ساتھ، میرے گھر چل سکتی ہو لیکن میں چاہتا ہوں کہ پہلے میں اپنے والدین کے ساتھ یہاں آؤں تب تک راجہ صاحب بھی واپس آجائیں گے۔”
” ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی۔ ” نادرہ نے اس کی بات سے اتفاق کر لیا۔
رات کا کھانا کھا کر وہ دونوں بہت دیر تک گڑھی کے باغ میں ٹہلتے رہے۔ خوبصورت رومانی باتیں مستقبل کے خواب، چھیڑ چھاڑ ہنسی مذاق، شعر و شاعری۔
جب وہ دونوں باتیں کر کے اور ٹہل ٹہل کر تھک گئے تو نادرہ اسے اس کے کمرے تک پہنچا کر اندر گڑھی میں چلی گئی۔ اور وہ کمرے میں آگیا۔ اندر آکر اس نے دروازہ بند کر لیا لیکن چٹخنی نہ لگائی۔
کپڑے تبدیل کرکے، اس نے لائٹ بجھائی اور بیڈ پر لیٹ کر ٹانگیں پھیلا لیں۔ اور لاہور جانے کے بارے میں سوچتے سوچتے اس کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔ پھر جلد ہی وہ نیند کے آغوش میں چلا گیا۔ تب وہ مسکراتی ہوئی غسل خانے سے بر آمد ہوئی اور اس کے پیروں کے دونوں انگوٹھے پکڑ لئے۔ محسن راؤ کو اچانک ہی محسوس ہوا جیسے وہ کسی کی گرفت میں ہے۔ کوئی اس پر چھایا ہوا ہے، اس کے ہوش و حواس بحال نہ تھے۔ وہ نیم غنودگی کے عالم میں تھا۔ چاہتا تھا کہ پوری طرح جاگ جائے لیکن اپنی اس کوشش میں وہ کامیاب نہیں ہو پارہا تھا۔ ایک سرشاری کی سی کیفیت اس پر طاری ہوتی جارہی تھی۔ ریشمیں سے لمس کا احساس تھا۔ وہ جو بھی تھا، اس پر پوری طرح چھایا ہوا تھا۔ اس کے اعصاب مکمل طور پر اس کی گرفت میں تھے۔ ایک نشہ ساتھا جو بڑھتا جارہا تھا۔ کیف آگئیں لمحے دراز ہوتے جارہے تھے۔ اور اس کے ہوش اڑتے جارہے تھے۔ صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو اسے بے حد نقاہت محسوس ہو رہی تھی۔ وہ اٹھا تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ وہ فوراً ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔ پھر کچھ دیر بیٹھ کر اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا غسل خانے میں پہنچا،
غسل خانے میں پہنچ کر جب اس کی نظر آئینے پر پڑی تو وہ اپنا چہرہ دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا۔ وہ کسی چھپکلی کی طرح ایک دم زرد ہو رہا تھا۔ وہ منہ ہاتھ دھو کر باہر نکلا تو دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ اس نے یہ سوچ کر کہ کوئی ملازمہ یا ہدایت اللہ ہو گا، کرسی پر بیٹھتے ہوئے زور سے آواز لگائی۔ “دروازہ کھلا ہے۔ “
تب ہی تھوڑا سا دروازہ کھلا۔ ٹرے میں رکھے بر تن بج اٹھے۔ اس کی ٹرے پر نظر پڑی، پھر ٹرے جسکے ہاتھوں میں تھی، اس پر نظر پڑی۔
“ارے ” وہ چونک کر اٹھ گیا۔
” ارے آپ!! آپ نے یہ زحمت کیوں کی۔ ناشتہ کسی ملازمہ کے ہاتھ بھیجوا دیتیں۔ “
“ہاں، ایسا بھی ہو سکتا تھا۔ ” نادرہ نے اندر آکر مسکراتے ہوئے ٹرے میز پر رکھی۔
” تو پھر ایسا کیوں نہیں کیا ؟ ” محسن راؤ نے شکایتی انداز میں کہا۔
“جناب آپ کو معلوم ہے کہ یہ ناشتہ میں نے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ہے۔ پھر سوچا کہ جب ناشتہ بنایا ہے تو سرو بھی خود کیوں نہ کیا جائے؟ بس یہ سوچ کر خود ہی ٹرے اٹھا کر لے آئی۔ آپ کو کوئی اعتراض ہو تو فرمائیے ۔” نادرہ نے اسے ترچھی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
” بلاوجہ زحمت ہوئی ۔ “ محسن راؤ نے کہا۔
وہ اس کی بات کا کوئی جواب دینا چاہتی تھی کہ اس کے چہرے پر نظر پڑی تو وہ ایک دم گھبرا گئی۔
” ارے، یہ کیا ہوا آپ کو ؟؟
“تکلف دکھا رہا ہوں ۔ “ محسن راؤ نے پوچھا۔
” ارے نہیں بابا ۔ ” وہ پریشان ہو کر بولی۔ “آپ پیلے کیوں ہو رہے ہیں؟ یہ آپ کو کیا ہوگیا؟؟..”
” میں ایسے ہی لال پیلا ہوتا رہتا ہوں ۔ ” اس نے بات بنانے کی کوشش کی۔
” نہیں، محسن میں مذاق نہیں کر رہی۔ جاکر آئینہ دیکھو۔ “آئینہ دیکھ کر ہی آرہا ہوں، وہ کمبخت مجھے منہ چڑا رہا تھا ۔ “
“محسن میں سنجیدہ ہوں ۔ “
“سنجیدہ ہو تو ناشتے کی بات کرو۔ “
“ہاں، ٹھیک ہے ناشتہ کر لو… میں ابھی ڈاکٹر کو بلاتی ہوں ۔ “
“دیکھو، خواہ مخواہ ڈاکٹر کو نہ بلا لینا، میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ جادو گر ہوں نا، اس لئے گرگٹ کی مانند رنگ بدلتا رہتا ہوں ۔ ” محسن راؤ نے ہنس کر کہا۔
“اگر یہ سچ ہے پھر تو تم روز مجھے ڈرایا کرو گے ۔ “
” نہیں زیادہ نہیں ۔ ” محسن راؤ نے معصوم صورت بنا کر کہا۔ ”اچھا، لاؤ چائے دو۔ ” یہ کہ کر اس نے کیتلی کو چھوا، پھر بولا۔
” جناب یہ تو بالکل ٹھنڈی ہے، اس میں چائے بھی ہے ؟”

“ہیں۔ ” نادرہ نے جلدی سے کیتلی کا ڈھکن اٹھایا تو اس میں چائے نام کی کوئی چیز نہ تھی۔
“محسن، یہ کیا؟ چائے کہاں گئی ؟ ” نادرہ حیران ہو کر بولی۔
“چائے کہاں جائے گی کیتلی میں ہے۔ ذرا غور سے دیکھو۔ “ محسن راؤ نے کیتلی چھو کر کہا۔
نادرہ نے جلدی سے کیتلی کا ڈھکن اٹھایا تو اس میں واقعی چائے موجود تھی۔
” کمال ہے۔ لیکن یہ کس طرح ہوا، ابھی کیتلی خالی تھی، ابھی چائے سے بھر گئی۔ اس کی چائے کہاں چلی گئی تھی۔؟؟؟ “ نادرہ نے پوچھا۔
“چائے تو کہیں نہیں گئی۔ یہ محض نظر بندی کا کھیل تھا۔ میں جو دکھا رہا تھا، وہ تم دیکھ رہی تھیں”

محسن راؤ نے اپنے شعبدے کی وضاحت کی۔ ناشتہ کر کے محسن راؤ نے اپنے بدن میں تھوڑی سی جان محسوس کی۔ یہ ایک ہی رات میں اس پر کیا افتاد پڑی تھی کہ نہ صرف اس کے بدن کا خون نچڑ گیا تھا بلکہ بے حد کمزوری بھی ہو گئی تھی۔ نادرہ کو تو مذاق میں ٹال دیا تھا لیکن اس کا ذہن اسی گتھی کو سلجھانے میں لگا ہوا تھا۔ پھر اسے رات کا خواب یاد آیا۔ عجیب خواب تھا وہ ۔ اس خواب کے بارے میں سوچ کر اس کے جسم میں جھرجھری سی آئی ابھی وہ ناشتے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ ہدایت اللہ، ماسٹر رزاق کے ساتھ آپہنچا۔ محسن راؤ نے شرٹ پہن کر دیکھی۔ دونوں کپڑے اس نے بہت اچھے سیئے تھے۔ محسن راؤ انہیں پہن کر بہت سمارٹ لگ رہا تھا۔ ماسٹر رزاق کے جانے کے بعد سب سے پہلی بات جو ہدایت اللہ نے کی، وہ محسن راؤ کی رنگت سے متعلق تھی۔

“صاحب جی… آپ اس قدر پیلے کیوں ہو رہے ہیں ؟ “
“سن لیا محسن، ہدایت اللہ نے کیا کہا ہے، آپ میری بات مذاق میں اڑا رہے تھے۔ ” نادرہ نے شکوہ کیا
ارے، کچھ نہیں ہوا، مجھے ۔ ” محسن راؤ نے بے نیازی سے کہا۔
“لیکن جوگی رام پال کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، وہ بالکل اچھا نہیں ہوا۔ بہت برا ہوا ہے۔ بہت ہی برا۔ ” ہدایت اللہ نے افسردہ لہجے میں کہا۔
“کیا ہوا ہدایت اللہ ۔؟؟؟؟ “ دونوں نے بیک وقت پوچھا۔
“صبح ہی صبح میں جوگی رام پال کے گھر گیا تھا۔ بی بی نے مجھے پانچ ہزار روپے دیئے تھے جوگی رام پال کو دینے کے لئے۔ اس کے گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ میں بلاخوف و خطر اندر چلا گیا کیونکہ میں یہ جانتا تھا کہ وہ گھر میں اکیلا رہتا ہے۔ جب میں اس کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ مجھے زمین پر لیٹا ہوا نظر آیا۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور آنکھ سے آنسو بہہ کر کان میں جارہے تھے۔ اس کا پورا جسم مفلوج ہو چکا تھا۔ زبان بند تھی۔ وہ اپنی آنکھوں کو گردش دینے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے جھک کر اس سے پوچھنا چاہا کہ یہ سب کیسے ہوا، تبھی اس کی آنکھوں میں زندگی کے ٹمٹاتے چراغ بجھ گئے۔ اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ دھڑکن بند ہو گئی۔ نبض رک گئی۔ آنسو منجمد ہو گئے۔ میں نے اس کی آنکھیں بند کرنا چاہیں مگر وہ باوجود کوشش کے بند نہ ہو سکیں۔ اس کے سینے پر کسی پرندے کا ایک پنجہ پڑا ہوا تھا۔ ” ہدایت اللہ نے بتایا۔ ”ایسا ہی پنجہ میں نے راج مداری کے گلے میں پڑا ہوا دیکھا ہے۔ “

اُلو کے پنجے کا ذکر سن کر محسن راؤ چونک پڑا، وہ بولا۔ ”کہاں ہے وہ پنجہ ؟ “
“میرے پاس ہے صاحب جی میں آپ کو دکھانے کے لئے اپنے ساتھ لے آیا ہوں ۔ ” ہدایت اللہ نے کہا۔

پھر اس نے اپنی قمیص کی جیب سے وہ پنجہ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اسے ایک نظر دیکھتے ہی اندازہ ہو گیا کہ وہ راج مداری کے گلے کا پنجہ ہے۔ سوال یہ اٹھتا تھا کہ یہ پنجہ جوگی رام پال کے سینے پر کیسے پہنچا اور اسے مفلوج کس نے کیا۔ اور ایسا مفلوج کہ وہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کیا فالج کا حملہ تھا، اگر فالج کا حملہ تھا تو “رات کے شہنشاہ ” کا پنجہ کہاں سے آیا؟ آخر یہ حملہ کس نے کیا؟ کیا راج مداری کی بے چین روح نے اس سے انتقام لیا ہے۔…؟
اگر ایسا ہوا ہے تو یہ چونکنے کا مقام تھا۔ خطرے کی گھنٹی بجنے لگی تھی۔
خود اس کے ساتھ بھی کچھ کم نہیں ہوا تھا۔ رات ہی رات میں وہ ہلدی کی طرح پیلا ہو گیا تھا۔ اور کمزوری کس قدر ہو گئی تھی۔ کیا یہ ایک ہی زنجیر کی دو کڑیاں تھیں۔
جوگی رام پال کے بعد کیا اگلا نشانہ راج مداری کا وہ خود ہو گا۔ محسن راؤ جوں جوں غور کر تا جارہا تھا۔ پریشان ہوتا جا رہا تھا ۔

“نادرہ، یہ جو کچھ ہوا ہے، اچھا نہیں ہوا ۔ ” محسن نے ہدایت اللہ کے چائے کے برتن اٹھائے جانے کے بعد کہا۔ “جوگی رام پال کو یقینی طور پر راج مداری نے مارا ہے۔ “
“یہ بات تم یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو ؟” نادرہ نے پوچھا۔
“یہ الو کا پنجہ ۔ “
محسن نے کالے دھاگے میں تعویذ کی طرح بندھا ہوا الو کا پنجہ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔
” یہ وہی پنجہ ہے جو راج مداری کے گلے میں پڑا رہتا تھا۔ اسے میں اچھی طرح پہچانتا ہوں ۔ “
“اب کیا ہو گا محسن ؟ ” نادرہ نے سہم کر کہا۔
” خطرہ کم ہونے کے بجائے بڑھ گیا ہے۔ بہت محتاط رہنا ہو گا۔ ” محسن نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا
“اللہ مالک ہے۔ دیکھا جائے گا۔ ” نادرہ میں اچانک جانے کہاں سے ہمت آگئی۔ ” آؤ، چلو تمہیں بہرام نگر کی سیر کراؤں ۔ “
” چلو۔ ” محسن فوراً راضی ہو گیا۔ “کیسے چلیں گے ؟” اس نے پوچھا۔
“چاہو تو جیپ سے چلتے ہیں اور اگر گھڑ سواری کا موڈ ہو تو گھوڑوں پر ۔ “ نادرہ نے کہا۔
“برسوں ہو گئے گھڑ سواری کئے۔ چلو گھوڑوں پر چلتے ہیں۔ ” محسن راؤ نے خوشی بھرے لہجے میں کہا۔
“ٹھیک ہے۔ میں گھوڑے کسواتی ہوں۔ تم اتنی دیر میں ڈریس چینچ کر لو۔ “ یہ کہہ کر نادرہ باہر نکل گئی

محسن راؤ اٹھا۔ اس نے نئے کپڑے پہنے اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ہدایت اللہ اسے لینے آگیا۔ گڑھی کے دروازے پر دو خوبصورت گھوڑے موجود تھے۔ محسن راؤ نے اپنی سواری کے لئے مشکی گھوڑا پسند کیا۔ نادرہ سفید گھوڑے پر سوار ہو گئی۔ اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور گڑھی کے بڑے دروازے کی طرف بڑھی۔ محسن راؤ نے اپنا گھوڑا اس کے تعاقب میں لگا دیا۔ یہ ایک سرسبز علاقہ تھا۔ وہ دونوں گھوڑے دوڑاتے ہوئے کافی دور نکل آئے تھے بہرام نگر کہیں بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ نادرہ کو اندازہ نہیں تھا کہ محسن راؤ اتنا اچھا شہ سوار ہے۔ خود محسن راؤ کو بھی معلوم نہ تھا کہ نادرہ اتنی اچھی گھڑ سواری کر لیتی ہے۔ جب دونوں نے گھوڑے دوڑائے اور اتنی دور تک دوڑائے تو دونوں کو ایک دوسرے کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ کتنے زبردست گھڑ سوار ہیں۔ محسن راؤ نے اس گھڑ سواری سے خاصا لطف لیا۔ اب وہ دونوں آہستہ آہستہ گھوڑے دوڑاتے ہوئے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ دونوں باتیں کرتے جارہے تھے۔ محسن راؤ کو لاہور جانے کی فکر تھی۔ وہ کہہ رہا تھا۔

“ہاں تو نادرہ میں شام کو لاہور چلا جاؤں ۔ “
“شام کو نہیں، کل صبح جانا۔ ایک دن تو اور رکو میرے پاس۔ پھر آج تمہارے دو جوڑے اور سل کر آجائیں گے۔”
“کپڑوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ” محسن راؤ نے کہا۔
” تمہیں نہیں ہوگی لیکن مجھے ہے۔ میں تمہارے والدین کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتی۔ “

ابھی محسن راؤ نے جواب دینے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ اس کا گھوڑا ایک دم بھڑک اٹھا۔ آنًا فانًا اس نے رفتار پکڑلی۔ چشم زدن میں، وہ ہوا سے باتیں کرنے لگا۔ محسن راؤ کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ ہوا کیا؟ وہ گھڑ سواری میں ماہر نہ ہوتا تو گھوڑے کے اچانک بے قابو ہونے پر زمین بوس ہو جاتا ۔ محسن راؤ کو بس یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اچانک پیچھے سے زور دار چابک مار دیا ہو۔ محسن راؤ نے اس کی پیٹھ پر سنبھل کر اسے ہر ممکن روکنے کی کوشش کی ۔ لیکن رکنا تو دور کی بات ہے۔ گھوڑے نے اپنی رفتار بھی کم نہ کی۔ محسن ہراؤ کی لگام کھینچنے کی ساری کوشش رائیگاں گئی۔
سامنے جنگل تھا۔ گھوڑا دیکھتے ہی دیکھتے جنگل میں داخل ہو گیا۔ محسن راؤ کے گھوڑے نے بھڑک کر جیسے ہی رفتار پکڑی تو نادرہ نے فوراً اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی لیکن اس کا گھوڑا اڑیل ٹٹو بن گیا۔ وہ چل کر ہی نہ دیا۔ اس نے جب بہت غصے میں ایڑ ماری تو گھوڑا پلٹ کر دوڑنے لگا۔ نادرہ نے بڑی مشکل سے اسے روکا۔ پھر اس نے گھوڑے کا رخ موڑ کر دوبارہ ایڑ لگائی تو اس مرتبہ اس کا گھوڑا جنگل کی طرف چل پڑا، نادرہ آہستہ آہستہ اس کی رفتار بڑھاتی گئی۔ یہاں تک کہ وہ جنگل میں داخل ہو گئی۔
جنگل میں داخل ہو کر اس نے اپنے گھوڑے کو روکا۔ اور جنگل کا جائزہ لینے لگی۔ جنگل میں سناٹا طاری تھا۔ محسن راؤ کا دور تک پتہ نہ تھا۔ گھوڑے کی ٹاپوں کے تازہ نشانات موجود تھے۔ وہ ان نشانات کو بغور دیکھتی ہوئی، ان نشانوں پر اپنا گھوڑا دوڑانے لگی، تھوڑا اندر جاکر یہ نشانات غائب ہو گئے تھے کیونکہ سخت زمین شروع ہو گئی تھی۔
وہ پریشان ہو گئی۔ اب کیا کرے۔ گھوڑے کے سموں کے نشان غائب تھے۔ جنگل میں کوئی راستہ یا پگڈنڈی قسم کی چیز نہ تھی کہ وہ اس پر چل پڑتی۔ اب محض اندازے سے ہی آگے بڑھنا تھا۔ اس نے سوچا ہو سکتا ہے آگے جا کر کوئی سراغ مل جائے۔ پھر وہ سموں کے نشانات کا اندازہ کر کے ایک طرف چل دی۔ کافی دور تک جانے کے باوجود اسے کوئی سراغ نہ ملا۔ وہ پھر واپس آئی۔ اس کے بعد اس نے ایک اور سمت سفر شروع کیا۔ اس مرتبہ وہ وقفے وقفے سے اسے آوازیں بھی دیتی جارہی تھی۔ لیکن جنگل میں جانوروں اور پرندوں کی آواز کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ کوئی جواب نہیں آرہا تھا۔ نادرہ حیران تھی کہ محسن راؤ کہاں چلا گیا۔ اگر اس کا گھوڑا کسی وجہ سے بے قابو ہو گیا تھا تو اب تک اس نے اس پر قابو پالیا ہوگا۔ اسے واپس آجانا چاہئے تھا۔ نادرہ کو اس کی گھڑ سواری کے انداز سے پکا یقین تھا کہ وہ کوئی اناڑی گھڑ سوار نہیں۔ اسے اپنے گھوڑے پر بھی حیرت تھی کہ وہ اس طرح اچانک کیوں بھاگ اٹھا تھا۔ اس کی اس حرکت پر اسے بہت غصہ تھا، وہ سوچ رہی تھی کہ اس گھوڑے کو گولی مروا دے گی۔۔۔
اس نے اسے محسن راؤ کے سامنے شرمندہ کر کے رکھ دیا تھا۔ خیراب جو ہونا تھا، ہو گیا تھا۔ اسے اب محسن راؤ کی فکر تھی۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو وہ کہیں کی نہ رہے گی۔ برباد ہو جائے گی۔ وہ پاگلوں کی طرح جنگل میں اپنا گھوڑا دوڑ رہی تھی۔۔۔۔ گاہے گاہے وہ آواز بھی دیتی جاتی تھی۔
“محسن!”
آواز دیتے دیتے اور گھوڑا دوڑاتے دوڑاتے اچانک وہ ایک جگہ رک گئی۔ سامنے درخت کی جڑ میں ایک چھوٹے سے پتھر پر محسن راؤ کی قمیص پڑی تھی۔ نادرہ کا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ فوراً گھوڑے سے کودی اور بھاگتی ہوئی درخت کے نیچے پہنچی۔ اس نے بے قراری سے اس کی قمیص اٹھا کر دیکھی۔ وہ بالکل صاف ستھری تھی۔ اس پر کسی قسم کا کوئی داغ دھبہ نہ تھا۔۔ معلوم ہوتا تھا جیسے یہ قمیص خود محسن راؤ نے اتار کر پتھر پر ڈالی ہو۔ لیکن محسن کہاں گیا؟
گھوڑا بھی کہیں نظر نہیں آرہا تھا نادرہ نے آس پاس کا علاقہ چھان مارا لیکن کوئی سراغ نہ ملا۔ نادرہ نے محسن راؤ کی قمیص گلے میں باندھ لی اور گھوڑے پر سوار ہو کر اسے پھر ڈھونڈنے لگی۔ ساتھ ہی آواز دینے کا عمل بھی جاری تھا۔ نادرہ نے چلتے چلتے اپنی کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالی ۔ اسے جنگل میں بھٹکتے ہوئے تقریباً دو گھنٹے ہوگئے تھے۔ محسن کا دور تک پتہ نہ تھا۔
پھر چلتے چلتے وہ چونک پڑی۔ اسے اپنے سامنے چار فٹ اونچا ایک چبوترہ نظر آیا۔ اسے پتھروں سے بنایا گیا تھا اور اندازاً وہ چھ فٹ لمبا اور چھ فٹ چوڑا تھا۔ اس چبوترے کے آس پاس کا علاقہ صاف تھا۔ جنگل میں اس چبوترے کی تعمیر کا کیا مقصد ہو سکتا تھا، یہ سمجھ میں نہ آیا۔ چبوترہ بالکل صاف ستھرہ تھا یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ابھی ابھی اس پر جھاڑو دی گئی ہو۔ چبوترے پر کھڑے ہو کر اس نے محسن کو زور زور سے آوازیں دیں، مگر کہیں سے کوئی جواب نہ آیا
پھر اس نے چبوترے سے اتر کر چبوترے کا آس پاس کا علاقہ چھان مارا۔ محسن تو نہ ملا، البتہ اس کا گھوڑا مل گیا، وہ ایک درخت کے نیچے سر جھکائے کھڑا تھا۔۔۔
اب صورتحال سنگین ہو گئی تھی۔ محسن راؤ کا گھوڑا موجود تھا مگر اس کے وجود کا کہیں پتہ نہ تھا۔ اس بے چاری کو کیا معلوم تھا کہ محسن راؤ پر کیا بیت گئی۔ اس نے تو آخری وقت میں اس کے گھوڑے کو سرپٹ
دوڑتے اور جنگل میں داخل ہوتے ہی دیکھا تھا۔
جنگل میں داخل ہونے سے پہلے محسن راؤ نے بہتیری کوشش کی تھی کہ کسی طرح وہ اس مشکی گھوڑے پر قابو پائے۔ اسے شہ سواری کے جتنے گھر آتے تھے وہ اس نے آزما ڈالے تھے۔ لیکن گھوڑا تھا کہ قابو میں نہیں آرہا تھا۔ وہ بے لگام ہوگیا تھا۔ لگتا ہی نہ تھا کہ اس کے منہ میں لگام ہے۔ اس نے کئی مرتبہ اتنی زور سے لگام کھینچی تھی کہ گھوڑے کامنہ بھی لہولہان ہو گیا ہو گا لیکن گھوڑے نے ہار نہ مانی ۔ وہ سرپٹ دوڑتا رہا۔ یہاں تک کہ جنگل میں داخل ہو گیا۔ محسن راؤ نے فوراً اس کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی کیونکہ جنگل شروع ہو گیا تھا۔ اور اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ گھوڑا اپنے آپے میں نہیں ہے۔ اس لئے اس نے لگام ڈھیلی چھوڑ دی کہ وہ جہاں جانا چاہے جاسکے ۔ وہ جانتا تھا کہ نادرہ اس کے پیچھے آرہی ہوگی ۔ لہٰذا اس نے اس کی نشاندہی کے لئے اپنی قمیض اتار کر پھینک دی آگے جا کر اچانک ہی اس کا گھوڑا رک گیا۔ پھر وہ اگلے دو پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔ اور اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ گر پڑا، اگر محسن راؤ فوراً ہی اس کی پیٹھ سے نہ اتر جاتا تو وہ گھوڑے کے نیچے ضرور دب گیا ہوتا۔
گھوڑے سے اتر کر جب وہ سیدھا کھڑا ہوا تو اس نے اپنے سامنے ایک چبوترہ دیکھا۔ اس چبوترے پر ایک سرخ قالین بچھا ہوا تھا۔ اور قالین کے درمیان اس پر کوئی بیٹھا ہوا تھا۔ اور محسن کی طرف اس کی پیٹھ تھی۔
اس جنگل میں یہ سنگی چبوترہ، اس پر سرخ قالین اور قالین پر چادر میں لپٹا وجود۔۔۔ عجیب پراسرار منظر تھا۔ وہ دھیرے دھیرے چبوترے کے نزدیک پہنچا اور چادر میں لپٹے وجود سے مخاطب ہو کر بولا ۔
”کون ہو تم ؟”
انسانی آواز سن کر اس وجود میں حرکت ہوئی۔ وہ چادر اوڑھے اوڑھے کھڑا ہو گیا۔ پھر اس کی طرف گھوما اور چادر اپنے سر سے سر کا دی۔ ریشمیں چادر اس کے ریشمیں بدن سے پھسل کر زمین پر آ گری ۔ وہ ایک انتہائی حسین عورت تھی اور اب اس کے جسم پر لباس نام کی کوئی چیز نہ تھی۔
محسن راؤ اس قیامت خیز منظر کی تاب نہ لاسکا، اس نے فوراً اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔
“ارے، یہ کیا کرتے ہو ؟؟ وہ ہنس کر بولی۔ اس کی آواز اور اس کی ہنسی غضب کی تھی۔
” میری طرف دیکھو میرے پاس آؤ ۔ “

“یہ کیا تماشا ہے ؟ ” محسن راؤ نے اس کی طرف غصے سے دیکھا۔
” تماشے تو تم دکھاتے رہے ہو، میرے جادوگر میں نے تو کوئی تماشا نہیں دکھایا۔ “
وہ ایک ادائے خاص سے لہرائی پھر اس نے اپنا خوبصورت ہاتھ اس کی طرف بڑھایا اور بولی۔ ” آؤ، اوپر آجاؤ ۔ “
اس کا خوبصورت اور نازک ہاتھ بڑھا کا بڑھا ہی رہ گیا، محسن راؤ نے کوئی توجہ نہ دی۔ اس کا دماغ چکرایا ہوا تھا۔ یہ بات اس کے تصور میں بھی نہ تھی کہ اس طرح بھرے جنگل میں، کوئی قیامت اس کے سامنے آجائے گی۔ اور قیامت بھی ایسی جو اس پر ٹوٹ پڑنے کے لئے تیار تھی۔ وہ بھلا کیسے تباہ ہو جاتا۔
“کیا یہ ممکن نہیں کہ تم پیروں میں پڑی چادر کو اپنے سر پر رکھ لو۔ “ محسن راؤ نے کہا۔
“چغد ۔ ” یہ کہہ کر وہ قیامت جھکی، پیروں میں پڑی چادر اٹھائی اور سر سے پاؤں تک اپنا قیامت بدن ڈھانپ لیا۔ پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔ ”چلو اب اوپر آجاؤ ۔ “
محسن راؤ قالین بچھے چبوترے پر چڑھ گیا۔ اور بولا۔ ”ہاں، اب کہو۔ “
“بیٹھو۔ ” یہ کہہ کر وہ خود بھی بیٹھ گئی۔
“کون ہو تم؟ ” محسن راؤ نے قالین پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ “تم کیا سمجھتے ہو اپنے آپ کو۔؟؟ بہت خوبصورت ہو، جس کا دل چاہو گے توڑ کر گزر جاؤ گے۔ ” وہ ایک دم بگڑ گئی۔
” میں نے کسی کا دل نہیں توڑا ۔ ” محسن راؤ نے بڑے وثوق سے کہا۔
” راکھی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ ” اس نے اشارہ دیا۔
“تم راکھی کو کیسے جانتی ہو؟ اپنے بارے میں بتاتی کیوں نہیں، کون ہو تم؟”
“میں تو راج مداری کے بارے میں بھی جانتی ہوں ۔ اس کا قاتل کون ہے۔ بتا سکتے ہو ؟؟
“میں نہیں ہوں ۔ ” محسن راؤ نے کمزور لہجے میں کہا۔
“تم نہیں ہو تو اور کون ہے ؟” اس کے لہجے میں سختی آگئی تھی۔ ”راج مداری نے تمہیں اپنے گھر میں کس قدر پیار سے رکھا۔ کسی قدر محبت دی۔ تمہیں اپنا کام سکھایا۔ تمہاری زندگی بچائی ۔ اور تم نے اس کے ساتھ کیا کیا۔ اس کی بیٹی کی توہین کی، اس کا دل توڑا۔ اس کی محبت کو محبت نہ سمجھا۔ پھر راج مداری کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ دھوکے سے اسے قتل کروا دیا۔ راج مداری تمہارا محسن تھا، تم نے اپنے محسن کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔۔۔ بولو کیوں ؟ “
“اس نے مجھ پر قبضہ کر لیا تھا۔ “ محسن راؤ نے شکوہ کیا۔
” یہ کیوں بھول جاتے ہو کہ اس نے تمہاری جان بچائی تھی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو آج تم کہاں ہوتے؟”
“اس سلسلے میں، میں اس کا شکر گزار تھا۔ میں نے اس کی بہت خدمت کی ۔ ” محسن راؤ نے اپنی صفائی میں کہا۔
“اسے قتل کروا کے ؟” وہ زہر یلے لہجے میں بولی۔ ” واہ کیا خوب خدمت کی تم نے۔ “
“آخر تم کون ہو ؟ “
“میرے جادوگر، میں تمہاری سزا ہوں، ایک خوبصورت سزا۔ ” اس نے عجب انداز اختیار کیا۔
“کہاں سے آئی ہو ؟ “
“مجھے دیواہ کالی نے بھیجا ہے۔ “
“کون دیواہ کالی ؟ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
“وہی دیواہ کالی جسے راج مداری نے مدد کے لئے پکارا تھا۔ ” اس نے بتایا۔ ” جب راج مداری مدد کے لئے پکار رہا تھا تو اس وقت میں، دیواہ کالی کے قدموں میں بیٹھی تھی۔ راج مداری کی پکار سن کر کالی نے مجھے اشارہ کیا۔ اس کے حکم کی تعمیل میں، میں فوراً راج مداری کی مدد کو آگئی۔ لیکن وقت گزر چکا تھا، میں راج مداری کو نہیں بچا سکی۔ مرتے ہوئے اس کی خواہش تھی کہ اس کی موت کا انتقام لیا جائے۔ اس کے ساتھ دھوکا کرنے والوں کو نہ بخشا جائے۔ سو تم نے سن لیا کہ میں نے جوگی رام پال کی کیا درگت بنائی۔ وہ اپنی جان سے گیا۔ اب تمہاری باری ہے۔ میں تمہیں ماروں گی نہیں ۔ اس لئے کہ میں خود تم پر مرگئی ہوں ۔ اب تم صرف میرے لئے زندہ رہو گے۔ میرے ہو کر رہو گے۔ میری قید میں رہو گے”
“اور اگر میں تمہاری قید میں نہ رہنا چاہوں تو ۔؟؟؟ “
“بات تمہارے چاہنے کی نہیں، میرے چاہنے کی ہے۔ “
وہ ہنسی، اس کی ہنسی میں زہر تھا۔
” لیکن میں کسی اور کو چاہتا ہوں، اس کی قید میں رہنا چاہتا ہوں ۔ ” محسن راؤ نے بتایا۔
“اب بھول جاؤ اس کو ۔ ” وہ محسن کو گہری نظر سے دیکھتے ہوئے بولی۔ “
” میں جانتی ہوں ، وہ آرہی ہے۔ تم نے اسے راستہ دکھانے کے لئے اپنی قمیص راہ میں پھینک دی ہے۔ بالآخر وہ ڈھونڈتی ہوئی اس چبوترے تک پہنچ جائے گی۔ لیکن اس کے آنے تک یہاں کچھ نہیں رہے گا۔ “
“اچھا ہوا تمہاری زبانی معلوم ہو گیا کہ بالآخر نادرہ یہاں تک پہنچ جائے گی۔ اب میں یہاں سے نہیں ہلوں گا۔ یہیں بیٹھا رہوں گا۔ اس کے آنے کا انتظار کروں گا۔ “
محسن راؤ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
“کیا چاہتے ہو، تمہاری نادرہ کو اندھا کر دوں …؟؟ تا کہ وہ یہاں کبھی پہنچ ہی نہ سکے ۔ “
اس نے یہ بات تیور بگاڑ کر انتہائی سفاکی سے کہا۔
“کوئی خاص عمل جانتی ہو کیا؟ ” محسن راؤ نے پوچھا۔ “اس جنگل میں، ایک نرم دبیز قالین پر بیٹھے ہو، اس کے بعد بھی تمہیں کسی عمل کا ثبوت چاہئے۔ “
“میں تمہارا نام جان سکتا ہوں ؟ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
“میرا نام بقّاں ہے ۔ “
” بقّاں ؟ یہ کیا نام ہوا بھلا ۔ ” محسن نے الجھتے ہوئے کہا۔

“بقّاں کا مطلب ہوتا ہے، صحرا کی شہزادی ۔ “
اس نے مسکراتے ہوئے بتایا۔ ”کیا میں تمہیں بقّاں نہیں دکھائی دیتی ۔۔۔؟ صحراکی شہزادی نہیں معلوم دیتی۔ “

محسن راؤ اس کی بات کا کیا جواب دیتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ وہ ایک بے حد پر کشش عورت تھی۔ اس پر اٹھنے والی نظر مشکل ہی سے جھکتی تھی۔ اب وہ صحرا کی شہزادی تھی یا پہاڑوں کی ملکہ تھی، یہ محسن راؤ کا مسئلہ نہ تھا۔ اس نکل جائے اس کا مسئلہ صرف یہ تھا کہ نادرہ کسی طرح یہاں پہنچ جائے اور وہ اس کو لے کر یہاں سے نکل جائے ۔۔۔
اور بقّاں یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کی موجودگی میں نادرہ یہاں پہنچ سکے گی اور نہ ہی محسن راؤ اس کی گرفت سے نکل سکے گا۔ بقّاں نے اب مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ وہ جلد سے جلد اپنی کارروائی مکمل کر لینا چاہتی تھی۔ اگر چہ وہ جانتی تھی کہ نادرہ کو یہاں تک پہنچنے میں کافی دیر لگے گی۔ پھر بھی وہ کسی قسم کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے محسن کو مخمور نگاہوں سے دیکھا، بڑے دلر با انداز میں مسکرائی۔ اور میٹھے لہجے میں بولی۔ “محسن، میرا ایک کام کردو ۔ “
“ہاں، بولو۔ “
“تمہارا گھوڑا کہاں ہے ؟“ اس نے پوچھا۔
“قریب ہی ہے وہ ادھر درختوں کے جھنڈ میں۔ ” محسن راؤ نے بتایا۔
“جاؤ، اس کی دم کا ایک بال لے آؤ ۔ ” بقّاں نے ایک عجیب فرمائش کی۔
” بال؟ کیا کروگی ؟ ” محسن راؤ نے حیران ہو کر پوچھا۔
“تم تو بڑے جادو گر ہو، تمہیں تو معلوم ہو گا۔ ” اس نے ہنس کر کہا۔
” نہیں، میں نہیں جانتا۔ میں نے آج تک گھوڑے کے بال سے کوئی کرتب نہیں دکھایا۔”
” اچھا، پھر جاؤ، لے کر آؤ۔ میں تمہیں آج ایک زبردست تما شاد کھاتی ہوں ۔ اگر تمہیں پسند آیا اور اور تم سیکھنا چاہو تو سکھا بھی دوں گی ۔ “
بقّاں نے اسے اپنی چمکتی آنکھوں سے دیکھا۔
” ٹھیک ہے۔ میں لے کر آتا ہوں ۔ “
محسن راؤ یہ کہہ کر چبوترے سے اتر گیا اور اس طرف چل پڑا جدھر اس کا گھوڑا کھڑا تھا۔ گھوڑے کے پاس پہنچ کر اس کے دماغ میں ایک چھناکا سا ہوا، اس نے سوچا کیوں نہ گھوڑے پر بیٹھ کر نکل جائے۔ یہ بقّاں اس کا کچھ نہ کر سکے گی۔ بس دیکھتی رہ جائے گی۔ مگر ایک مسئلہ تھا، اگر وہ یہاں سے نکل گیا تو نادرہ کو کیسے پائے گا۔ جب تک وہ جنگل سے باہر نکلے گا، تب تک نادرہ یہاں پہنچ جائے گی، تب بقّاں اسے بھلا کہاں چھوڑے گی۔ وہ جانے اس کا کیا حشر کرے۔ ہو سکتا ہے، وہ اسے اندھا ہی کر دے۔ ابھی کچھ دیر صبر کرنا چاہئے دیکھنا چاہئے کہ وہ گھوڑے کے بال کا کیا کرتی ہے۔ کیا تماشا دکھانا چاہتی ہے۔ ہو سکتا ہے، تماشا ختم ہونے تک نادرہ اس کو تلاش کرتی ہوئی یہاں پہنچ جائے۔ پھر دونوں مل کر ہی اس بقّاں کی بچی کو ٹھکانے لگائیں گے۔
بقاں کوئی بچی نہ تھی۔ اس نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی اسے بھیجا تھا۔ وہ اس سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتا تھا۔
محسن راؤ نے اس کی خواہش کے مطابق گھوڑے کی دم سے ایک بال توڑا۔ اور بقّاں کے سامنے لہرا کر بولا۔
” یہ لو۔”
بقّاں نے وہ بال احتیاط سے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اسے کھینچ کر دیکھا، وہ کافی لمبا اور مضبوط بال تھا۔
تب وہ بال پکڑ کر اس کی طرف بڑھی۔ اور مسکرا کر بولی ۔ ” میرے جادوگر، آج میں تمہیں ایسا جادو دکھاتی ہوں کہ تم زندگی بھر یاد کرو گے۔ بس میں جیسا کہوں، ویسے کرتے جاؤ۔ “
“چلو ٹھیک ہے، بتاؤ کیا کرنا ہے۔ “
وہ فوراً راضی ہو گیا۔
” پہلے میں تمہارے ہاتھ پیچھے کر کے اس بال سے باندھوں گی۔ پھر تمہارے پاؤں اور اس کے بعد تمہارے پورے جسم پر اس بال کو لپیٹ دوں گی۔ “
” بقاں تم بھول رہی ہو کہ یہ گھوڑے کا بال ہے، کوئی رسی نہیں۔ اس سے تم میرے ہاتھ ہی باندھ دو تو یہی بہت ہے۔ ” محسن نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“بس تم میرا کمال دیکھتے جاؤ، مجھے داد دیئے جاؤ ۔ لاؤ اپنے ہاتھ لاؤ۔ “
” لو۔ “ محسن راؤ نے اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ کر دیئے۔
“اپنے ہاتھ پیچھے کرو۔ ” بقال نے کہا اور اس کے دونوں ہاتھ پیچھے کر کے ایک خاص انداز سے باندھ دیئے۔ پھر اس نے کہا۔ ” بیٹھ جاؤ۔ “
وہ بیٹھ گیا تو اس نے اس کے دونوں ہاتھ گھوڑے کے بال سے باندھ دیئے۔ محسن راؤ حیران ہو کر دیکھنے لگا کہ یہ بال اتنا بڑا کیسے ہو گیا۔ اور پھر ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ ہاتھ پاؤں باندھنے کے بعد اس نے اس کے پیروں کے دونوں انگوٹھے ملا کر بال لپیٹنا شروع کیا۔ اور پھر اس نے اتنے سے بال کو اتنا لمبا کیا کہ اسے اس کے پورے جسم کے گرد لپیٹ دیا۔ اس نے بال کے ذریعے اسے کچھ اس طرح جکڑ دیا کہ وہ اب اپنے جسم کو ہلا بھی نہیں سکتا تھا۔
پھر بقاں نے اسے کروٹ سے لٹا دیا۔ اور قہقہہ مار کر ہنسنے لگی۔
” کیا ہوا؟ پاگلوں کی طرح کیوں ہنس رہی ہو۔ ؟” محسن راؤ نے لیٹے لیٹے اور بندھے بندھے پوچھا
” ہنسوں نہ تو اور کیا کروں۔ مجھے امید نہ تھی کہ تم اس آسانی سے میرے جال میں پھنس جاؤ گے”””
“میں سمجھا نہیں۔ “ وہ پریشاں ہوا۔
“تم نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا گھوڑے کا بال میرے ہاتھوں میں کسی قدر لمبا ہو گیا۔ “
”ہاں، واقعی تم نے کمال کیا۔ “
” میں نے جو کمال کیا ہے ۔ اس کا تمہیں ابھی اندازہ نہیں ہے ۔ “
“کچھ بتاؤ تو سمجھ میں آئے ۔ ” محسن راؤ نے کہا۔
“یہ گھوڑے کا بال ، کسی مضبوط رسی سے کم نہیں بلکہ کانٹے دار رسی کہنا چاہئے ۔ اب تم میری مرضی کے بغیر اس رسی سے آزاد نہیں سکتے۔ ” اس نے پر اسرار لہجے میں کہا۔
محسن اس کی یہ بات سن کر سہم گیا۔ کہیں واقعی یہ سچ تو نہیں کہہ رہی ؟
“یہ کیا مذاق ہے ؟” وہ پریشان ہو کر بولا ۔
” یہ مذاق نہیں، سنگین حقیقت ہے۔ ذرا آزاد ہو کر دیکھو ؟ ” بقال نے ہنستے ہوئے کہا۔
وہ کروٹ سے لیٹا تھا۔ اس کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ پاؤں بھی بندھے ہوئے تھے۔ او وہ گھوڑے کا بال اس کے پورے جسم پر لپیٹا ہوا تھا۔ اس نے خود کو آزاد کرانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو گھمایا، زور لگایا، جھٹکا۔ تب اسے ایک دم تکلیف کا احساس ہوا، اسے یوں محسوس ہو وہ گھوڑے کا بال استرے کی دھار بن کر اس کے گوشت میں اتر گیا ہو۔ پھر اس نے اپنے پیروں کو جنبش دی۔ وہ بال تیز دھار کی طرح اس کے گوشت میں اتر گیا۔ وہ اپنے جسم کے جس حصے کو بھی حرکت دیتا۔ گھوڑے کا بال جہاں بھی تنگ ہوتا، وہ ٹوٹنے کے بجائے کسی تیز دھار آلے کی طرح گوشت میں گھس جاتا۔ اور خون چھلکنے لگتا۔ بقاں نے صحیح کہا تھا، وہ گھوڑے کا بال، لوہے کا بہت باریک تاریل بن گیا تھا۔ ایسا تار جو نہ ٹوٹ سکتا تھا اور نہ کھل سکتا تھا۔ البتہ زور آزمائی کے وقت جسم کو کسی بلیڈ کی طرح کاٹ سکتا تھا۔

“یہ کیا کیا تم نے؟” اس نے غصے سے کہا۔
” کچھ نہیں اپنی گرفت میں لیا ہے“ وہ کھنکتی ہوئی آواز میں بولی ۔
“دیکھو، مجھے آزاد کر دو، مجھے اپنے گھر جانا ہے۔ اپنے والدین سے ملنا ہے۔ “
“اب تم کسی سے نہیں مل سکتے۔ تمہاری ساری ملاقاتیں بند۔ “
“تم کیا کرنا چاہتی ہو۔ اس طرح تو میں مر جاؤں گا۔ *
“یہ ذمہ داری میری تمہیں مرنے نہیں دوں گی۔ تم مر گئے تو پھر سزا کون بھگتے گا۔؟؟ “
اچھا میرا جسم تو آزاد کر دو، بے شک ہاتھ پاؤں بندھے رہنے دو۔ ؟
“فی الحال یہ بھی ممکن نہیں۔ ” بقاں نے بڑی رکھائی سے کہا۔
“پھر کیا ممکن ہے۔ ؟؟کچھ بتاؤ تو سہی۔ “
“میں تمہیں، تمہاری آبادی سے دور لئے جاتی ہوں ۔ “
“آخر کہاں؟”
“اپنے علاقے میں، اپنی آبادی میں، ایک نئے جہان میں۔ “
”وہاں مجھے کیا کرنا ہو گا۔ “
“ایک قیدی کو بھلا کیا کرنا ہوتا ہے؟؟۔ تم قید کاٹو گے، قید تنہائی ۔ “
” مجھے نادرہ سے تو مل لینے دو… بقول تمہارے وہ یہاں اب پہنچنے ہی والی ہوگی ۔ “
“بس اب اپنا منہ بند کر لو۔ بہت سن لی میں نے تمہاری بک بک ۔ “
وہ ایک دم طیش میں آگئی ۔۔ اس کی آنکھیں ایک دم ویران اور سفاک نظر آنے لگیں۔ وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ محسن راؤ اسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔
وہ اب نہ جانے کیا کرنے جارہی تھی۔ بقّاں چبوترے سے نیچے اتر آئی۔ اس نے محسن کی ٹانگیں گھسیٹ کر اسے سیدھا کیا۔ اور پھر اس کے دونوں پیروں کے انگوٹھے تھام لئے۔ انگوٹھے پکڑتے ہی اس پر خمار کی سی کیفیت چھانے لگی اس کی رگوں میں نشہ سا اتر نے لگا۔ یہ کیفیت اسے جانی پہچانی سی لگی۔ تب اسے اچانک خیال آیا کہ گڑھی بہرام نگر میں اس پر اس قسم کی کیفیت طاری ہوئی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ وہاں بقّاں موجود تھی۔ آخر یہ کب سے اس کے تعاقب میں ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس سلسلے میں بقّاں سے بات کرے۔ چند سوالات کرے لیکن اس میں اب بولنے کی سکت نہ رہی تھی۔ وہ اس پر چھاتی چلی جارہی تھی۔ پاؤں کے انگوٹھوں سے پنڈلیوں پر، وہاں سے اوپر اور اوپر۔ اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اس کے جسم میں لہریں سی اٹھ رہی تھیں۔ جذبات کا جوار بھاٹا بڑھتا جارہا تھا۔ دھواں سا بھر رہا تھا۔ ایک گھٹا سی چھا رہی تھی۔ ایک سرشاری کی سی کیفیت طاری تھی۔ وہ خود کو ڈوبتا ہوا سا محسوس کر رہا تھا۔ دماغ تاریک ہوتا جا رہا تھا۔ کانوں میں ہواؤں کا سا شور تھا۔ سسکیاں سی سنائی دے رہی تھیں۔ پھر سناٹا سا طاری ہو گیا۔
محسن راؤ اپنے ہوش گنوا بیٹھا۔
جب اسے ہوش آیا تو اس پر بری طرح نقاہت طاری تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے اس کے جسم کا سارا خون نکال لیا ہو۔ اس نے بمشکل اپنی آنکھیں کھولیں ۔ اوپر نگاہ کی تو نہ آسمان نظر آیا اور ندی نہ درخت۔ اسے اوپر کسی جھونپڑی کی چھت نظر آرہی تھی۔ وہ قالین ہی پر لیٹا تھا۔ پر اب اس کے ہاتھ پاؤں قید نہ تھے۔ یہ بات اس نے محسوس کی۔ کیونکہ وہ چت لیٹا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ کمر کے نیچے نہیں دبے ہوئے تھے۔ بلکہ پہلو میں رکھے تھے۔ پاؤں کی بندش بھی کھلی ہوئی تھی۔ اس کا جسم بھی آزاد تھا۔ اپنا جسم آزاد محسوس کر کے اسے خوشی ہوئی کیونکہ اسے گھوڑے کے بال سے جس طرح جکڑ دیا گیا تھا۔ وہ ایک انتہائی تکلیف دہ عمل تھا۔ وہ اپنے جسم کو ذرا سی بھی جنبش نہیں دے سکتا تھا۔ وہ آزاد ضرور ہو گیا تھا۔ لیکن اب نہ وہ چبوترہ تھا۔ نہ وہ جنگل۔ نہ وہ ہوشربا بقاں ۔ کچھ نہ تھا۔ اب نقاہت سے بند ہوتی آنکھیں تھیں۔ وہ ایک چھوٹی سی گول جھونپڑی میں تھا۔ جس کا چھوٹا سا دروازہ تھا۔
اس دروازے سے دھوپ اندر آرہی تھی۔ اسے باہر کا منظر نظر نہیں آرہا تھا۔ اٹھنے کی اس میں تاب نہ تھی۔ وہ یونہی بے حس و حرکت لیٹا رہا۔
اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ یہاں کیسے پہنچا۔ اسے بس اتنا یاد تھا کہ بقّاں نے اس کی ٹانگیں گھسیٹ کر ان کے دونوں پیروں کے انگوٹھے پکڑ لئے تھے۔ اور اس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ اس کیفیت میں اس کے ہوش جاتے رہے تھے۔ جانے یہ کون سی جگہ تھی ؟ شاید بقّاں اسے اپنے علاقے، اپنی آبادی میں لے آئی تھی۔ کسی نئے جہان میں۔
اس نے سوچا باہر نکل کر دیکھے کہ وہ کہاں آگیا ہے۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے ہاتھ پاؤں کا دم نکلا ہوا تھا۔ اس قدر نقاہت تھی، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ برسوں کا بیمار ہو۔ وہ محض اپنی گردن اٹھا کر رہ گیا۔ اس طرح گردن اٹھانے میں بھی اس پر ایک قیامت بیت گئی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اور سر میں درد کی ایک ایسی ٹیس اٹھی کہ وہ تڑپ کر رہ گیا۔ وہ اپنی گردن گرا کر بری طرح ہانپنے لگا۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی۔ وہ انیس، بیس سال کا ایک کڑیل جوان تھا۔ لیکن اس وقت اس کی حالت دیکھ کر کوئی اسے جوان ہر گز نہ کہتا۔ وہ بے حس و حرکت پڑا، بہت دیر تک لمبے لمبے سانس لیتا رہا۔ تب کہیں جا کر اس کا سانس قابو آیا۔ لیکن جان اب بھی نہ آئی تھی۔ اس نے جھونپڑی کے اندر ایک طائرانہ نظر ڈالی ۔ اس جھونپڑی کے ایک طرف ایک چھوٹی سی میز تھی، اس پر کچھ ڈھکا ہوا ر کھا تھا۔ میز کے نیچے بنے پائیدان پر کوئی کالا کپڑا تہہ کیا ہوا رکھا تھا۔ غالباً کوئی چادر وغیرہ تھی۔ میز کے برابر ایک صراحی تھی جس پر ایک کٹورا ڈھکا ہوا تھا۔ میز اور صراحی کے علاوہ اس جھونپڑی میں کوئی اور چیز نہ تھی۔ البتہ قالین ضرور بچھا ہوا تھا۔
وہ اٹھ کر باہر جانا چاہتا تھا۔ لیکن کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود اس میں توانائی نہیں آئی تھی۔ اسکا حلق خشک ہو رہا تھا۔ کانٹے سے پڑ رہے تھے۔ وہ اٹھ کر صراحی سے پانی پینا چاہتا تھا۔ لیکن اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ جب دو تین گھنٹے گزر جانے کے باوجود اس سے اٹھا نہیں گیا تو اس نے سوچا کہ صراحی تک اٹھ کر جانے کے بجائے وہ آہستہ آہستہ کروٹ کے بل لڑھکتا ہوا کیوں نہ صراحی تک پہنچ جائے؟؟..
صراحی زیادہ دور نہیں تھی۔ مشکل سے پانچ چھ فٹ کے فاصلے پر ہوگی۔
اس نے اپنی قوت ارادی کو مضبوط کر کے اپنا بایاں ہاتھ گھما کر قالین پر رکھا پھر آہستہ آہستہ کروٹ لی۔ ایک کروٹ لینے ہی میں اس کی جان نکل گئی۔
پھر اسی طرح وہ کروٹیں بدل کر لڑھکتا ہوا، کسی نہ کسی طرح صراحی تک پہنچ گیا۔ پھر اس نے تھوڑا اٹھ کر صراحی کے اوپر ڈھکا ہوا کٹورا اتارا، اور اسے قالین پر رکھ کر ایک ہاتھ سے صراحی جھکائی ۔ صراحی پانی سے بھری ہوئی تھی ذرا سا جھکانے پر ہی اس میں سے پانی چھلک اٹھا۔ پھر قل قل کی آوازوں کے ساتھ پانی کٹورے میں گرنے لگا۔ کٹورا بھرنے کے قریب ہوا تو اس نے صراحی سیدھی کر دی۔ اور ہانپ کر لیٹ گیا۔ کچھ دیر کے بعد جب کچھ سانس درست ہوا تو اس نے پھر ذرا سا اٹھ کر، کٹورا اٹھایا اور منہ سے لگالیا۔
پانی کا پہلا گھونٹ کسی چھری کی طرح اس کے حلق میں اترتا چلا گیا۔ وہ جلدی جلدی پانی پینے لگا۔ پانی ٹھنڈا تھا اور میٹھا بھی تھا۔
پانی پی کر اسے خاصا سکون محسوس ہوا۔ کچھ توانائی بھی بحال ہوتی دکھائی دی۔ کچھ دیر وہ آنکھیں موندے خاموشی سے لیٹا رہا۔ پھر اس نے میز کا سہارا لے کر اٹھنا شروع کیا۔ کوشش کر کے وہ میز سے کمر ٹکا کر بیٹھ گیا۔ پھر اس نے ڈھکی ہوئی ٹرے پر سے کپڑا ہٹایا۔ اس ٹرے میں اس کے لئے کھانا اور انگور تھے۔
اس نے انگور کے گچھے سے دو چار انگور توڑ کر کھائے ۔ انگور بہت رس بھرے اور میٹھے تھے۔ دھیرے دھیرے سارے انگور کھا گیا، یہاں تک کہ انگور ختم ہو گئے۔ انگوروں نے اس کے کمزور جسم کو کافی توانائی بخشی۔
اب وہ میز کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا۔ اس نے کھانا کھایا۔ پھر وہ پانی پی کر لیٹ گیا۔ کھانا اس نے خوب سیر ہو کر کھایا تھا۔ اس پر کھانے کا خمار چڑھنے لگا۔ وہ جلد ہی نیند کے آغوش میں چلاگیا
پھر جب اس کی آنکھ کھلی تو سورج غروب ہونے کا وقت ہو چکا تھا۔ اس وقت اس کی حالت کافی بہتر تھی۔ وہ ہمت کر کے دھیرے دھیرے کھڑا ہو گیا۔ کھڑے ہوتے ہوئے اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا ضرور آیا۔ مگر وہ کسی طرح اپنے آپ کو سنبھالے رہا۔ پھر وہ ایک ایک قدم جما کر اٹھتا ہوا جھونپڑی کےںدروازے کی جانب چلا ۔ جھونپڑی کا دروازہ چھوٹا تھا۔ اسے جھونپڑی سے نکلنے کے لئے خاصا جھکنا پڑا جب وہ دروازے سے نکل کر سیدھا کھڑا ہوا۔ تو باہر کا ماحول دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔
سامنے لق دق صحرا تھا۔ ریت کے اونچے نیچے ٹیلے دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ سامنے سورج کی بڑی سی ٹکیہ لال انگارہ بنی ہوئی تھی۔ دور تک کوئی درخت تھا، نہ آدم نہ آدم زاد۔ اتنے بڑے صحرا میں بس اس کی جھونپڑی تھی۔
جانے اسے کہاں لاکر چھوڑ دیا گیا تھا۔
یہ بڑے انوکھے طرز کی قید تھی۔ اس جھونپڑی کو چھوڑ کر اگر وہ فرار ہونا بھی چاہے تو کہاں جائے گا۔
اگر اسے سزا کے طور پر محض صحرا میں ہی چھوڑ دیا جاتا تو وہ کتنے دن زندہ رہتا۔ صحرا میں ہر سمت راستہ ہونے کے باوجود اسے راستہ نہ ملتا، وہ بھٹک بھٹک کر بھوک پیاس سے دم توڑ دیتا۔ یہاں تو اسے نہ صرف سایہ مہیا کیا گیا تھابلکہ کھانا، پینا اور سونے کے لئے قالین بھی موجود تھا۔ گویا اسے اعلیٰ درجے کی قید دی گئی تھی۔
سردست تو اس کا مسئلہ اپنی توانائی بحال کرنا تھا۔ توانائی بحال ہونے کے بعد اگر یہاں سے نکلنے کا کوئی
راستہ دکھائی دیا تو وہ ضرور فرار ہونے کی کوشش کرے گا۔
ابھی وہ ڈوبتے سورج کو دیکھتا ہوا، یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک فضا میں سنساہٹ سی ہوئی۔ ہوا کا تیز جھونکا سا محسوس ہوا اور کوئی اس کے سر پر سے گزرتا ہوا، آگے چلا گیا۔ ابھی اندھیرا نہیں پھیلا تھا۔ اس کے سر پر سے جو پرندہ گزرا تھا، وہ الو تھا۔ آگے جاکر وہ واپس پلٹا۔
اب وہ سیدھا محسن راؤ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ محسن اسے بڑے سہمے ہوئے انداز میں دیکھ رہا تھا۔ نزدیک آکر جب اس الو نے اپنے پنجے نکال کر اس پر جھپٹنے کی کوشش کی تو نہ جانے اچانک اس میں کہاں سے توانائی آگئی۔ وہ فوراً جھک کر جھونپڑی کے اندر داخل ہو گیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو اس کا زخمی ہو جانا یقینی تھا۔۔ اپنے شکار کو جھونپڑی میں داخل ہوتا دیکھ کر وہ اوپر اٹھا اور جھونپڑی کے اوپر سے پرواز کرتا ہوا دور نکل گیا۔ پھر ایک چکر لگا کر واپس جھونپڑی کی چھت پر آبیٹھا۔
اُلو کے اس حملے سے اسے یہ اندازہ کرنے میں دیر نہ لگی کہ اس جھونپڑی کا دروازہ بند نہ ہونے اور کسی محافظ کی غیر موجودگی کے باوجود وہ جھونپڑی سے باہر نہیں نکل سکتا۔ یہاں کچھ نادیدہ محافظ موجود ہیں۔
دو تین دن گزر گئے۔ ان دو تین دنوں میں جھونپڑی میں کوئی نہیں آیا تھا۔ لیکن کھانے پینے کی کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی کھانا ختم ہونے پر کپڑے کے نیچے دوسرا کھانا آجاتا۔ پانی کم ہونے پر صراحی خود بخود پانی سے بھر جاتی کپڑے کے نیچے کھانا اور صراحی میں پانی ڈال کر جانے والا اسے باوجود کوشش کے نظر نہیں آیا تھا۔ وہ
تین دنوں میں کسی سے بات کرنے، کسی کی شکل دیکھنے کے لئے ترس گیا تھا۔ لق دق صحرا، اکیلی جھونپڑی اور اس جھونپڑی میں تنہا آدمی۔ شاید یہ قید تنہائی تھی۔ سات دن گزر گئے۔ ان سات دنوں میں، وہ کھاپی کر خاصا بھلا چنگا ہو گیا تھا۔ اس کی طاقت بحال ہو گئی تھی۔ ہاتھ پیروں کی رنگت سرخی مائل ہو گئی تھی۔
تب وہ آئی۔ ساتویں رات تھی۔ چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ جھونپڑی کے اندر ملگجا اجالا پھیلا ہوا تھا۔
وہ دروازے کی طرف منہ کئے لیٹا تھا۔ باہر چاندنی برس رہی تھی۔ چودھویں کا چاند، ریت میں چمکیلے ذروں کو مزید چمکا رہا تھا باہر ہر سو اجالا پھیلا ہوا تھا۔ بڑی مسحور کن فضا تھی۔ تب ہی محسن راؤ کی نظر کھلے دروازے پر پڑی۔ سامنے سے اسے وہ قتالہ عالم آتی نظر آئی جس نے اس کی ہنستی مسکراتی زندگی اجاڑ دی تھی۔ جس نے اس سے اس کی محبوبہ چھین لی تھی۔ والدین کے گھر طرف جاتا راستہ گم کر دیا تھا۔ پھر وہ نہ جانے اس پر کیا عمل کرتی تھی کہ وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوکر برسوں کا مریض بن جاتا تھا۔ اس عمل کے ذریعے شاید وہ اس کے جسم کا تمام خون اپنے اندر جذب کرلیتی تھی۔
وہ اسے آتا دیکھ کر فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا۔ سات دن کے بعد اسے کسی کی شکل دکھائی دی تھی۔ وہ سفید لباس میں تھی۔ اور آتی ہوئی کسی بھٹکی ہوئی روح کی طرح لگ رہی تھی۔
وہ روح تو نہ تھی لیکن بھٹکی ہوئی ضرور تھی۔ محسن راؤ کی جوانی نے اسے بھٹکا دیا تھا۔ یوں تو وہ دیواہ کالی کے حکم پر اسے سزا دینے آئی تھی۔ اس نے جوگی رام پال کو سزا دے بھی دی تھی۔ محسن راؤ کو بھی وہ سزا دینے کی تیاری مکمل کر چکی تھی،
لیکن جب اس نے محسن راؤ کو دیکھا تو وہ اسے دیکھ کر سزا دینا تو دور کی بات ہے۔ وہ یہ بھی بھول گئی کہ وہ اس کے تعاقب میں کیوں آئی تھی۔ محسن راؤ ایسا ہی حسین مرد تھا۔ اس کی موجودگی خواتین کے دلوں میں آگ لگا دیتی تھی۔ اس شخصیت میں بلا کی کشش تھی۔ راکھی اور نادرہ اسی کشش کاشکار ہوئی تھیں اوراب بقاں اسے دکھتے ہی اپنا دل ہار بیٹھی تھی۔
وہ اسے اپنے ساتھ اڑا لائی تھی۔ اور اسے ایسی جگہ قید کر دیا تھا جہاں سے کسی کا گزر نہ تھا۔ راج مداری نے اوپر جاتے ہوئے محسن راؤ کا ہاتھ بقاں کے ہاتھ میں پکڑا دیا تھا، اسے مجرم کی پہچان کروا دی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ” دیواہ کالی ” نے جس کسی کو بھی مدد کے لئے بھیجا ہے، وہ ہر قیمت پر محسن راؤ سے اس کا انتقام لے کر رہے گا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ خود صیاد ہی شکار ہو جائے گا۔ اگر اسے یہ معلوم ہوتا تو وہ کسی قیمت پر محسن راؤ کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں نہ دیتا۔ ویسے بقاں کا پیار بھی کسی سزا سے کم نہ تھا۔ وہ اس کی جان نکال لیتی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ اس کے سارے بدن کا خون، خود اپنے جسم میں جذب کر لیتی ہو۔ بعد میں اس کی جو حالت بنتی ہو، وہ اپنی جگہ لیکن اس عمل سے اس پر جو بے خودی، کیف اور سرشاری چھاتی تھی، اس کا کوئی جواب نہ تھا۔
اب اسے جو بقاں نظر آئی تو اسے دیکھ کر وہ متضاد کیفیت کا شکار ہو گیا۔ اسے دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور رنج بھی ہوا۔ .
جب بقاں ایک ادائے خاص سے چلتی ہوئی جھونپڑی کے دروازے پر رکی اور پھر جھک کر جھونپڑی کےںدروازے میں داخل ہوئی تو اس کی نظروں کے سامنے بجلیاں سی کوند گئیں۔ بقاں مسکرا کر سیدھی کھڑی ہوئی۔ اس نے محسن راؤ کو قالین پر چاق و چوبند بیٹھا دیکھا تو اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔ وہ اسے صحت مند دیکھ کر اندر ہی اندر بہت خوش ہوئی۔ یہ خوشی ویسی ہی تھی، جیسی کسی چوہے کو دیکھ کر ایک بلی کو ہوتی ہے۔ بقاں اس کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گئی۔ جیسے کسی دیوتا کے چرنوں میں کوئی داسی بیٹھ جائے۔ محسن راؤ اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔
‘ کیسے ہو، میرے جادوگر ؟” بقاں نے تبسم فرمایا۔
“میں بہت برا ہوں ، بقاں ۔ ” محسن راؤ نے بڑے عجب انداز میں کہا۔
“مجھے دھمکی دے رہے ہو ؟؟
“دھمکی نہیں ، میں اپنا حال بتا رہا ہوں ۔ “ وہ فوراً سنبھل گیا۔
“تم برے ہو یا اچھے ” میں سب سمجھتی ہوں”
وہ مسکرائی۔
” اچھی طرح جانتی ہوں ۔ “
” تم مجھے کہاں لے آئی ہو بقاں ۔ “
“تمہاری دنیا سے بہت دور، اتنی دور کہ تمہارے لوگوں کا گزر یہاں کسی قیمت پر نہ نہیں ہو سکتا۔ کوئی تمہاری مدد کے لئے آنا بھی چاہے تو نہیں آسکتا ۔ “
“اور اگر میں خود یہاں سے فرار ہو جاؤں تو۔ “ محسن راؤ نے تیکھے لہجے میں کہا۔۔”

“ایسا سوچنا بھی مت۔ تم کسی اور کے قیدی نہیں ہو، بقاں کے قیدی ہو۔ “ اس نے دھمکی دی۔
“کیا ہو گا۔…؟؟ جب تک تم میرے پاس لوٹ کر آؤ گی، میں جانے کہاں سے کہاں جا چکا ہوں گا۔ “
“ایک دن تم نے نکل کر دیکھا تو تھا، پھر دوبارہ نکل کر دیکھ لینا۔ تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ جب اس جھونپڑی کی چھت پر بیٹھا میرا محافظ اپنے خونخوار پنجوں سے تم پر حملہ کرے گا تو تمہیں اس جھونپڑی کے اندر داخل ہوتے ہی بنے گی۔ ویسے میں جاتے ہوئے مزید ایک محافظ کو مقرر کرتی جاؤں گی۔ ” اس نے بتایا۔
“میں یہاں کب تک قید رہوں گا۔ “ محسن راؤ نے پوچھا۔
“یہ تمہاری عمر قید ہے ۔ ” بقاں نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھا۔
“تمہیں کوئی پریشانی ہے یہاں، میرے جادو گر ؟ “
” نہیں، مجھے کیا پریشانی ہو سکتی ہے بھلا۔ میں یہاں بہت آرام میں ہوں۔ ” محسن نے طنزاً کہا

“اچھا، ایسا کرو، مجھ سے ایک جادو سیکھ لو، اس کے ذریعے تم اپنی مرضی کی کھانے پینے کی اشیاء منگواسکتے ہو۔ چھوٹی موٹی اور بھی ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں۔ “
(محسن راؤ نے فوراً آمادگی ظاہر کر دی کیونکہ کھانے پینے کو جو کچھ مل رہا تھا، وہ اس کی مرضی کا نہ تھا پھر ایک مقررہ وقت کے بعد ملتا تھا۔ یہ جادو سیکھنے کے بعد کم از کم اسے کھانے پینے کی آسانی تو ہو جائے گی۔

بقّاں نے اسے تین لفظ بتائے۔ ان لفظوں کو کتنی بار اور کس ترتیب سے دہرانا ہے اور دہرا کر پھر کیا کرنا ہے۔ یہ سب اس نے بقّاں سے سیکھ لیا۔ اور اس کے سامنے اس جادو کو آزما بھی لیا۔
اب وہ اس جادو کے ذریعے اپنی پسند کے کھانے منگوا سکتا تھا۔ وہ خوش تھا۔
” بقاں، ایک بات پوچھوں بتاؤ گی۔ “
”ہاں، بتاؤں گی، پوچھو ۔ “
“کچھ نادرہ کے بارے میں بتا سکتی ہو۔ ؟ “
“تمہاری نادرہ، تمہاری قمیص ہاتھوں میں لئے بیٹھی ہے۔ کبھی اسے آنکھوں سے لگاتی ہے کبھی اسے چومتی ہے۔ کئی بار وہ جنگل کا چکر بھی لگا چکی ہے کہ شاید تم کہیں مل جاؤ ۔ “
“اور راکھی کا کیا ہوا ؟ “
“راکھی کا اب کوئی سہارا نہیں رہا۔ اس کا باپ چل بسا اور جسے اس نے اپنے من مندر میں بٹھایا تھا۔ اس کی کوئی خبر نہیں۔ اس کے قبیلے کے کچھ لوگ شہر جارہے ہیں۔ وہ بھی اپنے ریچھ اور بندر لے کر شہر جانے کی تیاری کر رہی ہے۔ دن میں کئی بار وہ نہر کے پل کا چکر مار جاتی ہے۔ اور تمہارے نہ ملنے پر اپنی بھیگی آنکھوں کے ساتھ اپنی بستی میں لوٹ جاتی ہے ۔ ” بقّاں نے بتایا۔ پھر ہنس کر بولی ۔
“تم کس قدر ظالم ہو میرے جادوگر ، دو لڑکیوں کو اپنی محبت کے فریب میں مبتلا کر کے صحرا میں بیٹھے ہو۔”
“ہاں تم صحیح کہتی ہو ۔ ” محسن راؤ نے اداسی سے کہا۔ ” اب تیسری لڑکی میرے فریب میں مبتلا ہو گئی ہے۔ میں جلد ہی اسے بھی چھوڑ جاؤں گا۔ “
“کسی بھول میں نہ رہنا، میرے جادو گر میں راکھی یا نادرہ نہیں ہوں، بقّاں ہوں بقّاں ۔ صحرا کی شہزادی اس صحرا کا ایک ایک ذرہ مجھے سلام کرتا ہے۔ یہ تمہاری دنیا نہیں۔ یہ میرا جہان ہے۔ مجھے چھوڑ کر جانے سے پہلے تمہیں اپنی جان چھوڑنا ہوگی۔۔۔ ۔ کیا سمجھے ؟ “

“کبھی ایسا وقت آیا تو یہ بھی کر گزروں گا۔ محسن راؤ نے بے اطمینان سے کہا۔
” بہت ضدی ہو ؟ “
بقاں نے اچانک اپنی تیز چمکیلی آنکھیں اس کے چہرے پر گاڑ دیں۔ محسن کو ایسا محسوس ہوا جیسے صحرا میں اچانک طوفان آگیا ہو ۔ وہ گھبرا کر بولا۔
” تم کیا کرنے جا رہی ہو۔ “
کچھ نہیں۔ “ بقال نے بڑی سادگی سے کہا مگر اپنی تیز چمکیلی آنکھیں بدستور اس کے چہرے پر نہ گاڑے رہی۔ اس کی آنکھوں میں ضرور کچھ تھا۔ محسن راؤ کے دماغ میں آندھی چلنے لگی۔ ہوا کا شور اور اڑتے ہوئے ریت کے بگولے ۔ وہ گھبرا کر لیٹ گیا۔

بقّاں اس لمحے کی منتظر تھی۔ اس نے اس کے پیروں کے دونوں انگوٹھے پکڑ لئے ۔ بس پھر کیا تھا۔ اس طر غنودگی طاری ہونے لگی۔ بقاں کسی صحرائی بگوے کی طرح اس پر چھاتی چلی گئی۔ محسن راؤ پر سرشاری کی کیفیت طاری ہونے لگی ۔ وہ بے خود ہوتا گیا، یہاں تک کہ اسے اپنا ہوش نہ رہا۔
جب اسے ہوش آیا تو وہ ہوشربا جاچکی تھی۔ اس کی وہی کیفیت ہو گئی تھی۔ جیسے برسوں کا مریض، ہاتھوں پیروں میں جان نہیں۔ دماغ کی رگیں تنی ہوئیں۔ سر اٹھاؤ تو چکر آجائے، اندھیرا چھا جائے۔ دن چڑھ آیا تھا۔ جھونپڑی کے دروازے سے روشنی اندر آرہی تھی لیکن اس کی رگوں میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ وہ صحرائی جونک اس کے بدن کا سارا خون پی گئی تھی۔

دو چار دن اس پر نقابت طاری رہی۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے جسم میں توانائی بحال ہونے لگی۔ اس نے اچھا کھا پی کر خود کو تندرست کر لیا۔ اس دوران بقّاں کی صورت دکھائی نہ دی۔ شاید وہ اس کی صحت بحال ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔ سات آٹھ دن میں محسن راؤ پھر سے بھلا چنگا ہوگیا۔ کئی بار اس کے دل میں خیال آیا کہ وہ یہاں سے فرار ہونے کی کوشش کرے۔ لیکن پھر رک جاتا تھا۔ ایک تو اسے راستے کا پتہ نہ تھا کہ کدھر جائے۔ بالفرض محال اگر وہ کسی سمت چل ہی پڑے تو بقاں کے محافظوں سے جان چھڑانا آسان نہ تھا۔ وہ الو ایک دم مستعد جھونپڑی کی چھت پر بیٹھا رہتا تھا۔ پھر دوسرا محافظ دروازے کے نزدیک پھن اٹھائے کھڑا رہتا تھا کہ محسن نے صحرا کی طرف قدم اٹھائے اور وہ لگا پیچھے۔ ایک بار اسے خیال آیا کہ کیوں نہ وہ دن کی روشنی کے بجائے رات کے اندھیرے میں جھونپڑی سے نکل کر صحرا میں گم ہو جائے۔ اس منصوبے پر عمل کرنا آسان نہ تھا کیونکہ الو اور سانپ دونوں ہی رات کے اندھیرے میں دور تک دیکھ سکتے تھے۔ آخر بقاں کوئی بے وقوف مخلوق نہ تھی۔ اس نے محسن کو سلاخوں کے پیچھے تالے میں بند نہیں کیا تھا تو کچھ سوچ کر ہی کیا ہو گا۔
کوئی چھ ماہ بعد تنگ آکر محسن راؤ نے بقاں کی گرفت سے نکلنے اور اس اذیت ناک صورت سے بچے کے لئے فرار کی کوشش کی۔ اس نے جھونپڑی سے نکلتے ہی تیزی سے ایک سمت بھاگنا شروع کر دیا۔ لیکن ریت پر بھاگنا آسان کام تو نہ تھا۔ اس کے پیر ریت میں دھنس رہے تھے۔ بھاگنا دو بھر ہو رہا تھا۔
پھر جب الو نے اپنے شکار کو فرار ہوتے ہوئے دیکھا تو وہ ایک چیخ مار کر پھڑ پھڑا کر اڑا اور چند سیکنڈوں میں اسے جالیا۔ اس نے محسن کے چہرے پر ایسا پنجہ مارا کہ اس کی آنکھ زخمی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ بہر حال اس کے رخسار کو اس نے زخمی کر دیا تھا۔

اس دن کے بعد سے اس نے فرار ہونے کا منصوبہ ترک کر دیا۔ وہ دراصل اپنی صورت بگاڑنا نہیں چاہتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی صورت خود بخود بگڑنی شروع ہو گئی تھی۔ اس کے چہرے پر اب مستقل پیلا ہٹ رہنے لگی تھی۔ دن بدن اس کی صحت خراب ہوتی گئی۔ شروع میں وہ ہفتے عشرے میں کھا پی کر اپنی جان بنالیتا تھا۔ لیکن پھر یہ وقفہ بڑھتا گیا۔ اور وقت کے ساتھ اس کی صحت کی بحالی میں پانچ چھے ماہ لگنے لگے۔
لیکن بقال نے ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔
آج تک وہ اس کی جان کو آئی ہوئی ہے۔ اس کو چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔ محسن راؤ کی ان سولہ سترہ برسوں میں جو حالت ہو گئی ہے۔ اگر تم اسے اس وقت دیکھ لیتیں تو شاید ہے ہوش ہو جاتیں۔ تمہیں شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسی لئے میں نے تمہیں جھونپڑی میں داخل ہونے سے روک لیا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ تم اپنے بھائی کو دیکھنے سے پہلے سارے حالات جان لو تا کہ تم میں ہمت پیدا ہو جائے اور تم اس کی صورت دیکھ سکو۔ میرا خیال ہے کہ میں نے محسن راؤ سے متعلق ہر وہ بات تفصیل سے بتادی ہے جس کی تمہیں ضرورت تھی۔ پھر بھی کہیں کوئی تشفی رہ گئی ہو تو سوال کر سکتی ہو۔”

یہ کہ کر کالا چراغ خاموش ہو گیا۔ کمرے میں گہری خاموشی چھا گئی۔ یہ موت کی سی خاموشی تھی۔
تانیہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ ایسی المناک کہانی سن کر کون بہن اپنے آنسوؤں کو روک سکتی ہے۔ یہ ایک طویل داستان تھی۔ اپنے بھائی کی روداد سنتے ہوئے وہ بالکل دم سادھے بیٹھی رہی تھی۔ اس نے کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ مبادا در میان میں سلسلہ ٹوٹ جائے۔ کالے چراغ نے بہت اچھے انداز میں محسن کی کہانی سنائی تھی۔ اتنے اچھے انداز میں کہ وہ دم بخود بیٹھی سنتی رہی تھی۔ کئی جگہ اس نے اپنے آنسو ضبط کئے تھے۔ لیکن آخر میں وہ ضبط شدہ آنسو اندر نہ رہ سکے تھے، ابل کر باہر آگئے
تانیہ نے اپنے دوپٹے سے اپنے آنسو صاف کئے۔ کالا چراغ اسے روتے ہوئے بڑی محویت سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے ان آنسوؤں پر ٹوکا نہیں تھا، نہ ہی تسلی دی تھی۔ وہ بس گم صم بیٹھا رہا تھا۔
کچھ دیر کے بعد جب تانیہ کے دل کو قرار آیا تو وہ بڑی اداسی سے مسکرائی اور کالے چراغ سے مخاطب ہو کر بولی۔
” میرے بھائی نے چھوٹی سی عمر ہی سے بہت دکھ جھیلے ہیں۔ پہلا دکھ انہیں میرے چچا راؤ احمد علی نے دیا۔ اگر وہ ان کے قتل کی سازش نہ کرتا تو میرا بھائی آج ان اذیتوں سے کیوں گزرتا۔ میرے بھائی کی زندگی تو مستقل قید بن کر رہ گئی ہے۔ ان کی یہ قید تو عمر قید سے بھی بڑی ہو گئی۔ عمر قید کا مجرم چودہ سال بعد جیل سے رہا تو ہو جاتا ہے۔ میرے بھائی کو تو سزا بھگتتے بیس بائیس سال ہو گئے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وہ بھی کیا قسمت لکھا کر لائے ہیں۔ اتنے بڑے باپ کا بیٹا، ایک معمولی مداری کے گھر پل کر جوان ہوا۔ راج مداری سے جان چھٹی تو وہ بقّاں کی قید میں چلا گیا۔ جو اب ان کی زندگی کی لاگو بنی ہوئی ہے۔ کہاں ہے وہ بقاں، میرے سامنے آجائے تو میں اس کا خون پی جاؤں ۔ “

کالے چراغ نے جواب میں کچھ نہ کہا۔ وہ خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ تانیہ کا غصہ بجا ہے۔ اس کی جگہ کوئی بھی ہوتا، اس کا یہی رد عمل ہوتا۔
“ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی ؟ ” تانیہ نے کچھ دیر کے بعد کہا۔
“بولو۔ کونسی بات ! ” کالے چراغ نے دریافت کیا۔
“یہ بات میں خواب میں بھی دیکھتی تھی اور جب حقیقت میں جھونپڑی کے سامنے پہنچی، تب بھی مجھے وہ آواز سنائی دی۔ خواب میں، میں دیکھا کرتی تھی کہ جب جھونپڑی کے نزدیک پہنچتی ہوں تو اندر سے آواز آتی ہے۔ ڈرومت آؤ اندر آجاؤ، جب میں حقیقت میں جھونپڑی کے سامنے پہنچی۔ تب بھی یہ آواز سنائی دی۔ سوال یہ ہے کہ کیا میرے بھائی کو، میری آمد کا انتظار تھا۔ اسے پہلے سے معلوم تھا کہ میں یہاں ضرور آؤں گی۔؟؟ “
“بالکل۔ ” کالے چراغ نے یقین سے کہا۔
“آخر کیسے ؟ انہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں جھونپڑی کے دروازے پر آنے والی میں ہوں ۔؟؟ “
“یہ میں نے اسے بتایا ۔ “
“لیکن آپ تو اس وقت میرے پیچھے تھے۔ میں اس وقت کی بات کر رہی ہوں جب آپ نے مجھے اندر جانے سے روکا تھا۔ “
” یہ بات میں، تمہارے یہاں پہنچنے سے پہلے بتا چکا ہوں
کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب تمہاری بہن ترکش ہماری نجات دہندہ بن کر آئے گی۔ ” کالے چراغ نے بتایا۔
“نجات دهنده ؟ ” تانیہ کی کچھ سمجھ میں نہ آیا۔
”ہاں، تم وہ واحد ہستی ہو جو اپنے بھائی کو اس عذاب سے بچا سکتی ہو ورنہ کچھ عرصے کے بعد اس کی موت یقینی ہے۔ ” کالے چراغ نے انکشاف کیا۔
“نہیں، میں اپنے بھائی کو مرنے نہیں دوں گی۔ اگر اپنی زندگی دے کر بھی ان کی زندگی بچانی پڑے بچالوں گی ؟ “
تانیہ نے بڑی محبت اور بڑے یقین سے کہا۔
“میں جانتا ہوں ۔ ” کالے چراغ نے کہا۔ ”اگر مجھے اس بات کا یقین نہ ہوتا تو تمہیں یہاں تک لاتا کیوں ؟ “
“آپ لائے ہیں مجھے یہاں؟” تانیہ نے حیران ہو کر پوچھا۔ ”ہاں، یہی سمجھو۔ ” کالے چراغ نے گول مول جواب دیا۔

اس کا مطلب ہے کہ کالے کمرے میں، میری ایک راجہ جیسے شخص سے ملاقات ہوئی تھی، وہ آپ ہی کا کوئی روپ تھا۔ “
” نہیں، وہ میں نہیں تھا، وہ راکل ہے۔ “
“راکل ” تانیہ نے اس کا نام دہرایا۔ انہوں نے مجھے ایک ڈائری دی تھی، میری زندگی کا حال بتاانے والی۔ وہ اب بھی میرے پاس موجود ہے۔ یہ ڈائری انہوں نے تحفتاً دی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ میں نے انہیں آزاد کروایا ہے۔ لیکن میں نے تو ان کی آزادی کے لئے کچھ نہیں کیا۔ “

یہ سن کر کالے چراغ نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ پھر بولا۔ ” وہ بہت فتنہ شخص ہے ۔ “
” ہوگا ۔ ” تانیہ نے لاپروائی سے کہا۔ “مجھے تو اس نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ “
“آنے والے کل کے بارے میں کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ “
” راکل کون ہے ؟ “
ہماری دنیا کا ایک طاقتور شخص جو بڑا شوقین مزاج واقع ہوا ہے ۔ “
اور یہ بقّاں کون ہے؟” تانیہ نے پوچھا۔
“بقال، راکل کی بہن ہے۔ “
“اوہ ، اچھا۔ “
تانیہ طے نہ کر پائی کہ اس انکشاف پر وہ خوش ہو یا حیرت کا اظہار کرے۔ اس نے کچھ سوچ کر کالے چراغ سے کہا۔
” پھر تو محسن بھائی کے سلسلے میں راکل سے مدد لی جا سکتی ہے۔ “
“وہ اپنی بہن کے خلاف تمہاری کیوں مدد کرے گا۔؟؟ “
” میں سمجھتی ہوں کہ وہ ایک اچھا آدمی ہے۔ “
“تمہاری اس سے صرف ایک ملاقات ہے، میں اسے برسوں سے جانتا ہوں ۔ “
“آپ نے اسے کیسا پایا۔..؟ “
“میں نے ابھی تمہیں بتایا نا کہ وہ ایک خبیث مخلوق ہے۔” کالے چراغ کی پیشانی پر بل آگئے۔
” میں اس سے ملنا چاہتی ہوں ۔ “
“پہلے اپنے بھائی سے تو مل لو۔ “
“ہاں ، ٹھیک ہے۔ چلئے پہلے مجھے میرے بھائی سے ملا دیجئے۔ “

” تم دوپہر کا کھانا کھا لو، کچھ دیر آرام کر لو۔ پھر میں تمہیں محسن راؤ کے پاس لے چلوں گا۔ “
کھانے کا وقت قریب تھا۔ تانیہ نے سیر ہو کر کھانا کھایا۔ اسے اپنے بھائی کے مل جانے کی بہت خوشی ہوئی۔ قسمت نے بہت صحیح وقت پر اسے اپنے بھائی کی مدد کے لئے بھیج دیا تھا۔
کوئی چار بجے کے قریب کالا چراغ کمرے میں آیا۔ اس اثناء میں تانیہ تھوڑی دیر آرام کر کے، منہ ہاتھ دھو کر تیار ہو گئی تھی۔ اس نے کالے چراغ کو اندر آتے دیکھ کر پوچھا۔
“چلیں۔ ۔۔؟”.
“ہاں، بالکل۔ ” کالے چراغ نے فوراً جواب دیا۔ جب وہ دروازے کی طرف بڑھنے لگی تو کالے چراغ نے دیکھا کہ اس نے اپنا سامان کمرے میں ہی چھوڑ دیا ہے تو اس نے تانیہ سے کہا۔
“کیا آپ اپنا سامان ساتھ نہیں لیں گی۔ “
“کیا یہاں بعد میں واپس نہیں آنا۔ ” تانیہ نے پوچھا۔
“میرا خیال ہے کہ ضرورت نہیں پڑے گی۔ اگر ضرورت پڑی تو آجائیں گے ۔ “
“ٹھیک ہے۔ “
یہ کہہ کر تانیہ نے اپنا سامان سمیٹ لیا۔ اس کا سامان ہی کیا تھا، ایک بیگ ہی تو تھا، اس نے اس میں اپنی تمام چیزیں بھر کر بیگ کندھے پر ڈال لیا اور بولی ۔
” آئیے، چلیں۔ “

جب تانیہ اس محل نما عمارت سے باہر نکلی تو دھوپ ڈھل رہی تھی۔ باہر کی وہی فضا تھی۔ ان دونوں کے سوا دور تک کوئی نہ تھا۔ درمیان میں حسین فوارہ چاروں طرف در ہی در تھے۔ ایک خوبصورت سرسبز باغ تھا فوارے کے نزدیک سے گزر کر جب اس نے ایسے ہی پلٹ کر سرخ پتھروں والی عمارت پر الوداعی نظر ڈالنا چاہی تو وہاں کوئی عمارت نہ تھی۔
اور جب فوارے سے آگے محرابی دروازے میں داخل ہوئی تو پیچھے سرسبز باغ، فوارہ اور چاروں طرف بنے در غائب ہو گئے۔ پھر وہ محرابی دروازے سے گزر کر اوپر جاتی ہوئی سیڑھیاں چڑھنے لگی تو اس میں ہمت نہ ہوئی کہ پیچھے مڑکر دیکھے۔ لیکن جب وہ کھنڈر کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچی اور اس کے تجسس نے اسے پھر پیچھے مڑ کر دیکھنے پر مجبور کیا تو اس نے دیکھا کہ سیڑھیاں بھی غائب ہیں اور ان سیڑھیوں کی جگہ ایک ڈھلان دکھائی دے رہی تھی۔ اور نیچے گڑھے میں پانی بھرا ہوا تھا۔ کالا چراغ اس کے آگے چل رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ اس سے پوچھے کہ یہ سب کیا ہے۔ وہ باغ ، وہ سب کیا ہوئے۔ اب چاروں طرف ریگستان تھا۔ اڑتی ہوئی ریت تھی۔ اور دور کہیں چند چیلیں دکھائی دے رہی تھیں، پھر وہ پوچھتے پوچھتے رک گئی۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ غیر انسانی مخلوق کی گرفت میں ہے اور غیر انسانی مخلوق سے اس طرح کے کاموں کی توقع کی جاسکتی تھی۔ وہ اپنے کندھے پر بیگ لٹکائے خاموشی سے کالے چراغ کے نقش قدم پر چلتی رہی۔ وہ کافی تیز چل رہا تھا۔ اتنی رفتار سے کہ تانیہ کو اس کے ساتھ چلنا دشوار ہو رہا تھا۔
” ذرا آہستہ چلئے نا۔ ” بالآخر اس نے پکار کر کہا۔
کالے چراغ کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔ وہ سنی ان سنی کر گیا۔ اس نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔۔۔ ۔ آگے ایک ریت کا اونچا ٹیلہ تھا۔ وہ گھوم کر اس ٹیلے کے پیچھے چلا گیا۔ تانیہ نے فوراً دوڑ لگائی۔ اسے خدشہ ہوا کہ کہیں وہ اس لق و دق صحرا میں تنہا نہ رہ جائے۔ لیکن جب وہ گھوم کر ٹیلے کے پیچھے پہنچی تو کچھ نہ تھا۔ کالا چراغ غائب ہو چکا تھا۔ اس کو غائب پاکر اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ یا اللہ اب وہ کیا کرے گی۔ کس طرح اپنے بھائی کی جھونپڑی تک پہنچے گی۔ جانے وہ جھونپڑی کہاں تھی۔ یہاں سے کتنی دور تھی۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اس کی نظر کالے چراغ پر پڑی ریت کے ٹیلے کے اندر سے اس طرح نکل رہا تھا جیسے پانی کی دیوار کے اندر سے نکل رہا ہو پھر وہ ریت کے اندر سے مکھن میں بال کی طرح نکل آیا، اس کے چہرے پر پراسرار مسکراہٹ تھی۔ اس کی مسکراہٹ میں جانے کیا تھا۔ اس کا چہرہ ایک دم بدل جاتا تھا۔ اور پھر یہ وہ وقت ہوتا تھا جب اس کے چہرے میں کشش پیدا ہو جاتی تھی۔

“کیا ہوا مجھے غائب دیکھ کر پریشان ہو گئی تھیں۔ “
اس نے سوال کیا۔
“ہاں، واقعی۔ ” تانیہ نے جواب دیا۔
“آؤ، میرے ساتھ ۔ “
یہ کہہ کر کالے چراغ نے اس کا نازک ہاتھ تھام لیا، اور اسے ریت کے ٹیلے کی طرف لے کر چلا۔

“کہاں لے جارہے ہیں مجھے۔ ” تانیہ گھبرا کر بولی۔

سامنے خاصا اونچاریت کا ٹیلہ تھا۔ اور وہ ہاتھ پکڑ کے اس ٹیلے میں داخل ہوا چاہتا تھا۔
“آؤ، اندر چلتے ہیں۔ ” اس نے بڑے مزے سے کہا۔
” ٹیلے کے اندر، ریت میں ہائے میرا تو دم گھٹ جائے گا۔ ” تانیہ پریشان ہو گئی۔ اس کا سانس ابھی سے رکنے لگا۔
وہ ایک قدم آگے تھا۔ اور ریت کے ٹیلے میں داخل ہو چکا تھا۔ وہ اس طرح داخل ہو رہا تھا جیسے روئی کے گالوں میں گھس رہا ہو۔ اس نے تانیہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ وہ ریت میں غائب ہوچکا تھا
اور تانیہ کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ تانیہ کا ہاتھ ریت میں داخل ہوتا جا رہا تھا۔ تانیہ کے سامنے ایک دم اندھیرا سا چھا گیا۔ اس نے اچانک ریت اپنے منہ پر محسوس کی۔ یہ احساس چند لمحوں سے زیادہ نہیں رہا۔ جب اس نے خوف سے بند ہوئی آنکھیں کھولیں تو ریت کے ٹیلے کا دور تک پتا نہ تھا۔۔۔ کچھ فاصلے پر اسے جھونپڑی نظر آرہی تھی۔ جس کی چھت پر ایک الو بیٹھا تھا اور ایک سانپ کنڈلی مارے پہرہ دے رہا تھا
تانیہ نے جھونپڑی کو دیکھ کر ایک گہرا سانس لیا

“کہو!! تمہارا دم تو نہیں گھٹا۔۔۔؟ ” کالے چراغ نے مسکرا کر پوچھا۔
” نہیں، بالکل نہیں بلکہ مجھے تو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ میں ریت کے ٹیلے میں سے گزر رہی ہوں” تانیہ نے بتایا۔
“اب تم اندر جاؤ اپنے بھائی سے مل آؤ۔ “
آپ اندر نہیں جائیں گے۔ “
“نہیں، میں باہر بیٹھوں گا۔ “
“کوئی خاص بات ہے۔ ” اس نے پوچھا۔
“ہاں، ایک خاص بات ہے۔ تمہاری حفاظت کے لئے مجھے یہاں رکنا پڑے گا۔ “ کالے چراغ نے بتایا۔
“لیکن میں اندر جاؤں گی کیسے، وہ سانپ تو دروازے پر کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ “
” اس کی فکر نہ کرو، میں جیسے ہی جھونپڑی کے نزدیک پہنچوں گا، وہ فوراً غائب ہو جائے گا۔ “
“ایسا ہو جائے تو بہت اچھا ہو۔”
“ایسا ہی ہو گا۔ ” اس نے بڑے یقین سے کہا۔

اور پھر ایسا ہی ہوا، جوں ہی وہ جھونپڑی کے نزدیک پہنچا۔ سانپ فوراً گھوم کر جھونپڑی کے پیچھے کہیں
ہو گیا۔ سانپ کے جاتے ہی اُلو بھی پیچھے کی جانب تیز پھڑ پھڑاہٹ کے ساتھ اڑ گیا۔
کالا چراغ دروازے کے نزدیک پہنچ کر رک گیا اور ہاتھ کے اشارے سے اس نے تانیہ کو اندر جانے کی ہدایت کی۔ تانیہ دھڑکتے دل کے ساتھ اندر داخل ہوئی۔
چھوٹے دروازے سے گزر کر جب وہ جھونپڑی میں سیدھی کھڑی ہوئی تو اس نے جھونپڑی کے ایک قالین پر ایک شخص کو لیٹا ہوا دیکھا، اس نے کالی چادر اپنے اوپر اوڑھ رکھی تھی، منہ تک ڈھکا ہوا تھا
وہ چلتی ہوئی محسن کے نزدیک پہنچ گئی۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ فوراً اس کے چہرے سے چادر ہٹادے۔ لیکن اس نے ایسا کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے ذرا سا جھک کر بڑے پیار بھرے لہجے میں آواز دی
“محسن بھائی ۔ “

تانیہ کی آواز سنتے ہی چادر میں حرکت ہوئی ۔ محسن نے دھیرے دھیرے اپنے چہرے سے چادر ہٹائی
لیکن پھر وہ اپنے چہرے سے چادر ہٹاتے ہٹاتے رک گیا۔ وہ چادر منہ پر لئے لئے آہستہ سے اٹھ گیا۔
اس نے چادر سر سے نہ اتاری بلکہ اس طرح اوڑھ لی کہ اس کا پورا چہرہ دکھائی نہ دے سکے۔ اور گردن اٹھا کر ایک آنکھ سے تانیہ کی طرف دیکھا اور خوشی بھرے لہجے میں بولا۔ ترکش تم آگئیں۔۔ بہن تم آگئیں۔ “
“ہاں، بھائی میں آگئی ہوں۔ میں آپ کو لینے آئی ہوں۔ “

تب محسن راؤ نے چادر سے ایک ہاتھ نکالا۔ سوکھا ہوا ہاتھ ، جیسے ہڈیوں کا ڈھانچہ۔۔۔ اس نے ہاتھ کےاشارے سے اسے قالین پر بیٹھنے کو کہا۔ تانیہ فوراً اس کے سامنے قالین پر بیٹھ گئی۔ اور اپنے خوبصورت ہاتھوں کے درمیان اس کا سوکھا ہوا ہاتھ لے لیا۔

“بھائی، آپ کی یہ کیا حالت ہو گئی۔ ؟؟”
” میری بہن، میری یہ حالت بقاں نے کی ہے، اس خبیث عورت نے میری زندگی تباہ کردی ہے۔ ۔۔”
“میں جانتی ہوں، مجھے کالے چراغ نے سب کچھ بتا دیا ہے۔ پوری کہانی سنادی ہے آپ کی..”
” کالا چراغ بہت اچھا آدمی ہے، وہ کئی بار مجھ سے ملنے آچکا ہے۔ اس نے مجھے تمہارے آنے کی نوید دی تھی۔ اور اس سے پہلے جب تم یہاں آئی تھیں اور اندر آنے کی بجائے واپس پلٹ گئی تھیں تو میں تمہیں اندر سے دیکھ رہا تھا۔ اسی لئے میں نے تمہیں دیکھ کر کہا تھا کہ ڈرومت… اندر آجاؤ لیکن تم نہیں آئی تھیں۔ شاید کالا چراغ نے تمہیں اندر آنے سے روک دیا۔ اور تمہیں اپنے ساتھ لے گیا۔۔ میں جانتا ہوں کہ اس نے تمہیں اندر آنے سے کیوں روکا تھا۔ “
محسن بہت دھیرے دھیرے بول رہ تھا جیسے وہ برسوں کا مریض ہو اور اس سے بولا نہ جا رہا ہو۔
“سچ بتاؤں بھائی، مجھے اس کی اس حرکت پر سخت غصہ آگیا تھا۔ لیکن اب سوچتی ہوں، اس نے ساتھ لے جا کر اچھا کیا تھا، اگر میں آپ کے بارے میں سب کچھ جانے بغیر آپ کو دیکھ لیتی تو مجھے ذہنی صدمہ پہنچتا، خوش تو خیر میں اب بھی نہیں ہوئی ہوں، آپ کا یہ سوکھا ہاتھ آپ کی صحت کا پتہ دے رہا ہے، خیر کوئی بات نہیں، اب آپ کو اپنے ساتھ لے جاؤں گی۔ ” “ترکش، ایک بات بتاؤ، یہ تمہارا نام کس نے رکھا۔ دادا کی خواہش پر رکھا گیا ہو گا۔ بابا دادا کے حوالے سے اس نام کا ذکر اکثر کیا کرتے تھے۔ “
“ہاں، بھائی میرا نام انہی کی خواہش پر رکھا گیا تھا۔ لیکن اب میرا نام ترکش نہیں، تانیہ ہے۔ ترکش کوئی نہیں کہتا، خود مجھے بھی نہیں معلوم تھا کہ میرا نام ترکش ہے۔ ” تانیہ نے وضاحت کی
“اچھا، حیرت ہے۔ ” وہ بولا۔
“میں جب اپنی کہانی سناؤں گی تو آپ مزید حیران رہ جائیں گے۔ آپ کے غائب ہو جانے کے بعد بابا ایک دم سم گئے تھے، انہوں نے چچا کے ڈر سے مجھے کبھی اپنی بیٹی نہیں کہا، میں غیروں میں پلی بڑھی اس لئے میرا نام بھی تبدیل کر دیا گیا۔ بابا نے میرے لئے بڑی قربانی دی۔ “

“کیسے ہیں میرے بابا اور امی کا کیا حال ہے، وہ تو میری گمشدگی کی وجہ سے رو رو کر پاگل ہو گئی ہوں گی۔”

تانیہ کے جی میں آئی کہ فوراً بتادے کہ وہ دونوں اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں، لیکن پھر یہ سوچ کر ٹھہر گئی کہ ابھی یہ خبر محسن راؤ کے لئے شدید صدمے کا باعث ہوگی ۔ وہ پہلے ہی سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا ہوا ہے۔ والدین کے انتقال کی اطلاع اسے مٹی کا ڈھیر بنادے گی۔

“وہ دونوں ٹھیک ہیں محسن بھائی اور آپ کو یاد کرتے ہیں۔ ” اس نے سفید جھوٹ بولا۔
“اور وہ کمینہ شخص ؟ ” محسن راؤ کے لہجے میں سختی آگئی۔
“کون …؟ وہ راؤ احمد علی ؟ “
”ہاں، اسی کی بات کر رہا ہوں ۔ “
“وہ ہمارے انتقام کا انتظار کر رہا ہے۔ “
“فکر نہ کرو، تانیہ میں اس سے ایسا انتقام لوں گا کہ اس کی روح تک کانپ جائے گی۔ “ یہ کہتے ہوئے محسن کے ہاتھ کی گرفت سخت ہو گئی۔

تانیہ غور سے محسن کی طرف دیکھنے لگی۔ وہ ابھی تک مکمل چادر اوڑھے بیٹھا تھا۔ بس اس کی ایک آنکھ ضرور دکھائی دے رہی تھی۔ تانیہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس نے اپنا چہرہ چادر میں کیوں چھپارکھا ہے، اسنے فوراً محسن سے سوال کیا۔ ” بھائی ایک بات پوچھوں ۔ “
”ہاں، پوچھو ۔ “ محسن نے کہا۔
“آپ برا تو نہیں مانیں گے۔ “ وہ بولی ۔
“نہیں ہر گز نہیں۔ “
“یہ آپ نے اپنا چہرہ چادر میں کیوں چھپایا ہوا ہے ۔ “
“وہ ہوا لگتی ہے نا، اس سے بچنے کے لئے۔ ” محسن راؤ نے ہوا میں ایک تیر چھوڑا ۔
“لیکن اس جھونپڑی میں تو اس وقت خاصی گرمی ہو رہی ہے اور آپ ہیں کہ نہ صرف چادر اوڑھے ہوئے ہیں بلکہ اپنا منہ بھی ڈھک رکھا ہے۔ بھائی ہٹائیں نا اپنے منہ سے چادر کیا اپنی بہن کو چہرہ بھی نہیں دکھائیں گے ۔؟ ” تانیہ نے بڑے جذباتی انداز میں کہا۔
تانیہ کی اس خواہش پر محسن راؤ اندر ہی اندر کانپ اٹھا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ اپنی بہن کو کس طرح بتائے کہ اب اس کا چہرہ دیکھنے کے قابل نہیں رہا، ایک وقت تھا کہ لڑکیاں اس کا چہرہ دیکھتی تھیں تو نظریں ہٹانا بھول جاتی تھیں اور اب وہ وقت آگیا تھا کہ اگر آج کوئی لڑکی اس کا چہرہ دیکھتی تو پھر زندگی بھر اس کا چہرہ نہ دیکھنے کی قسم کھالیتی۔ ایسا ہی ہو گیا تھا اس کا چہرہ ۔

“تانیہ اگر تم میرا چہرہ نہ دیکھو تو اچھا ہے ۔ “ محسن راؤ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
“کیوں آخر میں اپنے بھائی کا چہرہ کیوں نہ دیکھوں ۔ “
“پچھتاؤ گی۔ ” محسن راؤ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔ “بھائی اب تو میں ضرور دیکھوں گی، کیا ہوا ہے آپ کے چہرے کو۔ لائیں ہٹائیں چادر ۔ “
یہ کرا تانیہ نے اس کی چادر کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
“اچھا ٹھہرو، میں خود اتارتا ہوں چادر اپنے سر سے۔ ” محسن راؤ نے کہا۔
” ٹھیک ہے۔ ” یہ کہہ کر تانیہ نے اپنے ہاتھ نیچے گرا لئے۔ تب محسن راؤ نے اپنے دونوں ہاتھ چادر سے نکالے اور پھر اپنے چہرے سے گھونگھٹ اٹھادیا۔ اس کا چہرہ دیکھ کر تانیہ کی چیخ نکل گئی۔ محسن راؤ نے اپنا چہرہ فوراً دوبارہ ڈھانپ لیا اور لرزتے ہوئے لہجے میں بولا۔
“میں نے تم سے کہا تھا کہ میرا چہرہ مت دیکھو۔ مگر تم نہیں مانیں ۔ “
“بھائی، یہ سب کیا ہے۔ یہ آپ کے چہرے کو کیا ہوا ہے۔ ” تانیہ کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے تھے،
محسن راؤ کا آدھا چہرہ بالکل ٹھیک تھا لیکن آدھا چہرہ کسی دیمک زدہ لکڑی کی طرح ہو گیا تھا۔ جلد میں چھوٹے بڑے بے پناہ سوراخ تھے اور یوں لگتا تھا جیسے ہاتھ لگانے پر آدھا چہرہ جھڑ کر نیچے گر جائے گا۔

“مجھے کچھ نہیں معلوم تانیہ میں تو بس زندگی کا عذاب کاٹ رہا ہوں ۔ ” اس کے لہجے میں پناہ دکھ تھا۔ “میرا جی چاہ رہا ہے، اس کمینی بقّاں کو قتل کردوں ۔ ” تانیہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
“اسے قتل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ پھر میں اسے قتل کرنے بھی نہیں دوں گا۔ “
یہ کالا چراغ کی آواز تھی۔ تانیہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ اس کے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔ اس نے اندر آتے ہوئے تانیہ کی بات سن لی تھی۔
“آپ ذرا دیکھیں تو اس نے میرے بھائی کا کیا حشر کر دیا ہے۔ وہ واجب القتل ہے کہ نہیں۔”
اس نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔
“تم صحیح کہتی ہو اس کا جرم واقعی بہت بڑا ہے۔ وہ اس قابل ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے لیکن مجبوری یہ ہے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں ۔ اور جو کسی سے محبت کرتا ہے، وہ اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ ” کالے چراغ نے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
“کچھ دیکھ کر تو محبت کی ہوتی، ایسی بری عورت سے محبت کر بیٹھے۔ “
تانیہ نے جھنجلا کر کہا۔
” محبت دیکھ کر کب کی جاتی ہے۔ محبت تو ہو جاتی ہے۔” کالے چراغ کا جواب تھا۔
“آپ لوگوں کے یہاں بھی محبت کا یہی فلسفہ رائج ہے ۔ ” تانیہ نے پوچھا۔
” ہمارے تمہارے یہاں کیا۔ یہ تو محبت کا عالمی فلسفہ ہے۔ “ کالے چراغ نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔
” اب بقاں کا کیا کریں، اس نے میرے بھائی کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے ۔ ” تانیہ پریشان تھی۔
اسکی آنکھوں میں بار بار آنسو چھلک آتے تھے۔ .
“میری بہن تم پریشان نہ ہو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ “ محسن راؤ نے اسے جھوٹی تسلی دی۔
” آپ بیٹھ جائیں۔ ” تانیہ نے کالے چراغ سے مخاطب ہو کر کہا۔
“اب بیٹھنے کا وقت نہیں ہے۔ ” کالے چراغ نے تانیہ کے برابر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”اب کچھ کر گزرنے کا وقت ہے۔ “
“بتائیے کیا کیا جائے۔ میں اپنے بھائی کی آزادی کے لئے سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں ۔ “
” میں ڈرتا ہوں، تانیہ کہیں تم کسی مصیبت میں نہ پھنس جاؤ ۔ ” محسن راؤ فکر مند ہو کر بولا۔
“محسن، اگر تمہیں بقّاں کے چنگل سے کوئی بچا سکتا ہے تو وہ صرف تمہاری بہن ہے۔ ورنہ وہ دن زیادہ دور نہیں، جب تمہارے چہرے کی دیمک پورے جسم پر پھیل جائے۔” کالے چراغ نے ڈرایا
“ہائے نہیں، میں اپنے بھائی پر وہ دن کبھی نہیں آنے دوں گی۔ “
“میں اپنی صحت، اپنی آزادی، اپنی زندگی کے لئے اپنی بہن کو کسی جہنم میں نہیں جھونک سکتا۔ “
محسن راؤ نے کہا۔ پھر وہ تانیہ سے مخاطب ہو کر بولا۔ ”تانیہ تم واپس چلی جاؤ، تم ایک سیدھی سادی لڑکی ہو، تم ان لوگوں کا مقابلہ نہ کر سکو گی میں جادو گر ہو کر بقاں کا کچھ نہ بگاڑ سکا تم تو کوئی چیز ہی نہیں ہو۔ تم
یہاں تک آگئیں۔ میں نے تمہیں دیکھ لیا میرے دل کو سکون ہو گیا، بقیہ زندگی میں اسی ملاقات کے تصور میں کاٹ دوں گا۔ میری بہن، میرا کہا مانو واپس چلی جاؤ ۔ تم بقّاں سے واقف نہیں ہو۔ وہ ایک انتہائی طاقتور اور عیار عورت ہے۔ اس کا مقابلہ آسان نہیں۔ پھر تم اس بات سے بقّاں کے زبر دست ہونے کا اندازہ لگاؤ کہ یہ کالا چراغ آج تک اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ۔ اس سے مقابلے کے لئے یہ تمہیں تو تمہاری دنیا سے لے آئے ہیں لیکن اپنی دنیا کی مخلوق کا خود کوئی بندوبست نہ کر سکے۔ ہے نا، یہ کتنی حیرت انگیز بات۔؟ جبکہ یہ بقّاں سے محبت کے بھی دعوے دار ہیں۔ “
‘دیکھو، میری محبت کا مذاق نہ اڑاؤ۔ ” کالے چراغ نے تنبیہی لہجے میں کہا۔ ” جو بات تم نہیں جانتے ، اس کے بارے میں اس یقین سے بات کرنا خود اپنے آپ کو فریب دینا ہے۔ میں بقّاں سے محبت کرتا ہوں، یہ اب بھی دعوے سے کہتا ہوں اور یہ بات اسی قدر سچی ہے جیسے سورج، رہ گئی یہ بات کہ میں نے بقّاں کا خود مقابلہ کیوں نہ کیا، اس کے مقابلے کے لئے تمہاری بہن کو کیوں لے کر آیا ہوں ۔ تو محسن سن لو مہینوں اس نے مجھے یہ پتہ ہی نہ چلنے دیا کہ وہ تمہیں جنگل سے اٹھالائی ہے اور تمہاری محبت میں گرفتار ہو گئی ہے۔ جب مجھے شبہ ہوا اور میں اس کے تعاقب میں یہاں تک پہنچا تو حقیقت میرے سامنے آئی۔ جب میں نے اس مسئلے پر بقّاں کی گرفت کی تو اس نے دیواہ کالی کا نام لیا اور راج مداری کا قصہ سنایا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ دیواہ کالی کے حکم کے مطابق راج مداری کی خواہش پر اسے سزا دے رہی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بقاں تمہارے ساتھ جس طرح پیش آرہی ہے، وہ کسی عذاب سے کم نہیں۔ لیکن اس سزا میں اس کے لئے تسکین ہی تسکین ہے۔ اس نے اپنی غرض کے لئے تمہیں زندہ رکھا ہوا ہے۔ جو سنگین جرم ہے، ہماری دنیا کا قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر میرے لئے تمہیں ختم کرنا کوئی مشکل کام نہیں اب بھی ختم کر سکتا ہوں اور کل بھی ختم کر سکتا تھا۔ تمہارے خاتمے کے بعد بقّاں کا کھیل ختم ہو جاتا۔ لیکن تمہارا قتل اس سے نہ چھپتا، وہ جان جاتی۔ نتیجے میں وہ میری دشمن ہو جاتی۔ اور یوں میری محبت خاک میں مل جاتی۔ اس لئے میں نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا۔ سوچتا رہا کہ کیا کرنا چاہئے ۔ وقت گزرتا رہا۔ ایک بات تمہیں اور بتا دوں ۔ ہماری دنیا کے وقت میں اور تمہاری دنیا کے وقت میں بہت فرق ہے۔ تمہارے حساب سے بقّاں کی قید میں سترہ اٹھارہ برس ہوئے ہیں لیکن میرے حساب سے صرف سات آٹھ ماہ ۔ خیر جب میں نے تمہاری دنیا میں جاکر تمہارے خاندان کی کھوج لگائی تو مجھے تانیہ نظر آئی۔ میں نے فوراً پوری منصوبہ بندی کرلی اور اسے یہاں لے آیا۔ کیونکہ تانیہ ہی واحد ذریعہ ہے تمہاری نجات کا۔ تمہاری نجات میں، میری نجات بھی ہے۔ یہ جو تمہارے چہرے میں دیمک لگ گئی ہے۔ یہ آہستہ آہستہ پھیلتی ہوئی تمہارے پاؤں کے انگوٹھے تک پہنچ جائے گی۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر دنیا کی کوئی طاقت تمہیں اس عذاب سے نجات نہیں دلا سکے گی۔ تمہارا روپ بدل جائے گا۔ تم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کے ہو جاؤ گے اور یوں میرے عشق کی موت ہو جائے گی۔ میں کسی کی موت نہیں چاہتا۔ نہ اپنی نہ تمہاری۔ میں چاہتا ہوں کہ تانیہ کو اس کا بھائی مل جائے اور مجھے میری بقّاں ۔ “
“میں معافی چاہتا ہوں، جناب کہ میری بات سے آپ کو دکھ پہنچا۔ ” محسن راؤ شرمندہ تھا۔
“کوئی بات نہیں، مجھے اب افسوس اس بات کا ہے کہ مجھے اپنی دنیا کے کچھ راز کھولنے پڑے۔ ” کالے چراغ نے کہا۔
“پھر اب کیا کرنا ہے۔ بتائیے۔ آپ جو کہیں گے وہ کروں گی، بس مجھے اپنا بھائی چاہئے، زندہ سلامت۔ ” تانیہ بے قراری سے بولی۔
“میری تو یہی کوشش ہے۔ ” کالے چراغ نے ٹھنڈا سانس لے کر کہا۔ اب ہمیں…” کالا چراغ کچھ کہتے کہتے اچانک خاموش ہو گیا۔
اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔
“کیا ہوا ؟ ” تانیہ اسے پریشان دیکھ کر خود بھی پریشان ہو گئی۔
اس اثناء میں پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سنائی دی۔ یوں لگا جیسے کوئی پرندہ جھونپڑی کی چھت پر آبیٹھا ہو۔
“لگتا ہے بقّاں آگئی۔ ” کالا چراغ بمشکل بولا۔
“اب کیا ہو گا؟ ” تانیہ ایک دم گھبرا گئی۔
“یہ تو بہت برا ہوا۔ “ محسن راؤ نے افسردہ لہجے میں کہا۔ “میں دیکھتا ہوں ، کیا معاملہ ہے ۔ ” کالا چراغ اٹھتا ہوا بولا۔
”اگر بقّاں آئی ہے تو وہ ابھی تک اندر کیوں نہیں آئی۔ ” وہ لرزتے قدموں سے دروازے کی طرف بڑھا۔ ۔
تانیہ اور محسن راؤ اسے پر تجسس نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ جیسے ہی دروازے کے سامنے پہنچ کر باہر نکلنے کے لئے جھکا تو ایک لمحے کے لئے جھکا کا جھکارہ گیا۔ پھر خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹا اور تیزی سے ان دونوں کے نزدیک آگیا۔

“مارے گئے۔ ” کالے چراغ نے ٹھنڈا سانس لے کر کہا۔
“کیا ہوا ؟ کون ہے باہر ۔ ” تانیہ نے پوچھا۔
ہم گھیر لئے گئے ہیں۔ باہر بقّاں کے کارندے موجود ہیں۔ ؟”
“اور بقّاں ۔ ؟ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
“وہ مجھے سامنے نہیں دکھائی دی۔ بہر حال وہ بھی آس پاس ہی ہوگی۔ میرا خیال ہے کہ وہ آیا ہی چاہتی ہے، یہ اچھا نہیں ہوا، اس نے میرے جال پھینکنے سے پہلے ہی اپنا جال پھینک دیا۔ ” کالے چراغ نے بہت تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔

ابھی محسن کچھ سوال کرنے ہی والا تھا کہ جھونپڑی کے باہر سے آواز آئی۔ یہ آواز سو فیصد بقّاں کی ٹھی

“جھونپڑی میں بیٹھ کر میرے خلاف سازش کرنے والو، سنو، میں آگئی ہوں۔ تم کیا سمجھتے ہو، تم دیڑھ دو آدمی مجھے زیر دام لے آؤ گے۔ یہ تم لوگوں کی بھول ہے، میں تمہاری یہ سازش کبھی کامیاب ہونے دوں گی۔ اور سن لو چمگادڑ کے بچے، اب تو باہر آجا، تجھے گرفتار کیا جاتا ہے۔ ” بقاں نے ایک لمحے توقف کیا،
پھر اس کی آواز آئی۔ ” چل جلدی کر ، فوراً باہر آجا۔ ” کالے چراغ نے یہ اعلان سن کر مایوسی سے تانیہ اور محسن راؤ کی طرف دیکھا۔ اور دھیرے سے بولا۔

“اچھا میں چلتا ہوں ۔ میرے پر کٹ گئے ہیں۔ اب نہ اپنے لئے کچھ کر سکتا ہوں اور نہ تمہارے لئے۔ میرے لئے دعا کرنا۔ زندگی رہی تو پھر ملیں گے۔ “
“جلدی کر او چمگادڑ کے بچے ۔ ” باہر سے پھنکارتی ہوئی آواز آئی۔
کالا چراغ ان دونوں سے رخصت ہو کر جیسے ہی جھونپڑی کے دروازے سے باہر آیا تو اس نے بقاں کو گھوڑے پر سوار اپنے سامنے پایا۔ وہ گھوڑے پر بیٹھی کسی شہزادی کی طرح لگ رہی تھی۔ کالے چراغ کو دیکھ کر اس نے قہقہہ لگایا اور پھر طنز بھرے انداز میں بولی ۔ ” آگیا تو میری جان کے دشمن؟….”
“میں تیری جان کا دشمن نہیں ہوں بقاں ۔ “ کالے چراغ نے عاجزی سے کہا۔
“پھر تو اندر بیٹھا کیا میری سلامتی کی دعا مانگ رہا تھا۔ ؟ ” بقاں نے طنزاً پوچھا۔
“ہاں، یہی سمجھ، میں چاہتا تھا کہ تو اس معصوم انسان کو چھوڑ دے اور میری ہو جائے ۔ ” کالا چراغ بولا۔
” تیری ہو جاؤں ۔؟؟؟ “ یہ کہہ کر وہ بہت زور سے ہنسی۔ “چمگادڑ کے بچے تو ہے کیا، کبھی تو نے اپنی اوقات پر غور کیا ہے۔؟؟؟ “
“میں جو کچھ بھی ہوں، بس تیرا ہوں، تجھ سے محبت کرتا ہوں ۔ “
“میں تیری محبت کو اپنے گھوڑے کے سم تلے رکھتی ہوں ۔ “
” بقاں تو میری چاہے جتنی تذلیل کرلے، پر میری محبت کی توہین نہ کر ۔ ” وہ تڑپ اٹھا۔
“نہیں تو کیا ہو گا ۔ ” وہ پھنکاری۔
” میں دیواہ کالی کے دربار میں جاؤں گا۔ ” کالے چراغ نے سر اٹھایا۔
“دربار میں ؟ ” جیسے وہ یہ بات سن کر پاگل ہو گئی۔ پاگلوں کی طرح ہنسنے لگی اور ہنستے ہوئے بولی
” تو جائے گا دیواہ کالی کے دربار میں۔ تو دیواہ کالی کے غسل خانے میں تو جاسکتا ہے۔ پر تیرا دربار میں جانا آسان نہیں۔ چمگادڑ کے بچے۔ اپنی اوقات نہ بھول، اپنی ذات نہ بھول ۔ “
“محبت کی کوئی ذات نہیں ہوتی، کوئی نسل نہیں ہوتی۔ محبت نا بینا ہوتی ہے۔ “ وہ اپنے آپ میں گم تھا۔
“فکر نہ کر، میں تجھے تیری محبت کی طرح اندھا کر دوں گی۔ ” پھر اس نے ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا
“گرفتار کر لو ا سے ۔ “

آنًا فانًا حکم کی تعمیل ہوئی۔ دو قوی ہیکل کرخت صورت بندے آگے بڑھے۔ انہوں نے دیکھتے دیکھتے اسے لوہے کی زنجیروں میں جکڑ دیا۔ اور پھر اس کو کھینچتے ہوئے بقاں کے سامنے لے جاکر کھڑا کر دیا۔

“میں جانتی ہوں کہ تو اندر بیٹھا کیا کر رہا تھا، تو محسن کی بہن کو لے کر دیواہ کالی کے دربار میں مقدمہ پیش کرنا چاہتا تھا۔ مجھے سزا دلوانا چاہتا تھا۔ اور محسن کو اس کی دنیا میں بھجوانا چاہتا تھا تا کہ تیرا راستہ صاف ہو جائے۔ اور میں تجھ سے محبت کرنے لگوں تیری طرف راغب ہو جاؤں ۔ او کالے چراغ کبھی تو نے اپنی شکل دیکھی ہے۔ نہیں دیکھی تو کسی گندے جوہڑ کے کنارے کھڑے ہو کر اپنی شکل دیکھ پھر مجھ پر عاشق ہونا ۔ جاؤ اسے لے جاؤ۔ “
پھر وہ دونوں قوی ہیکل بندے اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہوئے۔ دونوں کے ہاتھ میں زنجیر کا سرا تھا
دونوں نے ایک عجیب سی آواز نکال کر ایک ساتھ اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگائی ۔ گھوڑے دیکھتے ہی دیکھتے سرپٹ دوڑنے لگے۔
کالا چراغ زنجیروں میں بندھا ریت پر گھسٹتا چلا جا رہا تھا۔..”

“بقّاں اس منظر کو بڑے پر غرور انداز میں دیکھتی رہی۔ یہاں تک کہ کالا چراغ اڑتی ریت کے درمیان غاائب ہو گیا۔ تب بقّاں اپنا گھوڑا بڑھا کر جھونپڑی کے دروازے پر پہنچی۔ تانیہ جو جھونپڑی کے اندر بیٹھی، دروازے کے باہر ہونے والی کارروائی کو بغور دیکھ اور سن رہی تھی۔ بقاں کو دروازے کے نزدیک پہنچتے دیکھ کر وہ فوراً اٹھ کر محسن کے قریب چلی گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ بقاں کا کس طرح مقابلہ کرے۔ محسن راؤ نے اپنا سوکھا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ کر آہستہ سے دبایا۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ پریشان نہ ہو۔ بقّاں کو اندر آنے دے جو ہو گا، دیکھا جائے گا۔

بقاں اندر آئی تو اس نے بغور تانیہ کو دیکھا۔ تانیہ نے اس کے سراپے پر نظر ڈالی۔ پھر دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ چند لمحے دونوں ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں۔

“بہت خوبصورت ہو ۔ ؟ ” بقال نے بات کرنے میں پہل کی۔ پتہ نہیں یہ سوال تھا یا جواب۔
“کم کچھ تم بھی نہیں ہو۔ ” تانیہ نے تیکھے لہجے میں کہا۔
” تم میرے بارے میں ابھی کچھ نہیں جانتیں۔ ” وہ ہنسی۔
“میں اپنے بھائی کا حال دیکھ رہی ہوں ۔ اس سے زیادہ جاننے کی تمنا بھی نہیں۔ ” تانیہ نے دکھ سے کہا۔
“تمہارا بھائی مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ “ وہ ہنس کر بولی۔
” جو اچھا لگتا ہو، اس کا یہ حشر کر دینا، شاید تمہاری دنیا کی ریت ہے۔”
“بس کچھ عرصے کی بات ہے۔ اس کے بعد تمہارا بھائی ہر دکھ سے آزاد ہو جائے گا۔ اس کے چہرے پر گہن لگ چکا ہے۔ بس ۔۔۔۔۔۔۔۔”
“ہاں، چاند کو گہن لگ چکا ہے اور یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ ” تانیہ نے اس کی بات کاٹی۔
” تمہاری دنیا میں اسے برا سمجھا جاتا ہو گا۔ میرے لئے تو یہ بڑی خوشی کی بات ہے میں نے بہت محنت کی ہے ۔ اب مجھے اس کا پھل ملنے ہی والا ہے۔ ” وہ خوش ہو کر بولی ۔
“بھول جاؤ۔ ” تانیہ نے بڑی روکھائی سے کہا۔
“کس بات کو ؟ ” بقاں حیران ہوئی۔
“محنت کے اس پھل کو.. اب تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔ ” تانیہ نے بڑے یقین سے کہا۔
“وہ کیوں ؟” بقّاں نے پوچھا۔
“اب میں جو آگئی ہوں ۔ “
” تم آئی نہیں ہو، لائی گئی ہو۔ “
“جانتی ہوں، کالا چراغ مجھے لے کر آئے ہیں۔ ” تانیہ نے بتایا۔ ” وہ بہت اچھے ہیں۔ “
اس چمگادڑ کے بچے کا اتنی عزت سے نام نہ لو وہ تمہیں تمہاری دنیا سے نہیں لایا۔ ” بقّاں غصے میں آگئی۔
“اچھا، پھر کون لایا ہے ۔ ؟” تانیہ نے پوچھا،
” میرا بھائی لایا ہے۔ ” بقاں نے بتایا۔
“کون بھائی ۔ ؟ ” تانیہ کی سمجھ میں نہ آیا۔
” وہ بھائی جس نے تمہیں تحفے میں ڈائری دی تھی۔ “
“تمہارے بھائی کا نام راکل تو نہیں۔ “
”ہاں، میرے بھائی کا نام راکل ہے۔ اور یہ نام تمہیں اس چمگادڑ کے بچے نے بتایا ہو گا۔ “
“انہوں نے نام ہی نہیں، تمہارے بھائی کی خصوصیات بھی بتائی تھیں۔ ” تانیہ نے کہا۔
“وہ کیا۔ ؟ ” بقّاں نے پوچھا۔
“ایک طاقتور، شوقین مزاج، خبیث مخلوق ۔ ” تانیہ نے کالے چراغ کے کہے ہوئے کلمات دہرادیئے۔
“زیادہ بکواس نہ کر۔ ” بقاں اچانک بپھر گئی،
“یہ میں نے نہیں کہا، میں تو ان کی بہت احسان مند ہوں ۔ ان کی دی ہوئی ڈائری سے مجھے اپنی زندگی کے گمشدہ اوراق کا پتہ چلا۔ ” تانیہ نے ہوشیاری سے بات کا رخ تبدیل کیا۔
“کہاں ہے وہ ڈائری ۔ ؟ ” بقّاں کا لہجہ کچھ نرم ہوا۔
“یہاں ہے، میرے پاس، میرے بیگ میں۔ “ اس نے بتایا۔
” نکالو۔ ” بقّاں نے حکم دیا۔

محسن راؤ خاموش نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ بقّاں اب تک اس سے مخاطب نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔ تانیہ ڈائری نکالنے کے لئے اٹھی تو اس کی توجہ محسن کی طرف ہوئی۔ اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر، وہ بڑے دلربا انداز میں مسکرائی۔ اور بڑے پیار بھرے لہجے میں بولی۔

“کیسے ہو محسن۔ ؟”
” ٹھیک ہوں۔ ” محسن راؤ نے آہستہ سے کہا۔
“یہ لو۔ ” تانیہ نے ڈائری اپنے بیگ سے نکال کر اس کی طرف بڑھائی ۔ ” تم اسے واپس لینا چاہتی ہو تو لے لو۔ “

بقاں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ خاموشی سے ڈائری کے ورق پلٹتی رہی۔ ورق پلٹتے ہوئے اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلتی جارہی تھی۔ پھر اچانک اس نے ڈائری بند کی اور تانیہ سے مخاطب ہو کر بولی۔

” یہ ڈائری اب تمہیں واپس نہیں مل سکتی۔ “
“تحفہ دے کر واپس لینا، کیا یہ بھی تمہاری دنیا کا رواج ہے۔ ” تانیہ نے طنز ا کہا۔
” اب یہ ڈائری تمہارے لئے بیکار ہے۔ تم اس سے جو فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں، وہ اٹھا لیا۔ اب اس ڈائری کو تمہارے پاس نہیں رہنا چاہئے۔ تمہیں اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ “
“یہ ڈائری بھلا کیا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ “ اس مرتبہ تانیہ کے بجائے محسن راؤ بولا۔
“ارے، کچھ نہیں بھیا، یہ ڈائری واپس لینا چاہتی تھیں، سو لے لی۔ دراصل بات یہ ہے کہ یہ چاہتی ہیں کہ ڈائری کی وجہ سے ہمیں آئندہ کوئی فائدہ نہ پہنچے۔ “

بقاں نے تانیہ کو گھور کر دیکھا لیکن بولی، کچھ نہیں۔ پھر اس نے وہ ڈائری جھونپڑی کی چھت کی طرف اچھالی
ڈائری دیکھتے ہی دیکھتے طوطا بن گئی۔ اور وہ طوطا جھونپڑی کا ایک چکر لگا کر دروازے سے باہر نکل گیا

“چلو اٹھو۔ ” بقاں نے طوطے کے جانے کے بعد کہا۔
“کہاں چلوں ؟ ” تانیہ نے پوچھا،
“تمہیں میرے ساتھ چلنا ہو گا ۔ ” بقاں نے تحکمانہ لہجہ اختیار کیا۔
” تم میری بہن کو کہاں لے جانا چاہتی ہو؟ ” محسن راؤ پریشان ہو کر بولا۔
“یہ راکل کی امانت ہے۔ اسے راکل کے پاس پہنچانا ہو گا۔ ” بقاں نے بڑے پر اسرار انداز میں کہا۔

” آؤ اٹھو تانیہ یا ترکش جو بھی تمہارا نام ہے۔ “
“میرا نام تانیہ ہے لیکن مجھے ترکش بنتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ “
“تم ترکش ہو یا تیر… مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہاں کسی کو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ چلو۔ باہر سواری تمہاری منتظر ہے۔ “
یہ کہہ کر اس نے تانیہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔
تانیہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہی کسی معمول کی طرح اٹھ گئی۔ اسکے کے ہاتھ پکڑنے کے انداز میں کوئی ایسی بات تھی کہ وہ مزاحمت کی خواہش رکھتے ہوئے بھی مزاحمت نہ کر سکی
دروازے کی طرف بڑھنے سے پہلے بقاں کی نظر اس کے بیگ پر پڑی تو اس نے پوچھا۔ ” یہ بیگ ہے۔۔؟”
“ہاں۔ ” تانیہ نے مختصرا جواب دیا۔
“کیا ہے اس میں۔ ؟ ” بقاں نے پوچھا۔
“میری ضرورت کی چیزیں۔ ” تانیہ نے بتایا۔
“پھر بیگ اپنے ساتھ لے لو۔ ” بقّاں نے بیگ کی طرف اشارہ کیا۔
” بقّاں تم میری بہن کو نہیں لے جاسکتیں۔ “ اچانک محسن راؤ کو جوش آگیا۔
” کون روکے گا مجھے۔ ” اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ “کیا تم ؟ جس سے ہلا جلا بھی نہیں جاتا”
“تم نے مجھے تو برباد کر دیا ہے۔ پر میری بہن پر رحم کرو۔ اس کا کوئی قصور نہیں ۔ ” محسن راؤ نے التجا کی۔ “نہ میں نے تمہیں برباد کیا ہے اور نہ تمہاری بہن برباد ہوگی سمجھے ۔ ” بقاں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
پھر وہ تانیہ سے مخاطب ہو کر بولی۔
“آؤ، چلو۔ “
بقّاں اس کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے جھونپڑی سے نکل گئی۔ محسن راؤ کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن نہ بول سکا
وہ اپنے دونوں ہاتھ مسلتا ہوا رہ گیا۔ تانیه باہر نکلی تو اس نے جھونپڑی کے سامنے ایک سجی سجائی اونٹنی کو پایا۔ جو بیٹھی ہوئی تھی۔ بقّاں نے اسے اونٹنی پر سوار کرا دیا۔ پھر وہ نزدیک کھڑے گھوڑے پر بیٹھ گئی۔ بقاں کے پیچھے آٹھ مسلح گھڑ سوار موجود تھے۔ بقّاں کے اشارے پر دو گھڑ سوار آگے آئے۔ اور اونٹنی سے آگے کھڑے ہو گئے۔ دو گھڑ سوار اونٹنی کے پیچھے۔ اس سے پیچھے بقّاں اور آخر میں چار گھڑ سوار ۔
تب بقّاں نے ہاتھ اٹھا کر کوچ کا اشارہ کیا۔ دو گھڑ سواروں نے عجیب سی آواز نکالی۔ تبھی وہ اونٹنی اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ پھر سب سے آگے والے گھڑ سواروں نے اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگائی۔ اور اس طرح بقان کا یہ چھوٹا سا قافلہ جنوب کی جانب دھول اڑاتا روانہ ہو گیا۔
تین گھنٹے کی مسافت کے بعد جب سورج مغرب کی سمت جھکنے لگا تو سامنے کچھ آثار نظر آئے۔
یہ کسی قدیم عمارت کے کھنڈر تھے۔ سنہرے کھنڈر ۔ سورج کی پہلی روشنی میں ان کھنڈروں کا رنگ مزید چمک اٹھا تھا۔ پھر وہ لوگ کھنڈروں میں داخل ہو گئے۔ ان کھنڈروں کے درمیان ایک راستہ اندر جارہا تھا۔
راستہ تنگ تھا لیکن اتنا تنگ نہیں کہ دو گھڑ سوار ساتھ نہ گزر سکیں۔ یہ عجیب قسم کے کھنڈر تھے۔ اونچی اونچی دیواریں تھیں۔ ان دیواروں کے درمیان اندر داخل ہونے کے لئے بغیر کواڑوں کے دروازے تھے۔ یہ دیواریں نہ تو ٹوٹی پھوٹی تھیں اور نہ یہ احساس ہوتا تھا کہ یہ باقاعدہ عمارت ہے، یہ چھوٹا سا قافلہ ان کھنڈروں کے درمیان گھومتا گھامتا کافی اندر چلا گیا۔ تب اچانک ہی ایک بڑا سا دروازہ نظر آیا۔ یہ بہت بڑا دروازہ تھا۔ اور بند تھا۔ اگلے دو گھڑ سواروں نے دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر چیخ کر کہا۔
” دروازہ کھولو، بقّاں کی سواری آئی ہے۔ “
یہ آواز سنتے ہی چھ آدمی دروازے کی داہنی سمت بنی کوٹھری سے نکلے اور چھ آدمی بائیں کوٹھری سے بر آمد ہوئے۔ ان بارہ آدمیوں نے مل کر اس بھاری دروازے کو کھولا۔
دروازہ کھلتے ہی سارے گھڑ سوار، گھوڑوں سے اتر گئے۔ تانیہ کو اونٹنی سے اتارا گیا۔ بقّاں بھی گھوڑے سے اتر آئی تھی۔ جیسے ہی تانیہ اونٹنی سے نیچے اتری ۔ بقاں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ دونوں دروازے کے اندر داخل ہو گئیں۔ ان کے اندر جانے کے بعد، بارہ آدمیوں نے مل کر اس دروازے کو بند کر دیا اور اپنی کوٹھریوں میں چلے گئے۔
دروازہ بند ہوتے ہی بقّاں نے سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں۔ سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے تانیہ کو اوپر ایک دروازہ نظر آیا۔ اس دروازے پر ایک مسلح دربان موجود تھا۔ وہ بقاں کو دیکھ کر تعظیمی انداز میں آگے کو جھکا پھر سیدھا ہوکر بولا
“کیا حکم ہے بقّاں ؟؟؟…..”
“راکل سے ملنا چاہتی ہوں، اس کی امانت اسے سوچنے آئی ہوں ۔ “
“اچھا ٹھہرو “
دربان نے آگے بڑھ کر بند دروازے پر لگی زنجیر کو ایک خاص انداز میں بجایا۔ چند لمحوں بعد دروازے میں ایک چھوٹی کھڑکی کھلی اور اس میں سے ایک شخص نے منہ چمکایا۔
”ہاں، کیا کہتے ہو…؟”
“راکل سے کہو بقاں آئی ہے۔ وہ اس سے ملنا چاہتی ہے ساتھ ہی اس کی امانت لائی ہے۔ ” دربان نے بتایا۔
“اچھا ٹھہرو۔”
یہ کہہ کر اس شخص نے فوراً کھڑکی بند کر دی۔ کچھ دیر کے بعد دروازہ کھلا۔ تانیہ کو دروازے میں سے ایک بہت بڑا الو نظر آیا۔ جو چبوترے پر ایک ٹانگ پر کھڑا تھا اور اس نے اپنی ایک آنکھ بند کر رکھی تھی۔ برابر میں ایک بہت بڑا ستون تھا۔ بقاں، تانیہ کا ہاتھ تھامے اندر داخل ہوئی ۔ اور پھر چبوترے کے نزدیک پہنچ کر رک گئی۔
پھر اس نے سر اٹھایا۔ اس ایک ٹانگ کے اُلو کو جھک کر تعظیم دی۔ اس نے تانیہ کو بھی جھکنے کا اشارہ کیا لیکن وہ سیدھی کھڑی رہی۔ تب اس جسیم الو نے اپنی دوسری آنکھ کھول دی۔ اور اپنی دونوں آنکھوں سے پہلے تانیہ، پھر بقاں کو دیکھا۔
” راکل میرے بھائی، تیری امانت لے آئی ہوں، اسے قبول کر ۔ ” بقاں نے بڑے ادب سے کہا۔
اس الو نے ایک ٹانگ پر کھڑے کھڑے اپنے دونوں پر کھول کر پھڑ پھڑائے۔ وہ پر اتنے بڑے تھے کہ ان کے ہلنے سے بقاں اور تانیہ کے چہرے پر اچھی خاصی ہوا محسوس ہوئی۔ پر پھڑ پھڑانے کا مطلب یہ تھا کہ اس نے تانیہ کو قبول کر لیا۔

“میں تیری شکر گزار ہوں، میرے بھائی ۔ “
بقاں پھر تعظیمی انداز میں جھکی۔

تبھی بڑے ستون کے پیچھے سے ایک کے بعد ایک عورت نکلتی گئی۔ وہ سات عورتیں تھیں۔ سفید رنگتت، گول چہرے ایک جیسے چھوٹے قد، ایک جیسا سرخ رنگ کا لباس۔ شاید ان کے چہرے بھی ایک جیسے تھے۔
اگر کوئی فرق ہو گا تو وہ ایک نظر دیکھنے میں محسوس نہیں ہوتا تھا۔
وہ عورتیں ایک قطار میں چلتی ہوئی، اس اُلو کے پیچھے سے گھومتی، سیڑھیاں اتر کر تانیہ کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑی ہو گئیں۔ بقاں نے ان عورتوں کے آتے ہی تانیہ کا ہاتھ چھوڑ دیا اور کچھ فاصلے سے کھڑی ہوگئی۔
پھر ان سات عورتوں میں سے دو نے تانیہ کے ہاتھ پکڑ لئے۔ تیسری عورت نے پشت سے اسے آگے دھکیلا۔ وہ دونوں عورتیں ہاتھ پکڑے پکڑے آگے چلنے لگیں۔ باقی پانچ عورتیں ان کے پیچھے چل دیں۔ پھر وہ سیڑھیاں چڑھ کر اس اُلو کے پیچھے آئیں۔ اور وہاں سے بہت بڑے ستون کی اوٹ میں چلی گئیں۔ تانیہ نے دیکھا کہ اس بڑے ستون میں پیچھے کی جانب ایک دروازہ تھا جو نیچے سے نظر نہیں آتا تو اس دروازے میں سے سیڑھیاں نظر آرہی تھیں جو نیچے کی جانب چلی گئی تھیں۔
وہ دونوں عورتیں تانیہ کا ہاتھ پکڑے نیچے اترنے لگیں۔

تانیہ کے جانے کے بعد بقاں راکل سے مخاطب ہو کر بولی۔ ”راکل میرے بھائی، مجھے تجھ سے کچھ بات کرنی ہے۔ “

بقاں کی بات سن کر اس الو نے اسے گھور کر دیکھا، پھر اپنی ایک آنکھ بند کرلی۔ اور ساکت ہو گیا۔ بقّاں نے محسوس کر لیا کہ وہ اب یہاں نہیں ہیں۔ لہٰذا وہ سیڑھیاں چڑھ کر ستون کے پیچھے پہنچی۔ اور دروازے میں داخل ہو کر تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگی۔
یہ ایک بہت بڑا تہہ خانہ تھا۔ یہاں جگہ جگہ روشنی ہورہی تھی۔ تہہ خانے میں دور تک کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ عورتیں تانیہ کو اپنے ٹھکانے پر لے جاچکی تھیں۔
بقاں سیڑھیاں اتر کر آگے بڑھی تو اسے گول چہرے والی ایک خادمہ دکھائی دی۔ وہ اچانک ہی کہیں سے نمودار ہوئی تھی۔ وہ خادمہ بقّاں کو دیکھ کر ادب سے سر جھکا کر کھڑی ہو گئی۔
” راکل کہاں ہے ؟ ” بقاں نے اس کے نزدیک پہنچ کر پوچھا۔

اس خادمہ نے زبان سے کچھ جواب دینے کے بجائے ایک طرف اشارہ کیا۔ بقّاں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔ پھر وہ مختلف دروازوں کے سامنے سے گزرتی ہوئی ایک بڑے دروازے پر رک گئی۔ جب بقّاں اس دروازے کے سامنے پہنچ گئی تو وہ خادمہ الٹے قدموں واپس ہو گئی۔
بقّاں نے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ فوراً کھل گیا۔ وہ بے دھڑک دروازے میں داخل ہو گئی۔ پھر اس نے پلٹ کر دروازہ بند کیا اور آگے بڑھی۔
دروازے سے چند قدم کے فاصلے پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ وہ پردہ ہٹا کر اندر داخل ہوئی تو اس نے دیکھا کہ کمرے کے عین وسط میں ایک اونچی مسند پر راکل زرق برق لباسی
میں بیٹھا ہے۔ کمرے میں سرخ رنگ کا دبیز قالین بچھا ہوا ہے اور کمرے میں بے حد روشنی ہے۔ راکل مسند پر کسی راجہ کی طرح بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے گلے میں موتیوں کا قیمتی ہار پڑا ہوا تھا۔ گھنگھریالے بال ، سرخی مائل سانولی رنگت، صحت مند جسم اور ایک ہاتھ میں سانپ کی طرح بل کھایا ہوا عصا۔ وہ بقاں کو دیکھ کر مسکرایا بقاں اسے دیکھ کر مسکرائی۔
اور اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔

“میرے بھائی وہ کہاں ہے۔ ؟” بقاں نے پوچھا۔
“کون تانیہ ۔ ؟ ” راکل نے وضاحت چاہی۔
“وہ نہیں، وہ چمگادڑ کا بچہ ۔ ” بقّاں بپھر گئی۔

راکل نے یہ سن کر ایک زور دار قہقہہ لگایا اور بولا۔
” تو نے اس کا نام خوب رکھا ہے۔“
“وہ ہے کہاں؟” بقال نے پوچھا۔
“ہماری قید میں۔ ” راکل نے بتایا۔
”ویسے بقاں تو نے اس کے ساتھ بڑا ظلم کیا ہے ۔ “
“میرے بھائی کیا تم چاہتے ہو کہ میں اس چمگادڑ کے بچے سے شادی کرلوں ۔؟؟ “
” یہ میں نے کب کہا۔ ” راکل نے اسے ترچھی نظروں سے دیکھا۔
”دیواہ کالی کی قسم، وہ ہے تیرا سچا عاشق “
” کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھولا۔ ” بقّاں نے ہنس کر کہا۔
“سچ بات یہ ہے بقّاں کہ مجھے اس پر رحم آتا ہے ۔ “
راکل آج بقّاں کو ستانے پر تلا ہوا تھا۔
“یہ راکل کو کب سے رحم آنے لگا۔ ” بقال نے طنزاً کہا۔
” تو مجھ سے کیا بات کرنے آئی تھی۔ ” راکل نے بات کا رخ پھیر دیا۔
“میں تجھ سے محسن راؤ کے بارے میں بات کرنا چاہتی تھی۔ “
“کیا ہوا محسن کو ؟ “
“میرے بھائی تو جانتا ہے کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ میں اسے زندگی بھر کے لئے اپنا بنانا چاہتی ہوں ۔”
“اس کے لئے تو عمل تو کر رہی ہے۔ ” راکل نے سنجیدگی سے کہا۔ ” اس کا کیا بنا؟ “
“وہ ایک دیر طلب عمل ہے۔ ابھی اس کی ابتداء ہوئی ہے۔ جانے اس میں کتنا وقت لگے۔ “

“وقت کی کیا پرواہ ہے۔ ۔ “
“وقت کی مجھے بالکل پروا نہیں، پرواہ مجھے اسں چمگادڑ کے بچے کی ہے۔ وہ مسلسل میرے خلاف سازشوں میں لگا ہے۔ مجھے اس کی شکل سے بھی نفرت ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اسے دیوار اشک میں چنوا دیا جائے۔ وہ جب تک زندہ رہے گا، مجھے بے سکون کرتا رہے گا۔ “
“یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ سردار کولانا اپنے ایک اہم بندے کی موت پر ایک طوفان کھڑا کر دے گا۔ “
“مجھے نہیں معلوم، میرے بھائی۔ تجھے اس کام کو آسان بنانا ہو گا۔ ” بقّاں نے بصد اصرار کہا
“اچھا ٹھیک ہے تو پریشان نہ ہو، میں کرتا ہوں کچھ ۔ ” راکل نے اسے بہلانا چاہا
” میں اسے دیوار اشک میں چنا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں ۔ ” بقّاں اپنی ضد پر اڑ گئی۔
“اس کام کو بہت ہوشیاری سے کرنا ہو گا کے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ ” راکل نے کہا۔
“میں جانتی ہوں کہ تو چاہے گا تو ہزار راستے نکال لے گا۔” بقاں نے پر امید ہو کر کہا۔ ”اچھا میں اب چلتی ہوں” “تجھے تانیہ کا ساتھ مبارک ہو۔ “
“وہ کہاں ہے؟” راکل نے پوچھا۔
“خادمائیں اسے تیار کر رہی ہوں گی۔ تھوڑا صبر کر وہ آنے ہی والی ہوگی ۔ ” بقال نے ہنس کر کہا۔
“ویسے تو اسے وہاں سے لے کر آیا خوب۔ وہ تیری عیاری کو عمر بھر نہیں سمجھ سکتی۔ “
یہ سن کر راکل نے زور دار قہقہہ لگایا۔ پھر وہ عصا کا سہارا لے کر اٹھ کھڑا ہوا، اس نے اس عصا کو بیساکھی کی طرح بغل میں دبایا اور ابھی مسند سے اتر کر دو چار قدم چلا ہی تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
پھر بقاں بھی اٹھی۔ وہ پردہ ہٹا کر دروازے سے باہر نکل گئی۔ بقاں کے باہر جاتے ہی راکل پھر اچانک نمودار ہوا۔ اور عصا کو بیساکھی کی طرح لگائے۔ پھر مسند پر آبیٹھا، اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی، آنکھوں میں خواہشوں کے دیئے ٹمٹما رہے تھے۔ تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔ راکل نے زور سے کہا۔
”اندر آجاؤ ۔ “
پردہ ہٹا کر وہ دونوں اس کے سامنے آکھڑی ہوئیں۔ ان دونوں خادماؤں کے سر جھکے ہوئے تھے۔
“کیا ہوا ؟ ” راکل نے پوچھا۔
” وہ نہ غسل کرتی ہے، نہ کپڑے تبدیل کرتی ہے اور نہ یہاں آنے کے لئے تیار ہے۔ “
“کیا تو نے اسے بتایا کہ اس سے کون ملنا چاہتا ہے۔ “
“نہیں اسے ہم نے تیرا نام تو نہیں بتایا، ویسے وہ کالا چراغ کے بارے میں بار بار پوچھتی ہے۔ “
” اس سے جا کر کہو کہ تمہیں راکل نے بلایا ہے۔ راکل سے مل لو، راکل ہی کالا چراغ سے ملوا سکتا ہے ۔ “
“ٹھیک ہے۔ ہم جاکر اسے بتا دیتے ہیں۔ “

دونوں خادمائیں الٹے قدموں واپس ہوئیں اور پردوں میں غروب ہو گئیں۔ پھر وہ دونوں دروازے سے نکل کر تیز تیز چلتی، اس مقام پر پہنچیں جہاں تانیہ کو رکھا گیا تھا۔ تانیہ مسہری کے کونے پر سر جھکائے بیٹھی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ حالات نے اس قدر تیزی اور متضاد سمت میں پلٹا کھایا تھا کہ وہ بے بس ہو کر رہ گئی تھی۔
وہ سمجھ رہی تھی کہ کالا چراغ کی مدد سے اپنے بھائی کو لے کر اپنی دنیا میں چلی جائے گی۔ پھر وہاں پہنچ کر اپنے بھائی کا علاج کرائے گی۔ اسے علاج کے لئے اگر لندن یا امریکہ جانا پڑا تو جائے گی۔ وہ اپنے بھائی کی صحت کی بحالی ہر قیمت پر چاہتی تھی۔ کیونکہ ابھی تو اس کی زندگی کا ایک اہم کام باقی تھا۔ ابھی اسے اپنے بھائی کی بربادی اور باپ کے قتل کا انتقام لینا تھا۔ وہ راؤ احمد علی کو کسی قیمت پر نہیں بخشے گی ۔ اسے عبرتناک انجام سے دوچار کر کے رہے گی۔
لیکن یہاں تو پانسہ ہی پلٹ گیا تھا۔ وہ منزل کے قریب آکر اچانک منزل سے دور ہوگئی تھی۔ کالا چراغ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ وہ ایک ہمدرد انسان تھا، یہ ٹھیک ہے کہ وہ اس کی مدد بقاں کو پانے کے لئے کر رہاتھا۔ لیکن اس کی اس محبت سے اس کے بھائی کو بھی تو نجات مل رہی تھی۔ جانے اس کے ذہن میں کیا منصوبہ تھا۔ کاش ! بقّاں کچھ دیر اور نہ آئی ہوتی تو کالا چراغ اسے اپنے منصوبے سے آگاہ کر چکا ہوتا۔ اور وہ اس پر عمل کر کے اپنے بھائی کی رہائی کے لئے تگ و دو میں مصروف ہوتی ۔ اب وہ ایک گہرے کنویں میں تھی جس کے پانی میں وہ تیر تو سکتی تھی لیکن اس سے نکل نہیں سکتی تھی۔ دروازے پر آہٹ ہوئی۔ تانیہ نے سر اٹھایا تو اپنے سامنے دو خادماؤں کو پایا۔ وہ اپنی شکل و صورت سے جڑواں بہنیں لگتی تھیں۔ وہ دونوں اس کے نزدیک آکر بڑے ادب سے کھڑی ہو گئیں۔ پھر اس کے سامنے ذرا سا جھکیں اور سیدھی ہو گئیں۔ ان میں سے ایک نے گفتگو کا آغاز کیا۔

“تجھے بلایا ہے۔ ” یہ عجب انداز گفتگو تھا۔
“کس نے بلایا ہے۔ ” تانیہ کی سمجھ میں نہ آیا۔
“راکل نے۔ ” اس نے سمجھایا۔
“تو چلو۔ ” تانیہ یہ سنتے ہی اپنا بیگ کندھے پر ڈال چلنے کے لئے تیار ہو گئی۔
“ایسے نہیں۔ “ وہ بولی۔
” پھر کیسے ۔؟؟ ” تانیہ نے پوچھا۔
“پہلے غسل کر لو، تم تھک گئی ہوگی۔ غسل کر کے کپڑے تبدیل کر لو۔ پھر چلو۔ “
“نہیں میں تھکی نہیں ہوں، میں فوراً راکل سے ملنا چاہتی ہوں۔ میرا بھائی صحرا میں جانے کیسا ہوگا”
”ہمیں نہیں معلوم کہ تو کیا کہہ رہی ہے۔ ” خادمہ کی سمجھ میں نہ آیا۔
” تمہیں سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ تم لوگ بس مجھے راکل کے پاس لے چلو۔ ” اس نے کہا
“اس طرح راکل ناراض ہو گا تو اس کا حکم مان لے گی تو وہ تجھے کالا چراغ سے ملادے گا۔ یہ اس نے کہا ہے ۔ ” خادمہ نے معنی خیز انداز اختیار کیا۔

خادمہ کے اس جملے سے تانیہ کو راکل کی نیت کا اندازہ کرتے دیر نہ لگی۔ ایک دم اس کا دماغ گھوم گیا۔ اس نے غصے سے ان دونوں خادماؤس کو دیکھا اور بولی ۔

” راکل سے جاکر کہو کہ اس نے آنے سے انکار کر دیا ہے۔ “
“نہیں ایسانہ کر ۔ ” خادمہ سہم کر بولی۔ ” تو اس کے غصے سے واقف نہیں۔ “
“جو میں نے کہا ہے، وہ اسے جا کر بتادو، رہ گیا اس کا غصہ تو وہ میں دیکھ لوں گی۔ اس نے مجھے سمجھا کیا
ہے۔۔۔؟”
“ایک مرتبہ اور سوچ لے ۔ “ دونوں خادمائیں جاتے جاتے رک گئیں۔
“سوچ لیا۔ عزت ہے تو سب کچھ ہے، عزت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ” اس نے بڑے یقین سے کہا۔

خادمائیں ڈرتی سہمتی کمرے سے نکل گئیں۔ تانیہ غصے سے کمرے میں چہل قدمی کرنے لگی۔ آخر اس نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے۔ یہ کس قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ اس کی بہن ہے جس نے میرے بھائی پر قبضہ جما رکھا ہے، ایک یہ ہے جو مجھ پر قبضہ جمانے کی سوچ رہا ہے۔ آخر کالا چراغ بھی تو تھا۔ اس نے اسے کبھی خواہش بھری نظروں سے نہیں دیکھا حالانکہ وہ اس کے ساتھ تنہا رہی۔ وہ ایک سچا اور کھرا آدمی تھا۔ جانے اس راکل نے اس کا کیا حشر کیا ہو گا۔ محبت نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا تھا۔ وہ ایک ایسی عورت کے پیچھے خوار ہو رہا تھا جو اس سے سیدھے منہ بات کرنے کو تیار نہ تھی۔
وہ اسے چمگارڈ کا بچہ کہ کر پکارتی تھی۔ وہ ایسا کیوں کہتی تھی۔ محض بے عزت کرنے کے لئے؟؟ یا اسکے پیچھے کوئی راز ہے.. راز؟
تب اسے یاد آیا کہ جب کالا چراغ اسے محل میں لے کر گیا تھا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ اس کے دریافت کرنے پر کہ یہاں کوئی نہیں ہے تو اس نے جو منظر دکھایا تھا۔ وہ بڑی بڑی چمگادڑوں کا تھا۔ پھر رات کو جب وہ سوئی تھی تو آنکھ بند کرتے ہی وہ خود کو ایک پتھر پر سوتا پاتی تھی اور آس پاس چمگادڑیں دکھائی دی تھیں۔
کیا کالا چراغ کوئی ایسی مخلوق تو نہیں ؟
وہ سوچتے سوچتے رک گئی۔ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے۔
کہیں وہ چمگادڑ تو نہیں۔ ؟؟
ہائے نہیں۔ یہ سوچ کر ہی اسے پسینہ آگیا۔ ابھی وہ ان الجھاووں میں الجھی ہوئی تھی کہ اچانک دروازہ کھلا اور راکل مسکراتا ہوا اپنے عصا کو بیساکھی بنائے، پر اطمینان انداز میں داخل ہوا۔ تانیہ ٹہل رہی تھی، وہ فوراً گھبرا کر مسہری پر بیٹھ گئی۔ راکل اس کے نزدیک آکر رک گیا۔

“مجھے پہچانا۔؟؟؟ ” اس کے چہرے پر ایک خبیث مسکراہٹ تھی۔
“جی، ہاں پہچان لیا۔ آپ کا تو مجھ پر بہت احسان ہے۔ “ تانیہ نے اسے میٹھی باتوں سے رجھانا چاہا۔
” آپ کا نہیں۔ “ راکل نے اپنے ایک ہاتھ کی انگی اٹھا کر انکار میں ہلائی۔ ” تیرا کہو۔ یہاں ایسے ہی کہا جاتا ہے۔ “
“یہ بد تمیزی ہے۔ “
“ہمارے ہاں، اسے بد تمیزی نہیں سمجھا جاتا۔ “
“اچھا خیر , تو میں یہ کہہ رہی تھی کہ۔۔۔”
” میں نے تجھے بلایا تھا تو آئی کیوں نہیں؟؟۔ تو نہیں جانتی کہ راکل سے انکار کرنے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔۔۔؟”
“نہیں، میں نہیں جانتی تو بتا۔ ” تانیہ نے پوچھا۔
“ٹھیک ہے، میں تجھے بتائے دیتا ہوں ۔ سچی بات۔ میں تجھ سے پیار کرتا ہوں ۔ “
” اور میں تیری صورت پر تھوکنے کے لئے بھی تیار نہیں ۔ ” تانیہ غصے سے بپھر گئی۔ بالاخر تو بھی بقّاں کا بھائی نکلا۔ “
راکل کے لئے یہ ایک قطعا غیر متوقع جواب تھا۔ اس جواب پر وہ ایک لمحے کے لئے سٹپٹا گیا، اپنے اندر سمٹ گیا، سہم گیا۔ لیکن پھر اس نے فوراً ہی سنبھالا لے لیا۔ اسے ایک ناتواں انسان اور وہ بھی ایک عورت سے کیا ڈرنے کی ضرورت تھی بھلا؟ تب اس نے ایک عمل کیا کہ وہ چکرا کر رہ گئی۔
اس نے اپنا بل کھایا ہوا ”عصا” اپنی بغل سے نکالا اور اسے درمیان سے پکڑ کر اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا اور ایک ٹانگ سے رقص شروع کر دیا۔
تانیہ مسہری پر بیٹھی تھی۔ مسہری کمرے کے عین وسط میں تھی۔ راکل نے اس کی مسہری کے گرد قص کرتے ہوئے چکر لگانے شروع کر دیئے ۔ وہ بالکل ملنگوں کی طرح رقص کر رہا تھا۔ اگرچہ اسکے پیر یا ہاتھ میں گھنگھرو نہ تھے لیکن چھم چھم کی آواز آرہی تھی۔ راکل کے اس بے تکے عمل پر تانیہ چکرا کر رہ گئی۔ وہ بڑی پریشانی سے اسے رقص کرتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔۔
اس کا خیال تھا کہ اس کے انکار اور سخت جواب پر وہ اسے کوئی سخت سزا دے گا۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہو گیا تھا، وہ غصہ ہونے کے بجائے رقص کر رہا تھا۔ اور وہ بھی ایک ٹانگ پر۔ اس کے رقص میں بڑی مہارت تھی۔ وہ بہت تیزی سے رقص کر رہا تھا۔ اور یہ تیزی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی تھی۔
اس کے ہونٹ سختی سے بھینچے ہوئے اور آنکھیں تانیہ پر مرکوز تھیں۔ اس قدر تیزی سے گھومنے کی وجہ سے خود تانیہ کو چکر آنے لگے تھے لیکن اس پر ایک جنون طاری تھا۔ اس کی گردش تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھی۔
اس قدر تیز کہ اب اس پر نظر جمانا بھی مشکل ہو رہا تھا۔
پھرد وہ لمحہ آیا کہ وہ نظر آنا بند ہو گیا۔ اور دوسرے لمحے جو چیز چکراتی ہوئی نظر آئی، وہ راکل نہ تھا۔۔
چھم چھم کی آواز بند ہو چکی تھی، رقص ختم ہو چکا تھا۔ اور ایک الو اس بڑے کمرے میں تانیہ کے گرد گھوم
رہا تھا۔ اس اڑتے الو کو دیکھ کر تانیہ تذبذب میں مبتلا ہو گئی۔ پریشان ہو گئی۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کیا کرے کہ اس الو نے اپنے پنجے نکال کر اس پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ سیدھا اس کی آنکھوں پر تھا، اگر وہ ایک طرف جھک کر فوراً ہی لیٹ نہ گئی ہوتی تو وہ اس کی آنکھ زخمی کر گیا ہوتا۔ پھر بھی اس کے سر کے کچھ بال، اس کے پنجے میں الجھ کر ٹوٹ گئے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ اس پر دوسرا حملہ کرتا، اس نے فوراً فیصلہ کرلیا کہ کیا کرنا ہے۔۔
اسنے تیزی سے کروٹ لی۔ اٹھتے ہوئے اپنا بیگ پکڑ لیا جو مسہری پر موجود تھا۔ وہ کھڑی ہوئی۔ ادھر الو نے اس پر پلٹ کر حملہ کیا، ادھر اس نے بیگ گھما کر زور سے اس پر مارا، الو بیگ کی زد پر آگیا۔ وہ بیگ اتنی قوت سے اسے لگا کہ وہ الٹ کر دیوار سے جا ٹکرایا۔ اور زمین پر پٹ سے گرا۔
دروازہ کھلا ہوا تھا، اس نے بیگ فوراً اپنے کندھے پر ڈالا اور دروازے کی طرف دوڑ لگا دی اور تیزی سے باہر نکل گئی پھر پلٹ کر اس نے دروازہ بند کیا۔ باہر سے اس کی چٹخنی چڑھائی۔ اور تیزی سے ادھر اُدھر دیکھا۔
آس پاس کوئی نہ تھا۔ پورا ہال خالی پڑا تھا۔ دور سامنے تہہ خانے کی سیڑھیاں نظر آرہی تھیں۔ اس نے ایک لمحہ ضائع کئے بنا پوری قوت سے سیڑھیوں کی طرف دوڑ لگادی۔
سیڑھیاں چڑھ کر جب وہ بڑے ستون کے دروازے سے باہر آئی تو اس کا خیال تھا کہ یہاں ضرور خادمائیں نظر آئیں گی۔ لیکن یہاں بھی سناٹا طاری تھا۔ جب وہ ستون گھوم کر چبوترے کی طرف آئی تو وہاں وہ بڑا سا الو ایک ٹانگ پر کھڑا نظر آیا۔ اس کا رخ سامنے دروازے کی طرف تھا۔ اور وہ بالکل اسی طرح کھڑا تھا جس طرح تانیہ نے اسے چھوڑا تھا۔ تانیہ اس وقت اس کے پیچھے تھی، وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی چبوترے کی سیڑھیاں اترنے لگی۔ دروازے سے باہر نکلنے کے لئے اس کے سامنے سے گزرنا ضروری تھا۔
اس نے سیڑھی کی اوٹ میں بیٹھ کر تیزی سے بیگ کھولا اور اس میں سے چاقو نکال لیا۔ یہ ایک بڑا۔ پھل کا چاقو تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اگر اس اُلو نے اس پر حملہ کیا تو وہ چاقو سے اپنا دفاع کرنے کی کوشش کرے گی۔

چاقو ہاتھ میں تھام کر وہ بہت محتاط انداز میں نیچے اتری اور پھر چبوترے کی دیوار کے ساتھ چلتی ہوئی اس جگہ پہنچی جہاں الو کھڑا ہوا تھا۔ پھر وہ تیزی سے آگے بڑھ کر فوراً پلٹی۔ چاقو والا ہاتھ اس نے اٹھایا ہوا تھا۔ اگر اس الو نے اسے دیکھتے ہی پیچھے سے حملہ کیا تو وہ اس حملے کے لئے تیار تھی۔
لیکن الو تو آرام سے اپنی جگہ کھڑا رہا۔ وہ تو ٹس سے مس نہ ہوا۔ وہ ایک ٹانگ پر کھڑا تھا اور اسکی ایک آنکھ بند تھی۔ تب تانیہ کو اچانک احساس ہوا کہ جیسے اس اُلو میں جان ہی نہ ہو۔ الو کی ایک آنکھ کھلی ہوئی تھی۔ اور تانیہ ہاتھ میں چاقو پکڑے تیار کھڑی تھی، لیکن اس آنکھ میں گردش نہ تھی۔ ویسے بھی وہ غیر معمولی جسامت کا الو تھا۔ حقیقی کے بجائے مصنوعی دکھائی دیتا تھا۔
اس وقت وہ قطعاً بے جان دکھائی دے رہا تھا۔ حالانکہ جب وہ بقّاں کے ساتھ اس کے سامنے پیش ہوئی نہ صرف اس کی آنکھوں میں گردش تھی بلکہ اس نے اپنے جہازی پر بھی پھڑ پھڑائے تھے۔ ان پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے تانیہ نے اپنے چہرے پر ہوا بھی محسوس کی تھی۔ خیر، اس وقت یہ اچھی بات تھی کہ وہ بے جان مجسمے کی طرح ایستادہ تھا۔
وہ فوراً ور ہی دروازے کی طرف لپکی۔
بند دروازے کو جب اس نے کھولا اور باہر ایک قدم رکھا تو اس کے سر پر کوئی چیز گری اور پھسل کر گردن میں آگئی۔ پھر ایک زور دار جھٹکا لگا اور اس کا دم گھٹنے لگا۔اس نے چاہا کہ سنبھل کراپنی گردن میں لگنے والے ریشمیں پھندے کو کسی طرح تنگ ہونے سے روک سکے۔ لیکن اس کا موقع نہ مل سکا جو کچھ ہوا آنًا فانًا ہوا۔ اس کی گردن کے گرد حلقہ تنگ ہوتا گیا۔ وہ الٹ کر پیچھے کی طرف گری اور بے ہوش ہوگئی۔ اس کے گلے میں پھندا ڈالنے والی دو دیوقامت عورتیں تھیں۔ کالی بھجنگ۔ اگر یہ عورتیں تانیہ کے گلے میں پھندا ڈالنے کے بجائے اپنی شکل ہی اسے دکھا دیتیں تو وہ فورا ہی بےہوش ہو کر گر پڑتی۔
ان دونوں عورتوں نے پیچھے سے ریشمیں پھندا اس پر پھینکا تھا۔ وہ الو کے مجسمے کے برابر چبوترے پر کھڑی تھیں اور بڑی تیزی سے ستون کے دروازے سے برآمد ہو کر چبوترے پر پہنچی تھیں اور انہوں نے تانیہ کے دروازے سے باہر نکلنے سے پہلے ہی بڑی مہارت سے اس کے گلے میں پھندا ڈال کر اسے پیچھے گھسیٹ لیا تھا۔
ان دونوں کالی بھجنگ عورتوں نے بے ہوش تانیہ کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور بڑی پھرتی سے چبوترے کی سیڑھیاں چڑھ کر ستون کے پیچھے پہنچیں اور پھر اس کے دروازے میں داخل ہو کر کھٹا کھٹ نیچے اترتی چلی گئیں۔
پھر انہوں نے راکل کے کمرے میں پہنچ کر اس کے قدموں میں تانیہ کو ڈال دیا۔ (یہاں قدموں کے بجائے قدم کہنا چاہئے کیونکہ راکل تو ایک ٹانگ کا تھا ) راکل بھاری چادر اوڑھے مسند پر بیٹھا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں عصا تھا۔ اور چہرے پر کرب کے آثار تھے۔ اس کے ایک بازو پر شدید چوٹ آئی تھی۔ وہ اپنا دایاں بازو ہلانے سے بھی معذور تھا۔ اس نے اپنے بل کھائے عصا سے تانیہ کے جسم کو چھیڑا۔
اتنی دیر میں وہ وحشی عورتیں اس کی گردن سے پھندا نکال چکی تھیں۔ اور واپس جا چکی تھیں۔ اس کا عصا جسم سے مس ہوتے ہی تانیہ کے جسم میں بھونچال سا آگیا۔ اس نے فوراً آنکھیں کھول دیں ۔ آنکھ کھلتے ہی اس کی نظر سیدھی راکل پر پڑی، وہ اپنی تکلیف کے باوجود اسے بڑی محویت سے دیکھ رہا تھا۔
تانیہ فثورا اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ چاقو اور بیگ نزدیک ہی قالین پر پڑے تھے۔ اس نے سوچا کہ جھک کر چاقو اٹھا لے لیکن باوجود ارادے کے وہ ایسا کر نہ سکی۔ کیونکہ راکل نے اندازہ کر لیا تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتی کیا۔ اس لئے اس نے فوراً اپنے عصا سے چاقو نزدیک کر کے اپنے پیر کے نیچے دبا لیا تھا۔ اور پھر بڑے عجیب لہجے میں بولا تھا۔
“وار کرنا چاہتی ہے۔ ؟”
ہاں۔ ” تانیہ نے بے دھڑک کہا۔
“اور کتنے وار کرے گی ؟ ابھی تو مجھ پر وار کر کے بھاگی ہے۔ “
“میں تیری صورت بگاڑ دینا چاہتی ہوں ۔ ” تانیہ نے غصے سے کہا۔
” تو جانتی نہیں کہ تو نے کیا کر دیا ہے۔ تو نے میرا ایک بازو بے جان کر دیا ہے ۔ ” وہ شکایت بھرے لہجے میں بولا۔
“کاش! میں تجھے ختم کر سکتی۔ ” تانیہ کا غصہ برقرار تھا۔
“میں تو ویسے ہی مرا ہوا ہوں، مجھے اور کیا مارنا ۔ ” اس نے پھر شکایتی انداز اختیار کیا۔
“ابھی تو مرا نہیں، انشاء اللہ تو ضرور مرے گا اور ساتھ میں تیری بہن کا بھی جنازہ اٹھے گا۔ ” تانیہ بھڑک رہی تھی۔
“ہا ہا ہا۔ ” اس نے ایک مکروہ قہقہہ لگایا اور پھر رک کر بولا۔ “کیا عورتوں والی بات کرتی ہے۔”
” اسے عورتوں والی بات نہ سمجھ ۔ ” تانیہ نے اسے گھورتے ہوئے کہا،
“تو نہیں جانتی کہ تو کہاں ہے۔ تو یہ بھی نہیں جانتی کہ کس کی قید میں ہے، یاد رکھ تیرا جنازہ اٹھنے میں یہاں سے بالکل دیر نہ لگے گی ۔ ” راکل کا اب تیور بدلا۔
“میرا چاقو مجھے دے دے۔ ” تانیہ نے کہا۔
“لے اٹھا لے ۔ ” اس نے فوراً چاقو میں ٹھوکر مار دی، چاقو تانیہ کے پیروں میں آگیا۔ تانیہ جیسے ہی چاقو اٹھانے کے لئے جھکی۔ راکل نے اس کے سر پر اپنا عصا مارا۔ وہ جھکے جھکے وہیں تیورا کر گر پڑی۔
تب راکل نے بیٹھے بیٹھے اپنا عصا مسند پر کھٹ کھٹ بجایا۔ آواز سنتے ہی وہ دونوں وحشی عور تیں پردہ ہٹا کر اندر آگئیں۔
“اٹھاؤ اسے اور زندان میں پھینک دو، تین دن بھوکا رکھو، جاؤ ۔ ” راکل نے تیور بدل کر کہا۔
ان دونوں کالی بھیجنگ عورتوں نے اسے مل کر اٹھایا اور تیزی سے کمرے سے نکل گئیں۔ پھر ان وحشی عورتوں نے اسے زندان کے دروازے پر پہنچا دیا۔ زندان کے دروازے سے بھی ایک دیو قامت کالی بھجنگ عورت برآمد ہوئی۔ اس نے ایک نظر بے ہوش تانیہ کو دیکھا جو ان کے کندھوں پر سوئی ہوئی تھی، پھر وہ ان عورتوں سے مخاطب ہو کر بولی۔ “کون ہے یہ ؟”
“ہمیں نہیں معلوم کون ہے یہ ؟ ” ان میں سے ایک عورت نے کہا۔
“پھر یہاں لانے کا مقصد ؟ “
” راکل نے بھیجا ہے۔ اس کا حکم ہے کہ اسے تین دن تک بھوکا رکھنا ہے۔ “
“ٹھیک ہے، اسے زمین پر لٹا دو، اسے بے ہوش کس نے کیا ہے۔ ؟؟“
“راکل نے۔ “
یہ کہہ کر ان دونوں عورتوں نے تانیہ کو زمین پر لٹا دیا۔ ساتھ ہی اس کا بیگ رکھ دیا۔ اور واپس چلی گئیں۔ اس دیو قامت عورت نے تانیہ کو کسی گڑیا کی طرح اپنے ہاتھوں پر اٹھایا اور پھر اسے ایک کمرے میں بند کر کے باہر سے دروازہ بند کر دیا اور تالا لگا دیا۔ کچھ دیر کے بعد جب تانیہ کو ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک چھوٹے سے کمرے میں بند پایا۔ وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی۔ تھوڑے حواس بحال ہوئے تو اس نے دروازے کو جھنجھوڑا۔ دروازہ باہر سے بند تھا۔ اس کمرے میں کوئی کھڑکی وغیرہ نہ تھی۔ البتہ کافی اونچائی پر ایک روشندان ضرور تھا۔ روشندان بڑا تھا لیکن اتنا اونچا تھا کہ وہ اس میں سے جھانک کر باہر نہیں دیکھ سکتی تھی۔ زمین پر ایک چٹائی پڑی ہوئی تھی۔
خدا کا شکر تھا کہ اس کا بیگ اس کے پاس پڑا تھا ۔ اس نے اپنا بیگ نزدیک کر کے اس کی تلاشی لی۔
اس میں چاقو نہ تھا، باقی اس کی تمام چیزیں موجود تھیں۔
تب اسے خیال آیا کہ وہ چاقو اٹھانے کے لئے جھکی تھی تو کوئی بھاری چیز اس کے سر پر لگی۔ اس نے فوراً اپنے سر پر ہاتھ پھیرا۔ سر میں کسی قسم کا زخم، نشان یا دکھن نہ تھی۔ راکل نے اسے زخمی کرنے کے نتیجے میں زندان میں ڈلوا دیا تھا۔ خیر کوئی بات نہیں، جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
لیکن جو ہوا وہ اس کی توقع کے خلاف تھا۔ تانیہ کو معلوم نہ تھا کہ راکل نے اس کے بارے میں کیا حکم رہا ہے۔ وہ اسے عام قید سمجھ رہی تھی کہ وہ زندان میں ضرور ہے لیکن اس کے کھانے پینے کا خیال رکھا جائے گا۔ لیکن وہ لوگ تو اسے کمرے میں بند کر کے بھول ہی گئے۔ دو دن گزر گئے۔ اس کے کمرے کا دروازہ کسی نے نہ کھولا، اس کے کان کسی آہٹ کو ترس ہی گئے۔ بھوک کے مارے اس کا برا حال تھا۔ چھوٹی سی صراحی میں پانی موجود تھا، اب وہ بھی ختم ہو رہا تھا
اس پر نقاہت طاری ہو رہی تھی۔ وہ نڈھال سی پڑی تھی۔ بار بار اس کی آنکھیں بند ہو جاتی تھیں۔۔ تھا۔ اس پر غشی کے دورے سے پڑ رہے تھے۔ اسی حالت میں جب وہ نہ ہوش میں تھی، نہ بے ہوش تھی۔ جاگ رہی تھی نہ سورہی تھی یا پھر وہ گہری نیند میں تھی اسے اچانک یوں محسوس ہوا جیسے دادا اعظم اس کے بالکل نزدیک بیٹھے ہوں، ان کا نورانی چہرہ دیکھ کر
اسے سکون محسوس ہوا، وہ ان سے کچھ بات کرنا چاہتی تھی لیکن وہ بول نہیں پائی، تب دادا اعظم جیسے اس کی اس کیفیت کو سمجھ جاتے ہیں اور ہاتھ کے اشارے سے اسے پر سکون رہنے کی تلقین کرتے ہیں
اور اسے تسلی دیتے ہیں۔
جب اس کی آنکھ کھلتی ہے یا ہوش میں آتی ہے تو اپنے آس پاس کسی کو نہیں پاتی، لیکن اس کے دل پر سکون کی کیفیت ضرور نقش ہوتی ہے۔ بے اختیار اس کا جی چاہتا ہے کہ کاش دادا اعظم نے اس سے کوئی بات کی ہوتی۔
ایک بات کی اسے خوشی تھی۔ اب تک وہ تنہائی کا شکار تھی۔ خود کو بے یار و مدد گار محسوس کرتی تھی لیکن اب یہ احساس یکسر تبدیل ہو گیا تھا۔ اس کی پشت پر بھی کوئی آگیا تھا۔ اب وہ اکیلی نہ تھی۔ اس احساس کے ساتھ کہ وہ تنہا اور بے بس نہیں ہے، اس میں ہمت پیدا ہوئی ۔ وہ دھیرے دھیرے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ تب ہی ایک آہٹ سی محسوس ہوئی۔ یہ آہٹ دروازے پر نہیں ہوئی تھی۔ یہ آواز اوپر روشندان سے آئی تھی۔ گلہری کے بولنے کی آواز کے ساتھ اوپر روشندان میں کوئی چیز لڑھکی تھی۔ تانیہ نے روشندان کی طرف دیکھا تو اسے گلہری کی دم دکھائی دی، اور پھر فوراً ہی کوئی چیز لڑھک کر اس پر آگری۔ اور جب تانیہ نے اوپر سے گرنے والی چیز کو بغور دیکھا تو اس کی خوشی کی انتہانہ رہی۔ وہ ایکہ
سرخ رنگ کا خوبصورت سیب تھا۔
تانیہ نے لپک کر اسے اٹھالیا، اور تشکر آمیز نظروں سے اوپر دیکھا۔ روشندان میں سے ایک گلہری کا منہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے دیکھتے ہی گلہری روشندان میں غائب ہو گئی۔ اب اسے پکا یقین ہو گیا کہ وہ اکیلی نہیں ہے۔
سیب اچھا بڑا تھا۔ بڑا لذیذ، خوشبودار اور میٹھا تھا۔ اس سیب میں جانے کیا بات تھی کہ اسے کھا کر پیٹ بھرنے کا احساس ہوا۔ تانیہ کے ہوش و حواس بحال ہوئے۔ وہ اب کچھ سوچنے کے قابل ہوئی۔ تانیہ نے راکل کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر اس نے اپنا بیگ مار کر اس کا ایک بازو توڑ دیا تھا اس کے نتیجے میں اسے قید میں ڈال دیا گیا تھا۔ اور دو دن گزر گئے تھے۔ کسی نے پلٹ کر اس کر اس کی طرف دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ زندہ ہے یا چل بسی ہے، یہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کی تھی۔
دروزہ بند تھا۔ یہاں سے فرار کا کوئی راستہ نہ تھا۔ اس کمرے میں کوئی کھڑکی نہ تھی۔ ایک روشندان ضرور تھا لیکن وہ اتنا اونچا تھا کہ ہاتھ اٹھانے کے باوجود دسترس سے دور تھا۔ اسے نہیں معلوم کہ روشندان کے اس طرف کیا ہے۔ کاش! وہ کسی طرح روشندان سے باہر کا جائزہ لے سکتی۔ اسے اپنا بھائی محسن یاد آگیا۔ جانے وہ کس حال میں ہو گا۔ بقاں نے واپس جا کر جانے اسکے ساتھ کیا سلوک کیا ہو۔ کالے چراغ کی گرفتاری کے بعد تو وہ بالکل بے خوف ہو گئی ہوگی۔ اسے کالے چراغ کی بھی فکر تھی۔ جانے اس ہمدرد شخص کا کیا حشر کیا جا چکا ہو۔
کہیں اس کی زندگی ہی نہ مختصر کر دی گئی ہو۔
اب وہ کیا کرے؟؟۔
وہ اپنے بھائی محسن کو بچانے آئی تھی لیکن اس کی اپنی زندگی خطرے میں آگئی تھی۔ اگر اسے غیبی امداد نہ ملتی، وہ بھوکی ہی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتی۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ یہ سیب کہاں سے آیا تھا۔ اس صحرا میں اور ایسا خوشبو دار سیب۔
پھر اسے روشندان میں کس نے پہنچایا۔ گلہری تو ایسی چیزیں کھانے کی خود شوقین ہوتی ہے، اس نے خود کیوں نہ کھایا نیچے کیوں لڑھکا دیا۔ پھر اس سیب میں اتنی سیرابی کہاں سے آئی کہ اسے کھا کر پیٹ بھر کر کھانا کھانے کا گماں ہوا۔ کیا یہ سلسلہ جاری رہے گا یا محض اتفاق سے ایسا ہو گیا ہے۔
اور دادا اعظم کے یہاں آنے کا احساس محض ایک خواب تھا، اس کا وہم تھا یا واقعی وہ اس کی تسلی کے لئے یہاں آگئے تھے۔????

دادا اعظم ہی تو تھے جن کی وجہ سے اس کی اپنی زندگی، خود اس پر آشکار ہوئی تھی۔ اس کی داستان حیات کا عنوان تو وہی ہیں، وہ اگر اس کی مدد نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟..”

“ابھی وہ اپنی باتوں میں الجھی ہوئی تھی۔ اپنی نجات کا راستہ سوچ رہی تھی کہ دروازے پر کچھ کھٹ پٹ کی آواز آئی جیسے کوئی باہر سے دروازہ کھول رہا ہو۔ تانیہ ذرا سنبھل کر بیٹھ گئی، چند لمحوں بعد دروازہ کھلا۔ اس کے سامنے راکل کھڑا تھا، بغل میں عصا دبائے۔ اس نے اپنے کاندھے پر ایک بھاری چادر ڈال رکھی تھی۔ شاید اپنا ٹوٹا ہوا بازو چھپانے کے لئے۔
راکل نے تانیہ کو ہشاش بشاش کمرے کے وسط میں بیٹھا دیکھا تو بڑا حیران ہوا، دو دن کی بھوک نے اس پر ذرا بھی اثر نہ کیا تھا بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ابھی کھا پی کر تازہ ہو کر بیٹھی ہو۔ وہ تو سمجھ رہا تھا کہ تانیہ کی بھوک کی وجہ سے بری حالت ہوگئی۔ وہاں تو معاملہ ہی کچھ اور نکلا۔
“کیسی ہے تو ۔ ” راکل عصا ٹیکتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔
“دیکھ لے، اتنے بڑے بڑے دیدے تو ہیں تیرے ۔ ” تانیہ غصے میں آگئی۔
“یہ کیسے ممکن ہے۔ ” وہ ابھی تک حیران تھا۔
“سب کچھ ممکن ہے تو نے دیکھ لیا نہ قید کرکے۔ میں کوئی معمولی لڑکی نہیں ہوں ۔ “
تانیہ نے اس پر رعب جمانے کی کوشش کی۔
“میں نے کب کہا کہ تو معمولی لڑکی ہے ، معمولی ہوتی تو یہاں تک کیسے آجاتی ؟ ” راکل بولا۔ تھی۔
“راکل کیا تو اپنی بہن کو سمجھا نہیں سکتا۔ ” تانیہ نے فوراً موضوع تبدیل کر دیا۔
“کیا سمجھاؤں ۔ ” جیسے وہ کچھ نہ جانتا ہو۔
” میرے بھائی کا بچھا چھوڑ دے ۔ ” تانیہ نے بتایا۔
“اگر میں اس سے یہ کہوں گا تو وہ پلٹ کر مجھے کہے گی ۔ “
“تجھے وہ کیا کہہ سکتی ہے۔ ؟ “
” وہ کہے گی کہ تو تانیہ کو آزاد کر دے تو میں اس کی بات کیسے مان لوں گا بھلا۔ میں تانیہ کو آزاد کرنے کے لئے تو نہیں لایا یہاں ۔ “
وہ تانیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔
“تانیہ تیری قید میں نہیں رہ سکے گی۔ یہ بات تو اچھی طرح جانتا ہے۔ تو خواہ مخواہ اپنا وقت برباد کر رہاہے۔۔”
“تو وقت کی بات کرتی ہے۔ میں تیرے پیچھے خود برباد ہو گیا۔ یہ محبت کی جنگ ہے۔ اس میں سب کچھ جائز ہوتا ہے یہ بات تو تو اچھی طرح جانتی ہوگی ۔ “
” اچھی طرح جانتی ہوں ۔ ” تانیہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ ” اچھی طرح جانتی ہوں کہ تیری تباہی زیادہ دور نہیں۔ “
“ہاہاہا۔ ” راکل نے بے ہنگم قہقہہ لگایا
” میں اگر تباہ ہوا تو نہ تو رہے گی اور نہ تیرا بھائی رہے گا” راکل نے دھمکی دی۔
“دیکھا جائے گا۔ “
تانیہ ڈرنے والوں میں سے نہ تھی۔
“چل اب میرے ساتھ ۔ ” وہ حرف مدعا پر آیا۔
” کہاں ؟ ” تانیہ نے پوچھا۔
“زندگی کی ہر آسائش کو حاصل کرنے کے لئے۔ “ اس نے سبز باغ دکھایا۔
” مجھے بس میرا بھائی چاہئے۔ ” تانیہ نے مقصد حیات بیان کیا۔
“وہ بھی مل جائے گا۔ یہ میرا تجھ سے وعدہ ہے۔ بس ایک بار میرا کہا مان لے۔ “
“مجھے کیا کرنا ہو گا ؟ ” تانیہ نے جانا چاہا۔
“محبت کا جواب محبت سے دینا ہو گا۔ ” اس نے صاف صاف کہا۔
” لیکن مجھے تو تجھ سے محبت نہیں۔ ” تانیہ نے بھی کچھ چھپا کر نہ رکھا۔
“ہو جائے گی تو میرے بارے میں سوچنا تو شروع کر ۔ ” راکل نے کانٹا پھینکا۔
“ایک لنگڑے اور بازو ٹوٹے شخص کے بارے میں، میرے جیسی لڑکی کیا سوچے بھلا؟”
اس نے کانٹا توڑ کر پھینک دیا۔ تانیہ کے اس جواب نے راکل کے اندر آگ لگادی۔ اس نے اپنی بغل سے عصا نکال لیا اور ایک ٹانگ پر جم کر کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے ہاتھ بلند کیا اور چاہا کہ عصا اس کے سر پر دے مارے۔ اسی وقت وہ دیو قامت عورت کمرے میں داخل ہوئی جو شاید اس قید خانے کی نگراں تھی۔ ا
عورت نے آتے ہی پکارا۔
”راکل۔ “
راکل کا ہاتھ اٹھا کا اٹھا رہ گیا۔ وہ پہلے ہی غصے میں تھا اس مداخلت بیجا پر بھنا کر رہ گیا۔
“کیا ہے ؟” وہ دھاڑا۔
وہ دیو قامت کالی بھیجنگ عورت اس کے سامنے آکر ادب سے جھکی۔ اور بہت مودبانہ لہجے میں بولی۔
“سردار کولانا کا کارندہ آیا ہے ۔۔ وہ تجھ سے فوراً ملنا چاہتا ہے۔ “

سردار کولانا کا نام سن کر راکل کا اوپر اٹھا ہوا ہاتھ فورا نیچے گر گیا۔ اس نے اپنا عصا بغل میں دبایا
ایک نظر تانیہ کی طرف دیکھا جیسے کہتا ہو ۔
” میرا انتظار کر تجھے ابھی آکر بتاتا ہوں ۔ “
پھر فوراً پلٹا۔ اور بغیر کچھ کہےاس دیو قامت عورت کے ساتھ ہولیا۔
دیو قامت عورت قید خانے کے دروازے تک اس کے ساتھ آئی۔ سامنے دو مسلح دربان موجود تھے۔ وہ ان کو دیکھ کر واپس لوٹ گئی۔ راکل آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا۔ وہ دونوں دربان آگے آگے چلنے لگے
جب راکل اس عمارت کے بڑے دروازے کے سامنے پہنچا تو ایک دربان نے چیخ کر کہا۔ ” دروازہ کھولو راکل آیا ہے۔ سردار کولانا کے کارندے سے ملنا چاہتا ہے ۔ “
یہ اعلان سن کر چھ آدمی داہنی اور چھ آدمی بائیں کوٹھری سے بر آمد ہوئے اور ان بارہ آدمیوں نے مل کر اس بڑے اور بھاری دروازے کو کھولا۔ دروازہ کھلا تو سامنے گھوڑے پر سردار کولانا کا کارندہ نظر آیا۔ وہ سانولی رنگت کا ایک عجیب سے چہرے کا شخص تھا۔ وہ راکل کو دیکھ کر فوراً گھوڑے سے نیچے اتر آیا۔ اور پروقار چال چلتا ہوا۔ راکل کے نزدیک پہنچا۔
“ہاں، بول سردار کولانا کے کارندے، کیسے آیا؟”
“کیا تو جانتا ہے کہ تجھ سے کتنی بڑی غلطی ہوئی ہے ۔ ؟؟” سردار کولانا کا ہرکارہ بولا۔
“تو سردار کا کارندہ ہے، کارندہ ہی رہ، سردار نہ بن … جو پیغام لایا ہے، وہ کہہ، فضول باتیں نہ کر۔۔”
“کالا چراغ کہاں ہے ؟” اس نے پوچھا۔

کون کالا چراغ ؟ ۔ یہ نام میرے لئے نیا ہے۔ ” راکل انجان بن گیا۔
“راکل، پھر بقّاں بھی تیرے لئے نیا نام ہو گا ؟ ” ہر کارے نے اندھیرے میں تیر چھوڑا۔
“بقّاں میری بہن ہے۔ ” راکل نے کچھ پریشان ہو کر کہا۔
“کیا تو جانتا ہے کہ اس وقت بقّاں کہاں ہے ؟ “
“کیا مطلب؟” اس کی پریشانی بڑھ گئی۔
“میری بات کا جواب دے تاکہ میں تجھے سردار کا پیغام سنا سکوں ۔ “
” یہیں ہے، میرے پاس سنہرے کھنڈر میں۔ “
“اور کالا چراغ کہاں ہے؟”
“میں نے کہانا، کہ میں کسی کالے چراغ کو نہیں جانتا۔ “
“کہیں ایسا نہ ہو کہ تجھے بقّاں کی تلاش میں سردار کولانا کے پاس جانا پڑے۔ پھر سردار اس طرح کہدے گا، کون بقّاں ؟؟؟۔ یہ نام میرے لئے نیا ہے ۔ “
“کہنا کیا چاہتا ہے؟ ” راکل نے قدرے غصے سے کہا۔
“جو میں کہنا چاہتا ہوں، وہ تو اچھی طرح سمجھ گیا ہے۔ “تجھے اگر بقّاں عزیز ہو تو کالے چراغ کو سرحد پر پہنچا دینا۔ تجھے ڈیڑھ دن دیا جاتا ہے۔۔ وقت گزرنے کے بعد تو یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ کیا ہوگا..؟؟؟”
راکل یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ کیا ہو گا، پھر بھی سوال کیا۔
“کیا ہوگا؟؟.”
” نہ تو رہے گا اور نہ بقّاں ۔ “
“کیا میں اسے اعلان جنگ سمجھوں ۔ “
“بالکل، اس میں کوئی شک نہیں۔ ” اس نے تصدیق کر دی۔ “لیکن یہ اعلان جنگ اس وقت مکمل ہو گا، جب تو سردار کولانا کو جا کر بتائے گا کہ تو نے راکل کو پیغام دے دیا ہے۔ ” راکل نے کہا۔
“تو ٹھیک کہتا ہے ۔ “
“اور اگر پیغام دینے والا واپس ہی نہ جا سکے تب؟؟۔ ” “نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ تو اس طرح کی حماقت نہیں کر سکتا۔ تو اچھی طرح جانتا کہ سردار کولانا کس قدر طاقتور حکمراں ہے۔ پھر تجھے یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ تیری بہن بقاں اس کے قبضے میں ہے۔ وہ اینٹ سے اینٹ بجادے گا۔ ” سردار کو لانا کے کارندے نے بڑے اطمینان سے کہا۔
راکل مشکل میں گرفتار ہو گیا۔ بقّاں کے بارے میں اسے قطعاً کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں ہے۔ ااگر وہ واقعی سردار کے قبضے میں ہے پھر تو اس کارندے پر موت وارد کرنا، حماقت سے کم نہ ہوگا۔ بقّاں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اسے اپنی بہن سے بہت محبت تھی، وہ اسے کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا تھا۔
اب راکل کے لئے ضروری تھا کہ کوئی اقدام کرنے سے پہلے وہ بقّاں کی گرفتاری کا ثبوت مانگے ۔۔
ثبوت ملنے پر کارندے کو جانے دے اور اس کی دی ہوئی مہلت میں کوئی حکمت عملی طے کرنے کی کوشش کرے۔
“سردار کولانا کے ہر کارے …… کیا سردار نے بقاں کی گرفتاری کا کوئی ثبوت بھیجا ہے؟”
” ہاں بھیجا ہے؟” یہ کہہ کر اس کارندے نے اپنے لباس میں ہاتھ ڈال کر کوئی چیز نکالی اور راکل طرف اچھال دی۔ راکل کے ساتھ آنے والے دربانوں میں سے ایک نے اس چیز کو لپک لیا اور احترام سے راکل کی خدمت میں پیش کیا۔ راکل نے اس چیز کو الٹ پلٹ کر دیکھا، یہ بقّاں کی انگوٹھی تھی۔ اس انگوٹھی کو وہ بہت اچھی طرح پہچانتا تھا۔
یہ انگوٹھی راکل نے ہی اسے دی تھی۔ اس انگوٹھی میں نگ کی جگہ الو کی آنکھ کی پتلی لگی ہوئی تھی
آنکھ کی پتلی کسی ہیرے کی طرح چمک رہی تھی۔ یہ انگوٹھی ہر بھائی اپنی بہن کے جوان ہونے پر اسے پہناتا تھا۔ کسی لڑکی کے ہاتھ میں یہ انگوٹھی دیکھ کر ہی کوئی لڑکا اس کی طرف راغب ہوتا تھا۔ اور پھر بعد میں رشتہ بھجواتا تھا۔
اس انگوٹھی کو دیکھ کر راکل کو یقین آگیا کہ واقعی بقّاں سردار کولانا کے قبضے میں ہے۔ کیونکہ اس انگوٹھی کو ایک بار پہن لینے کے بعد شادی سے پہلے اسے لڑکی اپنی انگلی سے نہیں اتارتی تھی۔ یہ انگوٹھی زبردستی اسکی انگلی سے اتاری گئی ہوگی۔
“سردار کولانا سے کہنا کہ اس نے میری بہن پر قبضہ کر کے اچھا نہیں کیا ؟ “
“اور راکل٫ کیا تو نے کالا چراغ کو گرفتار کر کے اچھا کیا ہے ؟؟”
“وہ مجرم ہے؟”
“چل تو نے اسے اپنے پاس ہونے کا اقرار تو کیا۔ تھوڑی دیر پہلے تک تو اس کے نام سے ہی واقف نہ تھا۔۔ ویسے پوچھ سکتا ہوں کہ اس کا جرم کیا ہے؟“ ہر کارے نے پوچھا۔
“وه خواہ مخواہ اس کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ “
“وہ بقّاں سے محبت کرتا ہے اور محبت کرنا کوئی جرم نہیں۔ “
“مجھے یہ بات پسند نہیں۔ “
“خیر یہ مسئلہ میرا ہے نا تیرا ہے۔ یہ مسئلہ کالے چراغ اور بقاںث کا ہے، میں نے تجھے اپنے سردار کا پیغام دے دیا۔ اس کی دی ہوئی نشانی بھی تجھے دکھا دی۔ اب تو بتا کیا کہتا ہے۔ “
” میں کل سورج نکلتے ہی اسے سرحد پر پہنچادوں گا۔ “ ” ٹھیک ہے۔۔ بقّاں کی نشانی مجھے لوٹا دے ۔ “
ہر کارے نے یہ کہہ کر اپنا ہاتھ بڑھایا۔
راکل نے وہ انگوٹھی اس کی طرف اچھال دی جسے اس نے بڑی مہارت سے لپک لیا ۔ پھر وہ تیزی سے مڑا۔ دوڑ کر اپنے گھوڑے کے نزدیک پہنچا۔ اچھل کر سوار ہوا، ایڑ لگائی اور چشم زدن میں آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہو گیا۔
اس کے جانے کے بعد راکل نے ٹھنڈا اور گہرا سانس لیا۔ اس کا دماغ چکرا رہا تھا۔ یہ سب کیا ہو گیا۔
سردار کولانا کو کیسے معلوم ہوا کہ کالا چراغ اس کے قبضے میں ہے ۔ پھر اس نے بقّاں کو کہاں سے اور کیسے اغوا کروالیا۔؟
لگتا ہے اس نے بقّاں کو صحرا سے اغواء کرایا ہے، وہ ضرور محسن سے ملنے گئی ہوگی۔ اس بقاں کے عشق نے تو اسے کہیں کا نہ چھوڑا ۔ اب اسے ہر قیمت پر کالے چراغ کو آزاد کرنا ہو گا۔ ورنہ سردار کولانا ایسا سر پھرا شخص ہے کہ اس سے کوئی بعید نہیں کہ وہ سنہرے کھنڈر پر چڑھائی کر دے۔
ہرکارے کے جاتے ہی بارہ آدمیوں نے مل کر بھاری دروازہ بند کر دیا۔ دروازے کی آواز پر راکل چونکا وہ واپس مڑا۔ اور سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ اس کے مسلح دربان اس کے آگے تھے۔
راکل نے پھر زندان کا رخ کیا۔ اسے دیکھتے ہی دیوقامت عورت نے قید خانے کا دروازہ کھولا اور اسکے پیچھے پیچھے چل دی۔ تانیہ کے کمرے کے سامنے پہنچ کر اس کالی بھجنگ عورت نے دروازے پر لگا تالا کھولا پھر ہاتھ مار کر دروازہ کھول دیا ۔۔
راکل کھٹ کھٹ کرتا کمرے کے اندر داخل ہوا۔ تانیہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی، اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ ابھی تو اس کے ہاتھوں ذلیل ہوکر گیا ہے۔ پھر دوبارہ آگیا۔ یہ ڈھیٹ پن کی انتہا تھی۔ آخر اب وہ کیا کرنے آیا ہے۔ اس کے چہرے پر تھکان اور مایوسی کے تاثرات تھے۔ تانیہ سمجھی کہ شاید وہ اپنے رویئے پر شرمندہ ہے اور اب وہ اس سے معذرت کرنے آیا ہے۔ لیکن ایسا نہیں تھا، وہ کوئی اور ہی منصوبہ لے کر ادھر آیا تھا۔ وہ کچھ دیر تانیہ کے سامنے خاموش کھڑا رہا۔ پھر دھیرے سے بولا
“تانیہ بہت بری خبر ہے”
” کیا ہوا؟ ” تانیہ کے دماغ میں فوراً محسن راؤ کا خیال آیا کہیں خدا نخواستہ اسے کچھ نہ ہو گیا ہو۔ وہ فکر مند لہجے میں بولی۔
” میرا بھائی تو ٹھیک ہے۔ “
“ہاں ، وہ تو ٹھیک ہی ہو گا۔ اسے کیا ہونا ہے۔ ” راکل نے سخت لہجے میں کہا۔ ”ویسے یہ سارا فساد اسی کا پھیلایا ہوا ہے۔ “
“میرے بھائی نے کیا فساد پھیلا دیا۔ وہ تو خود ایک مظلوم شخص ہے اور ایک مظلوم شخص بھلا کیا فساد پھیلا سکتا ہے۔ “
” اس نے میرا سر جھکا دیا ہے ۔ ” راکل نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔
“آخر کچھ پتہ تو چلے، ایسا کیا کیا ہے میرے بھائی نے۔ “
“نہ میری بہن تمہارے بھائی کی محبت میں گرفتار ہوتی اور نہ آج مجھے یہ دن دیکھنا پڑتا۔ اسے کولانا نے اغواء کروالیا ہے۔ ” راکل نے انکشاف کیا۔

بقاں کے اغواء کی خبر سن کر تانیہ کے دل میں انار چھوٹنے لگے۔ ایک خوشی کی لہر اٹھی جو اسکے پورے وجود کو سرشار کر گئی۔ اسے تھوڑا سا افسوس ہوا کہ اس کے اغواء کی خبر کیوں آئی، اس کے قتل کی خبر کیوں نہ آئی۔ پھر بھی یہ وقت خوشی کے اظہار کا نہ تھا۔ اس نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے پوچھا۔
“آخر کیوں ؟ “
“کالے چراغ کی وجہ سے۔ “
“میں سمجھی نہیں۔ “
“کالا چراغ سردار کولانا کا اہم آدمی ہے۔ اسے کسی طرح یہ معلوم ہو گیا کہ وہ میرے قبضے میں ہے۔ جواباً اس نے بقّاں کو اپنے قبضے میں کر لیا اور اب پیغام بھجوایا کہ میں کالے چراغ کو اس کے حوالے کر دوں اور اپنی بہن کو لے جاؤں۔ ورنہ وہ بقّاں کو مار دے گا۔ اور لشکر کشی کر کے میرے علاقے پر قبضہ کرلے گا۔ “
“تو یہ سب مجھے کیوں بتا رہا ہے۔ میں کیا کروں ۔ ” تانیہ نے بے نیازی سے کہا۔ وہ اندر سے بہت خوش تھی۔
“مجھے تیری مدد کی ضرورت ہے۔ “
” میں بھلا تیری کیا مدد کر سکتی ہوں۔ میں خود تیری قید میں ہوں اور میرا بھائی تیری بہن کی قید میں..؟”
“میں کالے چراغ کو واپس نہیںa کرنا چاہتا، یہ میری توہین ہے ۔ اور اپنی بہن کو بھی واپس لینا چاہتا ہوں وہ سردار کولانا کے قبضے میں ہے، یہ بھی میری توہین ہے۔ “
راکل نے بساط بچھائی ۔
“مجھے کیا کرنا ہو گا، یہ بتا۔ ” تانیہ نے بساط بچھتے دیکھ کر پوچھا۔
“میرا ایک دوست ہے، اس تک میرا پیغام پہنچانا ہو گا۔ میرا کوئی آدمی اب اس کے علاقے میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ اور میرے دوست تک پہنچنے کے لئے کولانا کے علاقے سے گزرنا پڑے گا۔ تو اس کے علاقے سے آسانی سے گزر سکتی ہے تجھ پر کوئی شک بھی نہیں کرے گا۔ “
“ٹھیک ہے میں جانے کے لئے تیار ہوں ۔ “
تانیہ نے فوراً ہامی بھر لی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس قید خانے سے کسی طرح اسے نجات مل جائے ۔ ہو سکتا ہے کہ راستے میں اسے کوئی فرار کا راستہ سوجھ جائے۔ تانیہ اپنے ذہن میں فرار کے منصوبے تراش رہی تھی تو راکل نے کچھ اور ہی سوچ لیا تھا۔
اور اس نے جو کچھ سوچ لیا تھا اگر اس کے بارے میں تانیہ کو ذرا بھی شبہ ہو جاتا تو وہ اس قید خانے سے نکلتی ہی نہیں۔ راکل ایک کینہ پرور شخص تھا۔ تانیہ نے نہ صرف اس کی بات نہیں مانی بلکہ قدم قدم پر اسکی توہین کی تھی۔ وہ اس کو بھلا کیوں کر چھوڑ دیتا۔
“آپھر میرے ساتھ ۔ ” راکل نے چلنے کا اشارہ کیا۔

تانیہ نے جلدی جلدی اپنا بکھرا ہوا سامان سمیٹا۔ اس کا سامان ہی کیا تھا۔ چند جوڑے کپڑے اور کچھ ضرورت کی چیزیں۔ بیگ بھر کر اس نے زپ بند کی۔ بیگ اپنے کندھے پر ڈالا اور بولی۔
” چل۔ “
راکل اپنے عصا کو بیساکھی بنائے پکے فرش پر کھٹ کھٹ کرتا آگے بڑھا۔ تانیہ اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ قید خانے کی دیوقامت عورت نے ان دونوں کو دروازے تک پہنچایا۔ جھک کر تعظیم دی اور قید خانے کا دروازہ بند کر کے مستعد کھڑی ہو گئی۔
راکل نے اپنے کمرے میں پہنچ کر اپنی مسند سنبھالی اور اپنے عصا کو تین بار مسند پر مارا۔ کھٹ کھٹ کی آواز پر دو گول چہرے والی خادمائیں، پردہ ہٹا کر اندر آئیں۔ انہوں نے آدھا جھک کر راکل کو تعظیم دی اور تانیہ کو حیرت بھری نظروں سے دیکھا۔
” کیا حکم ہے راکل ؟” پھر ان میں سے ایک نے پوچھا
” صدر دروازے پر میرا حکم پہنچا کہ سواری اور سوار مجھے تیار ملیں، میں ابھی آتا ہوں ۔ “
“ٹھیک ہے راکل۔ “
یہ کہہ کر وہ دونوں آدھا جھکیں اور تیزی سے پردوں میں غروب ہوگئیں۔۔
خادماؤں کے جانے کے بعد وہ دونوں کمرے میں اکیلے رہ گئے۔ تانیہ چاہتی تھی کہ وہ اس سے بات کرے لیکن اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بات کرے۔ خود راکل نے بھی کوئی بات نہ چھیڑی ۔ اس کے چہرے پر ایک گھمبیر سوچ طاری تھی۔ وہ پردوں کی طرف ایک ٹک دیکھے جارہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی کے بچھڑنے کا غم ہو۔ کچھ دیر کے بعد وہ اپنے عصا کے سہارے اٹھا، عصا بغل میں دبایا۔ اور تانیہ کے چہرے پر نظر ڈالے بغیر مخاطب ہوا۔
” اب وقت رخصت آگیا۔ “
تانیہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ خاموشی سے اس کے پیچھے پیچھے چل دی۔ صدر دروازے پر جب وہ دونوں پہنچے تو ایک مسلح دربان نے زور سے آواز لگائی۔
”راکل آگیا۔۔ دروازہ کھولا جائے۔ “ چھ آدمی دائیں کوٹھری اور چھ آدمی بائیں کوٹھری سے بر آمد ہوئے، انہوں نے بڑی پھرتی سے بڑا والا بھاری دروازہ کھولا۔ دروازہ کھلتے ہی راکل جو آخری سیڑھی پر کھڑا تھا، اتر کر دروازے کی طرف بڑھا۔
دروازے کے باہر چھ مسلح سوار مستعد کھڑے تھے۔ ان کے ساتھ ہی دو اونٹنیاں سجی ہوئی بیٹھی تھیں ۔۔
تانیہ کو ایک اونٹنی پر سوار کرایا گیا۔ دوسری اونٹنی پر راکل کو بٹھایا گیا۔ پھر راکل نے ایک سوار کو نزدیک بلا کر کچھ ہدایت دی جسے تانیہ دور ہونے کی وجہ سے نہ سن سکی۔
پھر وہ سوار جسے ہدایت دی گئی تھی، دونوں اونٹنیوں کے آگے آیا۔ اس نے منہ سے ایک عجیب آواز نکالی اور یہ قافلہ کھنڈروں کے درمیان سے گزرتا ہوا، میدان میں آگیا۔سب سے آگے ایک گھڑ سوار تھا، اس کے پیچھے تانیہ، تانیہ کے بعد راکل اور راکل کے پیچھے پانچ سوار اور تھے۔ اور اب یہ قافلہ برق رفتاری سے مغرب کی جانب رواں دواں تھا۔ تانیہ سوچ رہی تھی کہ راکل نے کہا تھا کہ کسی دوست کو اس کا پیغام پہنچانا ہے تا کہ وہ سردار کولانا کے متوقع حملے کا مقابلہ کر سکے۔ اور یہ کہ یہ پیغام وہی پہنچا سکتی تھی کیونکہ دوست تک پہنچنے کے لئے کولانا کی سرحدوں سے گزرنا پڑتا۔ لیکن نہ تو راکل نے اس کے حوالے سے کوئی پیغام کیا تھا نہ اس سلسلے میں کچھ بتایا تھا۔ اور اب وہ خود بھی ساتھ چل دیا تھا۔ جبکہ اس کا ساتھ جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔
سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا معاملہ ہے۔ ؟

تانیہ کی اونٹنی برق رفتاری سے اڑی چلی جارہی تھی۔ دور تک ریت ہی ریت تھی۔ وہ سفر کرتے ہوئے ادھر ادھر نظریں دوڑا رہی تھی۔ شاید اس کے بھائی کی جھونپڑی نظر آجائے۔ عجیب صورت حال ہو گئی تھی۔ بقاں کو سردار کولانا نے اغواء کر لیا تھا۔ وہ اس بات پر بہت خوش تھی۔ وہ چاہتی تھی کسی طرح سے سردار کولانا سے ملاقات ہو جائے تو وہ بقّاں کے کر توت بتائے۔ اس نے محس راؤ کا جو حال کر دیا تھا وہ دکھا کر بقّاں کو سزا دلوائے۔۔ کالے چراغ کا جانے کیا حال ہو گا ۔ اس اغواء کے بعد ان دونوں کی دشمنی تو پکی ہو گئی۔ بقاں کے دل میں اگر کالے چراغ کے لئے تھوڑی بہت جگہ بھی ہوگی تو اس واردات کے بعد اب وہ بھی نہ رہی ہوگی۔ یہ کالا چراغ بھی عجیب آدمی ہے۔ بلاوجہ اس بری عورت کے لئے مرا جا رہا ہے۔ ایسا بھی کیا عشق؟؟ لعنت بھیجے اس پر تانیہ کو نہیں معلوم تھا کہ محبت کیا ہوتی ہے۔ اس کی زندگی میں ابھی کوئی مرد نہیں آیا تھا۔ اس کی زندگی کچھ اس انداز سے گزری تھی کہ وہ محبت کے بارے میں کچھ سوچ ہی نہ پائی۔ وہ جب محبت کی باتیں سنتی تو اسے بڑی حیرت ہوتی۔ ایسی ہوتی ہے محبت۔ آدمی اس قدر مجبور ہو جاتا ہے محبت میں۔۔۔ کالے چراغ پر اسے بڑا رحم آتا تھا۔ وہ محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے سامنے بچھا جاتا تھا اور بقاں اسے مسلسل ٹھوکریں مار کر اپنے سامنے سے اٹھائے جاتی تھی۔ اس کا بس چلتا تو وہ بقاں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر کالے جراغ کے سامنے ڈال دیتی۔ اور کہتی کہ لو اب اس سے اپنے سارے بدلے لے لو اس کو اتنی ٹھوکریں مارو کہ ٹھوکریں کھا کر ٹھوکریں مارنے کا مفہوم اس کی سمجھ میں اچھی طرح آجائے۔ وہ اسی طرح کی باتیں جانے کتنی دیر تک سوچتی رہی۔ اس کی اونٹنی برق رفتاری سے اپنے سفر پر تھی۔
پھر اسے اپنے سامنے کچھ پتھریلا سا علاقہ دکھائی دیا۔ اونچی نیچی پہاڑیاں، چھوٹے بڑے پتھر جگہ جگہ پڑے ہوئے۔ آگے والے سوار نے اب اپنی رفتار کم کر دی تھی۔
تھوڑا سا آگے جانے کے بعد وہ سوار رک گیا۔ پھر سارے لوگ اپنی اپنی سواریوں پر ٹھہر گئے۔ تانیہ کو اتارا گیا۔ راکل بھی دو سواروں کی مدد سے نیچے اتر آیا۔ اس نے اپنی چادر اوڑھی اور بغل میں عصا دبا کر دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگا۔

یہ بالکل ویران علاقہ تھا۔ یہاں کس لئے پڑاؤ ڈالا گیا تھا، یہ بات تانیہ کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ راکل بڑے پراسرار انداز میں آگے بڑھ رہا تھا۔ پھر وہ ایک بڑے پتھر پر جس میں قدرتی چھوٹی چھوٹی سیڑھیاں سی بنی تھیں، چڑھ گیا۔ اس کے بعد اس نے گھوم کر اپنے بغل سے عصا نکال کر اوپر اٹھایا۔ یہ ایک خاص قسم کا اشارہ تھا۔ اشارہ پاتے ہی دو مسلح سوار تانیہ کے نزدیک آئے اور انہوں نے تانیہ کے ہاتھ پکڑ لئے اور اس کو کھینچ کر آگے بڑھنے لگے۔
اب تانیہ کو اچانک صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ اس کی چھٹی حس ایک دم بیدار ہوئی۔ اسے احساس ہوا کہ اس کے ساتھ کچھ ہونے والا ہے۔ وہ ایک دم غصے میں آگئی اور بپھر کر بولی ۔
” راکل، یہ کیا بد تمیزی ہے۔ ؟؟” “ھاھاھاھا ۔ ” راکل نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا۔ ”جو راکل کا کہنا نہیں مانتا، اسے ہر صورت میں سزا سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ” “لیکن تو تو مجھے کسی کو پیغام دینے کے لئے قید خانے سے نکال کر لایا تھا۔؟ “
” پیغام تو میں تجھے دوں گا۔، موت کا پیغام ۔ ” یہ کہہ کر وہ پھر دیوانہ وار قہقہہ لگانے لگا۔
“کالے چراغ نے تیرے بارے میں ٹھیک کہا تھا کہ تو ایک خبیث مخلوق ہے۔” تانیہ کا غصہ انتہا پر تھا۔
“اس نے ٹھیک کہا تھا، میں واقعی خبیث مخلوق ہوں ۔ اب تو میری خباثت دیکھے گی..”
یہ کہ کر وہ سواروں سے مخاطب ہوا ۔
” اسے اٹھاؤ اور چاہ وفات میں ڈال دو۔ “
پھر جو کچھ ہوا چشم زدن میں ہوا۔ راکل کا حکم پاکر دونوں سوار اس کے دونوں ہاتھ کھینچتے ہوئے آگے بڑھے۔ پھر ایک جگہ رک کر انہوں نے تانیہ کے پیر پکڑ کر اوپر اٹھایا، ڈنڈا ڈولی کے انداز میں اسے جھونٹے دیئے اور پھر ایک عجیب سی آواز نکال کر اسے ہوا میں اچھال دیا۔ جب وہ نیچے گری تو تانیہ کو احساس ہوا کہ اسے کہاں پھینکا گیا ہے۔ وہ ایک بہت گہرا کنواں تھا، اور وہ اس میں گرتی چلی جارہی تھی۔
یہ چاہ وفات تھا۔ اس کنویں میں گرائے جانے والا کبھی زندہ نہیں بچتا تھا، وفات پا جاتا تھا۔ راکل، تانیہ کو کنویں میں پھنکوانے کے بعد پتھر نما چٹان پر کھڑا بے تحاشا قہقے لگائے جارہا تھا۔ اور اس کے قہقہے کسی طرح رکنے میں ہی نہیں آرہے تھے۔ پھر اچانک ہی راکل کی سماعت سے غرغراہٹ کی آواز ٹکرائی۔ اور یہ آواز نزدیک ہی تھی۔ راکل کے قہقے ایک دم سرد پڑ گئے۔ وہ ابھی تک ایک ٹانگ پر کھڑا تھا۔ اس نے گھبرا کر اپنا عصا بغل میں لے لیا
اور پیچھے گھوم کر دیکھا تو پس منظر یکسر بدلا ہوا تھا۔
وہ خوں آشام بھیڑیے تھے۔ بڑے جسیم اور تعداد میں بہت۔ انہوں نے اپنی سرخ لپ لپاتی زبانوں اور نوکیلے دانتوں سے ان چھ سواروں کو آناً فانًا ادھیٹر ڈالا جو راکل کے ساتھ آئے تھے۔ یہ سب اس قدر تیزی سے اور اچانک ہوا تھا کہ وہ مسلح سوار اپنے ہتھیار بھی سیدھے نہ کر پائے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہ بھیڑیے ہوا کا پردہ چاک کر کے اچانک کہیں سے نمودار ہو گئے ہوں ۔

سواروں کو ختم کرنے کے بعد بھیڑیوں نے گھوڑوں اور اونٹنیوں پر بھی حملہ کر دیا۔ سواروں پر حملے کے دوران گھوڑے اور اونٹنیاں پہلے ہی چوکنا ہو کر بھاگ نکلے تھے۔ پھر بھی بھاگتے گھوڑوں میں سے ان خونخوار بھیڑیوں نے دو گھوڑے گرا لئے اور آنًا فاناً ان دونوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ جو بچ گئے وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اب راکل تنہا رہ گیا۔ وہ اس اونچے اور بڑے پتھر پر عصا کو بیساکھی بنائے ان جیسی خونخوار بھیڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے ابھی تانیہ کو چاہ وفات میں پھنکوایا تھا، اسے کیا خبر تھی کہ دوسروں کو موت سے دوچار کرنے والے خود بھی موت کے دام میں آسکتے ہیں۔
بھیڑیے دس پندرہ نہ تھے، سیکڑوں کی تعداد میں تھے۔ اور ان بھیڑیوں نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ اب کوئی لمحہ جاتا تھا کہ وہ اس پر چھلانگ لگا کر زمین بوس کرنے والے تھے۔ پر اکل نے تب اپنا عصا بغل سے نکالا اور اسے ہاتھ میں پکڑ کر بلند کیا۔ ساتھ ہی وہ کچھ عجیب سے لفظ بولتا جاتا تھا۔ راکل کی اس حرکت پر وہ تمام بھیڑیے ایک لمحے کے لئے ایک قدم پیچھے ہٹ کر ساکت ہو گئے۔ وہ راکل کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔ پھر راکل کے عصا سے ایک پھڑپھڑاتا الو نکلا۔ اس کے بعد ایک کے بعد ایک الو نکلتے چلے گئے۔ آسمان آڑتے ہوئے الوؤں سے بھر گیا۔ پھر راکل کی آواز پر الوؤں نے بھیڑیوں پر حملہ کر دیا۔ لیکن یہ حملہ کامیاب نہ ہو سکا۔ وہ الو جیسے ہی بھیڑیوں پر حملہ کرنے کے لئے نیچے آتے۔ یہ بھیڑیے اچھل کر ان کے پر اپنے جبڑوں میں دبوچ لیتے اور انہیں چبا کر اڑنے سے مفلوج کر دیتے۔ زمین پر گرتے ہی دوسرے بھیڑیے انہیں چیر پھاڑ کر موت سے ہمکنار کر دیتے۔ راکل اپنی فوج کا یہ حشر دیکھ کر کپکپا اٹھا۔ اب آسماں پر ایک بھی اُلو نہ تھا۔ سب زمین پر مڑے تڑے اور ادھڑے ہوئے پڑے تھے۔ اور وہ خون آشام بھیڑیے پھر اس پتھر کو اپنے گھیرے میں لے رہے تھے جس پر راکل کھڑا تھا۔
وہ بھیڑیے اپنی چمکتی آنکھوں لپ لپاتی زبانوں اور کھلے دہشت ناک جبڑوں سے بڑی دلچسپی سے راکل کو دیکھ رہے تھے۔ جیسے کہہ رہے ہوں۔
” ہاں بھئی، اگر تیرے پاس اپنے دفاع میں استعمال کرنے کے لئے کوئی اور حربہ ہو تو جلدی سے آزما ڈال، ہمارے پاس وقت کم ہے۔”
راکل کے پاس اب کرنے کو کچھ نہ تھا۔ وہ بہت مایوسی سے ان بھیڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کچھ ہی لمحوں بعد یہ بھیڑیے اس پر چھلانگ لگائیں گے اور چیر پھاڑ کر برابر کر دیں گے۔ راکل کی توقع کے مطابق بھیڑیوں نے دوسرے لمحے اس پر جست لگائی، وہ پتھر سے لڑھکتا ہوا زمین پر آرہا۔
بھیڑیوں نے اسے بھنبھوڑا نہیں، چند بھیڑیوں نے مل کر اس کے ہاتھ پاؤں اپنے جبڑوں میں دبائے اور گھسیٹتے ہوئے لے چلے۔ اس کا بازو تو پہلے ہی زخمی تھا۔ تانیہ نے بیگ مار کر اسے زخمی کیا تھا۔ اب ان بھیڑیوں کے دانتوں کی گرفت اس کی جان نکالے دے رہی تھی۔
بھیڑیے اس کی تکلیف سے بے نیاز آگے بڑھتے جارہے تھے۔راکل ایک بھاری بھر کم شخص تھا۔ جب بھیڑیے اسے گھسیٹتے ہوئے تھک جاتے تو تازہ دم بھیڑیے ان کی جگہ لے لیتے اور راکل کو گھسیٹنے لگتے۔
راکل اب تکلیف کے باعث بے ہوش ہو چکا تھا۔
بھیڑیوں کو اس بات کی پروانہ تھی کہ راکل کس حال میں ہے۔ ہوش میں ہے یا ہوش گنوا بیٹھا ہے۔ وہ سدھے ہوئے کتوں کی طرح اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھے۔ راکل کو گھسیٹنے والے بھیڑیے جب تھک جاتے تو ان کی جگہ دوسرے بھیڑیے لے لیتے۔۔۔۔

وہ بھیڑیے بغیر رکے پوری رات سفر کرتے رہے۔۔
اب صبح کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔۔
سورج کا سرخ کنارہ افق سے ابھرتا ہوا نظر آرہا تھا۔
اور وہ بھیڑیے راکل کو ریت پر گھسیٹتے ہوئے لئے جارہے تھے۔۔
پھر ایک ایسا وقت آیا کہ بھیڑیے ایک جگہ ٹھہر گئے۔ یوں لگا جیسے کسی نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا ہو۔ وہ راکل کو چھوڑ کر پیچھے ہٹے اور پھر ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہو گئے اور زور زور سے ہانپنے لگے۔
راکل اوندھے منہ ریت پر پڑا ہوا تھا۔ اس کا جسم جگہ جگہ سے زخمی تھا۔ بھیڑیے اب اس سے قطعاً بے نیاز ہو چکے تھے۔ جیسے انہوں نے راکل کو ہدایت کے مطابق منزل پر پہنچا دیا ہو۔
وہ سارے کے سارے بھیڑیے اب اس الو پر نظر جمائے ہوئے تھے جو سامنے جھونپڑی کی چھت بیٹھا تھا۔ وہ ان بھیڑیوں کو دیکھتے ہی بےچین ہو گیا تھا۔
ایکا ایکی اس نے اڑنے کے لئے پر تولے ۔ اس کے اڑتے ہی آگے کھڑے چند بھیڑیے ایک دوسرے سے الگ ہو کر کھڑے ہو گئے۔ پھر جیسے ہی اس الو نے ان پر حملہ کرنے کے لئے نیچی پرواز کی۔ اس وقت دو بھیڑیوں نے اچھل کر اس کے پروں کو اپنے جبڑوں میں دبوچ لیا۔ پھر جیسے ہی وہ دونوں بھیڑیے ریت پر گرے۔ ان کے گرتے ہی دوسرے بھیڑیوں نے اس الو کو نوچ ڈالا
پھر چار بھیڑیے اپنے غول میں سے نکلے۔ اور انہوں نے جھونپڑی کے دروازے کی طرف رخ کیا جہاں ایک سانپ کنڈلی مارے اور پھن پھیلائے ان بھیڑیوں کو اپنی طرف آتا دیکھ رہا تھا۔ وہ چاروں بھیڑیے اس سانپ کے نزدیک پہنچ کر ایک دوسرے سے دور ہو گئے۔ سانپ کو چاروں بھیڑیوں پر بیک وقت نظر رکھنا مشکل ہو گیا۔ اسے اپنی جان خطرے میں نظر آنے لگی۔ اس نے گھبرا کر سامنے والے بھیڑیے پر حملہ کردیا۔۔
ابھی وہ سانپ آگے بڑھ کر اس بھیڑیے کو کاٹ نہ پایا تھا کہ پیچھے سے ایک بھیڑیے نے اس کی دم اپنے جبڑے میں لے لی۔ پھر ان تین بھیڑیوں کو اس ناگ کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔

الو اور سانپ کو ختم کرنے کے بعد جیسے ان کا کام مکمل ہو گیا۔ ان چاروں بھیڑیوں نے اپنی تھوتھنی اوپر اٹھا کر عجیب سی آوازیں نکالیں، اس کے بعد ایک سمت دوڑ لگا دی۔۔۔
ان کے آگے نکلتے ہی بقیہ بھیڑیے بھی ان چاروں کے پیچھے ہو لئے۔ ان کے دوڑنے کی وجہ سے ریت اڑنے لگی۔ اور پھر وہ ریت کے بادلوں میں اس طرح گم ہو گئے جیسے وہ ریت کے بنے ہوئے تھے۔

محسن راؤ کو کچھ معلوم ہی نہ تھا کہ اس کی جھونپڑی کے آگے کیا تماشا ہو چکا ہے۔ صبح کا وقت تھا ، وہ گہری نیند سو رہا تھا۔ پھر اس کے کانوں میں غراہٹ کی سی آوازیں آئیں۔ یہ کچھ غیر معمولی آوازیں تھیں۔ اس طرح کی آوازیں اس نے آج تک نہ سنی تھیں۔
وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ پھر جب تک اس کے ہوش و حواس بحال ہوئے۔ اور وہ اٹھ کر جھونپڑی کے دروازے پر آنے کے قابل ہوا، اس وقت تک بھیڑیے اپنا کام دکھا کر جاچکے تھے۔ دروازے کے سامنے ناگ ادھڑا ہوا پڑا تھا۔ اس سے آگے الو زمین پر، پر پھیلائے بے جان پڑا تھا۔ محسن راؤ ان دونوں محافظوں کا یہ حال دیکھ کر بہت خوش ہوا، وہ فوراً دروازے سے باہر نکل آیا۔
دروازے سے باہر نکلا تو اس نے زمین پر کسی جانور کے پنجوں کے بے شمار نشانات دیکھے۔ اور پھر اس کی نظریں راکل پر ٹھہر گئیں۔ وہ ریت میں منہ دیئے اوندھ لیٹا تھا۔ وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ اس کے جسم پر دانتوں کے بے شمار نشان تھے۔ وہ بری طرح زخمی تھا۔ اس کی ایک ٹانگ گھٹنے سے اوپر کٹی ہوئی تھی۔ یہ سب کیا تھا۔ بقاں کے محافظوں کو کس نے مارا تھا۔ اس شخص کو کس نے زخمی کیا تھا۔ یہ ہزاروں پنجوں کے نشانات کسی جانور کے تھے۔ یہ صبح ہی صبح کیا سے کیا ہو گیا تھا۔ بہر حال ان محافظوں کے مرنے کی اسے خوشی تھی۔ اب کم از کم وہ جھونپڑی سے باہر تو نکل سکے گا۔ بے شک وہ فرار نہیں ہو گا لیکن جھونپڑی سے باہر گھوم پھر تو سکے گا۔

محسن راؤ نے بمشکل اس اجنبی شخص کو سیدھا کیا۔ تب اسے احساس ہوا کہ وہ کس قدر کمزور ہو چکا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس بے ہوش شخص کو اپنی جھونپڑی میں لے جائے۔ لیکن اسے سیدھا کرنے میں کتنی دقت پیش آئی تھی تو اسے اٹھا کر یا گھسیٹ کر اندر لے جانا اس کے بس کا ہر گز نہ تھا۔
پھر اس نے سوچا کہ جھونپڑی میں سے پانی لاکر اس کے منہ پر چھینٹے مارے جب اسے ہوش آ جائے تو ال اسے سہارا دے کر جھونپڑی میں لے جائے ۔ وہ قدرے تیز چلتا ہوا جھونپڑی میں آیا۔ اس نے صراحی سے کٹورے میں پانی نکالا اور پھر اس اجنبی شخص کے پاس پہنچ گیا۔
اس نے کٹورے سے پانی لے کر اس کے منہ پر چھینٹے مارنے شروع کئے۔ ساتھ میں وہ اسے آوازیں بھی لگارہا تھا۔
“ارے بھائی، اے بھائی صاحب۔ ہوش میں آؤ ۔ “
بالآخر محسن راؤ اسے ہوش میں لانے میں کامیاب ہو گیا۔ راکل کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ریت پر لیٹا ہوا پایا۔ وہ بری طرح زخمی تھا۔ زخموں سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ اوپر آسمان تھا۔ اور اس کے سامنے ایک اجنبی شخص بیٹھا تھا۔ اس نے فوراً اٹھنے کی کوشش کی لیکن محسن راؤ نے اسے اٹھنے سے منع کر دیا وہ چاہتا تھا کہ وہ کچھ دیر لیٹا رہے تاکہ اسے مکمل طور پر ہوش آ جائے۔
“کون ہو تم؟ ” محسن راؤ نے اسے ہمدردی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“یہی سوال میں تجھ سے کرنا چاہتا ہوں ۔ ؟ ” راکل نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کیا۔
“میں ایک قیدی ہوں ۔ “ محسن راؤ نے اسے بتایا۔
“قیدی ہو، اس صحرا میں، تجھے کس نے قید کیا ہے؟”
” بقال نے۔ “ محسن راؤ نے بتایا۔
“اوہ ۔ ” راکل نے ٹھنڈا سانس لیا اور چپ ہو گیا۔
” کیا تم بقّاں کو جانتے ہو ؟ “
“کیا تو محسن ہے ؟ ” راکل نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کیا۔
محسن راؤ ایک اجنبی شخص کے منہ سے اپنا نام سن کر حیرت زدہ رہ گیا۔ اس نے گھبرا کر پوچھا۔
“تم کون ہو ؟ “
“میں راکل ہوں ۔ ” راکل نے اپنا تعارف کروایا۔
اوہ ۔ ” اس مرتبہ محسن راؤ کے ٹھنڈا سانس لینے کی باری تھی۔
“کیا تو مجھے جانتا ہے ؟؟”
” ہاں، میں تجھے اچھی طرح جانتا ہوں ۔ تو میری دشمن جاں کا بھائی ہے۔ “ محسن راؤ نے اسے گہری نظروں سے دیکھا۔
“تو مجھے کسی طرح جانتا ہے؟” راکل نے پوچھا۔
“یہی سوال میں تجھ سے کرنا چاہتا ہوں ؟”
“مجھے بقاں نے تیرے بارے میں بہت کچھ بتا رکھا ہے۔ “
“اور تیرے بارے میں سب کچھ مجھے کالے چراغ نے بتایا۔“ محسن بولا۔
“کالا چراغ ۔ ” وہ ایک دم گھبرا کر بولا۔ ”اوہ، غضب ہو گیا۔ “
“کیا ہوا ؟ “
“اتنا دن چڑھ آیا، مجھے تو سورج نکلتے ہی کالے چراغ کو سردار کولانا کے سامنے حاضر کرنا تھا۔ یہ بھیڑیے مجھے کہاں لے آئے، میں تو سمجھا تھا کہ یہ سردار کولانا کی فوج ہے۔ “
“اوہو، تو وہ باہر بھیڑیوں کے پنجوں کے نشان ہیں۔ کیا تجھے بھیڑیوں نے زخمی کیا ہے اور کیا بقاں کے محافظوں کو انہی نے مارا ہے ۔ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
“باں، ایسا ہی ہوا ہے ۔ “
“بقاں یہاں سے کالے چراغ کو زنجیروں میں جکڑ کر گھسیٹتی ہوئی لے گئی تھی۔ وہ بے چارہ تو راستے میں ہی دم توڑ گیا ہو گا۔ “
وہ خبیث اتنی آسانی سے مرنے والی چیز نہیں۔ کاش وہ مر گیا ہوتا تو آج مجھے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ “
“یہ سردار کو لانا کون ہے؟”
“کالا چراغ، سردار کولانا کا دست راست ہے۔ سردار کولانا کو کسی طرح معلوم ہو گیا کہ کالا چراغ میری قید میں ہے اس نے بقاں کو اغواء کروالیا۔ اور بدلے میں کالے چراغ کو مانگا۔ آج صبح میں کالے چراغ کو اس کے حوالے کر کے اپنی بہن کو لے آتا۔ لیکن اب تو کھیل ہی بگڑ گیا۔ اس نے مجھے وعدہ خلاف سمجھ کے کیا سے کیا کر ڈالا ہو گا۔ وہ بہت غصے والا حکمراں ہے اور ایک بڑی فوج کا مالک۔”
راکل نے بتایا۔
” تو بقّاں کو اغواء کر لیا گیا۔ اب وہ سردار کولانا کی گرفت میں ہے۔ یہ بات میری خوشی کا باعث ہے”
“تیرے لئے خوشی کی بات ہوگی ، میرے لئے نہیں وہ میری بہن ہے، میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔”
” تو نے اپنی بہن کو کبھی یہ نہیں سکھایا کہ دوسروں کو تکلیف نہیں دینا چاہئے ۔ “
“وہ تجھ سے بہت محبت کرتی ہے۔ “
“محبت میں تکلیف دینا جائز ہے۔ کسی کی زندگی تباہ کر دینا ٹھیک ہے۔ ؟؟.”
“تجھے تو بقاں کی محبت پر ناز ہونا چاہئے۔ “
“میرا ستیا ناس ہو گیا اور تجھے ناز کی سوجھی ہے، اس سے کہو وہ کالے چراغ سے محبت کی پینگیں بڑھالے، اور میری جان بخش دے۔ “
“اب تو خود اس کی جان خطرے میں ہے؟”
“اللہ کرے وہ مر جائے۔”
محسن راؤ کے دل سے بد دعا نکلی لیکن ہونٹوں پر نہ آئی۔ پھر اسے اپنی بہن کا خیال آیا۔ بقاں اسے اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ وہ اب کہاں ہے؟ اس کے بارے میں راکل نے اب تک کچھ نہیں بتایا تھا۔
“میری بہن کہاں ہے ؟ ” محسن نے پوچھا۔
“کون ، تانیہ؟؟ ” راکل نے گہرا سانس لیا۔
“ہاں، وہ خیریت سے تو ہے ۔ “
“میں نہیں جانتا۔ ” یہ کہہ کر اس نے دوسری طرف منہ موڑ لیا۔
“یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ راکل تو مجھ سے کیا چھپا رہا ہے “
“میں کچھ نہیں چھپا رہا۔ بس تو یوں سمجھ کہ وہ گم ہو گئی۔ “
“کہاں گم ہو گئی ؟ “
“میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا۔ ” راکل نے یہ کہہ کر سختی سے ہونٹ بھینچ لئے۔
تب محسن راؤ کو احساس ہوا کہ راکل زخموں سے چور ہے اور وہ اس سے مسلسل سوال جواب کئے جا رہاہے۔ اسے راکل کو اندر لے جانا چاہئے اور اس کے زخموں کا کوئی علاج کرنا چاہئے۔

“آ ، راکل اٹھ میرے ساتھ جھونپڑی میں چل۔ تو شدید زخمی ہے۔ “ محسن راؤ نے ہمدردی سے کہا۔

راکل نے آنکھ اٹھا کر بڑی ممنونیت سے محسن راؤ کو دیکھا۔ اسے انسان کی عظمت کا احساس ہوا۔ یہ انسان ہی ہے جو کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔ اس وقت یہاں کوئی غیر انسان ہوتا تو اس کے منہ پر ٹھوکر مار کر اپنا رستہ لیتا۔ بقاں نے ایک انسان سے محبت کر کے کچھ اچھا نہیں کیا۔ لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ معاملہ بہت آگے بڑھ گیا تھا۔
محسن راؤ میں جس قدر طاقت تھی، اس سے زیادہ طاقت صرف کرکے، اس نے راکل کو اٹھنے میں مدد دی۔ پھر وہ کسی نہ کسی طرح اسے جھونپڑی میں لے آیا۔ وہ اسے اٹھا کر بری طرح ہانپنے لگا۔ راکل اس کو خاموشی سے ہانپتے ہوئے دیکھتا رہا۔ کچھ دیر کے بعد جب محسن راؤ کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو اس نے پوچھا۔
”راکل، تیرے زخم کیسے ٹھیک ہوں گے۔ “
“یہ جو سامنے اُلو مرا پڑا ہے۔ اسے میرے پاس لا۔ “
راکل نے کہا۔ محسن باہر پڑے اُلو کو پر سے پکڑ کر اٹھا لایا۔ بھیڑیوں نے اس کا سر اور بازو چبا ڈالے تھے۔
“لے۔ ” محسن راؤ نے وہ الو راکل کے نزدیک رکھ دیا۔
“اب تو کچھ دیر کے لئے جھونپڑی سے چلا جا۔ “
“وہ کیوں ؟ ” محسن راؤ نے حیران ہو کر پوچھا۔
“میں جو اپنے زخموں کا علاج کروں گا، وہ تو دیکھ نہیں پائے گا۔ “
“اچھا، ٹھیک ہے، میں باہر چلا جاتا ہوں ۔ ” یہ کہہ وہ باہر نکل گیا۔
محسن راؤ کے باہر جانے کے بعد راکل نے اس اُلو کا دل اس کے سینے سے نکال کر اپنے منہ میں رکھا اور اسے پان کی طرح چبانے لگا۔ پھر اس نے الو کے خون سے اپنے ہاتھ بھرے اور اس خون کو زخموں پر ملنے لگا۔
جب اس نے الو کا خون اچھی طرح اپنے زخموں پر مل لیا، پھر آواز دی۔
”آجا، محسن آجا۔ “
محسن اندر آیا تو وہ اندازہ نہ کر پایا کہ راکل نے اس الو کی لاش کے ساتھ کیا کیا ہے، اس نے الو کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
”اسے باہر لے جا، گڑھا کھود کر گاڑ دے ۔ “
” میرے پاس گڑھا کھودنے کے لئے کوئی چیز نہیں ہے۔ “
“اپنے ہاتھوں سے ریت ہٹا کر، چھوٹا سا گڑھا بنا اور پھر اسے ریت سے ڈھک دے۔ “
محسن راؤ نے اس کی ہدایت کے مطابق اس مرے ہوئے الو کو ریت میں دبادیا، اور ہاتھ جھا ڑتا کھڑا ہوا۔

جب محسن راؤ جھونپڑی میں پہنچا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ راکل کے زخم بہت تیزی سے بھ تھے۔ کوئی آدھ گھنٹے کے اندر وہ مکمل صحت یاب ہو گیا۔ وہ بہت خوش تھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔ راکل کو خوش دیکھ کر محسن نے اس سے کہا۔
” دیکھ راکل میں نے تیرے ساتھ دشمنوں کا سا سلوک نہیں کیا۔”
“میں مانتا ہوں ۔ ” وہ اس کا مشکور تھا۔
“پھر مجھے سچ سچ بتا کیوں نہیں دیتا۔ “
“کس بارے میں؟۔ ” راکل نے پوچھا۔
“تانیہ کے بارے میں۔ مجھے بتادے کہ وہ کہاں ہے ۔ “
“آہ “
راکل نے تانیہ کا نام سن کر ایک سرد آہ بھری اور خالی خالی نظروں سے محسن کو دیکھنے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے کیا جواب دے۔ اس نے سر جھکا لیا۔ محسن اپنے سوال کے جواب کا منتظر تھا لیکن راکل نے بڑی دیر تک اپنا سر ہی نہ اٹھایا۔ تب محسن نے
اسے آواز دی۔
”راکل۔ “
راکل نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا۔ اور دھیرے سے بولا۔ ”جو ہونا تھا ہو چکا۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا”

محسن کو اس کا جواب سن کر بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے سوچا کہ میں نے اس سے پوچھا کیا تھا اور اس نے جواب کیا دیا ہے۔ شاید اس کا دماغ چل گیا ہے یا پھر یہ مجھے چلانا چاہتا ہے۔ بہرحال محسن کو اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ وہ صحیح جواب دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔۔ لہذا اس نے اس سے مزید سوال کرنا مناسب نہ سمجھا۔

“محسن کیا یہ ممکن ہے کہ تو کچھ دیر کے لئے جھونپڑی سے باہر چلا جائے۔ “
” ہاں، کیوں نہیں ۔ ” محسن نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ لیکن بات کیا ہے؟”
“جب تو تھوڑی دیر کے بعد واپس جھونپڑی میں آئے گا، تو تجھے بات کا خود بخود پتا چل جائے گا۔ “ را کل نے کہا۔

محسن اس کے کہنے پر جھونپڑی سے باہر نکل گیا۔ پھر وہ گھوم کر جھونپڑی کے پیچھے چلا گیا، کچھ دیر وہاں کھڑا رہنے کے بعد جب وہ واپس آیا اور اس نے اپنی جھونپڑی میں قدم رکھا تو حیران رہ گیا۔
راکل جھونپڑی میں موجود نہ تھا۔ محسن پھر فوراً ہی جھونپڑی سے باہر آیا۔ اس نے چاروں طرف نظر وڑائی لیکن اسے راکل جاتا ہوا کہیں دکھائی نہ دیا۔ البتہ ایک الو مغرب کی طرف اڑتا ہوا ضرور جا رہا تھا۔۔
راکل، محسن کو دھوکا دے کر نکل گیا تھا۔ وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ خود قسمت نے اس کے ساتھ کتنا بڑا فریب کیا تھا۔ اس پر کیسی کاری ضرب لگائی تھی۔

یہ بات اسے سنہرے کھنڈر پہنچ کر معلوم ہوئی۔ وہاں کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ سردار کولانا نے سنہرے کھنڈر کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔ اب یہاں کچھ نہ بچا تھا۔ ہر چیز تباہ ہو گئی تھی۔ ہر طرف تباہ کاری پھیلی ہوئی تھی۔
اور سردار کولانا کے ہر کارے راکل کی گھات میں بیٹھے تھے۔”

“سنہرے کھنڈر میں جب وہ اچھی طرح گھوم لیا اور اس نے اپنی تباہ کاری کی نشانیاں ہر طرف دیکھ لیں تو کولانا کے ہر کارے اس کے سامنے آگئے۔ اپنے محل اور اپنے علاقے کی تباہ کاری دیکھ کر وہ پہلے ہی ادھ مرا ہو رہا تھا۔ سردار کولانا کے ہر کاروں کو دیکھ کر اس کے اوسان بالکل ہی خطا ہو گئے۔ سردار کولانا کے ہر کاروں نے اسے زنجیر میں جکڑ لیا اور پھر جس طرح کالے چراغ کو لے جایا گیا ہے ویسے ہی راکل کو لے جایا گیا۔ اور اسے سردار کولانا کے سامنے لے جاکر ڈال دیا گیا۔ سردار کولانا نے اپنے لمبے بالوں پر ہاتھ پھیرا اور مسکراتے ہوئے بولا۔
” آؤ، فریبی ۔ “
“سردار کو لانا … دیواہ کالی کی قسم، میں نے کوئی فریب نہیں دیا۔ “
“دیکھ، دیواہ کالی کی اگر جھوٹی قسم کھائے گا تو میں تجھے چھوڑوں گا نہیں، ابھی رقیق کر دونگا۔ “
“میں سچ کہتا ہوں سردار میں نے تجھ سے جو وعدہ کیا تھا، وہ میں ہر قیمت پر پورا کرتا۔ میں سورج نکلتے ہی کالے چراغ کو لے کر یہاں پہنچ جاتا۔ لیکن چاہ وفات پر لاتعداد بھیڑیوں نے مجھ پر حملہ کردیا۔۔ اور وہ گھسیٹتے ہوئے لے چلے۔ راستے میں، میں زخموں کی تاب نہ لاکر ہوش گنوا بیٹھا اور جب مجھے ہوش آیا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ اب سردار تو ہی بتا کہ اس میں میرا کیا قصور ہے۔ “
” تیرے بارے میں کالا چراغ صحیح کہتا ہے کہ تو بڑا خبیث ہے۔ واقعی تو نے بڑی شاندار کہانی گھڑی ہے اور اوپر سے دیواہ کالی کی جھوٹی قسم بھی کھائی ہے۔ جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی۔ وہ بھی پوری ہو گئی۔ “
“میں سچ کہتا ہوں، سردار کولانا، تو میرا یقین کیوں نہیں کرتا۔ “
“چل کہتا ہو گا تو سچ … اب میں کیا کروں ۔ تو وقت پر نہیں پہنچا۔ لہٰذا وہ ہو گیا جو ہونا چاہنے تھا۔ “
“تو نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا، بالکل تباہ کر دیا ۔ “
“تو جانتا ہے کہ کالا چراغ ہمارا کس قدر اہم آدمی ہے۔ تو نے اسے کیا سوچ کر قید کیا۔ “
“بس، سردار مجھ سے غلطی ہو گئی۔ مجھے معاف کر دے ۔ ” راکل عاجزی سے بولا۔
“معافی ۔ ” سردار کولانا نے ایک زور دار قہقہ لگایا۔ ”بس، تجھے ایک صورت میں معافی ملی سکتی ہے۔ “
“وہ کیا ؟ “
“تجھے بقاں سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ “
“کیا تجھے وہ پسند آگئی ہے۔ کیا تو اس سے شادی کرنا چاہتا ہے ؟ ۔ “
راکل کی بات سن کر سردار کولانا نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور پھر بولا ۔ ”احمق ۔ “
راکل نے اسے نہ سمجھ میں آنے والی نگاہوں سے دیکھا۔ ”میں سمجھا نہیں۔ “
“سمجھے کا بھی نہیں، میں نے تجھے احمق یونہی نہیں کہہ دیا۔ ارے بے وقوف وہ کالے چراغ کی محبت ہے ۔۔تجھے بقّاں کو اس کے حق میں دست بردار ہونا پڑے گا ۔ “یہ ظلم ہے۔ “
“اور تمہاری بہن نے جو اولاد آدم کی زندگی حرام کر رکھی ہے۔ وہ ظلم نہیں ہے کیا ؟ “
“میں نہیں جانتا۔ ” اس نے راہ فرار اختیار کی۔
“لیکن نہیں بہت کچھ جانتا ہوں، میں نے ایک فیصلہ کیا ہے ۔ “

“وہ کیا؟” راکل نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

سردار کولانا نے جب اپنا فیصلہ سنایا تو راکل پر سکتہ طاری ہو گیا۔ وہ چیخ کر بولا۔
”نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا “
“کیوں نہیں ہو سکتا۔ ” سردار کولانا نے قدرے غصے سے کہا۔ ” اور تو کون ہے اعتراض کرنے والا؟؟.”
“میں تیرے اس فیصلے کو مانوں یا نہ مانوں لیکن بقاں کسی قیمت پر راضی نہیں ہوگی۔ وہ تو اس کی شکل
دیکھنے کی روادار نہیں۔ ” راکل نے کہا
“اسے بلاؤ۔ ” سردار کولانا نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔

اس کا اشارہ پاکر دو خادمائیں تیزی سے باہر نکل گئیں اور آنًا فانًا اسے کلائی سے پکڑ کر لے آئیں۔

بقاں نے اپنے بھائی کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھا تو اسے شدید صدمہ ہوا۔
راکل نے جب اپنی بہن بقال کو خادماؤں کے ساتھ اندر آتے دیکھا تو اسے شدید غصہ آیا۔ اس کی تباہی میں براہ راست بقاں کا ہاتھ تھا۔
“سردار کولانا کی خادماؤں بقّاں کا ہاتھ چھوڑ دو اور اسے عزت سے کرسی پر بٹھاؤ ۔ ” سردار کو لانا نے حکم دیا۔

یہ حکم سنتے ہی خادماؤں نے فوراً اس کے ہاتھ چھوڑ دیئے اور پھر اس کے سامنے آدھا جھک کر کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ لیکن بقّاں اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوئی۔
” کیا ہوا، آگے کیوں نہیں بڑھتی، کیا تجھے عزت راس نہیں۔ ” سردار کولانا نے سخت لہجے میں کہا
“جس کا بھائی زنجیروں میں جکڑا ہوا اس کے سامنے کھڑا ہو، وہ کرسی پر کس طرح بیٹھ سکتی ہے ؟؟؟”
“سردار کولانا کے خادموں، راکل کی زنجیریں کھول دو۔ “ سردار کولانا نے حکم دیا۔ ” اس کا اعتراض معقول ہے”

سردار کولانا کے حکم کی فوراً تعمیل ہوئی۔ پھر اسے بھی کرسی پیش کی گئی۔ دو خادماؤں نے اسے سہارا دے کر کرسی پر بٹھایا۔ اس کے کرسی پر بیٹھنے کے بعد بقاں نے بھی نشست سنبھال لی۔ لیکن اس کے چہرے پر پریشانی بر قرار رہی۔
” ہم نے ایک فیصلہ کیا ہے۔ تیری غیر موجودگی میں، تیرے بھائی کو اپنا فیصلہ سنایا تو اس نے کہا تو اس فیصلے کو نہیں مانے گی۔ اسی لئے تجھے طلب کیا گیا ہے کہ تجھے فیصلہ سنایا جائے ۔ ” سردار کولانا نے بتایا۔
“اپنا فیصلہ سنا ۔ ” بقّاں نے کہا۔
“راکل تو بتا۔ ” سردار کو لانا نے راکل کی طرف دیکھا۔ “سردار کولانا ، تیری شادی کالے چراغ سے کرنا چاہتا ہے۔ ” راکل نے بتایا۔
راکل کی زبان سے سردار کولانا کا فیصلہ سن کر بقّاں کے ہوش اڑ گئے۔ وہ فورا غصے میں بولی۔ “
“ہرگز نہیں ہو سکتا۔ “
“یہی بات ابھی تیرے بھائی نے بھی کی تھی۔ اب تم دونوں میری بات کان کھول کر سن لو۔”
سردار کولانا نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
” میرا فیصلہ سورج کی طرح اٹل ہے۔ جس طرح سورج کو مشرق سے نکلنا ہوتا ہے ویسے ہی سردار کولانا کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ پر عملدر آمد ہونا ہوتا ہے۔
رات بارہ بجے، دیواہ کالی کے سائبان تلے تجھے اور کالے چراغ کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا جائیگا۔ “
اتنا کہہ کر سردار پھر اپنی خادماؤں سے مخاطب ہوا۔ “سردار کولانا کی خادماؤں بقّاں کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور شادی کی تیاریاں کرو۔ “
سردار کولانا کے دربار میں اس وقت جتنی خادمائیں حاضر تھیں۔ سب کی سب بقاں کو لے کر اندر چلی گئیں۔ بقاں پر سکتے کی سی کیفیت طاری تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا راہ عمل اختیار کرے۔؟؟

بقاں کے جانے کے بعد سردار کولانا، راکل سے مخاطب ہوا ۔
” اب تو بول، تیرا کیا کیا جائے ..؟”
“یہ تو اچھا نہیں کر رہا۔ “
” وہ انسان کی بچی کہاں ہے جسے تیری بہن نے تیری خدمت میں پیش کیا تھا۔ ” سردار کولانا نے پوچھا۔
“اسے میں نے چاہ وفات میں پھنکوا دیا۔ “
راکل نے صاف گوئی سے کام لیا۔
“تیری بہن نے اس کے بھائی پر قبضہ کر لیا اور تو نے اس غریب کو موت سے ہمکنار کر دیا۔ پھر بھی مجھ سے کہتا ہے کہ میں اچھا نہیں کر رہا۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تو اور تیری بہن نے اب تک جو کیا ہے اچھا کیا ہے۔۔۔؟ ” سردار کولانا نے طنزاً پوچھا۔

راکل اس بات کا کیا جواب دیتا۔ اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس نے اپنا سر جھکا لیا۔

“اب تجھے ایک کام کرنا ہو گا۔ “ سردار کولانا بولا۔
“حکم کر سردار کولانا۔ ” راکل کا ابھی تک سر جھکا تھا۔ “شادی میں شرکت کے بعد تجھے اس انسان کے بچے کو صحت یاب کرنا ہو گا، اس کے بعد اسے اس کی دنیا میں چھوڑ کر آنا ہو گا۔ “
“مجھے منظور ہے سردار کو لانا ۔ “
” یہ مت سمجھنا کہ تو اس طرح راہ فرار اختیار کر جائے گا۔ تجھے اپنی روح کو گروی رکھ کر جانا ہو گا۔ اب تو میرے حکم پر عملدر آمد کر کے واپس آجائے گا تو پھر سوچا جائے گا کہ تجھے معاف کر دیا جائے یا نہیں۔”
“مجھے یہ بھی منظور ہے۔ “
” پھر ٹھیک ہے۔ سردار کولانا کے خادموں، راکل کو ساتھ عزت کے لے جاؤ۔ اسے بڑے مہمان کا درجه دو “

سردار کولانا کے چھ خادم آگے بڑھے اور راکل کو احترام کے ساتھ مہمان خانے کی طرف لے گئے۔ راکل کے جانے کے بعد دربار میں حاضر خادموں کو سردار کولانا نے جانے کا اشارہ کیا۔
جب دربار خالی ہو گیا اور سردار کولانا تنہا رہ گیا تو اس نے تین بار تالی بجائی۔ تالی کی آواز سن کر وہ ستون کی آڑ سے نکلا اور مسکراتا ہوا سردار کو لانا کے سامنے آکھڑا ہوا۔ سردار کولانا نے اسے اپنے قریب ہی مسند پر بٹھا لیا۔ ساتھ بیٹھنے کا اعزاز صرف اسی کو حاصل تھا۔
وہ سردار کولانا کا دماغ تھا، اس کا دست راست تھا۔ اس کا ” ایاز ” تھا۔ وہ کالا چراغ تھا۔
” کالے چراغ تجھے بقاں مبارک ہو، آج کی رات وہ تیری ہو جائے گی۔ ” سردار کولانا نے مسکرا کر کہا
“میں تیرا غلام۔ تیرا شکر گزار ہوں ۔ “
کالے چراغ نے بہت مودبانہ لہجے میں کہا۔
“ایک بات بتا، میں نے جو کیا ٹھیک کیا۔؟ “
” محسن راؤ کو میں خود اس کی دنیا میں چھوڑ کر آنا چاہتا ہوں۔ “ کالے چراغ نے خواہش ظاہر کی۔
“تیرا کیا خیال ہے کہ اس کی روح گروی ہونے کے باوجود وہ میرے ساتھ دھو کا کرے گا۔ “
“اس نے محسن کی بہن کو چاہ وفات میں پھنکوا دیا ہے۔ اس بات کی کیا ضمانت ہوگی کہ وہ اسے واقعی اسکی دنیا تک چھوڑ آئے گا۔ اگر اس نے راستے میں ہاتھ دکھا دیا تو پھر کیا ہو گا۔؟؟ “
” ہاں، یہ بات بھی تو ٹھیک کہتا ہے۔ اس خبیث کا کوئی بھروسہ نہیں۔ یوں بھی اس عیار کا زندہ رہنا ٹھیک نہیں۔ پھر تیرا کیا خیال ے رقیق کر دیا جائے۔ ” سردار کولانا نے خیال ظاہر کیا۔
“ہاں، یہی مناسب ہے۔ ” کالے چراغ نے فوراً تائید کی۔
“اگر یہ زندہ رہا تو بقاں کو بہکاتا رہے گا۔ میری جان کا دشمن تو پہلے ہی تھا، اب تو بھی اس کی فہرست میں آگیا ہے۔ معافی کی صورت میں یہ کچھ عرصے بعد پھر سر اٹھائے گا۔ اس لئے بہتر ہی ہے کہ اس کے پھن اٹھانے سے پہلے ہی اس کا منہ کچل دیا جائے گا۔ “
“ایسا ہی ہوگا۔ ” سردار کولانا نے اسے تسلی دی۔
“لیکن تو جانتا ہے کہ اسے رقیق کرنے کے لئے دیواہ کالی سے اجازت لینا ہوگی۔ “
“میں سمجھتا ہوں کہ یہ اجازت بآسانی مل جائے گی کیونکہ اس کے جرائم کی فہرست خاصی طویل ہے۔ ” کالے چراغ نے کہا۔
“بس اب تو بے فکر ہو جا، میں دیواہ کالی کے دربار جاکر اجازت نامہ لے آؤں گا۔ تو جب تک اپنی دلربا کے ساتھ جشن منا۔ “
“میں تیرا غلام تیرا شکر گزار ہوں ۔ ” کالے چراغ نے مودبانہ لہجے میں کہا۔
“آ، کچھ دیر آرام کرلیں۔ “
کالا چراغ جب سوکر اٹھا تو سورج ڈھل رہا تھا۔ سائے پھیل رہے تھے۔ دیواہ کالی کے سائبان والے میدان میں لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ دیواہ کالی کا سائبان بھی عجب چیز تھا۔ چار ستون کھڑے تھے۔ ان ستونوں پر نہ کوئی چھت تھی اور نہ سائبان نام کی کوئی چیز۔ چاروں ستونوں کے درمیان ایک چھوٹا سا حوض تھا، اس حوض میں پانی نہ تھا۔ آگ بھری ہوئی تھی۔ اس حوض کی آگ آج تک نہ بجھی تھی۔ بس اسی مقام کا نام دیواہ کالی کا سائبان تھا۔
اندھیرا پھیلتے ہی اس حوض کی آگ سے بے شمار مشعلیں روشن کی گئیں۔ اور انہیں میدان میں گاڑدیا گیا۔ اس طرح شادی کی تقریب کا آغاز ہوا۔

جب اندھیرا خوب گہرا ہو گیا تو رقص زنجیری شروع ہوا صرف لوہے کی زنجیریں پہنیں قدآور خوبصورت عورتیں میدان میں اتریں اور انہوں نے زنجیروں کو ایک دوسرے سے ٹکرا کر رقص زنجیری کا آغاز کیا
ایک خاص انداز میں اٹھتے قدم، زنجیروں کی جھنکار اور قد آور خوبصورت عورتوں کے چمکتے بدن،
دیکھنے والوں کو مسحور کئے دے رہے تھے۔
جب ایک گروپ رقص کرتے ہوئے تھک جاتا تو اس کی جگہ نیا گروپ لے لیتا۔ چودہویں کا چاند جب پوری آب و تاب کے ساتھ آسمان کی پیشانی پر جھومر بن کر جگمگانے لگا اور بارہ کا عمل قریب آنے لگا تو سردار کولانا نے ایک مشعل اٹھا کر دولہا دلہن کو دیواہ کالی کے سائبان میں لانے کا اشارہ کیا۔
کچھ دیر کے بعد جب سردار کولانا کی نظر دیواہ کالی کے سائبان کی طرف اٹھی تو وہ یہ دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ وہاں صرف کالا چراغ تھا۔ یہ بڑی بدشگونی کی بات تھی۔ دیواہ کالی کے سائبان میں دولها، دلہن ساتھ جا کر کھڑے ہوتے تھے۔
یہ آخر بقاں کہاں گئی۔؟؟
سردار کو لانا اپنی نشست سے اٹھا تو اسے اٹھتا دیکھ کر رقص کرنے والی عورتیں ٹھہر گئیں، پتھر ہو گئیں
انہوں نے بھی کالے چراغ کو دیواہ کالی کے سائبان میں تنہا کھڑا دیکھ لیا تھا۔
میدان میں رقص رکتے ہی سناٹا چھا گیا۔ جلدی جلدی مشعلیں بجھائی جانے لگیں۔ مشعلوں کی روشنی ختم ہوگئی صرف چاند کی روشنی رہ گئی۔
سردار کولانا تیز تیز قدم چلتا، دیواہ کالی کے سائبان کے پاس پہنچا۔ کالے چراغ کا چہرہ حوض میں جلتی آگ کی وجہ سے لال ہو رہا تھا۔ اس کے چہرے پر غم و اندوہ کے بادل چھائے ہوئے تھے۔

“تو اکیلا کیوں ہے؟” سردار کولانا نے دریافت کیا۔
“وہ چلی گئی، میری بقاں چلی گئی۔ “
“. کیا بکتا ہے، سردار کولانا کے علاقے سے کوئی کیسے فرار ہو سکتا ہے، یہ بات تو اچھی طرح جانتا ہے..”
“سردار کولانا۔ تیرا غلام سب جانتا ہے، وہ فرار نہیں ہوئی، کاش ! وہ فرار ہو جاتی ۔ “
پھر کیا ہوا ؟ ” سردار کولانا نے پوچھا۔
“وہ رقیق ہو گئی۔ ” کالے چراغ نے درد ناک خبر سنائی۔
“دیواہ کالی کی قسم یہ اس نے کیا بے وقوفی کی۔ ” سردار کو لانا پریشان ہو گیا۔
” اسے میری صورت سے بھی نفرت تھی، وہ بھلا مجھ سے شادی کیوں کر لیتی، یہ میری بھول تھی “
“آمیرے ساتھ ۔ مجھے دکھا، کہاں ہے وہ ؟ “

کالا چراغ، سردار کو لانا کو لے کر اس کمرے میں پہنچا جہاں بقال رقیق ہوئی پڑی تھی۔
عروسی جوڑا مسہری کے ایک جانب پڑا تھا اور درمیان میں گہرے سرخ رنگ کا سیال تھا۔ یہ سیال بالکل پارے کی طرح کا تھا۔ اگر اس سیال کو مٹھی میں بھریں تو مٹھی میں کچھ نہ رہے اور ہاتھ بھی خراب نہ ہو ۔۔
بقاں نے اپنی جان، اپنے ہاتھوں لے لی تھی۔ اس نے کالے چراغ سے شادی سے بچنے کے لئے خود کشی کر لی تھی۔ کالا چراغ بے حد اداس تھا۔ اگر اسے یہ معلوم ہوتا کہ وہ اس سے اس قدر نفرت کرتی ہے کہ رقیق ہونے کا کرب بھی جھیل لے گی لیکن اس سے شادی نہیں کرے گی تو وہ شادی کی پیشکش کو واپس لے لیتا، کم از کم زندہ
رہنے کی صورت میں وہ اس کی شکل تو دیکھ سکتا تھا۔

اب تو سارا کھیل ہی ختم ہو گیا تھا۔ بہرحال رسم کے مطابق چاندی کی ایک گاگر منگائی گئی۔ کالے چراغ نے اس سیال مادے کو گاگر میں بھر دیا۔ اس کے منہ پر کپڑا باندھا۔ اور اس گاگر کو اپنے کندھے پر اٹھا کر سردار کولانا کے محل سے باہر نکلا۔۔ دیواہ کالی کے سائبان کی طرف بڑھا۔
دیواہ کالی کے سائبان میں پہنچ کر کالے چراغ نے گاگر حوض کی دیوار پر رکھ دی ۔ اور پھر اس جلتے ہوئے حوض کے سات چکر کاٹے۔ سات چکر پورے ہونے کے بعد اس نے حوض کی دیوار سے وہ گاگر اٹھائی اور اسے ایک مرتبہ پھر اپنے کندھے پر لاد کر چاند کے رخ چل پڑا۔ اس کے پیچھے چار گھڑ سوار چل رہے تھے جو ضروری سامان سے لیس تھے۔
کالا چراغ، بقاں کے جسد سیال کو لادے اس وقت تک چلتا رہا جب تک چاند دھندلانے نہیں لگا۔ جب چاندنی پھیکی پڑنے لگی تو وہ ایک ریت کے ٹیلے کے نزدیک پہنچ کر رک گیا۔ اس کو رکتا دیکھ کر وہ چاروں گھڑ سوار فوراً اس کے نزدیک پہنچ کر گھوڑوں سے اتر گئے۔ کالا چراغ ایک جگہ منتخب کر کے گاگر اپنے کندھے سے اتار کر رکھ چکا تھا۔ ان چاروں گھڑ سواروں نے ریت میں لوہے کی لمبی میخیں گاڑیں۔ ان میخوں میں اپنے ساتھ لائی زنجیریں باندھیں اور پھر ان چاروں زنجیروں کے سرے، میخوں کے درمیان رکھی ہوئی گا گر کی گردن میں
کس دیئے ۔ پھر وہ چاروں پیچھے ہٹ گئے۔ اور ایک قطار میں سر جھکا کر کھڑے ہو گئے۔
کالے چراغ نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنی مٹھی میں ریت بھری اور وہ ریت اپنے سر میں ڈال لی۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کر کے کہا۔
” لاؤ۔ “
ان میں سے ایک گھڑ سوار آگے بڑھا اور ایک بیلچہ کالے چراغ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ کالا چراغ بیلچہ ہاتھ میں لے کر کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے وہ بیلچہ زور سے گاگر پر مارا۔ اور سات قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
” بقّاں تو نے جس سے محبت کی، وہ تجھ سے نفرت کرتا رہا اور جس نے تجھ سے محبت کی، اس سے تو نفرت کرتی رہی۔ اور یہی نفرت تجھے آسمانوں میں لے گئی۔ مجھے کیا ملا۔ یہ اب تو اچھی طرح جان گئی ہوگی۔ کاش! تجھے زندگی گنوانے سے پہلے عقل آگئی ہوتی۔ تجھے سچی محبت کی پہچان ہو گئی ہوتی۔ میں تجھ سے آج بھی محبت کرتا ہوں اور زندگی بھر اسی طرح کرتا رہوں گا۔ تو میرے دل میں، میری آنکھوں میں، میرے خیالوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ چاند سورج کے مالک سے میں تیری مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔”
یہ کہتے کہتے اس کی آنکھوں سے دو آنسو ٹپکے اور ریت میں جذب ہو گئے۔
پھر وہ آگے بڑھا اس نے گاگر کے نزدیک پہنچ کر بیلچے سے گاگر پر ریت ڈالی ۔ سات بار ریت ڈالے کے بعد وہ پیچھے ہٹا اور بیلچہ اس گھڑ سوار کے ہاتھ میں دے دیا جس سے لیا تھا۔ اس کے بعد وہ ایک طرف سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔
وہ چاروں گھڑ سوار آگے بڑھے۔ ان چاروں کے ہاتھ میں بیلچے تھے۔ وہ بیلچے میں ریت بھر بھر کر اس گاگر پر ڈالنے لگے۔ تھوڑی دیر میں زنجیریں ریت میں دب گئیں اور ریت گاگر کی گردن تک پہنچ گئی۔
تدفین مکمل ہو چکی تھی۔
ایک گھڑ سوار نے اپنا گھوڑا کالے چراغ کو پیش کیا۔ وہ اس پر سوار ہو گیا اور پھر وہ گھڑ سوار جس کا گھوڑا کالے چراغ کے تصرف میں آگیا تھا، وہ دوسرے گھڑ سوار کے ساتھ بیٹھ گیا اور یوں واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔ سورج روشن ہونے تک وہ اپنے علاقے میں پہنچ گئے۔ تب ہی انہیں سامنے سے ایک گھڑ سوار بہت سے گھوڑا دوڑاتا ہوا نظر آیا۔ جب وہ قریب آیا تو کالے چراغ نے دیکھا کہ وہ سردار کولانا کا محافظ خاص تھا اور اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔
“کیا ہوا ؟ “
” کالا چراغ جلدی چل، تجھے سردار نے طلب کیا ہے، وہ کافی دیر سے تیرا منتظر ہے۔ “ وہ ہر کارہ بولا
“کیا تجھے اس انتظار کی وجہ معلوم ہے ؟ ” کالے چراغ نے پوچھا۔
“وہی خبیث ” ہر کارے نے جواب دیا۔ .
“کیا راکل نے کوئی گڑ بڑ کی ہے۔؟؟ ” کالے چراغ نے اس کا اشارہ سمجھتے ہوئے تصدیق چاہی۔
” اس خبیث نے سردار پر حملہ کیا اور نکل گیا۔ ” ہر کارے نے بتایا۔
“سردار زخمی تو نہیں ہوا ؟ “
“ہاتھ زخمی ہوئے ہیں، آنکھیں بچ گئیں ۔ ” ہر کارہ فکر مند لہجے میں بولا۔
“اوہ ۔ “
کالا چراغ پہلے ہی کیا کم افسردہ تھا، اس اطلاع نے اسے مزید افسردہ کر دیا۔ اس نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ہوا کے دوش پر اڑتا ہوا سردار کولانا کے محل پہنچ گیا۔
پھر وہ گھوڑے سے کود کر تقریباً دوڑتا ہوا سردار کولانا کے نشست گاہ تک پہنچا۔
کالے چراغ کو اندر آتے دیکھ کر سردار کولانا نے ہاتھ کے اشارے سے خادماؤں اور خادموں کو کمرے سے چلے جانے کا اشارہ کیا۔ وہ ایک اونچی کرسی پر بیٹھا تھا اور کالے چراغ کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا

“پریشان مت ہو، میں ٹھیک ہوں ۔ “
” بالآخر وہ اپنی خباثت دکھانے سے باز نہیں آیا۔ آخر یہ سب ہوا کیسے ؟ ” کالے چراغ نے فکرمند کر پوچھا۔
“تیرے جانے کے بعد جب میں نے بقاں کے رقیق ہونے کی اطلاع اس تک بھیجی تو وہ کمرے میں نہیں تھا۔ اس کے کمرے سے غائب ہونے کی اطلاع پر میں پریشان ہو گیا۔ میں یہ دیکھنے کے لئے کہ معاملہ کیا ہے۔ اپنے کمرے سے نکل کر باہر آیا تو وہ میری تاک میں تھا۔ بس وہ اچانک ہی مجھ پر حملہ آور ہوا، اس کے حملہ آور ہوتے ہی اچانک میری نظر اس پر پڑ گئی اور میرے ہاتھ آنکھوں پر چلے گئے۔ میری آنکھیں بچ گئیں البتہ ہاتھ زخمی ہو گئے۔ خیر وہ بچ کر کہاں جائے گا۔ بہت ہو گئی۔۔ اب ہمیں دیواہ کالی کے دربار میں جانا ہوگا۔”
پہلے اسے سنہرے کھنڈر میں نہ تلاش کر لیں۔ ؟؟” کالے چراغ نے تجویز پیش کی۔
“اول تو وہ وہاں جائے گا نہیں، اگر گیا بھی تو اس کا ہاتھ آنا مشکل ہوگا۔ “ سردار کولانا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ “کیا پتہ ہاتھ آہی جائے۔ ہمیں وہاں جا کر دیکھنا چاہئے۔ ہاتھ اگر نہ بھی آیا تو کم از کم اس کے بارے میں یہ اندازہ تو ہو جائے گا کہ وہ وہیں ہے۔ دیواہ کالی کو بتانے میں آسانی رہے گی۔ “ کا چراغ بولا۔
“تو نے دیواہ کالی کو کیا سمجھا ہے ؟” سردار کو لانا غصیلے لہجے میں بولا۔
“میں تیرا غلام۔ میرا یہ مقصد نہ تھا۔ ” کالا چراغ نے فوراً سر جھکا لیا۔
“اب تو ان باتوں کو چھوڑ دیواہ کالی کے دربار میں چلنے کی تیاری کر ۔ ” سردار کولانا نے حکم دیا۔
“آج ہی جانا ہے۔ ؟” کالے چراغ نے دریافت کیا۔
“ہاں ۔ ” جواب ملا۔
“تیرے ہاتھ زخمی ہیں۔ ” تشویش بھرے لہجے میں کہا گیا۔
“اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ” سردار کولانا پھر کچھ سوچ کر بولا۔ ” یہ زخمی ہاتھ گواہی کے کام آئیں گے۔ “
“تو ٹھیک کہتا ہے۔ میں پھر جانے کے لئے سواری کا انتظام کرواتا ہوں ۔ “
یہ کہہ کر کالا چراغ نشست گاہ سے باہر نکل گیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ تیز رفتار اونٹوں پر سوار دیواہ کالی کے آتش کدے کی طرف اڑے چلے جارہے تھے۔۔
اڑا تو وہ بھی چلا جا رہا تھا۔ اس کا رخ لیکن سنہرے کھنڈر کی طرف نہ تھا۔
وہ اس صحرا کی طرف جارہا تھا جہاں محسن راؤ کی جھونپڑی تھی۔
ادھر کالا چراغ اور سردار کولانا دیواہ کالی کے دربار میں پہنچے تو ادھر راکل محسن راؤ کی جھونپڑی کی چھت پر آبیٹھا۔
محسن راؤ اپنی جھونپڑی میں محو خواب تھا۔ اس کے پاس کام ہی کیا تھا، کھانا اور سو جانا۔ اس وقت بھی
وہ کھانا کھا کر سویا تھا۔ اچانک اسے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی بھاری پرندہ اس کے سینے پر آبیٹھا ہے۔ وہ ہر بڑا کر اٹھ گیا۔
اس نے جھونپڑی میں چاروں طرف دیکھا۔ کہیں کوئی پرندہ نہ تھا۔ شاید وہ خواب دیکھ رہا تھا۔ اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور اپنی جھونپڑی سے باہر نکل آیا۔ جب سے اس کے محافظ مرے تھے تب سے محسن راؤ کو باہر نکلنے میں کوئی دقت نہ تھی۔ یہ آزادی ملے ابھی ہوئے ہی کتنے دن تھے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ذرا اس کی صحت بحال ہو جائے تو وہ پھر یہاں سے جانے کے بارے میں سوچے۔ باہر نکل کر اس نے سامنے دور تک نظر دوڑائی۔ کچھ نہ تھا بس ریت کے بگولے رقصاں تھے۔ وہ یوں ہی چلتا ہوا، جھونپڑی کے پیچھے چلا گیا۔
محسن راؤ کے جھونپڑی کے پیچھے جاتے ہی، وہ الو نیچے اترا اور جھٹ سے دروازے میں داخل ہو گیا۔ محسن راؤ جھونپڑی کا چکر کاٹ کر واپس آیا۔ اسے پیاس محسوس ہو رہی تھی۔ جب وہ جھونپڑی کے دروازے میں داخل ہو کر سیدھا کھڑا ہوا تو راکل کو اپنے سامنے دیکھ کر حیرت
زدہ رہ گیا۔ وہ بری طرح ہانپ رہا تھا جیسے کہیں بہت دور سے دوڑتا ہوا آیا ہو۔

“راکل تو ۔؟؟ ” محسن راؤ نے حیران ہو کر کہا۔ ” تو اس وقت کہاں غائب ہو گیا تھا؟؟۔ “
” غائب ہونا اور حاضر ہو جانا، ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں اب تجھ سے آخری ملاقات کرنے آیا ہوں ۔ “

‘کیوں آخر ؟ محسن راؤ نے کہا۔
“محسن میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، میں جانتا ہوں کہ کسی بھی وقت میرا بلاوا آسکتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ سردار کولانا اب تک دیواہ کالی کے دربار میں پہنچ چکا ہو گا۔ میں نے جو کیا ہے۔ اس کی سزا بہر حال مجھے بھگتنا ہوگی۔ مجھے ہر قیمت پر رقیق ہونا ہو گا۔ “
“میں نہیں جانتا، تو کیا کہہ رہا ہے۔ “
“میں جانتا ہوں، جو کہہ رہا ہوں تو بس سنتا جا۔ ” راکل نے گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے کہا۔
” تو نے اس دن پوچھا تھا کہ تیری بہن تانیہ کہاں ہے۔ جواب میں، میں نے تجھے گول مول سا جواب دے دیا تھا کہ وہ گم ہو گئی ہے۔ “
ہاں، مجھے یاد ہے تو نے یہی کہا تھا اور اس سے پہلے کہ میں مزید بحث کرتا تو غائب ہو گیا تھا۔ “
“محسن ایک بات بتا، بقاں تیرے لئے کیا ہے؟”
“بقاں، میرے لئے آگ ہے جو مجھے جلاتی ہے۔ وہ دو دھاری تلوار ہے جو میرے وجود کو لہولہان کرتی ہے۔ وہ بور کا لڈو ہے جسے نگلنا بھی مشکل اور اگلنا بھی مشکل۔ “
“محسن، تیری آگ، اپنی ہی آگ میں جل مری، تیری دوھاری تلوار خود کو لہولہان کر بیٹھی، تیرا بور کا لڈو سارا کا سارا انگل گئی۔ ” راکل نے عجب انداز اختیار کیا۔
“میں نہیں جانتا کہ تو کیا کہہ رہا ہے ۔ “
“نہیں جانتا تو جان لے کہ تیری بقاں رقیق ہو گئی، اس نے خود کشی کرلی ۔ “
خود کشی کر لی بقاں نے۔؟؟ ارے۔ یہ کیا ہو گیا ۔ “
اس کی عجیب حالت ہو گئی۔ اسے اپنی سماعت پر یقین نہ آیا۔ دوسروں کو مارنے والی کیا خود کو بھی مار سکتی ہے۔ اوہ، یہ کیسی خبر ہے۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ خوش ہو یا رنجیدہ ہو جائے ۔ اس کا ذہن ایک دم خالی ہو گیا۔ دل ہر جذبے سے عاری ہو گیا۔ وہ خالی خالی نگاہوں سے راکل کو دیکھنے لگا۔
“ہاں، محسن ….. میری بقاں مر گئی، تیری بقاں مرگئی۔” راکل پر رقت طاری تھی۔
” اوه یه بہت برا ہوا یا شاید بہت اچھا ہوا ۔ ” محسن راؤ نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا۔
” یہ بہت برا ہوا ہے محسن اور یہ سب اس چمگادڑ کے بچے کی وجہ سے ہوا ہے ۔ “
“کون چمگادڑ کا بچہ ۔ ؟ میں سمجھا نہیں۔ “
“وہی کالا چراغ میری بقاں کی، کالے چراغ کے ساتھ زبردستی شادی کی جارہی تھی۔ اور وہ یہ برداشت نہ کر سکی۔ اس نے رقیق ہونا منظور کر لیا لیکن اس کی ہونا منظور نہ کیا۔ محسن اصل میں وہ تیری تھی۔ تیرے سوا اسے کچھ سوجھتا ہی نہ تھا۔ وہ بڑی محنت سے ایک عمل کر رہی تھی، اس کے بعد تو ہمیشہ کے لئے اس کا ہو جاتا۔ وہ تجھ پر مرتی تھی۔ بالآخر وہ تجھ پر قربان ہو گئی ۔ محسن، اب تو آزاد ہے۔ جا اپنی دنیا میں لوٹ جا۔ میرے پاس وقت کم ہے ۔ مجھ سے اب کوئی سوال نہ کر ۔ جا، باہر تیرے لئے سواری موجود ہے۔ اس پر بیٹھ جا، یہ تجھے دھویں کی دیوار پار کرادے گی۔ دھویں کے اس پار تیری دنیا ہے۔ چل اٹھ ، جلدی کر۔ دیواہ کالی کے دربار میں کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ بس کسی پل مجھے موت کا پیغام دیا جانے والا ہے۔ جا محسن جا… دیواہ کالی تیری حفاظت کرے۔ ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا میں نے تیری بہن تانیہ کو چاہ وفات میں پھنکوا دیا تھا۔ اس نے میری بات نہیں مانی تھی۔ میں اس کے سحر میں مبتلا تھا۔ آہ۔۔۔ بلاوا، آپہنچا۔ میں اب جاتا ہوں ۔ جاتا ۔۔۔۔۔۔۔”
وہ بولتے بولتے ایک دم خاموش ہو گیا۔ پھر جو کچھ ہوا چشم زدن میں ہوا تھا۔ وہ ایک دم سمٹا اور پھر پر پھڑ پھڑاتا ہوا دروازے سے نکل گیا۔ محسن جلدی سے نکل کر باہر آیا۔ اس نے دور تک آسمان پر دیکھا لیکن کہیں کچھ نہ تھا۔ جھونپڑی سے کچھ فاصلے پر ایک سجی سجائی اونٹنی بیٹھی ہوئی جگالی میں مصروف تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ جو کہہ رہا تھا، کر گیا تھا۔ محسن نے اب وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے جلدی جلدی اپنی ضروری چیزیں سمیٹی اور اس اونٹنی پر سوار ہو گیا۔ اونٹنی اس کے بیٹھتے ہی اٹھی اور ہوا ہو گئی۔

محسن کی جھونپڑی سے نکلتے ہی ہوا تو خیر وہ بھی ہو گیا تھا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ خود نہ اڑ رہا ہو، اسے کوئی اڑائے لئے جا رہا ہو۔
اس کی سماعت سے مسلسل دیواہ کالی کی پر ہیبت آواز ٹکرا رہی تھی۔
” راکل آؤ………. راکل آؤ۔

اس آواز کو سنتے سنتے اسے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اچانک اس کے بازو پکڑ کر اسے کسی چھوٹے سے دروازے میں دھکیل دیا ہو، اور پھر اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ کالا بادل سا آگیا۔

“دیواہ کالی، تیری قسم۔ راکل آگیا ہے۔ “
ایک اونچے قد کا شخص دروازے سے اندر داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں کوئی چیز لٹکی تھی جو کالی چادر سے ڈھکی ہوئی تھی۔
” اسے ادھر لے آ۔ “
ایک پر ہیبت آواز آئی۔ اس شعلے میں ایک شبیہ لہرائی تھی اور یہ آواز بھی وہیں سے آئی تھی۔ یہ دیواہ کالی کا دربار تھا۔ ایک بہت بڑا ہال جس میں بے شمار ستون تھے۔ ہر ستون کے ساتھ ایک داسی کھڑی ہوئی تھی۔ سامنے ایک بہت بڑا اسٹیج تھا۔ اس اسٹیج پر ایک بارہ فٹ اونچی اور تین فٹ چوڑی ایک شمع نصب تھی۔ یہ شمع ساری کی ساری سونے کی بنی ہوئی تھی۔ یہ شمع روشن تھی۔ اس شمع کی لو بھی خاصی بڑی تھی۔ اسی شعلے میں شبیہ دکھائی دیتی تھی اور اس شعلے سے پر ہیبت آواز آتی تھی۔
یہ دیواہ کالی تھا۔
سردار کولانا اور کالا چراغ سنگ مرمر کے فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے۔ یہ پورا ہال، اس کی دیواریں، اس کے تمام ستون سنگ مر مر کے بنے تھے۔ اس دربار کا اپنا ایک حسن تھا جسے دیکھ کر آدمی مسحور سا ہو جاتا تھا۔
دیواہ کالی کا حکم سن کر، وہ دراز قد شخص آگے بڑھا اور اس نے کالی چادر سے ڈھکی چیز کو ایک چھوٹے سے سنگ مرمر کے چبوترے پر رکھ دیا۔
” چادر ہٹا۔ سب کو اس کا چہرہ دیکھا۔ “
شمع کی لو میں پھر حرکت ہوئی ۔ وہ ذرا سا لہرائی ۔ اس میں ایک شبیہ دکھائی دی اور ساتھ ہی پر ہیبت آواز آئی۔

دیواہ کالی کے حکم کی تعمیل میں اس دراز قد غلام نے اس شے سے ایک دم چادر ہٹا دی ۔ وہ ایک پنجرہ تھا اس پنجرے میں ایک اُلو بند تھا، اس دراز قد شخص نے کالی چادر اپنے سر پر صافے کی طرح باندھی اور الٹے قدموں واپس ہو گیا۔ اب ہال میں سردار کولانا، کالا چراغ اور داسیوں کے سوا کوئی نہ رہا۔ سردار کولانا اور کالا چراغ کی نظریں شمع کی لو پر تھیں۔ پنجرے میں بند الو ایک ٹانگ پر ساکت کھڑا تھا۔
“راکل کیا تو جانتا ہے کہ تو نے اور تیری بہن بقاں نے کیا ہنگامے کھڑے کر رکھے ہیں۔ “ دیواہ کالی کی پر ہیبت آواز سنائی دی، ساتھ ہی شمع کی لو میں شبیہ لہرائی۔
“خیر یہاں بقاں کا کیا ذکر ۔ وہ خود اپنے ہاتھوں اپنی زندگی گنوا بیٹھی ہے۔ اس نے اپنے کئے کی خود ہی سزا پالی ۔ مگر اب تو بتا، تیرے جرائم کی فہرست بھی کچھ کم نہیں۔ تیرے ساتھ کیا کیا جائے۔ تو ان دونوں کو تو دیکھ ہی رہا ہے۔ یہ دونوں تیرے بارے میں مجھے بہت کچھ بتا چکے ہیں، ان کے بیان کردہ جرائم کی روشنی میں اب تجھے سزا بھگتنا ہوگی۔ کیا تو اس کے لئے تیار ہے۔ تیار اگر نہیں بھی ہو گا تب بھی کوئی بات نہیں۔ میں تیری عدم موجودگی میں بھی اپنا فیصلہ صادر کر چکا ہوں ۔ اب تجھے رقیق ہونا ہو گا۔ “
دیواہ کالی تیری قسم میں نے جو کچھ کیا ہے، اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں نے تیرے بنائے ہوئے قانون کو توڑا ہے۔ میرے جرائم کی فہرست خاصی طویل ہے۔ مجھے ہر صورت رقیق ہونا ہو گا۔ میں اس کے لئے تیار ہوں ۔ ” یہ کہہ کر اس نے پنجرے میں پر پھڑ پھڑائے۔
“تو خود رقیق ہونا پسند کرے گا یا تجھے رقیق کیا جائے ؟؟”
دیواہ کالی کی آواز گونجی۔
“خود رقیق ہونا میرے بس کا نہیں ۔ ” راکل کی آواز مشکل سے نکل رہی تھی۔
” ٹھیک ہے ۔ ” ویواہ کالی نے کہا۔ ” تم دونوں میں سے کوئی یہ کام کرنا چاہے گا۔ ؟؟”
“نہیں دیواہ کالی ” سردار کو لانا اور کالے چراغ نے بیک وقت انکار کیا۔
‘ ٹھیک ہے، پھر میں بندوبست کرتا ہوں ۔ ” یہ کہ کر دیواہ کالی نے قریب کھڑی ایک داسی سے مخاطب ہو کر کہا۔ “اسے رقیق کرنے کی تیاری کرو۔ “

دیواہ کالی کا حکم سن کر وہ داسی آگے بڑھی۔ باوقار چال چلتی ہوئی پنجرے کے نزدیک آئی۔ پنجرے کی کھڑکی کھول کر اس اُلو کو پکڑ لیا۔ اور کھینچ کر باہر نکال لیا۔ اور پھر وہ اس کے پر پکڑ کر بڑے اطمینان سے چلتی ہوئی، دیواہ کالی کے سامنے آئی۔ اس نے جھک کر دیواہ کالی کو تعظیم دی۔ اور سیڑھیاں چڑھ کر شمع کے نزدیک پہنچ گئی۔

“اس خبیث کو نیچے رکھ دے ۔ ” دیواہ کالی نے حکم دیا۔

داسی نے چٹ چٹ کر کے راکل کے دونوں بازو توڑ دیئے۔ اور اسے شمع کے نیچے رکھ دیا۔ اور خود فوراً ہی پیچھے ہٹ گئی۔ شمع ذرا سی ترچھی ہوئی ۔ ایک دم بہت سارا موم جیسا سیال اس الو پر گرا، وہ سیال دیکھتے ہی دیکھتے جم گیا اور اس نے سفید رنگت اختیار کرلی ۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ اُلو برف کا بنا ہو۔

“اٹھالے، اس خبیث کو ۔ ” دیواہ کالی کی آواز گونجی۔
“داسی نے جھک کر دونوں ہاتھوں سے اسے اٹھا لیا۔ اور سیڑھیاں اتر کر سردار کو لانا اور کالے چراغ کی طرف بڑھی اس نے باری باری ان دونوں کو یہ سفید الو دیکھنے کو دیا۔ ان دونوں نے اسے اپنے ہاتھ میں لے کر اچھی طرح دیکھا۔ اور پھر داسی کو واپس کر دیا۔ اس داسی نے پنجرہ زمین پر رکھا اور اس سفید الو کو چھوٹے سے چبوترے پر رکھ دیا۔

“رقص ۔ ” دیواہ کالی نے حکم دیا۔

وہ داسی دیواہ کالی کا حکم سن کر تیزی سے دوڑتی ہوئی سیڑھیوں کے نزدیک آئی اور پھر لہرا کر محور قص
ہوئی۔ اس کے رقص شروع کرتے ہی تمام ستونوں کے ساتھ کھڑی ہوئی داسیاں بھّرا مار کر دیواہ کالی کے سامنے آگئیں۔ وہ ساری کی ساری گہرے سرخ لباسوں میں تھیں۔ ان کے بل کھاتے گورے بدن تلواروں کی طرح چمکنے لگے۔
سردار کولانا اور کالا چراغ کے لئے یہ نظارہ اتنا دلکش تھا کہ ان کی آنکھیں پلکیں جھپکنا بھول گئیں۔
پھر انہیں ہوش اس وقت آیا جب دیواہ کالی کی پر ہیبت آواز گونجی۔
” بس۔ “

اس آواز کے ساتھ ہی ساری داسیاں جہاں اور جس انداز میں تھیں، ٹھہر گئیں۔ پھر وہ دوڑتی ہوئی اپنی اپنی جگہوں پر پہنچ گئیں اب وہ اکیلی داسی رہ گئی جس نے راکل کو پنجرے سے کھینچ کر نکالا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ اونچے کر کے ایک مرتبہ تالی بجائی۔ پھر ہر داسی ایک مرتبہ تالی بجاتی گئی۔ جب یہ تالی کی آواز آخری ستون جو دروازے کے نزدیک تھا پر گونجی تو وہ دروازہ کھلا اور دو دراز قد غلام اندر داخل ہوئے۔ ایک کے ہاتھ میں چاندی کی گاگر تھی اور دوسرے کے ہاتھ میں ایک مشعل تھی۔ چاندی کی گاگر اس منجمد الو کو ہٹا کر اس چھوٹے سے چبوترے پر رکھی گئی۔ پھر اس الو کو دونوں غلاموں نے اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا۔ داسی وہ مشعل لے کر سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔ پھر اس نے بجھی ہوئی مشعل کو ہاتھ اونچا کر کے شمع کی لو سے جلایا اور تیزی سے دوڑتی ہوئی ان غلاموں کے نزدیک آئی۔ اس نے اس جلتی ہوئی مشعل کو اس منجمد الو کے نیچے رکھا۔ مشعل کا شعلہ اتنا تیز تھا کہ شعلے دکھاتے ہی وہ اُلو پگھلنےلگا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے رقیق ہو کر نیچے رکھی ہوئی گاگر میں سما گیا۔ تب اس گاگر کے منہ پر ایک کالا کپڑا باندھ دیا گیا۔
“اس خبیث کو لے جاؤ اور اس کی بہن بقاں کے نزدیک اسے زنجیر کردو۔ “
دیواہ کالی نے سردار کولانا اور کالے چراغ سے مخاطب ہو کر کہا۔
یہ حکم سن کر وہ دونوں اٹھے۔ کالے چراغ نے اس گاگر کو اپنے کندھے پر رکھ لیا اور وہ دونوں دیواہ کالی کے آتش کدے سے باہر نکل آئے۔ ان کی اونٹنیاں موجود تھیں۔ وہ دونوں اپنی اپنی اونٹنیوں پر سوار ہو گئے۔ گاگر کالے چراغ نے اپنی گود میں رکھ کر ایک ہاتھ سے پکڑی اور پھر دونوں خوش خوش اپنے علاقے کی طرف چل دیئے۔

خوش تو اس وقت محسن راؤ بھی تھا۔ اس کی اونٹنی ہوا کے دوش پر اڑی جارہی تھی۔ اور محسن اپنی دنیا میں پہنچ جانے کے تصور سے خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔
پھر جانے کیا ہوا کہ برق رفتاری سے دوڑتی ہوئی اونٹنی دوڑتے دوڑتے ایک دم رک گئی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اچانک اس کے پاؤں پکڑ لئے ہوں ۔ محسن راؤ کو ایک زور دار جھٹکا لگا۔ اور وہ اونٹنی سے نیچے آرہا۔ اور جب وہ اپنے کپڑے جھاڑتا اٹھا تو اسے اپنے سامنے چار زنجیروں سے بندھی ایک گاگر دکھائی دی۔
یہ بڑا حیران کن منظر تھا۔
لوہے کی چار میخیں، ان سے بندھی موٹی زنجیر، درمیان میں رکھی گاگر اور ان چاروں زنجیروں سے بندھی ہوئی اس کی گردن ۔۔ گاگر کے منہ پر لپٹا ہوا کالا کپڑا۔ اور چاروں طرف لق دق صحرا، اونچے نیچے ریت کے ٹیلے۔ تیز چلتی ہوا۔
کالے چراغ نے اگر چہ اتنی ریت ڈالی تھی کہ زنجیریں ریت میں دب گئی تھیں اور گاگر کی محض گردن نظر آرہی تھی۔ لیکن اب اس پر سے کافی ریت ہٹ چکی تھی، شاید صحرائی ہواؤں نے اس کی ریت اڑا دی تھی ۔۔
زنجیریں صاف نظر آرہی تھیں اور گاگر آدھی ریت میں دبی ہوئی تھی۔
محسن راؤ کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا چیز ہے ؟ اس گاگر کو زنجیروں سے کیوں باندھا گیا ہے اور اس کے منہ پر کپڑا کیوں لپیٹا گیا ہے؟؟
اس نے سوچا، ذرا آگے بڑھ کر دیکھے۔ کہیں اس گاگر میں کوئی زبردست خرانہ تو نہیں چھپا ہوا، دوڑتی ہوئی اونٹنی کا اچانک یہاں رک جانا کیا معنی رکھتا ہے۔ لگتا ہے قسمت اس پر مہربان ہو گئی ہے۔ اور وہ کسی بڑے خزانے کا مالک بنانے پر تلی ہوئی ہے۔
اس نے دو قدم گاگر کی طرف بڑھائے۔ پھر ایسے ہی اسے اونٹنی کا خیال آیا۔ اس نے پیچھے مڑکر دیکھا، وہ سہم کر رہ گیا۔ اونٹنی کا دور تک پتہ نہ تھا۔ وہ واپس پلٹ کر اس جگہ پہنچا جہاں اونٹنی کھڑی ہوئی تھی۔ وہاں سے آگے جانے کے پیروں کے نشان موجود نہ تھے۔ جدھر سے آئی تھی اونٹنی، اس طرف البته نشانات موجود تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اونٹنی کو کسی نے کھڑے کھڑے اٹھا لیا ہو۔ اونٹنی کے غائب ہو جانے پر اسے شدید صدمہ ہوا ۔ اب وہ اپنی دنیا میں کسی طرح پہنچے گا۔ راکل نے کہا تھا کہ یہ اونٹنی دھویں کی دیوار پار کر دے گی۔ اس طرح وہ اپنی دنیا میں پہنچ جائے گا۔ اسی لئے وہ یہ سفر اونٹنی کی مرضی سے کر رہا تھا۔ اس نے اسے اپنی مرضی سے کسی طرف موڑنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا۔ وہ اس بات پر خوش تھا کہ اس کی دنیا نز دیک ہوتی جارہی ہے۔ لیکن اونٹنی کے ایک جھٹکے سے رکنے اور اس کے بعد اس کے غائب ہو جانے نے اس کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔
اب لق دق صحرا تھا اور وہ تھا اور اڑتی ہوئی ریت تھی۔ پھر وہ وقت زیادہ دور نہ تھا جب موت پر پھڑ پھڑاتی ہوئی اس کے سر پر منڈلا رہی ہوگی۔ وہ ہاتھ ملتا ہوا، پھر واپس پلٹا۔ اب اس کے سامنے گاگر تھی، کالے کپڑے سے بندھی اور زنجیروں میں جکڑی۔ اسے کھول کر دیکھنا چاہئے۔ آخر اس میں ہے کیا؟
وہ دھیرے دھیرے قدم جماتا ہوا، گاگر کے نزدیک پہنچ گیا۔ کالے کپڑے کو اس طرح اس کے منہ پر باندھا گیا تھا کہ وہ اسے آسانی سے کھول سکتا تھا۔ تب وہ ریت پر گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا اور گاگر کے منہ پر بندھا کپڑا کھولنے لگا۔ کپڑا کھول لینے کے بعد جب اس نے گا گر کے منہ سے ہٹایا اور یہ دیکھنے کے لئے آگے جھکا کہ اس میں
کسی قسم کا خزانہ ہے تو اسے ایک دم پیچھے ہٹ جانا پڑا۔ مگر اب دیر ہو چکی تھی۔
اس میں خزانہ نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ اس میں سے جو چیز بر آمد ہوئی اس سے بچنے کے لئے پیچھے ہٹنا ضروری تھا لیکن وہ تعداد میں اتنی تھیں کہ ان کی گرفت سے بچنا ممکن نہ تھا۔
وہ شہد کی مکھیاں جیسی کوئی چیز تھی۔ اور وہ گاگر سے نکلی بھی شہد کی مکھی کے چھتے کی طرح تھیں۔ وہ سیکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں تھیں۔ گہرے سرخ رنگ کی۔ اور سنہرے پروں والی۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہ محس راؤ کے چہرے پر چھا گئیں۔ اس قدر کہ اس کا چہرہ غائب ہو گیا۔ وہ اس کے چہرے پر اپنے تیز سوئیوں جیسے ڈنک مار رہی تھیں۔ کاٹنے کی شدید تکلیف سے اس پر نیم غشی طاری ہونے لگی۔ اور پھر کچھ ہی دیر میں اس پر مکمل غشی طاری ہو گئی۔”

“انہیں اس کی پروا نہ تھی کہ محسن پر ان کے کاٹنے کا کیا رد عمل ہو رہا ہے۔ وہ ہوش میں ہے یا پریوش ۔ ان کا کام کاٹنا تھا، وہ کاٹے جارہی تھیں۔ وہ اس کے پورے بدن پر چھا چکی تھیں۔ اور جو عمل وہ کر رہی تھیں۔ وہ ایک طرح سے موت کے مترادف تھا۔ وہ مکھیاں اس کے آدھے چہرے کی طرح سارا بدن دیمک زدہ کرنے پر لگی ہوئی تھیں۔ اور محسن راؤ کو نہیں معلوم تھا کہ وہ اس کا کیا حشر کرنے پر لگی ہوئی ہیں۔
حشر تو سردار کولانا اور کالے چراغ نے راکل کا دیکھا تھا۔ انہیں بہت لطف آیا تھا۔ وہ دونوں ایک موزی کو مار کر بہت خوش تھے۔ اور اب دیواہ کالی کی ہدایت کے مطابق وہ اسے زنجیر کرنے کے لئے جارہے تھے۔
دیواہ کالی کے آتش کدے سے نکل کر پہلے وہ اپنے علاقے میں پہنچے تھے۔ جہاں سے انہوں نے راکل کی گاگر کو زنجیر کرنے کا بندو بست کیا تھا۔ اور وہ دونوں اونٹوں پر سوار ہو کر بقاں کی زنجیر کی ہوئی گاگر کی سمت چل پڑے تھے۔ کالے چراغ نے کہا بھی تھا کہ وہ اکیلا اس گاگر کو زنجیر کر آئے گا۔ لیکن سردار کولانا نہیں مانا تھا، وہ بھی ساتھ آگیا تھا۔ اور اب وہ بقاں کی زنجیر کی ہوئی گاگر سے زیادہ دور نہ تھے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ دونوں جب یہاں پہنچیں گے تو یہاں کیا دیکھیں گے۔
راکل اصل میں جاتے جاتے ہاتھ کر گیا تھا۔ وہ ایک خبیث فطرت مخلوق تھا، وہ آخر تک خبیث ہی رہا۔۔ جگہ جگہ اس نے اپنی خباثت کے نقوش ثبت کئے تھے۔ اور مرنے سے پہلے وہ محسن راؤ کے تابوت کی آخری کیل ٹھونک گیا تھا۔ محسن راؤ کی ایسی صورت میں موت یقینی تھی۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ مکھیاں اپنے کام پر لگی ہوئی تھیں۔ محسن راؤ ہنوز بے ہوش تھا۔

سردار کولانا اور کالا چراغ اس طرف بڑھے چلے آرہے تھے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ ان کی ریت اڑاتی اونٹنیاں دکھائی دینے لگیں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بقال کے “مقبرے ” پر آپہنچے۔
اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے سب سے پہلے کالے چراغ کی نظر گاگر پر پڑی۔ اس کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا نہ تھا
” ارے یہ کیا ہوا ؟ ۔”
پھر اس کی نظر ایک انسانی جسم پر پڑی جو ایک زنجیر پر لٹکا ہوا تھا۔ اور سرخ رنگ کی مکھیاں اس کے پورے بدن پر چھائی ہوئی تھیں۔
” میں تیرا غلام .. سردار وہ دیکھ ۔ ” کالے چراغ نے تیزی سے اپنی اونٹنی کو بٹھاتے ہوئے
جب سردار کولانا نے اس طرف نظر کی تو اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ”ارے یہ کیا؟؟”
وہ بھی جلدی جلدی اپنی اونٹنی کو بٹھانے لگا۔
دونوں کی اونٹنیوں کو بیٹھتا دیکھ کر پیچھے آنے والے پانچوں گھڑ سوار، اپنے گھوڑوں سے اتر پڑے۔ ان پانچوں کے گھوڑوں پر راکل کو زنجیر کرنے کا سامان لدا ہواتھا۔ وہ اپنے گھوڑے چھوڑ کر آگے بڑھے۔
کالے چراغ نے اونٹنی سے اتر کر راکل کی گاگر ریت پر رکھی اور تیزی سے آگے بڑھا۔ پھر فوراً اہی رک گیا۔۔اسے ایک دم خطرے کاحساس ہوا۔۔
انسانی جسم سے چمٹی سنہرے پروں اور گہرے سرخ بدن کی ہزاروں مکھیاں اس نے دیکھ لی تھیں۔
وہ جانتا تھا کہ اگر ان مکھیوں کو اڑانے کی کوشش کی گئی تو وہ ان دونوں کو چمٹ جائیں گی پھر پیچھے آنے والے گھڑ سوار بھی ان کی لپیٹ میں آجائیں گے۔
آگے بڑھتے ہوئے سردار کو لانا کا ہاتھ پکڑ کر اس نے اسے آگے جانے سے منع کیا۔
” یہ کون ہے؟” سردار کولا نا حیرت زدہ تھا۔
” یہ مکھیاں کہاں سے آئیں اور یہ گاگر یوں کھلی ہوئی “ہے۔
“سردار، میں تیرا غلام میں تیرے قربان .. میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے۔ یہ مکھیاں کہاں سے آئیں۔ البتہ اتنا اندازہ ضرور کر سکتا ہوں کہ اس تجسس کے مارے انسان نے گاگر کا منہ کھول کر دیکھا اور اس مشکل میں پڑ گیا۔ ” کیا یہ مکھیاں، اس گاگر سے نکلی ہیں، کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ ” سردار کولانا نے فکر مند لہجے میں کہا۔
“لگتا تو یہی ہے۔ ” کالے چراغ نے جواب دیا۔
“جا, زرا جا کر دیکھ، گاگر کے اندر کچھ ہے بھی یا نہیں”
“اچھا تو یہیں ٹھہر میں گھوم کر ادھر جاتا ہوں ۔ “

کالا چراغ گاگر کی طرف بڑھا۔ وہ ان مکھیوں سے بچتا ، ذرا گھوم کر گاگر کے نزدیک پہنچا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے گاگر میں جھانک کر دیکھا۔ گاگر بالکل خالی تھی۔ کالا چراغ احتیاط سے چلتا ہوا، سردار کو لانا کے پاس آگیا اور بولا۔ “سردار، گاگر خالی ہے۔ “
“اوہ، یہ تو بہت برا ہوا ۔ ” سردار کولانا اس کی بات سن کر فوراً پیچھے ہٹتا ہوا بولا، اس کے چہرے پر تشویش رقصاں تھی۔
“میں تیرا غلام … میں سمجھا نہیں۔ “
” یہ مکھیاں اس انسان کو ختم کر دیں گی، جو کرنا ہے جلدی کر ۔ “
“کیا کروں؟ تو بتا۔ “
“ان مکھیوں کا توڑ مکھیاں ہی ہو سکتی ہیں۔ ” سردار کولانا نے پر خیال انداز میں کہا
” مکھیاں؟” کالے چراغ نے بے یقینی سے دہرایا۔ ” لیکن و دوسری مکھیاں آئیں گی کہاں سے؟”
“راکل کی گاگر کا منہ کھول دے۔ “
“دیکھ لے سردار، کہیں معاملہ سنگین صورت اختیار نہ کر جائے۔ “
” پھر اس انسان کی جان کیسے بچے گی۔ ؟؟
“سردار، یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ انسان اب تک مرچکا ہو ۔ “
“اگر ایسا ہوتا تو یہ مکھیاں اس کا کب کا پیچھا چھوڑ چکی ہوتیں ۔ “
“ہاں، یہ بات بھی تو ٹھیک کہتا ہے ۔ “
“میں اگر ٹھیک کہتا ہوں تو پھر دیر نہ کر گاگر کو اس انسان کے نزدیک رکھ کر اس کا منہ کھول دے اور کھول کر فوراً بھاگ آنا ۔ ” سردار کولانا نے ہدایت کی۔
“ٹھیک ہے سردار، میں تیرا غلام، ابھی تیرے حکم کی تعمیل کرتا ہوں ۔ “ وہ سعادت مندی سے بولا

کالے چراغ نے ریت پر سے راکل کی گاگر اٹھائی اور محتاط انداز میں چلتا ہوا، زنجیر کے نزدیک پہنچا، گاگر ریت پر رکھی اور بیٹھ کر اس گاگر کے منہ پر سے کالا کپڑا کھولنے لگا۔
گاگر کا کپڑا کھول کر ایک جھٹکے سے اس نے اپنی طرف کھینچا اور دوڑتا ہوا پیچھے ہٹ آیا۔ گاگر سے کپڑا ہٹتے ہی ایک تیز بھنبھناہٹ کی آواز آئی اور مکھیاں نکلنا شروع ہو گئیں۔ ایک لمحے کو یہ گاگر کے اوپر منڈلائیں اور پھر ان کالی مکھیوں نے سرخ بدن اور سنہرے پروں والی مکھیوں پر حملہ کردیا
گهمسان کا رن پڑا۔ سرخ لکھیاں پٹ پٹ کر کے ریت پر گرنے لگیں۔ کالی مکھیوں نے وہ تباہی مچائی کہ سب دیکھتے رہ گئے۔
جب ساری لال لکھیاں مر گئیں تو ان کالی مکھیوں نے اس انسانی جسم پر حملہ کرنے کی ٹھانی۔ ابھی وہ اسکے بدن کے اوپر تیزی سے چکر کاٹ رہی تھیں کہ پھر وہ بوند بوند ہو کر اس انسانی جسم پر گرنے لگیں
اسکی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ تھوڑی دیر میں وہ ساری مکھیاں رقیق ہو کر اس کے بدن پر گرنے لگیں
اس انسان کا جسم سرخ رقیق سے ڈھک گیا۔

جس طرح زہر کا علاج زہر سے کیا جاتا ہے اور لوہے کو لوہا کاٹتا ہے ویسے ہی اس وقت ان مکھیوں نے دکھایا تھا۔ ان مکھیوں نے نہ صرف دوسری مکھیوں کو مار دیا تھا بلکہ ان سرخ مکھیوں کے کاٹنے سے جو محسن راؤ کو ہوا تھا اس کا تدارک بھی ہو گیا۔
کالی مکھیاں سرخ رقیق کی صورت میں اس کے بدن پر چھا گئی تھیں۔ اس سرخ سیال نے محسن راؤ کو سکون پہنچایا۔ سرخ مکھیوں کے کاٹنے سے اس کے بدن میں جو آگ بھر گئی تھی، وہ اب ٹھنڈی ہوتی جارہی تھی۔ اس کے ہوش و حواس بحال ہوتے جارہے تھے۔ کچھ دیر کے بعد اس کی غشی ختم ہو گئی۔ ہوش و حواس مکمل طور پر بحال ہو گئے تو اس نے آنکھیں کھولی۔۔
آنکھیں کھلیں تو اس نے خود کو ایک موٹی زنجیر پر پڑا پایا۔ وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔
وہ اٹھا تو سرخ سیال کسی کھال کی طرح اترتا ہوا ریت پر آرہا تھا ۔۔ پھروہ ایک جگہ اکٹھا ہوکر ریت میں جذب ہو گیا۔ ریت میں جذب ہوکر وہ پھیلا نہیں بلکہ اس طرح جذب ہوا کہ اس کانشان تک نہ رہا۔
یہی حال کچھ ان مکھیوں کا ہوا۔ وہ سرخ بدن اور سنہرے پر والی مکھیاں بڑے پڑے سرخ بوندوں میں تبدیل ہو گئیں۔ اور لڑھک کر ایک دوسرے میں جذب ہو گئیں۔ پھر یہ سیال ریت کے سینے میں اترتا چلا گیا۔ کچھ دیر کے بعد ریت پر کسی قسم کانشان بھی نہ رہا۔ اس طرح وہ دونوں بہن بھائی اپنے بھاری وجود کے ساتھ زمین کی کوکھ میں اتر گئے۔
بالآخر بقّاں اور راکل اپنے انجام کو پہنچے۔ محسن راؤ بڑی حیرت سے اس سرخ سیال کو ریت میں جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس کے پورے جسم پر یہ سرخ کھال سی کیا تھی۔ وہ تو بے شمار مکھیوں کے کاٹنے سے بے ہوش ہوا تھا۔ اور ان مکھیوں کا دور تک پتہ نہیں تھا۔ پھر ایک بات اس نے اور محسوس کی تھی کہ اب اس کے جسم میں کسی قسم کی نقاہت نہ رہی تھی۔ وہ خود کو چاق و چوبند محسوس کر رہا تھا۔ اب اس نے گردن گھما کر اپنے چاروں طرف جائزہ لیا۔ تب اسکی نگاہیں کالے چراغ پر ٹھہر گئیں۔ کالا چراغ تھوڑے سے فاصلے پر کھڑا اسے حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے برابر ایک اور شخص کھڑا تھا جو اپنے رکھ رکھاؤ سے سردار معلوم ہوتا تھا، وہ بھی اس پر آنکھیں جمائے ایک ٹک دیکھ جا رہا تھا۔ ان دونوں کے پیچھے پانچ محافظ قسم کے لوگ تھے۔ اور ان کے پیچھے دو اونٹنیاں اور پانچ گھوڑے دکھائی دے رہے تھے جن پر کچھ سامان لدا ہوا تھا۔
محسن راؤ فوراً اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ تب کالا چراغ بڑے باوقار انداز میں چلتا اس کے نزدیک آیا اور محبت بھرے لہجے میں بولا۔ “محسن تم ؟”
“ہاں میں, مجھے دیکھ کر آپ حیران رہ گئے ہوں گے۔ “
” محسن تم یہاں کہاں؟ میرا مطلب ہے کہ تم یہاں کیسے آئے۔ یہاں آس پاس تمہاری کوئی سواری بھی نظر نہیں آرہی۔ “
“سب بتاتا ہوں ۔ ” محسن راؤ نے اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
” وہ کون ہیں؟” اس نے سردار کولانا کی طرف اشارہ کیا۔
“وہ میرے آقا ہیں، سردار کولانا۔ آؤ میرے ساتھ تمہیں ان سے ملواؤں ۔ “
یہ کہ کر کالاچراغ سردار کولانا کی طرف بڑھا۔ اور جب وہ دونوں نزدیک پہنچے تو سردار کولانا نے پوچھا۔
” تو جانتا ہے اسے۔ ؟؟”
“ہاں، بہت اچھی طرح یہ میرا رقیب ہے۔ ” کالے چراغ نے ہنس کر کہا۔
” رقیب ۔ ؟” ایک لمحے کو سردار کولانا کچھ نہ سمجھ سکا۔ پھر جب سمجھ میں آیا تو وہ بولا۔
“کیا یہ وہ شخص ہے جس پر بقّاں رقیق ہو گئی ۔ “
“تو ٹھیک سمجھا سردار ۔ ” کالے چراغ نے کہا۔
“اسے بتادے کہ اب بقاں کہاں ہے۔”
یہ اس کا نام سن کر پریشان ہو گیا ہے ۔ “ سردار کولانا نے محسن کی طرف اشارہ کر کے بولا۔
“ہیں، کیا ہوا بقاں کو؟؟؟.”
محسن راؤ واقعی پریشان ہو گیا تھا۔ اگرچہ راکل نے بقاں کی موت کے بارے میں بتادیا تھا لیکن اسے اس فریبی کی بات کا یقین نہ آیا تھا۔ کالے چراغ نے کچھ کہنے سے پہلے ایک گہرا سانس لیا اور پھر اس کے چہرے پر اداسی چھا گئی۔ پھر وہ آزردہ لہجے میں بولا۔
” تمہارے لئے خوش خبری اور میرے لئے بد خبری۔ “ اتنا کہہ کر کالا چراغ خاموش ہو گیا۔
“آخر کچھ پتہ تو چلے، ہوا کیا ہے ؟ ” محسن راؤ بے تاب ہو کر بولا۔ وہ جلد از جلد اس خبر کی تصدیق کرلینا چاہتا تھا۔
“محسن، میری بقاں مر گئی، وہ رقیق ہو گئی۔ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ “ کالے چراغ پر رقت سی طاری ہوگئی۔
“اوہ ۔ “
محسن راؤ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اسے اب یقین آگیا محسن راؤ کے لئے واقعی یہ بہت بڑی خوش خبری تھی۔ اس خبر کو سن کر اسے خوشی سے قہقہہ لگانا چاہئے تھا لیکن جانے کیوں وہ اتنا خوش نہ ہوا ، جتنا ہونا چاہئے تھا۔ بقّاں اگر اس کے لئے عذاب تھی تو کالے چراغ کے لئے ثواب تھی۔ وہ اس کی محبوبہ تھی، اس کے لئے اس نے نہ جانے کیا کیا جتن کئے تھے۔ اس وقت اسے خوش ہونے کے بجائے کالے چراغ کے دکھ میں شریک ہونا چاہئے۔

“مجھے افسوس ہوا۔ “ وہ دھیرے سے بولا۔
“حیرت ہے، تمہیں تو خوش ہونا چاہئے تھا۔ “
“یہ ٹھیک ہے کہ اس نے میری زندگی برباد کر دی۔ ایک طویل عرصے تک اس نے مجھے عذاب میں مبتلا رکھا لیکن میں اتنا سنگ دل نہیں کہ یہ بھول جاؤں کہ وہ تمہاری زندگی تھی۔ بہر حال یہ سب کیسے ہوا؟؟.”
وہ مزید تصدیق چاہتا تھا۔
“جب بقال نے راکل کے ذریعے مجھے گرفتار کروالیا تو یہ بات میرے آقا سے چھپی نہ رہ سکی۔
کولانا نے بقال کو اغواء کروا لیا اور راکل کو کہلوا بھیجا کہ بقاں چاہئے تو کالے چراغ کو ڈیڑھ دن بعد سرحد پر
پہنچادو
راکل کسی وجہ سے وقت پر نہ پہنچ سکا تو میرے سردار نے سنہرے کھنڈر پر چڑھائی کر دی اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ راکل کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اب راکل کا کرو فر ختم ہو چکا تھا۔ سردار نے اپنا فیصلہ سنایا کی بقاں اور کالے چراغ کی شادی کردی جائے ۔۔ شادی کی تیاری عروج پر تھی کہ خبر آئی کہ بقاں رقیق ہوگئی۔۔
محسن ، وہ میری نہیں ہونا چاہتی تھی۔ وہ تمہاری تھی ، تمہاری ہی رہی۔ “
یہ کہہ کر کالے چراغ نے نم آنکھوں کو بند کر لیا۔
“لیکن مجھے تو اس کی صورت سے بھی نفرت تھی ۔ ” محسن راؤ نے صاف گوئی سے کہا۔
“کچھ یہی رویہ اس کا میرے ساتھ تھا۔ ” کالے چراغ نے آنکھیں کھولیں
”وہ میری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی، لیکن مجھے اس کے بغیرقرار نہ تھا، اس کی صورت ہر وقت میری آنکھوں میں بسی رہتی تھی۔ اب بھی بسی ہوئی ہے۔”
“اور راکل کا کیا ہوا ؟ ” محسن نے پوچھا۔
“بقاں کی موت کے بعد راکل نے میرے سردار پر حملہ کیا اور وہ وہاں سے نکل بھاگا۔ تب ہم نے دیواہ کالی کے دربار میں جانے کا فیصلہ کر لیا اور وہاں جاکر راکل کو اس کے انجام تک پہنچایا۔ اور اب اس وقت ہم لوگ دیواہ کالی کے حکم کے مطابق راکل کے جسد رقیق کو بقاں کے نزدیک زنجیر کرنے آئے تھے , کہ یہ ماجرا دیکھا۔ لیکن محسن تم یہاں کیسے پہنچے؟” کالے چراغ نے پوچھا۔
” میں بتاتا ہوں کہ میں یہاں کیسے پہنچا؟ ” محسن راؤ نے اپنی بپتا سنانا شروع کی۔

“ایک دن راکل زخمی حالت میں میری جھونپڑی تک پہنچا، اسے بھیڑیوں نے زخمی کیا تھا۔ خیر میں اسے اپنی جھونپڑی میں لے آیا۔ اس کی ہدایت پر عمل کر کے اس کے زخموں کا علاج کیا۔ جب وہ ٹھیک ہو گیا تو مجھے دھوکا دے کر اڑ گیا۔ اس دن اس نے تمہارے سردار کا نام بھی لیا تھا کہ مجھے تو اس وقت وہاں ہونا چاہئے تھا۔ خیر دو چار دن کے بعد وہ پھر واپس آیا اور اس نے کہا کہ جھونپڑی کے باہر اونٹنی موجود ہے۔ یہ مجھے میری دنیا تک پہنچا دے گی۔ میں فوراً اس پر سوار ہو کر نکل جاؤں ۔ اس دن اس نے یہ بھی بتایا کہ کسی لمحے دیواہ کالی کے دربار سے بلاوا آنے والا ہے۔ پھر وہ اچانک ہی غائب ہو گیا۔ اس کے جانے کے بعد میں اونٹنی پر سوار ہو کر چل پڑا، کافی لمبا سفر کرنے کے بعد میری اونٹنی یہاں آکر اچانک رک گئی۔ میں ریت پر آگرا۔ پھر جب میں نے اٹھ کر اپنے سامنے دیکھا تو زنجیروں میں بندھی ایک گاگر کو پایا۔ میں آگے بڑھا۔ پیچھے مڑکر دیکھا تو اونٹنی غائب ہو چکی تھی۔ تب میں گا گر کی طرف بڑھا۔ میرا خیال تھا کہ اس میں کسی قسم کا خزانہ موجود ہے ۔ جب میں نے گا گر کا منہ کھولا تو بے شمار مکھیوں نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ اور میں درد کی شدت سے بے ہوش ہو گیا۔ “

“ہوں ۔ ” محسن راؤ کی روداد سن کر کالے چراغ نے ہنکارہ بھرا اور سردار کو لانا سے مخاطب بیان دیکھا سردار ؟”
”ہاں، وہ خبیث جاتے جاتے اسے دھوکا دے گیا۔ اگر ہم یہاں نہ پہنچے تو یہ اپنی دنیا میں جانےکے بجائے کسی اور دنیا میں پہنچ چکا ہوتا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ یہاں پہنچ کر گاگر ضرور کھول کر دیکھے گا اور یوں اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ واہ راکل تو بھی خوب چیز تھا۔ تیرے جیسے شاطر ہماری دنیا میں نایاب ہیں۔” سردار کو لانا نے کہا۔
“آپ لوگوں نے مجھے کیسے بچایا، وہ ہزاروں مکھیاں کہاں گئیں اور یہ میرے جسم پر سرخ سیال کیسا تھا؟؟. میرے دیکھتےہی دیکھتے ریت میں اس طرح گھس گیا جیسے بل میں سانپ۔ “ محسن راؤ نے کالے چراغ سے پوچھا۔
“بس یوں سمجھو کہ تمہاری زندگی تھی تو تم بچ گئے ورنہ راکل نے تمہیں مارنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی مکھیوں سے بچانے کے لئے مجھے راکل کی گاگر کامنہ کھولنا پڑا۔ اس گاگر سے نکلنے والی مکھیوں نے تمہارے بدن پر لپٹی مکھیوں پر حملہ کر دیا۔ ان مکھیوں کو مار کر خود سیال بن کر تمہارے بدن پر پھیل گئیں۔ یوں تمہارے بدن کی آگ جو بقّاں کی مکھیوں نے لگائی تھی، وہ راکل کی مکھیوں نے بجھادی پر دونوں بہن بھائیوں کا جسد سیال ریت میں اتر گیا۔ یہ نظارہ تو تم نے خود اپنی آنکھوں سے کر لیا۔ تم تقدیر کے دھنی ہو کہ تمہیں بقّاں سے نجات مل گئی۔ نہ صرف نجات مل گئی بلکہ تمہارے چہرے پر ڈیمک جیسی چیز لگ گئی تھی، وہ بھی دور ہو گئی۔ اس عمل کے اثرات بھی ختم ہو گئے جو اس نے تمہیں ہمیشہ کے لئے اپنا بنانے کے لئے شروع کر رکھا تھا۔“ کالے چراغ نے بتایا۔
اصل خوش خبری تو یہ ہے میرے لئے لیکن یہ بات تم اس یقین سے کیوں کر کہہ رہے ہو ۔ “ محسن نے پوچھا۔
“میں نے جو کہا ہے اس پر تمہیں بھی یقین آجائے گا، ذرا اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر دیکھو۔
“ ہاں ۔ “
محسن راؤ نے خوش ہو کر آنکھیں پھیلائیں اور پھر ڈرتے ڈرتے اپنے چہرے پر ایک ہاتھ پھیرا اور پھر اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کا جائزہ لیا۔ وہ خوش ہو گیا۔ واقعی اس کا چہرہ صاف ہوگیا تھا۔ اس نے اپنے جسم میں توانائی تو اٹھتے ہی محسوس کی تھی۔ میں

“تمہارا بہت شکر گزار ہوں۔ “
“شکر ادا کرنا ہے تو میرے سردار کا کرو، میرے آقا کا کرو جن کا میں غلام ہوں ۔ ” کالا چراغ نے عقیدت سے کہا۔
تب محسن نے بڑی ممنونیت سے سردار کولانا کی طرف دیکھا اور پر خلوص لہجے میں بولا۔
“سردار کولانا میں تیرا تہ دل سے مشکور ہوں ۔ “
“یہ سب میں نے اپنے کالے چراغ کے لئے کیا۔ پر افسوس کہ میں اس کی بقاں اسے نہ دلا سکا ۔ ” سردار کولانا نے افسردہ لہجے میں کہا۔
“اچھا ہوا سردار وہ مرگئی۔ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں خواہ مخواہ اس کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ وہ کسی اور کی تھی۔ میری نا تھی ۔ پر سردار میں بھی کیا کرتا۔ مجھے اس سے بے پناہ محبت تھی، میں اسے اپنے دل سے نکالنا چاہتا تھا لیکن وہ نکلتی ہی نہ تھی۔ میں کیا کرتا۔ میں بھی مجبور تھا۔ یہ عاشق اس قدر مجبور کیوں ہوتے ہیں سردار؟؟.” کالا چراغ بولتے بولتے آبدیدہ ہو گیا۔
” بے وقوف ۔ ” سردار کولانا نے اسے ڈانٹا۔
“ایک بقاں مری ہے۔ میں ایک ہزار بقائیں تیرے لئیے اکٹھا کر دوں گا۔ غم کیوں کرتا ہے ۔ “
“میں تیرے قربان میں تیرا غلام،”
کالے چراغ نے بڑی فرمانبرداری سے اپنا سر جھکا لیا۔
“اب کیا کرنا ہے ؟ ” سردار کو لانا نے گاگر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
” جو تیرا حکم۔ ” کالا چراغ مودبانہ لہجے میں بولا۔
‘ان گاگروں میں ریت بھر کر دفن کر دے۔ پھر آگے کی سوچتے ہیں”۔ سردار کولانا نے ہدایت کی
” ٹھیک ہے سردار ابھی کئے دیتا ہوں ۔ ” کالے چراغ نے سعادت مندی سے کہا۔
پھر اس نے بقاں والی گاگر کی زنجیریں کھولیں، اس میں ریت بھری اور پھر اس گاگر کو زمین پر اوندھا دیا۔ یہی عمل راکل والی گا گر کے ساتھ کیا گیا۔ یہ دونوں گاگریں برابر رکھی تھیں۔ کالے چراغ نے بقاں کی گا گر کی زنجیریں میچوں سمیت اکھاڑ لیں اور اس کی گاگر پر رکھ دیں۔ راکل کی گاگر کی زنجیریں او میخیں بھی راکل کی گاگر پر رکھ دی گئیں۔ اس کے بعد اس نے گھڑ سواروں کو اشارہ کیا۔ ان گھڑ سواروں نے دیکھتے ہی دیکھتے اتنی ریت ان گاگروں پر چڑھا دی کہ وہاں ایک اونچا سا ٹیلہ بن گیا۔ اس سارے عمل کو محسن راؤ خاموشی سے کھڑا دیکھتا رہا۔ گاگروں کی تدفین جب مکمل ہوگئی تو کالا چراغ سردار کولانا کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔
” اب بستی کی طرف کوچ کرو۔ ” سردار کولانا نے حکم صادر کیا۔
“اور محسن؟” کالے چراغ نے پوچھا۔
“اس کا کیا کرنا ہے ۔؟؟؟ ” سردار کولانا نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
“في الحال اپنے ساتھ لے جانا ہے۔ “
” یہ بستی میں تو نہ جاسکے گا۔ _
“پھر ؟؟.”
“ایسا کرو، اسے خواب محل لے جاؤ لیکن ذرا محتاط رہنا۔ میری بات تو سمجھتا ہے نا۔ “
” میں تیرا غلام۔ میں تیری سب باتیں سمجھتا ہوں ۔ “ کالے چراغ نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
“بس تو پھر رخصت ہو ۔ ” سردار کولانا نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔
“تجھ سے پہلے میں کیسے رخصت ہو سکتا ہوں سردار، پہلے تو رخصت ہو ۔ “
” اچھا ٹھیک ہے۔ “
یہ کہہ کر سردار کولانا ایک اونٹنی پر بیٹھ گیا۔ اونٹنی فوراً کھڑی ہوگئی۔ سردار کولانا کو اونٹنی پر سوار ہوتے دیکھ کر وہ پانچوں گھڑ سوار ، اچھل اچھل کر اپنے گھوڑوں پر بیٹھ گئے اور اونٹی کے پیچھے آکر کھڑے ہو گئے۔ سردار کولانا نے ہاتھ ہلایا۔ کالے چراغ اور محسن راؤ نے جواباً ہاتھ ہلایا۔ اور پھر سردار کولانا پانچوں سواروں کے ساتھ دیکھتے ہی دیکھتے ریت کے بادل میں گم ہو گیا۔ ۔ اس کے جانے کے بعد کالے چراغ نے اسے مسکرا کر دیکھا اور بولا ۔
“آؤ، میرے ساتھ ۔”
سامنے تھوڑے سے فاصلے پر کالے چراغ کی اونٹنی بیٹھی ہوئی تھی۔
وہ دونوں اس پر سوار ہو گئے۔ اونٹنی کھڑی ہوئی۔ اور اشارہ پاتے ہی ہوا ہو گئی۔
ابھی انہیں سفر کرتے ہوئے چند منٹ ہی ہوئے ہونگے کہ اچانک اونٹنی کو ٹھوکر لگی اور وہ زمین بوس ہوگئی۔ یہ دونوں اچھل کر ایک ریت کے ٹیلے پر گرے اور ریت میں تیزی سے دھنستے چلے گئے۔ یہ عمل اس قدر تیزی اور آناً فانًا ہوا کہ محسن راؤ چکرا کر رہ گیا۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک سرسبز و شاداب علاقے میں پایا۔ اونچے اونچے گھنے درخت، خوب ہری گھاس، دور تک پھیلے پھولوں کے تختے۔ پرندوں کے بولنے کی آوازیں ۔۔۔ ایک طویل عرصے کے بعد محسن راؤ نے ایسا منظر دیکھا تھا ۔ اس کے سامنے تو ہر وقت بے آب و گیاہ صحرا رہتا تھا۔ اڑتی ہوئی ریت دیکھ دیکھ کر اس کا دل ڈوب گیا تھا
اس سرسبز و شاداب منظر نے اس کی روح میں تازگی بھر دی۔ وہ لمبے لمبے اور گہرے سانس لینے لگا۔ اگرچہ اونٹنی سے وہ دونوں ایک ساتھ ہی گرے تھے لیکن اس وقت وہ اکیلا ہی تھا۔ کالے چراغ کا کہیں پتہ نہ تھا۔ پھر محسن راؤ اطراف کا جائزہ لینے لگا۔
جہاں وہ بیٹھا تھا، یہ کوئی وسیع و عریض باغ کا حصہ تھا۔ بے پناہ درخت تھے اور انہی درختوں میں سے کسی سفید عمارت کا دروازہ نظر آیا تھا۔
پھر اسے سامنے سے کالا چراغ آتا ہوا نظر آیا۔ شاید وہ اسی عمارت کے دروازے سے نکلا تھا کیونکہ وہ دروازہ ابھی ابھی بند ہوا تھا۔ وہ بہت تیزی سے اس کی طرف آرہا تھا یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ ایک قدم
کی جگہ دس قدم کا فاصلہ طے کر رہا ہو۔ وہ جلد ہی اس کے قریب پہنچ گیا۔

“آؤ، محسن ” کالے چراغ نے اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔
“یہ ہم کہاں آگئے اور کس طرح ؟ ” محسن راؤ اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولا۔
“کہاں آگئے یہ تو بتاسکتا ہوں لیکن کس طرح اس کی وضاحت مشکل ہے، میرے ساتھ کچھ دن رہوگے تو اس طرح کی باتوں کے عادی ہو جاؤ گے۔ ” کالے چراغ نے ہنس کر کہا۔
“اچھا، چلو یہی بتادو، یہ کیا جگہ ہے ؟”
“یہ خواب محل ہے، یہ جگہ تمہارے لئے محفوظ ہے ۔ ” کالے چراغ نے بتایا، پھر بولا ۔ ” ایک بات کہوں ۔۔ برا نہ ماننا، مجھے سے کم سے کم سوال کرو تو زیادہ بہتر ہے ۔ اسلئے کہ بعض سوالات کے جوابات میرے پاس بالکل نہیں ہیں”

“اچھا ٹھیک ہے، میں کوشش کروں گا کہ کم سے کم سوال کروں ۔ ” محسن راؤ نے ہامی بھر لی۔
“ہاں، یہ ہوئی نہ بات ” کالے چراغ نے خوش ہو کر کہا۔
” آؤ ذرا تیز تیز آؤ ۔ “
پھر وہ دونوں تیز تیز چلتے ہوئے کچھ دیر کے بعد خواب محل میں داخل ہو گئے۔ وہ محل کیا تھا ؟ بس اسے کسی حسین خواب کی طرح سمجھنا چاہئے۔ اندر سے ایسا دلکش، ایسا دلفریب کہ بندہ دیکھتا ہی رہ جائے ۔

“محسن تم نے ایک لمبا عرصہ قید میں گزارہ ہے۔ اگر تمہیں اپنی دنیا میں کسی جرم کی سزا میں عمر قید ہوئی ہوتی تو شاید تم کب کے قید خانے سے باہر آچکے ہوتے۔ لیکن اس صحرا میں تم نے بغیر کسی جرم کے عمر قید سے بھی لمبی سزا کاٹی، اب تمہیں آزاد ہو کر کیسا لگ رہا ہے ۔؟ “
“یقین نہیں آرہا۔ ” محسن راؤ نے بے ساختہ کیا۔
$وہ سامنے ایک خوبصورت حمام ہے، وہاں تمہاری دنیا کی ہر آسائش موجود ہے۔ وہاں جاؤ ,خود کو آئینے میں دیکھو تمہیں بہت جلد یقین آجائے گا کہ اب تم کسی کی قید میں نہیں ہو۔ “
“واہ”
کالے چراغ کی بات سنتے ہی محسن راؤ نے خوشی سے نعرہ لگایا اور پھر تیزی سے اس حمام کی طرف بڑھا۔ “اطمینان سے غسل کرو، تب تک میں تمہارے لئے خوشبودار چائے کا انتظام کرتا ہوں ۔ “
یہ کہ کر وہ بھی اٹھ گیا۔ جب وہ حمام میں پہنچا تو اسے دیکھ کر واقعی اس کا جی خوش ہو گیا۔ ایک طویل عرصے کے بعد پر آسائش حمام میں نہانا نصیب ہو رہا تھا۔ اس نے پورا شاور کھول دیا۔ نیم گرم پانی کی پھوار نے اس کے پیاسے بدن کو سیراب کرنا شروع کر دیا۔ اس کی آنکھیں بند ہو گئیں، اس کے بدن کے ساتھ، اس کی روح بھی سیراب ہونے لگی۔
نہا کر جب وہ آئینے کے سامنے کھڑا ہوا تو وہ خود کو دیکھتا رہ گیا۔ اسے بے ساختہ نادرہ یاد آئی۔ راج مداری کی قید سے آزاد ہو کر وہ نادرہ کی گڑھی میں پہنچا تھا۔ اور نہا کر اسی طرح وہ آئینے کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا۔ اس وقت وہ نوجوان تھا اب جوان ہو گیا تھا۔ وہ تو خدا کا شکر تھا کہ کالے چراغ کی مہربانی سے اس کے چہرے کی دیمک صاف ہو گئی تھی اور اس میں توانائی بھی آگئی تھی۔ اگر وہ خود کو اس صورت میں دیکھ لیتا تو گر کر بے ہوش ہو جاتا۔ خیر صحت تو اس کی اب بھی قابل رشک نہیں تھی۔ وہ خاصا کمزور تھا۔
اب دھیرے دھیرے ہی اس کے چہرے اور جسم کی شادابی لوٹے گی۔
ابھی وہ آئینے میں اپنا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ ایک خیال نے اچانک اسے سہمادیا۔ اس دن آئینہ دیکھتے ہوئے اسے کیا محسوس ہوا تھا۔ یہی کہ باتھ روم میں اس کے ساتھ کوئی ہے۔ اس خیال کے ساتھ ہی بقاں کی یاد آئی۔
وہ بھی کیا عجیب عورت تھی۔ کیسی دلکش اور ہوشرہا۔ وہ اس پر مرمٹی۔ اگر وہ نہ مرتی تو اس کی موت یقینی تھی۔ اس کی محبت بھی کیسی عجیب تھی۔ دوسرے کو برباد کر دینے والی۔ اسے محبت تو نہ کہنا چاہئے۔
یہ ایک سزا تھی اس کے لئے عذاب تھا۔ قید با اذیت تھی۔
وہ اپنا ماضی یاد کر کے ایک دم سہم گیا۔ وہ جلدی سے کپڑے پہن کر باہر نکل آیا۔
باہر کالا چراغ اس کا منتظر تھا۔ وہ ایک کرسی پر نیم دراز تھا۔ محسن راؤ کو آتا دیکھ کر سنبھل کر بیٹھ گیا۔
اور اسے دلچسپی سے دیکھنے لگا۔

“کیا دیکھ رہے ہیں ؟ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
“نہا کر تو تمہاری شکل نکل آئی۔ محسن تم ایک خوبصورت انسان ہو ۔ “
“اب کہاں خوبصورت رہا۔ میری خوبصورتی تو تمہاری بقاں دیمک بن کر چاٹ گئی۔ “
بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔ پھر اسے خیال آیا کہ بقاں کے بارے میں، کالے چراغ کے سامنے ایسی بات نہیں
کرنی چاہئے تھی۔ ایک تو وہ اس پر جان دیتا تھا اور اب وہ اس دنیا میں بھی نہیں رہی تھی۔
“تم ٹھیک کہتے ہو ۔ ” کالے چراغ نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
“تمہیں میری بات بری لگی۔؟؟ ” محسن راؤ نے معذرت خواہانہ انداز میں پوچھا۔
“سچی بات کا کیا برا مانتا ۔ ” اس نے بے نیازی سے کہا۔ ” “آؤ، چائے پیو۔ “
محسن راؤ ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ پھر اس نے ٹرے اپنے سامنے کھسکائی اور اس میں ایک کپ دیکھ
کر کالے چراغ سے مخاطب ہوا۔
” ٹرے میں ایک کپ ہے ؟”
“ہاں یہ تمہارے لئے ہے۔ میں چائے نہیں پیتا۔ “
کالے چراغ نے کہا۔ پھر تھوڑے توقف کے بعد بولا
“تمہیں چائے بناتا دیکھ کر مجھے تمہاری بہن یاد آگئی۔ “

بہن کا ذکر سن کر محسن راؤ پریشان سا ہو گیا ۔ وہ چائے بناتے بناتے رک گیا۔ اور کالے چراغ سے مخاطب ہوا۔
“کیا تم میری بہن تانیہ کے بارے میں کچھ جانتے ہو، وہ اس وقت کہاں ہے۔ “
“ہاں، جانتا ہوں ، تمہاری بہن تانیہ کو ، بقاں نے اپنے بھائی راکل کی خدمت میں پیش کر دیا تھا۔ جس طرح میں بقاں کو نہ پاسکا۔ ویسے ہی راکل تانیہ کو حاصل نہ کر سکا۔ بالاآخر اس نے غصے میں پاگل ہو کر اسے چاہ وفات میں ڈلوا دیا۔ ” کالے چراغ نے بتایا۔
“یہ بات تمہیں کیسے معلوم ہوئی۔؟؟ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
“مجھے راکل نے بتائی۔ ” کالے چراغ نے بتایا۔
“یہ چاہ وفات کیا ہے۔ ؟”
“تم اسے موت کا کنواں سمجھ لو ۔ ” کالے چراغ نے وضاحت کی۔ ” اس کنویں میں پھنکوا یا جانے والا شخص کبھی زندہ نہیں بچتا ۔ “
“کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ تانیہ مرگئی ؟ ” محسن راؤ نے وضاحت چاہی۔
“آثار تو یہی بتاتے ہیں۔ ” کالے چراغ نے گردن ہلا کر کہا۔
“لیکن مجھے یقین ہے کہ میری بہن مر نہیں سکتی، وہ مجھے لینے آئی تھی۔ وہ مجھے ضرور لے کر جائے گی” محسن نے بڑے یقین کے ساتھ کہا۔
۔”میرا دل بھی یہی کہتا ہے کہ وہ زندہ ہے۔ وہ مرنے والی چیز ہی نہیں۔ تم دونوں ضرور اپنی دنیا میں واپس جاؤ گے۔ “
یہ کہہ کر کالا چراغ اچانک کھڑا ہوا اور اس نے اپنے لباس سے ایک چمکدار خنجر نکالا
کالے چراغ نے اچانک کھڑے ہو کر جس انداز سے خنجر نکالا تھا، وہ انداز محسن راؤ کو پریشان کر گیا۔
اس نے جلدی سے چائے کا کپ پرچ میں رکھ دیا اور اسے حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا
” میں اب چلتا ہوں ۔ ” کالے چراغ نے خنجر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ” یہ خنجر تم اپنے پاس احتیاط سے رکھ لو۔ ہو سکتا ہے کسی وقت اس کی ضرورت پڑ جائے ۔ “
“یہاں کوئی خطرہ ہے ۔ ؟ ” محسن راؤ نے گہرا سانس لیا۔
“نہیں, خطرہ کوئی نہیں۔ یہ تمہارے لئے بالکل محفوظ جگہ ہے۔ یہ خنجر میں نے تمہیں احتیاطاً دیا ہے، تم اس کمرے سے نکل کر اگر باغ میں جانا چاہو تو جاسکتے ہو لیکن۔۔ باغ کی چار دیواری کے باہر قدم مت رکھنا۔دوسرے اس کمرے کے علاوہ محل کے اندر جانے کی کوشش نہ کرنا۔ سوال نہ کرنے کی میں تم سے پہلے ہی درخواست کر چکا ہوں، لہذا سوال کوئی نہیں۔ اب تم آرام کرو۔”
یہ کہ کر وہ محل کے اندر جانے لگا۔

“تانیہ کا کیا ہو گا؟ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
کالا چراغ جاتے جاتے رک گیا۔
” مجھے تانیہ کی خود فکر ہے۔ میں اس کے بارے میں معلومات کرتا ہوں ۔ تم بے فکر ہو کر سو جاؤ۔۔ اگر کوئی امید افزا خبر ہاتھ لگی تو ہم اکٹھے ہی چلیں گے چاہ وفات پر ۔۔ ٹھیک ہے؟ ۔ ” کا لے چراغ نے تائید چاہی
“ٹھیک ہے۔ “محسن راؤ نے اثبات میں گردن ہلائی۔

پھر کالا چراغ تیزی سے ڈگ بھرتا محل کے اندرونی دروازے سے اندر چلا گیا۔ دروازہ زوردار آور سے بند کیا گیا۔ پھر دروازے کے پیچھے کچھ کھڑ بڑ سی سنائی دی جیسے دروازے کو تالا لگایا جا رہا ہو۔ کالے چراغ کے جانے کے بعد محسن راؤ کمرے میں تنہا رہ گیا۔ یہ تنہائی اس کے لئے نئی نہ تھی۔ ایک عمر گزری تھی اس تنہائی میں۔ وہ اطمینان سے چائے پینے لگا۔ چائے بہت مزے دار تھی۔ ایک طویل عرصے کے بعد پر اہتمام غسل اور پھر ایسی زبردست چائے ملی تھی کہ اس کی روح تک میں مسرت بھر گئی تھی۔ جائے پی کر وہ بستر پر لیٹ گیا۔ نہایت آرام دہ بستر تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کی آنکھوں میں نیند اترنے لگی۔ اس وقت تانیہ اس کے تصور میں گھوم رہی تھی۔ وہ اس کے بارے میں بڑی فکر مندی سے سوچ رہا تھا۔
“جانے وہ اس وقت کہاں ہوگی۔ وہ بے چاری مجھے مشکل سے نکالنے آئی تھی خود ہی مشکل کا شکار ہوگئی ۔ جانے اب اس پر کیا بیت رہی ہوگی۔ چاہ وفات کے بارے میں کالے چراغ کا خیال ہے کہ اس میں دھکیلے جانا والا کبھی زندہ نہیں بچتا۔ اس کا جانے کیا حشر ہوا ہو۔ اس کی زندگی کی امید رکھنا فضول ہے۔ بہر حال چاہ وفات پر جا کر دیکھنا تو چاہئے۔ کالا چراغ واپس آئے تو اسے لے کر جاؤں گا۔ وہی مجھے چاہ وفات تک پہنچا سکتا ہے۔ ورنہ میں تو زندگی بھر چاہ وفات کی تلاش میں بھٹکتا رہوں گا۔ یہ چاہ وفات بھی خوب تھا، جو اس میں گرتا تھا وفات پا جاتا تھا۔ دراصل وہ موت کا کنواں تھا۔۔۔

“اب جانتے ہیں تانیہ کے بارے میں کہ اس کے ساتھ راکل نے کیا کیا۔۔۔ 👇👇👇

اس روز راکل، تانیہ کو فریب دے کر چاہ وفات تک لے آیا تھا۔ جب راکل کے ایک خاص اندار پر دو مسلح سوار تانیہ کے ہاتھ پکڑ کر اس کھنچنے لگے تو اسے صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا۔ اس کی چھٹی حس ایک
دم بیدار ہوگئی۔ اسے احساس ہوا کہ اس کے ساتھ کچھ ہونے والا ہے وہ ایک دم غصے میں آگئی ۔ اور بپھر کر بولی۔
” راکل، یہ کیا بدتمیزی ہے۔ “
” ہاہاہا ۔ ” رائل نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا ۔
” جو راکل کا کہنا نہیں مانتا، اسے ہر صورت میں سزا سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔ “
” لیکن تو, تو مجھے کسی کو پیغام دینے کے لئے قید خانے سے نکال کر لایا تھا۔ ” تانیہ نے احتجاج کیا
“پیغام تو میں تجھے دوں دوں گا۔ موت کا پیغام ۔ “
یہ کہ کر وہ پھر دیوانہ وار ہنسنے لگا۔
” کالے چراغ نے تیرے بارے میں ٹھیک کہا تھا کہ تو ایک خبیث مخلوق ہے۔ ” تانیہ کا غصہ انتہا پر تھا
“اس نے ٹھیک کہا تھا۔ میں واقعی ایک خبیث مخلوق ہوں ۔ اب تو میری خباثت دیکھ ۔ “
یہ کہ کر وہ اپنے سواروں سے مخاطب ہوا۔
” اسے اٹھاؤ اور چاہ وفات میں ڈال دو ۔ “
پھر جو کچھ ہوا چشم زدن میں ہوا۔ راکل کا حکم پاکر دونوں سوار اس کے دونوں ہاتھ کھینچتے ہوئے آگے بڑھے۔ پھر ایک جگہ رک کر انہوں نے تانیہ کے پیر پکڑ کر اسے اوپر اٹھایا۔ ڈنڈا ڈولی کے انداز میں اسے جھونٹے دیئے اور پھر ایک عجیب سی آواز نکال کر اسے ہوا میں اچھال دیا۔
جب وہ نیچے گری تو تانیہ کو احساس ہوا کہ اسے کہاں پھینکا گیا ہے۔ وہ ایک بہت گہرا کنواں تھا اور وہ اس میں گرتی چلی جارہی تھی۔
کنویں کے اندر گہرا اندھیرا تھا۔ اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے کوئی چیز پکڑنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی چیز نہ آئی۔ وہ نیچے گرتی چلی جارہی تھی۔ جانے یہ کنواں کتنا گہرا تھا۔
تانیہ نے گھبرا کر ایک مرتبہ پھر ہاتھ پاؤں مارے اور بے ساختہ چیچنے لگی ۔ ” بچاؤ بچاؤ ۔ “

تانیہ کی چیخ سن کر کنویں کی دیواروں میں کھلبلی مچ گئی۔ کنویں کی دیواروں میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے غار تھے اور ان غاروں میں کنویں کی مخلوق آرام کر رہی تھی۔ تانیہ کی چیخیں سن کر یہ مخلوق بیدار ہونے لگی۔

“ارے، دیکھو، یہ تو کسی انسان کی آواز ہے۔ “کسی نے نیچے جھانک کر کیا۔
“انسان کی بچی ہے۔ ” نیچے والے غار سے آواز آئی۔
“ارے اسے پکڑو۔ اسے پانی میں گرنے سے بچاؤ ۔ “

تانیہ کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ کنویں کی مخلوق اس کی زندگی بچانے کے لئے کوشاں ہے ۔ وہ مسلسل چیخے
جارہی تھی۔ ” بچاؤ بچاؤ ۔ “
جبکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ اس گھور اندھیرے میں کنویں کی تہ میں گرتے ہوئے اسے بھلا اب کون بچا سکتا تھا۔ جانے وہ کس امید پر چیخ رہی تھی۔ شاید وہ چیخ کر اپنا خوف کم کر رہی تھی۔
کنویں کی مخلوق چشم زدن میں باعمل ہو گئی۔
نیچے گرتی ہوئی تانیہ کو اچانک یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اسے تھام لیا ہو۔ پھر یہ احساس جاگا کہ وہ نیچے گرنے کے بجائے اوپر کی طرف اٹھ رہی ہے۔ نظر اسے کچھ نہیں آرہا تھا ۔
اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ کسی تختے پر بیٹھی ہو۔ اس نے سراٹھا کر ایک دم او پر دیکھا
کنویں کامنہ اسے کسی سوراخ کی طرح نظر آرہا تھا۔ اس بات سے کنویں کی گہرا کا اندازہ ہوتا تھا
تھوڑا سا اوپر جانے کے بعد اسنے محسوس کیا جیسے اسے کہیں بٹھا دیا گیا ہو
اسنے اندھیرے میں ہاتھوں سے ٹٹول کر دیکھا تو پتھریلی سی جگہ محسوس ہوئی ۔ اب اس کے چاروں طرف اندھیرا تھا، اوپر کنویں کا سوراخ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ کنویں کی دیوار میں بنے ہوئے اس چھوٹے سے غار میں جو غیر انسانی مخلوق آباد تھی وہ دو مردوں اور ایک عورت پر مشتمل تھی۔ وہ تانیہ کودیکھ کر بے پناہ خوش تھے۔ تانیہ غار کے پتھریلے فرش پر بیٹھی تھی اور وہ دونوں مرد دیوانہ وار اس کے گرد رقص کر رہے تھے جبکہ عورت ایک طرف کھڑی اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
یہ خبر کہ ایک انسان کی بچی کنویں میں آگئی، اوپر سے نیچے تک کنویں کے ہر غار میں پھیل گئی تھی۔ یہ غار
کنویں کے درمیان میں تھا۔ کنویں کی مخلوق اوپر اور نیچے سے تانیہ کو دیکھنے آرہی تھی۔
تانیہ کو کچھ پتہ نہ تھا کہ اس کے گرد کیا ہو رہا ہے۔ اسے یہ احساس تو تھا کہ اس کے آس پاس کوئی ہے۔ بولنے کی کچھ آوازیں بھی آرہی تھیں۔ لیکن یہ لوگ کون سی زبان بول رہے تھے اور کیا کہ رہے تھے، یہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ بہر حال وہ اس بات پر خوش تھی کہ کنویں میں گرنے سے بچ گئی تھی ۔ موت کسی گولی کی طرح اس کے کان کے پاس سے گزر گئی تھی۔
جب اسے کنویں میں پھینکا گیا تھا تو خوف اور دہشت سے اس کا دل کانپ رہا تھا۔ اس کے ہوش و حواس معطل ہوتے جارہے تھے۔ اب وہ کیفیت تو نہ تھی لیکن دل کسی طور ٹھکانے پر نہیں آرہا تھا۔ اس پر بے پناہ گھبراہٹ طاری تھی اور جوں جوں وہ گہرے سانس لے رہی تھی، اس کی گھبراہٹ بڑھتی جارہی تھی۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا دم گھٹ رہا ہو۔

” اے تم لوگ اسے اوپر کیوں اٹھا لائے ہو، اسے کنویں میں گرنے کیوں نہیں دیا۔ “
اس عورت نے جو غار کے ایک کونے میں خاموش کھڑی تھی، رقص کرتے مردوں سے پوچھا۔
“تو نہیں جانتی کہ یہ کون ہے ؟” ان میں سے ایک مرد نے جواب
“جانتی ہوں، یہ انسان کی بچی ہے۔ ” عورت بولی۔
” تو پھر ایسا الٹا سوال کیوں کیا ؟”
” اس کا کروگے کیا ؟ ” عورت نے پوچھا۔
“کیا ضروری ہے تو جس بات کو نہیں جانتی، اس بات کو جانے۔؟؟ “
“جاننے میں کیا حرج ہے۔ ” عورت نے کہا۔
کیا تو نے کاشگن کا اعلان نہیں سنا۔؟؟
” کیسا اعلان ؟ مجھے تو نہیں معلوم ۔ “
“ہاں، تجھے کہاں پتہ ہوگا، تو کونسا کنویں سے نکلتی ہے۔ “پہاڑوں کے اس پار کاشگن کی بستی میں، یہ اعلان ہو تا رہتا ہے کہ اگر کہیں کوئی انسان نظر آجائے تو اسے فوراً اس کے سامنے پیش کیا جائے۔ وہ انسان کو پکڑ کر لانے والے کو منہ مانگا انعام دے گا۔ “
“تو کیا تو اسے کاشگن کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ” عورت نے پوچھا۔
“تو اور کیا۔ “
لیکن انعام کا حقدار تو میں ہوں ۔ ” نیچے والے غار کا رہائشی بولا ۔ ” میں نے اسے پہچان کر بتا یا تھا کہ یہ انسان کی بچی ہے۔ “
“سب سے پہلے دیکھا تو میں نے تھا۔ ” اوپر والے نے کہا۔
“تو نے کیسے دیکھا تھا ، ہم سب تو سو رہے تھے ۔ “
“میں اس کی چیخ کی آواز پر بیدار ہوا تھا، میں نے فوراً ہی جھانک کر دیکھا تھا۔ “

پھر ان دونوں میں جھگڑا ہونے لگا کہ اصل انعام کا حقدار کون ہے۔ تب سب سے نیچے والے غار سے ایک بزرگ کو بلایا گیا۔ ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا گیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ انعام کے دونوں حقدار ہیں۔ وہ بھی جس نے پہلی مرتبہ اسے دیکھا اور وہ بھی جس نے تصدیق کی کہ وہ انسان کی بچی ہے۔ ادھر پنچایت لگی تھی۔ جرگہ بیٹھا ہوا تھا ۔ فیصلے ہو رہے تھے۔ اور ادھر اسے کچھ پتہ ہی نہ تھا کہ اس کے بارے میں کیا طے ہو رہا ہے۔ اس کے سر کی قیمت لگ چکی تھی۔ اور اب وہ کاشگن کے حوالے کی جانے والی ہے۔
اس کی حالت خراب ہورہی تھی۔ اس کا سانس کسی طور صحیح نہیں ہو رہا تھا۔ دم گھٹنے کی کیفیت بڑھتی جارہی تھی۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے گلا پکڑ کر لمبے لمبے سانسیں لے رہی تھی۔ بزرگ کے فیصلے دیتے ہی تانیہ ایک طرف لڑھک گئی۔ وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔

” ارے، اسے کیا ہو گیا۔ دیکھو۔ ” عورت نے سب کو تانیہ کی طرف متوجہ کیا۔
“کیا ہوا ؟ ” بیک وقت کئی آواز میں آئیں۔
“یہ ہوش گنوا بیٹھی ہے۔ اسے جلدی سے پہاڑوں کے اس پار لے جاؤ۔ ورنہ یہ مر جائے گی۔ کنویں کی فضا شاید اس کو راس نہیں آئی ۔ “
بزرگ نے بے ہوش تانیہ کو دیکھ کر کہا۔ فوراً ان دو مردوں ( کنویں کی مذکر مخلوق ) نے جنہیں انعام کا حقدار قرار دیا گیا تھا۔ تانیہ کو اٹھایا اور سنبھالتے ہوئے کنویں کی تہ میں جانے لگے۔ وہ بہت گہرا کنواں تھا۔ اسے چاہ وفات ٹھیک کہا جاتا تھا۔ کنویں کی تہہ میں کوئی تیل جیسی چیز اہل رہی تھی۔ اس سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ اس سیال میں گرتے ہی آدمی ریزہ ریزہ ہو جاتا تھا۔ پھر اس کنویں کی فضا مسموم تھی ۔ اس لئے تانیہ بے ہوش ہوگئی تھی۔ وہ دونوں اسے سنبھالے ہوئے تہہ میں جانے کے بجائے جہاں سیال ابل رہا تھا۔ اور اس کی گرمی کافی اوپر تک محسوس ہورہی تھی،ایک غار میں داخل ہو گئے۔ یہ غار خالی تھا یہ دراصل یہاں سے باہر نکلنے کا راستہ تھا۔ وہ دونوں اسے اٹھائے ہوئے اڑتے ہوئے پہاڑوں کی طرف جارہے تھے۔ پہاڑ پار کر کے دونوں سسے سنبھالے دھیرے دھیرے نیچے آنے لگے۔ پھر انہوں نے ایک بہتے چشمے کے نزدیک بڑے پتھر پہ اسے لٹا دیا
یہ ایک پر فضا مقام تھا۔ کچھ ہی دیر میں تانیہ کے حواس بحال ہو گئے۔ پھیپھڑوں میں تازہ ہوا پہنچی تو اس نے فوراً آنکھ کھول دی آنکھیں کھلنے کے بعد اسے جو کچھ نظر آیا وہ ناقابل یقین تھا۔ اسے تو کنویں میں پھینکا گیا تھا۔ پھر کسی نے اسے گرنے سے روک کر اسے اوپر پہنچا تھا۔ وہ گھپ اندھیرے میں پتھریلی زمین پر بیٹھی تھی اور اس کے ارد گرد کچھ غیر مانوس سی آوازیں رہی تھیں۔ اور پھر اس کادم گھٹنے لگاتھا۔ اور وہ بے ہوش ہوگئی تھی۔
آنکھ کھلی تو نہ وہ گھپ اندھیرا تھا۔ نہ کنواں ۔ یہ ایک خوبصورت پہاڑی علاقہ تھا۔ سامنے ایک چشمہ بہہ رہا تھا۔ اونچے اونچے درخت تھے۔ بالکل اپنی زمین کے پہاڑی علاقوں جیسا منظر تھا۔ جب وہ اٹھ کر بیٹھی تو اپنے سامنے ایک پتھر پر ایک عجیب و غریب مخلوق کو دیکھا۔ وہ دو تھے۔ قد مشکل سے ان کا ایک ڈیڑھ فٹ رہا ہو گا۔ ان کے سر کے بال زمین تک پہنچے ہوئے تھے۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھ پاؤں ۔ موٹے ہونٹ اور داہنے ابھرے ہوئے ۔ منہ میں دانت کوئی نہیں تھا۔ آنکھیں گول اور سبز رنگ کی۔
تانیہ کو اٹھتا دیکھ کر وہ دونوں بھی پتھر پر کھڑے ہو گئے۔ اور کھڑے کھڑے اڑتے ہوئے اس کے نزدیک آکر رک گئے۔
تانیہ ان دونوں کو نزدیک دیکھ کر سہم گئی۔
“کون ہو تم لوگ ؟”
ڈرو مت، ہم تمہیں نقصان نہیں پہنچائیں گے ۔ ” ان میں سے ایک بولا ۔ بڑی باریک سی آواز تھی۔
“یہ کیا جگہ ہے ؟ “
“یہ کاشگن کی بستی ہے ۔ ” ان میں سے ایک بولا ۔
”وہ تم اس پہاڑی پر ایک چمکتا ہوا محل دیکھ رہی ہو۔ وہاں رہتا ہے وہ ۔ ہمیں وہاں جاما ہے۔ تم تیار ہو جاؤ ۔ “

اور ابھی وہ کچھ سمجھ بھی نہ پائی تھی کہ کون کا کاشگن، کون سا چمکتا محل اور وہاں کیوں جانا ہے کہ ان
دونوں نے اس کے بازو پکڑ لئے۔ تانیہ کو ایک جھٹکا لگا اور وہ فضا میں جھولتی ہوئی اڑنے لگی۔ اور وہ دونوں اس کے بازو پکڑے بڑے آرام سے فضا میں اڑ رہے تھے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جسے تانیہ کوئی ہلکی پھلکی شےہو۔
کچھ ہی دیر میں وہ اس چمکدار محل کے سامنے پہنچ گئے۔ وہ ایک گیند نما محل تھا۔ بہت بڑا، اس میں صرف ایک دروازہ تھا۔ اور وہ پورا محل سونے کی طرح چمک رہا تھا ۔ کنویں کی مخلوق اسے سیڑھیوں پر چھوڑ کر دروازے پر پہنچی۔
جاتے ہوئے ان میں سے ایک نے کہا تم آرام سے سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر آؤ ۔ ہم جاکر دروازہ کھلواتے ہیں۔ “

جب تانیہ اوپر پہنچی تو دروازه کھل چکا تھا۔
دروازے کے اندر سے بری فرحت بخش ہوا آرہی تھی اور ایک نیزہ بردار شخص رنگ برنگے کپڑے پہنے کھڑا تھا۔ وہ ان دونوں سے سوال جواب کر رہا تھا۔
تانیہ اس کے نزدیک پہنچ گئی۔ وہ نیزہ بردار شخص تانیہ کو بڑی محویت سے دیکھنے لگا اور پھر وہ کنویں کی مخلوق سے مخاطب ہو کر بولا۔ ” یہ ہے وہ ؟”
“ہاں ۔ ” ان میں سے ایک نے جواب دیا۔
“ٹھیک ہے۔ تم اسے لے کر اندر آؤ۔ میں کاشگن کو اطلاع کرواتا ہوں ۔ “
یہ کہ کر نیزہ بردار اندر کی طرف چل دیا۔ ان دونوں نے اس کے ہاتھ کی انگلی پکڑلی۔ اور پھر وہ چکنے فرش پر پھسلنے لگے وہ بڑے آرام سے تانیہ کے ساتھ چل رہے تھے۔
باہر سے یہ گیند نما محل سونے کی طرح چمکتا ہوا تھا تو اندر سے اس کے در و دیوار چاندی کی طرح کے تھے۔۔
لگتا تھا جیسے یہ محل سونے چاندی کا بنا ہوا ہے۔
تھوڑا آگے جانے کے بعد سیڑھیاں آگئیں جو نیچے کی طرف جارہی تھیں۔ اس نیزہ بردار شخص کو انہوں نے انہی سیڑھیوں سے نیچے جاتے دیکھا تھا، لہٰذا وہ بھی سیڑھیاں اترنے لگے۔
یہ ایک گول زینہ تھا۔ جو بہت گہرائی تک چلا گیا تھا۔ تانیہ سیڑھیاں اترتے اترتے تھکنے لگی تھی۔ جبکہ وہ دونوں اس کی انگلیاں پکڑے اسپرنگ کی طرح اچھلتے ہوئے مزے سے سیٹرھیاں اترتے چلے جارہے تھے
بلآخر سیڑھیوں کا اختتام ہوا۔ تانیہ نے اطمینان کا سانس لیا۔ سامنے ایک دروازہ تھا جس پر سرخ پردہ لہرا رہا تھا۔ وہاں وہ نیزہ بردار شخص موجود تھا اس نے اشارے سے ان تینوں کو اندر جانے کا اشارہ کیا
کنویں کی مخلوق نے تانیہ کی انگلیاں فوراً چھوڑ دیں اور وہ تیزی سے پردہ ہٹا کر اندر چلے گئے۔ ان کے ںعد تانیہ اندر داخل ہوئی۔ سامنے ایک کرسی پر اس نے ایک معمر مگر پروقار شخص کو بیٹھے دیکھا۔ دو کنیزیں اس کے دائیں بائیں کھڑی مور چھل سے اسے ہوا دے رہی ہے تھیں۔
کنویں کی مخلوق اس شخص کے قدموں سے لپٹ گئی ان میں سے ایک بولا۔ ” کاشگن دیکھ ہم تیرے لیے کیا لائے ہیں۔ ؟ “
“ہاں، میں دیکھ رہا ہوں ۔ ” کاشگن نے اپنی چمکتی آنکھوں سے تانیہ کی طرف دیکھا۔ ” یہ تمھیں کہاں سے ملی ؟
“ہمارے کنویں میں اسے پھینکا گیا تھا۔ ” انہوں نے بتایا۔
“اچھا۔۔ کیا تم نے اسے کچھ بتایا ہے ۔ ؟ ” کا شگن نے پوچھا۔
نہیں، ہم نے اسے کچھ نہیں بتایا ۔ “
“اچھا۔ “
پھر اس نے اپنے دائیں جاب کھڑی کنیز کو دیکھا اور بولا۔ “اسے اندر لے جاؤ۔ ہم آتے ہیں۔ “

وہ کنیز تانیہ کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے سفید پردوں کے پیچھے غائب ہو گئی۔ تانیہ پردہ ہٹا کر اس کنیز کے پیچھے چل دی۔ اندر ایک چھوٹا سا تالاب تھا اور وہ کنیز تالاب کے کنارے کنارے چل رہی تھی
اس تالاب میں کنول کھلے ہوئے تھے اور بطخیں تیر رہی تھیں۔
وہ کنیز تالاب گھوم کر ایک برآمدے میں داخل ہوگئی۔ وہاں ایک دروازہ تھا۔۔ کنیز اس دروازے پر رک گئی اور ثانیہ کو اندر جانے کا اشارہ کیا۔
تانیہ نے ڈرتے ڈرتے اندر قدم رکھا۔ وہ ایک بہت خوبصورت خواب گاہ تھی ۔ آرام دہ بستر کر دیکھ کر وہ اس کی طرف بڑھی اور بڑے اطمینان سے اس پر لیٹ گئی۔ وہ بہت تھکی ہوئی تھی۔ لیٹتے ہی اسے نیند نے آدبوچا۔ کچھ دیر میں ہی وہ بے خبر سوگئی۔ جانے وہ کب تک سوئی۔ آنکھ کھلی تو خواب گاہ میں فانوس جگمگا رہے تھے۔ وہ انگڑائی لے کر بیٹھ گئی۔ اور سوچنے لگی کہ اب نہ جانے اس پر کیا مصیبت نازل ہونے والی ہے ۔ وہ بونے اسے یہاں کیوں اڑا لائے تھے۔ یہ کاشگن آخر کیا شے ہے۔ خیر دیکھا جائے گا۔ وہ اس طرح کے تحیر خیز واقعات سے اتنی مرتبہ گزری تھی کہ اب وہ ان چیزوں کی عادی ہو گئی تھی۔
ابھی وہ بستر پر بیٹھی سوچ ہی رہی تھی کہ کیا کرے۔
اتنے میں کئی کنیزیں کمرے میں داخل ہوئیں ۔۔
وہ اپنے ہاتھوں میں کچھ سامان اٹھائے ہوئے تھیں۔
ان کنیزوں کے چہرے بڑے شاداب اور ہونٹوں پر دلنواز مسکراہٹ تھی۔ ان کنیزوں نے اپنے ہاتھوں کا سامان رکھ کر باری باری تانیہ کو جھک کر سلام کیا۔ تانیہ کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ کسی ملک کی شہزادی ہو۔
دو کنیزیں اس کے قدموں میں بیٹھ گئیں۔ ایک نے اس کے پاؤں اٹھا کر چاندی کے گہرے تسلے سے رکھے۔ اور دوسری کنیز نے اس کے پیروں پر پانی ڈالنا شروع کیا۔ ایک کنیز جب اس کے پیر دھونے لگی تو تانیہ کو بڑا عجیب سا لگا۔ اس نے اپنے پیر سکوڑ کر کہا۔
” ارے یہ کیا کرتی ہو ؟ ہٹو، میں خود دھولو گی اپنے ہاتھ پاؤں۔ “
“یہ کاشگن کا حکم ہے۔ اگر اس کے حکم کی تعمیل نہ ہوئی تو وہ ہماری گردن مار دے گا۔ تم ہماری زندگی کی دشمن نہ بنو۔ ” ایک کنیز نے بڑی شائستگی سے کہا۔

اس کے بعد کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہ رہی۔ تانیہ دم سادھ کر بیٹھ گئی اور کنیزوں نے جلدی جلدی اپنے کام نمٹانے شروع کر دیئے ۔ تانیہ کے ہاتھ پاؤں کے بعد بڑی نفاست سے منہ دھویا گیا۔ لباس تبدیل کیا
اس کے بال بنائے گئے۔ جب وہ مکمل تیار ہوگئی تو اسکے سامنے ایک آئینہ پایا گیا
آئینے میں وہ اپنا عکس دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اسے بڑی مشاقی سے تیار کیاگیا تھا۔ لباس اور بناؤ سنگھار نے اس کے حسن کو چار چاند لگا دیئے تھے۔

” یہ مجھے آخر کس لئے بنایا سنوارا گیا ہے ؟ ” تانیہ نے آئینے پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔
اب اس کے سامنے سے آئینہ ہٹا لیا گیا۔ کنیزیں ایک ایک کر کے کمرے سے نکلنے لگیں۔ تانیہ بڑی حیران ہوئی کہ کسی نے اس کے سوال کا جواب نہیں دیا۔ جب آخری کنیز بھی کمرے سے باہر نکلنے لگیںتو تانیہ نے اسے روکا
“ارے، بات سنو۔ “
کنیز کمرے سے نکلتے نکلتے رک گئی۔ اسے اجنبی نگاہوں سے دیکھنے گئی بولی کچھ نہیں۔

” تم نے بتایا نہیں، یہ سب کیا ہے ؟ “

“ہم نہیں جانتے” اور فوراً ہی کمرے سے باہر نکل گئی۔ کنیزوں کے جانے کے بعد وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اور پھر اپنا لباس سنبھال کر کمرے میں ٹہلنے لگی۔
لباس اتنا بھاری اور نیچے تک لٹکا ہوا تھا کہ اس حالت میں چہل قدمی کرنا ممکن نہ تھا۔ پھر وہ اس خواب گاہ میں رکھی اونچی سی کرسی پر اپنا لباس سمیٹ کر بیٹھ گئی۔
کچھ دیر بعد ایک کنیز آئی، اس نے کاشگن کے آنے کا اعلان کیا۔ جب وہ معمر اور پروقار شخص کمرے میں داخل ہوا تو تانیہ احتراماً کھڑی ہوگئی۔ کاشگن نے اسے اشارے سے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود تانیہ کے سامنے رکھی ایک اور کرسی پر جلوہ افروز ہو گیا۔
کاشگن اسے بغور دیکھنے لگا جیسے کچھ سوچ رہا ہو کہ بات کہاں سے اور کیسے شروع کرے۔
تانیہ منتظر تھی کہ وہ گفتگو کا آغاز کرے گا۔
جب وہ محض خاموشی سے اسے گھورتا رہا تو تانیہ نے اپنی نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ وہ اسے زیادہ دیر نہ دیکھ سکی، اپنی نظریں جھکالیں

تبھی وہ بولا ۔ ” کیا نام ہے تمہارا؟”
“میں تانیہ ہوں ! ” تانیہ نے اپنا تعارف کرایا۔
“تانیہ ہم ایک مصیبت میں گرفتار ہیں، ہمیں تمہاری مدد کی سخت ضرورت ہے۔ “
میری مدد کی ؟ ” تانیہ حیران ہو کر بولی۔ ” میں بھلا آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں ؟ “
تم کسی کو زندگی دے سکتی ہو ؟ ” اس معمر اور پروقار شخص نے عجیب بات کی۔
“زندگی؟ زندگی تو اوپر والے کے ہاتھ میں ہے ۔ “
“جانتا ہوں، پر تم ذریعہ بن سکتی ہو۔ “
“آخر مسئلہ کیا ہے؟ کچھ پتا تو چلے ؟؟”
“آؤ میرے ساتھ ۔ ” یہ کہہ کر کاشان کھڑا ہو گیا۔

دو کنیزوں نے تانیہ کا پیچھے سے اس کا بھاری لباس
اٹھایا ۔ کاشگن چلا تو تانیہ اس کے پیچھے پیچھے ہولی۔
کاشگن جس دروازے سے داخل ہوا تھا، اس دروازے سے واپس ہوا، یہ اس چمکتے محل کا اندرونی دروازہ تھا
کیونکہ تانیہ کو جس دروازے سے لایا گیا تھا، اس کے سامنے ایک حسین تالاب تھا
ایک طویل راہداری سے گزرنے کے بعد وہ بائیں جانب مڑا تو سامنے ایک سنہرا دروازہ دکھائی دیا۔۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہ دروازه سونے کا بنا ہوا ہو
بہرحال اس دروازے پر نقش و نگار کے علاوہ خوبصورت پتھر جڑے ہوئے تھے۔
کنیزوں نے اس سنہرے دروازے کو وا کیا اور خود پیچھے ہٹ گئیں
کاشگن کمرے میں داخل ہو گیا۔
جب تانیہ اندر داخل ہونے لگی تو کنیزوں نے اسکا لںاس چھوڑ دیا اور دروازے پر ہی رک گئیں
تانیہ کے اندر جانے کے بعد انہوں نے دروازہ بند کر دیا۔ تانیہ اپنا لباس گھسیٹتی ہوئی آگے بڑھی۔ یہ بڑا کمرہ تھا۔ اس کمرے کے درمیان میں ایک شیشے کا تابوت رکھا تھا۔ اس تابوت کے علاوہ کمرے میں کوئی اور چیز نہ تھی۔ تابوت کے اوپر البتہ ایک فانوس لٹکا ہوا تھا، جس کی روشنی تابوت پر پڑ رہی تھی۔ باقی کمرے میں ملگجا سا اندھیرا تھا۔ س جاکر کے ہوگئی۔ کاشگن اس تابوت کے پاس جاکر کھڑا ہو گیا اور تانیہ کو مڑ کر دیکھا۔۔
تانیہ بھی کاشگن کے برابر کھڑی ہوگئی ۔۔
تانیہ نے تابوت کی طرف غور سے دیکھا تو اسے ایک جسم لیٹا ہوا دکھائی دیا۔ وہ جسم ایک ریشمین چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ وہ جو بھی تھا اچھے لمبے قد کا بندہ تھا۔
کاشگن نے تابوت کا ڈھکن کھول دیا اور تانیہ کو آگے آنے کا اشارہ کیا۔ تانیہ نزدیک آئی تو کاشگن نے اس کے چہرے سے چادر ہٹادی ۔
چادر ہٹتے ہی کمرے میں اجالا سا ہو گیا۔ وہ جو بھی تھا، ایک بہت خوبصورت نوجوان تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ابھی سویا ہو۔۔ اس کے ہونٹوں پر ایک دھیمی سی مسکان تھی۔ چمکیلے سرخی مائل بال ۔ لانبی پلکیں۔ سفید رنگت جانے اس نوجوان کے چہرے میں کیا بات تھی بس جی چاہتا تھا کہ اسے دیکھتے ہی رہو۔
تانیہ اسے مبہوت ہو کر دیکھے جارہی تھی ۔

“تانیہ، یہ میرا بیٹا ہے راشمون ۔ ” کاشگن کی بھاری آواز گونجی تو تانیہ کی محویت ٹوٹ گئی۔
” جی ۔ ” وہ ایک دم گھبرا کر بولی ۔
“یہ زندہ ہے لیکن مردوں سے بدتر ہے ۔ “
“یہ کیا کہا آپ نے۔ ” تانیہ اس کی بات سمجھ نہ پائی۔
“ہاں، مرگیا ہوتا تو صبر آجاتا۔ یہ نہ مرتا ہے اور نہ جیتا ہے۔ “
” اسے ہوا کیا ہے ؟ “
“یہ بے ہوش ہے۔ ” کاشگن بابا نے بتایا۔
” اسے کوئی بیماری ہے ؟ ” تامیہ نے پوچھا۔
“نہیں بیماری کوئی نہیں۔ “
“یہ کب سے بے ہوش ہے ؟”
“ایک لمبا عرصہ گزر گیا۔ اتنا لمبا کہ میرے صبر کا پیانہ لبریز ہوا چاہتا ہے۔ “
“آپ نے کہا تھا کہ میں آپ کی مدد کرسکتی۔ کیا آپ نے اس سلسلے میں مدد کی بات کی تھی؟؟.”
ہاں، تم میرے بیٹے راشمون کی زندگی بچا سکتی ہو۔ تم چاہو تو یہ ہوش میں آسکتا ہے ۔ “
“آخر کیسے ؟ وہ حیران ہو گئی
آؤ میرے ساتھ ۔ میں تمہیں بتاتا ہوں ۔ “
یہ کہ کر کاشگن نے راشمون کا چہرہ ڈھکا، تابوت بند کیا اور پھر دروازے کی طرف چل دیا۔ تانیہ نے اس کی تقلید کی۔ دروازے پر کنیزیں موجود تھیں۔ تانیہ کے باہر نکلتے ہی انہوں نے تانیہ کا لباس سنبھال لیا۔ اب وہ اطمینان سے کاشگن کے پیچھے چلنے لگی۔

مختلف راستوں سے گزرنے کے بعد کاشگن ایک بڑے دروازے میں داخل ہو گیا۔ اس دروازے پر دونوں طرف نیزہ بردار محافظ کھڑے تھے۔ تانیہ نے اندر داخل ہو کر دیکھا، وہ ایک بڑا کمرہ تھا۔ اس کمرے میں ایک شاہی مسند موجود تھی ۔ کاشگن اس مسند پر اطمینان سے بیٹھ گیا۔ پھر اس نے اپنے قریب ہی رکھی ایک منقش کرسی پر تانیہ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ تانیہ کے بیٹھنے کے بعد کاشگن نے تمام کنیزوں کو باہر نکل جانے کا اشارہ کیا۔
جب ساری کنیزیں باہر نکل گئیں اور دروازہ بند ہو گیا تو کاشگن نے تانیہ کی طرف دیکھا اور بولا۔
“تم میری آخری امید ہو، اگر تم راشمون کو نہ بچاسکیں تو پھر کوئی اس کو نہیں بچاسکے گا۔ اور ساربری اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائے گی۔ میرا بیٹا مجھ سے چھن جائے گا۔ “
“یہ ساربری کون ہے؟”
“سار بری ایک ساحرہ کی بیٹی ہے۔ “
“ساربری کا اشمون سے کیا تعلق ہے ۔ “
“ٹھہرو، میں تمہیں شروع سے سارا قصہ سناتا ہوں ۔ ” کاشگن نے کہنا شروع کیا۔

” میرے بیٹے راشمون کو شکار کا بہت شوق ہے۔ وہ جب بھی شکار پر جاتا، میں ہمیشہ اسے تلقین کرتا کہ بیٹا شکار کے لئے جدھر جی چاہے جانا، بس مغرب کی جانب نہ جانا۔ وہ میری بات مسکرا کر سنتا اور فرمانبرداری سے اپنا سر میرے آگے جھکا دیتا ۔ ایک مرتبہ جانے اس کے جی میں کیا سمائی کہ وہ مغرب کی طرف شکار کھیلنے نکل گیا۔
اور اس ساحرہ کے علاقے میں جا پہنچا۔ وہاں ساحرہ کاویری کی بیٹی ساربری نے راشمون کو دیکھا تو اپنا دل ہار بیٹھی۔ اس نے فورا ایک خوبصورت ہرنی کی شکل اختیار کی اور اس کے سامنے آگئی۔ ایسی خوبصورت ہرنی کو دیکھ کر راشمون دیوانہ ہو گیا۔ اس نے اپنا گھوڑا اس کے پیچھے لگا دیا۔ وہ اس پر تیر چلانا چاہتا تھا لیکن وہ چھلاوہ تھی۔ تیر چلانا تو دور کی بات ہے اس پر نظر رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ ابھی یہاں ہوتی تو چشم زون میں واں ۔
وہ اس کے تعاقب میں منتر استھان تک جا پہنچا۔ ساربری کی خواہش پر اس کی ماں کاویری نے اپنے جادو کا تیر میرے بیٹے پر چلا دیا۔ وہ ساحرہ کاویری کے علاقے سے کسی طرح نکل تو آیا لیکن اپنے محل تک پہنچے پہنچتے اس کی حالت خراب ہونے لگی۔ تمام وید حکیموں کو بلا کر دکھایا گیا لیکن اس کا کوئی بھی علاج نہ کر سکا۔ بالآخر وہ اپنے ہوش گنوا بیٹھا۔ جب وید حکیم اسے ٹھیک نہ کرسکے تو میں نے کئی ساحروں سے رجوع کیا۔ تب سارے قصے کا پتہ چلا۔ کاویری کے سحر کا توڑ ساحروں کے بادشاہ تین مورتی کے پاس ہے۔ وہ تین چہروں والا ساحر ہے، اسی لئے اسے تین مورتی کہتے ہیں۔ تین مورتی کی ایک شرط ہے کہ اگر کوئی انسان اس کی تینوں مورتوں سے کہانی سن لے تو وہ اسے ایک ایسی چیز دے دے گا جس سے راشمون کو ہوش آ جائے گا بلکہ اس کی اس سحر سے بھی جان چھوٹ جائے گی ۔”

” یہ تو کوئی ایسی مشکل شرط نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص کہانیاں سن کر سحر کا توڑ لاسکتا ہے۔۔”
“اب تک دس انسان اپنی جان گنوا بیٹے ہیں۔ ” کا شکن نے انکشاف کیا۔
“جان گنوا بیٹھے ہیں ؟ ” تانیہ نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔
“ہاں، دراصل تین مورتی کی ایک شرط اور ہے کہ جب وہ کہانی سنارہا ہو تو وہ انسان درمیان میں بولے گا نہیں۔ اگر بولے گا تو اپنی جان سے جائے گا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب تک دس انسان تین مورتی کی کہانیوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ایک تو انسانوں کا ملنا ہی کار دارد ہے۔ میں نے جانے کس کس طرح اور جانے کہاں کہاں سے انسانوں کو حاصل کیا۔ یہ میں ہی جانتا ہوں ۔ اب تم میری امید کا آخری سہارا ہو۔ کیونکہ اس سحر کی میعاد دو برس ہے۔ دو برس پورے ہونے میں محض دس دن باقی ہیں۔ ان دس دنوں میں اگر اس سحر کا توڑ نہ ہوا تو راشمون کی روح پر کاویری کا قبضہ ہو جائے گا۔ اور پھر میں زندگی بھر اپنے بیٹے کا منہ نہ دیکھ سکوں گا۔ “
یہ کہتے کہتے کاشگن کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ اب تانیہ کو ساری صورتحال کا پتہ چلا۔ اب اسے اندازہ ہوا کہ کنویں کی مخلوق نے ایسے ہی اس کے جان نہیں بچائی۔ وہ اسے کاشگن کے حوالے کر کے منہ مانگا انعام لے گئے ہوں گے۔
اب وہ کیا کرے۔؟ کیا وہ تین مورتی کے سامنے جانے سے انکار کر دے۔ ہاں اسے ایسا ہی کرنا چاہئے۔

“ساری صورتحال جان لینے کے بعد آپ کا کیا خیال ہے کہ میں خوشی سے تین مورتی کی بھینٹ چڑھ جاؤں گی۔ ” تانیہ نے پوچھا
“ایسا نہ کہو، میں تمہیں سرخرو دیکھنا چاہتا ہوں۔ تم ذرا اپنے ہوش و حواس قائم رکھنا۔ پورے اطمینان سے اس کی کہانی سنتی رہنا، درمیان میں مت بولنا ۔ “
“میں نہیں جاؤنگی..” تانیہ نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر دو ٹوک لہجے میں کہا
“نہیں جاؤ گی تو زندہ پھر بھی نہیں رہوگی۔ “
کاشگن نے بھی فیصلہ کن لہجہ اختیار کیا۔ تالی بجائی۔ فوراً ہی دو کنیزیں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں۔ تب کاشگن نے انہیں دیکھ کر حکم دیا۔ “لاموس کو لاؤ ۔ “

یہ حکم سن کر دونوں کنیزیں کانپ گئیں۔
کنیزیں لرزتی ہوئی الٹے قدموں واپس ہو گئیں۔ دروازہ دوبارہ بند ہو گیا۔
تانیہ نے کاشگن کے حکم کا رد عمل ان کنیزوں کے چہروں پر پڑھ لیا تھا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ کاشگن نے ان دونوں کو کوئی بہت بھیانک حکم دیا ہے۔ ایسا حکم جس کی ان کنیزوں کو توقع نہ تھی۔ تانیہ نے کاشگن کے چہرے پر نظر ڈالی ۔ اس کی پیشانی پر ابھی تک بل پڑے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں غصہ بھرا ہوا تھا۔ اور وہ چھت کی طرف ایک ٹک دیکھے جارہا تھا۔ تانیہ نے پہلے سوچا کاشگن سے بات کرے اس سے پوچھے کہ وہ کیا کرنے جا رہا ہے۔ یہ لاموس کون ہے؟ پھر سوچا چھوڑو۔ لاموس کو پہلے آنے دو۔ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔

کچھ دیر کے بعد کمرے کا بڑا دروازہ کھلا۔ اور ایک قد آور حبشی کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا کسرتی بدن چمک رہا تھا۔ وہ صرف ایک ریشمی شلوار پہنے تھا۔ سر پر سرخ رومال بندھا تھا اور ہاتھ میں چمڑے کا لمبا سا کوڑا تھا۔ اس حبشی کے بعد ایک کٹہرہ اندر داخل ہوا۔ اس کٹہرے میں پہئے لگے ہوئے تھے، اسے چھ غلام دھکا دے کر لا رہے تھے۔
کٹہرے کو کمرے کے وسط میں لاکر روک دیا گیا۔ یہ اونچا لمبا سا تھا۔ جو تینوں طرف سے بند تھا۔ تانیہ اندازہ نہ کر سکی کہ اس کٹہرے میں کیا ہے۔ اس نے سوچا چلتی پھرتی کال کوٹھری ہے۔ اسے اس میں قید کر کے یہاں سے لے جایا جائے گا۔

“اموس کتنے دن سے بھوکا ہے ؟ ” کاشگن بابا نے پوچھا۔

تین دن سے میرے آقا۔ ” اس کوڑے بردار شخص نے بڑے مودبانہ انداز میں کہا۔
“زرا ہمیں اس کی شکل دکھاؤ ۔ “

اس حبشی نے کوڑا لہرا کر کٹہرے کا رخ تبدیل کرنے کا اشارہ کیا۔ چھ غلاموں نے فوراً اس کٹہرے کا رخ گھما کر کاشگن کے سامنے کر دیا۔
اسے دیکھ کر تانیہ کے ہوش اڑ گئے۔ سلاخوں کے پیچھے ایک بھوکا شیر کمرے میں بے چینی سے چکر کاٹ رہا تھا اس حبشی نے اپنا کوڑا لہرایا تو وہ شیر بے اختیار دھاڑا۔ شیر کی دھاڑ نے تانیہ کے رہے سہے حواس بھی معطل کر دیے۔
“اس لڑکی کو اٹھا کر لاموس کے کٹہرے میں ڈال دو ۔ “
کاشگن نے بہت سختی سے حکم دیا۔ اس کا حکم سن کر وہ حبشی آگے بڑھا۔ اس نے تانیہ کی کلائی اپنے مضبوط ہاتھ میں تھام لی اور بیدردی سے کھینچتا ہوا کٹہرے کی طرف بڑھا
اتنے میں دو غلام کٹہرے کے اوپر چڑھ چکے تھے۔ انہوں نے تانیہ کٹہرے میں ڈالنے کے لئیے کٹہرے کی چھت سے ایک تختہ کھینچ لیا۔ تختہ ہٹتے ہی لاموس نے ایک زور دار دھاڑ ماری۔ پورا کمرہ گونج گیا۔ تب اس حبشی نے تانیہ کو کسی گڑیا کی طرح اپنے ہاتھوں پر اٹھالیا۔ اور وہ اسے اچھال کر کٹہرے کے اوپر کھڑے غلاموں کے ہاتھوں میں دینے ہی والا تھا تا کہ وہ تانیہ کو کٹہرے میں پھینک دیں کہ تانیہ نے ایک زور دار چیخ ماری۔

” ٹھہرو” تب کاشگن نے اس حبشی کو ہاتھ اٹھا کر رکھنے کا اشارہ کیا
وہ حبشی رک گیا لیکن اس نے تانیہ کو اپنے ہاتھوں پر سے نہیں اتارا۔
“اب کیا ہے ؟ ” کاشگن تانیہ سے مخاطب تھا۔
“میں وہاں جانے کے لئے تیار ہوں، مجھے لاموس کے حوالے نہ کرو”۔ تانیہ نے التجا کی
” ٹھیک ہے۔ ” کاشگن نے اس کوڑے بردار حبشی کو حکم دیتے ہوئے کہا۔ ” اسے ساتھ عزت کے نیچے اتاردو”

اس حبشی نے بڑی احتیاط اور بڑے احترام کے ساتھ تانیہ کو نیچے اتار دیا اور خود گردن جھکا کر کھڑا ہوگیا ۔۔

“جاؤ۔ لاموس کو لے جاؤ۔ اسے اس کی پسندیدہ خوراک بہم پہنچاؤ اور وہ بھی وافر مقدار میں” کاشگن نے حبشی سے مخاطب ہو کر کہا۔

یہ حکم سنتے ہی دونوں غلام کٹہرے کی چھت سے کود کر نیچے آگئے۔ اور پھر جس تیزی اور پھرتی سے کٹہرے کو لائے تھے اسی تیزی اور پھرتی سے واپس لے گئے۔ کمرے کا دروازہ پھر سے بند ہوگیا۔۔
تانیہ کمرے کے وسط میں کھڑی ہانپ رہی تھی۔ وہ ایک دل ہلا دینے والے تجربے سے گزری تھی اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ معمر اور پروقار نظر آنے والا شخص اندر سے اس قدر سفاک ہے۔ اس نے ایک نازک سی لڑکی کے لئے کیسی خوفناک موت تجویز کی۔ تانیہ نے سوچا ایسی وحشت ناک موت سے تو کہیں بہتر تین مورتی کی کہانیاں سنتا ہے۔ کیا ضروری ہے کہ وہ اس کی کہانی سنانے کے دوران بول ہی پڑے۔۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ خاموشی سے اس کی تینوں کہانیاں سن لے اور اس کی نہ صرف جان بچ جائے بلکہ وہ کاشگن سے انعام کی حقدار بھی ٹھہرے۔۔
کاشگن اپنی کرسی سے اٹھا۔ تانیہ کو سہارا دے کر اس نے اسے کرسی پر بٹھایا۔ تانیہ کے الگ ہوش و حواس گم تھے۔ قوت گویائی جیسے چھن گئی تھی۔ کاشگن بابا نے تانیہ کو کرسی پر بٹھا کر تالی بجائی ۔ بند دروازه فوراً کھلا۔ دو کنیزیں اندر آ کر کھڑی ہو گئیں۔

“مشروب لاؤ ۔ ” کا شگن نے حکم دیا۔

کنیزیں الٹے قدموں واپس گئیں ۔ حکم کی تعمیل میں زیادہ دیر نہ لگی۔ چاندی کی تھالی میں شیشے کا جگ تھا اور اس میں سرخ رنگ کا مشروب بھرا ہوا تھا۔ اور شیشے کے انتہائی نازک گلاس تھالی میں رکھے ہوئے کاشگن نے اپنے ہاتھوں سے ایک گلاس مشروب سے بھرا اور تانیہ کو پیش کیا۔
تانیہ کے حلق میں اس وقت کانٹے سے پڑ رہے تھے ۔ اس نے گلاس فوراً کاشگن کے ہاتھ سے لے لیااور غٹ غٹ کر کے ایک ہی سانس میں سارا مشروب پی گئی۔ وہ مشروب انتہائی خوش ذائقہ، خوشبودار اور فرحت بخش تھا۔ اسے پیتے ہیں اس کے دل کو قرار آگیا۔
جب اس نے خالی گلاس چاندی کی تھالی میں رکھا، تب تک کاشگن اس کے لئے دوسرا گلاس بھر چکا تھا۔ تانیہ اب گھونٹ گھونٹ کر کے اس مشروب کو پینے لگی۔ دوسرا گلاس ختم ہونے کو آیا تو کاشگن نے تیسرا گلاس بھرنا چاہا لیکن تانیہ نے اسے اشارے سے منع کردیا اور پھر خالی گلاس تھالی میں رکھتے ہوئے بولی۔
” دو گلاس بہت ہیں۔ “
” اب تم اپنے کمرے میں جاؤ ۔ کھاؤ پیو آرام کرو۔ کل ٹھیک بارہ بجے تمہیں تین مورتی کے دربار میں بھیج دیا جائے گا۔ “
یہ کہہ کر اس نے دو مرتبہ تالی بجائی۔ فوراً ہی دروازہ کھلا۔ دو کنیزیں اندر آئیں۔

“پورے احترام کے ساتھ تانیہ کو اس کی خواب گاہ میں پہنچاؤ اور اس کی ہر ضرورت پوری کرو۔ ” یہ حکم دے کر کاشگن کمرے سے نکل گیا۔
پھر کنیزوں نے تانیہ کو اس کی خواب گاہ میں پہنچا دیا۔ تانیہ کو یہ بھاری لباس خاصا پریشان کر رہا تھا۔ اس نے ایک کنیز سے ہلکا پھلکا لباس مانگا۔ فوراً ہی اس کو شب خوابی کا لباس فراہم کر دیا گیا۔ اس مشروب نے اس کے اعصاب پر بہت اچھا اثر ڈالا تھا۔ اسے اب بھوک بھی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس کی خواہش پر اسے کھانا پیش کیا گیا۔ کھانا بہت لذیذ تھا، اس نے خوب سیر ہو کر کھایا۔ کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر اس نے کنیزوں کو رخصت کر دیا اور کمرے کا دروازہ بند کر کے ٹہلنے لگی۔۔۔

وہ شیر کے منہ میں جانے سے تو بچ گئی تھی لیکن تین مورتی اس کا کیا حشر کرے گا، اب اسے اس کی فکر
لاحق ہو گئی تھی۔ راشمون کا چہرہ بار بار اس کی نظروں کے سامنے آرہا تھا۔ وہ بہت خوبصورت نوجوان تھا۔ اتنا خوبصورت کہ اس کے چہرے سے نظریں ہٹانا مشکل ہو جائے ۔ ایسا خوبصورت اور معصوم سا نوجوان جو کاویری کے سحر میں مبتلا ہو کر اپنے ہوش گنوا بیٹھا تھا۔ وہ دو سال سے اس حالت میں تھا۔ اس کا باپ کاشگن اس کے لئے کس قدر مضطرب تھا۔ وہ اپنے بیٹے کے لئے اپنے اس سونے چاندی سے بنے محل کو بھی قربان کرنے کے لئے تیار تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ بس کسی طرح اس کا اکلوتا بیٹا کاویری کے سحر سے نکل جائے۔
تانیہ اس کے لئے کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن اس کے بس میں کچھ نہ تھا۔ وہ یہاں اپنے بھائی محس راؤ کو آزاد کرانے آئی تھی۔ اس کا بھائی بقّاں کے سحر میں مبتلا تھا۔ بقاں نے اسے قید کر لیا تھا۔ یہ کیسی دنیا تھی یہاں ہر کوئی عشق میں مبتلا ہو کر اپنا فسوں پھونک دیتا تھا۔ زبردستی اپنا بنانے کی کوشش کرتا تھا۔ کاشگن بابا نے بتایا تھا کہ صرف دس دن رہ گئے ہیں۔ دس دن تک اگر اس سحر کا توڑ حاصل نہ کیا گیا تو راشمون ہمیشہ کے لئے ساربری کا ہو جائے گا۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو ۔ ..
بے اختیار اس کے دل سے دعا نکلی۔ وہ حیران رہ گئی۔ آخر یہ دعا اس کے دل سے کسی جذبے کے تحت نکلی راشمون اس کا کون تھا ؟ ابھی تو اس نے کاشگن بابا سے صاف انکار کر دیا تھا۔ پھر شیر کے منہ جانے سے بہتر اس نے یہ سوچا تھا کہ وہ تین مورتی کے سامنے چلی جائے۔۔
اس وقت اسنے خوف میں مبتلا ہو کر یہ فیصلہ لیا تھا۔ لیکن اب اس کے اندر سے خواہش ابھر رہی تھی۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کو اس کے لئے کچھ کرے۔
آخر کیوں ؟ کیا صرف اپنی جان بچانے کے لئے؟
وہ نہیں جانتی تھی کہ تین مورتی کون ہے۔ کاشگن نے بتایاتھا کہ وہ ساحروں کا بادشاہ ہے۔ اور اسکے تین چہرے ہیں ۔۔ اللہ کی مخلوق ازل سے ایک دوسرے کو کہانیاں سناتی آرہی ہے۔
یہ عجب کہانیاں تھیں۔ ان کہانیوں کو سننے والا قتل بھی کیا جاسکتا تھا۔
وہ ٹہل ٹہل کر تھک گئی لیکن اس کی سمجھ میں کوئی حل نہ آیا۔ اول تو اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ آخر اس کی کہانیاں خاموشی سے کیوں نہیں سنی جاسکتیں۔ کہانیوں کے درمیان میں بولنا کیا ضروری ہے۔ جبکہ یہ بات بھی معلوم ہے کہ بولنے کے ساتھ ہی زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ پھر بھی لوگ بول پڑتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ کہانیوں کے دوران وہ کوئی ایسی بات ضرور کہتا ہے جس کے جواب میں سننے والا بے اختیار بول پڑتا ہے۔
آخر وہ ایسا کیا کہتا ہو گا۔ ؟

ٹہلتے ٹہلتے اور سوچتے سوچتے وہ تھک گئی تو بستر پر گر پڑی۔
کوئی نہیں جو اس کی مدد کرے تب اسے راکل یاد آیا۔ اس کی قید یاد آئی۔ اس کی بات نہ ماننے پر اس نے اسے قید خانے کے کمرے میں بند کروا دیا تھا اور اسے بھول گیا تھا۔ اور وہ بھوک سے نڈھال ہو گئی تھی۔ نیم غشی کی کیفیت میں اسے دادا اعظم کی آمد کا احساس ہوا تھا اور پھر روشندان سے گلہری نے ایک سیب اس کے اوپر گرایا تھا۔ وہ اس قدر لذیذ اور خوشبو دار تھا کہ اسے کھا کر اس کی طبیعت سیر ہو گئی تھی۔ بھوک مٹ گئی تھی۔ اور وہ موت کے منہ میں جاتے جاتے رہ گئی تھی۔ دادا اعظم نے اسے موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا تھا۔
ایک مرتبہ پھر وہ موت کے دہانے پر آگئی تھی۔ کاش! دادا اعظم اس کی مدد کو آجائیں۔ اس نے تڑپ کر سوچا۔
اے کاش ایسا ہو جائے۔
اس کے دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش ابھری تھی۔ اور پھر وہ یونہی سوچتے سوچتے سو گئی تھی۔ تب وہ حیرت انگیز بات ہوئی تھی۔ دادا اعظم اس کے خواب

لمیں آگئے تھے۔ ان کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ تھی۔ ان کا مسکراتا پرنور چہرہ دیکھ کر تانیہ کے دل پر سکون سا چھا گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر دادا اعظم کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے اور التجا آمیز لہجے میں بولی

” دادا ،میں بہت مشکل میں ہوں ۔ “
“کیا مشکل ہے، بیٹا مجھے بتاؤ۔ ” دادا اعظم نے اپنا ایک ہاتھ چھڑا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ “

“میں کیا کروں ؟ کوئی ایسا عمل بتا دیجئے کہ میں تین مورتی کی کہانیاں بغیر بولے سن لوں ۔ “

“ہر کہانی سنانے والا ہیں چاہتا ہے کہ اس کی کہانی کے دوران کوئی نہ بولے۔ اگر تین مورتی بھی یہی خواہش رکھتا ہے تو تانیہ تمہیں چاہئے کہ اس کی کہانی خاموشی سے سن لو۔ “
“دادا میں تو خاموشی سے سن لوں گی میں کیوں بیچ میں بولوں گی لیکن مجھ سے پہلے جو دس انسان اس کی کہانی سنتے گئے اور یہ جاننے کے باوجود کہ بولنے کی سزا موت ہے، وہ بولے بنا نہ رہ سکے اور موت کے گھاٹ اتر گئے تو دادا، میں کس کھیت کی مولی ہوں۔ میں بولے بنا کسی طرح رہ سکوں گی۔ “
” تم کیا چاہتی ہو؟؟”
“اس کی کہانیاں خاموشی سے سننا۔ ” تانیہ نے بتایا۔

“پھر تو ایک ہی ترکیب ہے ۔ “
“وہ کیا ؟ ” تانیہ نے پوچھا۔
“تم گونگی ہو جاؤ ۔ ” دارا اعظم نے مسکراتے ہوئے کیا۔
“گونگی بن جاؤں ۔ ؟”
“گونگی بننے کا کیا فائدہ ہوگا،؟”
” میں گونگی بننے کو نہیں، گونگی ہونے کو کہہ رہا ہوں ۔”

” وہ کس طرح دادا ؟ “
“میں تمہیں ایک عمل بتاؤں گا۔ جب تم تین مرتبہ اس لفظ کو دہراؤگی تو فوراً تمہاری قوت گویائی سلب

ہو جائے گی۔ وہ تین چہروں والا شیطان تمہیں کتنا ہی بولنے پر اکسائے اور تم بولنا بھی چاہو تو بول نہ پاؤگی۔ کوئی اگر تمہاری گردن پر چھری بھی رکھ دے اور کہے کہ بولو ورنہ قتل کئے دیتا ہوں تو اس وقت بھی تمہاری زبان نہیں کھلے گی۔ “
“واہ دادا یہ ہوئی نہ بات ۔ ” تانیہ نے خوش ہو کر کہا۔ ” “اب جلدی سے مجھے وہ عمل بتادیں “
“ہاں، اب تم میری بات غور سے سنو۔ ” دارا نے تنبیہی لہجے میں کہا۔

پھر دادا اعظم نے جو کچھ بتایا، اس نے اسے اچھی طرح سمجھ لیا۔ یاد کر لیا۔
اس کے بعد اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ دادا اعظم کی آمد کا احساس ابھی تک اس کے دماغ میں تازہ تھا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے دادا اعظم ابھی ابھی اس کے پاس سے اٹھ کر گئے ہوں ۔ پتہ نہیں یہ ملاقات خواب میں ہوئی تھی یا ہوش و حواس میں جاگتے ہوئے۔ بہرحال جیسے بھی ہوئی تھی۔ ہوگئی تھی۔
دادا اعظم اس کی مدد کو آگئے تھے۔ اور کیا شاندار ترکیب بتا گئے تھے۔ واہ دادا واہ اللہ آپ کے درجات مزید بلند کرے۔
اب تانیہ کو اپنی کامیابی کا مکمل یقین ہو گیا تھا۔ اب اسے کسی قسم کی فکر نہ رہی تھی۔ وہ بڑے سکون سے سوگئی۔ اور دیر تک سوتی رہی۔
سورج بلند ہونے پر ایک کنیز نے گلاب کی کلی کو تانیہ کے دمکتے رخسار پر مس کر کے اٹھایا۔ کلی کی خوشبو اور رخسار پر نرم لطیف لمس کے احساس نے اس کی بند آنکھوں کو کھول دیا۔ آنکھ کھلی تو اس نے کنیز کو اپنے اوپر جھکے ہوئے پایا۔ تانیہ اسے دیکھ کر مسکرائی۔ کنیز نے جواباً مسکرا کر وہ گلاب کی کلی اس کے ہاتھ میں دے دی۔
گلاب کی کلی لے کر تانیہ نے اسے سونگھا بڑی مسحورکن خوشبو تھی ۔ وہ اٹھنے لگی تو کنیز اسے سہارا دینے کے لئے آگے بڑھی۔ تب تانیہ نے فوراً کہا۔
“نہیں، اس کی ضرورت نہیں ۔ “
” ضرورت ہے” کنیز نے شائستگی سے کہا۔ “آپ ہمیں اپنی کسی خدمت سے نہ روکیں۔ “
” اچھا ٹھیک ہے، تمہاری اسی میں خوشی ہے تو ایسا ہی سہی۔ “
یہ کہہ کر تانیہ نے اپنا ایک ہاتھ اسکی طرف بڑھا دیا
کنیز نے اس کا ہاتھ نرمی سے پکڑ کر بہت پیار سے اٹھایا۔ جب وہ بستر پر اٹھ کر بیٹھ گئ تو کنیز نے کہا

” اب آپ غسل فرما لیں ۔ تب تک ناشتہ تیار ہو جائے گا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ آج ٹھیک بارہ ہے آپ کو تین مورتی کے دربار میں حاضر ہونا ہے ۔ “
“جانتی ہوں ۔ ” تانیہ نے خوشگوار لہجے میں کہا۔
“جانتی ہیں تو پھر فوراً تشریف لے چلئے۔ وقت زیادہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس۔ “
“ٹھیک ہے … چلو۔ ” تانیہ فوراً اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔

جب تانیہ حمام میں داخل ہوئی تو اس کے ساتھ ہی دو کنیزیں بھی اندر آگئیں۔ اور انہوں نے تانیہ کو بے لباس کرنے کے لئے اپنے ہاتھ بڑھائے۔

“نہیں۔ ” تانیہ نے پیچھے ہٹتے ہوئے سختی سے کہا۔
وہ دونوں کنیزیں سہم کر رک گئیں۔

“تم دونوں جاؤ۔ میں ابھی نہا کر آتی ہوں ۔ “

“لیکن ؟؟” اس میں سے ایک کنیز نے کچھ کہنا چاہا۔
“لیکن ویکن کچھ نہیں۔ میں تم لوگوں کی موجودگی کسی قیمت پر برداشت نہیں کروں گی ۔ “
یہ کہ کر اس نے دونوں کنیزوں کے ہاتھ پکڑے اور ان کو حمام سے باہر دھکیل کر دروازہ اندر سے بند کر لیا۔
وہ “ارے، ارے ” کرتی رہ گئیں۔
تانیہ نہانے کے بعد جب آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بال خشک کر رہی تھی تو اچانک را شمون کا خیال جیسے اس کے ریشمیں بالوں میں آب دار موتی کی طرح اٹک گیا۔ وہ اپنی حسین گھنیری زلفوں جھٹکتے جھٹکتے رک گئی۔ وہ سامنے آئینے میں اگرچہ اپنا چہرہ دیکھ رہی تھی لیکن اس کی خیالی نظریں کہیں اور تھیں وہ کچھ اور دیکھ رہی تھیں۔
اس وقت راشمون اس کی نظروں میں سمایا ہوا تھا۔ اس کا حسین چہرہ، تانیہ کے دل میں اترا جارہا تھا
وہ بےخود سی ہوئی جاتی تھی۔ پھر جیسے اسے ہوش آگیا۔ اس نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ کہیں کسی نے اس کے دل میں سمانے والے خیال کو پڑھ تو نہیں لیا؟؟. لیکن وہاں کون تھا۔ یہ جان کر اسے اطمینان ہوا۔
جلدی جلدی وہ اپنے بال جھٹک کر باہر نکل آئی۔ کمرے میں وہ دونوں کنیزیں اس کی بے چینی سے منتظر تھیں۔ تانیہ نے خود کو ان دونوں کے حوالے کر دیا۔ ان دونوں نے اس کو ایک خوبصورت سا لباس پہنایا، اسے سجایا سنوارا ، جب وہ تیار ہو گئی اور اسنے ناشته و غیرہ بھی کر لیا تو کاشگن کو مطلع کیا گیا۔
اس اطلاع پر وہ اسے اپنے کمرے میں طلب کرنے کے بجائے خود اس کے کمرے میں آگیا۔ تانیہ ایک اونچی کرسی پر بڑی شان سے بیٹھی تھی۔ اس کاچہرہ کھلا ہوا تھا۔ کاشتگن کو دیکھ کر اس نے اٹھنا چاہا لیکن کاشگن نے اسے اشارے سے اٹھنے سے روک دیا۔ پھر وہ خود اس کے سامنے کھڑے ہو کر تعظیماً جھکا اور کہا

” تانیہ مجھے معاف کر دینا۔ “
“کس بات کی معافی ؟ ” تانیہ المجھ سی گئی۔ ” میں سمجھی نہیں۔ “
” میں نے کل تمہیں لاموس کے کٹہرے میں پھنکوانا چاہا تھا۔ میں اپنی اس حرکت پر بہت نادم ہوں ۔
تم نہیں جانتی ہو کہ تم میرے لئے کیا ہو۔ تم ایک ایسی امید کی کرن ہو جس کے بعد اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ تمہارے انکار نے مجھے پاگل کر دیا تھا۔ میں اپنے اس پاگل پن کے لئے تم سے معافی کا خواستگار ہوں ۔ “
کاشگن نے التجا آمیز لہجے میں کیا۔
“آپ کے اس حکم نے میرے وجود کو لرزا دیا تھا۔ لیکن میں سمجھتی ہوں آپ کے جذبات کو۔ آپ ایک باپ ہیں ۔ میرے انکار پر آپ کو غصہ آنا ایک فطری عمل تھا۔ آپ کو اس پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ” تانیہ نے کھلے دل سے اسے معاف کر دیا۔
“تم کتنی عظیم ہو تانیہ ۔ انسان کو اوپر والے نے شاید اسی لئے اشرف المخلوقات کہا ہے۔ “
” میں بہت چھوٹی سی چیز ہوں۔ بہر حال میں نے طے کر لیا ہے کہ تین مورتی کے دربار میں جاؤں گی۔ اس کی کہانیاں سنوں گی۔ مجھے یقین ہے کہ میں واپس آؤں گی۔ پھر آپ کے لئے خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔ “
“آسمان والا تمہیں کامیاب کرے ۔ ” کاشکن نے گلو گیر آواز میں کہا۔ ” تم واپس آگئیں اور آسمان والے کی مہربانی سے تم ضرور واپس آؤ گی تو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تم جو مانگوگی، وہ میں تمہیں دوں گا۔ “
“مجھے کچھ نہیں چاہئے۔ آپ کا بیٹا، اس ساحرہ کے سحر سے آزاد ہو جائے۔ میں آپ دونوں کو گلے ملتے ہوئے دیکھ لوں ۔ بس یہی میرا انعام ہے۔ ” تانیہ نے خوشدلی سے کہا۔
“آسمان والا تمہیں سدا خوش رکھے۔ تم واقعی عظیم ہو ۔ ” بس آپ مجھے بڑا بنا کر میری نظروں میں چھوٹا نہ کریں۔ ” تانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ” یہ بتائیں تین مورتی کے دربار میں کب جاتا ہے ۔ “
“انتظامات ہو رہے ہیں جانے کے میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا۔ ” کاشکن نے کہا۔
انتظامات مکمل ہونے پر کاشگن کو اطلاع دی گئی ۔ تب وہ تانیہ کولے کر اپنے محل سے باہر لگا۔ تانیہ نے اپنے سامنے ایک خوبصورت بگھی کو پایا۔ جس میں دو خوبصورت گھوڑے جتے ہوئے تھے۔ کاشگن نے اسے سہارا دے کر بگھی میں بٹھایا اور پھر وہ خود بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ بگھی کے پیچھے مسلح گھڑ سواروں کا ایک دستہ تھا۔ یہ چھوٹا سا قافلہ تین مورتی کے علاقے کی طرف چل پڑا۔۔۔
ایک لمبی مسافت کے بعد جب بگھی رکی اور تانیہ کاشگن کے ساتھ بگھی سے نیچے اتری تو اس نے دیکھا کہ سامنے ایک بلند پہاڑی ہے۔ پہاڑی کی چوٹی پر کوئی مندر نما عمارت بنی ہوئی ہے۔ اور پہاڑی کی چوٹی پر جانے کے لئے پہاڑی کو تراش کر سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔

” اوپر جانا ہے” کاشگن نے اوپر دیکھتے ہوئے کہا
“چلیں۔ ” تانیہ یہ کہہ کر آگے بڑھی۔
پھر وہ دونوں سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ مسلح گھڑ سواروں کا دستہ بگھی کے پاس ہی رہ گیا۔ سیڑھیاں بہت زیادہ تھیں۔ اوپر پہنچنے میں خاصا وقت لگا۔ سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے تانیہ کا سانس پھول گیا لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ معمر ہونے کے باوجود کاشگن کے سانس میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا۔ او پر پہنچ کر تانیہ آخری سیڑھی پر بیٹھ گئی۔ اور لمبے لمبے سانس لینے لگی۔

“کیا ہوا؟ ” کا شکن نے فکر مندی سے پوچھا۔ تھک گئی۔ ” تالیہ نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
“اندر جانے سے پہلے چاہتی ہوں کہ اپنا سانس درست کرلوں ۔
” اچھا تم یہاں بیٹھو میں اندر جاکر اپنی آمد کی اطلاع کرتا ہوں ۔ ” کاشگن یہ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ تانیہ نیچے دیکھنے لگی۔ اسے نیچے کھڑی ہوئی بگھی اور گھڑ سوار نظر آرہے تھے مگر بہت چھوٹے چھوٹے۔
اس وقت وہ خاصی بلندی پر بیٹھی تھی۔ پھر اس نے عمارت پر نظر ڈالی ۔ یہ عمارت بڑے بڑے پتھروں سے بنی تھی۔ پتھر سرخ تھا اور عمارت کسی قلعے کی طرح مضبوط دکھائی دیتی تھی۔ عمارت بلند تھی
لیکن دروازہ کافی چھوٹا تھا۔
کاشگن نے دروازے کے نزدیک جا کر اس میں لگے بڑے سے کنڈے کو دروازے پر تین بار مارا ، کن کن کی آواز ہوئی ۔ پھر فوراً ہی دروازہ کھل گیا۔ اندر سے ایک تلوار بردار شخص بر آمد ہوا، اس نے کاشگن کو اوپر سے نیچے تک بغور دیکھا۔ پھر اسے سامنے ایک لڑکی بیٹھی ہوئی دکھائی دی۔ اس پر بھی اس نے نظر ڈالی اور دھیمے لہجے میں بولا۔
“کون ہو ؟”
“میں کاشگن ہوں، تین مورتی کو میرا پیغام دو۔ میں آگیا ہوں ۔ ایک لڑکی ساتھ لایا ہوں ۔ “
“لڑکی وہ ہے جو سامنے بیٹھی ہے۔ وہ آخر وہاں کیوں بیٹھی ہے۔ ؟؟” تلوار بردار نے پوچھا۔
“انسان کی بچی ہے تھک گئی ہے۔ ” کا شگن نے جواب دیا۔ “اچھا اچھا میں سمجھا۔۔ میں ابھی جا کر تین مورتی کو بتاتا ہوں۔”
یہ کہ کر وہ تلوار بردار شخص اندر چلا گیا۔ جب وہ واپس آیا تب تک تانیہ کا سانس درست ہوچکا تھا۔ وہ اٹھ کر کاشگن کے پاس پہنچ گئی۔ تلوار بردار شخص نے دونوں سے مخاطب ہو کر کہا۔
” آؤ، میرے ساتھ ۔ تین مورتی منتظر ہے تم دونوں کا”

وہ دونوں دروازے میں داخل ہو گئے تو اس تلوار بردار شخص نے پلٹ کر دروازہ بند کر دیا اور پھر تلوار اٹھائے بائیں جانب چل دیا۔ گھنے درختوں کے درمیان ایک چھوٹا سا راستہ اندر گیا تھا۔ وہ راستہ اتنا تنگ تھا کہ اس پر ایک آدمی ہی چل سکتا تھا۔ لہٰذا پہلے تلوار بردار شخص آگے بڑھا۔ پھر تانیہ اس کے بعد کاشگن ۔
درخت اتنے گھنے تھے کہ تھوڑا سا آگے جانے کے بعد ہی اندھیرا گہرا ہوتا گیا۔ پھر ایک وقت وہ آیا کہ مکمل تاریکی چھا گئی۔ تانیہ کو چلنے میں دقت پیش آرہی تھی۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ آگے پھیلا کر آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔ تلوار بردار جو آگے جاچکا تھا۔ تانیہ کو راستہ ٹٹولتے دیکھ کر رک گیا اور وہیں کھڑے کھڑے بولا۔

“ناک کی سیدھ میں چلی آؤ، راستہ بالکل صاف ہے۔ “
“لیکن مجھے تو کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ “
تب کاشگن اس کے آگے آگیا اور اس نے تانیہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا۔
” اب تم میرے پیچھے آرام سے چلی آؤ ۔ “
“کیا آپ کو راستہ نظر آرہا ہے۔ ” تانیہ نے پوچھا۔
“ہاں، کیوں نہیں۔ ” کاشگن نے اطمینان سے کیا۔

جو راستہ گھنے درختوں سے شروع ہوا تھا۔ وہ اب ایک سرنگ میں تبدیل ہو گیا تھا۔ کچھ دیر چلنے کے بعد تانیہ کو اجالا محسوس ہونے لگا۔ تب اسے پتہ چلا کہ وہ گھنے درختوں کے بجائے کسی سرنگ میں چل رہی ہے
سرنگ ختم ہوئی تو ایک بڑا سا کمرہ نظر آیا۔ یہ کمرہ چاروں طرف سے بند تھا۔ کوئی کھڑکی دروازہ نہ تھا۔ البتہ کافی اونچائی پر تین طرف بڑے بڑے روشندان تھے۔ انہی روشندانوں سے روشنی کمرے میں آرہی تھی ۔ کمرہ بالکل خالی تھا۔ فرش سرخ اینٹوں کا تھا۔ اور درمیان میں ایک چوکور جگہ چھوڑ دی گئی تھی جس میں گھاس اگی ہوئی تھی۔.
“بیٹھ جاؤ ۔ ” تلوار پر دار شخص نے گھاس کی طرف اشارہ کیا اور خود تیزی سے پلٹ کر سرنگ میں داخل ہو گیا۔
تانیہ اور کاشگن گھاس پر بیٹھ گئے۔ گھاس بہت نرم اور دبیز تھی۔

“ہاں، کا شگن بولو، کیسے آنا ہوا؟” ایک بھاری آواز کمرے میں گونجی۔

تانیہ نے چونک کر چاروں طرف دیکھا۔ روشندانوں پر بھی نظر ڈالی مگر اسے کوئی نظر نہ آیا۔
“تین مورتی تو جانتا ہے کہ میرے بیٹے راشمون پر ساحرہ کاویری نے سحر کر رکھا ہے۔ اس سحر کا توڑ تیرے پاس ہے۔ اس توڑ کو حاصل کرنے کے لئے میں اب تک دس انسان تیرے دربار میں حاضر کر چکا ہوں”
“اب تو گیارہواں کھلاڑی لایا ہے اور وہ بھی لڑکی ۔ ” ایک قہقہہ لگا کر کہا گیا۔
“اب تک دس انسان تیری بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اب تو مجھ پر مہربانی کر ۔ “
“میرے پاس مہربانی نام کی کوئی چیز نہیں۔ ” تین مورتی نے پھر ایک بھیانک قہقہہ لگایا اور بولا۔ ” اگر یہ لڑکی میری کہانی سن لے گی اور درمیان میں نہیں بولے گی تو میں سحر کا توڑ کردوں گا دوسری صورت میں تو جانتا ہے کہ کیا ہو گا ۔ “
” تین مورتی ایسانه که، یہ میری آخری امید ہے۔ اگر یہ تیری شرائط پر پوری نہ اتری تو میرا بیٹا ہمیشہ کے لئے میرے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ تو یہ بات اچھی طرح جانتا ہے۔ پھر تو یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ راشمون میرا اکلوتا بیٹا ہے ۔ “
“اکلوتا بیٹا ہے تو میں کیا کروں ۔ کیا میں نے اس سے کہا تھا کہ تو کاویری کے علاقے میں چلا جا۔ ہے ساربری کو اپنا دیوانہ بنالے۔ تو نے اسے وہاں جانے سے کیوں نہیں روکا۔ ” تین مورتی نے سخت لہجے کہا۔

“تین مورتی، میں نے کیوں نہیں روکا۔ میں نے اسے ہمیشہ ادھر نہ جانے کی ہدایت کی۔ لیکن ہونے والی بات کو کون روک سکتا ہے۔ راشمون بھٹک گیا اور کاویری کے علاقے میں جانکلا ۔ اس سے غلطی ہو گئی تو معاف کر دے۔ “
“ٹھیک ہے اب تو جا۔ میرا کہانی سنانے کا وقت ہو چلا ۔ تو اس انسان کی بچی کو یہاں چھوڑ جا۔ اور پہاڑی کے قدموں میں اس لڑکی کی لاش کا انتظار کر ۔ جب دس انسان میری کہانی نہ سن سکے اور بیچ میں بول پڑے تو یہ بے چاری میری کہانی کیا سن پائے گی۔ پہلی کہانی میں ہی چل بسے گی۔ “
یہ کہ کر تین مورتی نے قہقہہ لگایا۔
“اچھا تانیہ میں چلتا ہوں۔ میں تمہاری کامیابی کے لئے دعا گو ہوں ۔ ” کاشگن نے کھڑے ہونے ہوئے کیا۔
“آپ بے فکر ہو کر جائیں۔ میں جانتی ہوں کہ تین مورتی مجھے خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن میں ڈرنے والی نہیں ہوں ۔ اللہ مالک ہے جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ ” تانیہ نے بڑے اطمینان اور یقین سے کہا۔ “
” اوپر والے نے چاہا تو فتح ہماری ہوگی ۔ “
“ایسا ہی ہوگا۔ “
“میں پہاڑی کے دامن میں تیرا بے چینی سے منتظر رہوں گا۔ “
“اس کا نہیں کاشگن، اس کی لاش کے منتظر رہنا ۔ جاؤ اب جلدی سے یہاں سے نکل جاؤ ۔ “
کاشگن نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ گردن جھکائے سرنگ میں داخل ہو گیا۔ تانیہ نے اسے ہاتھ ہلا کر الوداع کیا۔ اس نے بھی جواب میں ہاتھ ہلایا اور پھر وہ اندھیرے میں گم ہو گیا۔
اب تانیہ اس خالی کمرے میں اکیلی رہ گئی۔ وہ گھاس کے قالین پر بیٹھی تین مورتی کی آمد کا انتظار کرنے لگی۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ کیا صورتحال پیش آئے گی۔ کاشگن نے تین مورتی کے بارے میں جو معلومات فراہم کی تھیں۔ اس کے تحت وہ تین منہ والا شخص تھا۔ وہ خود سامنے آئے گا۔ یا محض اس کی آواز ہی سنائی دے گی۔ ابھی تک تو اس کی آواز سنائی دی تھی۔
تانیہ کو اس عجیب و غریب کمرے میں بیٹھے ہوئے خوف سا آرہا تھا۔ جانے آگے کیا ہونے والا تھا۔
پتا نہیں وہ تین مورتی کی کہانیاں سن پائے گی یانہیں۔ اگر نہ سن پائی اور درمیان میں بول پڑی پھر تو اس کی لاش ہی یہاں سے جائے گی۔ اگر وہ مرگئی تواس کی زندگی کا مشن ادھورا رہ جائے گا۔ وہ اپنے بھائی محسن
راؤ کو آزاد کرانے کے لئے اس نا معلوم دنیا میں داخل ہوئی تھی۔ اس نے محسن راؤ کو پا بھی لیا تھا۔
پر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ وہ اس سے دور ہو گئی ۔ وہ مایوس نہیں ہوئی تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہ اپنے
بھائی کو زندہ سلامت اپنی دنیا میں لے جائے گی۔ لیکن اگر وہ مرگئی تو پھر کیا ہو گا۔ اس کی موت کے بارے میں کبھی کسی کو کچھ نہ معلوم ہو سکے گا۔ اس سے غلطی ہوگئی۔ اسے چاہئے تھا کہ وہ کاشگن کو وصیت
کر دیتی کہ موت کی صورت میں اس کے جسد خاکی کو اس کی دنیا میں پہنچا دیا جائے۔ آخر وہ اس طرح کیوں ڈوچ رہی ہے۔ وہ یہاں مرنے نہیں، میدان مارنے آئی ہے۔ وہ مسلح ہو کر آئی ہے۔ دادا اعظم نے اسے عمل کا جو ہتھیار بخشا ہے، اس کی موجودگی میں بھلا اسے کون شکست دے سکتا ہے۔

“کیا سوچ رہی ہے لڑکی ؟ ” اچانک آواز آئی۔

“کچھ نہیں، تیری منتظر ہوں ۔ ” تانیہ نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
“میرا نام تانیہ ہے۔ یہ بتا مجھے کتنا اور انتظار کرنا پڑے گا؟ “
بس، انتظار ختم ہوا ۔ میرا وقت شروع ہو گیا۔ تو سامنے دیوار کی طرف دیکھ ۔ “

تانیہ نے اپنے سامنے والی دیوار پر اپنی نظریں گاڑ دیں۔ اس کے دیکھتے ہی دیوار شق ہونا شروع ہوئی۔ ایک دروازہ سا بن گیا تو دونوں طرف کی دیواریں ٹھہر گئیں۔ سامنے بالکل اندھیرا تھا۔ دیواریں شق ہونے سے تھوڑی تھوڑی روشنی اندر جانے لگی لیکن اسے نظر کچھ نہ آیا۔
کچھ دیر کے بعد کوئی چیز اندر سے آتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ وہ ایک کالے رنگ کا تختہ تھا۔ جو پھسلتا آرہا تھا۔ اس تختے پر تین سر رکھے ہوئے تھے۔ جو آپس میں پیوست تھے۔ وہ تختہ شق ہوئی دیوار کے درمیان آکر رک گیا۔
اب تانیہ کے سامنے تانبے جیسے رنگ کا ایک چہرہ تھا اور اسی چہرے میں دائیں بائیں دو اور چہرے جڑے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھیں بڑی بڑی اور چمکدار تھیں، وہ بار بار پلکیں جھپک رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے ہی پتہ چلتا تھا کہ وہ زندہ ہے ورنہ وہ کسی مجسمے کی طرح تھا۔
ایک عجیب و غریب شخصیت اس کے سامنے تھی۔ اس کو دیکھ کر خوف سا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ بولے گا کیسے ۔ اس کی کٹی ہوئی آدھی گردن تختے پر رکھی ہوئی تھی۔

” ہاں، تانیہ پھر تو تیار ہے ۔؟” اچانک اس کے ہونٹوں میں جنبش ہوئی ۔
“ہاں، تین مورتی میں پوری طرح تیار ہوں ۔ ” تانیہ نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا۔
“دیکھ تانیہ اب بھی وقت ہے۔ واپس لوٹ جا۔ تو اتنی حسین ہے کہ میراجی نہیں چاہتا کہ تجھے موت کے گھاٹ اتار دوں ۔ تو اس بوڑھے کاشگن کے ہاتھ کہاں سے لگ گئی؟ “
“تو اس بات کو چھوڑ کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آئی ہوں تو مجھ پر مہربان ہونے کی کوشں نہ کر ۔ جبکہ بقول تیرے مہربانی نام کی کوئی چیز تیرے پاس نہیں
چل اب اپنی کہانی شروع کر ۔ ” تانیہ دو ٹوک انداز میں کہا
“ٹھیک ہے تو اگر مرنا چاہتی ہے تو مجھے کیا۔ میں کیوں فکر کروں۔ میں پہلی کہانی شروع کرنے سے پہلے تجھے ایک مرتبہ اور تنبیہ کر دینا چاہتا ہوں ۔ ” یہ کہ کر وہ چند لمحوں کو رکا۔
اتنی دیر میں تانیہ نے دادا اعظم کا بتایا ہوا عمل دہرا لیا۔

“دیکھ ۔ میری کہانی بہت توجہ سے سننا۔ اور جب تک میں یہ نہ کہہ دوں کہ میری کہانی ختم ہوگئی، اس وقت تک نہ بولنا۔۔ اگر در میان میں بولی تو، تو شرط ہار جائے گی اور تجھے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔۔ ٹھیک ہے؟؟.”
“تانیہ نے اثبات میں گردن ہلائی ۔ بولی کچھ نہیں۔
” اب میں کہانی شروع کرتا ہوں ۔ کسی ملک کی ایک ملکہ تھی، بہت خوبصورت ۔ اسے کہانی سنانے کا بہت شوق تھا۔ وہ ہر رات ایک کہانی سناتی تھی۔ اس کی کہانی سننے کے لئے روز ایک خوبصورت نوجوان لایا جاتا تھا۔ کہانی سناتے ہوئے اس کی شرط یہی ہوتی تھی کہ کہانی خاموشی سے سننا ہوگی۔ اگر درمیان میں بولے تو موت کے گھاٹ اتار دیئے جاؤ گے۔ اس طرح روز ایک خوبصورت نوجوان قتل کر دیا جاتا تھا تانیہ تو جانتی ہے کیوں ؟ ” تین مورتی نے اچانک سوال کیا۔
” مجھے نہیں معلوم ۔ ” تانیہ کے بے ساختہ لب ہلے۔
اس کے لب ضرور ہلے ضرور لیکن آواز کوئی نہ نکلی۔ اگر لبوں کی جنبش کے مطابق آواز بھی برآمد ہو جاتی تو
بازی الٹ گئی تھی۔ وہ شرط ہار جاتی۔ اسے فوراً موت کی نیند سلا دیا جاتا۔ بھلا ہو دا دا اعظم کا کہ انہوں نے اس مقابلے کے لئے اسے تیار کر کے بھیجا تھا۔ ان کے عمل نے ہی اس وقت اسے بچا لیا تھا۔
اس کی قوت گویائی سلب ہو چکی تھی۔ وہ دیکھ سکتی تھی، سن سکتی تھی لیکن بول نہیں سکتی تھی۔ تانیہ کو اب اندازہ ہوا کہ تین مورتی کسی طرح فریب دے کر کہانی سننے والے کو بولنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
جواب نہ پاکر تین مورتی نے پھر کہنا شروع کیا۔
یہ اس کا پہلا حملہ تھا جس سے وہ بچ گئی تھی۔

” ہاں ، تو کہاں جانتی ہوگی۔ ہر روز ایک نوجوان اس لئے قتل کر دیا جاتا تھا کہ وہ ملکہ کی کہانی کے درمیان بول پڑتا تھا۔ ملکہ کی خواب گاہ میں جانے والے کسی نوجوان کو یہ اندازہ نہیں ہو پاتا تھا کہ وہ کس قسم کی کہانی سناتی ہے۔ اور جس کام کو وہ آسان سمجھ کر اس کے سامنے پیش ہو جاتے تھے وہ اس قدر جان لیوا کیسے ہو جاتا ہے۔ وہ ملکہ اصل میں ساحرہ تھی۔ اس نے اپنے محل میں کئی شیر پال رکھے تھے جو یونہی آزادانہ گھومتے پھرتے تھے۔ کہانی سنانے کے دوران بھی کوئی نہ کوئی شیر اس کی خواب گاہ میں گھس آتا تھا۔ اور وہ ملکہ کے سامنے کسی اجنبی نوجوان کو بیٹھا دیکھ کر بگڑ اٹھتا۔ وہ اس نوجوان پر حملہ آور ہو جاتا۔ ملکہ ایک طرف ڈانٹ کر اپنے شیر کو روکنے کی کوشش کرتی تو دوسری طرف اس نوجوان کو کہتی کہ فوراً اس شیر سے معافی مانگ لو کہ آئندہ تم ادھر نہیں آؤ گے۔ ورنہ یہ تمہیں چیر پھاڑ کر رکھ دے گا۔ تب وہ نوجوان گھبرا کر کہتا کہ مجھے معاف کردو میں آئندہ ادھر نہیں آؤں گا۔۔۔۔۔
تین مورتی کی کہانی جاری تھی کہ شیر کے ذکر کے ساتھ ہی ایک شیر تین مورتی کے پیچھے سے اچانک ظاہر ہوا۔ وہ بپھرا ہوا تھا۔ تانیہ اس شیر کو دیکھ کر سہم گئی۔ تین مورتی نے اس شیر کو ڈانٹا اور پھر جلدی سے بولا

“تانیہ جلدی سے کہہ دو کہ تم آئندہ ادھر نہیں آؤ گی، ورنہ یہ تمہیں چیر پھاڑ کر کھا جائے گا”
تانیہ ایک دم گھبرا گئی۔ اگر اس کی قوت گویائی سلب نہ ہوئی ہوتی تو وہ یقینا کہ دیتی کہ میں آئندہ ادھر نہیں آؤں گی۔ صورتحال ہی کچھ اس طرح کی پیدا ہو گئی تھی۔ اس نے شیر کے حملے سے بچنے کے لئے کوشش بھی کی کہ اس کی قوت گویائی بحال ہو جائے لیکن قوت گویائی بحال نہ ہو سکی اور وہ صرف اپنے ہونٹوں کو جنبش دے کر رہ گئی۔
خوف سے اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ وہ لمحہ دور نہیں تھا کہ جب شیر اس کو بھنبھوڑ کر رکھ دیتا۔ پھر ایک لمحہ گزرا۔ دوسرا گزرا۔ پھر کئی لمحے گزر گئے۔ شیر نے حملہ نہ کیا۔ شیر کے غرانے کی آواز بھی نہ آئی۔ تین مورتی بھی خاموش تھا۔ وہ آنکھیں بند کئے بیٹھی تھی سہمی ہوئی ۔
آخر کیا ہوا ؟ آنکھیں کھول کر تو دیکھے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔ سامنے اب کچھ نہ تھا۔ شیر نہ جانے کہاں غائب ہو چکا تھا۔ اور تین مورتی آنکھیں پھاڑے اسے بڑی حیرت سے دیکھ رہا تھا
اس کی حیرت بجا تھی۔ یہ بڑا زبردست حملہ تھا۔ اس فریب سے بچنا کسی ذی روح کے بس کا نہ تھا۔ تیں مورتی نے کہانی در کہانی کا جال کچھ اس طرح سے بنا تھا اور ماضی حال کو اس طرح یکجا کیا گیا تھا کہ کہانی کے دوران خاموش بیٹھنا ناممکن تھا۔ خود تانیہ بھی اس لئے خاموش رہ گئی تھی کہ اس نے خاموشی کا عمل کرلیا تھا۔۔
تین مورتی ساحروں کا بادشاہ تھا، اس کے لئے مصنوعی شیر کا حملہ معمولی بات تھی ۔ لیکن کہانی سننے والے کے اسے دیکھ کر ایک دم ہوش اڑ جاتے تھے۔ اور وہ اس سے بچنے کے لئے کہانی کے دوران بول پڑتا تھا۔
تانیہ کی نظریں تین مورتی کے چہرے پر تھیں۔ وہ سوچ رہی تھی کہ دیکھیں اب وہ کیا شعبدہ دکھاتا ہے۔ کہانی میں کون سا نیا موڑ لے کر آتا ۔ اس نے دیکھا کہ تین مورتی کے چہرے سے حیرت غائب ہوگی اور وہاں مایوسی اور اداسی نے بسیرا کر لیا۔ پھر چند ہی لمحوں میں اس کا چہرہ بے جان ہو گیا ۔ اس کی آنکھیں بھی پتھرا گئیں۔
اس کے بعد تین مورتی کا چہرہ بائیں جانب گھوم گیا۔ اب تانیہ کے سامنے تین مورتی کا دوسرا چہرہ تھا۔۔
سامنے آتے ہی اس چہرے میں زندگی دکھائی دی۔
” تانیہ تو بڑی خوش قسمت ہے کہ تو نے میری پہلی کہانی بغیر درمیان میں بولے سن لی۔ اب میں دوسری کہانی شروع کرتا ہوں، سن۔ “
تین مورتی نے اس سے مخاطب ہو کر کہا۔
تانیہ نے لب کھولے بغیر اسے دوسری کہانی شروع کرنے کا اشارہ کیا۔ دوسری کہانی بھی کچھ اسی قسم کی تھی۔ اس کہانی میں جگہ جگہ پھندے تھے۔ کھائیاں اور خندقیں تھیں۔ شعبدہ گری تھی۔ پر فریب نظارے تھے۔ لیکن تانیہ ان سب سے بخیر و خوبی گزر گئی۔ وہ کچھ نا بولی ،وہ کیوں کر بولتی۔
دوسری کہانی بھی ناکام ہوئی ۔ دوسرا چہرہ پتھر ہو گیا۔
اب تین مورتی کا تیسرا چہرہ سامنے آیا۔ یہ چہرہ تیسری کہانی کے نام پر تیسرا فریب لایا۔ اس نے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ تانیہ کی خاموشی توڑنے کے لئے بے شمار طریقے استعمال کئے لیکن تانیہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ وہ پورے اطمینان سے کہانی کے نام پر اس کی بکواس سنتی رہی۔ پھر اس نے تیسری کہانی کے ختم ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی تانیہ کا چہرو کل –

اتھا۔ جبکہ تین مورتی کا تیسرا چہرہ مرجھا گیا۔ اداس اور ویران ہو گیا۔ تب اس نے دھیرے سے اعلان کیا۔ ”میں ہارا تو جیتی۔ “

اس اعلان کو سن کر تانیہ جھوم اٹھی۔ اس نے جلدی جلدی قوت گویائی کی بحالی کا عمل کیا۔ اور جیسے ہی آخری بار اس نے وہ اسم دہرایا جو دادا اعظم نے بتایا تھا، اس کے دہراتے ہی اس کی قوت گویائی بحال ہو گئی۔

“تین مورتی اب تو کیا کہتا ہے۔ ” تانیہ نے خوش ہو کر کہا۔ “تو بہت بڑی ساحرہ ہے، مجھ سے بھی بڑی۔ میں آج تک شکست سے دوچار نہیں ہوا لیکن تونے یا نہ ایسا کر دکھایا۔ “ تین مورتی نے بہت اداس لہجے میں کہا۔
” اللہ کے واسطے مجھے ساحرہ کہہ کر میری توہین نہ کر ۔” تانیہ نے سنجیدگی سے کہا۔ ” اب وہ بات کر جس کے لئے میں یہاں آئی ہوں۔ “
” اب تو کیا چاہتی ہے ۔ ” تین مورتی نے پوچھا۔
“راشمون کے سحر کا توڑ، کاویری اور اس کی بیٹی ساربری سے اس کی آزادی۔ ” تانیہ نے بتایا۔
“ٹھیک ہے ، اب تو جا تو جو چاہتی ہے وہ ہو جائے گا۔ ” یہ کہہ کر تین مورتی بہت تیزی سے پیچھے ہٹا۔ تختے پر رکھی ہوئی گردن اور اس میں جڑے تین سر اچانک پیچھے ہٹ کر اندھیرے میں غائب ہو گئے۔
اور فوراً ہی وہ دیوار آپس میں مل گئی۔ تانیہ کمرے میں تنہا رہ گئی۔
اس کمرے میں ایک ہی راستہ تھا جو سرنگ کی طرف جاتا تھا۔ تانیہ فوراً اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ اور دروازے کی طرف بڑھی۔ اس سرنگ میں گہری تاریکی تھی۔ وہ کاشگن کا ہاتھ پکڑ کر اس کمرے تک آئی تھی۔ اب اس کو راہ دکھانے والا کوئی نہ تھا۔ تانیہ کو اس سرنگ سے گزرتے ہوئے اس بات کا اندازہ ضرور ہوگیا تھا کہ راستہ بالکل صاف اور سیدھا ہے اندھیرا ضرور ہے لیکن اگر وہ سرنگ میں داخل ہوکر سیدھی چلتی جائے تو بآسانی باہر نکل جائے گی۔ ہمت کر کے اس نے سرنگ میں قدم رکھے۔ پیچھے سے جتنی روشنی آرہی تھی اس روشنی میں وہ تیز تیز چلتی گئی ۔۔ بالآخر روشنی معدوم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گئی اور گھور اندھیرا چھا گیا۔ تانیہ نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ آنکھیں کھلی رکھنے کا بھی کوئی فائدہ نہ تھا۔ نظر تو کچھ آنہیں رہا اللہ کا نام لے کر وہ چلتی رہی۔ چلتے چلتے وہ کبھی کبھی آنکھیں کھول کر دیکھ لیتی تھی۔ پھر یہ گھنے درختوں کے درمیان والا تاریک راستہ بھی کٹ گیا۔ تانیہ کو اب دروازہ نظر آرہا تھا۔ اور دروازے پر پیلے رنگ کے کپڑے پہنے ایک اونچے قد کا شخص نظر آیا۔ وہ سر سے پیر تک ڈھکا ہوا تھا۔ اسکا چہرہ بھی چادر میں چھپا ہوا تھا۔ یہ چادر بھی پیلے رنگ کی تھی۔ اس کے پیروں میں لکڑی کی انگوٹھے والی کھڑاویں تھیں۔
تانیہ کو دیکھتے ہی اس ڈھکے چھپے شخص نے دروازہ کھول دیا۔ اور تانیہ کا انتظار کرنے لگا۔ جب تانیہ قریب آگئی تو اس نے ڈھکے ہوئے چہرے سے ہی اسے دیکھ لیا۔ ہاتھ کے اشارے سے اسے باہر نکلنے کے کہا اور پھر خود بھی اس کے پیچھے چل دیا۔
دروازے سے نکلتے ہی تانیہ تیز تیز چلتی بلکہ تقریباً دوڑتی ہوئی سیڑھیوں پر پہنچ گئی۔ اس نے پہلی سیڑھی پر کھڑے ہو کر نیچے دیکھا۔ کاشگن بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ اس کی جیسے ہی تانیہ پر نظر پڑی وہ خوشی سے
دیوانہ ہو گیا۔
ادھر سے تانیہ سیڑھیاں اترنے لگی اور ادھر سے کاشگن سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ تانیہ اتنی سیڑھیاں اتر ہی نہیں پائی جتنی سیڑھیاں کا شگن نے چڑھ لیں۔

کیا ہوا تانیہ ؟” وہ اس کے سامنے پہنچ کر بے قراری سے بولا۔
“فتح ” تانیہ نے ایک لفظ کہا۔ اس لفظ میں ایسا جادو بھرا تھا کہ کاشگن خوشی سے چیخ اٹھا۔
“واه، زبر دست “
پھر اس کی نظر اس ڈھکے چھپے شخص پر پڑی جو بڑے اطمینان سے ایک ایک کر کے سیڑھیاں اترتا چلا آرہا تھا۔
“یہ کون ہے ؟ ” کا شگن نے حیرت سے پوچھا۔
” مجھے نہیں معلوم ۔ ” تانیہ نے اس اترتے شخص کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ” یہ دروازے پر ملا وہیں سے ساتھ آرہا ہے۔ “
اب وہ ڈھکا چھپا شخص ان کے نزدیک آچکا تھا۔ پھر وہ بغیر کچھ بولے۔ سیڑھیاں اترتا چلا گیا۔ وہ دونوں بھی سیڑھیاں اترنے لگے۔

“تین مورتی نے کیا دیا؟ ” کا شگن نے پوچھا۔
“کچھ نہیں، بس اپنی شکست کا اعتراف کیا اور کہا اب تو جا، تو جو چاہتی ہے ویسا ہو جائے گا۔ ” تانیہ نے بتایا

” تانیہ، تم نے تو کمال کر دیا۔ تم نے اسے کیسے ہرا دیا۔ ” کاشگن کا خوشی کے مارے دم پھول رہا تھا۔ ”دیکھو میں نہ کہتا تھا کہ تم میری امید کا آخری چراغ ہو۔ تم ضرور کامیاب ہوگی ۔ “
“کامیاب تو میں خود کو اس وقت سمجھوں گی جب راشمون کو ہوش آ جائے گا اور وہ اٹھ کر آپ کے گلے لگ جائے گا۔ ” تانیہ نے فکر مندی سے کہا۔
“ایسا ہی ہو گا تانیہ ۔ میرا دل کہتا ہے۔ ” کاشگن نے بڑے یقین سے کہا۔
تانیہ کچھ جواب دینا چاہ ہی رہی تھی کہ اس کے منہ سے اچانک نکلا۔ ”ارے ۔ “
“کیا ہوا ؟ “
“وہ بگھی میں بیٹھ گیا ہے۔ “

کاشگن نے بگھی پر نظر ڈالی تو اسے پیلا لباس نظر آیا۔ وہ ڈھکا چھپا شخص تیزی سے سیڑھیاں اتر کر بگھی میں جا بیٹھا تھا۔ جب کاشگن اور تانیہ بگھی کے نزدیک پہنچے تو اس ڈھکے چھے شخص نے ایک طرف ہو کر گویا ان دونوں کو جگہ دے دی۔ بگھی میں تین آدمی بڑے آرام سے بیٹھ سکتے تھے۔ تانیہ سے پہلے کاشگن چڑھنے لگا۔۔ اس منہ ڈھکے شخص نے کاشگن کو بگھی میں بیٹھنے سے روک دیا۔ وہ بولا کچھ نہیں، صرف ہاتھ کا اشارہ کیا۔ کاشگن فوراً پیچھے ہٹ گیا اور اس نے تانیہ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ تانیہ بگھی کے ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ وہ دوسرے کونے میں بیٹھا تھا۔ پھر اس ڈھکے چھپے شخص نے ہاتھ کے اشارے سے بگھی چلانے کو کہا۔
کاشگن نے اپنے مسلح دستے کو بگھی سے آگے آنے کو کہا۔ پھر اس نے انہی میں سے ایک گھوڑا اپنے لئے منتخب کر لیا۔ اور خود بگھی کے پیچھے آگیا۔
“چلو۔ ” کا شگن نے چلا کر حکم دیا۔
اس کے حکم کے ساتھ ہی یہ چھوٹا سے قافلہ اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔ بگھی تیزی سے اڑی جارہی تھی۔ تانیہ بگھی کی کھڑکی سے کبھی کاشگن کو گھوڑا دوڑاتے اور کبھی پیلے کپڑوں میں ملبوس اس پردہ نشین کو دیکھ رہی تھی جو بگھی کے ایک کونے میں دبکا بیٹھا تھا۔
وہ عجیب شخص تھا۔ خاموشی سے اس کے پیچھے ہولیا تھا۔ اس میں کوئی خاص بات ضرور تھی ۔ تانیہ حتیٰ
کہ کاشگن نے بھی اس سے کوئی سوال کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ شاید دونوں کو یہ امید تھی کہ اس چادر کے پیچھے ان کی مشکل کا حل موجود ہے۔ تین مورتی نے اسے ان کے ساتھ روانہ کیا ہے۔
تانیہ نے سوچا کہ اس شخص سے پوچھے کہ وہ کون ہے اور اس نے اپنا منہ کیوں ڈھک رکھا ہے۔ پھر اس نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا۔ کیا پتہ منہ کھولنے اور کچھ بولنے سے سحر کا توڑ بے اثر ہو جاتا ہو۔ لہٰذا اس نے خاموشی میں ہی بھلا جانا۔ پھر یہ چھوٹا سا قافلہ اپنا سفر مکمل کر کے کاشگن کی بستی میں پہنچ گیا۔۔ بگھی کے رکتے ہی وہ ڈھکا چھپا شخص بلا تاخیر بگھی سے اتر گیا۔ کاشگن کا سونے کا محل کافی اونچائی پر تھا ،اس کے محل تک جانے کے لئے سنگ مرمر کی سیڑھیاں تھیں۔ وہ شخص تیزی سے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ کاشگن اور تانیہ کو اس کی تقلید کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
محل اگرچہ کاشگن کا تھا لیکن وہ ڈھکا چھپا شخص سیڑھیاں چڑھ کر محل میں کچھ اس طرح داخل ہوا جیسے وہ محل کا مالک ہو۔ اور دلچسپ بات یہ کہ محل کے دروازے پر نیزہ بردار محافظ نے بھی اسے روکنے کی کوشش نہ کی بلکہ اس نے جھک کر اس ڈھکے چھپے شخص کو تعظیم دے کر اندر جانے کی اجازت دے دی۔ اس کے پیچھے کاشگن اور تانیہ داخل ہوئے۔ وہ بہت تیز چل رہا تھا۔ اس کے اس قدر تیز چلنے سے یہ احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس کا منہ ڈھکا ہوا ہے۔ پتہ نہیں وہ منہ پر پڑی چادر میں سے کسی طرح سے دیکھ رہا تھا۔ پکے فرش پر اس کی لکڑی کی کھڑاویں بہت زور زور سے بج رہی تھیں ۔ محل کے مختلف راستوں سے ہوتا ہوا بالآخر اس کمرے کے دروازے پر پہنچ گیا جس میں راشمون ایک شیشے کے تابوت میں بند لیٹا تھا۔ اس نے پلٹ کر کاشگن اور تانیہ کو دیکھا جو تیزی سے کمرے کی طرف آرہے تھے۔ پھر وہ ان کے نزدیک پہنچنے سے پہلے کمرے میں داخل ہو گیا۔ اس نے راشمون کے تابوت کے گرد سات چکر لگائے۔ پھر اسے کھولے بغیر تابوت کے درمیان میں کھڑا ہو گیا۔ کاشگن اور تانیہ بھی اندر آچکے تھے۔ اب ان دونوں کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ شخص تین مورتی کا نمائندہ تھا اور راشمون کو سحر سے نکالنے کے لئے آیا تھا۔
اس ڈھکے چھپے شخص نے اپنے لباس سے دونوں ہاتھ باہر نکالے۔ وہ بڑے مضبوط اور بالوں سے بھرے ہاتھ تھے۔ وہ جھکا اور اپنے پیروں سے دونوں لکڑی کی کھڑاویں نکال لیں۔ پھر اس نے ان دونوں کھڑاوؤں کو ایک ساتھ تین بار آہستہ آہستہ تابوت کے شیشے پر مارا پھر اس کے بعد اس نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے ، اور پوری طاقت سے یہ کھڑاویں شیشے کے تابوت پر ماریں۔ کھڑاویں تابوت پر کسی بھاری ہتھوڑے کی طرح پڑیں شیشے کا تابوت کھیل کھیل ہو گیا۔ لیکن راشمون کا جسم ویسے کا ویسا فضا میں معلق تھا۔۔
اس ڈھکے چھپے قد آور شخص نے راشمون کے جسم کو اپنے ہاتھ پر اٹھا کر فرش پر رکھ دیا۔ اور خود بھی بیٹھ گیا۔ ایک کھڑاؤں اس نے پیر کے انگوٹھے میں ڈال لی اور دوسری کھڑاؤں اس نے راشمون کے منہ پر رکھ دی۔ بس پھر چند سیکنڈ لگے۔ ادھر کھڑاؤں منہ پر رکھی گئی ادھر راشمون نے دو تین گہرے گہرے سانس لئے اور پھر اس طرح آنکھیں کھول دیں جیسے گہری نیند سے جاگا ہو۔ راشمون نے فوراً اٹھنا چاہا
لیکن اس ڈھکے چھپے شخص نے اپنی کھڑاؤں کا دباؤ ڈال کر اسے اٹھنے سے روک دیا۔ تب اس نے کھڑاؤں کو جسم کے ہر حصے پر پھرایا اور پھر خود اٹھتے ہوئے راشمون کو بھی ساتھ اٹھنے کا اشارہ کیا۔ جب کھڑا ہو گیا تو اس نے راشمون کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اور دیر تک رکھے رہا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے سر پر ہاتھ رکھے کچھ پڑھنے میں مشغول ہو۔ جب تک وہ پراسرار شخص راشمون کے سر پر ہاتھ رکھے کھڑا رہا، راشمون کی آنکھیں بند رہیں جیسے ہی اس نے ہاتھ ہٹایا، راشمون نے آنکھیں کھول دیں۔ سب سے پہلے اس کی نظر کاشگن پر پڑی۔ وہ بے اختیار اپنے باپ سے لپٹ گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس کے لئے تانیہ نے اپنی زندگی داؤ پر لگادی تھی۔ وہ باپ بیٹے کو بے اختیار گلے ملتے دکھے کر خود پر قابو نہ رکھ سکی۔ آنسوؤں سے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
اور جب کاشگن وفور جذبات میں اپنے بیٹے کو لپٹائے ہوئے تھا اور تانیہ اس منظر کو دیکھ کر اشکبار تھی
تو اس پراسرار شخص نے اپنی دونوں کھڑاویں اپنے ہاتھ میں پکڑیں اور بے آواز دروازے سے باہر نکل گیا۔ اس کے نکلنے کا کسی کو احساس بھی نہ ہوا۔

تانیہ نے اپنے آنسو پونچھے تو وہ پراسرار شخص کمرے میں موجود نہ تھا۔ وہ دروازے کی طرف بھاگی۔ لیکن اس وقت تک وہ اس کی پہنچ سے بہت دور جاچکا تھا۔ جانے وہ شخص کون تھا۔ کم از کم جانے سے پہلے وہ اپنی صورت تو دکھا جاتا۔ یہ بتا جاتا کہ وہ کون ہے۔ لیکن وہ جس طرح اسرار کے پردے میں لپٹا ہوا آیا تھا۔ ویسے ہی واپس چلا گیا۔
اس کے بارے میں تانیہ کچھ نہ جان سکی۔

“کاشگن، وہ چلا گیا۔ ” تانیہ نے کمرے میں واپس آکر اونچی آواز میں کہا۔

اس آواز پر سب سے پہلے راشمون چونکا۔ اس نے اپنے باپ کے کندھے سے سر اٹھا یا تو اپنے سامنے ایک مہ جبیں کو دیکھا۔ اس کے تصور میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اس کمرے میں کاشگن کے علاوہ بھی کوئی اور ہو سکتا ہے۔ اس نے تانیہ کو دیکھا تو اپنی نظریں ہٹانا بھول گیا۔
تانیہ اگر حسین تھی تو وہ بھی کسی سے کم نہ تھا۔ اسے دیکھنے والا بھی بس دیکھتا ہی رہ جاتا تھا۔ تانیہ اور راشمون کی جب نظریں ملیں تو یوں محسوس ہوا جیسے کہیں دور پہاڑوں پر بجلی چمکی ہو، دور تک روشنی ہی روشنی ہو گئی۔ اور پھر ٹھنڈی پھوار سی پڑنے لگی۔

“بابا، یہ کون ہیں؟” راشمون اپنے باپ سے الگ ہو کر تانیہ کی طرف بڑھا۔
” راشمون کیا تو جانتا ہے کہ تو دو سال کے بعد جاگا ہے۔ “
“بابا…. دو سال ؟” را شمون حیران رہ گیا۔
”ہاں، دو سال ” کا شگن نے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
” اور ان دو سالوں میں، میں نے تیرے لئے کیا کیا نہ کیا۔ لیکن کاویری کے سحر کا توڑ نہ لا سکا۔ تب یہ لڑکی قسمت سے میرے ہاتھ لگ گئی۔ اسے کنویں کی مخلوق میرے پاس لائی تھی۔ یہ انسان ہے۔ یہ اتنی مہربان ثابت ہوئی کہ اس نے اپنی زندگی داؤ پر لگا کر تیری زندگی بچالی۔ کس قدر عظیم ہے یہ لڑکی ۔ راشمون اسے سجدہ کر ۔ “
را شمون باپ کا حکم سن کر فوراً ہی تانیہ کے قدموں میں جھکنے لگا۔ تانیہ بہت تیزی سے پیچھے ہٹ گئی

اور زور سے چیخی۔
“نہیں، ہرگز نہیں۔ میری نیکی بر باد نہ کریں۔ “
تب راشمون اٹھ گیا۔ تانیہ نے شکر ادا کیا۔
راشمون کو دیکھ کر ایک عجیب سا احساس اس کے دل میں جاگا تھا۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ جب بھی راشمون کی طرف دیکھتی اس کے دل کی دھڑکن بے اختیار ہو جاتی ۔ اور جب وہ تانیہ کی طرف دیکھا وہ فورا اپنے پلکوں کی چلمن ڈال لیتی۔ اور ہونٹوں پر خود بخود ایک مدھر مسکان سج جاتی۔ اسے کیا ہو گیا ہے۔ کہیں راشمون اس کے دل میں تو نہیں اتر گیا۔ کہیں اسے اس سے محبت تو نہیں ہو گئی؟؟
کیا اس کو محبت کہتے ہیں، کیا ایک دوسرے کی طرف بے اختیار نظریں اٹھ جانے کا نام ہی محبت ہے؟؟؟.

” بابا ،کیا نام ہے ان کا۔ ” راشمون گویا ہوا۔
” یہ تانیہ ہے۔ ” کا شگن نے بتایا۔
” تانیہ ۔۔ ” راشمون نے اس کا نام بڑے پیار بھرے لہجے میں دہرایا۔ ”تانیہ، میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں
” اب کیا خیال ہے، اس ساحرہ کے علاقے کی طرف پھر جائیں گے؟” تانیہ نے ہنس کر پوچھا۔
” بھول کر بھی نہیں۔ ” راشمون نے کان پکڑے ۔ توبہ میری۔ “
“کیا کاویری کی بیٹی ساربری بہت حسین تھی کہ اسے دیکھتے ہی اپنے ہوش گنوا بیٹھے۔ ” تانیہ نے اسے چھیڑا

جواب میں کچھ کہنا چاہتا تھا کوئی خوبصورت بات لیکن باپ کا خیال کر کے محض مسکرا کر رہ گیا۔
” ہاں، تانیہ، وہ کہاں چلا گیا۔ ” کاشگن کو اب وہ پر اسرار شخص یاد آیا۔
” میں نے اسے جاتے نہیں دیکھا۔ وہ ہمیں خوشی دے کر خاموشی سے نکل گیا۔ ” تانیہ نے کہا
“بابا، کون تھا یہ۔ ” را شمون نے پوچھا۔
“اور مجھے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تین مورتی خود تھا۔ “
“تین مورتی ! ” تانیہ حیران ہو کر بولی۔ تین مورتی کیسے ہو سکتا ہے۔ اس کے تو تین منہ ہیں۔ اور چہروں کے سوا وہ کچھ نہیں۔ “
“تانیہ، وہ تین مورتی ہے۔ ساحروں کا بادشاہ ۔ وہ کوئی بھی روپ اختیار کر سکتا ہے۔ ” کاشگن بولا

“چلو اب بحث کا کیا فائدہ .. وہ جو بھی تھا راشمون کو ٹھیک کر گیا۔ اور اس طرح تین مورتی نے اپنا وعدہ نبھادیا۔۔ ورنہ میں تو ڈر رہی تھی کہ کہیں وہ شکست کھا کر اپنے وعدے سے پھر نہ جائے۔ ” تانیہ نے کہا
“ایک وعدہ میں نے بھی تم سے کر رکھا ہے۔ “ کا شگن ہنس کر بولا۔
“وہ کیا؟ ” تانیہ نے پوچھا۔
” ارے بھول گئیں۔ میں نے کہا تھا کہ اگر تم تین مورتی کے دربار سے کامیاب واپس آگئیں تو تم جو مانگو گی میں تمہیں دوں گا۔ اب وعدہ نبھانے کا وقت آگیا ہے۔ بولو کیا مانگتی ہو ۔ ” کا شگن نے خوش ہوکر پوچھا

“میں کیا مانگوں ؟ “
تانیہ نے جیسے خود سے سوال کیا۔ وہ چند لمحے سوچتی رہی۔ پھر اس نے راشمون کی طرف دیکھا۔ وہ اسے بڑی دلچسپ سے دیکھ رہاتھا۔ تانیہ اس سے مخاطب ہوکر بولی۔
“راشمون میں کیا مانگوں۔ ؟”
“تانیہ، مجھے مانگ لو۔”
راشمون نے بے اختیار کہا لیکن اپنے دل میں اور پھر ہونٹوں پر جو بات آئی، وہ کچھ یوں تھی۔
“اپنے دل کا کہا مانو …. جو وہ کہے مانگو۔ “
“دل ۔ ” تانیہ کھوئے ہوئے انداز میں بولی ۔
”میرے دل میں تو بس میرا بھائی بسا ہے۔ جو آپ کی دنیا میں کھو گیا ہے۔ میں اسے ڈھونڈنے نکلی تھی ۔ “
“اوہ، میں بھی کتنا خود غرض ہوں ۔ تم سے صرف اپنی کہتا رہا۔ تم سے تمہاری سنی ہی نہیں۔ نہ یہ جانا کہ چاہ وفات میں کیسے پہنچیں۔ وہاں تمہیں کون دھکیل گیا۔ معاف کرنا تانیہ … مجھے معاف کر دینا۔ بابا، اس کمرے سے باہر چلیں، یہاں کب تک کھڑے رہیں گے۔ انہیں کچھ دیر آرام کرنے دیں۔ ” راشمون نے کہا
اور دروازے کی طرف بڑھا۔
” ہاں، راشمون تم ٹھیک کہتے ہو ۔ ” کاشگن بھی اس کے ساتھ چلا۔ ” آؤ، تانیہ ۔ “

پھر کاشگن کے حکم کے مطابق تانیہ کو دو کنیزوں نے اس کی خواب گاہ میں پہنچادیا۔ سورج ڈوبنے کو تھا۔ وہ کھڑکی سے پردہ ہٹا کر دور پہاڑوں میں ڈوبتے سورج کا نظارہ کرنے لگی۔
پتہ نہیں یہ کون سا سورج تھا۔ اپنی دھرتی کا سورج تھا یا ان لوگوں کی دنیا کا آفتاب۔ وہ کہاں سے کہاں آگئی تھی۔ جانے اس کا بھائی کس حال میں ہو گا۔ تانیہ نے محسن راؤ کو اس کی جھونپڑی میں چھوڑا تھا۔ بقّاں اسے جھونپڑی سے پکڑ کر لے گئی تھی۔ اور محسن راؤ کچھ نہیں کر سکا تھا۔
بقّاں نے اسے اپنے بھائی راکل کی خدمت میں پیش کر دیا تھا۔ راکل نے اسے حاصل کرنے کے لئے جانے کتنے جتن کئے تھے لیکن وہ ناکام رہا تھا اور اپنی شکست کا انتقام لینے کے لئے اس نے تانیہ کو چاہ وفات میں پھنکوا دیا تھا۔ اس کی خوش قسمتی تھی کہ کنویں کی مخلوق نے اسے گرتے ہوئے دیکھ لیا اور ابلتے ہوئے پانی میں جانے سے بچالیا۔ ورنہ وہ اب اس خوبصورت خواب گاہ میں زندہ سلامت نہ بیٹھی ہوتی۔ اس کی ہڈیاں تک پگھل کر اپنا وجود کھو بیٹھی ہوتیں۔
وہ اس تصور سے ہی کانپ گئی۔ سورج پہاڑوں کے پیچھے غروب ہو چکا تھا۔ تیزی سے اندھیر پھیلتا جارہا تھا۔ تانیہ نے پردہ برابر کر دیا اور گھومی تو اس نے دیکھا، کمرے میں دو کنیزیں فانوس روشن کر رہی تھیں۔ وہ فانوس روشن کر کے اس کی طرف بڑھیں اور بہت مودب انداز میں بولیں۔ ”ہمارے لئے کوئی حکم ۔ “
“کچھ نہیں، میں تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتی ہوں ۔ “
”ہاں، کیوں نہیں۔ شوق سے۔ اگر اجازت ہو تو ہم آپ کا جسم دبادیں ۔ “
“نہیں۔ ” تانیہ نے مختصر سا جواب دیا۔
“پھر ہم آپ کی کیا خدمت کریں۔ کچھ تو بتائیں۔ “
“محل میں کیا ہو رہا ہے ۔ “
“چراغاں کیا جا رہا ہے۔ رات کو زبر دست جشن منایا جائے گا۔ “ ایک کنیز نے کہا۔ ” آپ کچھ دیر کے لئے سو جائیں پھر آپ کو جشن کے لئے تیار کیا جائے گا۔ “
“کیا مطلب ! ” تانیہ حیران ہو کر بولی ۔
“مطلب تو ہمیں نہیں معلوم۔ ہم سے بس تیار کرنے کے لئے ہی کہا گیا ہے۔ “
رات کو محل میں زبر دست جشن منایا گیا۔ اس بستی کے تمام امراء کو مدعو کیا گیا۔ تانیہ کو زرق برق لباس پہنا کر سب سے خوبصورت اور سب سے اونچی کرسی پر بٹھایا گیا۔
رقص و موسیقی جاری تھی۔ ہر طرف رنگ و نور کی بارش ہو رہی تھی۔ سب کی نظریں تانیہ پر تھیں۔ اسکا حسن آنکھوں کو خیرہ کئے دیتا تھا۔ راشمون اس کے برابر دوسری کرسی پر جو اس سے ذرا نیچی تھی، بیٹھا ہوا تھا۔ جبکہ کا شگن ایک چھوٹے سے تخت پر برا جمان تھا۔
آنے والے مہمان تانیہ کے قدموں میں تحفے ڈھیر کر رہے تھے۔ سب سے آخر میں کاشگن نے اپنا تحفہ پیش کیا۔ وہ ہیروں کا لشکارے مارتا ہار تھا۔ کاشگن نے اپنے ہاتھ سے اس چمکتے ہار کو پہنایا تو تانیہ کا حسن مزید جگمگا اٹھا۔ راشمون اسے مبہوت ہو کر دیکھنے لگ۔۔ تانیہ نے اس کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھا تو وہ اس کی نظروں کی تاب نہ لاسکی۔ تانیہ نے فوثرا اپنی نگاہیں نیچی کر لیں۔ اس کا دل ایک دم دھڑک اٹھا تھا۔ یہ اسے کیا ہوتا جا رہا تھا۔
جشن ختم ہوا تو کاشگن اس کے ساتھ ہی اس کی خواب گاہ میں آگیا۔ وہ اس سے اس کی کہانی سننا چاہتا تھا۔۔”

“تانیہ نے اسے اپنی زندگی کی کہانی سنادی۔ وہ کون ہے۔ کہاں سے آئی ہے۔ چاہ وفات میں اسے کیوں پھینکا گیا۔ ہر وہ بات بتادی جو کاشگن سننا چاہتا تھا۔
ساری داستان سننے کے بعد کاشگن نے ایک گہرا سانس لیا اور بولا ۔
” اب تم کیا چاہتی ہو ؟ “
“کسی طرح اپنے بھائی تک پہنچنا چاہتی ہوں ۔ ” تانیہ نے کہا۔
“کب جانا چاہتی ہو ؟ ” کاشگن نے پوچھا۔
“میرا بس چلے تو ابھی۔ “
“خیر یہ تو ممکن نہیں ہے۔ ” کا شگن نے نرم لہجے میں کہا۔
“پھر صبح ہی صبح ۔ ” تانیہ بولی ۔
“کچھ دن ہمارے ساتھ رہو ۔ “ کا شگن نے درخواست کی۔ “نہیں رہ سکتی۔ ” تانیہ نے ٹکا سا جواب دیا۔
“مجھ سے کچھ مانگو گی بھی نہیں۔ ” کاشگن نے پوچھا۔
“آپ نے اتنا قیمتی ہار دے دیا۔ اب اس کے بعد مانگنے کو کیا رہ گیا۔ “
“یہ تو کچھ بھی نہیں۔ تم کہو تو یہ سونے کا محل تمہارے حوالے کر دوں ۔ “
نہیں شکریہ میں سونے چاندی کے اس محل کا کیا کروں گی۔ مجھے اپنی دنیا میں واپس جانا ہے۔ وہاں یہ محل جا نہیں سکتا۔ ” تانیہ نے ہنس کر کہا۔
“ایک بات کہوں، برا تو نہیں مانو گی ۔ “
“نہیں مانوں گی آپ کہیں جو کہنا چاہتے ہیں۔ “
‘میں نے راشمون کی آنکھوں میں تمہاری روشنی دیکھی ہے ۔ ” کاشگن نے ایک عجیب بات
“میں جانتی ہوں، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ “
“جب جانتی ہو تو رہ کیوں نہیں جاتیں۔ میرے لئے، راشمون کے لئے ہم سب کے لئے رک جاؤ۔ دیکھو اس مختصر سے عرصے میں پوری کاشگن کی بستی تمہاری گرویدہ ہو گئی ہے ۔ ” کا شگن نے بہت محبت سے کہا۔

“میں آپ سب کی شکر گزار ہوں، میں کیا کروں، مجھے ہر قیمت پر اپنی دنیا میں جانا ہے۔ وہاں کچھ لوگ میرے منتظر ہیں۔ وہاں جاکر ان سے کچھ حساب کتاب لینا ہے۔ ” تانیہ کچھ نہ بھولی تھی۔
” اچھا۔ ” کا شگن نے اداسی سے کہا۔ ” جیسی تمہاری مرضی۔ میں بہر حال زندگی بھر تمہیں نہیں بھول سکوں گا۔ ” یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ “اچھا میں اب چلتا ہوں۔ تم آرام کرو۔ صبح آسمان والے نے چاہا تو تمہارے جانے کا کچھ نہ کچھ بندوبست ہو جائے گا۔ میں کنویں کی مخلوق کو طلب کرتا ہوں…”
“کاشگن، میں بھی ہمیشہ آپ کو یاد رکھوں گی۔ ” تانیہ بولی ۔
کاشگن کے جانے کے بعد تانیہ کمرے میں اکیلی رہ گئی۔ جشن میں شریک ہونے کے لئے اسے ایک بھاری سا زرق برق لباس پہنایا گیا تھا۔ وہ اس طرح کے کپڑے پہننے کی بھلا کہاں عادی تھی۔ اسے بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے سوچا کپڑے تبدیل کر کے تھوڑا منہ ہاتھ دھو لے۔ تاکہ تازگی آجائے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ دو کنیزیں کمرے میں داخل ہوئیں۔ انہوں نے اسے شب خوابی کا لباس پیش کیا، کپڑے تبدیل کر کے وہ بہت ہلکی پھلکی ہو گئی۔ حمام میں جا کر اس نے ہاتھ منہ دھونا چاہا لیکن کنیزوں نے اسے حمام میں جانے نہ دیا۔ اسے ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ اور پھر وہیں بیٹھے اس کا ہاتھ منہ دھلایا گیا۔ اس کے پیروں کو دھویا گیا۔ تانیہ کو بہت سکون ملا، اس نے کنیزوں کو رخصت کر دیا
پھر وہ ایک کھڑکی کا پردہ ہٹا کر ریشم جیسے بستر پر دراز ہوگئی۔ پورے چاند کی رات تھی۔ کھڑکی سے چاند جھانک رہا تھا۔ چاندنی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ وہ لیٹے لیٹے چاند کو تک رہی تھی۔
وہ چاند کو دیکھتے دیکھتے چاند میں محو ہوتی جارہی تھی۔ اس کے حسن میں ڈوبتی جارہی تھی ۔۔
کہ اچانک کھڑکی کے شیشے پر کسی نے انگلیوں سے کھٹ کھٹ کی”
تانیہ ایک دم چونک گئی۔ اب چاند غائب ہو چکا تھا اور چاند کی جگہ ایک چہرہ نظر آرہا تھا۔ چاند چہره …..
راشمون تھا۔ تانیہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پھر اس نے بسترسے اتر کر شیشے کی کھڑکی کھول دی۔

” راشمون تم ؟ ” تانیہ نے حیرت زدہ لہجے میں کہا۔
“میں دیکھ رہا تھا کہ تم سو رہی ہو یا جاگ رہی ہو۔ “
راشمون نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے
“میں ابھی کہاں سوئی ۔ جاگ رہی ہوں ۔ بڑی دیر سے چاند کو دیکھ رہی تھی۔ “
“تمہیں چاند اچھا لگتا ہے۔ ” اس نے پوچھا۔
“ہاں بہت ” تانیہ نے محبت بھرے انداز میں کہا۔
“اور میں۔ ” راشمون نے لب کھولے بغیر دل ہی دل میں پوچھا، اور سوچنے لگا کہ یہ میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتی۔ بھلا وہ جواب کیسے دیتی۔ اسے کیا معلوم کہ راشمون کے دل میں کیا ہے دل کون کھول کر دیکھتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ جب کسی سے محبت ہو جائے تو اسے بتا دینا چاہئے ورنہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔

“راشمون تم باہر کیوں کھڑے ہو اندر آجاؤ ۔ ” تانیہ نے راشمون کو سوچتے دیکھ کر کہا۔
“کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ تم باہر آجاؤ۔ کھلی فضا میں۔ ” “ہاں، ہو کیوں نہیں سکتا۔ ٹھہرو، میں باہر آتی ہوں ۔ “
“تم دروازے پر پہنچ کر میرا انتظار کرو، میں گھوم کر تمہارے دروازے پر پہنچتا ہوں ۔ “
“ٹھیک ہے تم آؤ ، میں تمہارا انتظار کرتی ہوں ۔ “

لباس درست کرنے کے بعد جب وہ دروازے سے باہر نکلی تو اسے راشمون راہداری میں تیزی سے لمبے ڈگ بھرتا ہوا نظر آیا۔ باہر ابھی تک چراغاں ہو رہا تھا۔ عجب سماں تھا۔
وہ دونوں چلتے ہوئے تالاب کی طرف نکل گئے۔ تالاب کے کناروں پر چراغ روشن تھے۔ جن کا عکس پانی میں منعکس ہو کر بڑا دلفریب لگ رہا تھا۔ بطخیں ایک کونے میں جمع ہو کر شاید سونے کی تیاریاں کر رہی تھیں۔

“بابا نے کنویں کی مخلوق کو طلب کیا ہے۔ وہ تمہارے جانے کے انتظامات کر رہے ہیں۔ “ راشمون نے بات شروع کی۔
“راشمون یہ خبر تو تم نے بہت اچھی سنائی۔ اس کا مطلب ہے میں صبح تک یہاں سے رخصت ہو جاؤں گی۔ “
“بابا نے تم سے کچھ کہا تھا۔ ؟؟” راشمون نے پوچھا۔ “تمہارے بابا سے میری بہت سی باتیں ہوئی ہیں۔ تمہارا نہ جانے کس بات کی طرف اشارہ ہے۔ “
تم بس آج رات کی مہمان ہو۔ ؟؟” اس نے بڑی حسرت سے کہا۔
“ہاں ۔ ” تانیہ نے سادگی سے کہا۔ پھر راشمون کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” کیوں ؟”
جانے والا رک نہیں سکتا؟؟۔ ” راشمون بالآخر حرف مدعا زبان پر لایا۔
“ہاں، رک سکتا ہے لیکن کتنے دن ۔ ایک دن، دو دن ۔ زیادہ سے زیادہ دس دن … پھر جانا ہوگا۔ جب جانا ہی مقدر ہے تو پھر تاخیر کرنے کا فائدہ ۔ ” تانیہ نے تھوڑا توقف کیا۔ پھر بولی۔ راشمون، مجھے جانے دو۔ دیکھو کوئی ایسی بات نہ کرو کہ میں الجھن میں پڑ جاؤں۔ “
راشمون چلتے چلتے ایک دم رک گیا، چاند کی روشنی براہ راست تانیہ کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ اس کا حسن دوبالا ہو گیا تھا۔ راشمون اس کے چہرے کو بغور دیکھتا رہا۔ پھر اس نے جو بات کہی اس نے تانیہ کو حیران کر دیا۔ ہاں، وہ بات ایسی ہی تھی کہ آدمی سنے تو حیران ہو جائے۔
راشمون نے بڑے جذباتی انداز میں کہا تھا۔ ”تانیہ، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ تم مجھے اپنی دنیا میں لے جاؤ۔”

راشمون نے براہ راست محبت کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اس نے واضح الفاظ میں کہنے کے بجائے وہی بات غیر واضح انداز میں کہہ دی تھی۔ راشمون کا ڈھکے چھپے انداز میں اظہار محبت تانیہ کے دل کو بھا گیا تھا۔ اسے بہت خوشی ہوئی تھی یہ خوشی اسے محض اس کے اظہار محبت پر نہیں ہوئی تھی خود اس کے دل میں بھی میں تھا۔ یہ ازلی جذبہ بار بار اس کے دل میں سر اٹھا رہا تھا۔ دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی۔

” وہ کیوں ؟ ” تانیہ نے اس کی بات سن کر بڑے انجان لہجے میں پوچھا۔ وہ اسے ستانے پر تل گئی تھی۔
” معلوم نہیں! ” راشمون نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
“واه، راشمون یہ کیا بات ہوئی ؟ ” تانیہ ہنس کر بولی۔ ” میرے ساتھ بھی جانا چاہتے ہو اور تمہیں معلوم بھی نہیں کہ کیوں ؟ “
“تم رک جو نہیں رہی ہو۔ ” راشمون نے کہا۔
“اس کی وجہ میں تمہیں بتا چکی ہوں ۔ “
“پھر میں کیا کروں ۔ ” وہ الجھ گیا۔
“کچھ نہیں، بس ہنسی خوشی الوداع کہہ دو۔ “
“وہ نہیں کہہ سکتا ۔ ” یہ کہہ کر وہ مڑا اور تیز قدموں سے واپس جانے لگا۔

“راشمون ” تانیہ نے آواز دی۔ راشمون اس کی آواز سن کر نہ رکا، نہ واپس پلٹا۔ وہ چلتا رہا۔
“راشمون، میری بات سنو ” تانیہ نے التجا آمیز لہجے میں پکارا۔
جیسے جیسے وہ پکارتی گئی ویسے ویسے وہ تیز قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ محل اندرونی دروازے میں داخل ہو کر غائب ہو گیا۔
اسکی آوازیں سن کر کئی کنیزیں اس کے گرد اکٹھا ہو گئیں۔
” کیا ہوا؟” انہوں نے بیک وقت پوچھا
“کچھ نہیں۔ ” تانیہ نے افسردہ لہجے میں جواب دیا۔ اور پھر وہ اپنی خواب گاہ کی طرف چل دی

تانیہ کے لئے وہ عجیب رات تھی۔ بڑے عجب انداز میں گزری۔ وہ کروٹیں بدلتی رہی۔ سونا چاہا پر سو نہ سکی۔ بار بار راشمون کا چہرہ اس کے سامنے آتا رہا۔ وہ اسے الجھن میں مبتلا کر گیا تھا۔ ایک جذبے سے آشنا کر گیا تھا جس سے وہ واقف نہ تھی۔ وہ چلا کیوں گیا۔ شاید اسے اس کی بے اعتنائی پر غصہ آگیا تھا۔ محبت کرنے والا اتنا ہی حساس ہوتا ہے۔ اتنا ہی نازک ہوتا ہے۔ ہے اس کا چلا جانا ہی اچھا ہوا۔ وہ رک جاتا تو جانے اور کیا کیا کہتا۔ اس کے کہے ہوئے لفظ اس کے پیروں کی زنجیر بن جاتے۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی ایک انسان اور ایک غیر انسان کا ملاپ ممکن نہیں۔ پھر اسے ہر قیمت پر اپنی دنیا میں لوٹ کر جاتا تھا۔ وہاں جا کر اپنے چچا سے حساب لینا تھا۔
پھر وہ ان بکھیڑوں میں کیسے پڑ جاتی۔
سوچتے سوچتے جانے کب اسے نیند آگئی۔ اجالا پھیلنے کے بعد ایک کنیز نے گلاب کی کلی اس کے رخسار پر رکھ کر اسے بیدار کیا۔ وہ گہری نیند میں تھی، اس کی آنکھ نہیں کھل رہی تھی۔ وہ کنیز جانے کب سے اس کے گلاب جیسے رخساروں پر گلاب کی کلی پھیر رہی تھی۔ بالآخر اس کی آنکھ کھل گئی۔

“اوہ، بہت اجالا ہو گیا۔ ” تانیہ نے اٹھ کر انگڑائی لی۔
“کب سے آپ کو اٹھا رہی ہوں ۔ ” کنیز نے مودبانہ لہجے میں کہا۔
“آواز دے کر اٹھا لینا تھا، یا میرا بازو ہلا دیتیں۔ “
“ہائے نہیں۔ “کنیز نے کچھ اس طرح کہا جیسے یہ دونوں عمل قابل تعزیر ہوں۔
“جلدی تیار ہو جاؤ، کاشگن آپ کا منتظر ہے۔ “ دوسری کنیز نے کہا۔

کاشگن کا نام سنتے ہی اس نے فوراً بستر چھوڑ دیا۔ اور منہ ہاتھ دھو کر جلدی جلدی تیار ہونے لگی
جب وہ تیار ہو گئی تو کنیز نے اس کو چلنے کو کہا
” آئیے چلیں۔ ” وہ فوراً کنیز کے ساتھ ہولی۔ پھر وہ مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی کاشگن کے کمرے میں پہنچ گئی۔
کاشگن ان کو دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔

“آپ بیٹھے رہیں، مجھے شرمندہ نہ کریں۔ ” تانیہ نے کہا۔
” آو، تانیہ ناشتہ کر لو۔ ” اس نے میز کی طرف اشارہ کیا۔ میز پر ناشتے کی ہر ممکن چیز موجود تھی۔ تانیہ نے اپنی پسند کا ناشتہ کیا۔

” تانیہ میں نے کنویں کی مخلوق کو طلب کر لیا ہے۔ وہ باہر موجود ہے۔ یہ لوگ تمہیں چاہ وفات تک پہنچا دیں گے۔ اس سے آگے یہ لوگ نہیں جاسکتے۔ “
” ٹھیک ہے، میں وہاں تک پہنچ گئی تو پھر وہاں سے آ آگے جانے کی کوئی نہ کوئی راہ نکل آئے گی.
” اس کا مجھے یقین ہے۔ ” تانیہ نے کہا۔
“آؤ پھر محل سے باہر چلیں۔ کنویں کی مخلوق تمہیں لے جانے کے لئے دروازے پر موجود ہے ۔ “
“ٹھیک ہے۔ “ تانیہ فوراً کھڑی ہو گئی۔

جب وہ محل کے دروازے پر پہنچے تو تانیہ نے وہاں ایک کرسی رکھی دیکھی۔ اسے حیرت ہوئی ۔ کرسی خالی تھی۔ اور کرسی کے ساتھ ہی کنویں کی مخلوق موجود تھی۔ وہ دو تھے، اور دونوں وہی تھے جو چاہ وفات سے اسے یہاں تک اڑا کر لائے تھے۔ وہ دونوں ہاتھ باندھے بڑے مودبانہ کھڑے تھے۔
تانیہ نے دروازے سے باہر نکل کر ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔ اس کی نظریں کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ جس کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ اس کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔

“راشمون کہاں ہے ؟” تانیہ نے بالآخر پوچھ ہی لیا۔
“وہ اپنا کمرہ بند کر کے سو رہا ہے۔ وہ رات بھر جاگتا رہا ہے۔ صبح سویا ہے۔ میں نے اسے اٹھایا نہیں۔۔۔ کہو تو اٹھا دوں ۔؟ ” کاشگن نے کہا۔
“نہیں نہیں، نہیں۔ اسے سونے دیجئے۔ ” تانیہ اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکی۔
” تانیہ اس کرسی پر بیٹھ جاؤ۔ یہ دونوں تمہیں اڑا کر لے جائیں گے۔”
تانیہ بغیر کچھ کہے اس کرسی پر بیٹھ گئی۔
“اچھا تانیہ جاؤ ۔ آسمان والا تمہاری حفاظت کرے۔ ” کاشگن کی آواز بھرا گئی، شاید وہ اپنے آنسو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔
“اچھا کاشگن اللہ حافظ … راشموں سے کہ دینا، میں اسے زندگی بھر نہ بھلا سکوں گی۔ “
“وہ آگیا تانیہ ۔ ” کا شگن نے دروازے کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

تانیہ نے مڑ کر دیکھا تو راشمون دھیرے دھیرے اس کی طرف آرہا تھا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ چہرے پر بے پناہ اداسی تھی۔ وہ شب خوابی کا لباس پہنے تھا۔ بستر سے اٹھ کر سیدھا ادھر ہی چلا آیا تھا۔
راشمون کو دیکھ کر تانیہ کے دل کی دھڑکنیں بے اختیار ہو گئیں۔ اسے یوں محسوس ہورہاتھ ہے دل سینہ پھاڑ کر باہر آجائے گا۔ اچھا ہوا کہ رخصت ہونے سے پہلے اس سے ملاقات ہوگئی۔ ورنہ زندگی بھر خلش رہتی۔
تانیہ کرسی سے اٹھ کر اس کی طرف بڑھی۔ کاشگن کرسی کے پاس ہی کھڑا رہا۔ وہ دونوں کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ تانیہ اتنی آگے چلی گئی تھی کہ وہ ان کی گفتگو نہیں سن سکتا تھا۔ اب ان کے پاس کہنے کو رہ کیا گیا تھا۔ یہ آخری ملاقات تھی۔ چند لمحوں کے بعد تانیہ نے اڑ جانا کہاں سے کہاں پہنچ جاتا تھا۔

“راشمون اچھا ہوا جو تم آگئے۔ “
“سو چا تو یہ تھا کہ تمہیں جاتے ہوئے نہ دیکھوں گا لیکن دل نے بغاوت کر دی۔ مجبور ہو کر”
کتنا اچھا ہے تمہارا دل۔ ” تانیہ نے بے اختیار کیا۔
” اور میں؟” راشمون بے ساختہ بولا۔
“تم بہت برے ہو۔ ” تانیہ نے بڑے پیار سے کہا۔ .
” وہ کیوں ؟ “
” رات کو کتنی آوازیں دی تھیں۔ لیکن تم نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ ” اس نے شکایت کی
” تم بھی ابھی یہی کرو گی۔ یہاں سے چلی جاؤ گی۔ میں آوازیں دیتا رہ جاؤں گا۔ لیکن تم پلٹ کر نہ آؤ گی۔ “
“یہ میری مجبوری ہے۔ ” تانیہ نے افسردگی سے کہا۔
“تم میری دنیا میں آئی کیوں تھیں۔ ” راشمون نے شکوہ کیا۔
“میں کہاں آئی۔ مجھے تو لایا گیا تھا۔ “
“لایا گیا تھا تو مجھے سونے دیتیں۔ کیوں مجھے سحر سے آزاد کروایا۔ “
تمہیں افسوس ہے کہ ساربری کے نہ ہو سکے۔ ” تانیہ نے پیار بھرا طنز کیا۔
” ہاں اور کیا کم از کم وہ میری تو ہو جاتی ۔ “
“پھر چلے جانا شکار پر , وہ تو اب بھی تمہاری منتظر ہوگی ۔ “
“جاتے ہوئے ایسی باتیں نہ کرو۔ ” راشمون نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
“اچھا، اب مجھے اجازت دو، میں چلتی ہوں۔ میری کوئی بات بری لگی ہو تو معاف کر دینا ۔ “
”تانیہ – ” راشمون نے پکارا۔
تانیہ اپنا رخ پلٹتے پلٹتے رک گئی۔ اور اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

“یہ قبول کرو۔ ” راشمون نے اپنے لباس سے سرخ گلاب کی بے حد ترو تازہ کلی نکالی۔
“واہ کس قدر خوبصورت کلی ہے یہ کس قدر حسین تحفہ ہے۔ ہزاروں لاکھوں ہیروں پر بھاری ” تانیہ اس کلی کو دیکھ کر واقعی خوش ہو گئی تھی۔ میں اسے خوشی سے قبول کروں گی”
“ایسے نہیں۔ ” تانیہ نے کلی کو لینے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا تو راشمون نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا۔
“پھر کیسے ؟”
“میں اسے اپنے ہاتھوں سے تمہارے بالوں میں سجانا چاہتا ہوں ۔ “تانیہ نے ایک لمحے کو سوچا۔ یہ ایک بے ضرر سی خواہش تھی۔ اس نے وقت ضائع نہ کیا ۔ بغیر کچھ کے اپنی گردن گھمالی راشمون کے چہرے پر ایک دم گلاب سے کھل اٹھے۔ اس نے جلدی سے اس کی ریشمیں زلفوں میں وہ کلی ٹانک دی۔
تانیہ یہ کلی اس وقت تک نہیں مرجھائے گی جب تک میں زندہ ہوں۔ جب یہ کلی مرجھا جائے تو سمجھ لینا کہ میں اس دنیا میں نہیں رہا۔ “
راشمون نے عجیب انکشاف کیا۔ راشمون، میری دعا ہے کہ یہ کلی ہمیشہ میرے پاس ترو تازہ رہے۔ “ تانیہ نے بڑے خلوص سے کہا۔
” آسمان والا، تمہیں صدا خوش رکھے۔ جاؤ، بس۔ اب چلی جاؤ ۔ “
تانیہ نے نظر بھر کر راشمون کو دیکھا۔ راشمون کی پرکشش آنکھوں میں نمی آگئی تھی۔ اس سے پہلے کہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے، وہ تیزی سے پلٹی اور جلدی سے کرسی پر بیٹھ گئی۔
“لے جاؤ اسے ۔ “
کاشگن نے کنویں کی مخلوق کو حکم دیا۔ وہ دونوں بونے تیزی سے کرسی کی طرف بڑھے۔ دونوں نے دائیں بائیں ہو کر اپنے کندھے کرسی سے لگائے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ فضا میں بلند ہونے لگے۔
تانیہ نے پہلے کاشگن اور پھر راشمون کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔ کاشگن نے جواباً ہاتھ ہلایا لیکن راشمون بت بنا کھڑا رہا جیسے پتھر کا ہو گیا ہو۔
کنویں کی مخلوق کرسی کو بہت تیزی سے اڑائے لئے جارہی تھی۔ تانیہ مڑ کر اس وقت تک پیچھے دیکھتی رہی جب تک وہ نظر آتے رہے۔ پھر جب راشمون نظروں سے غائب ہونے لگا تو اس نے آخری بار اپنا ہاتھ فضا میں لہرایا۔ اسے نہیں معلوم کہ جواب میں راشمون نے ہاتھ ہلایا یا نہیں، کیونکہ درمیان میں اچانک پہاڑ آگیا تھا اور جب وہ پہاڑ سامنے سے ہٹا تو پھر پیچھے کچھ نہ تھا۔ سرسبز شاداب علاقہ، درخت تھے، چشمے تھے، اڑتے پرندے تھے۔ نہیں تھا تو وہ سونے کا محل نہیں تھا۔ تانیہ نے اپنی نم آنکھوں کو بند کیا تو دو آنسو رخساروں پر بہہ نکلے۔ اس نے آنسو پونچھ کر اپنے بالوں میں اٹکی ہوئی گلاب کی کلی نکال لی، اور اپنے ہاتھ میں لے کر دھیرے سے پھول کی پتی سے اپنے ہونٹ اس گلاب کی کلی پر رکھ دیئے۔
کرسی بہت تیزی سے اڑی جارہی تھی۔ وہ دونوں بونے کرسی کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ پہاڑی سلسلہ عبور کر کے اب وہ کرسی نیچے کی طرف جانے لگی۔ پھر ثانیہ کو ایک چٹان میں بڑا سا سوراخ نظر آیا۔ اس سوراخ کے نیچے ایک چشمہ ابل رہا تھا۔ وہ کرسی اسی بڑے سوراخ کی طرف بڑھ رہی تھی۔
پھر وہ کرسی اس بڑے سوراخ میں داخل ہو گئی۔ وہ دراصل ایک غار تھا اور اس کے ذریعے چار وفات میں داخل ہوا جانا تھا۔ پھر وہ اس غار سے نکل کر کنویں میں پہنچ گئے۔ تانیہ نے نیچے جھانک کر دیکھا تو اسے کھولتا ہوا تیل سا نظر آیا۔ جس سے دھواں اٹھ رہا تھا۔
تانیہ کی کرسی اب اوپر اٹھنے لگی۔ کنویں میں گھپ اندھیرا تھا۔ اس نے اوپر سر اٹھا کر دیکھا تو ایک بہت چھوٹا سا سوراخ دکھائی دیا۔ یہ چاہ وفات کا دہانہ تھا۔ تانیہ کا دم گھٹنے لگا۔ اس کنویں کی بڑی مسموم فضا تھی۔
” اور تیز اڑو، اس کنویں سے جلدی نکلو دیکھو میرا دم گھٹ رہا ہے ۔ ” تانیہ نے بے چین ہوکر کہا۔
وہ دونوں کافی تیز اڑ رہے تھے۔ تانیہ کی پریشانی دیکھ کر انہوں نے اپنی رفتار مزید تیز کر دی۔ وہ اوپر چاہ وفات کے دہانے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ جو دھیرے دھیرے بڑا ہوتا جا رہا تھا۔ پھر وہ وقت آیا کہ اس کی کرسی چاہ وفات سے باہر نکل آئی۔ ان دونوں بونوں نے اس کی کرسی کو ایک پتھر پر اتار دیا۔ اور وہ خود سیدھے کھڑے ہو گئے۔ تانیہ نے گہرے گہرے سانس لے کر ہوش بحال کئے۔ اور چاروں طرف نظر دوڑائی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں سے اسے چاہ وفات میں پھینکا گیا تھا۔ اور یہ وہی پتھر تھا جس پر راکل نے کھڑے ہو کر اسے کنویں میں پھینکنے کا حکم دیا تھا۔
اس پتھر پر اس کی کرسی رکھی ہوئی تھی۔

“اچھا۔ اب ہم یہاں زیادہ دیر نہیں ٹھر سکیں گے۔ ہم جاتے ہیں۔ “کنویں کی مخلوق نے کہا
“ٹھیک ہے جاؤ ۔ “

ان دونوں نے چشم زدن میں پتھر پر کھڑے کھڑے قلابازی کھائی اور سیدھے چاہ وفات میں جا گرے۔ کنویں کی مخلوق کے غائب ہونے کے بعد تانیہ بالکل تنہا رہ گئی۔ یہ ایک عجیب و غریب منظر تھا ۔۔ ایک حسین ترین لڑکی ، خوبصورت ترین لباس میں، ایک نقش و نگار والی کرسی پر کسی شہزادی کی طرح بیٹھی تھی۔ اور دور تک کوئی نہیں تھا۔ انسان نہ غیر انسان۔ یہ ایک پتھریلا علاقہ تھا۔ چھوٹے چھوٹے پہاڑ دور تک پھیلے ہوئے تھے۔
وہ دوبارہ وہاں پہنچ گئی تھی جہاں اسے موت کے حوالے کر دیا گیا، اب سوال یہ تھا کہ وہ کہاں جائے؟
محسن راؤ کی جھونپڑی کیسے تلاش کرے۔ یہ اس نے کیا بے وقوفی کی۔ اس نے کاشگن سے یہ کیوں نہ کہا کہ وہ کسی طرح اسے محسن راؤ تک پہنچادے۔ شاید کاشگن کے اختیار میں نہ تھا، اس نے تو چاہ وفات تک چھڑوانے کے لئے کنویں کی مخلوق کی مدد لی تھی اور کہا تھا کہ یہ مخلوق کنویں سے آگے نہ جائے گی۔
اور وہ مخلوق اسے اپنے ٹھکانے پر چھوڑ کر غائب ہو چکی تھی۔ اب وہ کیا کرے؟ وہ کرسی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ پھر جب اس نے زمین پر نگاہ کی تو حیران رہ گئی۔ زمین پر راکل کا عصا پڑا تھا۔ وہ اس عصا کو اچھی طرح پہچانتی تھی، وہ سانپ کی طرح بل کھایا ہوا تھا ۔۔
وہ پتھر سے اتر کر نیچے پہنچی اور عصا کو زمین سے اٹھا لیا۔ یہ عصا یہاں کیوں پڑا ہے۔ یہ عصا تو راکل کے ہاتھ میں تھا۔ وہ اسے یہاں کیسے چھوڑ گیا۔ یہ عصا تو اس کی بیساکھی کا کام دیتا تھا۔
کیا ہوا راکل کو،؟ وہ اپنا عصا یہاں کیوں چھوڑ گیا۔

پھر جیسے جیسے تانیہ اپنے اطراف میں نظر دوڑاتی گئی اس کے سامنے نئی نئی باتیں آتی گئیں۔ اس نے جگہ جگہ الو مرے ہوئے دیکھے ، ایسا لگتا تھا جسے ان اُلووں کو کسی خونخوار جانور نے بھنبھوڑا ہو۔ پھر اس نے قریب ہی گھوڑوں کی لاشیں دیکھیں، وہ بھی خاصی خستہ حالت میں تھیں۔ آس پاس جو نظر پھیلے ہوئے تھے اس سے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہاں گھمسان کا رن پڑا ہو۔ گھمسان کا رن تو پڑا تھا۔ اس بے چاری کو تو کچھ معلوم ہی نہ تھا۔
اس اثناء میں کیا سے کیا ہوگیا تھا۔ اس کی جان کا دشمن راکل اور اس کے بھائی کی جان کی دشمن بقّاں تھے۔ اور اس کا بھائی محسن راؤ بالکل صحت یاب ہو گیا تھا۔ اس کا دیمک زدہ چہرہ بالکل صاف ہو گیا تھا۔ اور اب وہ کالے چراغ کے ساتھ تھا۔ کالا چراغ اسے خواب محل لے گیا تھا۔ جہاں اس وقت وہ بستر پر لیٹا تانیہ کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نیند بھی بھرتی جارہی تھی۔ محسن راؤ تانیہ کے بارے میں سوچتے سوچتے غنودگی میں چلا گیا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ تانیہ ایک بڑے سے پتھر پر ایک زرنگار کرسی پر شہزادیوں کی طرح بیٹھی ہے، اس کے نزدیک ہی چاہ وفات ہے۔
اس خواب کو دیکھتے ہی محسن راؤ کی آنکھ کھل گئی۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کس قسم کا خواب تھا۔ پتھر پر کرسی اور کرسی پر شہزادیوں کی طرح براجمان تانیہ ۔ تب اسے خیال آیا کہ وہ تانیہ کے بارے میں سوچتے سوچتے سو گیا تھا۔ شاید اسی لئے وہ خواب میں آگئی تھی۔ لیکن نہیں یہ اس کے دماغ کا فتور نہیں تھا۔ اس کا دل اس کو محض خواب ماننے کے لئے تیار نہ تھا۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس نے جاگتے میں تانیہ کو دیکھا ہو۔ وہ خواب اتنا ہی واضح تھا۔
اس کا دل بے کل ہو گیا تھا۔ اس کے اندر کی بے چینی پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ چاہ وفات کی طرف چلو۔
وہ بستر سے اٹھ گیا۔ اس نے منہ ہاتھ دھویا۔ وہ حمام میں منہ ہاتھ دھوتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کالے چراغ کو کس طرح بلائے۔ وہ جاتے ہوئے ہدایت کر گیا تھا کہ وہ محل کے اندر آنے کی کوشش نہ کرے ۔۔
چلو کچھ دیر انتظار کر لیتے ہیں۔ یہ سوچ کر باہر نکلا تو حیران رہ گیا۔ کالا چراغ بڑے سامنے اطمینان سے کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ محسن راؤ کو حمام سے نکلتے دیکھ کر مسکرایا اور بولا۔
“کیا ہوا محسن؟ تم کچھ جلدی نہیں اٹھ گئے۔ ؟؟”
“اچھا ہوا تم آگئے۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ تمہیں کیسے بلاؤں ۔ “
” خیریت تو ہے۔ کوئی گڑبڑ ہو گئی۔ “
“نہیں کوئی گڑبڑ نہیں ہوئی۔ بس میری اچانک آنکھ کھل گئی۔ “
“بھوک لگی ہے۔ “
” نہیں، میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ “
“خواب … کیا بقّاں خواب میں آگئی۔ “
بقّاں کا نام سن کر وہ لاحول پڑھنے والا تھا لیکن پھر فوراً ہی احساس ہو گیا کہ بقاں کا کالے چراغ کیا تعلق ہے۔ اس تعلق کی وجہ سے وہ بقاں کو برا نہیں کہنا چاہتا تھا۔ اس نے ہنس کر کہا۔
” نہیں بقّاں تو نہیں، البتہ میری بہن خواب میں آگئی۔ “ “تانیہ کو دیکھا تم نے خواب میں۔ ” کالے چراغ نے خوش ہو کر کہا۔ ” وہ کیا کر رہی تھی؟؟.”
بڑا عجیب و غریب خواب دیکھا ہے میں نے۔۔ وہ ایک بڑے سے پتھر پر، ایک زر نگار کرسی پر شہزادیوں کی طرح بیٹھی ہے اور اس کے نزدیک ہی چاہ وفات ہے،
“بس اتنا ہی دیکھا۔ ؟؟“
“ہاں۔”
“اس نے کچھ کہا نہیں۔ ” کالے چراغ نے پوچھا۔
” وہ کرسی پر زرق برق کپڑوں میں شہزادیوں کی طرح ضرور بیٹھی تھی لیکن اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔ وہ ادھر ادھر گردن گھما کر دیکھ رہی تھی۔ “ محسن راؤ نے بتایا۔
تمہیں یہ احساس کیسے ہوا کہ اس کے نزدیک ہی چاہ وفات ہے؟۔ “
یہ مجھے خود نہیں معلوم لیکن جب میری آنکھ کھلی تو یہ احساس خود بخود میرے دماغ میں موجود تھا کہ تانیہ چاہ وفات کے نزدیک بیٹھی تھی ۔ “
“چاہ وفات کے آس پاس کا علاقہ پتھریلا ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ اس کے نزدیک چھوٹے بڑے پتھر پڑے ہیں ۔ بعض پتھر چھوٹی چٹانوں جتنے ہیں۔ ” کالے چراغ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”ایک بات بتاؤ۔۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ تم نے سچا خواب دیکھا ہے۔ “
” سو فیصد میرا دل بار بار پکار کر کہہ رہا ہے کہ تانیہ چاہ وفات پر موجود ہے۔ “
“ٹھیک ہے پھر وقت ضائع نہیں کرتے۔ فوراً چلتے ہیں. ویسے بھی ہم وہاں جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اب تو وہاں جانے کی معقول وجہ بن گئی ہے۔ “
“کیا اپنا سامان سمیٹ لوں ۔ “
“نہیں کچھ مت سمیٹو۔ “ کالے چراغ نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ ” بس یہاں سے نکل چلنے کی کرو..”
” ٹھیک ہے چلو، میں فوری طور پر جانے کے لئے تیار ہوں ” ” آؤ، پھر میرے ساتھ ۔”
یہ کہہ کر کالا چراغ خواب محل کے اندرونی دروازے کی طرف چلنے لگا۔
ادھر جاتے دیکھ کر محسن راؤ کو حیرت ہوئی کیونکہ اس نے واضح طور پر اندر نہ آنے کی تنبیہ کی اب وہ خود ہی اسے محل کے اندر لے جا رہا تھا۔
“محل کے اندر کہاں جارہے ہو ؟ وہاں جانے کو تو تم نے منع کیا تھا۔ “
بالاخر محسن راؤ سے پوچھے بغیر رہا نہ گیا۔
“اسکے ساتھ میں، میں نے ایک بات اور کہی تھی۔ “
“وہ کیا؟”
” تمہیں سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ” کالے چراغ نے مسکرا کر کہا۔
” اوہ، اچھا، ٹھیک ہے نہیں کرتا سوال ایسے سوال کرنے کا بھلا کیا فائدہ جس کا جواب نہ ملے “
کالے چراغ نے دروازے پر پہنچ کر دروازہ کھولا اور اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ جب وہ دروازے سے باہر نکل آیا تو اس نے دروازہ بند کر کے ایک موٹا سا تالا لگا دیا اور چابی فضا میں اچھال دی۔ جو فوراً ہی غائب ہو گئی۔ اس کے بعد کالے چراغ نے محسن راؤ کا ہاتھ تھام لیا اور اس سےبولا۔
“محسن میرے ساتھ دوڑنا ہو گا۔ “
“ٹھیک ہے، میں راضی ہوں۔ “ وہ دوڑنے کے لئے تیار ہو گیا۔ محسن کو زیادہ نہیں دوڑنا پڑا۔ دوڑ لگاتے ہی اس کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ بہت گہرا اندھیرا تھا۔ ایسا اندھیرا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔

پھر کچھ دیر میں ہی اس کی آنکھوں کے آگے سے اچانک اندھیرا چھٹ گیا۔ اس نے خود کو ایک پتھریلے علاقے میں پایا۔ دور نزدیک کوئی محل نہ تھا۔ البتہ اس کے سامنے ایک چھوٹی سی چٹان ضرور تھی۔
پھر وہ دونوں جب چٹان کی اوٹ سے باہر آئے تو سامنے ایک بڑے پتھر پر تانیہ کو زر نگار کرسی پر زرق برق لباس میں بیٹھا دیکھا تو محسن راؤ کو یقین نہ آیا، اس نے سوچا وہ پہلے خواب دیکھ رہا تھا، یا اب دیکھ رہا ہے۔ اس نے فوراً اپنے بازو پر چٹکی لی۔ تکلیف کا احساس ہوا۔
“محسن راؤ، تمہارا خواب تو واقعی سچا نکلا۔ “

وہ دونوں ابھی تانیہ سے دور تھے اور پتھروں کی اوٹ میں چھپتے کبھی باہر نکلتے تانیہ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ تانیہ اطراف کا جائزہ لینے کے بعد پھر کرسی پر آبیٹھی تھی۔ راکل کا عصا اس کے ہاتھ میں تھا۔ اور وہ یہ سوچ رہی تھی کہ اب کیا کرے۔ کہاں جائے۔ کسے مدد کو پکارے۔ کیسے اپنے بھائی محسن راؤ تک پہنچے کہ منزل خود بخود آسان ہو گئی۔
اچانک اس کی نظر سامنے اٹھی تو اس کا اوپر سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ حیرت سے آنکھیں پھیل گئیں ایک نا قابل یقین منظر اس کے سامنے تھا۔ کیا غضب تھا کہ اس کا بھائی محسن راؤ اور دوسرا شخص کالا چراغ ہنستے مسکراتے اس کی طرف بڑھے چلے آتے ہیں۔ اب اس سے ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔ اس نے راکل کا عصا پرے پھینکا اور پتھر سے دھڑ دھڑ اترتی نیچے آگئی۔ اور دوڑ کر محسن راؤ کے نزدیک پہنچ گئی۔

“میرے بھائی ۔ ” یہ کہہ کر وہ اپنے بھائی کے گلے لگ گئی۔ اور سسک پڑی۔
” میری تانیہ ۔ میری پیاری بہن تانیہ ۔ ” محسن راؤ نے اسے اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیا۔
کالا چراغ بہن بھائی کے ملاپ کے اس منظر کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ محسن راؤ بھی اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکا۔ وہ بھی رو پڑا تھا۔
“بھائی ہمیں بھی کچھ توجہ درکار ہے۔ ۔ آخر آپ لوگ کب تک روئیں گے ۔ ” کالے چراغ نے ہنس کر کہا۔
محسن راؤ نے تانیہ کو اپنے سے الگ کیا۔ اور تانیہ سے مخاطب ہو کر بولا۔
” ان سے ملو، یہ ہیں کالے چراغ صاحب۔ “
” انہیں میں کیسے بھول سکتی ہوں ۔ ” تانیہ نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ ” آپ کیسے ہیں؟؟.”
“میں بالکل ٹھیک ہوں۔ میں ہی نہیں یہ محسن راؤ بھی بالکل ٹھیک ہیں۔ کیا تم نے ان کا چہرہ غور سے نہیں دیکھا۔ ” کالے چراغ نے کہا۔
کالے چراغ کے کہنے پر تانیہ نے فوراً اپنے بھائی کے چہرے کی طرف دیکھا۔ پھر یہ جان کر کہ کے چہرے پر جو دیمک سی لگ گئی تھی۔ وہ اب بالکل صاف ہو چکی تھی بہت خوشی ہوئی… اس وقت اسکا بھائی بہت پیارا لگ رہا تھا۔

” ارے واقعی بھائی یہ کیسے ہوا ؟ “
“یہ ہم بعد میں جانیں گے، پہلے تم یہ بتاؤ کہ تمہیں یہ زرق برق لباس، یہ زرنگار کرسی کہاں سے عطا ہوئی۔ تمہیں تو چاہ وفات میں پھینکا گیا تھا۔ تم زندہ کیسے بچ گئیں۔ کہیں تم تانیہ کی روح تو نہیں ہو ۔ ” کالے چراغ نے پوچھا۔
“میں ایک زندہ حقیقت ہوں۔ یہ ٹھیک ہے کہ مجھے چاہ وفات میں پھینکا گیا تھا اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ اس کے اندر دھکیلا جانے والے انسان کسی قیمت پر نہیں بچ سکتا، میں اگر بچ گئی ہوں تو اسے میری قسمت سمجھئے۔ یا معجزہ جانئے۔ “
” آخر یہ سب کیسے ہوا؟” محسن راؤ نے پوچھا۔
“اطمینان سے بتاؤں گی۔ ایک لمبی کہانی ہے ۔ ” تانیہ نے مسکرا کر کہا۔
” تانیہ تم یہ نہ سمجھو کہ تمہارے پاس ہی سنانے کو بہت کچھ ہے، ہمارے پاس بھی سنانے کو بہت کچھ ہے۔ سنو گی تو حیران رہ جاؤ گی۔ ” محسن راؤ بولا۔
“اچھا بھائی پھر جلدی سے بتائیں۔ مجھے اچھی اچھی کہانیاں سنا کر حیران کریں۔ “
ادھر نہ کوئی کہانی سنے گا، نہ کوئی کہانی سنائے گا۔ ” کالے چراغ نے فیصلہ صادر کر دیا۔
“پھر یہ آپ بیتیاں کہاں سنی اور سنائی جائیں گی۔ ” تانیہ نے پوچھا۔
“خواب محل پہنچ کر ۔ ” کالے چراغ نے بتایا۔
”یہ کہاں ہے؟” تانیہ نے پوچھا۔
“نزدیک ہی ہے۔ تم یہ بتاؤ کہ کیا یہ کرسی بھی ساتھ جائے گی؟” کالے چراغ نے دریافت کیا۔
“ہائے، اتنی پیاری کرسی ہے جی تو یہی چاہتا ہے کہ اپنے ساتھ ہی لے جاؤں ۔ “
“ارے تانیہ، کیا بات کر رہی ہو۔ اسے کون اٹھائے گا سر پر“ محسن راؤ پریشان ہو کر بولا۔
“اسے یہیں چھوڑو۔ “
“میں خواب محل میں اس سے اچھی کرسی تمہیں پیش کر دوں گا۔ ” کالے چراغ نے سنجیدگی سے کہا۔
” ارے میں تو ایسے ہی مذاق کر رہی تھی۔ مجھے کسی کرسی میں بھلا کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ “
تانیہ ہنس کر ہولی ۔
“لیکن تمہاری دنیا میں تو کرسی کی بہت اہمیت ہے۔ ایک مرتبہ جو کرسی پر بیٹھ جائے تو پھر اسے چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ” کالے چراغ نے مسکرا کر کہا۔
”کالے چراغ صاحب اس پہاڑی علاقے میں سیاسی گفتگو کرنا سخت منع ہے۔ “ تانیہ برجستہ بولی
“اچھا۔ ” کالے چراغ نے ایک زبردست قہقہہ لگایا۔ ”بھئی بہت خوب۔ “
“پھر چلیں۔ ” محسن راؤ خواب محل میں جانے کے لئے سخت بے چین تھا۔
” ہاں، بالکل۔ ” کالے چراغ نے آگے چلنے کا اشارہ کیا۔

پھر وہ تینوں گھوم کر اس چٹان کی اوٹ میں آگئے جہاں وہ پہلے پہنچے تھے۔
” تم دونوں میرے ہاتھ پکڑلو اور ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھیں بند کر لو۔ ” کالے چراغ نے اپنے

دونوں نے ہاتھ آگے کر دیئے۔
تانیہ نے بایاں اور محسن راؤ نے دایاں ہاتھ پکڑ لیا۔ پھر انہوں نے جیسے ہی آنکھیں بند کیں۔ ایک جھٹکا سا لگا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے زمین شق ہو گئی ہو اور وہ نیچے گرتے چلے جارہے ہوں۔ یہ کیفیت چند لمحوں سے زیادہ نہیں رہی۔ تب کالے چراغ کی آواز آئی۔ اب آنکھیں کھول دیں۔
محسن راؤ نے آنکھیں کھولیں تو اس نے خود کو خواب محل میں پایا۔ تانیہ کے لئے یہ جگہ نئی تھی۔
لیکن کیونکہ وہ کئی محلات میں وقت گزار چکی تھی
لہٰذا یہ جگہ اسے حیرت میں ڈالنے والی نہ تھی۔ اس نے آنکھیں کھول کر چاروں طرف نظریں گھمائیں۔
”اوہ، تو یہ ہے خواب محل ۔ ” تانیہ آگے بڑھ کر ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ محسن راؤ اور کالے چراغ بھی کرسیوں پر برا جمان ہو گئے۔
یہ کس کا محل ہے؟” تانیہ نے پوچھا۔
“بس اپنا ہی سمجھیں۔ “ کالے چراغ نے مسکرا کر کہا۔
” جب میں اپنی دنیا سے آئی تھی تو آپ نے مجھے اسی طرح کے ایک محل میں ٹھہرایا تھا جہاں میں رات بھر ڈرتی رہی تھی۔ پوری رات سو نہیں سکی تھی۔ میں جب بھی آنکھ بند کرتی خود کو ایک ے ہال میں پاتی جہاں بے شمار چمگادڑیں اڑتی ہوئی نظر آتیں۔ “
وہ میری غلطی سے ہوا لیکن اب یہاں ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ ” کالے چراغ نے کہا۔
“یہاں باہر نکلنے کی پابندی تو نہیں۔ ” تانیہ نے پوچھا۔ “نہیں, لیکن باغ کی چار دیواری سے باہر جانے کی اجازت نہیں اور نہ ہی اس کمرے سے محل کے اندر آنے کی ضرورت ہے۔ ” کالے چراغ نے بتایا۔
“چلیں یہ باتیں تو طے ہو گئیں، اب جلدی سے وہاں سے کہانی شروع کریں جہاں سے اسے میں نے چھوڑا تھا۔ “
“تم کہاں تک کے واقعات جانتی ہو ؟؟۔ ” کالے چراغ نے پوچھا۔
“بھئی ہم تینوں اسی طرح بھائی کی جھونپڑی میں اکٹھا تھے اور بقّاں سے نجات کے راستے تلاش کر رہے تھے کہ وہ بلا اچانک نازل ہو گئی۔ پہلے تو اس نے آپ کو زنجیروں میں جکڑا اور کچھ سوار آپ ہو گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔ اس کے بعد مجھے بقّاں اپنے ساتھ لے گئی۔ اس طرح ہم تینوں جدا ہوگئے۔۔”
“مجھے راکل کے لوگوں نے گرفتار کیا تھا۔ راکل نے مجھے زنداں میں ڈلوا دیا۔ وہاں سے سردار نے مجھے رہا کروایا اور سنہرے کھنڈر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ ” کالے چراغ نے بتایا۔
” بقّاں مجھے بھی راکل کے پاس لے گئی اور اس کی تحویل میں دے کر چلی گئی۔ راکل مجھ سے جو چاہتا تھا، وہ میں نے نہ مانا۔ نتیجے میں مجھے قید میں ڈال دیا گیا۔ اور کئی دن بھوکا پیاسا کمرے میں بند رکھا۔
پھر دادا اعظم میری مدد کو پہنچے میں مرنے سے بچ گئی۔ دو تین دن کے بعد جب راکل نے کمرہ کھولا تو اس کا خیال تھا کہ میں بھوک سے اس قدر نڈھال ہو چکی ہوں گی کہ فوراً اس کا کہا مان لوں گی لیکن اس کے برعکس جب اس نے مجھے ہشاش بشاش دیکھا تو وہ حیران رہ گیا۔ تب پتہ چلا کہ بقاں کو سردار کولانا نے اغواء کروالیا اور اس کے بدلے اس نے کالے چراغ صاحب کو مانگا ہے۔ راکل نے میرے بارے میں فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھے موت سے ہمکنار کر دے گا۔ اس لئے وہ مجھے فریب کر سنہرے کھنڈر سے نکال لایا اور مجھے چاہ وفات میں پھنکوا دیا۔ ” تانیہ نے اپنی آپ بیتی بیان کی
” میں حیران ہوں کہ تم بچ کیسے گئیں۔ ؟؟” کالے چراغ نے کہا۔
“بس اوپر والے نے بچالیا۔ ” تانیہ نے تشکر آمیز لہجے میں کہا۔ ” جب میں کنویں میں گری تھی تو میں نے زور زور سے چیخنا شروع کر دیا۔ میرے چیخنے کی وجہ سے کنویں کی مخلوق جاگ گئی
اسی کنویں کی مخلوق نے مجھے کاشگن کی بستی پہنچا دیا۔ وہاں ایک عجیب و غریب کہانی میری منتظر تھی”
یہ کہہ کر تانیہ کا شگن کی بستی میں اس پر جو بیتی تھی، وہ پوری تفصیل سے ان دونوں کے گوش گزار کردی۔ ساری بات بتادی مگر وہ بات چھپالی جو کبھی چھپائے نہیں چھپتی۔ راشمون اس کی نگاہوں میں بس گیا تھا رہا نہ گیا۔۔ اس نے راشمون کا ذکر تو کیا لیکن یہ نہ بتایا کہ وہ اس پر مرمٹا تھا اور خود وہ بھی اس کے سحر میں
مبتلا ہو گئی تھی۔
تانیہ کی روداد ختم ہوئی تو کالے چراغ نے اپنا قصہ چھیڑ دیا۔
راکل کے سنہرے کھنڈر کی تباہی، اسکی گرفتاری، سردار کولانا کے سامنے اس کی پیشی، پھر بقّاں کے ساتھ اس کی شادی ۔ بقّاں کی خود کشی اس کی تدفین ۔ راکل کا سردار کولانا کو زخمی کر کے نکل جانا۔ دیواہ کالی کا دربار، راکل کی سزائے موت، پھر اس کی تدفین۔ تدفین کے موقع پر محسن راؤ کا مل جانا۔ سنہرے پروں والی مکھیوں کا کاٹنا ۔ محسن راؤ کی صحت یابی۔ بقّاں اور راکل کا زمین میں اتر جاتا۔ ان کا عبرتناک انجام اور محسن راؤ کا کالے چراغ کے ساتھ خواب محل میں آنا۔ تانیہ اور کالے چراغ کے بعد محسن راؤ نے اپنی آپ بیتی چھیڑی اور وہ باتیں بتائیں جن سے تانیہ واقف نہ تھی۔ محسن راؤ کی روداد سن کر اب پوری کہانی تانیہ کے سامنے آئینے کی طرح چمکنے لگی۔
وہ خوش تھی کہ اس نے اپنے بھائی محسن راؤ کو پالیا تھا۔ اب وہ چاہتی تھی کہ جلد از جلد محسن کو لے کر اپنی دنیا میں لوٹ جائے۔ تاکہ اپنے چچا راؤ احمد علی سے اس کے ایک ایک ظلم کا حساب لے سکے۔

“کالے چراغ صاحب٫ اب آپ ہم پر ایک احسان اور کر دیں، ہمیں ہماری دنیا تک پہنچا دیں ۔ ” تانیہ نے پرجوش لہجے میں کہا۔

کالے چراغ نے تانیہ کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ بڑے پر اسرار انداز میں کرسی سے اٹھا اور بغیر کچھ کہے محل کے اندرونی دروازے سے اندر چلا گیا اور پھر دروازہ کھٹاک سے بند ہو گیا۔
تانیہ اور محسن راؤ ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔

“انہیں کیا ہوا ۔ ؟ ” تانیہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
“شاید واپسی کا ذکر پسند نہیں آیا۔ ” محسن راؤ نے خیال ظاہر کیا۔
“بھائی کیا مطلب ہے ۔ ؟ کیا ہم زندگی بھر انہی لوگوں کے ساتھ رہیں گے۔ ” تانیہ پریشان ہوگئی
”مجھے تو لگتا ہے۔ وہ ہمیں بند کر گیا ہے۔ “ محسن راؤ نے خیال ظاہر کیا۔
“ہائے نہیں … میں جاکر دروازہ دیکھوں ۔ ؟” اس نے پوچھا۔
٫ہاں دیکھو, لیکن ایک بات کا خیال رکھنا، دروازہ کھلا ہو تو باہر نکلنے کی کوشش نہ کرنا۔ “
” وہ کیوں ۔ ؟ ” تانیہ نے پوچھا۔
“اس نے مجھے سختی سے منع کیا تھا۔ ” محسن راؤ بولا۔
“ٹھیک ہے۔ میں ایسے ہی اندازہ کرتی ہوں کہ دروازہ کھلا ہے یا بند ہے۔ “
تانیہ کرسی سے اٹھ کر اندرونی دروازے کی طرف بڑھی۔ اس نے دروازے کو اپنی طرف کھینچ کر دیکھا۔ دروازه نہیں کھلا۔ ادھر سے شاید کنڈی لگی تھی۔

“بھائی دروازہ بند ہے۔ ” تانیہ نے پریشان ہو کر کہا۔
“اچھا، میں محل کا بیرونی دروازہ جاکر دیکھتا ہوں ۔ “ محسن راؤ اٹھ کر بیرونی دروازے کی طرف بڑھا
محسن راؤ نے باہر کا دروازہ اپنی طرف کھینچ کر دیکھا۔ دروازہ فورا کھل گیا۔ وہ بولا۔
” یہ دروازہ تو کھلا ہے “
” شکر ہے۔ ” تانیہ نے ٹھنڈا سانس لے کر کہا۔
“چلو قید ہونے کا خطرہ تو ٹل گیا۔ آؤ باہر چلیں۔ باغ میں چل کر بیٹھیں۔ “ محسن راؤ نے کہا
“ہاں، بھائی چلیں۔ ” تانیہ فوراً راضی ہو گئی۔

دونوں بہن بھائی سیڑھیاں اتر کر باغ میں داخل ہوگئے۔ اور ایک گھنے درخت کے سائے تلے پر بیٹھ گئے۔
تانیہ نے محسن راؤ کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ”اللہ کا بڑا احسان ہے کہ بھائی آپ کا چہرہ ٹھیک ہوگیا ورنہ میں بہت فکر مند ہو گئی تھی۔ “
” تانیہ، میں نے زندگی بڑے عذاب میں گزاری ہے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہوں تو روح تک کانپ جاتی ہے “
“یہ سب راؤ احمد علی کی وجہ سے ہوا ہے۔ نہ وہ آپ کے قتل کے درپے ہوتا اور نہ آپ اس عذاب میں مبتلا ہوتے۔ “
” تانیہ، یہ دولت آدمی کو اس قدر سفاک کیوں بنا دیتی ہے۔ ؟؟” وہ کھوئے انداز میں بولا۔
“دولت ہے ہی ایسی ظالم چیز اچھے خاصے آدمی کو پاگل کر دیتی ہے ۔ “
“تو پھر ہمارا تمہارا باپ کیوں نہ پاگل ہوا کیا اس کے پاس چچا راؤ احمد علی سے کم دولت تھی۔۔؟”
“بھائی ایک بات بتاؤں ۔ ” تانیہ کے چہرے پر اچانک دکھ کے بادل چھا گئے۔ ” یہ بات میں نے ابھی تک بتائی نہیں ہے۔ اور بتائی اس لئے نہیں کہ آپ پہلے ہی عذاب جھیل رہے تھے۔ اگر یہ خبر سنا دیتی تو آپ کے دکھوں میں مزید اضافہ ہو جاتا۔ “
“ایسی کیا خبر ہے تانیہ جلدی بتاؤ کانٹوں بھری زندگی گزار کر اب میرا دل بہت مضبوط ہوگیا ہے۔”
“بھائی اس دنیا میں امی رہیں نہ بابا رہے۔ ” تانیہ نے اندوہناک خبر سنائی۔

محسن راؤ پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ وہ جب اپنے ماں باپ سے بچھڑا تو اس کی عمر بارہ سال رہی ہوگی۔ وہ آج بھی اسی عمر میں زندہ تھا۔ اسے احساس ہی نہیں تھا کہ اس کی عمر اب کیا ہوگئی ہے۔ صحرا کی قید نے اس کے گھر کے حوالے سے اس کی عمر میں اضافہ نہیں کیا تھا

“ممی کو کیا ہوا تانیہ ۔ ؟ “
“بھائی امی کو تو آپ کا غم لے بیٹھا۔ آپ کے اغواء ہونے کے بعد وہ بمشکل تین ماہ زندہ رہیں۔ بس ہر وقت آپ کی تصویر لئے گھومتی رہتی تھیں۔ جب ان کا انتقال ہوا تو سینے پر آپ کی فریم شدہ تصویر تھی اور نظریں دروازے کی طرف تھیں۔ “
یہ سن کر محسن راؤ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہ نکلے، پھر وہ گھٹنے میں منہ دے کر سسک سبک کر رونے لگا۔ اسے روتا دیکھ کر خود تانیہ بھی صبر نہ کر سکی، وہ بھی بے اختیار رونے لگی۔ محسن راؤ نے اپنی بہن کو قریب کر لیا۔ پھر وہ دونوں گلے مل کر آہ و زاری کرنے لگے ۔
“اور بابا ؟ ” محسن راؤ نے روتے روتے پوچھا۔
تانیہ نے اپنے آنسوؤں پر قابو پاتے ہوئے دھیرے سے کہا۔ ”بابا کو قتل کر دیا گیا۔ “
“قتل کر دیا گیا کس نے قتل کیا انہیں ؟”
” راؤ احمد علی نے۔ ” تانیہ نے انتہائی غصے سے کہا۔
“اس نے مجھے قتل کروانے کی سازش کی … میری ماں کو مار دیا۔ میرے باپ کو قتل کر دیا۔ “
محسن راؤ نے اپنے آنسو پونچھ ڈالے اور پر عزم لہجے میں بولا۔
“راؤ احمد علی فکر مت کرو۔ اب تمہاری موت اور وہ بھی ایسی عبرتناک موت کہ دنیا دیکھے تم سے زیادہ دور نہیں ہے۔ “
“ہاں، بھائی اس کو چھوڑنا نہیں ہے۔ اس نے ہمیں بالکل تباہ کر دیا ہے۔ “
” میں اسے دیکھ لوں گا۔ ” محسن راؤ نے بڑے جوش سے کہا۔
“ارے بھئی کیا دیکھ لوگے۔؟؟ میں تو یہاں ہوں۔ اور میں نے تم لوگوں کا کچھ بگاڑا بھی نہیں ہے۔ ” اچانک کالے چراغ کی آواز آئی۔ وہ درختوں کے جھنڈ سے ایک دم ہی باہر آیا تھا۔
وہ ان کی باتیں سن رہا تھا یا انہیں تلاش کرتا ہوا ادھر آنکلا تھا۔
” آپ آگئے ۔ ؟” تانیہ نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ” آپ کہاں چلے گئے تھے۔؟”
” میں اپنے سردار کولانا کے پاس گیا تھا۔ ان سے اجازت لینا ضروری تھی۔ “
“اجازت مل گئی۔ ” تانیہ نے پوچھا۔
“ہاں، لیکن محسن راؤ تم کس کو دیکھ رہے تھے ۔ “
“ہے ایک خبیث شخص۔۔۔ ہماری دنیا کا ۔ اس نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ میں اس کی بات کررہا تھا۔ ” محسن راؤ نے بتایا۔
“راؤ احمد علی کی بات کرتے ہو۔ ” کالے چراغ نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔
“ہاں، اس کی.. لیکن تم اسے کیسے جانتے ہو۔ ؟؟”
” میں کیسے جانتا ہوں، بھلا یہ بھی پوچھنے والی بات ہے۔ مجھ سے یہ پوچھو کہ میں کیا نہیں جانتا۔”
“گویا سوال کرنے کی اجازت ہے۔ ” محسن راؤ نے فوراً کہا۔

” نہیں، نہیں۔ ” کالے چراغ نے گھبرا کر کہا۔ ”تمہارا کوئی بھروسہ نہیں، پتہ نہیں کیا پوچھ لو”
” بس گھبرا گئے۔؟؟ ” محسن راؤ بولا۔
“اب آپ نے کیا طے کیا ہے ؟” تانیہ نے بات کا رخ موڑا۔
“کس بارے میں۔ ؟”
” یہاں سے جانے کے بارے میں۔ “
” ابھی تو آپ لوگ اندر چلیں، کھانا وغیرہ کھالیں، پھر کچھ کرتے ہیں۔ “
“مجھے تو بھوک نہیں ہے۔ ” محسن راؤ نے کہا۔
“بھوک تو بھائی مجھے بھی نہیں ہے۔ “
“ارے آخر ایسا کیا ہوا کہ دونوں کی بھوک اڑ گئی۔ ؟”
“کچھ نہیں ہوا۔ “
تانیہ اب اسے کیا بتاتی کہ اس نے اپنے بھائی کو کیا خبر سنائی ہے۔ وہ اپنا دکھ اسے بھلا کیوں بتاتی۔ وہ اسے اپنے دکھ میں کیوں شریک کرتی۔ لہذا بات ٹالنے کے لئے خود اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور اپنے بھائی محسن راؤ سے مخاطب ہو کر بولی۔
“آؤ، بھائی اندر چلیں۔ “
محسن بغیر کچھ کہے گہرا سانس لے کر اٹھ گیا۔ وہ تینوں اندر آئے۔ میز پر کھانا سجا ہوا تھا۔ دونوں میں سے کسی نے بھی کھانے کی طرف نہیں دیکھا۔ محسن راؤ بستر پر دراز ہو گیا اور تانیہ کرسی پر بیٹھ گئی
کالے چراغ نے دونوں کی طرف باری باری دیکھا اور پھر بولا۔
”اچھا، میں اب چلتا ہوں، سورج غروب ہوتے ہی آؤں گا۔ تب تک آپ دونوں آرام کریں بھوک لگے تو یہ کھانا حاضر ہے۔ کھالینا۔ کھانا تازہ اور گرم ملے گا۔ “
“میں جانتی ہوں ۔ ” تانیہ نے کہا۔
“ہاں، تم جانتی ہوگی۔ ” کالے چراغ نے اس کی تائید کی۔ ”اس لئے کہ پہلے تم دیکھ چکی ہو”
“وہ کیسے ۔ ؟ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
“جب میں اپنی دنیا سے منتقل ہوئی تھی تو کالے چراغ صاحب نے اسی طرح کے ایک محل میں مجھے مہمان رکھا تھا۔ آپ کی زندگی کی کہانی سنائی تھی۔ پھر اس کے بعد یہ مجھے آپ سے ملانے لے گئے تھے۔ ” تانیہ نے وضاحت کی۔
“اچھا۔ ” محسن راؤ نے گردن ہلا کر کہا جیسے اسے یاد آگیا ہو۔
” اب مجھے یہ بتاؤ کہ کہاں منتقل ہونا ہے۔ ؟” کالے چراغ نے پوچھا۔
“کیا مطلب ۔ ؟ ” تانیہ نے کہا۔ ”اپنی دنیا میں جائیں گے اور کہاں ۔ ؟؟
“اپنی دنیا میں تو جاؤ گے ہی۔۔ لیکن کس مقام پر منتقل ہونا چاہو گے۔ کیا اس مکان میں جہاں سے تمہیں لایا گیا یا ساون پور کی حویلی میں یا ماڈل ٹاؤن والی کوٹھی میں۔ پھر ایک مسئلہ اور بھی ہے۔۔۔
دونوں ایک جگہ منتقل ہونا چاہو گے یا الگ الگ مقامات پر ۔ یہ سب باتیں طے کر لو۔ اندھیرا ہوتے ہی میں آجاؤں گا۔ ۔۔ پھر تم لوگوں کی مرضی کے مطابق تمہیں منتقل کر دیا جائے گا۔ “
یہ کہ کر وہ محل کے اندرونی دروازے کی طرف بڑھا۔

وہ دونوں اسے جاتے ہوئے غور سے دیکھنے لگے۔ وہ ایک قد آور شخص تھا۔ ڈھیلا ڈھالا کالا لباس، کندھے پر پڑے ہوئے لمبے لمبے بال، اس کی شخصیت میں عجب جاذبیت تھی۔ وہ تھوڑا سا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ اور پھر دروازہ کھٹاک سے بند ہو گیا۔
کالے چراغ کے جانے کے بعد تانیہ نے خیال انگیز لہجے میں کہا۔ ” بھائی کالے چراغ نے سوال تو ٹھیک اٹھایا ہے۔ ؟”
“کیسا سوال ۔ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
“یہی کہ ہم ساون پور جائیں، لاہور منتقل ہوں یا کراچی کا رخ کریں۔ “
” تم بتاؤ کیا کرنا چاہئے۔ “
“میرا جی تو یہ چاہتا ہے کہ میں جس کمرے سے یہاں منتقل ہوئی ہوں۔ وہیں واپس جاؤں اور آپ کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤں ۔ ” تانیہ نے اپنی خواہش ظاہر کی۔۔
” یعنی کراچی، گلشن والے گھر میں۔ ؟”
”ہاں۔ “
پھر تانیہ سوچتے ہوئے بولی۔
” لیکن اگر میں آپ کے ساتھ اس کمرے سے نکلی تو خالہ فرزانہ، بھائی افضل کو مطمئن کرنا مشکل ہو جائے گا۔ میں انہیں کیا بتاؤں گی۔ اگر میں یہاں کے سارے حالات بتا بھی دوں گی تو ہماری باتوں پر کون یقین کرے گا۔ لوگ ہمارا مذاق اڑائیں گے یا پاگل سمجھیں گے۔ ہو سکتا ہے جھوٹ کے اس شاہکار پر نوبل پرائز مل جائے۔ ہمیں ایسے واقعات گھڑنے پر انعام تو مل سکتا ہے لیکن یقین نہیں مل سکتا۔ اور بھائی سچی بات تو یہ ہے کہ میں جن عجیب و غریب حالات سے گزری ہوں، وہ سب مجھے خواب سا معلوم ہوتا ہے۔ میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ میں کوئی طویل خواب دیکھ رہی ہوں۔ جب آنکھ کھلے گی تو ساری حقیقت سامنے آجائے گی۔ سارا فریب کھل جائے گا۔ “
“بات تو تم ٹھیک کہتی ہو لیکن ہمیں ضرورت کیا ہے کہ ہم دنیا والوں کو اپنی کہانی سناتے پھریں۔ ہمیں کسی سے سند لینے کی کیا ضرورت ہے۔ اپنی کہانی بھی سنائیں اور جھوٹے بھی کہلائیں۔ “
“چلیں، ایک بات تو طے ہو گئی کہ اپنی دنیا میں جا کر یہاں ہم پر جو کچھ بیتا ہے، وہ نہیں بتائیں گے۔ ضرورت کے مطابق کوئی ایسی کہانی گھڑ لیں گے کہ لوگوں کو یقین آجائے۔ اور ان کا جذبہ تجسس تسکین پا جائے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ چلیں یا الگ الگ۔ ” الگ الگ جانا ہو گا، اگر ایک ساتھ اس کالے کمرے سے ظہور پذیر ہوئے تو سارے لوگ گھر چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ “
“آپ کی یہ بات سو فیصد درست ہے لیکن میں اب آپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔”
“کس بات کا ڈر۔ ؟”
” اگر ہم الگ الگ اپنی دنیا میں گئے تو یہ کالا چراغ ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دے۔ ہو سکتا ہے ہمیں جدا کر دے۔ یہ آپ کو تو ہماری دنیا میں پہنچادے لیکن مجھے یہاں سے نہ جانے دے۔ ” تانیہ نے خدشہ ظاہر کیا۔
“یہ شخص فریبی نہیں لگتا۔ اگر اسے ہمیں جدا کرنا ہوتا تو ملاتا کیوں ؟ پھر یہ تمہاری بہت عزت کرتا ہے”
” ہاں، اتنا تو میں بھی جانتی ہوں کہ یہ راکل کی طرح نہیں ہے۔ اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ ابھی تک اس نے کوئی ایسی بات نہیں کی ہے جس سے اس کی نیت پر شبہ کیا جاسکے۔ جبکہ میں اس کے ساتھ تنہا بھی رہی ہوں ۔ “
“پھر کیا کرنا چاہئے۔ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
“کالے چراغ پر اعتماد کرنا پڑے گا۔ اس پر اعتماد کرنا ویسے بھی ہماری مجبوری ہے۔ ہم اس کے رحم و کرم پر جو ہیں۔ ” تانیہ نے کہا۔
“چلو اللہ مالک ہے, رسک تو بہر حال لینا ہو گا۔ ” محسن راؤ بولا۔

پھر وہ بہت دیر تک بیٹھے اس مسئلے پر بات کرتے رہے۔ اس مسئلے کی باریکیوں پر غور کرتے ہے۔ بالآخر انہوں نے ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کر لیا۔ کیا کرنا ہے کیسے کرنا ہے یہ سوچ لیا۔ ساری باتیں طے کرنے کے بعد وہ آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے۔ سو گئے۔ پھر جب تانیہ کی آنکھ کھلی تو شام ہونے کو تھی۔ اس نے محسن راؤ کو اٹھایا، دونوں نے منہ ہاتھ دھویا۔ تانیہ نے اصرار کرکے محسن راؤ کو تھوڑا سا کھانا کھلایا۔ خود بھی کھایا۔
سورج ڈھلتے ہی کالا چراغ آپہنچا۔ اس کے چہرے پر گمبھیر سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ وہ خاموشی سے آکر بیٹھ گیا۔
تانیہ نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ نظریں نیچی کئے۔ گردن جھکائے کسی گہری سوچ میں تھا۔

کیا ہوا ۔ ؟” تانیہ نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔ “کچھ نہیں۔ ” کالے چراغ نے نظریں ! اٹھا کر خالی خالی نگاہوں سے تانیہ کو دیکھتے ہوئے
“پھر اتنے اداس کیوں نظر آرہے ہیں۔ ؟؟
“وقت رخصت ہے۔ کیا مجھے خوش ہونا چاہئے ۔ ” کالے چراغ نے سادگی سے کہا۔
“جو آتا ہے، اسے جانا ضرور ہوتا ہے۔ ” محسن راؤ نے فلسفیانہ انداز اختیار کیا۔
” تانیہ اور محسن راؤ، میں تم دونوں سے مخاطب ہوں۔ میرے کسی رویے سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں۔ مجھے غیر انسانی مخلوق سمجھ کر معاف کر دینا۔ “
“آپ نے ہم دونوں کا بہت خیال رکھا۔ ہم دونوں آپ کے شکر گزار ہیں معذرت اور معافی کی تو گنجائش ہی نہیں۔ البتہ ہم دونوں سے کوئی گستاخی ہوگئی ہو تو اسے دل سے معاف کر دیجئے گا۔ انسان بہر حال خطا کا پتلا ہے۔ ” ” تانیہ شرمندہ نہ کریں۔ ” کالے چراغ نے کہا۔
“میں ایک حقیر سا تحفہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہوں۔ امید ہے آپ انکار نہیں کریں گے۔ “
تانیہ نے کاشگن کا عطا کردہ لشکارے مارتا ہیروں کا ہار اپنے گلے سے اتار کر اپنے دونوں ہاتھوں پر رکھا، اور ہار اس کے سامنے کر دیا، اس کے ہاتھ جگمگا رہے تھے۔
“ارے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ کسی نے آپ کو دیا ہے۔ میں اسے ہرگز قبول نہیں کروں گا۔ ” کالے چراغ نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
” اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ دینے کو نہیں۔ “ اس مرتبہ محسن راؤ بولا۔
“کچھ دینے کی ضرورت بھی نہیں۔ اپنی دنیا میں جا کر مجھے اچھے لفظوں سے یاد کر لیتا۔ بس ہمیں یہی میرے لئے سب سے قیمتی تحفہ ہے ۔ ” کالے چراغ نے ہنستے ہوئے کہا۔
“ہم جب تک جئیں گے آپ کو یاد رکھیں گے۔ آپ کو کون بھول سکتا ہے بھلا۔ ” تانیہ نے دوبارہ وہ ہار اپنے گلے میں پہن لیا۔
” آپ لوگوں نے کیا طے کیا۔ کس طرح جانا ہے اور کہاں جانا ہے۔ ؟” کالے چراغ نے پوچھا
” ہم لوگوں نے لے تو کرلیا ہے لیکن آپ سے پوچھنا بھی ضروری ہے کہ آیا ایسا ہو بھی سکتا ہے یا نہیں۔ “
” ہر وہ بات ممکن ہے۔ جو آپ چاہیں، میری طرف سے کھلی آزادی ہے۔ آپ بتائیں کیا چاہتے ہیں۔؟ “

تب تانیہ نے کالے چراغ کو اپنا منصوبہ بتا دیا جو انہوں نے آپس میں طے کیا تھا۔ وہ دونوں کی باتیں غور سے سنتا رہا پھر بولا۔
” ٹھیک ہے۔ آپ لوگ چلنے کی تیاری کریں۔ “
پھر کالے چراغ نے محسن راؤ کو کپڑے فراہم کئے۔ ایک بیگ دیا جس میں کئی جوڑے موجود تھے۔ تانیہ کو بھی اس کی ضرورت کی چیزیں فراہم کیں۔ پھر وہ تینوں اٹھ کھڑے ہوئے۔
“تانیہ تم ابھی بیٹھو۔ پہلے میں محسن راؤ کو منتقل کردوں کیونکہ تم الگ الگ اپنی دنیا میں جانا چاہتے ہو۔ “
“ٹھیک ہے۔ “
“تم پریشان تو نہیں ہوگی۔ ” کالے چراغ نے پوچھا۔
“نہیں ہرگز نہیں۔ “
پریشانی تو اسے ہوگئی تھی لیکن اس نے اپنی پریشانی ظاہر نہیں کی۔
“آؤ، محسن راؤ اٹھاؤ اپنا بیگ اور چلو اپنی دنیا میں۔ ” محسن راؤ نے اپنا بیگ اٹھا لیا۔ وہ تانیہ کے قریب آیا اور دھیرے سے بولا۔ “اچھا تانیہ ۔ میں چلتا ہوں۔ تم ڈرنا مت۔ انشاء اللہ کوئی گڑ بڑ نہیں ہوگی ۔ “
اللہ کرے ایسا ہی ہو، اچھا بھائی اللہ حافظ ۔ ” تانیہ نے ہمت سے کام لیا۔

محسن راؤ اور کالا چراغ محل کے اندرونی دروازے سے باہر نکل گئے۔ ان کے جانے کے بعد دروازہ کھٹاک سے بند ہو گیا۔ دروازہ بند ہوتے ہی اس کا دل کانپنے لگا۔ خوف کی لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں اترتی چلی گئی۔ اسے بس یہی خدشہ تھا کہ کہیں کالا چراغ دھوکا نہ دے جائے۔ بہر حال اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس نے اللہ سے لو لگالی۔ اور سلامتی سے گھر پہنچ جانے کی دعائیں مانگنے لگی۔ سورج کب کا ڈوب چکا تھا۔ باہر تاریکی پھیل چکی تھی۔ تانیہ نے کچھ دیر کے بعد پردہ ہٹا کر باہر جھانکا تو اسے تاروں سے بھرا آسمان نظر آیا۔ چاند بھی نکل آیا تھا لیکن وہ سامنے نہ تھا۔ چاندنی پورے باغ پر برس رہی تھی۔ کافی دیر کے بعد کالا چراغ واپس آیا۔ وہ پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ اس کے کالے کپڑے جگہ جگہ سے بھیگے ہوئے تھے۔

“کیا ہوا ۔ ؟ ” تانیہ نے پوچھا۔
“محسن راؤ بخیر اپنی دنیا میں پہنچ گئے۔ ” کالے چراغ نے بتایا۔
“آپ پسینے میں نہائے ہوئے ہیں۔ ” ہمدردی سے کہا۔
“یہ پسینہ نہیں ہے ۔ ” کالے چراغ نے مسکرا کر کہا۔
” پھر کیا ہے۔ ؟ ” تانیہ حیرت زدہ ہو کر بولی
“چھوڑو، اس بات کو۔ آؤ اپنا اٹھا لو اور میرے پاس آجاؤ”

تانیہ نے پھر کوئی سوال نہیں کیا۔ خاموشی سے کرسی سے اٹھی اور اپنا بیگ کندھے پر رکھ کر اسکے پاس جاکھڑی ہوئی۔
کالے چراغ نے اپنا سیدھا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا اور بولا۔ “میرا ہاتھ پکڑلو۔ “
تانیہ نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا جو برف کی طرح ٹھنڈا ہو رہا تھا۔

“اب اوپر چھت کی طرف دیکھو۔ ” کالے چراغ نے کہا۔
تانیہ نے بغیر کچھ کہے اپنی نظریں محل کی چھت پر جمادیں۔
” کیا نظر آرہا ہے۔ ؟” کالا چراغ نے پوچھا۔
“چھت۔ ” اس نے جواب دیا۔
“اور اب۔ ؟؟”
“چھت غائب ہو گئی۔ تاروں بھرا آسمان دکھائی دے رہا ہے۔ “
“اور اب۔ ؟”
“اب اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ “

تب اسے محسوس ہوا جیسے کالے چراغ نے اپنا ہاتھ جھٹک کر چھڑا لیا ہو۔ کچھ دیر تک وہ خاموش کھڑی رہی۔ اس انتظار میں کہ شاید کالا چراغ اب کوئی سوال کرے۔ لیکن کالے چراغ نے کوئی سوال نہ کیا۔ وہ اس کے نزدیک ہوتا تو سوال کرتا، وہ تو کب کا جا چکا تھا۔ اب تانیہ کو احساس ہوا جیسے اس کے آس پاس کوئی نہیں ہے۔ وہ اکیلی کھڑی ہے۔ تنہائی کے احساس کے ساتھ ہی اچانک اس کے جسم میں سردی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ سردی کی لہر کسی خوف کی وجہ سے نہ تھی بلکہ یہ سردی اسے اپنے چاروں طرف برستی محسوس ہورہی تھی۔ جہاں وہ کھڑی تھی، وہاں گھپ اندھیرا تھا، اس قدر کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دے رہا تھا۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ بڑھا کر ایسے ہی اندھوں کی طرح لہرایا، کچھ ٹٹولنے کی کوشش کی لیکن اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ بس ہاتھ فضا میں لہرا کر رہ گیا۔
اب اس نے چاروں طرف گھوم کر دیکھا۔ وہ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی کہ اس نے ایک باریک سے سوراخ سے روشنی آتی ہوئی محسوس کی۔ اور اس سوراخ کی صورت کسی چابی کے سوراخ کی سی تھی۔ تب اچانک ہی ایک خوشی کی لہر سر تا پا دوڑ گئی۔ اس نے جان لیا کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔ وہ بلا خوف و خطر تیزی سے آگے بڑھی اور اس نے جھک کر چابی والے سوراخ میں اپنی آنکھ ٹکادی۔ اسے سامنے جتنا حصہ نظر آیا۔ وہ اس کا جانا پہچانا تھا۔ خوشی کے مارے اس کے دل کی دھڑکن بے قابو ہو گئی۔ دل اتنے زور سے دھڑک رہا تھا کہ وہ اس دھڑکن کی آواز صاف سن سکتی تھی۔ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس وقت وہ اس کمرے میں موجود تھی۔ جس کی دیواریں سیاہ تھیں۔
اور دروازے پر ایک تعویذ لٹکا ہوا تھا۔ وہ جہاں سے گئی تھی وہیں واپس آگئی تھی۔ یہاں کا موسم شاید تبدیل ہو گیا تھا۔ وہ بارشوں کے موسم میں گئی تھی۔ اب شاید سردیاں آگئی تھیں یا ہو سکتا ہے اتنی بارشیں ہوئی ہوں کہ ٹھنڈ بڑھ گئی ہو۔ اس نے ٹٹول کر دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا اور اسے ہلکا سا دبایا۔
یہ جان کر مزید مسرت ہوئی کہ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اس دروازے کے اس طرف خالہ فرزانہ تھیں جو اس پر اپنی جان چھڑکتی تھیں۔ افضل بھائی تھے جو اس کا بے پناہ خیال رکھتے تھے۔ دردانہ تھی جس کی خدمت کا کوئی بدل نہ تھا۔
اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس وقت رات کا کیا بجا ہے۔ برآمدے کی لائٹ جل رہی تھی۔ لیکن اس سے وقت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تھا کیونکہ یہ لائٹ ساری رات جلتی رہتی تھی۔ اس نے کان لگا کر کوئی آہٹ سننا چاہی لیکن باہر کوئی آہٹ نہیں تھی۔
وہ چند لمحے کھڑی سوچتی رہی۔ کیا کرے۔ باہر تو اس نے نکلنا ہی تھا۔ سوال یہ تھا کہ باہر نکل کر اپنے کمرے کا رخ کرے یا خالہ فرزانہ کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹائے۔؟؟

اسے یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ اس کا کمرہ کھلا نہ ہو گا۔ اسے خالہ فرزانہ نے ضرور مقفل کروا دیا ہو گا اور اس کی چابی بھی انہی کے پاس ہوگی۔
اب اس کمرے میں کھڑے ہو کر وقت برباد کرنا بیکار تھا۔ سردی کی وجہ سے اس کے جسم پر کپکپاہٹ طاری ہو گئی تھی۔ اس نے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر بہت آہستہ سے تھوڑا سا دروازہ کھولا اور گردن نکال کر ادھر ادھر دیکھا۔ برآمدے میں کوئی نہ تھا۔
سناٹا طاری تھا۔ اس نے جلدی سے باہر نکل کر اس کے کمرے کا دروازہ بند کیا۔ اور دروازے پر کھڑے ہوکر گہرے گہرے سانس لینے لگی۔
اس کمرے کے برابر والا کمرہ خالہ فرزانہ کا تھا۔ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے خالہ فرزانہ کا دروازہ تھوڑا سا کھلا دیکھا۔ اندر لائٹ بھی جل رہی تھی۔ اس قدر سردی میں دروازے کا کھلا ہونا کیا معنی رکھتا تھا۔ وہ بے آواز آگے بڑھی۔ لیکن اس کے دل نے اپنی دھاڑ دھاڑ بند نہ کی۔
کھلے دروازے سے اس نے دیکھا کہ خالہ فرزانہ تکئے لگائے بیڈ پر لیٹی ہیں ہاتھ میں کوئی کھلا ناول ہے جو بیڈ پر اوندھا رکھا ہے۔
شاید خالہ فرزانہ پڑھتے پڑھتے تھک گئی تھیں۔ اس نے سوچا، کہیں پڑھتے پڑھتے سو نہ گئی ہوں لیکن ایسا نہیں تھا۔ اس نے ان کی آنکھوں کی طرف غور سے دیکھا،
آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ وہ کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی چھت کو تک رہی تھیں۔
دروازے کی طرف ان کا سر تھا۔ اگر وہ آہستہ سے ان کے کمرے میں داخل ہوتی تو وہ اسے دیکھ پاتیں۔ اس نے بہت آہستہ سے دروازہ کھول کر قدم اندر رکھا، اس کا دل پھر زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔۔ وہ چاہتی تھی کہ ان کے پلٹ کر دیکھنے سے پہلے وہ ان کی آنکھوں پر اپنا ہاتھ رکھ دے۔
ابھی اس نے دو قدم آگے بڑھ کر ان کی آنکھیں بند کرنے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ہی تھا وہ بغیر اس کی طرف دیکھے بولیں۔
” دردانہ، میری کافی میں چینی تو زیادہ نہیں بھر لائی۔ “

دروازہ زیادہ کھلنے کی وجہ سے انہیں اپنے چہرے پر ہوا زیادہ محسوس ہوئی، اس سے انہوں نے اندازه لگالیا که دردانہ اندر داخل ہوئی ہے۔ شاید وہ ان کے لئے کافی بنانے گئی ہوئی تھی۔
تانیہ نے بغیر کوئی جواب دیئے ۔ جلدی سے ہاتھ بڑھا کر ان کی آنکھیں بند کرلیں۔ آنکھیں بند کرتے ہی پہلے تو ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار ابھرے۔ لیکن پھر فوراً ہی یہ آثار معدوم ہو گئے۔ جانتی تھیں کہ دردانہ کسی صورت ان کی آنکھیں نہیں بند کر سکتی۔ انہوں نے ناول چھوڑ کر
آنکھوں پر ہاتھ رکھنے والی کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے چھوا۔ پھر انہیں تانیہ کا ہاتھ پہچاننے میں چند سیکنڈ بھی نہ لگے۔ ان کے چہرے پر ایک خوشگوار حیرت چھاگئی۔
انہیں محسوس ہوا کہ وہ ناول پڑھتے پڑھتے جیسے سو گئی تھیں یا پھر جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھ رہی تھیں۔ ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھنے والی تانیہ کے سوا کوئی نہیں ہو سکتی۔
ایسا ملائم ریشم سا ہاتھ تانیہ کے سوا کسی کا نہیں ہو سکتا تھا۔
“میری جان، یہ تم ہو ؟ اگر میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں تو یہ خواب کبھی نہ ٹوٹے … اگر خواب نہیں حقیقت ہے تو پھر تانیہ آواز دو۔ مجھے خالہ کہہ کر پکارو۔ “
“خاله “
تانیہ نے دھیرے سے پکارا۔
انہوں نے تانیہ کی آواز سن کر فوراً اس کا ہاتھ اپنی آنکھوں سے ہٹا دیا۔ آنکھوں سے ہاتھ ہٹا تو اسکی من موہنی صورت خالہ فرزانہ کے سامنے تھی۔ انہوں نے اس کا ہاتھ گھسیٹ کر اپنے اوپر کیا۔ اور اسے اپنی بانہوں میں بھر کر بے اختیار رو پڑیں۔ تانیہ نے بھی انہیں بھینچ لیا۔ پھر وہ خود بھی اپنے آنسو نہ روک سکی۔
“اوه ، تانیہ میری جان۔ تو کہاں چلی گئی تھی۔ ” روتے روتے خالہ فرزانہ نے اس کا سر اٹھا کر اس کے رخساروں کو چوما۔
“میں کہیں نہیں گئی تھی، آپ کے ہی پاس تھی۔ آپ کے آس پاس۔ “
” تانیہ چند لمحوں پہلے میں تیرے ہی بارے میں سوچ رہی تھی۔ ناول پڑھتے پڑھتے اچانک تو یاد آگئی تھی اور ٹوٹ کر یاد آئی تھی ۔ “
“دیکھ لیں، آپ نے ادھر یاد کیا اور ادھر میں حاضر ہو گئی۔ “
“تانیہ تو نے مجھے بہت تڑپایا ہے۔ “
“خالہ میں جانتی ہوں۔ بس آپ مجھے معاف کر دیں۔ “
“میں تجھے کبھی نہیں معاف کروں گی۔ ” خالہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔
“دیکھیں خالہ اتنا غصہ نہ کریں، اتنا غصہ آپ کی صحت کے لئے ٹھیک نہیں۔ ” تانیہ نے انکے پاؤں دباتے ہوئے کہا۔
“اچھا، میرے پاؤں چھوڑ، مجھے نہیں چاہئے خوشامد ۔ ” انہوں نے اپنے پیر سکوڑ لئے۔
“میری اچھی خالہ، معاف کر دیں نا۔ ” تانیہ نے پھر ان کے پیر پکڑ لئے۔
“ایک شرط پر معاف کروں گی۔ ” خالہ فرزانہ بولیں۔
“ہاں، ٹھیک ہے۔ جلدی بتائیں شرط ۔ “
“آئندہ تو مجھے اس طرح چھوڑ کر نہیں جائے گی۔ “
“ٹھیک ہے خالہ، میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ آئندہ اس طرح نہیں جاؤں گی۔ اگر جاؤں گی بھی تو بینڈ باجے کے ساتھ ۔ “
”ہاں، یہ ٹھیک ہے ۔ ” پہلے تو خالہ فرزانہ نے ہاں ٹھیک ہے کہہ دیا، پھر اس کے جملے کا مفہوم سمجھ میں آیا تو وہ چونکیں۔ پھر مسکراتے ہوئے بولیں۔ “ایں، کیا کہا۔ “
“کچھ نہیں۔ ” تانیہ فوراً معصوم بن گئی جیسے اس نے کچھ کہا ہی نہ ہو۔
” ہاں ، اس طرح جاؤ گی تو میں تمہیں سو بار بھیجنے کے لئے تیار ہوں۔ ” خالہ فرزانہ اپنی رو میں کہ گئیں
“ہیں؟ کچھ خدا کا خوف کریں خالہ ۔ ایسا ظلم تو نہ کریں مجھ پر ۔ “
“کیوں میں نے کیا کہا۔؟؟ ” خالہ فرزانہ نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
” بڑے آرام سے میری سو شادیاں کرادیں۔ “ تانیہ نے انہیں اپنی چمکتی آنکھوں سےدیکھا۔
“الله – “
خالہ فرزانہ نے فوراً اپنا سر پیٹ لیا۔ انہیں اپنے جملے کا مطلب اب سمجھ میں آیا۔ تانیہ نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی گھڑی پر نظر ڈالی۔ اس وقت گیارہ بجے تھے۔

“خالہ اس قدر سردی میں آپ نے کمرے کا دروازہ کیوں کھلا چھوڑ رکھا تھا۔ “
“بھئی وہ دردانہ میرے پاس ہی تھی۔ شام سے میرے سر میں درد ہو رہا تھا تو وہ میرے پاس بیٹھی سر دبا رہی تھی۔ ہم دونوں تمہاری باتیں کر رہے تھے۔ سر میں درد کم ہوا تو وہ کہنے لگی کہ میں آپ کے لئے کافی بنا لاؤں۔ اس کے جانے کے بعد میں نے ناول اٹھا لیا۔ چند سطریں پڑھیں، پھر پڑھنے کو دل نہ چاہا۔ اچانک تمہاری یاد نے دل کو گھیر لیا۔ دردانہ شاید جلدی میں دروازہ ٹھیک سے بند نہ کر پائی۔ وہ ہوا سے تھوڑا کھل گیا۔ مجھے یہ احساس تھا کہ دروازہ کھلا ہوا ہے لیکن میں نے اٹھ کر بند نہ کیا کہ وہ کافی بنا کر لانے ہی والی ہوگی جب مجھے ہوا زیادہ محسوس ہوئی تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر اندازہ کر لیا کہ دردانہ کافی بنا کر لے آئی ہے۔ اسی لئے میں نے اس سے چینی زیادہ ڈال لانے کا اندیشہ ظاہر کیا۔ پھر دروانہ کا جواب نہ آیا اور کسی کا میری آنکھوں پر ہاتھ آیا تو۔۔۔۔”
” آپ سمجھیں کہ دردانہ نے آپ کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا ہے۔ ” تانیہ نے ان کی بات کاٹ کر کہا۔
“اسی لئے چند لمحے کو آپ کا چہرہ ناخوشگوار ہوا، پھر آپ حیرت میں ڈوب گئیں۔ ویسے خالہ، آپ نے میرا ہاتھ پہچانا خوب۔ “
” اری پگلی۔ تیرا اتنا پیارا ہاتھ بھلا میں بھول سکتی ہوں ۔ ” خالہ فرزانہ نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔
“دردانہ ابھی تک آئی نہیں۔ ” تانیہ نے پوچھا۔

“آنے والی ہوگی۔ کافی پھینٹ رہی ہوگی۔
“خالہ میں چھپ جاؤں ۔ مزہ آئے گا۔ ” تانیہ شرارت سے بولی۔
” میرے لحاف میں دبک جاؤ ۔ ” خالہ فرزانہ بھی آنکھ مچولی کے موڈ میں آگئیں۔
“نہیں خالہ ۔ اگر میں اچانک اس کے سامنے لحاف میں سے نکلی تو وہ ڈر جائے گی۔ چیخ مار کر بے ہوش ہو جائے گی۔ “
“ہاں، یہ بات تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ لیکن تانیہ، اب مجھے خیال آیا کہ تم آئی کدھر سے ہو۔ ؟؟” انہوں نے پوچھا،
” آپ کے برابر والے کمرے سے۔ ” تانیہ نے سادگی سے بتایا۔
“تعویذ والے کمرے سے۔ ؟” خالہ فرزانہ حیرت زدہ رہ گئیں۔
“ہاں ۔ ” تانیہ نے کہا۔
” اور تم گئی بھی وہیں سے تھیں۔ ” خالہ فرزانہ نے پوچھا۔
“ہاں خالہ ۔ اب دردانہ آنے والی ہوگی۔ باقی باتیں بعد میں ہوں گی میں فی الحال واش روم میں چلی جاتی ہوں۔ مجھے سردی لگ رہی ہے میں آپ کی شال اوڑھ لیتی ہوں۔ وہ کافی لے کر آجائے تو اسے سونے کی ہدایت کر کے دروازہ بند کر لیجئے گا۔ پھر میں باہر آجاؤں گی۔ ٹھیک ہے۔؟؟ ” تانیہ نے خالہ کو سمجھایا۔
خالہ فرزانه بڑی معاملہ فہم اور سمجھدار خاتون تھیں۔ وہ فوراً معاملے کی نزاکت کو سمجھ گئیں۔
انہوں نے فورا کہا
”ہاں ٹھیک ہے۔ “
تانیہ گرم شال اوڑھ کر واش روم میں چلی گئی۔ اور جاتے جاتے کہہ گئی۔ ” خالہ میرے لئے کافی بچا کر رکھیئے گا۔ “
“اچھا اچھا ۔” خالہ فرزانہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

بس چند لمحوں کا ہی فرق ہوا، ادھر تانیہ نے واش روم کا دروازہ بند کیا اور ادھر دردانہ کافی کا مگ لے کر اندر آئی۔ اور آتے ہی بولی۔
” بڑی بی بی، یہ دروازہ کیوں کھلا ہے۔؟ “
“دردانہ تم خود ہی تو ٹھیک سے بند کر کے نہیں گئی تھیں، کھلا چھوڑ گئی تھیں وہ ہوا سے مزید کھل گیا۔ اب سوال مجھ سے کر رہی ہو۔ ” خالہ فرزانہ نے بجائے ڈانٹنے کے پیار سے کہا۔
” اوہ، غلطی ہو گئی۔ ویسے بڑی بی بی میں آپ کے لئے زبردست کافی بنا کر لائی ہوں ۔ “
دردانہ نے کافی کا مگ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ” اس وقت مجھے تانیہ بی بی بہت یاد آرہی ہیں، وہ بڑی شوقین تھیں کافی کی۔ “
ہاں دروانہ ۔ ” خالہ فرزانہ نے گہرا سانس لے کر کہا۔ ” تم دعا کرو کہ وہ کسی طرح واپس آجائیں۔ “
“میں تو ہر وقت دعا کرتی ہوں بڑی بی بی ان کے لئے۔ پتہ نہیں کہاں چلی گئیں۔ “
اللہ بہتر جانتا ہے ۔ ” خالہ فرزانہ نے خیال انگیز لہجے میں کہا۔ “اچھا، دردانہ، تم اب جا کر سو جاؤ۔ میری طبیعت اب کافی بہتر ہے۔ “
“جی، بڑی بی بی ٹھیک ہے۔ میں جارہی ہوں۔ آپ اندر سے دروازہ بند کر لیں۔ “ یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔

اس کے جانے کے بعد خالہ فرزانہ نے فوراً اٹھ کر دروازہ بند کیا۔ اور پھر آہستہ سے واش روم کا دروازہ بجایا۔ تانیہ فوراً نکل کر باہر آگئی۔ اور خالہ سے لپٹ گئی۔ ”میری خالہ ۔ پیاری خالہ ۔ اچھی خالہ ۔ ” تانیہ نے بے اختیار کہا۔
“چل تیری کافی آگئی ہے۔ پی لے۔ دردانہ ابھی تجھے یاد کر کے گئی ہے۔ “
خالہ فرزانہ اسے لپٹائے لپٹائے بیڈ پر لے آئیں۔ اسے بیڈ پر بٹھایا۔ کافی کا مگ اس کے ہاتھ میں دیا۔ پھر وہ لحاف اوڑھ کر بیٹھ گئیں۔ تانیہ نے بھی لحاف اپنے اوپر لے لیا۔ ” خالہ آپ نہیں پئیں گی کافی ۔ ” تانیہ نے کافی کا مگ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
“بالکل نہیں۔ ” خالہ فرزانہ نے صاف انکار کر دیا۔
“خالہ، میرا کمرہ بند ہے۔ ؟” تانیہ نے کافی پیتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں، چابی میرے پاس ہے۔ میں تمہارے کمرے کی روز صفائی کرواتی ہوں ۔ ” خالہ فرزانہ نے بتایا۔
ابھی تانیہ نے کچھ کہنے کے لئے لب کھولے ہی تھے کہ ایک دم ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ دونوں کی آنکھوں میں خوف اور حیرت کے ملے جلے تاثرات تھے۔
یہ بات بھی حیرت اور خوف میں مبتلا ہونے والی تھی۔ رات کے گیارہ بجے تھے۔ سخت سردی پڑ رہی تھی۔ دور تک سناٹا طاری تھا۔ اور اس سناٹے میں جھینگروں کے بولنے کی آوازیں صاف سنائی ے رہی تھیں۔ تانیہ نے اچانک ظہور پذیر ہو کر پہلے ہی خالہ فرزانہ کے وجود میں ہلچل مچادی تھی۔ اور اب ٹیلیفون کی گھنٹی بج رہی تھی۔

“خالہ، یہ اس وقت کس کا فون ہو سکتا ہے۔ ” تانیہ نے پوچھا۔
“سمجھ میں نہیں آرہا۔ ” پھر ایک دم چونک کر بولیں۔ ”ارے کہیں افضل کا نہ ہو، وہ کسی کی شادی میں گیا ہوا ہے۔ “
تانیہ ٹیلیفون کے زیادہ نزدیک تھی، اس نے ریسیور اٹھا کر خالہ فرزانہ کو دے دیا۔

“ہیلو ” خالہ فرزانہ ریسیور تھام کر بولیں۔
“ہاں، فرزانہ کیسی ہو ۔ ؟ ” ادھر سے پوچھا گیا۔

“عامر، یہ تم ہو ۔ ؟ ” خالہ فرزانہ کے لہجے میں بے پناہ مسرت آگئی۔ ”اللہ، آج کا دن کس قدر مبارک ہے ۔ “
“فرزانہ، اس وقت دن نہیں رات ہے اور وہ بھی آدھی ہونے کو ہے۔ ” ادھر سے کہا
“اچھا چلو ٹھیک ہے۔ آج کی رات میرے لئے بڑی مبارک ہے۔ “
تانیہ نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں منع کیا۔ اسے خدشہ ہو گیا تھا کہ کہیں وہ اس کی آمد کے بارے میں نہ بتادیں خالہ فرزانہ نے اس کی بات سمجھ کر گردن ہلائی۔
“وہ کیوں ۔ ؟ ” جانتے بوجھتے انجان بننے کی کوشش کی گئی۔
“تمہارا فون جو آیا۔ ” خالہ فرزانہ نے بات کا رخ تبدیل کیا۔
“میں تو فون کرتا ہی رہتا ہوں ۔ “
“اس مرتبہ تو تم نے کافی دنوں کے بعد فون کیا ہے۔ “
“فرزانہ پوچھو گی نہیں کہ اتنی رات گئے میں نے فون کیوں کیا ہے۔ ؟”
“تم نے اس وقت فون کیا ہے تو ضرور کوئی خاص بات ہوگی۔ “
“ہاں، بہت خاص بات ہے۔ بڑی زبردست خوشخبری ہے۔ ایسی کہ سنوگی تو اچھل جاؤگی۔”
“اللہ، ایسا کیا ہو گیا ۔ جلدی بتاؤ ۔ “
” اس خوشخبری کے ملتے ہی میں نے تمہیں فون کیا ہے۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ فوراً کسی کو یہ خوشخبری سناؤں۔ تمہارے علاوہ مجھے کوئی نظر نہ آیا۔ لہٰذا فوراً تمہارا نمبر گھما دیا۔ “
“ترقی ہو گئی ہے تمہاری۔ کیا اپنے کالج کے پرنسپل بن گئے ہو۔ ” : خالہ فرزانہ نے اندازے کا تیر پھینکا۔
“ارے نہیں بھی اپنا محسن آگیا ہے۔ محسن راؤ ۔ ” عامر نے جیسے دھما کہ کیا۔
” ہیں؟؟؟ کیا کہا۔ کون آگیا ہے ۔ ؟ ” خالہ فرزانہ کو اپنی سماعت پر اعتبار نہ آیا۔
” محسن راؤ کی بات کر رہا ہوں ….. راؤ شمشاد علی کے بیٹے کی ۔ “
اللہ سچ ۔ ” خالہ فرزانہ یہ خبر سن کر واقعی اچھل پڑیں۔ انہوں نے ریسیور پر ہاتھ رکھ کر تانیہ کو بتایا۔ “محسن آگیا ہے۔ “
“ہیں واقعی۔ ” تانیہ نے یہ خبر سن کر مصنوعی حیرت سے کہا۔ اس نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ محسن راؤ منصوبے کے مطابق انکل عامر کے پاس پہنچ گیا۔
“ہاں، بھئی سو فیصد سچ ۔ ” عامر نے مستحکم لہجے میں کہا۔
“کس طرح پہنچا۔ ؟ کہاں تھا وہ ۔ ؟ ” خالہ فرزانہ نے بے قراری سے پوچھا۔
” یہ لمبی کہانی ہے۔ پھر سناؤں گا۔ مجھے اس کی آمد کی بہت خوشی ہے۔ اب میں راؤ احمد علی کو ناکوں چنے چبوا دوں گا۔ اچھا یہ بتاؤ، تانیہ کی کوئی خیر خبر ملی۔؟؟”
” نہیں۔ کچھ نہیں۔ ” خالہ فرزانہ نے تانیہ کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا۔
“کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لڑکی کہاں غائب ہو گئی۔ اگر وہ خط نہ چھوڑ کر جاتی، پھر تو یہی شبہ ہوتا کہ کہیں راؤ احمد علی نے تو کوئی ہاتھ نہیں دکھا دیا۔ اللہ کرے وہ کسی طرح آجائے۔ اور جہاں بھی ہو بخیر ہو۔”

“عامر فکر نہ کرو، محسن آگیا ہے تو اب میرا دل کہتا ہے کہ تانیہ بھی آجائے گی۔ “
” اللہ، تمہاری زبان مبارک کرے۔ کوئی خبر ملے تو مجھے فوراً بتانا۔ “”
“ظاہر ہے، عامر تمہیں نہیں بتاؤں گی تو اور کسے بتاؤں گی ۔ ” خالہ فرزانہ نے اپنی آواز میں لوچ پیدا کرتے ہوئے کہا۔

پھر عامر نے الوداعی کلمات کہہ کر فون بند کر دیا۔ خالہ فرزانہ نے خوشی سے جھومتے ہوئے ریسیور تانیہ کو دیا اور بولیں۔
”تانیہ، اتنی ڈھیر ساری خوشیاں مجھے ایک ساتھ مل گئی ہیں، کہیں میں خوشی سے مر نہ جاؤں ۔ “
“محسن بھائی آگئے ہیں۔ خالہ یہ خوشخبری تو واقعی بہت بڑی ہے۔ “
“میں سوچ رہی تھی کہ عامر کو ان کی خوشخبری کے جواب میں, میں بھی ایک خوشخبری سنادوں لیکن
تم نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔ ” خالہ فرزانہ نے شکوہ کیا۔
“ہاں، خالہ ابھی نہیں۔ کل دن میں فون کر کے بتادیں گے۔“
“اچھا، اب تم یہ بتاؤ کہ تم کس طرح ظاہر ہوگی، اس گھر میں۔؟؟؟”
“خالہ میں کوئی جن تو نہیں کہ ظاہر ہوں گی۔ ” تانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
“تانیہ کبھی کبھی مجھے شبہ ہونے لگتا ہے۔ ” خالہ فرزانہ نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
“ہائے خالہ مجھے ڈرائیں نہیں۔ میں کوئی جن ون نہیں ہوں ۔ ” تانیہ کو جیسے اپنے آپ سے ڈر آنے لگا۔
” پھر تو اس کمرے سے کہاں غائب ہو گئی تھی اور تین ماہ بعد پھر کس طرح آگئی۔ ” خالہ فرزانہ نے پوچھا
“خالہ، مجھے گئے ہوئے تین ماہ ہو گئے۔ ” تانیہ حیرت زدہ تھی۔
“چلو اب تمہیں یہ بھی معلوم نہیں ۔ ” خالہ فرزانہ نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔
“نہیں، میں کہہ رہی تھی کہ تین ماہ ہو گئے یہاں سے گئے ہوئے لیکن مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ابھی دس پندرہ دن ہوئے ہوں ۔ ” تانیہ نے فوراً بات بنائی۔
اس بات پر وہغڈءھ واقعی حیران تھی۔ اس کے حساب سے گئے ہوئے دس پندرہ دن سے زیادہ نہ ہوئے تھے۔
” اری تجھے لگتے ہوں گے، دس پندرہ دن … مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تو تین سال کے بعد واپس آئی ہے۔ “
“خالہ، یہ آپ کی محبت ہے۔ ” تانیہ نے ممنونیت سے کہا۔
“تانیہ سچ بتا، اس عرصے میں کبھی میں یاد نہ آئی تجھے۔ “
“کیوں نہیں خالہ، آپ بہت یاد آئیں ۔ ” تانیہ نے ان کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہا۔
“بار بار یاد آئیں ۔ “
” تانیہ، کچھ بتا تو , تو اس عرصے میں کہاں رہی۔ ؟” خالہ پھر خطرناک موضوع کی طرف پلٹ گئی۔
“خالہ اگر آپ اس سلسلے میں مجھ سے سوال نہ کریں تو بہتر ہے۔ میں آپ سے جھوٹ بولنا نہیں چاہتی۔ اور اگر میں نے سچ بتا دیا تو آپ کو یقین نہ آئے گا۔ آپ صبح ہی مجھے کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جائیں گی ۔ “
“ایسی نا قابل یقین بات ہے۔ ؟”
“ہاں، خالہ ایسی ہی ناقابل یقین بات ہے۔ میں جن حالات سے دوچار ہوئی ہوں۔ وہ سب مجھے بھی کسی بھیانک خواب کی طرح محسوس ہو رہا ہے۔ جب میں خود شک و شبہ میں مبتلا ہوں تو آپ کو کیسے یقین آئے گا بھلا۔ ” تانیہ نے بڑے سچے لہجے میں خالہ فرزانہ کو سمجھایا۔

“اچھا چلو چھوڑو، اس مسئلے پر میں تم سے پھر بات کروں گی۔ فی الحال تو یہ بتاؤ کہ تم اس گھر میں کس طرح داخل ہوگی ۔ ؟؟”
“باں، یہ بات سوچنے کی ہے۔ دردانہ تو اپنے کمرے میں جاچکی ہے، اس کا دروازہ بند ہو گا۔ بھائی افضل گھر میں موجود نہیں ہیں۔ میں ایسا کرتی ہوں۔ دیوار کے پاس کرسی رکھ کر برابر والے پلاٹ پر کود جاتی ہوں اور گھوم کر اپنے دروازے پر آجاتی ہوں۔ اس کے بعد بیل بجاؤں گی ساتھ ہی گیٹ کھٹکھٹاؤں گی۔ دردانہ ابھی سوئی نہ ہوگی، وہ اٹھ کر گیٹ کھول دے گی۔ اور میں اس گھر میں داخل ہو جاؤں گی۔ اس طرح گھر میں انٹری کا سین مکمل ہو جائے گا۔ “
چلو تمہارا داخلہ تو ہو گیا۔ اب کہانی کیا سناؤ گی۔ کہاں چلی گئی تھیں اس بارے میں کیا بتاؤ گی۔ افضل تو بال کی کھال نکالنے والا آدمی ہے ۔ ” خالہ فرزانہ نے پریشان کر کہا۔
“بس، یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں. ویسے آپ یہ کوشش کیجئے کہ بھائی افضل کم سے کم سوال کریں۔ “
“ٹھیک ہے۔ چلو پھر تم جلدی کرو۔ کیا تم آسانی سے دیوار پھلانگ جاؤ گی۔ ؟؟”
” ہاں خالہ، ادھر سے کرسی پر چڑھ کر دیوار کودنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں۔ آپ بس اتنا کیجئے گا کہ دیوار کے پاس سے کرسی گھسیٹ کر دور کر دیجئے گا۔ “
“ٹھیک ہے تم میری وہ کرسی لے لو جو باہر پڑی رہتی ہے۔ اور ہاں یہ شال اتارو۔ ورنہ دردانہ تمہیں یہ شال اوڑھے دیکھ کر پریشان ہو جائے گی ” خالہ فرزانہ کو بر وقت شال یاد آگئی۔
“ہائے خالہ، مجھے سردی لگے گی۔ ” تانیہ سکڑ کر بولی ۔
“بس دو چار منٹ کی تو بات ہے۔ گھر میں آتے ہی میں یہ شال تمہارے اوپر ڈال دوں گی۔ “

ڈرامے کے سارے سین زبانی یاد کر لئے گئے۔ یہ طے کر لیا گیا کہ کیا کہنا ہے کیسے کہنا ہے۔ پھر فوراً ہی ایکشن شروع ہوا۔ تانیہ نے دیوار کے نزدیک کرسی رکھی۔ کرسی کے ذریعے دیوار پر چڑھنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ اور دیوار پر چڑھ کر دوسری طرف کودنا بھی مشکل نہ تھا کیونکہ اس پلاٹ کی بنیادیں بھری ہوئی تھیں۔

تانیہ کے اس طرف کودتے ہی خالہ فرزانہ نے کرسی دیوار سے دور کر دی اور اپنے کمرے میں آگئیں۔ کمرے میں آتے ہی گھر کی بیل بجی اور اس کے ساتھ ہی گیٹ کھٹکھٹانے کی زور دار آواز گونجی۔ اب وقفے وقفے سے بیل بج رہی تھی اور زور زور سے گیٹ کھٹکھٹایا جارہا تھا۔
دردانہ ابھی ابھی سوئی تھی۔ وہ یہ جانتی تھی کہ ابھی افضل صاحب آئیں گے۔ ان کے لئے گیٹ کھولنا ہو گا۔ اسی لئے وہ چاہ رہی تھی کہ خالہ فرزانہ کے پاس بیٹھ کر ان کا انتظار کرے اور ان کے آنے کے بعد اطمینان سے سوئے۔ لیکن خالہ فرزانہ نے اسے اپنے کمرے میں جانے کا حکم دے دیا۔ اب وہاں بیٹھنے کا کیا جواز رہا۔ وہ اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اور جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا وہ آتے ہی سو گئی۔ وہ بہت گہری نیند سوتی تھی۔ افضل رات کو کبھی دیر سے گھر آتا تو دروازه کھٹکھٹاتا ہی رہتا۔ تب خالہ فرزانہ کو اٹھنا پڑتا۔ وہ دردانہ کو جاکر اٹھاتیں۔ تب کہیں دروازہ کھلتا۔ اس وقت یہی ہوا۔ بیل بجتی رہی۔ دروازے پر ٹھک ٹھک ہوتی رہی لیکن دردانہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔ تب خالہ فرزانہ نے جاکر اس کے کمرے کا دروازہ بجایا۔ اسے آوازیں دیں پھر کہیں جاکر اس نے اپنا دروازہ کھولا۔ اور اپنی آنکھیں ملتی ہوئی بولی۔ ”جی بڑی بی بی؟؟”
” بڑی بی بی کی بچی۔ دروازے پر دیکھ کون ہے۔ افضل آیا ہوگا۔ “
“اچھا۔ ” یہ کہہ کر اس نے اپنے تکئے کے نیچے سے گیٹ کی چابی نکالی اور چادر اوڑھتی گیٹ کی طرف بھاگی۔ پھر اس نے گیٹ کے نزدیک جاکر پوچھا۔ ”کون ۔ ؟”
“میں ہوں ۔ ” تانیہ سردی کی وجہ سے کپکپانے لگی تھی۔ باہر بہت تیز اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اسکی آواز بھی لرزتی ہوئی نکلی۔ دردانہ فوری طور پر پہچان نہ پائی۔
” میں کون ۔ ؟ ” دردانہ نے پوچھا۔
“دردانہ دروازہ کھولو۔ میں ہوں تانیہ ۔ ؟ ” تانیہ نے جلدی سے کہا۔
” ارے تانیہ بی بی آپ ۔ ؟ “
تانیہ کی آواز سن کر دردانہ پر لرزہ طاری ہو گیا۔ خوشی کے مارے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ خالہ فرزانہ بر آمدے میں کھڑی تھیں۔ تانیہ نے انہیں کھڑے دیکھ کر وہیں سے آواز لگائی۔

“بڑی بی بی …. تانیہ بی بی ” دردانہ نے خوشی سے نعرہ لگایا۔
“ہیں؟؟ کیا کہ رہی ہو ۔ ؟” خالہ فرزانہ نے کمال کا مکالمہ بولا۔ بالکل نیچرل۔
” دوازے پر تانیہ بی بی ہیں۔ ” دردانہ سے خوشی نہیں سمٹ رہی تھی۔
” اری تو پھر جلدی سے دروازہ کھول، وہاں کھڑی ہوئی کیا کر رہی ہے۔ “
“بڑی بی بی تالا کھول رہی ہوں ۔ “
وہ واقعی تالا کھول رہی تھی لیکن اس کے ہاتھ قابو میں نہ تھے، خوشی کے مارے اس پر لرزہ طاری تھا۔ چابی، تالے میں جا ہی نہیں رہی تھی۔

” دردانه جلدی کرو….. دروازہ کھولو۔ ” ادھر تانیہ سردی سے کانپ رہی تھی۔
خدا خدا کر کے دردانہ نے گیٹ کھولا۔ اور پھر بے اختیار اس سے گلے ملنے کے لئے آگے بڑھی
فوراً ہی اسے اپنی حیثیت کا خیال آگیا۔ وہ اس گھر کی ملازمہ تھی۔
” تانیہ بی بی آپ ۔؟؟ ” اس نے تانیہ کے ہاتھ پکڑ کر جوش سے دبائے۔
تانیہ نے اپنے ہاتھ چھڑا کر اسے فوراً اپنے گلے لگالیا۔
” دردانہ تم کیسی ہو۔ ؟ “
دردانہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ کیسے جواب دیتی اس نے رونا شروع کر دیا تھا۔
اتنی دیر میں آہستہ آہستہ چلتی خالہ فرزانہ بھی نزدیک آگئیں۔ تانیہ انہیں دیکھ کر دردانہ کو چھوڑ کر خالہ فرزانہ سے لپٹ گئی۔
”میری خالہ ۔ “
” میری بچی تو کہاں چلی گئی تھی ۔ ؟ ” یہ کہتے ہوئے وہ خود پر قابو نہ رکھ سکیں پھر سے رو پڑیں

خالہ فرزانہ کو روتے دیکھ کر اس کی آنکھوں سے بھی بن بادل برسات شروع ہوگئی۔ وہ روتے ہوئے خالہ فرزانہ کو زور زور سے بھینچ رہی تھی۔ تب خالہ فرزانہ کو خیال آیا کہ تانیہ کو سردی لگ رہی ہوگی، انہوں نے روتے روتے جلدی سے اپنی آنکھیں پونچھیں اور اپنی شال اتار کر فوراً اوڑھادی۔ اور پھر خالہ اسے اپنے کمرے میں لے آئیں۔ باہر اچھی خاصی سردی تھی۔ تیز ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔
پانچ سات منٹ میں ہی تانیہ پر کپکپی طاری ہو گئی۔ خالہ فرزانہ نے اسے اپنے بیڈ پر بٹھا کر اس کے گرد لحاف لپیٹ دیا۔
”بی بی، آپ کے لئے کافی بنا کر لاؤں ۔ ؟ ” دردانہ نے پوچھا۔
“ہاں، دردانہ جلدی کرو اور سنو، ایک انڈا بھی بوائل کر لاؤ، تانیہ کو سردی لگ رہی ہے “
تانیہ کے بجائے خالہ فرزانہ بولیں۔
“میں یوں لائی ۔ ” دردانہ نے چٹکی بجا کر کہا اور بڑی تیزی سے باہر نکل گئی۔
دردانہ کے کمرے سے نکلتے ہی گیٹ پر گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔ دردانہ جو کمرے سے نکل گئی تھی۔ فوراً پلٹ کر واپس آئی اور خالہ فرزانہ سے مخاطب ہو کر بولی۔
” صاحب جی ہیں۔ گیٹ کھول دوں، پھر لاتی ہوں کافی۔ “
“ٹھیک ہے دردانہ تم جاؤ۔ اور صاحب کو بتا دو کہ تانیہ بی بی آگئی ہیں۔ “
دردانہ بغیر جواب دیئے کمرے سے نکل گئی۔ اتنی دیر میں گھر کی بیل بجنے لگی تھی۔ دردانہ دوڑتی ہوئی گیٹ پر پہنچی۔ اور حسب معمول سوال کیا۔
”کون ہے۔ ؟؟ “
“دردانہ ,گیٹ جلدی کھولو۔ ؟” ادھر سے افضل کی آواز سنائی دی۔
دردانہ نے گیٹ کا تالا کھول کر، گیٹ کے دونوں پٹ کھول دیئے۔ افضل گاڑی اندر لے آیا ۔۔
دردانہ نے جلدی سے گیٹ بند کر کے تالا لگایا اور اس سے پہلے کہ افضل گاڑی مقفل کر کے کمرے کا رخ کرتا۔ دردانہ دوڑتی ہوئی اس کے سر پر پہنچ گئی۔

“یا الله, دردانہ خیر تو ہے ۔ ” افضل اس کو اس طرح بھاگتے دیکھ کر پریشان ہو گیا۔
صاحب جی خیر ہے۔ سب خیر ہے۔ بلکہ کچھ زیادہ ہی خیر ہے۔ “ وہ بے پناہ خوش تھی
“دردانہ کیا ہو گیا۔ تمہارا کوئی پرائز بونڈ وغیرہ نکل آیا کیا۔ ؟” افضل نے ہنس کر کہا۔
” ارے نہیں، صاحب .. بڑی زبردست خوشخبری ہے آپ کے لئے۔ “
“میرے لئے ۔ “ افضل حیران ہوا۔
” صاحب جی، ہم سب کے لئے ۔ “

کہاں ہے وہ خوشخبری۔ “
” صاحب جی۔ بڑی بی بی کے کمرے میں جائیں اور وہاں جاکر دیکھیں کیا زبر دست خوش خبری ہے۔ “
”اچھا، میں ابھی جاکر دیکھتا ہوں ۔ “

افضل تیز تیز قدم بڑھاتا، خالہ فرزانہ کے کمرے کی طرف چل دیا اور دردانہ کچن کی طرف چلی گئی۔ خالہ فرزانہ کا دروازہ بند تھا۔ اس نے ہلکا سا دھکا دیا تو وہ فوراً کھل گیا۔ دروازہ کھولتے ہی ایک دم سے جو نظر آیا وہ اسکے ہوش اڑا دینے کے لئیے کافی تھا۔۔ “

“تانیہ لحاف اوڑھے بیٹھی تھی۔ وہ اسے دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھا اور خوشی سے بولا۔

” ارے تانیہ آپ ؟”
” ہاں بھائی میں۔ “
تانیہ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ افضل نے فوراً اسے تھام لیا۔ “یہ تو بڑی زبردست خوشخبری ہے ہم سب کے لئے ۔ “ افضل خوش ہو کر بولا۔
“کیا دردانہ نے تمہیں بتایا نہیں تھا”۔ خالہ فرزانہ نے مسکرا کر پوچھا۔
“زبردست خوشخبری کی نوید دی اور کہا کہ خوشخبری بڑی بی بی کے کمرے میں ہے۔ یہ نہ بتایا کہ کیا ہے۔ ؟ “
” تم نے کیا سمجھا کہ کسی قسم کی خوشخبری ہے۔ ؟”
“بالکل اندازہ نہیں کر پایا۔ تانیہ کا تو مجھے خیال بھی نہیں تھا۔ “
“بھائی، مجھے بھول گئے ۔ ” تانیہ نے پیار بھرا شکوہ کیا۔
” آپکو بھلا کون بھول سکتا ہے؟ ذرا خالہ سے پوچھیں، روز ہی ذکر رہتا تھا۔ “
” تانیہ یہ بات صحیح ہے۔ ” خالہ فرزانہ نے تائید کی۔
” میں روز ہی اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتا تھا۔ لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ آپ کی پراسرار گمشدگی اور پھر وہ خط … اگر وہ خط نہ ملتا تو پھر میں پولیس سے ضرور مدد لیتا۔ “
” اسکا مطلب ہے کہ میرا خط چھوڑ کر جانا بہتر ہوا ۔ ” “بالکل … اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ کم از کم ہمیں یہ معلوم ہو گیا کہ آپ جہاں بھی گئی ہیں اپنی مرضی سے گئی ہیں۔ “ افضل نے کہا۔

اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ خالہ فرزانہ نے کہا۔ ”آجاؤ ۔ “
دروازہ کھلا۔ دردانہ ٹرے ہاتھ میں لئے اندر آگئی۔
“دردانہ ،کیا لائی ہو ۔ ؟؟ افضل نے ٹرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔
” صاب جی کافی لائی ہوں۔ کیا آپ انڈا کھائیں گے۔ “
“بھئی میں کھانا کھا کر آرہا ہوں۔ میرے لئے کافی ہی بہت ہے۔ “
دردانہ نے جلدی سے انڈا چھیل کر چھری سے اس کے چار ٹکڑے کئے۔ اس پر ہلکی سی کالی مرچ نمک ڈالا پلیٹ میں کانٹا رکھ کر پلیٹ تانیہ کی طرف بڑھادی۔
تانیہ نے انڈا کھا کر کافی کا مگ ہاتھ میں لے لیا۔ اور دھیرے دھیرے کافی کی چسکی لینے لگی.
“بھئی واہ، زبردست دردانہ تمہارا کوئی جواب نہیں۔ بہت عمدہ کافی بنائی ہے۔ “
“بی بی آپ مجھے بہت یاد آتی تھیں۔ “
” کوئی خاص وجه “
” ایسی باتیں سننے کے لئے۔ ” دردانہ نے معصومیت سے کہا۔

دردانہ کی یہ بات سن کر تینوں نے قہقہہ لگایا۔ دردانہ کمرے میں رکنا چاہ رہی تھی۔ وہ تانیہ کی باتیں سنا چاہتی تھی۔ اپنا تجسس دور کرنا تھی۔ اسے تانیہ سے خاص لگاؤ تھا۔ تانیہ نے اسے ملازمہ کبھی نہیں سمجھا تھا۔ اس کا رویہ اس کے ساتھ ہمیشہ دوستانہ ہوتا تھا۔ لیکن یہ موقع ایسا تھا کہ وہ باوجود خواہش کے اپنی مرضی سے کمرے میں رک نہیں سکتی تھی۔ جب تک اسے کوئی رکنے کو نہ کہے۔ اور اسے رکنے کو کسی نے کہا نہیں۔ لہذا وہ فوراً ہی کمرے سے نکل گئی۔ دردانہ کے جانے کے بعد افضل نے فوراً سوال کیا۔
” آپ کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ آپ کہاں چلی گئی تھیں ۔ ؟”

اب ایک مشکل مرحلہ شروع ہو چکا تھا۔ تانیہ کے پاس افضل کے سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ اگر وہ اسے سب سچ بتا دیتی کہ وہ کہاں چلی گئی تھی تو اس روداد کو سن کر افضل نے اسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنا تھا۔ اور یہ سوچنا تھا کہ تانیہ اپنے چہرے مہرے سے تو پاگل نہیں دکھائی دے رہی۔ لیکن باتیں پاگلوں والی کر رہی ہے۔

“ارے افضل اب آگئی ہے تو سب بتادے گی کہ کہاں گئی تھی۔ ابھی تو اس کی حالت غیر ہورہی ہے۔ اطمینان سے پوچھ لینا۔ فی الحال تو اسے آرام کی ضرورت ہے۔ ” خالہ فرزانہ فوراً مدد کو آئیں۔
‘بالکل ٹھیک ہے خالہ ۔ انہیں آرام کرنے دیا جائے۔ صبح بات کر لیں گے۔ “ یہ کہ کر افضل اٹھنے لگا۔
” بھائی اب مجھے ایسے آرام کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کچھ دیر تو بیٹھیں ۔ ” تانیہ نے کہا۔
تانیہ کے کہنے پر افضل کچھ دیر کے لئے اس کے پاس بیٹھ گیا۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں، اس اثناء میں اسے محسن راؤ کے لاہور واپس پہنچ جانے کی خوشخبری سنائی گئی۔ محسن راؤ کی آمد کی خبر سن کر افضل نے خالہ فرزانہ سے مخاطب ہو کر پوچھا۔
” خالہ سچ سچ بتائیے گا، آج صبح آپ نے کس کا منہ دیکھا تھا۔ “
” کیوں ؟ ” خالہ فرزانہ نے اسے ترچھی نظروں سے دیکھا۔
“دیکھیں نا، آج کا دن کس قدر خوش نصیب ہے، خوشخبری پر خوشخبری چلی آرہی ہے۔ “افضل ہنس کر بولا۔
“تمہارا دیکھا تھا۔ ” خالہ فرزانہ نے مذاق کیا۔
“مذاق نہیں کریں۔ میرے آنے سے پہلے تو دردانہ آپ کے پاس آتی ہے۔ “
”ہاں، واقعی۔ سب سے پہلے میں دردانہ کی شکل ہی دیکھتی ہوں۔ لیکن وہ تو میں روز ہی دیکھتی ہوں۔ آج میں نے صبح ہی صبح تانیہ کی تصویر دیکھی تھی۔ یہ مجھے آج شدت سے یاد آرہی تھی۔ “

پھر کچھ دیر بیٹھ کر افضل اپنے کمرے میں چلا گیا۔ دوران گفتگو دردانہ برتن اٹھا کر لے جاچکی تھی۔ اسے تانیہ کا کمرہ کھولنے اور ٹھیک کرنے کی ہدایت دے دی گئی تھی۔ اور اس سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ تانیہ کا کمرہ ٹھیک کرکے اپنے کمرے میں سونے چلی جائے۔ افضل کے جانے کے بعد خالہ فرزانہ کو اچانک عامر کا خیال آیا۔

“کیوں تانیہ, تمہارے انکل عامر کو فون نہ کریں۔ اب تو تمہاری آمد سب پر کھل گئی ہے۔ ” خالہ فرزانہ نے خیال ظاہر کیا۔
” بارہ سے اوپر ہو رہے ہیں خالہ ۔ ” تانیہ نے گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ ” اب تک تو انکل عامر سو چکے ہوں گے ۔” ” کوشش کر کے دیکھ لیتے ہیں۔ کیا پتہ جاگ ہی رہے ہوں۔انہوں نے خوشخبری سنائی ہے تو ادھر سے بھی اس کا جواب جانا چاہئے۔ ہم کیوں پیچھے رہیں۔ ” خالہ فرزانہ نے کہا۔
“چلیں ٹھیک ہے، مزہ آئے گا۔ “
یہ کہہ کر وہ نمبر ڈائل کرنے لگی۔ اتفاق سے فوراً ہی نمبر مل گیا۔ پہلی گھنٹی بجنے کے بعد تانیہ نے ریسیور خالہ فرزانہ کی طرف بڑھا دیا
“گھنٹی بج رہی ہے۔ “
“اچھا۔ ” خالہ نے ریسیور تھامتے ہوئے کہا۔

تیسری گھنٹی پر ادھر سے کسی نے ریسیور اٹھایا، جب ہیلو کہا تو خالہ فرزانہ نے آواز فوراً پہچان لی۔ عامر تھے۔

“عامر ابھی سوئے نہیں ۔ ” خالہ فرزانہ نے براہ راست سوال داغ دیا۔
“ارے فرزانہ تم۔ اس وقت ۔ کیا ہوا آخر ۔ ؟” ان کے لہجے میں پریشانی تھی۔
“”بھئی ہم بھی کم نہیں ہیں تم سے ۔ ” خالہ فرزانہ نے ایک ادا سے کہا۔
“اچھا، خیر وہ تو مجھے معلوم ہے کہ تم بڑی چیز ہو۔ ” “پروفیسر عامر مجھے چیز نہ کہنا۔ میں فرزانہ ہوں۔ ایک باوقار خاتون ۔ ” خالہ فرزانہ نے بن کر کہا
” اچھا باوقار خاتون ، تم کچھ کہہ رہی تھیں۔ “
“تم اس وقت کیا کر رہے تھے۔ ” خالہ فرزانہ نے پوچھا۔
”ہم سب محسن کو گھیرے بیٹھے ہیں، نئی پرانی یادیں تازہ کر رہے ہیں۔ “
“اچھا اب مجھ سے بھی ایک دھماکہ خیز خبر سو۔ میری تانیہ آگئی ہے واپس۔ “
یہ خبر عامر کے لئے واقعی دھما کہ خیز تھی۔ چند لمحوں کے لئے ادھر سناٹا طاری ہو گیا۔

“عامر ….. عامر ” خالہ فرزانہ نے جلد جلد پکارا۔
“ہاں، فرزانہ سن رہا ہوں ۔ ” عامر کی آواز بمشکل نکلی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے خوشی کی وجہ سے ان سے بولا نہ جا رہا ہو ۔
” کب آئی؟” وہ بمشکل بولے۔
“تمہارے فون کے آدھے گھنٹے کے بعد اچانک بیل ہوئی۔ دردانہ سو چکی تھی، اسے جاکر اٹھایا، میرا خیال تھا کہ افضل ہوگا وہ ایک شادی میں گیا تھا، گیٹ کھلا تو افضل کے بجائے تانیہ نکلی عامر میں تمہیں بتا نہیں سکتی کہ مجھے کس قدر خوشی ہوئی ۔ “
“واقعی یہ تو بہت دھما کہ خیز خوشخبری ہے۔ لگتا ہے راؤ احمد علی کے دن پورے ہو گئے۔ “
عامر نے خود کو سنبھال کر کہا۔ پھر پوچھا۔
”کہاں ہے تانیہ ۔ ؟”
“یہ میرے برابر بیٹھی ہے لحاف میں”
خالہ نے ریسیور اس کی طرف بڑھایا۔
” السلام علیکم انکل عامر ” تانیہ نے پرجوش انداز میں سلام کیا۔
” وعلیکم السلام تانیہ ۔ ” انکل عامر نے سر خوشی کے انداز میں جواب دیا۔ ”تانیہ، تم خیریت سےتو ہو۔ ؟؟”
“ہاں انکل عامر بالکل خیریت سے ہوں اور ہر طرح سے خیریت سے ہوں۔ “
“شکر ہے اللہ کا۔ ” انکل عامر نے کہا، پھر پوچھا۔ ” تم کہاں چلی گئی تھیں تانیہ ۔ “
” انکل عامر، میں آپ کو بتاؤں گی، سب سناؤں گی۔ ” تانیہ نے ٹالنے کے لئے کہا، پھر بولی ۔
” بھائی جان کیسے ہیں۔ ؟”
“ہاں لو بات کرو۔ ” انکل عامر نے کہا۔ پھر ان کی آواز سنائی دی۔
“محسن اپنی بہن سے بات کرو۔ “
کچھ دیر کے بعد ریسیور میں محسن راؤ کی آواز ابھری۔ یہ آواز تو اس کی سنی ہوئی تھی۔ لیکن دنیا والوں کے سامنے یہی ظاہر کرنا تھا کہ وہ پہلی بار ایک دوسرے سے مخاطب ہو رہے ہیں۔
“میری بہن تم کیسی ہو ۔ ؟ ” محسن راؤ نے بے قراری سے پوچھا۔
میں ٹھیک ہوں بھائی جان۔ جب سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ آگئے ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اڑ کر لاہور پہنچ جاؤں آپ کی صورت دیکھ لوں ۔ “
”میری بھی یہی کیفیت ہے۔ “
“بھائی جان، آپ انکل عامر کے گھر کس طرح پہنچ گئے۔ ” تانیہ نے پوچھا۔
“تانیہ میں تو ماڈل ٹاؤن اپنے گھر پہنچا تھا۔ وہاں پہنچ کر اپنا گھر بند پایا۔ بس ایک چوکیدار سرونٹ کوارٹر میں موجود تھا۔ اس کے ساتھ میں انکل عامر کے گھر پہنچ گیا۔ تانیہ یہاں تو دنیا ہی بدل چکی ہے۔ ویران اور اجاڑ ہو گئی ہے۔ نہ ماں رہیں نہ بابا رہے۔ شکر ہے کہ تم ہو۔ جینے کی کوئی آس تو ہے۔ ورنہ میں تو جیتے جی مر جاتا۔ جس طرح تم میری صورت دیکھنے کے لئے بے قرار ہو، ویسے ہی میں تمہیں دیکھنے کے لئے بے چین ہوں۔ اب تم یہ بتاؤ کہ تم لاہور آؤ گی یا میں کراچی آؤں ۔ ” محسن راؤ نے اپنا کردار بہت خوبصورتی سے نبھایا۔
“بھائی جان آپ کراچی آجائیں، یہاں خالہ سے بھی آپ کی ملاقات ہو جائے گی۔ پھر میں آپ کے ساتھ لاہور چلوں گی۔ “
“ٹھیک ہے، میں پھر کل کراچی پہنچ رہا ہوں۔ ٹکٹ لے کر تمہیں فون کردوں گا۔ تم ایئر پورٹ آجانا۔ ” محسن راؤ نے فوراً ہی فیصلہ سنا دیا۔
“بالکل ٹھیک۔ ” تانیہ خوش ہو کر بولی ۔
“کوئی اور تو بات نہیں کرنی ۔
“نہیں بس اب ساری باتیں ملاقات پر ہوں گی ۔ “
“اچھا، اللہ حافظ ” محسن راؤ نے کہا
اور پھر تانیہ کا جواب سن کر فون بند کر دیا۔ تانیہ ریسیور پکڑے کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی۔ اسے کالا چراغ یاد آگیا تھا۔ بالآخر اس نے محسن اور خود اسے بحفاظت ان کی دنیا میں منتقل کر دیا تھا۔ وہ بہت پیارا شخص تھا۔ اس نے بقّاں کو ٹوٹ کر چاہا مگر بقاں نے اس کی قدر نہ کی وہ اس کے پیار بھرے دل پر مسلسل ضربیں لگاتی رہی۔ اور کالا چراغ بڑے حوصلے سے اس کے لگائے چرکے سہتا رہا۔ جانے وہ کس مٹی سے بنا تھا۔ وہ مٹی سے کہاں بنا ہو گا۔ مٹی سے تو بس انسان بنے ہیں۔ وہ آگ سے بنا ہو گا۔ شاید اسی لئے عشق کی آگ برداشت کر گیا۔ محبت کی تپش برداشت کر گیا۔

“کیا سوچنے لگی۔ ؟ ” خالہ فرزانہ نے اس کے ہاتھ سے ریسیور لینا چاہا۔
“کچھ نہیں خالہ ۔ ” تانیہ نے کہا۔ وہ کیسے بتاتی کہ اسے کون یاد آگیا تھا۔
اس نے ریسیور رکھ دیا اور پھر بولی۔ “اچھا، خالہ اب میں اپنے کمرے میں چلوں۔ ؟؟”
“آج تو میرے پاس ہی کیوں نہیں سو جاتی ۔ ” خالہ فرزانہ نے التجا آمیز لہجے میں کہا۔
” اچھا، خالہ ٹھیک ہے۔ میں یہیں سو جاؤں گی۔ بس تھوڑی دیر کے لئے اپنے کمرے میں ہو آؤں۔ ؟؟
مجھے اپنا کمرہ بہت یاد آرہا ہے۔ پھر ذرا کپڑے وغیرہ بھی تبدیل کر آؤں گی ۔ “
” ہاں جاؤ ۔ ” خالہ فرزانہ نے خوشی سے اجازت دے دی۔

تانیہ نے اپنا بیگ اٹھایا اور خالہ فرزانہ کے کمرے سے باہر نکل آئی۔ جب وہ اپنے کمرے میں جانے کے لئے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی تو اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ جانے کتنے عرصے کے بعد اپنے کمرے کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے۔
کمرے کا دروازہ بند تھا۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ دردانہ اسکے بیڈ سے ٹیک لگائے قالین پر بیٹھی دروازے کو تک رہی ہے۔ کمرے کی لائٹ جل رہی تھی۔
اسے دیکھ کر فوراً کھڑی ہو گئی۔ اور اس کے ہاتھ سے بیگ لے لیا۔
“دردانہ، تم ابھی تک سوئی نہیں۔ ” تانیہ نے اسے حیرت سے تکتے ہوئے کہا۔
“نہیں، بی بی میں آپ کا انتظار کر رہی تھی۔ “
“کیوں، کیا ہوا ؟ “
“ہوا تو کچھ نہیں، بس آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کو دیکھنے کو جی چاہ رہا تھا۔ “
” تم بھی اچھی خاصی باؤلی ہو۔” تانیہ ہنس کر بولی۔ وہیں خالہ کے کمرے میں بیٹھ جاتیں
“وہاں صاحب جی جو آگئے تھے، پھر بڑی بی بی نے مجھے اپنے کمرے میں جانے کو جو کہہ دیا تھا “
دردانہ نے شکایت آمیز لہجے میں کہا۔
“تم عجیب بے وقوف ہو، اگر میں اوپر نہ آتی تو پھر تم کیا کرتیں۔ ؟؟“
” بس پھر میں کچھ دیر اور انتظار کرتی۔ آپ نہ آتیں تو اپنے کمرے میں چلی جاتی۔”
“ اچھا، آؤ۔ میرے پاس بیٹھو۔ ” تانیہ نے اسے اپنے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
وہ خوشی سے بیٹھ گئی اور تانیہ کے پاؤں پکڑتے ہوئے بولی۔ “لائیں بی بی، میں آپ کے پیر دبا دوں۔”
نہیں، تم آرام سے بیٹھو۔ ابھی مجھے نیچے جانا ہے۔ خالہ کے پاس سونا ہے، میں یہاں اپنا کمرہ دیکھنے اور کپڑے تبدیل کرنے آئی ہوں۔ “
“ٹھیک ہے بی بی میں الماری سے آپ کے کپڑے نکال کر استری کر دیتی ہوں۔ آپ جب تک اپنے کمرے پر نظر ڈال لیں۔ میں نے آپ کے کمرے کی کوئی چیز نہیں چھیڑی ہے۔ جیسا چھوڑ کر گئی تھیں، ویسا ہی رکھا ہے۔ میں اس کمرے کی روز صفائی کرتی تھی۔ بی بی آپ کو سچ بتاؤں، مجھے یہاں آپ کی خوشبو محسوس ہوتی تھی۔ ” دردانہ اپنے دھن میں کیے جارہی تھی۔
” اچھا۔ اور سناؤ، دردانہ تم ٹھیک تو رہیں۔ ” تانیہ نے پوچھا۔
“بی بی، آپ کہاں چلی گئی تھیں۔ ” دردانہ نے تانیہ کے سوال کو نظر انداز کر کے پوچھا۔ ” آپ نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ آپ کسی کے ساتھ جارہی ہیں۔ ہائے بی بی، کہیں آپ کالے کپڑے والے کے ساتھ تو نہیں چلی گئیں۔ “

تانیہ اس کی اس بات پر حیران رہ گئی۔ خالہ فرزانہ اور افضل سے زیادہ سمجھدار تو اس گھر کی ملازمه ہی رہی اس نے نشانے پر کیسا تیر مارا۔
“کالے کپڑے والے شخص کا خیال تمہارے ذہن میں کیسے آیا۔ ؟”
“لو بی بی ، آپ بھی کیا بات کر رہی ہیں۔ اس نے آپ کو پیغام دیا تھا تا کہ وہ آپ سے صحرا میں ملے گا۔”
” ہاں، دردانہ کچھ اسی قسم کا معاملہ تھا لیکن ساری باتیں میں تمہیں بتا نہیں سکتی۔ “
” بی بی، آپ مجھے کچھ نہ بتائیں۔ بس اتنا بتادیں کہ اب تو اس طرح غائب نہیں ہو جائیں گی۔؟”
“کل بھائی محسن آرہے ہیں۔ ایک دو دن بعد مجھے لاہور جانا ہوگا۔ “
” لاہور آپ ضرور جائیں۔ مل کر تو جائیں گی۔ یہ معلوم تو ہو گا کہ آپ لاہور میں ہیں۔ اب تو کچھ معلوم ہی نہ تھا کہ آپ کہاں ہیں۔ سب پریشان تھے۔ میں تو اس بیڈ سے لگ کر اکثر رویا کرتی تھی ۔ “
“ارے، دردانہ ، تم مجھے اس قدر چاہتی ہو ۔ اور مجھے خبر بھی نہیں۔ “
“لو بی بی، چاہت کے لئے کوئی ویزا تھوڑا ہی لینا پڑتا ہے۔”
“دردانہ تم کس قدر سمجھداری کی باتیں کرتی ہو۔ یہ مجھے آج پتہ چلا۔ “
” میری بے وقوفانہ باتوں کو سراہنے والی پہلی ہستی ہیں آپ۔ ” دردانہ نے کپڑے استری کر کے اس کے حوالے کئے اور بولی۔ “آپ کپڑے تبدیل کرلیں۔ کہیں تو آپ کے لئے کافی بنا لاؤں ۔ ؟؟”
” نہیں، دردانہ اب سونا بھی ہے۔ دیکھو کیا وقت ہو رہا ہے۔ “
تانیہ نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور پھر کپڑے لے کر واش روم میں چلی گئی۔ گرم پانی سے اس نے اچھی طرح ہاتھ منہ دھویا اور کپڑے تبدیل کر کے باہر آگئی۔

“دردانه، اب اجازت دو تو خالہ کے پاس چلی جاؤں۔ وہ میرا انتظار کر رہی ہوں گی۔ “
“بالکل بی بی۔ آپ ضرور جائیں۔ انشاء اللہ اب آپ سے صبح ملاقات ہوگی۔ “
دردانہ کے جانے کے بعد اس نے اپنا بیگ کھولا، اس بیگ میں دیگر چیزوں کے علاوہ دو تحفے تھے۔
پہلے اس نے ہیروں کا ہار نکالا۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اسے اپنے گلے میں ڈالا۔ اس کی خوبصورت گردن ایک دم جگمگا اٹھی۔ اسے کاشگن یاد آیا جو اسے اپنی دنیا میں روک لینے کے لئے مصر تھا۔ وہ اسے اپنا سونے چاندی سے بنا محل بھی بخشنے کے لئے تیار تھا۔ پھر اسے کاشگن کا بیٹا راشمون یاد آیا۔ راشمون کی یاد پر اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ وہ اسے رخصت کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ پھر اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کا آخری دیدار کرنے محل کے باہر آگیا تھا۔ اس نے تانیہ کو ایک بے حد حسین تحفہ دیا تھا۔
تانیہ نے بیگ میں ہاتھ ڈال کر وہ گلاب کی کلی نکال لی جو اس نے اس کی ریشمیں زلفوں میں لگائی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ یہ کلی کبھی نہیں مرجھائے گی۔ اگر مرجھا جائے تو سمجھنا راشمون اس دنیا زمیں نہیں رہا۔
وہ کلی ابھی تک ترو تازہ تھی۔۔ اور اس کی مہک سے پورا کمرہ بھر گیا تھا۔ تانیہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی، آئینے کے سامنے آئی۔ اور پھر اس نے وہ گلاب کی کلی اپنی زلفوں میں لگانے کے لئے ہاتھ اوپر اٹھائے تو آواز آئی۔

“ٹھہرو، یہ کلی میں خود اپنے ہاتھ سے تمہاری زلفوں میں سجاؤں گا۔ “
اور یہ آواز راشمون کی تھی۔
اس کے ہاتھ اٹھے کے اٹھے رہ گئے۔ اس نے چونک کر آئینے میں دیکھا۔ پھر فوراً پلٹ کر پیچھے نظر ڈالی۔ دروازے کی طرف دیکھا۔ آئینے میں کوئی تھا نہ پیچھے کوئی تھا۔ اور دروازہ دردانہ جاتے ہوئے بند کر گئی تھی، وہ ویسے ہی بند تھا۔
پھر وہ آواز ؟
وہ آواز یقیناً راشمون کی تھی۔ لیکن راشمون یہاں کہاں؟ وہ نہ جانے یہاں سے کتنی دور اپنی دنیا میں مگن ہو گا۔ پھر وہ آواز اس کا واہمہ تھی۔ اس نے کیونکہ تانیہ سے اس کے بالوں میں وہ کلی لگانے کی درخواست کی تھی۔ اس لئے اس وقت بالوں میں کلی لگاتے ہوئے اس کے ذہن میں اسکی آواز گونج گئی۔ پھر اس نے اس بات کو اپنا واہمہ سمجھ کر ذہن سے جھٹک دیا، ساتھ ہی اس کلی کو اپنے بالوں میں لگانے کا ارادہ بھی ملتوی کر دیا۔
اس نے اس کلی کو اپنے کمرے میں موجود ایک نازک سے شیشے کے گلدان میں سجا دیا اور گلدان میں لگے پلاسٹک کے پھول دوسرے گلدان میں منتقل کر دیئے۔ پھر اس گلدان کو اپنے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ یہ ایسی جگہ تھی جہاں یہ کلی ہر وقت اس کی نگاہوں میں رہے گی۔ پھر اس نے ہیروں کا جگمگاتا ہار اپنے گلے سے نکال کر الماری کے لاکر میں رکھ دیا اور دروازہ بند کر کے تیز تیز سیڑھیاں طے کرتی خالہ کے کمرے میں داخل ہو گئی۔ دوسرے دن محسن راؤ کراچی آگیا۔ تانیہ اور افضل اسے ایئر پورٹ لینے گئے تھے۔ خالہ فرزانہ بھی جانا چاہتی تھیں لیکن تانیہ نے انہیں جانے سے منع کر دیا تھا کیونکہ خالہ فرزانہ کے لئے گھٹنوں میں درد کی وجہ سے زیادہ دیر کھڑے رہنا مشکل تھا۔ وہ وہاں بلاوجہ پریشان ہوتیں۔

شام کی فلائٹ اپنے وقت پر پہنچ گئی تھی۔ دنیا والوں کی نظروں میں وہ پہلی مرتبہ ایک دوسرے سے مل رہے تھے لہٰذا ڈرامہ کرنے کے لئے دونوں نے پہچان کی نشانیاں مقرر کرلی تھیں۔ انہی نشانیوں کے ذریعے دونوں نے ایک دوسرے کو بآسانی ” پہچان ” لیا۔ محسن راؤ نے اپنی چھوٹی بہن کو گلے سے لگا لیا۔ اور پھر اس کی صورت دیکھتا ہوا بولا۔ ” تمہیں پہچاننے کے لئے تو کسی نشانی کی ضرورت ہی نہ تھی۔ “
“کیوں بھائی؟”
” تمہاری صورت ممی سے بہت ملتی ہے۔ میں نے تمہیں نیلے سوٹ سے نہیں، تمہاری شکل سے پہچانا ہے۔”
“پھر تو مجھے یہ کہنا چاہئے تھا کہ میں ممی کی ہم شکل ہوں ۔ “
اور کیا۔ پتہ نہیں انکل عامر کو اس بات کا کیوں خیال نہیں رہا۔ “
محسن راؤ نے افضل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر اس سے مخاطب ہو کر بولا۔
” آپ افضل ہیں۔ ؟”
“جی جناب۔ ” افضل نے مسکرا کر اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
“دیکھا، میں نے کیسا پہچانا ۔ ” محسن راؤ نے افضل سے بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔
” واقعی آپ نے کمال کیا۔ ؟” افضل نے اسے توصیفی نظروں سے دیکھا۔
“کوئی کمال نہیں کیا، ظاہر ہے میں نے آپ کو بتا دیا تھا کہ میرے ساتھ بھائی افضل ہوں گے۔ ” تانیہ نے ایئر پورٹ کی سیڑھیاں اترتے ہوئے کہا۔ یہ سن کر محسن راؤ مسکرا دیا، بولا کچھ نہیں۔
گاڑی گھر کے گیٹ میں داخل ہوئی تو خالہ فرزانہ برآمدے میں موجود تھیں۔ تانیہ نے محسن راؤ کو اشارے سے بتا دیا کہ وہ خالہ فرزانہ ہیں۔ محسن راؤ گاڑی سے اتر کر تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور سلام کر کے اپنا سر ان کے سامنے جھکا دیا ۔ خالہ فرزانہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ڈھیروں دعائیں دیں۔
خالہ فرزانہ کے پیچھے دردانہ کھڑی تھی۔ وہ بڑی دلچسپی سے محسن راؤ کو دیکھ رہی تھی۔ محسن راؤ ایک پر کشش شخصیت کا مالک تھا۔ اگرچہ اس کے چہرے پر سرخی نہ تھی اور ویسی صحت بھی نہ تھی
جیسی ہونی چاہئے تھی، اس کے باوجود اس کی گوری رنگت نیوی بلیو سوٹ میں مزید نکھر گئی تھی۔

“بھائی یہ دردانہ ہیں۔ اتنے عمدہ کھانے بناتی ہیں کہ آپ یہاں سے جانے کا نام نہ لیں گے۔ ” تانیہ نے تعارف کروایا۔
“بھئی تانیہ، ہمیں یہاں سے جانا تو ہو گا۔ ایسا کریں گے کہ دردانہ کو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ ” محسن نے کہا۔
” یہ ٹھیک ہے۔ ” تانیہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ پھر دردانہ سے مخاطب ہو کر بولی۔
دردانہ، صاحب کا سامان ان کے کمرے میں پہنچا دو۔ ” “جی، اچھا بی بی۔ ” دردانہ گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔
اتنی دیر میں افضل نے اس کا سوٹ کیس اور بیگ گاڑی سے نکال کر زمین پر رکھ دیا تھا۔

محسن راؤ کو خالہ فرزانہ اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے گئیں۔ محسن راؤ ان کے کمرے میں پہنچ کر بے تکلفی سے نیچے قالین پر بیٹھ گیا۔ خالہ فرزانہ نے چاہا بھی کہ وہ بیڈ پر بیٹھ جائے یا پھر کرسی پر برا جمان ہو جائے لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا۔
”خالہ، مجھے نیچے بیٹھنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔
” اس کا مطلب ہے کہ تم میں زمینداروں والی کوئی بات ہی نہیں۔ ” خالہ فرزانہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
“نہیں، خالہ میں ان زمینداروں میں سے نہیں ہوں جو زمینوں کی وجہ سے ہی زمیندار کہلاتے ہیں لیکن اس زمین پر اکڑ کر چلتے ہیں۔ نہیں جانتے کہ کل اسی زمین کے نیچے چلے جانا ہے۔ “

چائے سے فارغ ہونے کے بعد تانیہ محسن راؤ کو اپنے کمرے میں لے گئی۔ اس کے کمرے میںںداخل ہو کر محسن راؤ نے چاروں طرف ایک طائرانہ نظر ڈالی ۔ اور پھر بولا۔ “اچھا تو یہ ہے تمہارا کمرہ؟۔”
“جی بھائی جان ۔ “
” اچھا ہے۔ تم نے بڑے سلیقے سے ڈیکوریٹ کر رکھا ہے۔ “ “اس تعریف کا شکریہ ۔ “

اچانک محسن راؤ کی نظر، گلاب کی کلی پر پڑی۔
” بڑی خوبصورت کلی ہے۔ “ وہ بیڈ پر بیٹھ کر کلی کو دیکھنے لگا۔
” کس قدر خوشبو ہے اس میں۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی خوشبو محسوس ہوئی”
“جی بھائی جان یہ ہماری دنیا کی نہیں ہے۔ “
” پھر۔”
“یہ راشمون نے مجھے دی تھی۔ ” تانیہ نے محسن راؤ کو بتایا۔
“بہت حسین تحفہ ہے یہ ۔ ” محسن راؤ نے تو صیفی انداز میں کہا۔
تانیہ ایک گہرا سانس لے کر رہ گئی، اس تحفے کے پیچھے جو راز تھا، وہ بھائی کو کیسے بتاتی۔ وہ کیسے کہتی کہ اس کلی میں راشمون کی دل کی دھڑکنیں بند ہیں۔

” بھائی جان، لاہور میں کیا حالات ہیں۔ ؟”
“راؤ احمد علی نے وصیت کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ وصیت جعلی ہے۔ ہمارے بابا کے انتقال کے بعد اب کوئی وارث نہیں رہا۔ تم، بابا کی بیٹی نہیں ہو، کیونکہ ان کی جو بیٹی پیدا ہوئی تھی اس کا انتقال ہو گیا تھا۔ تم ان کی جعلی بیٹی ہو اور یہ سارا ڈرامہ انکل عامر نے اپنے دوست کی جائداد ہتھیانے کے لئے کھیلا ہے۔ “
“اچھا۔ ” تانیہ نے گہرا سانس لیا۔
“ہاں، مقدمہ چل رہا ہے۔ انکل عامر کہہ رہے تھے کہ اب تک یہ ثابت کرنا واقعی مشکل تھا کہ تم، بابا کی حقیقی اولاد ہو، راؤ احمد علی نے قبرستان کے اس رجسٹر کی فوٹو کاپی عدالت میں جمع کرادی ہے جس میں تمہارے انتقال کی تفصیلات درج ہیں۔ عدالت کو یہ باور کرانا مشکل ہوتا کہ ایک باپ نے اپنی بیٹی کی موت کا ڈرامہ کیوں رچایا۔ ایسا کام کوئی ہوشمند نہیں کر سکتا قانونی نقطہ نظر سے یہ ہمارا ایک کمزور پہلو تھا، اور مقدمہ کی بنیاد اسی بات پر تھی کہ تم، بابا کی حقیقی بیٹی ہو یا نہیں۔ اگر حقیقی بیٹی ہو تو اپنے باپ کی جائداد کی وارث ہو۔ اگر تم بابا کی بیٹی نہیں ہو تو پھر ان کی جائداد کا کوئی وارث نہیں۔ لہذا ہمارے بابا کی ساری جائیداد راؤ احمد علی کے نام منتقل ہو جاتی۔ ایک طرف تو یہ مقدمہ چل رہا ہے۔ دوسری طرف راؤ احمد علی تمہاری تلاش میں ہے تاکہ تمہیں قتل کروا کے اس جعلی وارث سے بھی نجات پالے۔ اسی لئے انکل عامر نے بابا کے قتل کے بعد تمہیں فوراً کراچی منتقل کر دیا تھا۔ “
“اوہ، میرے اللہ ۔ ” تانیہ نے افسردہ لہجے میں کہا۔ ” یہ راؤ احمد علی کس قدر سفاک آدمی ہے۔ جائداد کے لالچ نے تو اسے بھیڑیا بنا دیا ہے۔ بھائی جان, انسان اس قدر بھی گر سکتا ہے اور وہ بھی سگا چچا۔ ؟”
“مجھے راؤ احمد علی کے عزائم کا شروع سے ہی کچھ کچھ اندازہ تھا اسی لئے میں ساون پور جاتا رہتا تھا ۔ ویسے بھی دیہات کی زندگی مجھے بہت پسند ہے، وہاں فطرت اپنے اصل روپ میں موجود ہوتی ہے۔ پھر میں نے جب چچا سے اپنی جائداد سے متعلق سوال جواب شروع کئے تو وہ فوراً کھٹک گئے۔ ہمارے بابا تو قلندر آدمی تھے۔ انہیں جائداد روپے پیسے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اسی لئے انہوں نے کبھی اپنے بھائی سے زمینوں کی آمدنی کا حساب نہیں مانگا تھا۔ سال دو سال میں راؤ احمد علی جو بھی بابا کے بریف کیس میں رکھ دیتا تھا، وہ لے کر لاہور آجاتے تھے۔ اسے چیک کرنے والا کوئی نہ تھا۔ جب میں نے چیکنگ شروع کی تو اس کے کچھ عرصے بعد ہی راؤ احمد علی نے مجھے جنگل میں قتل کروا دیا اور مطمئن ہو گیا کہ چلو آنکھوں میں چبھنے والا کانٹا بڑی آسانی سے نکل گیا۔ اس بیچارے کو کیا معلوم تھا کہ موت اور زندگی اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔ اللہ نے مجھے موت کے منہ سے نکال لیا۔ ایک مرتبہ میں پھر اس سے حساب لینے آگیا ہوں ۔ “
“انکل عامر اب کیا کہتے ہیں۔ ؟ ” تانیہ نے پوچھا۔
“ان کا خیال ہے کہ میں ابھی راؤ احمد علی کے سامنے نہ آؤں۔ یہاں کراچی رہوں تمہارے پاس”
“ہاں تو پھر ٹھیک ہے نا، بھائی جان آپ یہیں رہیں، میرے پاس۔ جب تک انکل عامر ہمیں لاہث آنے کا اشارہ نہ کریں۔” تانیہ نے کہا۔
” اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انکل عامر بہت پیارے آدمی ہیں۔ بے انتہا مخلص۔ انہوں نے ریستوران کو بہت اچھی طرح سنبھالا ہوا ہے۔ لیکن یہ وقت چھپ کر بیٹھنے کا نہیں ہے۔ راؤ احمد علی نے ایک مقدمہ کیا ہے۔ میں اس پر چھ مقدمے دائر کروں گا۔ اس نے میرے باپ کو مارا ہے۔
اس کے تینوں بیٹوں کو ختم کر دوں گا۔ اور یہ سارے کام اتنی دور بیٹھ کر نہیں ہو سکتے۔ میری ممی بابا کق گھر بند پڑا ہے۔ میں اس جاکر کھولوں گا۔ وہاں جاکر رہوں گا۔” حسن راؤ نے پر عزم ہے
“اور میں بھائی جان ۔ ؟ ” تانیہ کو اپنی فکر ہوئی۔
“تم یہیں رہو گی، اس وقت تک جب تک میں تمہیں لاہور نہ بلواؤں۔ “ محسن راؤ نے کہا
“میں یہاں کسی قیمت پر نہیں رہوں گی۔ میں آپ کے ساتھ چلوں گی۔ جہاں آپ رہیں گے۔ وہیں میں رہوں گی۔ “
“ٹھیک ہے تانیہ، میں تمہیں بہت جلد لاہور بلواؤں گا۔ ذرا وہاں کا جائزہ لے لوں ۔ “ محسن راؤ نے ٹالنے کے لئے کہا۔ “میں اب آپ سے ایک لمحے کے لئے بھی جدا نہیں ہوں گی۔ آپ بہت جلد بلوانے کی بات کر رہے ہیں۔
“بہت ضدی ہو۔ “
“میں تو آپ کی غیر موجودگی میں بھی لاہور نہیں چھوڑنا چاہتی تھی، وہ تو انکل عامر نے بابا کی قسم
دے کر مجھے یہاں آنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ” تانیہ نے بتایا۔
“جانتا ہوں، انکل عامر نے مجھے بتایا تھا۔ ویسے انہوں نے تمہیں یہاں بھیج کر بہت عقلمندی کا ثبوت دیا “
“بھائی جان اب کہیں آپ مجھے یہاں چھوڑ کر عقلمندی کا ثبوت تو نہیں دینے والے ۔ ؟” تانیہ نے فکر مند لہجے میں کہا۔
“نہیں گڑیا میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ بے فکر ہو جاؤ ۔ “
“اللہ کا شکر ہے کہ میرا بھائی، میرے بابا جیسا نہ نکلا۔ “
“بابا بہت شریف انسان تھے۔ میرے اغواء سے وہ بہت خوفزدہ ہو گئے تھے۔ اسی لئے مجبوراً تمہیں خود سے جدا کیا۔ تانیہ وہ تمہیں بہت چاہتے ۔۔۔ اور نہیں چاہتے تھے کہ تم ظالم چچا کی بھینٹ چڑھ جاؤ۔ “”
“ان کی محبت اپنی جگہ لیکن میں تو ان کی محبت سے محروم رہ گئی۔ “
” اب میں جو ہوں، میں تمہیں اتنی محبت دوں گا کہ تم سے سمیٹی نہیں جائے گی ۔ “

“اللہ، آپ کی عمر دراز کرے۔ ” تانیہ کے دل سے دعا نکلی۔
” آمین۔ ویسے ایک بات ہے تانیہ۔ جو لوگ دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ وہ خود بھی کبھی چین سے نہیں رہتے۔ ” محسن راؤ نے کہا۔
” راؤ احمد علی کا تو ابھی تک کچھ نہیں بگڑا ۔ جبکہ اس نے ہمیں برباد کر دیا ۔ “
“ایک اچھی خبر سننے کو ملی ہے۔ ” محسن راؤ نے چونکایا۔
” وہ کیا۔ ؟”
” تینوں بھائیوں میں پھوٹ پڑگئی ہے۔ سنا ہے تینوں نے راؤ احمد علی سے جائداد کی تقسیم کا مطالبہ کر دیا ہے۔ “
“اللہ کرے ایسا ہو کہ راؤ احمد علی جائداد کی تقسیم سے انکار کر دے۔ تب انہی میں سے کوئی بیٹا اسے صفحہ ہستی سے مٹا دے گا”
“ایسا ہونا کوئی بعید از قیاس نہیں۔ جب راؤ احمد علی، جائداد کے لئے اپنے بھائی کو مار سکتا ہے تو اسی جائداد کے لئے کوئی بیٹا بھی اپنے باپ کو ختم کر سکتا ہے ۔ ” “کاش ! ایسا ہو جائے۔ ” تانیہ دعا کے انداز میں ہاتھ اٹھا کر بولی۔
“تانیہ سنو وہ کمرہ کہاں ہے۔ ؟ ” محسن راؤ نے اچانک پوچھا۔
” آپ آرام کرنا چاہ رہے ہیں۔ تو یہیں بیڈ پر لیٹ جائیں اور اگر اپنے کمرے میں جانا چاہتے ہیں تو چلیں میرے ساتھ، میں آپ کو آپ کا کمرہ دکھادوں ۔ “
” او بابا۔ میں اپنے کمرے کی بات نہیں کر رہا۔ اس کمرے کی بات کر رہا ہوں جس کی دیواریں کالی ہیں “
“اوہ، اچھا۔ بھائی جان وہ کمرہ نیچے ہے۔ خالہ فرزانہ کے برابر والا ۔ “
” میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں ۔ “
“ہاں، ضرور دیکھیں، میں خود چاہتی ہوں کہ آپ وہ کمرہ دیکھیں۔ بڑا عجیب و غریب کمرہ ہے۔ “
” چلیں ابھی۔ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
“خالہ نے اگر ہمیں اس کمرے میں جاتے ہوئے دیکھ لیا تو پریشان ہو جائیں گی کیونکہ جس عامل نے اس کمرے کو کالا کروایا تھا، اس کی ہدایت تھی کہ اس کمرے کو کبھی نہ کھولا جائے۔ “
” پھر میں کیسے دیکھوں گا۔ “
” رات کو چلیں گے ایک بجے کے بعد ۔ جب سب سو جائیں گے ۔ ” تانیہ نے ترکیب بتائی۔
” چلو ٹھیک ہے۔ ” محسن راؤ نے گردن ہلا کر کہا۔

رات کا کھانا سب نے اکٹھے ہی کھایا۔ پھر افضل دونوں بھائی بہن کو گاڑی میں گھمانے لے گیا۔ فرزانہ بھی ساتھ تھیں۔ گھوم پھر کر واپس آئے تو کافی کا دور چلا۔ محسن راؤ نے اپنی آپ بیتی سنائی کہ کسی طرح راؤ احمد علی نے شکار کے نام پر اس کے قتل کی سازش کی۔ کس طرح ایک جادوگر اپنا شعبدہ دکھا کر اس کی جان بچائی۔ پھر کس طرح اس جادوگر نے اس کی روح پر قبضہ جمالیا، جادوگر کے مرنے کے بعد ہی وہ آزاد ہو سکا۔
محسن راؤ کی کہانی سب نے بڑے سحر زدہ انداز میں سنی۔ جب وہ اپنی زندگی کے واقعات دہرا چکا تو افضل نے اس سے سوال کیا۔
“پھر تو محسن صاحب آپ کو بھی جادو آگیا ہوگا۔ “
“ہاں، تھوڑا بہت آتا ہے۔ راج مداری نے کچھ شعبدے مجھے سکھائے تھے۔ “
” پھر کچھ دکھائیں نا۔ ” افضل نے بڑے اشتیاق سے کہا۔ ”کوئی کمال ہمیں بھی دکھائیں۔ “
“اچھا محسن راؤ کوئی شعبدہ دکھانے کے لئے آمادہ ہو گیا۔ پھر کچھ سوچ کر بولا۔
”ویسے مجھے کوئی شعبدہ دکھائے کافی عرصہ ہو گیا ہے پریکٹس نہیں رہی۔ پھر بھی کوشش کرتا ہوں ۔ “

پھر اسے خیال آیا کہ بقاں نے اسے جب صحرا میں قید کیا تھا تو اپنی مرضی کی کھانے پینے کی اشیاء حاضر کرنے کے لئے ایک جادو سکھایا تھا۔ اس جادو کے ذریعے وہ کھانے پینے کی ہر چیز اپنے سامنے حاضر کر لیا کرتا تھا۔ اس نے سوچا کہ بقاں کے سکھائے اس جادو کو آزما کر دیکھے۔ کیا وہ ابھی تک کارآمد ہے یا اس کا اثر ختم ہو گیا۔
محسن راؤ نے ایک خالی پلیٹ منگوا کر اپنے سامنے رکھی اور خالہ سے مخاطب ہو کر بولا۔ بتائیں، خالہ کیا کھائیں گی۔ ؟”
“نہ بھیا، میں نہیں کھا رہی کوئی چیز۔ پتہ نہیں کہاں سے منگوا کر دھر دو گئے۔ “
“او ہو خالہ، آپ بھی کمال کرتی ہیں۔ مت کھائیے گا۔ کسی چیز کو آنے تو دیں۔ ” افضل نے ناگواری سے کہا۔
“آنے والی چیز کو تم کھا لو گے۔ ؟”
خالہ فرزانہ نے افضل کو گھور کر دیکھا۔
“ہاں، میں کھالوں گا۔ ” افضل نے انہیں چڑانے کے لئے کہا۔
” اے بھیا۔ ذرا اسے لوہے کے چنے منگوادو، دیکھوں کیسے کھاتا ہے یہ ۔ ” خالہ فرزانہ نے جل کر کہا

خالہ کی بات سن کر سب نے قہقہہ لگایا۔ افضل کھسیانہ سا ہو گیا۔
” اچھا، خالہ میں ایسا کرتا ہوں کہ لوہے کے بجائے گرم گرم چنے منگوا دیتا ہوں ۔ ” محسن راؤ نے کہا۔
“ٹھیک ہے محسن صاحب۔ “ افضل نے فوراً ہی کہا۔

تب محسن راؤ ٹھیک سے ہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے ذہن کو یکسو کیا۔ بقّاں کے سکھائے ہوئے الفاظوں کو ہونٹوں ہی ہونٹوں میں دہرایا اور پھر اپنا ہاتھ پلیٹ کی طرف بڑھا کر بولا۔” گرم گرم چنے”
ایک دم اسے ایک جھٹکا سا لگا جیسے اس نے بجلی کے ننگے تار کو چھو لیا ہو۔ اور پلیٹ خالی تانیہ نے محسن راؤ کو جھٹکا کھاتے دیکھا تو پریشان ہوگئی۔ وہ گھبرا کر بولی۔ “کیا ہوا بھائی جان۔؟؟”
“ایک جادو بے اثر ہو گیا۔ ” محسن راؤ، تانیہ سے مخاطب ہو کر بولا۔
“کوئی بات نہیں۔ ” تانیہ نے بے نیازی سے کہا۔
” ٹھہرو ،ابھی ایک اور شعبدہ آزما کر دیکھتا ہوں ۔ ” یہ کہہ کر محسن راؤ نے افضل سے کہا۔

“اپنی گھڑی اتاریں ۔ “
افضل نے اپنی گھڑی اتار کر اس کے ہاتھ میں دے دی۔ محسن راؤ نے وہ گھڑی اپنے دونوں ہاتھ میں بند کرلی۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ گھما کر ایک دم کھول دیئے۔ افضل کا خیال تھا کہ گھڑی ایک دم ہاتھ سے نیچے گرے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ گھڑی غائب ہو چکی تھی۔ اس شعبدے پر تانیہ نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔

“افضل اب تم اپنی گھڑی سے ہاتھ دھو لو ۔ “ خالہ فرزانہ نے ہنس کر کہا۔
” نہیں خالہ، ایسی بھی کیا بات ہے۔ تانیہ تم ذرا اس خالی پلیٹ کو اوندھا کر دو ۔ “
تانیہ نے خالی پلیٹ اوندھا دی۔
” یہ لیجئے۔ “
“اب سیدھا کر دو۔ “ محسن راؤ نے فوراً ہی کہا۔
تانیہ نے پلیٹ سیدھی کی تو حیرت سے اس کی چیخ نکل گئی۔ افضل کی گھڑی سامنے موجود تھی۔
” تانیہ ، افضل صاحب کو گھڑی چیک کرواؤ۔ ٹوٹی پھوٹی تو نہیں۔؟ “
تانیہ نے گھڑی اٹھا کر افضل کے حوالے کردی۔ اس نے الٹ پلٹ کر دیکھی۔ پھر بولا۔ ” بالکل ٹھیک ہے۔ “
” اے محسن ذرا مجھے بھی بتاؤ، تم نے کیا پڑھا ۔ ” خالہ فرزانہ بڑے اشتیاق سے بولیں۔
” نہیں بھائی محسن، خالہ کو جادو نہ سکھا دینا، ورنہ کسی دن غصے میں آکر مجھی کو غائب کر دیں گی۔”
“اے محسن، کیا آدمی کو بھی غائب کیا جا سکتا ہے۔ ؟؟” “ہاں، کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سحر مجھے نہیں آتا۔ ویسے خالہ جادو اصل میں شیطانی علم ہے، اسے سیکھنے کے لئے جو کلمات ادا کرنے پڑتے ہیں، ان کا تعلق شیطان کی ذات سے ہوتا ہے۔ اللہ نے انسان کے چھوٹے سے دماغ میں کائنات کی تسخیر بھر دی ہے۔ دونوں آدمی اڑ سکتے ہیں. وہ بھی جو اللہ کا ولی ہو اور وہ بھی جو شیطان کا چیلا ہو۔ ان دونوں میں فرق صرف عقیدے کا ہے، یقین کا ہے۔ سچ اور جھوٹ کا ہے۔ اچھے اور برے کا۔ تعمیر اور تخریب کا ہے۔ اللہ کا ولی کبھی کسی انسان کو نقصان نہیں پہنچائے گا اور شیطان کا چیلا کبھی کسی انسان کو فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ یہ فرق ہے جادو اور روحانیت کا۔۔
دراصل یہ وہی فرق ہے جو موسیٰ اور فرعون میں تھا۔ موسیٰ حق ہے اور فرعون شر ہے۔ یہ دونوں طاقتیں ابتداء ہی سے انسان کے ساتھ چلی آرہی ہیں اور انتہا تک رہیں گی۔”
” بھائی جان آپ اتنا کچھ جانتے ہیں تو پھر جادو گر کیوں بن گئے ۔ ؟” اعتراض ہوا، یہ اعتراض بہن نے کیا۔

“خدا نخواستہ میں جادو گر تو نہیں ہوں ۔ جادو گر بننے کے لئے اپنی روح کو بیچنا ہوتا ہے۔ شیطان کا کلمہ پڑھنا پڑتا ہے۔ پھر اس کے مشن پر چلنا پڑتا ہے۔ شیطان کے مشن سے تو آپ لوگ واقف ہی ہیں ۔ جتنا ممکن ہو سکے انسانوں کو نقصان پہنچاؤ یہ کمال جو ابھی میں نے دکھایا ہے، یہ جادو نہیں ہے، محض ایک شعبدہ ہے۔ میں نے اب تک جو شعبدے دکھائے ہیں اس سے کبھی کسی انسان کو نقصان نہیں پہنچا۔ انسانوں کو تفریح بہم پہنچانے کے لئے میں نے شعبدوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ آپ بتائیں، ابھی جو میں نے کمال دکھایا اس سے کسی کو نقصان پہنچا۔ “ افضل نے پوچھا۔

“نہیں بالکل نہیں۔ ” افضل فوراً بولا۔ لیکن محسن بھائی یہ سب کیسے ہو گیا۔ ؟ “
” افضل صاحب اصل میں اللہ نے انسان کو بے پناہ قوتوں کا مالک بنایا ہے۔ اور ان ساری قوتوں میں سب سے اعلیٰ قوت ہے یقین کی قوت …. یہ قوت اتنی زبردست ہے کہ اس کے ذریعے پہاڑ کو بھی ہلایا جا سکتا ہے۔ آپ کسی پہاڑ کے سامنے کھڑے ہو کر اگر یہ کہیں کہ “اے پہاڑ میرے سامنے سے ہٹ جا”
اور یہ کہتے ہوئے آپ کو یقین ہو کہ آپ کے کہتے ہی پہاڑ سامنے سے ہٹ جائے گا تو یقین جانئے پہاڑ آپ کے سامنے سے ہٹ جائے گا مجھے اس وقت وہ دیہاتی یاد آرہا ہے جو بیٹھے بٹھائے یقین کی قوت سے مالا مال ہو گیا تھا۔ یہ واقعہ مجھے مولانا اسد ریاض صاحب نے سنایا تھا۔ مولانا اسد سے میں نے بچپن میں قرآن شریف پڑھا تھا۔ انہی سے میں نے دینی تعلیم حاصل کی۔ وہ اتنے دلنشین انداز میں بات کو سمجھاتے تھے کہ فوراً دل میں اتر جاتی تھی۔ اس دیہاتی کا واقعہ بھی میں نے انہی سے سنا تھا۔ ایک دیہاتی مسجد میں بیٹھا پیش امام صاحب کی تقریر سن رہا تھا۔ پیش امام صاحب بسم اللہ پر وعظ دے رہے تھے۔ انہوں نے بسم اللہ کی بے شمار خوبیاں بیان کرتے ہوئے بتایا کہ بسم اللہ میں اتنی قوت ہے کہ اگر کوئی شخص بسم اللہ کہہ کر پانی میں پاؤں ڈالے تو وہ پانی پر چل سکتا ہے۔ یہ بات اس دیہاتی کے دل کی گہرائیوں میں بیٹھ گئی۔ ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ پیش امام اور وہ دیہاتی اتفاق سے دریا کنارے اکٹھا ہو گئے۔ دونوں کو دریا پار جانا تھا۔ اور پار کرانے والی کشتی ابھی ابھی اس کنارے سے ادھر گئی تھی۔ کشتی کو واپس آنے میں دیر لگتی۔ اس دیہاتی نے پیش امام صاحب کی طرف دیکھ کر بڑے اطمینان سے کہا۔
”مولوی جی، انتظار کسی بات کا، پڑھو بسم الله . بیچارے پیش امام صاحب کو پتہ نہیں اپنا وعظ یاد تھا کہ نہیں۔ انہیں دیہاتی کی بات سمجھنے میں دیر لگی۔ اتنے میں وہ دیہاتی بسم اللہ پڑھ کر دریا میں اتر چکا تھا اور بڑے اطمینان سے پانی پر چہل قدی کرتا ہوا جارہا تھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو پیش امام صاحب کو اس دریا کے کنارے ہی کھڑا پایا اس دیہاتی نے زور سے کہا۔
”مولوی جی کشتی دیر میں آئے گی۔ کھڑے کاہے کو ہو۔ بسم اللہ کیوں نہیں پڑھتے؟؟ “
پیش امام صاحب کو اب اپنا وعظ اچھی طرح یاد آچکا تھا لیکن وہ تذبذب کے عالم میں کھڑے تھے۔ بالآخر پیش امام صاحب کو اس دیہاتی کی تقلید کرنا پڑی۔ انہیں بسم اللہ پڑھنا پڑھی اور بسم اللہ پڑھ کر دریا میں پاؤں ڈالنا پڑا۔ اتنا بتا کر محسن راؤ رک گیا۔ مسکرا کر انہیں دیکھا اور بولا ۔
“کوئی بتا سکتا ہے کہ انجام کیا ہوا ۔ ؟”
_پیش امام صاحب پانی پر دوڑتے ۔ چلے گئے ہوں گے اور دیہاتی سے بھی آگے نکل گئے ہوں گے۔ ” تانیہ نے انجام بتایا۔
“جی نہیں … دریا میں پہلا قدم رکھتے ہی وہ دریا کے اندر ۔ “
“ہیں ایسا کیوں ۔ ؟” خالہ فرزانہ نے پوچھا۔ ” جبکہ دونوں نے بسم اللہ پڑھی۔ “
“دونوں نے بے شک بسم اللہ پڑھی لیکن ایک کو دوسروں کو تلقین کرنے کے باوجود یقین نہ تھا اور ایک کو محض سن کر پختہ یقین ہو گیا۔ اور جس کو پختہ یقین ہو گیا وہ پورے اطمینان سے دریا پار کر گیا، اپنی منزل پا گیا۔ “

“تم نے یہ بہت ، اچھی بات بتائی۔ ” خالہ فرزانہ نے اسے توصیفی نظروں سے دیکھا
“واه محسن بھائی جان، آپ کو کتنا یقین ہے۔؟؟ ” تانیہ نے عجب سوال کیا۔
“کس پر۔؟؟ ” محسن راؤ نے دریافت کیا۔

“اللہ پر۔ ” تانیہ بولی۔
“مجھے تو اللہ کے سوا کسی اور چیز پر یقین ہی نہیں ہے۔ بس جو کچھ ہے وہ اللہ ہے۔ میں نے جب مانگا اللہ سے مانگا اس کے سوا کسی کو حاجت روا نہ جانا۔ اگر سوئی بھی مانگنی ہے تو اللہ سے مانگنی ہے اور جہاز مانگنا ہے تو وہ بھی اللہ سے مانگنا ہے۔ یہ یقین کل بھی تھا، آج بھی ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی رہے گا۔ اور یہ یقین ہی تھا کہ صحرا کی قید سے نجات پاکر آج یہاں بیٹھا ہوں۔ “

“صحرا کی قید ۔ ؟” خالہ فرزانہ چونکی۔
“میرا مطلب اس جادوگر کی قید سے تھا۔ ” محسن راؤ کو فورا اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اس نے بات بنائی۔ رات گئے تک وہ سب گپ شپ میں مشغول رہے۔ بالاخر بارہ بجے کے قریب سب نے اپنے اپنے کمروں کا رخ کیا۔

تانیہ چند منٹ محسن راؤ کے کمرے میں ٹھہری۔ اس نے تعویذ والے کمرے میں جانے کا وقت طے کیا اور پھر اوپر اپنے کمرے میں آگئی۔
ابھی بارہ بجے تھے۔ اس نے دو بجے کے بعد نیچے جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ ابھی اس نے دو گھنٹے گزارنے تھے۔ اگر وہ بستر پر لیٹ گئی تو سو جائے گی۔ سونے سے بچنے کے لئے اس نے ایک پرانی فلم نکالی اور کمبل اوڑھ کر بیڈ سے ٹیک لگا کر آرام سے فلم دیکھنے لگی۔
وہ فلم تو ڈھائی گھنٹے کی تھی لیکن اس نے فارورڈ کر کے دو گھنٹے کی بنائی۔ فلم ختم کر کے اس نے کمبل پرے پھینکا اور بیڈ سے اتر کر کالی چادر اوڑھ لی۔ ٹی وی اور وی سی آر بند کیا۔ اور اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترنے لگی۔ باہر بہت تیز ہوا چل رہی تھی۔ اس نے چادر اچھی طرح اوڑھ لی، چادر گرم تھی۔ ہوا بہت ٹھنڈی تھی چہرے پر بلیڈ کی طرح لگ رہی تھی۔ چاند پوری طرح روشن تھا۔ اس کی ٹھنڈی چاندنی نے ماحول کو اور سرد بنا دیا تھا۔
محسن راؤ کے کمرے کی بتی جل رہی تھی۔ شیشے کی کھڑکی پر اگرچہ پردہ پڑا ہوا تھا، پھر بھی روشنی محسوس ہو رہی تھی۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق تانیہ نے تین مرتبہ شیشے کی کھڑکی بجائی۔ چند لمحوں بعد محسن راؤ اپنے کمرے کا آہستہ سے دروازہ کھول کر باہر آگیا۔ اور دھیرے سے بولا۔
”سب ٹھیک ہے۔ ؟؟”
ہاں، ابھی تک تو ٹھیک ہے۔ ” تانیہ نے بھی آہستگی سے جواب دیا۔ ” آجائیے میرے ساتھ۔۔”
“تانیہ، اگر کوئی اتفاق سے اٹھ کر باہر آجائے اور ہمیں یوں پر اسرار انداز میں گھر میں چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھ لے تو ہم اس سے کیا کہیں گے ۔؟؟؟ ” محسن راؤ نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا۔
“دیکھا جائے گا۔ ” تانیہ نے بے نیازی سے کہا۔ ” میں جواب دے لوں گی، آپ بے فکر ہو جائیں۔ ہم خدا نخواستہ چوری کرنے تو نکلے نہیں ہیں۔ “
٫ہاں، یہ تو ٹھیک ہے۔ ” محسن راؤ نے کہا

لیکن وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے جھجک رہا تھا۔ ہر لمحے اسے یہی خطرہ تھا کہ اب کوئی نکل کر باہر آجائے گا۔ خالہ فرزانہ کے کمرے کی لائٹ بجھی ہوئی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ناول پڑھ کر پر سکون نیند کے مزے لے رہی ہیں۔ وہ خالہ فرزانہ کے برابر والا کمرہ تھا۔
تانیہ نے اس پراسرار کمرے کے سامنے پہنچ کر محسن راؤ کو ٹھہر جانے کا اشارہ کیا، دروازے کے ہینڈل پر کالے دھاگے میں بندھا کالا تعویذ لٹکا ہوا تھا۔ محسن راؤ نے اس کمرے کے دروازے کو بغور دیکھا۔ اس تعویذ پر بھی نظر ڈالی ۔ تانیہ نے اس کمرے سے متعلق جو روداد بیان کی تھی اس کے مطابق وہ کمرہ غیر انسانی مخلوق کی دنیا میں داخلے کا ذریعہ تھا۔ لیکن غیر انسانی مخلوق کی دنیا میں آدمی اسی وقت جا سکتا تھا، جب کوئی غیر انسانی مخلوق اسکی کرے مدد کرے۔۔
اس کالے کمرے کے پر اسرار دروازے کو دیکھ کر ایک لمحے کے لئے محسن راؤ کے جسم میں سننی سی پھیل گئی۔ خود تانیہ کے حواس بھی قابو میں نہیں رہے تھے۔ اس کے دل کی دھڑکن اچانک تیز ہوگئی تھی۔ اور ہاتھ پاؤں بے جان سے ہونے لگے تھے اس کے جسم میں لرزش سی پیدا ہو گئی تھی۔
تانیہ نے فوراً اپنے آپ کو سنبھالا، اپنی ہمت مجتمع کی۔ اور ہاتھ بڑھا کر اس کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا۔ پھر اس نے ہینڈل پر دباؤ ڈال کر دروازے کو ہلکا سا دھکا دیا۔
تبھی تانیہ کے منہ سے نکلا۔ “ارے۔ “

“کیوں کیا ہوا ۔ ؟ ” محسن راؤ اس کے نزدیک آکر کسی قدر پریشان لہجے میں بولا۔
“آپ ذرا دروازہ کھولئے۔ ” تانیہ نے دروازے کے سامنے سے ہٹ کر کہا۔
محسن راؤ نے آگے بڑھ کر ہینڈل پر ہاتھ رکھا اور اسے دبا کر دروازہ کھولنا چاہا لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ ایک بار دو بار اس نے کئی مرتبہ دروازہ کھولنے کی کوشش کی لیکن دروازہ نہیں نکلا۔ دروازہ مقفل تھا کیسے کھلتا۔

“دروازہ لاکڈ ہے ۔ ؟ ” محسن راؤ یہ کہہ کر پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے ہٹنے کے بعد تانیہ نے پھر دروازہ کھولنے کی کوشش کی لیکن دروازہ لاکڈ نہ ہوتا تو ضرور کھل جاتا۔

“حیرت ہے۔ ؟” وہ کھسیانی سی ہو کر بولی۔ ” آجائیے۔ “

تب محسن راؤ بغیر کوئی جواب دیئے، اس کے پیچھے پیچھے چل دیا، پھر اپنے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر وہ تانیہ سے مخاطب ہو کر بولا۔
“اچھا، تانیہ تم اپنے کمرے میں جاؤ۔ اب صبح بات کریں گے۔”
تانیہ خجل سی اپنے کمرے میں آگئی اور سوچنے لگی ایسا کیوں ہوا؟ دروازہ مقفل کس طرح ہو گیا ؟ کس نے کیا؟ ظاہر ہے یہ کام افضل یا خالہ فرزانہ تو کر نہیں سکتے تھے۔ خاص کر افضل کو تو اس کمرے کی خفیہ
کہانی معلوم ہی نہیں تھی۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ کمرہ کھلا ہے یا بند ہے۔ اس نے آج تک دروازے کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ خالہ فرزانہ کو اس کمرے کے بارے میں تھوڑا بہت معلوم تھا۔ انہیں۔بھلا کمرہ مقفل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس سے پہلے تانیہ کئی مرتبہ اس کمرے میں جاچکی تھی۔ اسے اس کمرے کا تالا ہمیشہ کھلا ملا تھا۔
پچھلی رات وہ اسی کمرے سے باہر آئی تھی۔ تب بھی دروازہ کھلا ہوا تھا۔ پھر یہ اچانک کیا ہوا ؟ کمرے کا دروازہ آخر کس طرح مقفل ہو گیا۔ یہ بات وہ بہت دیر تک سوچتی رہی۔ لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ سوچتے سوچتے بالآخر اسے نیند آگئی۔
رات کو خواب میں دادا اعظم دکھائی دیئے۔ وہ اس کے کمرے میں آکر ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور اس کو محبت سے دیکھتے ہوئے بولے۔
”ہاں، تانیہ کیوں پریشان ہو ؟ “
دادا کمرے کا دروازہ مقفل کیسے ہو گیا ۔ ؟” تانیہ نے اپنی پریشانی فوراً ظاہر کر دی۔
اس کی بات سن کر دادا اعظم مسکرائے اور بڑے نرم لہجے میں بولے۔ ”وہ ہم نے بند کیا ہے۔”
“اچھا .. لیکن کیوں؟ میں بھائی جان کو دکھانا چاہتی تھی۔ ؟” تانیہ نے کہا۔
” تانیہ، تمہیں، تمہارا بھائی مل گیا، کیا تم خوش نہیں ہو۔ ؟ “
“میں بے انتہا خوش ہوں۔ “
پھر اب تم اس کمرے کو بھول جاؤ۔ جو کچھ بیتا اسے بھی خواب سمجھ کر بھلا دو۔ کسی بات کی زیادہ کرید اچھی نہیں ہوتی۔ تم میری بات سمجھ گئیں نا۔ ” دادا اعظم نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
ان کے لہجے میں ایک طرح کی تنبیہ بھی تھی۔
“جی دادا، اچھی طرح سمجھ گئی ہوں ۔ “
” بس تو پھر اللہ حافظ ۔”
یہ کہہ کر دادا اعظم کرسی سے اٹھے۔ اور اٹھتے ہی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے

تانیہ کی فوراً ہی آنکھ کھل گئی۔ تب اسے اندازہ ہوا کہ وہ خواب دیکھ رہی تھی۔ اس خواب نے ذہنی الجھن دور کر دی تھی۔
اس کمرے کو مقفل کرنے والے دادا اعظم تھے۔ یہ دادا اعظم ہی تو تھے، جنہوں نے اس کمرے کی راہ دکھائی تھی۔ اور یہ راستہ اسے محسن راؤ تک لے گیا تھا۔ جس نے راہ کھولی تھی، آج وہی ایسے بند کر گیا تھا۔

محسن راؤ اب جن راستوں پر جانا چاہتا تھا۔ اس کے لئے کراچی سے واپسی ضروری تھی۔ وہ لاہور جانے کے لئے بے چین تھا۔ خالہ فرزانہ کے اصرار پر دو چار روز وہ بمشکل رکا۔ پھر اس نے لاہور جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے اپنے ساتھ تانیہ کو بھی لے لیا۔ خالہ فرزانہ نے منع بھی کیا کہ وہ تانیہ کو لاہور نہ لے جائے لیکن خود تانیہ محسن راؤ کے ساتھ جانا چاہتی تھی۔ اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ہر قیمت پر رہنا چاہتی تھی۔ اس کے بابا نے تو اسے جیتے جی مار دیا تھا۔ لیکن اب وہ جیتے جی مرنا نہیں چاہتی تھی۔ اس لئے وہ اسے اپنے ساتھ لے جانے پر مجبور تھا۔

جب وہ لاہور جانے کے لئے تیار ہو گئی تو خالہ فرزانہ نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ ”تانیہ، تمہارا کمرہ میں بند کروادوں گی۔ وہ اسی طرح رہے گا۔ جب تمہارا دل چاہے، کراچی آجانا۔ “
ہاں خالہ، آپ فکر نہ کریں، میں ضرور کراچی آؤں گی۔ ذرا حالات کسی کروٹ بیٹھ جائیں، پھر انشاء اللہ میں آپ کو یہاں سے لے جاؤں گی ۔ “
“واہ، اور مجھ غریب کا کیا ہو گا۔ ؟” افضل نے چہک کر کہا۔
“تمہیں امیر بنایا جائے گا۔ ” محسن راؤ نے ہنس کر کہا۔
“وہ کس طرح ۔ ” افضل نے پوچھا۔
“تمہاری شادی کر کے ” محسن راؤ نے بڑے یقین سے کہا۔ “اے اللہ تو مجھے اپنی پناہ میں رکھ یہ لوگ مجھے برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ “ افضل نے بڑی معصومیت سے کہا تو سب ہنس پڑے۔

افضل اور خالہ فرزانہ انہیں ایئر پورٹ چھوڑنے آئے، لاہور میں انکل عامر ان کے منتظر تھے۔ محسن راؤ نے فون پر انکل عامر سے بات کرلی تھی۔ ساری تفصیلات طے کرلی تھیں۔ لہذا وہ ایئر پورٹ سے سیدھا اپنی کوٹھی پہنچا۔

اگلے دن اس نے اپنے ریستوران کا رخ کیا۔ وہاں کا چارج سنبھالا۔ ریستوران میں کام کرنے والے کئی ملازمین میں سے ایک بندے کا انتخاب کیا۔ اور اسے صبح کو بھی آنے کی ہدایت کی۔ راشد ایک مضبوط کاٹھی کا نوجوان تھا۔ وہ محسن راؤ کے ریستوران میں بل کلرک کی حیثیت سے ملازم تھا۔ دیگر ضروری کاموں سے فارغ ہو کر رات کو اس نے راؤ احمد علی کے نام ایک خط لکھا۔

” آپ نے میرے اور بابا کے ساتھ جو کچھ کیا ہے، اس سے آپ اچھی طرح واقف ہوں گے۔ میں اللہ کے فضل سے اپنے گھر واپس آگیا ہوں میرے ساتھ میری بہن تانیہ بھی ہے۔ اب آپ پر لازم ہے کہ میری آبائی زمینیں، باغات اور ساون پور کی حویلی کا آدھا حصہ دس دن کے اندر خالی کر دیں۔ میں گیارہویں دن ساون پور آؤں گا۔ زمینوں کی آمدنی کا حساب کتاب تیار رکھئے گا۔
میں اب آپ سے ایک ایک پائی کا حساب لوں گا۔
فقط : محسن راؤ۔”

اس خط کو محسن راؤ نے لفافے میں بند کیا۔ اور اسے کوٹھی پہنچنے والے ملازم راشد کے حوالے کرتے ہوئے اسے ہدایت کی کہ یہ خط کہاں اور کسے دینا ہے۔
راشد کے ساون پور روانہ ہونے کے بعد اس نے ریستوران کا رخ کیا۔ وہ رات تک وہاں ہیں بیٹھا رہا۔ ریستوران کا منیجر بہت محنتی آدمی تھا، اس نے ریستوران کو بطریق احسن سنبھالا ہوا تھا۔ انکل عامر نے بھی اس کی بہت تعریف کی تھی۔ کام کے اعتبار سے اس کی تنخواہ کم تھی۔ فوری طور پر محسن راؤ نے اس کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا وہ بہت خوش ہو گیا۔

انکل عامر نے بتایا تھا کہ راؤ شمشاد علی آرٹ کے بڑے قدر دان تھے۔ انہوں نے ذاتی طور پر ایک آرٹ گیلری کھول رکھی تھی جس میں مختلف آرٹسٹوں کی تصاویر کی نمائش ہوتی رہتی تھی۔ محسن راؤ اور تانیہ دونوں کو تصاویر سے دلچسپی تھی۔ محسن راؤ نے صبح آرٹ گیلری کی طرف جانے کا پروگرام بنایا۔ اس آرٹ گیلری میں تالا پڑا ہوا تھا۔ اس نے آرٹ گیلری کو تانیہ کے حوالے کرنے کا ارادہ کیا۔ اس طرح وہ گھر میں تنہا رہ کر بور ہونے سے بچ جائے گی۔

ابھی محسن راؤ سوکر نہیں اٹھا تھا کہ ایک ملازم نے زور زور سے اس کے کمرے کا دروازہ بجایا
محسن راؤ نے کمرے کا دروازہ کھولا تو گھر کا نیا ملازم پریشان کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔

“کیا ہوا ۔ ؟ ” محسن راؤ کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
“صاحب جی … گیٹ پر ایک لاش پڑی ہے۔ “
“کس کی لاش ہے۔ ؟”

” وہ جی کل جو صاحب یہاں آئے تھے، ان کی لاش ہے جی ۔ “
“راشد کی لاش ۔ ؟” محسن راؤ نے جیسے خود سے سوال کیا۔ ” یہ کیسے ہو سکتا ہے؟”
جو نہیں ہونا چاہئے تھا، وہ ہو گیا تھا۔

محسن راؤ کو قطعاً امید نہیں تھی کہ ایسا ہو جائے گا۔ اس کا خیال تھا کہ جب راشد، راؤ احمد علی کو خط دے گا، تو اس خط کو پڑھ کر راؤ احمد علی پر لرزہ طاری ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا تھا راؤ احمد علی نے خود لرزنے کے بجائے محسن راؤ کو الٹا لرزا دیا تھا۔ اس نے پیغام لے جانے والے نوجوان کو اس کے گھر کے دروازے پر پھنکوا دیا تھا۔ اس سے زیادہ دیدہ دلیری اور کیا ہو سکتی تھی۔
بہر حال اب یہ سوچنے کا وقت نہیں تھا۔ وہ اپنے ملازم رفیق کے ساتھ گیٹ پر آیا۔ گیٹ کے برابر کوٹھی کی دیوار کے ساتھ راشد کی لاش پڑی تھی۔ محسن راؤ نے راشد کے جسم کا جائزہ لیا تو اسے اندازہ ہوا کہ اس کا چہرہ اور جسم بالکل صاف ہے۔ کسی قسم کی چوٹ کا کوئی نشان موجود نہ تھا۔ محسن راؤ نے اس کی نبض دیکھی۔ نبض میں حرکت موجود تھی دل بھی دھڑک رہا
تھا۔ راشد ابھی زندہ تھا۔
محسن راؤ نے فوراً اپنی گاڑی نکالی ۔ تانیہ کو ساری صورتحال سمجھائی اور راشد کو گاڑی میں ڈال کر ایک اچھے اسپتال کا رخ کیا۔ ڈاکٹروں کی ایک دو گھنٹے کی محنت کے بعد بالآخر راشد کو ہوش آگیا۔ اگلے دو گھنٹوں میں اس کی حالت بالکل بحال ہو گئی۔ مزید ایک گھنٹہ رکھ کر اسے اسپتال سے رخصت کر دیا گیا۔ ڈاکٹروں کی پورٹ کے مطابق راشد کو کوئی جسمانی ضرر نہیں پہنچایا گیا تھا۔ البتہ اسے ایک نشہ آور دوا کا تیز نجکشن لگا کر محسن راؤ کی کوٹھی کے سامنے پھینک دیا گیا تھا۔ اگر راشد کو فوری طبی امداد نہ ملتی تو ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق اس کی موت بھی واقع ہو سکتی تھی۔

محسن راؤ نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اگر راشد کی موت واقع ہو جاتی تو وہ اس کے گھر والوں کے سامنے ہمیشہ شرمندہ رہتا۔ راشد کے کوٹ کی جیب سے ایک کاغذ برآمد ہوا تھا جس پر سرخ رنگ کے مارکر سے لکھا تھا۔
” گیارہواں دن ابھی بہت دور ہے۔ ہماری طرف سے پہلے دن کا تحفہ قبول کرو۔”

کاغذ پر پیغام دینے والے کا نام درج نہیں تھا۔ محسن راؤ کو اندازہ کرنے میں دیر نہ لگی کہ راؤ احمد علی نے اس کے گیارہویں دن کی دھمکی کا کس خوبصورتی سے مذاق اڑایا ہے۔
رات کو محسن راؤ نے گاڑی بھیج کر راشد کو اپنی کوٹھی بلوالیا اور انکل عامر کی موجودگی میں اس نے ساون پور کی روداد دریافت کی۔ راشد نے ساون پور کا حال بیان کرتے ہوئے کہا۔
”میں نے ساون پور پہنچ کر حویلی کا رخ کیا۔ اور حویلی کے بند گیٹ پر کھڑے چوکیدار سے راؤ احمد علی سے ملنے خواہش ظاہر کی۔ مجھے فورا حویلی کے اندر پہنچا دیا گیا۔ کچھ دیر کے بعد عالیشان ڈرائنگ روم میں راؤ احمد علی تشریف لائے۔ وہ معمر ہونے کے باوجود مجھے خاصے چاق و چوبند نظر آئے۔ اپنی سرخ خطرناک آنکھوں سے مجھے گھورا اور آمد کی وجہ پوچھی۔ میں نے جواب دیئے بغیر کوٹ کی جیب سے آپ کا دیا ہوا لفافہ نکالا۔ اور ان کی طرف بڑھا دیا۔
اسی اثناء میں ایک جوان شخص جو غالباً ان کا بیٹا تھا ، خاموشی سے آکر بیٹھ گیا تھا۔ مجھ سے وہ لفافہ لے کر راؤ احمد علی نے اپنے بیٹے کی طرف بڑھادیا۔ بیٹے نے لفافہ کھول کر پڑھا تو اس کے چہرے کی رنگت بدل گئی۔ اس نے راؤ احمد علی سے کہا۔
“آؤ، ابا جی ۔ ” بیٹے کے ساتھ راؤ احمد علی بھی حویلی کے اندر چلے گئے۔ اب میں ڈرائنگ روم میں اکیلا رہ گیا۔ کچھ دیر کے بعد ان کا بیٹا دوبارہ ڈرائنگ روم میں آیا اور مجھ سے بولا۔
” ٹھیک ہے جاؤ ۔ ” اس کی یہ بات سن کر میں خاموشی سے اٹھا اور حویلی سے باہر نکل آیا۔ اس کے بعد میں نے سڑک پر آکر لاہور کے لئے بس پکڑی اور رات آٹھ بجے تک اپنے گھر پہنچ گیا۔ کھانا کھا کر میں نے سوچا کہ ماڈل ٹاؤن جاکر آپ کو صورتحال سے آگاہ کر دوں ۔
گھر سے نکل کر گلی میں آیا تو اندھیرے میں کھڑی گاڑی سے اچانک تین چار بندے باہر نکلے اور مجھے گاڑی میں ڈال کر آگے بڑھ گئے۔ میری آنکھوں پر کالی پٹی باندھ دی گئی۔ اور ریوالور کی نال پہلو میں چبھا کر خاموش بیٹھے رہنے کی دھمکی دی گئی۔
ایک لمبے سفر کے بعد مجھے گاڑی سے اتارا گیا۔ کسی نے میرا ہاتھ پکڑ کر میری رہنمائی کی۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے کہاں لے جایا گیا۔ جہاں لے جایا گیا۔ وہاں مجھے دھکا دے کر گرا دیا گیا۔ یہ کوئی بستر تھا۔ پھر میرا کوٹ اتار کر قمیص کی آستین چڑھائی گئی اور ابھی میں اندازہ نہیں کر پایا تھا کہ وہ لوگ کیا کرنے والے ہیں کہ میرے بازو میں ایک انجکشن بھونک دیا گیا۔ انجکشن کی دوا اندر جاتے ہی مجھے چکر آنے شروع ہو گئے اور چند لمحوں بعد ہی میں اپنے ہوش گنوا بیٹھا ۔ پھر جب میری آنکھ کھلی تو میں اسپتال میں تھا۔ “
” راشد تم خوفزدہ تو نہیں ہو۔ ؟” راشد سے ساری روداد سن لینے کے بعد محسن راؤ نے پوچھا
“ارے نہیں سر خوفزدہ ہونے کی بھلا کیا بات ہے۔ ویسے میری سمجھ میں ایک بات نہیں آئی کہ یہ کون لوگ تھے اور انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ جبکہ میری کسی سے کوئی دشمنی بھی نہیں ہے ۔ ” راشد نے کہا۔
” اصل میں ان کا مقصد تمہیں خوفزدہ کرنا نہیں تھا بلکہ تمہارے ذریعے مجھے خوفزدہ کرنا تھا۔ وہ جو لوگ بھی تھے انہیں میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ دشمنی ان کی تمہارے ساتھ نہیں میرے ساتھ ہے۔ بہر حال تم بے فکر ہو جاؤ۔ اگر چاہو تو ایک دو دن کی چھٹی لے کر گھر پر آرام کرو۔ جب طبیعت بالکل بحال ہو جائے تو پھر ریستوران آجانا۔ ” محسن راؤ نے ہمدردی سے کہا۔
” نہیں سر میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ انشاء اللہ میں کل ضرور ریستوران آؤں گا۔ “
“ٹھیک ہے پھر تم جاؤ ۔ ” محسن راؤ نے اس سے مخاطب ہو کر کہا۔
پھر اس نے رفیق کو آواز دے کر اسے ہدایت کی۔ “جاؤ ڈرائیور سے کہو کہ راشد صاحب کو ان کے گھر چھوڑ آئے”
“سر میں چلا جاؤں گا، اس زحمت کی ضرورت نہیں۔ ” “کوئی بات نہیں۔ ڈرائیور تمہیں چھوڑ آئے گا۔ “.
“سر، جیسی آپ کی مرضی۔ “

“او کے، اللہ حافظ ” محسن راؤ نے کھڑے ہو کر اس سے ہاتھ ملایا۔
اور راشد کے جانے بعد محسن راؤ نے انکل عامر کی طرف دیکھا جو ابھی تک کچھ نہیں بولے تھے۔ خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔

“جی انکل، آپ کیا کہتے ہی بیچ اس مسئلے کے۔ “
” راؤ احمد علی نے بڑے شاطرانہ انداز میں وار کیا ہے۔ ” ” اس کے نام ایف آئی آر کٹوا دوں ۔ ؟”
“کس بات کی۔ “
“میرے ملازم راشد کو اغواء کرنے کی۔ ؟
” تمہارے پاس کیا ثبوت ہے یہ کام راؤ احمد علی نے کیا ہے، بھئی یہ سیدھا سیدھا منشیات کے عادی نوجوان کا کیس ہے۔ جو بھاری مقدار میں کسی نشہ آور چیز کا انجکشن لے کر بے ہوش ہو گیا۔ احمد علی اغواء کرواتا تو اپنے علاقے سے کرواتا۔ اسے مارنا ہوتا تو قاتلانہ حملہ کرواتا۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر راشد مر بھی جاتا، تب بھی ہم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ “
“اور وہ تحریر جو اس کی کوٹ سے بر آمد ہوئی۔ ؟”
” ایسی تحریر تو کوئی بھی لکھ سکتا ہے۔ بلکہ وہ تحریر تم نے خود ہی لکھی تاکہ راؤ احمد علی کو پھنسایا جاسکے۔۔”
“اچھا تو یہ بات ہے۔ “ محسن راؤ نے ساری صورتحال سمجھ کر کہا۔
” بالکل۔ ” انکل عامر بولے ۔ راؤ احمد علی لومڑی کی طرح چالاک اور بھیڑیے کی طرح خونخوار شخص ہے۔ “
“میں پھر شیر بن جاتا ہوں، ایک ہی وار میں ادھیڑ کر پھینک دیتا ہوں۔ “ محسن راؤ طیش میں آگیا

اتنے میں تانیہ نے اندر جھانکا اور کسی غیر بندے کو ڈرائنگ روم میں نہ پاکر وہ اندر آگئی۔ اس نے اندر آتے ہوئے محسن راؤ کا جملہ سن لیا تھا۔ اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ “کیا ہوا ؟؟ بھائی جان، کیوں بگڑ رہے ہیں۔؟؟”
“ آؤ، تانیہ، ذرا تم ہی اپنے بھائی کو سجھاؤ، یہ مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ” انکل عامر نے شکوہ کیا
“تانیہ تم جانتی ہو کہ راشد کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کس نے کیا۔ ؟”
” جو حالات اب تک میرے سامنے آئے ہیں، میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ یہ ساری کارروائی راؤ احمد علی کی ہے۔ “
“پھر۔ ” محسن راؤ نے انکل عامر کو دیکھا۔

“کیا انکل عامر اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ ” تانیہ نے پوچھا۔
“سو فیصد متفق ہوں۔ میں نے کب کہا کہ یہ کام اس کا نہیں ۔ ” انکل عامر نے گہرا سانس لے کہا۔
لیکن ایک بات میں تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں کہ تم میرے لئے بے حد قیمتی ہو۔ تم اپنی بہن لئے انمول ہو۔ بے پناہ محبت کی وجہ سے شمشاد علی نے اسے اپنے سے دور رکھا۔ تانیہ کو ماں کی محبت ملی نہ باپ کی شفقت، اب کیا تم اس سے بھائی کا پیار اس کا تحفظ اس سے چھین لینا چاہتے
“خدا نخواستہ ۔ ” محسن راؤ نے تانیہ کو محبت بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔
“تو پھر شیر بن کر راؤ احمد علی کو ادھیڑنے کی خواہش دل سے نکال دو۔ میں تمہیں جنگل میں نہیں جانے دوں گا۔ جنگل کا قانون نہیں اپنانے دوں گا۔ ” یہ کہتے کہتے انکل عامر کا گلا رندھنے لگا۔
“دیکھو، محسن، اگر ہم نے راؤ احمد علی کو قتل بھی کروا دیا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بلکہ یہ کیس مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔ “
” انکل، میرا کلیجہ تو ٹھنڈا ہو جائے گا نا، اس نے میرے بابا کو مارا ہے۔ میں اپنا انتقام لینے میں حق بجانب ہوں۔”
” قاتل بننا چاہتے ہو ۔ ؟ ” انکل عامر نے سوال کیا،

اس سے پہلے کہ محسن راؤ کوئی جواب دیتا، وہ تانیہ سے مخاطب ہو کر بولے۔
“کیوں تانیہ، کیا تم چاہو گی کہ تمہارا بھائی قاتل بن جائے ۔ ؟؟ “
“نہیں انکل، بھول کر بھی نہیں۔ ” تانیہ نے فوراً جواب دیا۔ ” میں اپنے بھائی کو کھونا نہیں چاہتی۔”
” سن لیا محسن ” انکل عامر نے تانیہ کو تو صیفی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
” دیکھو، محسن تمہارے آجانے سے ہمارا کیس اب بے حد مضبوط ہو گیا ہے۔ اب ہم نئے سرے سے راؤ احمد علی پر مقدمہ قائم کریں گے۔ بالآخر اسے ہماری زمینیں ، ہماری جائداد ہمارے حوالے کرنا ہوگی۔ رہی بات انتقام کی تو تم یہ کیوں بھول جاتے ہو کہ اللہ سب سے بڑا منتقم ہے۔ اس پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے اس انتقام کے مسئلے کو۔ وہ لے گا ہمارا انتقام اور مجھے یقین ہے کہ اس طرح لے گا کہ دنیا دیکھے گی۔ راؤ احمد علی کا انجام دیکھ کر دنیا عبرت پکڑے گی۔ “
پتہ نہیں انکل عامر کے ان جملوں میں کیا اثر تھا کہ محسن راؤ کے دل کو قرار سا آگیا۔ وقتی طور پر اس کے دل میں بھڑکتے انتقام کے شعلے سرد سے پڑ گئے۔ تانیہ کے چہرے پر بھی کچھ اطمینان جھلکنے لگا۔ اگرچہ شروع میں جب اسے اپنے بابا کے قتل کے بارے میں معلوم ہوا تھا تو اس کے دل میں انتقام کی آگ اس قدر بھڑکی تھی کہ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ اڑ کر چلی جائے اور راؤ احمد علی کو بھسم کر کے آجائے۔ لیکن جب سے وہ محسن راؤ کو لے کر اپنی دنیا میں واپس آئی تھی تو اب وہ ایک لمحے کی جدائی بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ وہ اپنے بھائی کو دیکھ کر جیتی تھی۔ اب وہ اندر سے نہیں چاہتی تھی کہ اس کا بھائی کسی قتل و غارت گری میں ملوث ہو۔ آخر وہ صلح جو، امن پسند اور آرٹ سے دلچسپی رکھنے والے باپ کی بیٹی تھی۔ پھر دولت سے اسی قدر بے نیاز تھی جس قدر اس کے والدین تھے۔
انکل عامر کی بات سے تانیہ نے اتفاق کیا۔ طے ہوا کہ زمینوں اور جائداد کی واپسی کے لئے نیا مقدمہ دائر کیا جائے گا۔ اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی ہرگز کوشش نہیں کی جائے گی۔ آخر راؤ احمد علی اور محسن راؤ میں کچھ تو فرق ہونا چاہئے ۔۔

محسن راؤ خاموشی سے بیٹھا سب سنتا رہا۔ بولا کچھ نہیں، اس نے اس فیصلے کو قبول کر لیا تھا یا پھر اس نے اپنے دل میں کوئی اور فیصلہ کر لیا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا۔
بہر حال جائداد کی بحالی کے لئے وکیل کے ذریعے نوٹس بھجوا دیا گیا۔ اس طرح مقدمے کا آغاز ہو گیا۔ قانونی کارروائی کی ابتداء ہو گئی۔ اور اس مقدمے کی نگرانی انکل عامر نے خود اپنے ذمے لے لی۔
محسن راؤ نے ریستوران کا چارج سنبھالنے کے بعد آرٹ گیلری پر توجہ دی۔ اس آرٹ گیلری کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے نئے سرے سے تزئین و آرائش کروائی۔ ابھی تک یہ آرٹ گیلری ان کے باپ کا شوق تھی۔ یہاں بڑے محدود پیمانے پر منتخب آرٹسٹوں کے فن پاروں کی نمائش ہوتی تھی۔ اور اس نمائش کو دیکھنے والے بھی بہت منتخب ہوتے تھے۔ لیکن محسن راؤ نے اس آرٹ گیلری کو عام کرنے کی ٹھانی۔ اس نے اس آرٹ گیلری کو پبلک کے لئے کھول دیا۔ سارا انتظام کرنے کے بعد اس نے اس آرٹ گیلری کو تانیہ کے حوالے کر دیا۔ تانیہ کو آرٹ سے فطری لگاؤ تھا۔ اس کا ہاتھ بہت اچھا تھا۔ اس نے ایک نامور خاتون آرٹسٹ کی شاگردی اختیار کرلی۔ اور بہت تیزی سے آرٹ کے بنیادی رموز سیکھ لئے۔ اب وہ اپنی آرٹ گیلری کے دفتر میں بیٹھی پینٹنگ بنانے میں مصروف رہتی۔

ایک دن تانیہ اپنے کام میں مصروف تھی کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔
“ہیلو۔ ” اس نے ریسیور اٹھایا۔
“دیکھئے، مجھے اس آرٹ گیلری کے مالک سے بات کرنی ہے۔ ” ادھر سے کسی خاتون کی باوقار آواز سنائی دی۔
“جی، فرمائیے۔ ” تانیہ نے پر اعتماد انداز میں جواب دیا۔
“کیا آپ اس آرٹ گیلری کی مالک ہیں۔ ” ادھر سے پوچھا گیا۔
” مجھے اصل میں مالک کہلوانا پسند نہیں ہے۔ آپ مجھے اس آرٹ گیلری کی منتظمہ کہہ سکتی ہیں۔۔” تانیہ نے انکساری سے کہا۔
“آپ کا نام کیا ہے۔ ؟” توصیفی انداز میں پوچھا گیا۔
“جی، میرا نام تانیہ ہے۔ ” تانیہ نے بتایا۔
“دیکھئے تانیہ میں اصل میں لاہور میں نہیں رہتی۔ مجھے کسی نے اس آرٹ گیلری کے بارے میں بتایا تھا۔ میں نے سوچا۔ بات کرلوں ۔ “
“جی فرمائیے ۔ ” تانیہ نے خوش اخلاقی سے کہا۔
“میرے پاس کچھ پینٹنگز ہیں، ان کی نمائش کے سلسلے میں آپ سے بات کرنا چاہتی
“ویلکم ۔ ” تانیہ نے خوش مزاجی سے کہا۔ ” تشریف لا لائیے۔ “
“کل کسی وقت حاضر ہو جاؤں ؟؟۔ ” پوچھا گیا۔
“جب جی چاہے آئیں۔ میں دن بھر یہیں ہوتی ہوں۔ ” جواب دیا گیا۔
“پھر بھی۔ ” وقت کا تعین چاہا گیا۔
“صبح میں آجائیں، گیارہ بجے تک۔ ” تانیہ نے وقت کا تعین کر دیا۔
“جی ٹھیک ہے۔ ” یہ کہہ کر ادھر سے فون رکھ دیا گیا۔

فون جب بند ہو گیا تو تانیہ کو خیال آیا کہ اس نے فون کرنے والی کا نام تو پوچھا ہی نہیں۔ نہ یہ کہ وہ کہاں سے بول رہی ہے۔ کون ہے۔ چلو خیر کل تو وہ آئے گی ہی۔ کل ساری تفصیلات معلوم ہو جائیں گی۔ یہ سوچ کر وہ برش پکڑ کر کینوس پر اسٹروک لگانے لگی۔
شام کو جب وہ گھر پہنچی تو محسن راؤ چائے کی میز پر اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے محسن راؤ کو ہاتھ کے اشارے سے دو منٹ کا اشارہ کیا۔ اور منہ ہاتھ دھو کر چائے کی میز پر آگئی۔
” ہاں بھئی آرٹسٹ آج کتنی تصویریں بنالیں ۔ ؟ ” محسن راؤ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“تصویریں ! ” تانیہ نے حیرت زدہ ہو کر کہا۔ ” بھائی جان، کیوں مذاق کر رہے ہیں۔ مجھے تو ایک تصویر پر کام کرتے ہوئے ہی پندرہ دن ہو گئے ہیں۔ “
” او ہو اس قدر سست روی سے کام ہوگا۔ پھر تو پانچ سال بعد تصویروں کی نمائش ہو سکے گی۔ “
“خیر سے مجھے نمائش کی کوئی جلدی بھی نہیں۔ “ تانیہ نے کیتلی سے چائے نکالتے ہوئے کہا۔
“کوئی ہنگامہ کرو بھئی، تمہاری آرٹ گیلری بڑی ٹھنڈی جا رہی ہے ۔ “
“بھائی جان، آج ایک خاتون کا فون آیا تھا۔ وہ اپنی تصویروں کی نمائش چاہتی ہیں۔ ۔ “
اگر تصویر”یں اچھی ہیں تو پھر فوراً نمائش کا انتظام کرو۔ “ محسن راؤ نے بسکٹ کھاتے ہوئے کہا
“تصویروں کا تو کل پتہ چلے گا۔ وہ کل گیارہ بجے آئیں گی۔ “
ابھی وہ دونوں باتیں ہی کر رہے تھے کہ باہر سے تڑ تڑ کی آوازیں آنے لگیں۔

“بھائی جان، فائرنگ ۔ ” تانیہ نے سہم کر کہا۔
تب ہی ڈرائنگ روم کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹنے کی آواز آئی۔ محسن راؤ نے جلدی سے کہا۔

“تانیہ فوراً نیچے بیٹھ جاؤ۔ یہ فائرنگ تو ہمارے گھر پر ہو رہی ہے۔ “
تانیہ فوراً کرسی سے اتر کر نیچے بیٹھ گئی۔ تب تک محسن راؤ بھی زمین پر بیٹھ چکا تھا۔
یہ کھیل مشکل سے ایک دو منٹ کا تھا۔ فائرنگ کرنے والی گاڑی فائرنگ کر کے جاچکی تھی۔
محسن ن راؤ نے باہر نکل کر جانا چاہا لیکن تانیہ نے اسے باہر نہ جانے دیا۔ جب اچھی طرح اطمینان ہو گیا کہ فائرنگ کرنے والے جاچکے ہیں تو وہ دونوں بہن بھائی گیٹ پر پہنچے۔ گیٹ پر بھی طبع آزمائی کی گئی تھی۔ وہ گولیوں سے چھلنی ہوچکا تھا۔ گیٹ سے ملحق دیوار پر بھی گولیوں کے نشان تھے۔ گھر کے ڈرائنگ روم پر بھی اچھی خاصی نشانہ بازی کی گئی۔ کھڑکیوں کے متعدد شیشے ٹوٹ چکے تھے۔
پاس پڑوس کے لوگ محسن راؤ کو باہر دیکھ کر ہمت کر کے اپنے گھروں سے نکل آئے تھے۔ کسی نے فائرنگ کرنے والوں کو نہیں دیکھا تھا۔ اتفاق سے اس وقت گھر کا ملازم رفیق سبزی ترکاری لینے باہر نکلا ہوا تھا۔ جب وہ واپس آرہا تھا تو اس نے ایک سفید گاڑی کو کھڑے ہوئے اور اس گاڑی سے فائرنگ کرتے ہوئے لوگوں کو دیکھا تھا۔ وہ تعداد میں تین تھے۔ ان کے منہ پر نقاب چڑھے ہوئے
تھے۔ فائرنگ دو بندوں نے بیک وقت کی ۔ ایک نے گیٹ کو نشانہ بنایا، دوسرے نے ڈرائنگ روم پر فائرنگ کی۔ اور گاڑی کو تیزی سے بھگاتے ہوئے گلی میں مڑ گئے۔
محسن راؤ کوٹھی کا گیٹ بند کروا کر واپس چائے کی میز پر آگیا۔ اس نے تانیہ کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“کم بختو نے چائے کا مزہ بھی کر کرا کر دیا۔ “
“بھائی جان، اس فائرنگ کا مقصد کیا ہو سکتا ہے۔؟ ” تانیہ فکر مند تھی۔
” ہمیں خوفزدہ کرنا ۔ ” محسن راؤ نے اطمینان سے کہا۔
“اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے ؟؟۔ “
“ایک ہی شخص ہے وہ … جس کا نام ہے راؤ احمد علی ۔ ” “بھائی جان، وہ لوگ گھر میں بھی داخل ہو سکتے تھے اور کوئی جانی نقصان بھی پہنچا سکتے تھے۔ “
خدشہ ظاہر کیا گیا۔
” ہاں، ایسا ہو سکتا تھا وہ بغیر کسی رکاوٹ کے کوٹھی میں داخل ہو سکتے تھے۔ ” خدشے کی تائید کی گئی
“ہمیں سیکورٹی گارڈز کا انتظام کرنا چاہئے ۔ ” تانیہ نے فکر مند ہو کر کہا۔

محسن راؤ چائے سے فارغ ہو کر لاؤنج میں رکھے ٹیلیفون کی طرف بڑھا۔ اس نے انکل عامر کو ٹھی پر ہونے والی فائرنگ سے آگاہ کیا۔ انکل عامر نے زیادہ بات سننے کی کوشش ہی نہیں کی۔
انہوں نے کہا ،”میں آرہا ہوں ۔ ” یہ کہہ کر فون رکھ دیا۔ وہ آئے تو انہوں نے کوٹھی کا معائنہ کیا دونوں کی خیریت پوچھی۔ ساری تفصیل معلوم کی پھر بولے۔
” چلو، پولیس اسٹیشن چلتے ہیں۔ اس واقعے کی پورٹ ضروری ہے۔ “

تھانے میں رپورٹ درج کرادی گئی۔ فائرنگ کے سلسلے میں راؤ احمد علی پر شبہ ظاہر کیا گیا۔ پولیس کو بتایا گیا کہ راؤ احمد علی کے سوا ہمارا کوئی دشمن نہیں۔ پچھلے ایس ایچ او کا تبادلہ ہو چکا تھا۔ یہ کوئی نیا انسپکٹر آیا تھا۔ اس کا نام جہانگیر بٹ تھا۔ اسے راؤ احمد علی کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ انکل عامر نے اسے تفصیل سے سمجھایا۔ یہ بھی بتایا کہ اسی کوٹھی پر دو ملازمین کا قتل بھی ہو چکا ہے۔ تب بھی ہمارا یہی شبہ تھا کہ یہ کام راؤ احمد علی کے بندوں نے کیا ہے کیونکہ وہ دونوں میاں بیوی راؤ شمشاد علی قتل کے سلسلے میں بہت کچھ جانتے تھے۔
پچھلے واقعہ کی طرح پولیس نے اس فائرنگ کی بھی روایتی انداز میں کارروائی کی۔ اور پھر معاملہ سرد خانے میں چلا گیا۔ انکل عامر اور محسن راؤ دونوں ہی جانتے تھے کہ کیا ہو گا۔ لیکن انہوں نے یہ رپورٹ محض قانونی کارروائی کے طور پر کی تھی۔ آگے چل کر یہ رپورٹ مقدمے کے سلسلے میں معاون ثابت ہو سکتی تھی۔

محسن راؤ نے فوری طور پر دو گارڈ رکھے۔ انہیں گیٹ پر کھڑا کرنے کے بجائے اندر سرونٹ کوارٹرز کے دروازے پر کھڑا کیا۔ تاکہ کسی ممکنہ حملے پر موثر طور پر کارروائی کر سکیں۔ گیٹ پہ کھڑے ہوئے گارڈوں کو ختم کر کے کوٹھی کے اندر داخل ہونا کوئی مشکل مسئلہ نہ تھا۔ لیکن سیکورٹی گارڈوں کا کوٹھی کے اندر ہونے کی وجہ سے حملہ آوروں کو یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا کہ گارڈ کہاں ہیں؟ حملہ ہونے کی صورت میں یہ گارڈ بہتر طریقے سے کارروائی کر سکتے تھے۔۔
پھر محسن راؤ بھی ہر وقت اپنے پاس ریوالور رکھنے لگا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ تانیہ اب گھر سے کم سے کم ہی نکلے لیکن وہ آرٹ گیلری چھوڑنے اور گھر میں بند ہونے پر راضی نہ تھی۔ تب محسن راؤ نے اس کے لئے بھی ایک گارڈ کا انتظام کر دیا جو اس کی گاڑی کے پیچھے موٹر سائیکل پر چلتا تھا۔ تانیہ اس فائرنگ سے متاثر تو ہوئی تھی لیکن اتنی نہیں کہ وہ گھر سے نکلنا ہی ترک کر دیتی۔ وہ دوسرے دن اپنے وقت مقررہ پر آرٹ گیلری پہنچ گئی تھی۔ اس نے گیارہ بجے کا ٹائم دیا تھا۔ اس وقت پونے گیارہ بجے تھے۔

وہ جانے کیوں اس خاتون کا بڑی بے قراری سے انتظار کر رہی تھی۔ خیر خدا خدا کر کے گیارہ بجے۔ تب ہی آرٹ گیلری کے دروازے پر گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔ چوکیدار نے گیٹ کھول دیا۔ گاڑی اندر آگئی۔ تھوڑی ہی دیر میں اسے راہداری میں کھٹ کھٹ کی آواز سنائی دی۔ یہ جوتوں کی ہیل کی آواز تھی۔ تانیہ اپنی میز کے پیچھے سنبھل کر بیٹھ گئی۔
وہ خاتون اندر داخل ہوئیں۔ وہ سفید ساڑی میں اس قدر گریس فل لگ رہی تھی کہ تانیہ پلکیں جھپکانا بھول گئی۔ اس خاتون کے فوراً بعد ایک سادہ لباس میں کلاشنکوف بردار شخص اندر داخل ہوا
اس نے تانیہ کو گھور کر دیکھا۔ پھر کمرے کا جائزہ لیا اور الٹے قدموں واپس چلا گیا۔
“معاف کیجئے گا، آپ تانیہ ہیں۔ ؟” اس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔
‘جی ” تانیہ نے مختصر سا جواب دیا۔
“حیرت ہے۔ ” وہ آگے بڑھتے ہوئے بولی۔ ” آپ تو بہت کم عمر ہیں۔ “
“آپ کا کیا خیال تھا کہ یہاں کوئی پچاس ساٹھ سال کی خاتون بیٹھی ہوگی۔ ” تانیہ ہنسی
“میرا خیال تھا کہ کم از کم میری ہم عمر منتظم ہوگی یہاں کی۔ ” اس پر کشش خاتون نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
“کمال ہے۔ ” تانیہ نے کھڑے ہو کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اس کا ہاتھ بڑا ملائم، گداز او جاذب نظر تھا۔
تانیہ نے گرم جوشی سے ہاتھ ملا کر اسے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
“تشریف رکھئے۔ “
“شکریہ ” اس نے بڑے دلآویز تبسیم کے ساتھ کہا۔
” کل آپ کا فون آیا تو مجھے یہ خیال ہی نہ رہا کہ آپ کا نام پوچھ لوں اور نہ ہی خود سے آپنے اپنا نام بتایا۔ “

” میرا نام بڑاپرانا سا ہے، اس لئے بتانے سے احتراز کرتی ہوں ۔ “
” لو یہ کیا بات ہوئی؟ نام صرف نام ہوتا ہے پرانا یا نیا نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو لوگ بیس سال کے بعد اپنا نام تبدیل کر لیا کرتے۔
“ ہاں، کیا نام ہے آپکا ؟”
” میرا نام نرگس انصاری ہے۔ “
” واه، اتنا پیارا نام تو ہے۔ ” تانیہ نے توصیفی انداز میں کہا۔ ” آپ کا کام کہاں ہے ؟”
“میری پینٹنگز گاڑی میں ہیں، ابھی آپ کے سامنے آئی جاتی ہیں۔ “
نرگس س انصاری ابھی یہ بات کہہ ہی رہی تھی کہ دو بندے بڑے بڑے فریم اٹھائے اندر داخل ئے۔ وہ کل بیس تصویریں تھیں۔ اور پیکڈ تھیں، ان پر بھورا کاغذ لپٹا ہوا تھا۔ شاید وہ تصاویر براہ راست فریم کرنے والے کی دکان سے لائی گئی تھیں۔ جب سب تصویریں آگئیں تو تانیہ نے کہا۔
“آپ اجازت دیں تو ان کا گھونگھٹ اٹھا کر دیکھ لوں ۔ “
“ہاں، ہاں کیوں نہیں۔ لیکن ان تصویروں کو دیکھنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھیئے گا کہ میں با قاعدہ آرٹسٹ نہیں ہوں۔ یہ ساری تصویریں میں نے پندرہ سال کی طویل مدت میں پینٹ کی ہیں۔۔
جب اتنی تصویر میں اکٹھا ہو گئیں تو جی چاہا کہ اسے لوگوں کے سامنے رکھوں ۔ “
” یہ تو آپ نے اچھا کیا۔ ایسے کام کا کیا فائدہ جو لوگوں کے سامنے نہ آئے۔ “
“ایک بات اور میں آپ سے کہنا چاہتی ہوں۔ میں اپنا کام ضرور آرٹ کے چاہنے والوں کے سامنے پیش کرنا چاہتی ہوں لیکن خود سامنے آنا نہیں چاہتی۔ اگر آپ نے ان تصویروں کی نمائش قبول کر لی تو میں اس نمائش میں ایک وزیٹر کی حیثیت سے آؤں گی اور خاموشی سے لوگوں کے خیالات سننا چاہوں گی۔ ” یہ کہہ کر اس نے ایک تصویر کے اوپر سے کاغذ پھاڑ دیا۔
تانیہ پہلی ہی تصویر دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ اور جب اس نے ایک ایک کر کے ساری تصویریں دیکھیں تو وہ دم بخود رہ گئی۔ ہر تصویر دیکھنے کے بعد وہ حیرانی سے نرگس انصاری کو دیکھتی۔ وہ پینٹنگز کے اعتبار سے تو زیادہ پختہ نہ تھیں۔ لیکن تصویروں میں جو کچھ دکھایا گیا تھا، وہ بہت پختہ تھا۔ ان تصویروں میں آرٹسٹ کے ذاتی جذبات بکھرے ہوئے تھے۔
ساری تصویریں دیکھ لینے کے بعد تانیہ نے بڑے جوش سے کہا۔
” میں ان تصاویر کی نمائش اس دهوم دھام سے کروں گی کہ پورے ملک میں آپ کے چرچے ہو جائیں گے۔ “
” تانیہ مجھے شہرت نہیں چاہئے۔ ” اس نے بڑی بے نیازی سے کہا۔
“ہاں، مجھے اندازہ ہے، اس لئے آپ نے ان تصاویر پر اپنا نام بھی نہیں لکھا۔ ”تانیہ نے نرگس انصاری کو پر شوق نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ایک بات پوچھوں، سچ سچ بتائیں گی۔ “
” ہاں، پوچھیں تانیہ, میں جھوٹ کیوں بولوں گی۔ ” وہ تھوڑا سا حیران ہو کر بولی۔
“کیا آپ کا نام واقعی نرگس انصاری ہے۔ ؟ ” یہ ایک عجیب سوال تھا۔
اس سوال پر نرگس انصاری کو ایک دم کرنٹ سا لگا۔ اس نے ایک نظر تانیہ کو دیکھا اور پھر اپنی آنکھوں پر پلکوں کا شامیانہ ڈال لیا۔ اور دھیرے سے بولی۔ “نہیں، یہ میرا اصل نام نہیں ہے۔ “
“زندہ باد ” تانیہ ایک دم خوشی سے اچھل پڑی۔
“یہ جان کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ یہ آپ اصل نام نہیں ہے۔ “
“آپ کی خوشی میرے لئے حیرت انگیز ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میرا نام نرگس ہے یا عابده ؟ “
آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ اس سے واقعی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا نام نرگس ہے یا عابدہ لیکن اگر آپ کا نام نادرہ ہو تو فرق پڑتا ہے۔ ” تانیہ نے اسے ترچھی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کے ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ تھی۔
تانیہ کی زبانی اپنا نام سن کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔
تانیہ نے اس کی پہلی تصویر دیکھتے ہی اسے پہچان لیا تھا۔ اس تصویر میں درخت ہی درخت تھے اور انہی درختوں کے بیچ پتھر پر ایک مردانہ قمیص پڑی ہوئی تھی۔ ایک تصویر میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی گھوڑوں پر بیٹھے باتیں کرتے جارہے تھے۔ پس منظر میں کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ ایک تصویر میں ایک لڑکی گھوڑے پر بیٹھی تھی اس کے چہرے کے تاثرات سے پتہ چلتا تھا جیسے وہ کسی کو ڈھونڈ رہی ہو۔ غرض جتنی تصویریں تھیں۔ سب کی سب اس کہانی کی عکاسی کرتی تھیں جو کالے چراغ نے اسے سنائی تھی۔ اور اب اس بات میں کوئی شبہ نہ رہا تھا کہ وہ اس کے بھائی محسن راؤ کی نادرہ تھی۔

“اپنا نام سن کر حیران ہو گئیں نا۔ ” تانیہ نے شوخی سے کہا۔
“میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ تانیہ آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہوا۔ “
“سب سمجھ میں آجائے گا۔ میں نے طے کر لیا ہے کہ اب مجھے کیا کرنا ہے۔ میں ان تصاویر کا افتتاح ایک بہت بڑے آدمی سے کراؤں گی۔ آپ دیکھتی جائیں کہ میں کیا کرتی ہوں۔ افتتاح والے دن میں آپ کو ایک ایسا سرپرائز دوں گی کہ آپ زندگی بھر یاد رکھیں گی۔ “

پھر تانیہ نے نادرہ کو پر تکلف چائے پلائی ۔ نادرہ وہاں جتنی دیر بیٹھی رہی تانیہ سے یہی پوچھتی رہی کہ اسے اس کا اصل نام کیسے معلوم ہوا۔ تانیہ بھی ایک شاطر چیز تھی اس نے اسے کچھ بتا کر نہ دیا، بس یہی کہتی رہی کہ وہ افتتاح کے دن کا انتظار کرے ۔ اس راز سے کہ اس نے نادرہ کو کس طرح پہچان لیا۔ اسی دن پردہ اٹھے گا۔

نادرہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھ کر جب جانے کے لئے اٹھی تو تانیہ اسے گاڑی تک چھوڑنے کے لئے باہر آئی۔ کلاشنکوف بردار شخص نے اسے آتا دیکھ کر جلدی سے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا۔ نادرہ کے بیٹھنے کے بعد دروازہ بند کیا اور خود ڈرائیور کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ گاڑی جب گیٹ سے باہر نکل گئی تو وہ خوشی سے جھومتی ہوئی اپنے دفتر میں آئی۔ اس نے نادرہ کی بنائی ہوئی تصویروں کو ایک ایک کرکے دوبارہ دیکھا۔ اس کا جی چاہا کہ ابھی فون کر کے محسن راؤ کو بلا لے اور یہ تصویریں دکھا دے لیکن پھر وہ کچھ سوچ کر رک گئی۔ اس نے طے کر لیا کہ افتتاح والے دن سے پہلے ایک دوسرے کے بارے انہیں ہوا نہیں لگنے دے گی۔
بس افتتاح والے دن وہ ایک دوسرے کو دیکھیں گے۔ وہ لمحہ کس قدر حسین ہوگا۔ پھر اس سے اپنے دفتر میں ٹکا نہ گیا۔ عام طور سے وہ آرٹ گیلری سے چار پانچ بجے اٹھتی تھی۔
دوپہر کا کھانا اس کے لئے ریستوران سے آتا تھا۔ جبکہ محسن راؤ ایک بجے ریستوران سے اٹھ آتا تھا اور کھانا گھر پر کھاتا تھا۔ کھانا کھا کر وہ آرام کرتا۔ پھر شام کو تانیہ کے ساتھ چائے پی کر ریستوران چلا جاتا اور رات گئے واپس آتا۔
وہ گھر پہنچی تو محسن راؤ آچکا تھا۔ رفیق میز پر کھانا چن رہا تھا۔ تانیہ کمرے میں داخل ہوئی تو محسن راؤ نے اسے خوشگوار حیرت سے دیکھا۔ اور بولا۔
”بھئی، خیریت تو ہے۔۔۔ “
تانیہ اس قدر خوش تھی کہ وہ اپنے بھائی کے گلے میں بانہیں ڈالے بنا نہ رہ سکی۔
” بھائی جان، میرے پیارے بھائی جان ۔ ” اس نے بڑے پیار سے کہا۔
” یا اللہ خیر ….. آج تو بن بادل برسات ہو رہی ہے۔”
“آج میں بہت خوش ہوں، اتنی خوش کہ بتا نہیں سکتی۔“
“میرا خیال ہے کہ خاتون کچھ زیادہ ہی اچھی تصویریں لے کر آگئی ہیں۔ “
” اف.. بس مت پوچھیں . انہوں نے تو پاگل کر دیا اور جب آپ دیکھیں گے تو اپنے ہوش گنوا بیٹھیں گے۔ “
“تصویروں کو دیکھ کر۔ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
“تصویروں کو بھی اور انہیں بھی۔ ” تانیہ نے ایک ادائے خاص سے کہا۔
“کوئی بہت خوبصورت خاتون ہیں کیا۔ ؟؟
“بس بھائی جان، مجھ سے کچھ نہ پوچھیں۔ “
“چلیں نہیں پوچھتے۔ ہم خود دیکھ لیں گے۔ ہمیں آپ کی آرٹ گیلری میں آنے کی اجازت تو ہوگی۔۔؟”
” اجازت کیا معنیٰ ؟؟ ان تصاویر کا افتتاح آپ کریں گے۔ ” “ارے نہیں تانیہ لوگ کیا کہیں گے۔ بہن نے آرٹ گیلری کھول لی، افتتاح بھائی صاحب کے ہاتھوں ہو رہا ہے اندھا بانٹے ریوڑھی اپنے اپنوں کو دے۔ نا بھئی نا۔ “
” بھائی جان لوگ جو مرضی آئے کہیں۔ مجھے کسی کی پروا نہیں لیکن ان تصاویر کا افتتاح آپ کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔ میں بس اتنا جانتی ہوں ۔ “
پتہ نہیں بھئی تم کیا کہہ رہی ہو۔ میرے خیال میں تمہیں بھوک لگ رہی ہے۔ اسی لئے الٹی سیدھی باتیں کر رہی ہو۔ آؤ کھانا کھالو۔ “
“کھانا تو آج میں ایسا کھاؤں گی کہ آپ دیکھتے رہ جائیں گے۔ “
یا اللہ میری اکلوتی بہن پر رحم فرما۔ ” محسن راؤ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔
اور پھر کھانا کھانے میں مصروف ہو گیا۔
“بھائی جان، آپ کیا سمجھ رہے ہیں کہ میں پاگل ہو گئی ہوں ۔ “
“نہیں بھئی، بھلا میں ایسا سمجھ سکتا ہوں ۔ “
“میں واقعی پاگل ہو گئی ہوں۔ وہ آرٹسٹ تھی ہی ایسی “
“یا اللہ ۔ ” محسن راؤ نے اپنا سر تھام لیا۔ ”تانیہ، تمہیں اگر بھوک نہیں ہے تو کھانا مت کھاؤ,.لیکن مجھے تو کھانے دو۔ “
” مجھے بھوک کیوں نہیں ہے۔ مجھے تو زبردست بھوک ہے ۔ “
یہ کہہ کر وہ کھانے پر اس طرح ٹوٹی جس طرح لوگ شادی اور ولیمے کے کھانے پر ٹوٹتے ہیں۔
افتتاح والے دن بھی لوگوں کا کچھ اسی طرح کا حال تھا۔ لوگ ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ تانیہ نے انکل عامر کو اعتماد میں لے کر انہیں افتتاحی تقریب کا انچارج بنا دیا تھا۔ وہ ایک مقامی کالج میں پروفیسر تھے۔ وسیع تر تعلقات رکھتے تھے۔ انہوں نے اس تقریب میں لاہور کے منتخب لوگوں کو اکٹھا کر دیا۔
نادرہ کو تانیہ نے اپنے دفتر میں بٹھا دیا تھا۔ اس کے ساتھ صائمہ اور اس کی دوست بیٹھی تھیں۔ پھر وہ دفتر کا دروازہ بند کر کے باہر نکل گئی۔ وقت مقررہ پر محسن راؤ پہنچ گیا۔ وہ ایک اونچے قد کا گوری رنگت والا، حسین آدمی تھا۔ آج اس نے ڈارک براؤن سوٹ پہن رکھا تھا۔ اس رنگ نے اس کی شخصیت کو اور نکھار دیا تھا۔
فیتہ کاٹنے سے پہلے چند کلمات عامر نے آرٹسٹ کے بارے میں کہے۔
”خواتین و حضرات! یہ تصاویر دیکھ کر آپ تھوڑا سا چونکیں گے۔ یہ انوکھی تصاویر ہیں۔ فنی اعتبار سے ان کا معیار کیا ہے، اس کا فیصلہ تو آرٹ کو سمجھنے والے کریں گے لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ موضوع کے اعتبار سے آپ انہیں نیا پائیں گے۔ یہ ساری تصویریں تخلیقی ہیں۔ انہیں جن آرٹسٹ خاتون نے تخلیق کیا ہے وہ پردے کے پیچھے رہنا چاہتی ہیں۔ لہٰذا آپ فن دیکھئے اور چپھے فنکار کو داد دیجئے۔ اب میں محسن راؤ صاحب سے درخواست کروں گا کہ وہ قیتہ کاٹ کر نمائش کا باقاعدہ آغاز فرمائیں۔ “
تب تانیہ نے چاندی کی پلیٹ میں رکھی قینچی، اپنے بھائی کے سامنے کی۔ محسن راؤ نے مسکرا کر قینچی اٹھائی اور تالیوں کی گونج میں فیتہ کاٹ دیا۔ جب محسن راؤ دوسرے لوگوں کے ساتھ اندر تصاویر دیکھنے کے لئے جانے لگا تو تانیہ نے بڑے پیار سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اور سرگوشی میں بولی۔
“تصویریں دیکھنے سے پہلے تصویر والی کو دیکھ لیجیۓ “
وہ محسن راؤ کا ہاتھ پکڑے پکڑے دفتر کی طرف بڑھی۔

“وہ خاتون موجود ہیں یہاں ۔ ؟” محسن راؤ نے پوچھا۔
“جی۔ ” تانیہ نے جواب دیا۔
“لیکن وہ تو پردے کے پیچھے رہنا چاہتی ہیں۔ “
“آپ سے کیا پردہ . ان کا پردہ لوگوں سے ہے۔ ” تانیہ نے عجیب بات کہی۔
“دیکھو، تانیہ کہیں پٹوا نہ دینا۔ “ وہ پریشان ہو کر بولا۔
“ہے کسی میں اتنی جرأت جو میرے بھائی پر ہاتھ اٹھائے؟؟”

اپنے دفتر کے دروازے پر پہنچ کر اس نے دستک دی۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ دروازہ صائمہ نے کھولا۔ اس نے محسن راؤ کو دروازے پر دیکھ کر اسے سلام کیا۔ اور پھر تانیہ کی طرف دیکھا۔ جیسے اسکے حکم کی منتظر ہو۔

“صائمہ تم جاؤ اپنی دوستوں کے ساتھ نمائش دیکھو۔ ” “ٹھیک ہے۔ “
یہ کہہ کر صائمہ اندر کمرے میں چلی گئی۔ اس کے ساتھ ہی محسن راؤ نے اندر آنے کے لئے قدم اٹھائے تو تانیہ نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک کر شوخی سے بولی۔ ”صبر زرا صبر۔۔”

اتنے میں صائمہ اپنی دوستوں کو لے کر کمرے سے نکل گئی۔ تانیہ نے کمرے میں جھانک کر یکھا۔ نادرہ خاموشی سے کرسی پر بیٹھی تھی۔ دروازے کی طرف اس کی پیٹھ تھی۔
“جائیے، بھائی جان ….. اندر تشریف لے جائیے اور ملئے اس آرٹسٹ سے جو اپنی ذات میں شاہکار ہے۔ “
“تم میرے ساتھ آؤ ۔ “
” جی نہیں ، میں تصویریں دیکھنے جارہی ہوں۔ آپ کو اکیلے ہی اندر جانا ہوگا۔ ڈریں نہیں..”
“ڈر کس بات کا۔ “
یہ کہہ کر محسن راؤ دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہو گیا۔
اس کے اندر جاتے ہی تانیہ نے دروازہ باہر سے بند کر دیا اور مسکراتی ہوئی نمائش والے حصے میں چلی گئی۔ محسن راؤ بہت آہستگی سے کمرے میں داخل ہوا۔ نادرہ اس کی طرف پیٹھ کئے بیٹھی تھی۔ جب دروازہ زور سے بند ہوا تو اس نے ایک دم پلٹ کر دیکھا۔
ایک بجلی سی چمکی۔ بادل سے گرجے اور دلوں پر بوندا باندی شروع ہو گئی۔ اس طرح مل جاؤ گے کبھی، سوچا بھی نہ تھا۔

وه دروازہ بند ہونے کی آواز پر پلٹی تھی۔
جب اس نے پلٹ کر دیکھا تو اسے احساس ہوا جیسے ایک لمحے میں اس کی قسمت ہی پلٹا کھا گئی ہو۔ کمرے میں داخل ہونے والے خوبصورت شخص کو اس نے ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں پہچان لیا تھا
وہ اس کا محسن تھا۔
وہ تڑپ کر اٹھی۔
محسن جب کمرے میں داخل ہوا تو اسے سب سے پہلے بالوں کا سادہ سا جوڑا، سفید بلاؤز اور خوبصورت کمر نظر آئی۔ پھر وہ دروازہ بند ہونے کی آواز پر ایکدم پلٹی۔ اس کا پلٹنا غضب ہو گیا۔ یہ اس کی نگاہوں نے کیا دیکھا۔ اس کے در دل پر کس نے دستک دی۔ یہ کون آیا ۔

گزرے وقت کی گرد نے اگرچہ دونوں کے نقوش کسی قدر دھندلا دیئے تھے۔ لیکن محبت کرنے والے صرف چہروں سے ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے۔ آنکھوں سے زیادہ ان کے دل پکار اُٹھے۔۔
محسن کا دل بھی پکار اٹھا۔
” ارے یہ تو اس کی نادرہ ہے۔”
وہ تڑپ کے آگے بڑھا
” نادرہ ، یہ تم ہو۔۔۔؟”
.وہ بے اختیار اس کی بانہوں میں سما گئی اور روپڑی۔ ”ہاں، یہ میں ہوں، تمہاری نادرہ ۔ “

محسن راؤ نے اسے خود سے الگ کیا۔ اس کی ٹھوڑی کو اپنی دو انگلیوں سے اٹھایا۔ نادرہ کی کجراری آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ رہی تھیں اور آنکھوں کا کجرا پھیل گیا تھا۔
“نادرہ رو مت، دیکھو تمہاری آنکھوں کا کاجل پھیلنے لگا ہے۔ لوگ دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟؟؟۔ “
” وہ چھوڑو محسن، میں نے لوگوں کی کبھی پروا نہیں کی۔ جب تم ہوتے ہو تو پھر کوئی نہیں ہوتا۔ میں نے تو اپنے بابا جانی کی پروا نہیں کی۔ اپنے منگیتر وقار کا خیال نہیں کیا۔ میں لوگوں کی بھلا کیا پروا کروں گی۔ “

“نادرہ، کیا تم ابھی تک میری ہو ۔ ؟ ” محسن راؤ نے ایک ایسا سوال کیا جس کا جواب انہیں دور بھی کر سکتا تھا اور قریب بھی۔
“میں کل بھی تمہاری تھی، آج بھی تمہاری ہوں اور آئندہ بھی تمہاری رہوں گی۔ میں تو ابھی بھی وہیں کھڑی ہوں جہاں تم مجھے چھوڑ کر گئے تھے۔ کیا تم نے ابھی تک میری تصاویر نہیں دیکھیں۔ ؟؟”
نادرہ نے حیران لہجے میں پوچھا۔
“نہیں ابھی کہاں، اس شریر لڑکی نے مجھے اندر جانے ہی کہاں دیا۔ مجھ سے افتتاح کروا کے سیدھی یہاں لے آئی۔ ” محسن راؤ نے بتایا۔
” تبھی تو، ورنہ تم مجھ سے یہ سوال کبھی نہ کرتے۔ “ نادرہ نے بڑے یقین سے کہا۔
“آؤ بیٹھو نادرہ ۔ ” اس نے نادرہ کو کرسی پیش کی۔

“یہ لڑکی کون ہے محسن ؟ اس نے میرے ساتھ اس قدر اپنائیت کا سلوک کیا ہے کہ میں بتا نہیں سکتی۔ پھر اس نے مجھے میری تصاویر سے پہچان لیا جبکہ میں نے اپنا نام بھی غلط بتایا تھا۔ ” نادرہ نے وضاحت چاہی۔
” وہ تمہیں کیسے نہ پہچانتی، وہ تمہیں مجھ سے زیادہ جانتی ہے ۔ ” محسن راؤ نے توصیفی انداز میں کہا
“تمہارا اس سے کیا تعلق ہے۔ ؟”
“بہت قریبی تعلق ہے اس سے ۔ ” محسن راؤ نے اپنی چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھا۔
” وہ میری چھوٹی بہن ہے۔ “
“اوہ ۔ ” نادرہ نے ٹھنڈا اور گہرا سانس لیا۔ ” بہت پیاری ہے۔ “
” ہاں، پیاری بھی اور شریر بھی، نہ اس نے میرے بارے میں تمہیں کچھ بتایا اور نہ ہی تمہارے بارے میں مجھے کچھ بتایا۔ “
” محسن، تم کہاں چلے گئے تھے ۔ ؟ “

” بتاؤں گا ۔۔ ہر وہ بات بتاؤں گا جو تم جاننا چاہوگی۔
فی الحال اتنا سن لو مجھے کس نے اغواہ کر لیا تھا،
میں صحرا میں قید تھا، میری بہن تانیہ مجھے وہاں سے آزاد کروا کر لائی ہے ۔۔”
“اچھا۔ کب آئے۔ ؟”
زیادہ عرصہ نہیں ہوا ۔ “
” تم نے مجھے کوئی اطلاع نہیں دی، نہ تم میرے پاس آئے۔ کیا میں تمہیں یاد نہ آئی۔ “
“نادرہ، میں تمہیں کبھی نہیں بھولا۔ بس ہوا یوں کہ آتے ہی کچھ الجھاووں میں الجھ گیا۔ ایک الجھن یہ بھی تھی کہ اتنا عرصہ گزر گیا ہے۔ جانے کیا سے کیا ہو گیا ہو۔ ممکن ہے تم پہچاننے سے ہی انکار کر دو۔ سوچتا رہتا تھا۔ ویسے دل میں یہ ارادہ بھی تھا کہ ایک مرتبہ بہرام نگر جاکر ضرور دیکھوں۔ ۔ بس میں آنے ہی والا تھا۔ “
نادرہ نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی اور پھر تانیہ مسکراتی ہوئی اندر داخل ہو گئی۔
” آرٹسٹ صاحبہ آپ بر یہاں برا جمان ہیں اور ادھر لوگ توصیف کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔ تعریف پر تعریف ہو رہی ہے اور وہاں سننے والا کوئی نہیں۔ “
پھر وہ محسن راؤ سے مخاطب ہو کر بولی۔
” اور مہمان خصوصی صاحب لوگ آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں کہ بندہ افتتاح کر کے کدھر کھسک گیا۔ اگر آپ دونوں کو زحمت نہ ہو تو نمائش میں تشریف لے چلئے۔ “
“آؤ، نادرہ، مجھے اپنی تصویریں دکھاؤ۔ “
” ہاں، چلئے نا۔ ” نادرہ فوراً اٹھتے ہوئے بولی ۔

نادرہ کیا مل گئی تھی، محسن راؤ کی خزاں زندگی میں بہار آگئی تھی۔ کچھ ایسا ہی حال نادرہ کا تھا۔ اس نے ایک طویل عرصہ اس کی یاد میں اس کے انتظار میں گزار دیا تھا۔ جس دن محسن راؤ جنگل میں گم ہو گیا تھا، وہ دن اس کی زندگی کا بد ترین دن تھا۔ اس نے تو اپنی زندگی کا ایک حسین نقشہ مرتب کر لیا تھا۔ محسن راؤ اپنے گھر لاہور جارہا تھا۔ اس کے بعد اس نے اپنے والدین کو بہرام نگر لانا تھا۔ نادرہ کے بابا جانی راجہ بہرام نگر غیر ممالک کی سیر کو گئے ہوئے تھے وہ چند دن میں واپس آنے والے تھے اس نے اپنے والد سے صاف صاف کہ دیا تھا کہ وہ وقار سے شادی نہیں کرے گی اور راجہ صاحب نے روایتی باپ بننے کے بجائے اس سے کہا تھا کہ وہ اس انکار کی وجہ انہیں دکھائے۔ نادرہ نے سوچ لیا تھا کہ جیسے ہی محسن راؤ اپنے والدین کو یہاں لائے گا تو وہ اپنے انکار کی وجہ ” کو ان کی خدمت میں پیش کر دے گی۔ اسے قوی امید تھی کہ اس کے بابا جانی اس ” وجہ ” کو فورا قبول کر لیں گے لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ آدمی سوچتا کچھ ہے ہوتا کچھ ہے۔ قسمت نے کچھ اور طے کر لیا تھا۔ محسن راؤ اپنے گھر جانے سے پہلے ہی جنگل میں کہیں گم ہو گیا۔ وہ پاگلوں کی طرح اس دن اسے پکارتی رہی لیکن کہیں سے اس کا جواب نہ آیا۔ بس پتھر پر پڑی اس کی قمیص ملی اور آگے جاکر گھوڑا مل گیا۔ وہ دونوں چیزیں جنگل سے لے آئی۔ پھر وہ روز ہی جنگل جانے لگی۔ جنگل میں بھٹکتی پھرتی ۔ لیکن اس کی ہر کوشش رائیگاں گئی۔ محسن راؤ نے ملنا تھا نہ ملا۔ اس کی پھینکی ہوئی قمیص اس کے لئے کل متاع حیات بن گئی۔ وہ اسے آنکھوں سے چومتی اور سونگھتی۔ اس قمیص میں اس کا محسن بسا ہوا تھا۔

کچھ عرصے کے بعد راجہ بہرام نگر سیاحت کر کے واپس آگئے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو الجھا ہوا اور فکر مند پایا تو وہ خود فکر مند ہو گئے۔ انہیں اپنی بیٹی سے بہت محبت تھی۔ وہ اسے کسی قیمت پر پریشان نہیں دیکھ سکتے تھے۔ لیکن اسے جو پریشانی لاحق تھی اس کا مداوا ان کے پاس نہ تھا۔ اس پریشانی حل تو خود نادرہ کے پاس بھی نہ تھا۔ کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد راجہ صاحب نے چاہا کہ نادرہ کی شادی کر دیں، لیکن نادرہ نے شادی سے سختی سے انکار کر دیا۔ محسن راؤ کے بعد اب کوئی اور اس کی زندگی میں نہیں آسکتا تھا۔ راجہ صاحب نے اسے وقار سے شادی کرنے پر مجبور نہ کیا، لیکن وہ شادی کے لئے اصرار ضرور کرتے رہے۔ اور پھر اصرار کرتے کرتے وہ چل بسے۔ اتنی بڑی حویلی میں وہ تنہا رہ گئی۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ بہرام نگر کا پورا انتظام بخیر و خوبی اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ باپ کی زندگی میں بھی سارا نظام کارندوں نے سنبھالا ہوا تھا۔ اب بھی سارا انتظام انہی لوگوں کے ہاتھ میں رہا۔ زمین جائداد کی طرف سے اسے کسی قسم کی کوئی فکر نہ تھی۔
اب اس نے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا۔ اس نے بہرام نگر اور اس علاقے کے لوگوں کے لئے کئی پروجیکٹ شروع کئے۔ ایک بہت اچھا اسپتال بنایا۔ کئی اسکول اور کالج قائم کئے۔ غریب لڑکیوں کی شادی بیاہ کے اخراجات کا ذمہ خود لے لیا۔ بھلائی کے کاموں سے اسے راحت ملتی۔ لیکن اس کے دل پر جو زخم تھا، وہ کبھی کبھی اسے بے چین کر دیتا۔ تب اس نے پینٹنگ کی طرف توجہ کی۔ ایک مشهور آرٹسٹ کو کئی ماہ بہرام نگر بلا کر رکھا ۔۔ اس آرٹسٹ نے وہاں کی دیہی زندگی کو پینٹ کیا اور نادرہ کو بھی پینٹنگ سکھائی۔ بس پھر جب بھی وقت ملتا۔ جب بھی دل کا زخم ہرا ہونے لگتا۔ وہ اس زخم کے مرہم کے طور پینٹنگ کرنے بیٹھ جاتی۔ اس طرح اس نے محسن کے نام پر ایک طویل زندگی گزار دی۔ محسن کی گمشدگی اس کے لئے ایک معمہ تھی۔ دل میں پھانس بن کر چبھ گئی تھی۔ ایک ٹیس تھی جو رہ رہ کر اٹھتی تھی۔ وہ کسی فلاحی کام میں مصروف ہوتی کہ اچانک ہی محسن کی یاد گھٹا بن کر دل پر چھا جاتی۔ پھر اسے کچھ یاد نہ رہتا کہ وہ کہاں ہے، کیا کر رہی ہے، وہ ہوتی اور محسن کی باتیں ہوتیں۔ اس کی یادیں ہوتیں۔ کبھی وہ بہت مایوس ہو جاتی کہ محسن اب کبھی واپس نہیں آئے گا اور کبھی اس کے دل میں امید کے دیئے جل اٹھتے۔ نہیں وہ ضرور آئے گا۔ یونہی زندگی گزرتی گئی۔ بالآخر اس کے نام پر جینے کی تپسیا رنگ لے آئی۔ وہ سپھل ہو گئی۔ اب اس کے چاروں طرف رنگ ہی رنگ تھے۔ پھول ہی پھول تھے۔ خوشبو ہی خوشبو تھی۔ وہ ایک احساس تفاخر کے ساتھ آرٹ گیلری میں یہاں وہاں گھومتی پھر رہی تھی۔ محسن اس ہے ساتھ تھا۔ ان تصویروں کو دیکھ کر محسن بہت متاثر ہوا، اسے اندازہ نہیں تھا کہ نادرہ اسے اس قد ڈوب کر چاہتی ہے۔ ہر تصویر میں نادرہ کی بے پناہ محبت موجود تھی۔ محسن راؤ ایک طویل عرصے صحرا میں قید رہا۔ ایک طرح سے اس نے قید تنہائی کاٹی۔ اس قید میں نادرہ اسے بے شمار بار یاد آئی۔ لیکن اس یاد میں تڑپ نہ تھی۔ پھر جب وہ صحرا سے واپس آیا تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ آتے ہی برام نگر کا رخ کرتا لیکن ایسا نہ ہوا۔ اگر دل میں محبت کی شدت ہوتی تو وہ سب کچھ بھول کر بہرام نگر پہنچ جاتا۔
محسن کو نادرہ سے محبت تو تھی لیکن اتنی نہیں جتنی نادرہ کو۔ اب آرٹ گیلری میں نادرہ کا رنگ دیکھ کر اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ اس کے قدموں میں بیٹھ جائے۔ اس کا داس بن جائے۔ اس دن تانیہ نے چاہا کہ نمائش کا وقت ختم ہونے کے بعد وہ نادرہ کو اپنے ساتھ ماڈل ٹاؤن لے جائے اور اس سے ساری رات باتیں کرے۔ نہ اسے سونے دے نہ خود سوئے۔ لیکن محسن راؤ نے منع کر دیا۔ اس نے کہا کہ پہلے ہمیں بہرام نگر جانا چاہئے۔ پھر اس کے بعد ہم اسے اپنے یہاں مدعو کریں گے۔ بات معقول تھی لہٰذا تانیہ کو مجبوراً ماننا پڑی۔

دوسرے دن محسن اور تانیہ ناشتہ کر رہے تھے۔ تانیہ پٹر پٹر نادرہ کی باتیں کئے جارہی تھی۔ وہ جلد سے جلد برام نگر جانا چاہتی تھی۔ محسن راؤ کو خود قرار نہ تھا۔ لہٰذا دو دن بعد بہرام نگر جانے کا پروگرام طے کر لیا گیا۔
ابھی یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ رفیق نے آکر اطلاع دی۔
”صاحب جی! آپ کا فون ہے۔”
” کون ہے۔ “ محسن راؤ نے پوچھا۔
“وہ جی آصف صدیقی صاحب ہیں۔ ” انہیں رفیق نے بتایا۔
“اسے صبح صبح کیا ہو گیا ۔ ” محسن راؤ نے جیسے اپنے آپ سے کہا۔
پھر رفیق سے مخاطب ہو کر بولا۔
“انہیں بتاؤ کہ میں ناشتہ کر رہا ہوں۔ ابھی تھوڑی دیر میں خود انہیں رنگ کرتا ہوں ۔ “
“جی بہتر۔ ” رفیق نے کہا۔
“بھائی جان، یہ آصف صدیقی صاحب کون ہیں۔ ” تانیہ نے پوچھا۔

اوہو، میں نے تمہیں ان کے بارے میں بتایا نہیں، بھئی وہ اسکول کے زمانے کا دوست ہے۔ کچھ ہی دن ہوئے اس سے اتفاقی طور پر ملاقات ہو گئی ۔ وہ بھی اپنے ریستوران میں۔ “
“اچھا کس نے پہچانا؟ ” تانیہ نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔
” بھئی پہچانا تو میں نے ہوا یوں کہ ایک دن میں دوپہر کو گھر آنے کے لئے ریستوران سے باہر نکل رہا تھا تو میں نے دو بندوں کو ریستوران میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ ان دونوں میں سے ایک آدمی آصف صدیقی تھا۔ مجھے شبہ ہوا کہ اس بندے کی شکل جانی پہچانی ہے۔ ذہن پر زور دیا تو یاد ایا کہ یہ تو اپنا کلاس فیلو آصف ہے۔ کلاس میں ہم دونوں برابر برابر بیٹھتے تھے۔ اور ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست تھے۔ اس کی رہائش بھی ماڈل ٹاؤن میں تھی ہم دونوں ایک دوسرے کے گھر اتے جاتے تھے۔ خیر میں نے گھر جانا فوراً ملتوی کیا۔ ریستوران میں واپس آیا۔ وہ دونوں ایک میز بیٹھ چکے تھے۔ میں نے ان کے قریب سے گزرتے ہوئے اس بندے کو بغور دیکھا جس پر مجھے آصف ہونے کا شبہ تھا۔ میرا شبہ یقین میں بدل گیا کہ وہ میرا دوست ہی ہے۔ ان دونوں نے مجھے نہیں دیکھا تھا۔ میں واپس لوٹا اور اپنے دفتر میں جاکر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ اس سے کس طرح ملاقات کی جائے۔ وہ کھانا کھانے آیا تھا۔ مجھے شرارت سوجھی میں نے ان کے کھانا کھا لینے کا انتظار کیا۔ اس اثناء میں، میں نے خود بھی کھانا کھالیا، کھانے کے بعد انہوں نے کافی منگوائی ۔ جو بیرا انہیں اٹینڈ کر رہا تھا، اسے میں نے ہدایت کی کہ جب وہ بل مانگیں تو بل مجھ سے لے کر جائے ہیں نے ایک بل منگوا کر رقم لکھنے کے بجائے اس پر ایک جملہ لکھ دیا، جب انہوں نے بل منگوایا تو بیرا میرے پاس آیا۔ میں نے اس کی پلیٹ میں بل ڈال دیا اور اس کو ہدایت کی جو صاحب سرخ ٹائی لگائے ہوئے ہیں ان کے سامنے جاکر یہ بل رکھے ۔ اس بیرے نے بہت ادب سے آصف کے سامنے جاکر بل رکھ دیا۔ آصف نے اپنے ساتھ آنے والے شخص سے بے دھیانی میں باتیں کرتے اس بل پر نظر ڈالی تو اس کے چہرے پر کئی رنگ آئے اور کئی رنگ گئے۔ اس کی حالت غیر ہوگئی۔ اس نے غصے سے بیرے کی طرف دیکھا اور بولا۔

”یہ کیا بکواس ہے۔ ” بیرے کو میں نے سمجھا دیا تھا، وہ مودبانہ انداز میں خاموش کھڑا رہا۔

“یہ کس نے لکھا ہے ؟”
بیرے کو خاموش دیکھ کر اسے اور غصہ آگیا۔
”بولتے کیوں نہیں ہو۔؟”
“یہ ہمارے صاحب نے لکھا ہے جی ۔ ” بیرے نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
در اصل میں نے بل پر ایک ایسی بات لکھ دی تھی جسے پڑھ کر اس کا چراغ پا ہونا یقینی تھا۔ میں نے بل پر لکھا تھا کہ” اتنے بڑے ریستوران میں آخر کیا سوچ کر کھانا کھانے آگئے ہو۔ تم اپنی اوقات کیوں بھول گئے۔”

“کہاں ہے، تمہارا صاحب ذرا مجھے اس کی صورت دکھاؤ۔” آصف کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔ میں ایسے چھ ریستوران خرید کر پھینک سکتا ہوں آخر اس نے مجھے سمجھا کیا ہے۔ “

وہ غصے میں بھرا ہوا میرے دفتر میں داخل ہوا۔ اس کے پیچھے وہ شخص بھی تھا جس کے ساتھ وہ کھانا کھانے آیا تھا۔ میں بڑے شاہانہ انداز میں اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔
میں نے بڑی بے نیازی سے اس کی طرف دیکھا اور بولا۔ “جی، فرمائیے۔ “

میرا چہرہ دیکھتے ہی وہ آگے بڑھتے بڑھتے رک گیا۔ اس نے مجھے چونک کر دیکھا۔ پھر جب اس نے میری آواز سنی تو وہ فوراً مجھے پہچان گیا۔ اور اپنی بانہیں پھیلا کر میری طرف بڑھا۔
”اوئے کمینے تو ۔ “
”ہاں، میں۔ ” میں نے اسے اپنے گلے سے لگاتے ہوئے کہا۔
” تو آیا تو بڑے غصے میں تھا، پھر آگے بڑھتے بڑھتے رک کیوں گیا۔ اندر کس ارادے سے آیا تھا۔ “

“میں یہ ریستوران خرید نے آیا تھا ۔ ” آصف صدیقی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
” میں حیران تھا کہ بل پر یہ بکواس کس نے لکھی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ایسا جملہ تو ہی لکھ سکتا تھا۔ “
پھر ہم دونوں نے بیٹھ کر پچھلی یادوں کو تازہ کیا۔ اسے میری گمشدگی کا بابا سے معلوم ہو گیا تھا۔ وہ جب تک ماڈل ٹاؤن میں رہا۔ میرے گھر آتا رہا۔ پھر اس کے والدین شادمان منتقل ہو گئے۔ ادھر میرے ملنے کی آس بھی کم ہوتی گئی۔ اس کا آنا جانا بھی کم ہو گیا۔ پڑھ لکھ کر اس نے قپنے والد کا آفس سنبھال لیا۔ اس کے والد فلم ڈسٹری بیوٹر تھے۔ اس نے اس کام کو آگے بڑھایا وہ فلمساز بن گیا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ ریستوران میرے بابا کا ہے۔ اس لئے وہ اس ریستوران آتا رہتا تھا۔ کبھی کبھار بابا سے بھی مل لیا کرتا تھا۔ اس طرح اس نے مجھے کسی نہ کسی طرح یاد رکھا ہوا تھا۔ اس وقت وہ ملک کے بڑے فلمسازوں میں سے ایک ہے۔ اسے بابا کے انتقال کے بارے میں معلوم تھا۔ اسے اس بات سے کوئی دلچسپی نہ تھی کہ آج کل ریستوران کون چلا رہا ہے۔ وہ کافی عرصے کے بعد ایک قلم ڈائریکٹر کے ساتھ ریستوران آیا تھا۔ اس کی سننے کے بعد پھر میں نے اپنی سنائی۔ میری کہانی سننے کے بعد وہ بڑی سنجیدگی سے بولا کہ
” یار یہ تو بڑا انوکھا سیجیکٹ ہے کیوں نہ اس کہانی پر فلم بنائی جائے۔ ؟؟”
میں نے فوراً اس کے سامنے ہاتھ جوڑ لئے کہ یار تو مجھے معاف کر دے۔ صبح صبح پتہ نہیں اس کو کیا مشکل پیش آئی ہے ۔ ” محسن راؤ نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے

“آپ کے دوست نے آپ کو ہیرو بنانے کی آفر نہیں کی۔ ” تانیہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
“وہ کئی بار کہہ چکا ہے۔ ” محسن راؤ نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
“بھائی جان، آپ فلموں کے چکر میں مت پڑ جائے گا۔ ” تانیہ نے فورا تنبیہ کی۔
“ارے نہیں تانیہ، مجھے اداکاری سے دلچسپی ہے اور نہ فلم کے کسی دوسرے شعبے سے۔ مجھے تو مناظر فطرت سے لگاؤ ہے۔ دیسی زندگی اور کھلی فضا کا دلدادہ ہوں ۔ انشاء اللہ، ساون پور میں ایسی حویلی تعمیر کروں گا کہ دنیا دیکھے گی۔ ” محسن راؤ نے اپنی دلی تمنا کا اظہار کرتے ہوئے

پھر وہ آصف صدیقی کو فون کرنے کے لئے اٹھ گیا۔
فون ملنے پر محسن راؤ نے کہا۔ ”ہاں بھئی، خیریت تو ہے۔” “
‘یار، آج شام کو کوئی مصروفیت تو نہیں۔ ” آصف نے پوچھا۔
” نہیں، کیوں ؟ “
“پھر آج تو میرے دفتر آجا۔ ” آصف نے کہا۔
“آجاؤں گا لیکن تیرے دفتر بھی تو کئی ہیں، کہاں آؤں ۔ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
“رائل پارک والے دفتر میں، وہی جگہ مناسب ہے۔ “
“اور بھائی کیا چکر ہے۔ “
“یار، ایک شخص سے تجھے ملانا چاہتا ہوں۔ جب اسے معلوم ہوا ہے کہ تو واپس آگیا ہے۔ وہ تب سے ملنے کے لئے بے چین ہے۔ ” آصف صدیقی نے بتایا۔
“یار، ایسا کون شخص ہے ۔ ؟”
“اس نے اپنا نام ہے بتانے سے منع کیا ہے۔ ” آصف صدیقی نے کہا۔
“تو تو اس سے اچھی طرح واقف ہے نا۔ “ محسن راؤ نے پوچھا۔
” ہاں، میں اسے بہت اچھی طرح جانتا ہوں ۔ اس سے اچھے تعلقات ہیں۔ اچھا آدمی ہے۔ ایک طرح سے تو اسے میرا دوست سمجھ ۔ ” آصف صدیقی نے اس شخص کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا۔

“وہ مجھ سے کیوں ملنا چاہتا ہے ۔ ؟”
“یہ بات تجھے وہ خود بتائے گا۔ “
“عجیب شخص ہے وہ …. ہر بات راز میں رکھنا چاہتا ہے۔ ” ”ہاں، عجیب تو ہے لیکن عجیب کے ساتھ شریف بھی ہے۔ ” آصف صدیقی مسلسل اس کی وکالت کئے جا رہا تھا۔

“اچھا، ٹھیک ہے۔ میں شام کو پہنچ جاؤں گا۔ ” یہ کہہ کر اس نے ریسیور رکھ دیا۔ ریسیور رکھ کر وہ واپس پلٹ رہا تھا کہ تانیہ کمرے میں داخل ہوئی۔ تب وہ وہیں بیٹھ گیا۔ اس نے تانیہ کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

“خیریت تو تھی۔ ” تانیہ نے آصف صدیقی کی کال کی طرف اشارہ کیا۔
“ہاں، خیریت تھی۔ کوئی شخص مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ملنے سے پہلے، نہ وہ اپنا نام بتانا چاہتا ہے اور نہ کام ۔ ” محسن راؤ نے تانیہ کو بتایا۔
“پھر آپ نے کیا کہا۔ ” تانیہ نے پوچھا۔
” شام کو ملاقات کا وعدہ کر لیا ہے۔ ؟

” پتا نہیں کون شخص ہے ؟ ” تانیہ نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔ ”وہاں گارڈ کے بغیر مت جائے گا۔ ” “پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ آصف اس سے اچھی طرح واقف ہے۔ “ محسن راؤ نے تانیہ کو اطمینان دلایا۔

شام کو محسن راؤ، آصف صدیقی کے رائل پارک والے دفتر میں پہنچ گیا۔ یہ فلم ڈسٹری بیوشن کا دفتر تھا۔ جب وہ دفتر میں داخل ہوا تو آصف صدیقی کسی شخص سے کاروباری گفتگو میں مصروف تھا۔ اس نے کھڑے ہو کر محسن راؤ کا استقبال کیا۔ سامنے بیٹھے شخص سے اس کا تعارف کرایا۔ محسن راؤ نے اس شخص کو غور سے دیکھا لیکن پہچان نہ پایا۔
“جی فرمائیے۔ ” محسن راؤ نے اس شخص سے مخاطب ہو کر کہا۔ ” آپ مجھ سے کیوں ملنا چاہتےتھے۔؟”
اس سے پہلے کہ وہ شخص جواب دیتا، آصف صدیقی فوراً بولا۔
“محسن جو تم سے ملنا چاہتا ہے، وہ یہ نہیں ہیں، وہ شخص اندر بیٹھا ہے ۔ ” یہ کہہ کر اس نے اپنے اندر والے خاص کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ ” اس سے اندر جاکر مل لو۔ “

محسن راؤ خاموشی کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ اس نے بند دروازہ آہستہ سے کھولا۔ اور کمرے میں داخل ہو گیا۔ وہ اسے دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا۔ اور محسن راؤ کی طرف تیزی سے لپکا۔
محسن راز ایک قدم پیچھے ہٹا اور اپنے کوٹ کی جیب سے فوراً ریوالور نکال لیا۔ اور اس کی طرف تانتے ہوئے بولا۔
” جہاں سے اٹھے ہو فوراً وہیں جاکر بیٹھ جاؤ۔ ورنہ گولی چلا دوں گا۔ “
وہ شخص وہیں رک گیا۔ تبھی آصف صدیقی اندر داخل ہوا، اور اندر کی صورتحال دیکھ کر چیخا۔
“ارے، محسن یہ کیا کر رہے ہو ؟؟”
“آصف تم نے بہت بڑی حماقت کی ہے۔ کیا تم اس شخص کو اچھی طرح جانتے ہو۔ “
“ہاں، جانتا ہوں، میں نے تمہیں بتایا تو تھا۔ “
“یہ اژدھے کی اولاد ہے۔ کیا اس نے تمہیں یہ بھی بتایا تھا ۔ ” محسن راؤ نے ریوالور بدستور اس تانا ہوا تھا۔ ” یہ مجھے دیکھتے ہی سانپ کی طرح لپکا تھا۔ میں اگر ریوالور نہ نکالتا تو یہ اب تک میرا کام تمام کر چکا ہوتا ۔”
وہ شخص بڑے اطمینان سے کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر ذرا بھی گھبراہٹ نہ تھی۔
“محسن، یہ کیا بے وقوفی ہے۔ یہ ریوالور فوراً جیب میں رکھو۔ میں نے تمہیں بلایا ہے تو کچھ سوچ کر ہی بلایا ہو گا۔ ” آصف صدیقی نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
” تم نے مجھے اس سانپ کا نام کیوں نہیں بتایا۔ “ محسن راؤ بھی غصے سے بولا۔
“میں نے منع کیا تھا۔ ” اس مرتبہ وہ شخص بولا۔ “اگر آپ کو میرا نام معلوم ہو جاتا تو آپ مجھ سے ملنے نہ آتے۔ ” “اعتبار راؤ، اب تمہارے باپ نے کون سا جال پھینکنے کے لئے تمہیں یہاں بھیجا ہے؟؟ محسن نے تیکھے لہجے میں کہا۔
” مجھے ابا نے نہیں بھیجا مجھے تو ان کی صورت سے بھی نفرت ہے۔ ایسی بات کہہ کر میرا دل نہ دکھاؤ ” اعتبار راؤ نے بڑے سچے لہجے میں کہا۔
“میں تم پر کیسے اعتبار کرلوں ۔ ” محسن راؤ شک و شبہ میں مبتلا تھا۔
“میں کب تم سے اعتبار کرنے کو کہہ رہا ہوں۔ میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ تم اطمینان سے بیٹھ کر ٹھنڈے دل سے میری بات سن لو۔ ” اعتبار راؤ نے کہا۔
“تمہارے پاس کوئی اسلحہ ہے۔ ؟ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
“میرے دونوں ہاتھ خالی ہیں۔ ” اعتبار راؤ نے اپنے دونوں ہاتھ کھول کر دکھائے۔
”میری تلاشی لینا چاہو تو لے سکتے ہو۔ “
ہاں، میں تمہاری تلاشی ضرور لوں گا۔ ” یہ کہہ کر محسن راؤ آگے بڑھا۔ اس نے سیدھے ہاتھ سے اس پر ریوالور تانے رکھا اور بائیں ہاتھ سے اچھی طرح اس کے کپڑوں اور جسم کو کھنگال ڈالا۔ اعتبار راؤ سچا تھا اس کے پاس کسی قسم کا کوئی اسلحہ نہ تھا۔
تب محسن راؤ نے ریوالور اپنی جیب میں ڈال لیا۔ اور ایک کرسی گھسیٹ کر اس سے مخاطب ہوتے نے بولا۔
” ہاں اعتبار راؤ کہو کیا کہنا چاہتے ہو ۔ “

کمرے کی فضا بہتر ہوتی دیکھ کر آصف صدیقی یہ کہہ کر باہر نکل گیا۔ ”اچھا تم لوگ بات کرو۔
میں باہر چلتا ہوں ۔ “
آصف صدیقی کے باہر جانے کے بعد اعتبار راؤ بھی ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور محسن راؤ کو بہت غور سے دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں محبت موجزن تھی۔

“محسن راؤ، میرے بھائی، میں تم سے معافی کا طلب گار ہوں ۔ ” بالاخر وہ بولا۔
” کس بات کی معافی ؟ تم نے کیا کیا ہے ؟ “
محسن راؤ نے جذبات سے عاری لہجے میں کہا۔
” یہ ٹھیک ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا لیکن میرے باپ نے بہت کچھ کیا ہے۔ اسی کی معافی مانگ رہا ہوں ۔ “
“تمہارے باپ نے میرے باپ کی جائداد پر قبضہ کر لیا۔ اس نے میرے قتل کی سازش کی، اس نے میرے باپ کو قتل کیا۔ آخر میں کس کس بات کو معاف کروں ۔ “ محسن راؤ کا لجہ تلخ ہو گیا۔
“یہ تم کیا کہہ رہے ہو، تایا کو ابا نے قتل کیا لیکن انہوں نے تو خود کشی کی تھی ۔ “
“میرے بابا کو بھلا خود کشی کرنے کی کیا ضرورت تھی، ایسا پاکیزہ نفس انسان بھلا خود کشی کیوں کرے گا۔ انہیں مارا گیا اور انہیں مارنے والا تمہارا باپ تھا۔ ہمارے گھر کا پرانا ملازم عبدل اس راز سے کسی حد تک واقف تھا لہذا اسے بھی اسکی بیوی کے ساتھ ختم کروا دیا گیا۔ تاکہ کسی قسم کا کوئی گواہ ہی نہ رہے ۔ ” محسن راؤ نے بتایا۔
“خدا کی قسم میں اس بات سے واقف نہیں ۔ ” اعتبار راؤ کے لہجے میں شرمندگی تھی۔
” ابھی حال ہی میں، میں نے اپنا ایک آدمی ساون پور بھیجا تھا۔ تمہارے باپ کے نام ایک خط دیا تھا۔ اس آدمی کا جو حشر کیا گیا۔ کیا تم اس سے بھی واقف نہیں ہو۔ ” محسن راؤ نے اسے پھر گھیرا۔
“بس اتنا جانتا ہوں کہ کوئی شخص تمہارا خط لے کر ساون پور گیا تھا۔ اس آدمی کے ساتھ کیا کیا گیا، یہ میں نہیں جانتا۔ “
“کیا تم ساون پور میں نہیں رہتے۔ “
“نہیں، مجھے تو ساون پور چھوڑے ہوئے ایک عرصہ ہو گیا۔ میں پہلا فرد تھا جس نے ابا سے جائداد کی تقسیم کی بات کی۔ انہوں نے جائداد تقسیم کرنے سے انکار کر دیا لیکن مجھے اتنی رقم فراہم کر دی کہ میں نے لاہور آکر ایک سینما خرید لیا۔ اور ساتھ ہی ایک چھوٹا سا تقسیم کار ادارہ کھول لیا اسی سلسلے میں آصف صدیقی سے ملاقات ہوئی۔ پھر یہ ملاقات دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ جب مجھے ساون پور کی حویلی سے یہ خبر ملی کہ تم لوٹ آئے ہو تو میں تم سے ملنے کا سوچتا رہا۔ اسے اتفاق ہی کہنا چاہئے کہ آصف صدیقی تمہارا بچپن کا دوست نکل آیا اور میرے بار بار کے اصرار پر بالآخر وہ تم سے
ملاقات کرانے پر راضی ہو گیا۔ “
“تم یہاں کہاں رہتے ہو۔ ؟؟
“میں سمن آباد میں رہتا ہوں ۔ “
“کتنے بچے ہیں تمہارے۔ ؟”
“بچے تو دور کی بات ہے، میں نے تو ابھی شادی بھی نہیں کی۔ ” اعتبار راؤ نے انکشاف کیا۔
“ارے کیوں ؟ “
“میرے ابا کاروباری شادی کے قائل ہیں۔ لڑکی بے شک لولی لنگڑی ہو لیکن صاحب جائداد ہوتا ہے۔ میں ایسی شادی پر راضی نہ ہوا۔ اس لئے میری شادی نہیں ہوئی۔ البتہ آفتاب بھائی اور اقبل کی شادیاں ہو چکی ہیں دونوں زمیندار گھرانوں کی جاہل عورتیں ہیں۔ میرا تو اس حویلی میں دم گھٹنے لگا تھا۔ ہر وقت مار دھاڑ کی باتیں۔ اس کو اکھاڑ، اس کو پچھاڑ، چھل فریب ہر وقت زمینیں بڑھانے پیسہ اکٹھا کرنے کی ہوس۔ محسن میں شروع ہی سے مختلف مزاج کا انسان رہا ہوں۔ ابا اور دونوں بھائی مجھے ہر وقت طعنے دیتے رہتے تھے۔ یہ تو زمیندار لگتا ہی نہیں۔ زمیندار سے زیادہ مزارع لگتا محسن میں پوچھتا ہوں کیا زمینداری صرف ظلم اور دہشت کا نام ہے۔ پتہ نہیں لوگ کسی کو دکھ پہنچاکر کس طرح خوش رہ لیتے ہیں۔ “
“دیکھ لو مثال تو تمہارے سامنے موجود ہے۔ تمہارے ابا نے ہمیں کونسا گھاؤ نہیں لگایا۔ پھر بھی خوش ہیں۔ آج تک ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ “
ایسا نہیں ہے۔ میں انہیں رات رات بھر حویلی کے چکر کاٹتا ہوا دیکھتا رہا ہوں۔ بعض اوقات انہیں پوری رات نیند نہیں آتی۔ پھر آفتاب بھائی اور اقبال میں ایک سرد جنگ جاری ہے۔ ادھر ابا اک لومڑی بنے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے جیتے جی جائداد تقسیم کرنا نہیں چاہتے اور ان کے مرنے کے کوئی آثار نہیں۔ دونوں بھائیوں کو ہر ماہ بندھی لگی رقم ملتی ہے۔ دونوں بھائی اب ابا کے دست نگر نہیں رہنا چاہتے۔ وہ خود مختار ہونا چاہتے ہیں اور ابا زمین جائداد تقسیم کر کے اپنے ہاتھ کٹوانا نہیں چاہتے۔ لیکن آخر کب تک؟”
“کیا تم اپنے حصے کی زمینوں سے دست بردار ہو چکے ہو ؟؟
“نہیں، ہرگز نہیں. ویسے میں تنہا آدمی ہوں۔ اب بھی میرے پاس جو کچھ ہے، وہ میرے لئے بہت ہے۔ ؟”
اعتبار راؤ یہ تو تم میرے بابا کی طرح باتیں کر رہے ہو ۔“ محسن راؤ، نے حیرت کا اظہار کیا
“محسن، میں تمہارے بابا کو بہت پسند کرتا تھا۔ وہ میرے آئیڈیل تھے۔ وہ جب بھی ساون پور تے۔ بس میں ہی ان کے آگے پیچھے ہوتا تھا۔ یہ جان کر مجھے شدید صدمہ پہنچا ہے کہ وہ میرے ابا کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا میں تم سے کسی انداز میں تعربیت کروں۔ میرے نیچ بقپ نے تمہارے سامنے میری گردن جھکا دی ہے۔ “
اس دن اعتبار راؤ جتنی دیر بیٹھا رہا، بس اسی طرح کی باتیں کرتا رہا، محسن راؤ اس کی باتوں پر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کر لینا چاہتا تھا۔ اس نے اس کے بارے میں تحقیق کی تو اس کی ہر بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔ حویلی چھوڑے ہوئے اسے واقعی کافی عرصہ ہو چکا تھا۔ اس نے لکشمی چوک کا ایک سینما خرید لیا تھا۔ ایک چھوٹا سا تقسیم کار ادارہ کھول لیا تھا۔ یہ دونوں باتیں صحیح تھیں۔ اس کی رہائش سمن آباد میں تھی اور وہاں وہ ایک ملازم کے ساتھ رہتا تھا۔ کوٹھی اور ٹیلیفون کا نمبر دونوں محسن راؤ کے پاس تھے۔ آصف صدیقی نے اس کی شرافت کے گن گائے تھے۔ انکل عامر بھی تھوڑا بہت اس کے بارے میں جانتے تھے انہوں نے بھی اس کے مختلف ہونے کی گواہی دی تھی۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھانے نکلا تھا تو یہ کوئی تعجب خیز بات نہ تھی۔ شریفوں کے ہاں نیک اور نیکوں کے ہاں بد پیدا ہوتے رہے ہیں۔ اللہ جب چاہتا ہے فرعونوں کے ہاں موسیٰ کی پرورش کرا دیتا ہے۔

تانیہ، بہرام نگر جانے کے لئے بے چین تھی۔ اس نے نادرہ کے لئے ڈھیروں تحفے خرید لئے تھے۔ ان دو دنوں میں کئی مرتبہ اس سے فون پر بات کرلی تھی۔ اسے بتا بھی دیا تھا کہ وہ کب بہرام نگر پہنچے گی۔ نادرہ کو خیال آیا کہ کیونکہ محسن راؤ نے کبھی لاہور سے بہرام نگر کا سفر کیا نہیں ہے، اس لئے اسے وہاں تک پہنچنے میں ضرور دقت ہوگی۔ اس کی آسانی کے پیش نظر نادرہ نے اپنی جیپ بھیج دی تھی۔ اس طرح وہ نادرہ کی جیپ کی رہنمائی میں باآسانی بهرام نگر پہنچ گئے تھے۔ جب دونوں گاڑیاں گڑھی بہرام نگر کے گیٹ سے اندر داخل ہوئیں تو وہ کھڑکی میں کھڑی تھی
اس کی بے قراری کا عجب عالم تھا، وہ کئی مرتبہ کھڑکی کے چکر کاٹ چکی تھی۔ محسن راؤ جب راج مداری کی قید سے نکل کر پہلی مرتبہ گڑھی بہرام نگر پہنچا تو تب بھی نادرہ کی بے قراری کا یہی عالم تھا۔ وہ رات اس نے آنکھوں میں گزاری تھی۔ یہ رات بھی اس نے آنکھوں میں
گزاری تھی۔ برسوں پہلے کی ملاقات کا ایک ایک منظر اس کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح گزر رہا تھا۔ وہ اس دن اس سے رخصت ہو کر لاہور جانے والا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ وہ جاتے ہی اپنے والدین کو لے کر یہاں آئے گا۔ لیکن وقت نے ایسی کروٹ بدلی کہ ہر چیز نہس نہس ہو کر رہ گئی۔ اس کے دل میں ایسا طوفان اٹھا جو اٹھتا ہی چلا گیا۔ اور ایک طویل عرصے تک جاری رہا۔ آج محسن پھر آرہا تھا۔ اس نے اپنا برسوں پرانا وعدہ پورا کر دیا تھا۔ اگرچہ اس کے والدین نہ رہے تھے لیکن اب گھر میں جو تھا، وہ اسے لے کر گڑھی بہرام نگر پہنچ چکا تھا۔

وہ گاڑیاں دیکھتے ہی اوپر کی منزل سے فوراً نیچے آگئی۔ اور گڑھی کے دروازے پر اس نے تانیہ اور محسن راؤ کا استقبال کیا۔ محسن اور نادرہ کی اس گڑھی پر یہ دوسری ملاقات تھی۔ اس دوسری ملاقات پر پہلی ملاقات کی ایک ایک بات دونوں کو یاد آرہی تھی۔
نادرہ کے ساتھ استقبال کرنے والوں میں ہدایت اللہ بھی تھا۔ محسن راؤ کو دیکھ کر اس نے بہت ادب سے جھک کر سلام کیا اور نظریں نیچی کرکے، ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ محسن راؤ کی اس پر نظر پڑی تو اس نے اسے فوراً پہچان لیا۔ اگرچہ گزرے ہوئے وقت نے اس میں بہت سی تبدیلیاں کر دی تھیں۔

“ہدایت اللہ، کیسے ہو ؟ ” محسن راؤ نے اس سے مصافحے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا۔
“صاحب جی ، آپ کو میرا نام بھی یاد ہے۔ میں کس قدر خوش نصیب انسان ہوں “

ہدایت اللہ واقعی خوش نصیب انسان تھا۔ وہ ایک زمانے میں نادرہ کا ڈرائیور تھا۔ تھوڑا بہت پڑھا لکھا تھا۔ نادرہ کے اعتماد کا آدمی تھا۔ لہٰذا جب راجہ صاحب کا انتقال ہوا تو اس نے گڑھی کی دیکھ ل کے لئے اسے نگراں مقرر کر دیا۔ وہ ایک طرح سے اس کا پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھا۔ اس سے اجازت لئے بغیر کوئی نادرہ سے نہیں مل سکتا تھا۔

لیکن محسن کا معاملہ دوسرا تھا، اس سے ملنے کے لئے وہ خود اس کے کمرے میں پہنچ گئی تھی۔ دوپہر کا پرتکلف کھانا کھا کر محسن راؤ کچھ دیر آرام کی خاطر لیٹ گیا تھا۔ شام کے وقت جب اس کے دروازے پر دستک ہوئی تو اس نے سمجھا کہ تانیہ ہوگی۔ اس نے بیڈ پر لیٹے لیٹے ہی آواز لگائی۔

“آجاؤ بھئی کون ہے ۔ ؟ “
جب دروازہ کھلا تو سب سے پہلے اسے ٹرے نظر آئی۔ پھر جن ہاتھوں میں ٹرے تھی، وہ نظر آئے۔ محسن راؤ فوراً بیڈ سے اٹھ کر اس کے نزدیک پہنچ گیا۔
”ارے، نادرہ آپ نے کیوں زحمت کی؟؟”
“میرا جی چاہا کہ اپنے ہاتھوں تمہیں چائے پلاؤں ۔ “ نادرہ دلفریب انداز میں مسکرائی۔
“تانیہ کہاں ہے؟” محسن راؤ نے پوچھا۔
میں نے اس کی کمپنی کے لئے اپنے اسکول کی دو ٹیچروں کو بلا لیا تھا۔ وہ ان کے ساتھ بیت بازی میں مگن ہے۔۔ کیا اسے بلواؤں؟” نادرہ نے پوچھا۔
“بے وقوف ہوئی ہو، اسے ادھر ہی لگا رہنے دو۔ ” محسن راؤ نے اسے گہری نظروں سے دیکھا تو س کی نظروں کی تاب نہ لاسکی، اس نے فوراً نظریں جھکالیں۔
“آخر ہمیں بھی تو بات کرنے کا موقع ملنا چاہئے ۔ “ وہ ہنسا۔
“اسی لئے تو آئی ہوں، تمہارے پاس۔ ” نادرہ نے صاف گوئی سے کہا۔
“لاؤ، چائے کی ٹرے مجھے دو، میں بناؤں تمہارے لئے چائے۔ “
“جی نہیں شکریہ … میں مردوں کے ہاتھوں کی بنی ہوئی چائے نہیں پیتی۔ ” نادرہ نے اسے اپنی خوبصورت چمکتی آنکھوں سے دیکھا اور ٹی کوزی ہٹا کر کیتلی سے چائے نکالنے لگی۔ اس کے ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ تھی۔
محسن کو اس کی یہ ادا بہت اچھی لگی۔ اس نے کیتلی والا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا ” تم اس قدر پیاری کیوں ہو؟”
“ارے ہاتھ چھوڑیں۔ چائے گر جائے گی۔ “
“گر جانے دو”
“پلیز محسن ” نادرہ نے التجا کی۔ تب محسن راؤ نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔

نادرہ نے چائے کا کپ اس کے سامنے رکھا۔ پھر پر تشویش لہجے میں بولی۔ “محسن تم جنگل میں گم ہو گئے تھے۔ “
“ہاں، نادرہ , میں تمہیں پوری کہانی سناتا ہوں۔ اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ اس کہانی پر یقین کرنا یا نا۔ لیکن مجھ پر جو بیتی ہے وہ حرف بہ حرف سنادوں گا۔ اگرچہ تانیہ اور میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ یہ عجیب و غریب واقعات کسی کو نہیں سنائیں گے۔ لیکن تمہاری بات اور ہے۔ تم کسی نہیں ہو۔ “

یہ کہہ کر محسن راؤ نے ہر وہ بات بتادی جو صحرا میں اس پر اور تانیہ پر بیتی تھی۔ سارا قصہ سن کر نادرہ دم بخود رہ گئی۔ وہ سکتے کے سے عالم میں بیٹھی، ایک ٹک اسے دیکھے گی۔ یہ کیسی ہوشربا داستان تھی۔ ناقابل یقین .. لیکن یہ سب اس کے محبوب پر بیتی تھی۔ وہ اسے کیسے جھٹلا دیتی۔ پھر تانیہ کی صورت میں ایک گواہ بھی موجود تھا۔ ۔

“کیا ہوا ؟ ” محسن راؤ نے اسے اس طرح سکتے میں دیکھ کر اس کی آنکھوں کے سامنے اپنا ہاتھ لہرایا
“اللہ کا شکر ہے محسن کہ تمہیں اس صحرا کی قید سے نجات مل گئی، نہ صرف نجات مل گئی بلکہ تم صحیح سلامت بھی واپس آگئے۔ اگر تمہارا چہرہ دیمک زدہ ہو جاتا تو کس قدر مشکل پیش آتی ۔ “
“مشکل کیا، میری تو زندگی عذاب ہو جاتی۔ میں بس اس دیمک زدہ چہرے کو چھپائے چھپائے پھرتا۔ محسن راؤ نے ٹھنڈا سانس لے کر کہا۔
“اچھا، چھوڑو، اس قصے کو جو ہونا تھا ہو چکا۔ آؤ، چلو باہر نکلتے ہیں۔ تھوڑی سی گھڑ سواری ہو جائے۔ ” نادرہ کھڑی ہوتے ہوئے بولی۔
” میں گھوڑے کسواتی ہوں۔ تم جب تک لباس تبدیل کر لو”
“ہاں، میرا جی بھی گھڑ سواری کو چاہ رہا تھا۔ ایک طویل عرصہ ہو گیا گھڑ سواری کئے۔ ہاں تمہارے ساتھ ہی تو کی تھی چلو ٹھیک ہے۔ ذرا کھلی فضا میں چلتے ہیں۔ “ محسن راؤ نے کہا۔

پھر کچھ دیر بعد جب وہ دونوں گڑھی سے باہر نکلے تو گھوڑے تیار کھڑے تھے۔ دونوں سفید رنگ کے گھوڑے تھے۔ محسن اور نادرہ دونوں گھوڑوں پر سوار ہو گئے۔ تانیہ حویلی کے دروازے پر موجود تھی۔ سفید گھوڑوں پر بیٹھے ہوئے وہ دونوں تانیہ کو بہت اچھے لگے۔ اس نے فوراً ان کی درازی عمر کی دعا کی۔ اور اس وقت تک گڑھی کے دروازے پر کھڑی رہی جب تک وہ بڑے دروازے سے باہر نہیں نکل گئے۔
کچھ دیر تک وہ آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہوئے چلتے رہے۔ پھر جب ذرا کھلا علاقہ آگیا تو محسن راؤ نے کہا۔ “کیا خیال ہے جنگل کی طرف چلیں۔ ؟ “
محسن راؤ کی آپ بیتی سن لینے کے بعد وہ جنگل کی طرف رخ کرنا نہیں چاہتی تھی کہ یہ مصیبت وہیں سے شروع ہوئی تھی لیکن محسن راؤ کی خواہش کے احترام میں وہ چپ ہو گئی۔ پھر وہ خوفزدہ ہونے کا تاثر بھی نہیں دینا چاہتی تھی لہٰذا اس نے فوراً کہا۔ ”چلیں۔ “

تب پھر دونوں نے اپنے اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگائی۔ دونوں گھوڑے ہوا سے باتیں کرنے لگے۔
جنگل میں داخل ہو کر وہ گھوڑے دوڑاتے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں ایک چبوترہ بنا ہوا تھا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں سے بقّاں اسے صحرا میں لے گئی تھی۔ جب اس چپوترے پر اس کی نظر پڑی تو وہ ایک دم خوفزدہ ہو گیا۔ خوفزدہ کیا چبوترے پر اس نے جو کچھ دیکھا، اسے دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے۔ اس کا جسم سخت سردی کے باوجود پسینے میں بھیگ گیا۔
سامنے چبوترے پر بیچوں بیچ ایک الو، ایک ٹانگ پر کھڑا تھا۔ اور اس کی دونوں آنکھیں بند ہیں۔ اسے دیکھتے ہی محسن راؤ نے اپنے گھوڑے کا رخ موڑا اور نادرہ سے مخاطب ہو کر بولا۔ ” نادرہ، بھسگو”
نادرہ نے بھی اس الو کو دیکھ لیا تھا، اسے دیکھ کر اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس نے فورا اپنے گھوڑے کی لگام کھینچی اور اس کا رخ مڑتے ہی اس نے جلدی جلدی ایڑ لگائی۔
دونوں گھوڑے بہت محفوظ طریقے سے جنگل سے نکل آئے۔ جنگل میں درختوں کی وجہ سے انہیں دوڑنے میں دقت پیش آرہی تھی۔ جنگل سے نکل کر جیسے ہی کھلا اور صاف علاقہ آیا، وہ گھوڑے سرپٹ دوڑنے لگے۔
محسن اور نادرہ نے گڑھی کے بڑے دروازے پر پہنچ کر ہی دم لیا۔ بڑے دروازے سے گڑھی کی عمارت کافی فاصلے پر تھی۔ اندر ایک وسیع و عریض باغ تھا۔ محسن کو دور ایک لان پر تانیہ بیڈ منٹن کھیلتی ہوئی دکھائی دی۔ وہ دونوں دروازے پر گھوڑوں سے اتر گئے۔ گیٹ پر موجود ملازموں نے دونوں گھوڑے تھام لئے۔ محسن اور نادرہ نے تانیہ کی طرف رخ کیا۔ راستے میں نادرہ نے پوچھا۔ “محسن، یہ کیا تھا؟؟”
“کچھ نہیں کہہ سکتا میری سمجھ میں خود کچھ نہیں آرہا۔ “ محسن الجھن میں مبتلا تھا۔
“کسی اُلو کو ایک ٹانگ پر کھڑا، میں نے پہلی بار دیکھا ہے۔ کیا وہ الو لنگڑا تھا۔ “
” اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا چیز تھا۔ ” محسن راؤ ابھی تک پریشان تھا۔ ”ہم سے غلطی ہو گئی، ہمیں جنگل کی طرف نہیں جانا چاہئے تھا۔ “
وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے تانیہ تک پہنچ گئے۔ تانیہ نے ان دونوں کو بیڈ منٹن کھیلنے کی پیشکش
کچھ دیر ان دونوں نے بیڈ منٹن کھیلی۔ دل نہ لگا تو وہ گڑھی میں آگئے۔
محسن راؤ رات کے کھانے سے پہلے واپس جانا چاہتا تھا لیکن نادرہ نے اسے اصرار کرکے روک رات کے کھانے کے بعد وہ تینوں بہت رات گئے تک باتیں کرتے رہے۔ صبح دیر سے اٹھے۔
دس بجے ناشتہ کرنے کے بعد محسن راؤ نے نادرہ سے اجازت چاہی۔ اور اپنی گاڑی میں لاہور کا رخ کیا
نادرہ انہیں بڑی سڑک تک رخصت کرنے آئی۔

“اب تم کب لاہور آؤ گی۔ “ محسن راؤ نے پوچھا۔

” لاہور تو میرے لئے گھر آنگن سا ہے، میں جاتی رہتی ہوں ۔ “

”ہمارے گھر کب آئیں گی ۔ ” اس مرتبہ تانیہ نے مداخلت کی۔ لاہور تو خیر سے آپ آتی رہتی ہیں۔ “
“جلد ہی آؤں گی۔ میں وہاں پہنچ کر تمہیں فون کروں گی۔ “
“چلو، ٹھیک ہے۔ آپ کی مہمان نوازی کا بہت شکریہ، اللہ حافظ ۔ “
“جاتے جاتے شرمندہ کر کے تو نہ جائیں۔ ” نادرہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
پھر اس نے تانیہ کو گلے لگایا۔ تانیہ جلدی سے گاڑی میں جا بیٹھی تاکہ ان دونوں کو بات کرنے کا موقع مل جائے۔
“جی، اب ہمیں بھی ایسے ہی رخصت کر دیجئے۔ “
“وہ کس طرح ۔ “
“جیسے تانیہ کو رخصت کیا ہے ۔ ؟” وہ شرارت سے بولا۔ “فضول باتیں نہ کریں۔ ” نادرہ نے تانیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو گاڑی میں بیٹھی محسن کا انتظار کر رہی تھی۔
” جائیں وہ آپ کا انتظار کر رہی ہے۔ “
” اچھا، اللہ حافظ ۔ ” محسن راؤ نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔ “میں تمہاری آمد کا منتظر رہوں”
محسن، تمہیں، وہ پل یاد ہے۔ “
ہاں، یاد ہے۔ لیکن اس وقت تمہیں وہ پل کیسے یاد آگیا۔”
” ایسے ہی آئندہ جب تم آؤ گے تو ہم وہاں چلیں گے۔ “
یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ “اچھا۔ “
محسن راؤ نے فوراً اس کا ہاتھ تھام لیا اور سرگوشی میں بولا۔ ”واہ، کیا حسین ہاتھ ہے تمہارا”

نادرہ نے دھیرے سے اپنا ہاتھ چھڑالیا اور مسکرا کر بولی۔ ”اللہ حافظ ۔ “

پھر دونوں گاڑیاں مخالف سمتوں میں روانہ ہو گئیں۔
نادرہ گڑھی بهرام نگر پہنچی تو اسے اپنی گڑھی ویران ویران سی لگی۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے سب کچھ محسن راؤ کے ساتھ چلا گیا ہو۔ نادرہ کا گڑھی میں دل نہ لگا، وہ دوسرے دن ہی لاہور کے لئے روانہ ہو گئی۔
گلبرگ میں نادرہ کے رشتے کے چچا رہتے تھے۔ وہ ایک بھرا پرا گھر تھا۔ اس کا اس گھر میں بہت دل لگتا تھا۔ وہ اکثر لاہور آتی رہتی تھی۔ چچا کا تو کافی عرصہ ہوا انتقال ہو چکا تھا۔ گھر میں اب چاچی تھیں۔ اس کے چچازاد بھائی اور بہنیں تھیں۔ ایک چھوٹی بہن کے سوا سب کی شادیاں ہو چکی تھیں۔
چچی اور چچازاد بہن بھائی اسے ٹوٹ کر چاہتے تھے۔
لاہور پہنچ کر اس نے سب سے پہلے تانیہ کو فون کیا۔ نادرہ کی آواز سن کر تانیہ جھوم گئی۔ وہ خوش ہو کر بولی ۔ ”کہاں سے بات کر رہی ہیں آپ۔ “

” تمہارے شہر سے ۔ ” نادرہ نے بتایا۔
“لاہور پہنچ گئی ہوں ۔ “
” اچھی خبر ہے، بھائی جان سنیں گے تو خوش ہو جائیں گے ۔ “
“تم اپنی کہو۔ “
“میں اپنی کیا کہوں۔ میرا تو جی چاہتا ہے کہ آپ کو کہیں جانے ہی نہ دوں ۔ “
“اچھا۔ ” نادرہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ ” آج کا کیا پروگرام ہے۔”

” آپ گھر آجائیں ہمارے ۔ کہیں تو گاڑی بھیج دوں ۔ “
“گھر آنا کوئی مسئلہ نہیں، گاڑی ہے میرے پاس۔ ” نادرہ نے کہا۔ ”میں کچھ اور سوچ رہی تھی
“وہ کیا ۔ ؟ تانیہ نے پوچھا۔
“آج ایک زبردست فلم ریلیز ہوئی ہے۔ کیوں نہ اس کا پہلا شو دیکھ لیں۔ مجھے فلم دیکھے ایک عرصہ ہو گیا۔ “ “ٹھیک ہے۔ میں بھائی جان سے اجازت لے لیتی ہوں۔ آپ آجائیں۔ ” تانیہ نے کہا۔
“ہاں …. رات کا کھانا آپ کو ہمارے ساتھ کھانا ہوگا۔ ” “منظور ” نادرہ نے چہک کر کہا۔

فلم کا پہلا دن اور پہلا شو تھا۔ سینما پر زبردست رش تھا۔ لیڈیز کی کھڑکی پر اچھا خاصا رش تھا۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑی ابھی یہ سوچ ہی رہی تھیں کہ کیا کرنا چاہئے۔ پتہ نہیں انہیں ٹکٹ بھی ملے گا یا نہیں کہ ایک شخص ان کے نزدیک آیا اور بہت مودبانہ انداز میں بولا۔

“میں اس سینما کا منیجر ہوں۔ آپ یہاں کہاں کھڑی ہیں۔ میرے دفتر میں آجائیے۔ میں دیتا ہوں، آپ لوگوں کو ٹکٹ”
تانیہ اور نادرہ نے پہلے اس شخص پر نظر ڈالی ۔ وہ انہیں ایک معقول اور معتبر شخص نظر آیا۔ پھر انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ نادرہ نے سمجھا کہ شاید اس نے راجہ بہرام نگر کی بیٹی کی حیثیت سے پہچان لیا ہے۔ تانیہ نے یہ جانا کہ اس کے بھائی محسن راؤ کی وجہ سے ان پر یہ عنایت کی گئی بہر حال انہیں فلم کے دو ٹکٹ چاہئے تھے جو انہیں پورے احترام کے ساتھ عطا کئے جارہے تھے
انہیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔
دونوں منیجر کے ساتھ چل پڑیں۔ ایک کونے میں منیجر کا دفتر تھا۔ وہ دونوں کو اپنے ساتھ لئے داخل ہوا، اس نے بہت ادب سے ان دونوں کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اور پھر بڑے احترام سے پوچھا۔ ” آپ لوگوں کے لئے کیا منگواؤں ۔ چائے یا ٹھنڈا ۔ “
“جناب اس زحمت کی ضرورت نہیں۔ ہمیں ٹکٹ مل جائیں۔ یہی ہمارے لئے بہت ہے۔ ” نادرہ نے کہا۔
لیکن وہ شخص نہ مانا اور اس نے منع کرنے کے باوجود ٹھنڈا منگوالیا، جو انہیں مجبوراً پینا پڑا، اتنی دیر میں کھڑکیاں کھل گئیں، ٹکٹ تقسیم ہونے لگے نادرہ نے اپنے پرس سے پیسے نکال کر منیجر کی طرف بڑھائے لیکن اس نے پیسے لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا۔
” پیسے دے کر مجھے الجھن میں نہ ڈالیں۔۔ آئیں میں آپ کو آپ کی سیٹوں تک چھوڑ آؤں۔ “
جب وہ دونوں ہال میں داخل ہوئیں تو انہوں نے دیکھا کہ پورا ہال خالی پڑا ہے۔ انہیں ہال میں بٹھانے میں بھی اولیت دی گئی تھی۔ کوئی پانچ منٹ کے بعد دوسرے فلم بینوں کے لئے ہال کھولا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہال کی تمام سیٹیں بھر گئیں۔
نادرہ اور تانیہ آخری وقت تک حیران پریشان رہیں۔ اس سینما ہال پر انہیں جو وی آئی پی ٹریٹمنٹ دیا گیا تھا وہ ان دونوں کی سمجھ سے باہر تھا بهر حال میٹنی شو دیکھ کر وہ دونوں جب گھر پہنچیں اور محسن راؤ سے سارا ماجرا بیان کیا تو اس نے سب سے پہلے سینما ہال کا نام پوچھا، تانیہ نے سینما ہال کا نام بتایا۔ محسن راؤ نے سینما ہال کا نام سن کر بڑے معنی خیز انداز میں سر ہلایا۔
“کیا ہوا بھائی جان ۔ ؟”
“اس سینما کا مالک اعتبار راؤ ہے ۔ ” محسن راؤ نے انکشاف کیا۔
” اوہ، مائی گاڈ، تبھی تو میں کہوں کہ آخر اس قدر اہم سمجھنے والا شخص یہاں کون ہے۔ ؟؟”
“کیا وہ تم لوگوں کے سامنے آیا تھا۔ “
“نہیں۔ ” تانیہ نے کہا۔
‘کیا تم اسے پہچانتی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ منیجر کے روپ میں وہ خود ہی ہو۔ “
” نہیں، وہ منیجر ہی تھا۔ میں نے انہیں بس بابا کے انتقال پر دیکھا تھا۔ لیکن پھر بھی میں انہیں پہچان لوں گی۔ دونوں بھائیوں کے مقابلے میں ان کا چہرہ بالکل مختلف ہے۔ “
“کیا مطلب۔ ” نادرہ نے پوچھا۔
“مطلب یہ کہ آفتاب راؤ اور اقبال راؤ کے چہروں سے ایسی خباثت ٹپکتی ہے جبکہ اعتبار راؤ کا فیس خاصا سوفٹ ہے۔ ” تانیہ نے اپنی بات کی وضاحت کی۔

اس وضاحت پر نادرہ نے محسن راؤ کو دیکھا اور وہ دونوں جانے کیا سوچ کر دھیرے سے مسکرا دیئے۔ تانیہ ان دونوں کو مسکراتا ہوا دیکھ کر کچھ الجھن میں پڑ گئی۔
“کیا ہوا، کوئی غلط بات کہہ دی میں نے۔ “ وہ بولی۔
“کیا؟؟ ۔ نہیں …. دراصل ہم دونوں تمہاری چہرہ شناسی کی داد دے رہے تھے۔ ” محسن راؤ نے کہا
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تانیہ زبر دست چہرہ شناس تھی۔ کیونکہ بہت حساس تھی۔ اس لئے کسی بھی شخص کو ایک نظر دیکھ کر اس کے بارے میں اچھی یا بری رائے قائم کرلیتی تھی۔ انسان کا چہرہ اس کے باطن کا آئینہ ہوتا ہے۔ اور یہ آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ بس آئینہ دیکھنا آنا چاہئے۔ تانیہ کی اپنی زندگی آئینے کی طرح شفاف تھی۔ اس نے بڑے دکھ اٹھائے تھے۔ سب سے بڑا دکھ تو یہی تھا کہ وہ باپ کے ہوتے ہوئے باپ کی شفقت سے محروم رہی۔ چچا کے ظلم سہے۔ صحرا کے طوفانوں سے کھیلی۔ ایک کے بعد ایک آزمائش آتی گئی۔ اور ان آزمائشوں سے گزرتے ہوئے اسے اپنے بارے میں سوچنے کا موقع ہی نہ ملا۔ اب زندگی نے اسے تھوڑی سی فرصت دی تھی۔ رات کو بیڈ پر لیٹ کر کروٹیں بدلتے ہوئے اس کے تصور میں راشمون آجاتا تھا اس کی دی ہوئی حسین کلی وہ کراچی سے اپنے ساتھ لے آئی تھی۔”

“یہاں اس نے کرسٹل کا بہت خوبصورت اور نازک سا گلدان خریدا تھا۔ اس گلدان میں وہ کلی سجادی تھی اور اس گلدان کو بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔ یہ ایسی جگہ تھی جہاں اٹھتے بیٹھتے اس پر نظر پڑتی رہتی تھی۔ اس گلاب کی کلی کی تازگی اور خوشبو میں کوئی فرق نہیں آیا تھا حالانکہ صحرا سے آئے اچھا خاصا وقت ہو گیا تھا۔ وہ اس کلی پر اگر نظریں جمادیتی۔ ایسے ہی اسے دیکھ لیتی تو راشمون کا چہرہ اس کی نگاہوں میں ابھرنے لگتا وہ کس قدر سچا چہرہ تھا۔ اسے واقعی تانیہ سے محبت ہو گئی تھی۔ لیکن تانیہ کیا کرتی، اس کی محبت کا جواب محبت سے کس طرح دیتی۔ ایک تو اسے وہاں سے نکلنے کی جلدی تھی۔ دوسرے وہ جانتی تھی کہ راشمون انسان نہیں ہے۔ وہ اس کی دنیا میں رہ سکتی ہے اور نہ وہ اس کی دنیا کا ہو سکتا ہے۔ پھر پیار بڑھانے کا فائدہ ۔ ؟ اب اس کی نگاہیں اس دنیا کے راشمون کو ڈھونڈنے لگی تھیں۔
تب ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔
تانیہ کی زندگی میں پہلے ہی انوکھے واقعات کیا کم تھے کہ ایک اور واقعہ رونما ہو گیا۔ وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ کبھی ایسا بھی ہو جائے گا۔ بہر حال لکھے کو کون مٹا سکتا ہے۔..

تانیہ کو وقت گزاری کے لئے بہت اچھا مشغلہ ہاتھ آگیا تھا۔ وہ اپنی آرٹ گیلری میں بیٹھی پینٹنگ میں مصروف رہتی۔ کوئی بھی تخلیقی کام سکون ذات کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے۔ تانیہ کو مصوری کرکے بڑا سکون ملتا۔ ایک دن وہ اسی طرح مصوری میں گم تھی کہ چپڑاسی نے آکر اطلاع دی۔
”تانیہ بی بی، آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔ “
کون ہے؟ نام نہیں بتایا۔ ” تانیہ نے برش چلاتے ہوئے پوچھا۔
“نہیں جی، نام انہوں نے نہیں بتایا۔ بس اتنا کہا تانیہ بی بی سے ملنا ہے۔ “
“اچھا بلاؤ ۔ ” تانیہ نے برش رکھ کر اپنے ہاتھ کپڑے سے صاف کئے اور کرسی پر جا بیٹھی۔
” میں اندر آسکتا ہوں ۔ ” اس شخص نے دروازے پر کھڑے ہو کر اجازت مانگی۔
جب تانیہ نے نظریں اٹھا کر آنے والے کو دیکھا تو اس کی ایک دم عجیب سی کیفیت ہو گئی۔ اس نے اسے فوراً پہچان تو لیا لیکن وہ پہچان کر بھی اجنبی بن گئی۔ اس نے اپنی نظر سامنے ایزل پر لگی پینٹنگ پر مرکوز کر دی اور سپاٹ لہجے میں بولی۔ “جی، آئیے۔ “

وہ شخص تھری پیس سوٹ پہنے تھا۔ رنگ سانولا، لیکن بے حد پر کشش، وہ بہت پر اطمینان چال چلتا ہوا اسکی میز کے نزدیک آیا اور کرسی اٹھا کر اس نے میز سے ذرا دور کی، پھر آرام سے اس پر برا جمان ہوگیا۔

“معاف کیجئے گا، میں نے آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا ۔ ” اس نے بڑے مودبانہ انداز میں پوچھا
“آپ یہاں کیوں آئے ہیں۔ ؟؟ ” لہجے میں ہلکی سی ناپسندیدگی تھی۔
” آپ سے ملنے۔ ” اس نے بڑے اشتیاق سے کہا۔
“کبھی آپ بھائی جان سے ملتے ہیں، کبھی انکل عامر سے ملتے ہیں۔ آخر یہ سب کیا ڈرامہ ہے۔ آخر آپ چاہتے کیا ہیں ۔ ؟” تانیہ کے لہجے میں باوجود احتیاط کے تلخی آگئی۔
“اگر آپ کو میرا آنا ناگوار گزرا ہے تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔ میرے آنے کا مطلب آپ کو تکلیف دینا ہرگز نہیں ہے۔ میں چلتا ہوں۔ خدا حافظ ۔ “
یہ کہہ کر وہ کھڑا ہو گیا اور اس کی طرف دیکھے بغیر دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ تانیہ کو توقع نہیں تھی کہ وہ اس کی بات کا اس قدر اثر لے گا کہ فوراً اٹھ کر چلا جائے گا۔ اس نے اسے آواز دینا چاہی لیکن آواز حلق میں پھنس کر رہ گئی۔ اتنی دیر میں وہ دروازے سے نکل گیا۔ تانیہ تیزی سے اٹھ کر دروازے پر آئی تو وہ بر آمدے کی سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ گیٹ کے باہر اس کی گاڑی کھڑی تھی۔ وہ گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی کو تیزی سے نکال لے گیا۔
تانیہ بر آمدے میں کھڑی اس کی گاڑی کو جاتا دیکھتی رہی۔ پھر وہ اپنے کمرے میں آکر کرسی پر دھم سے گری۔ یہ اس نے کیا کیا۔ وہ اس سے ملنے آیا تھا تو اسے چاہئے تھا کہ اس کی بات سن لیتی۔ اسے اس طرح بد سلوکی سے پیش نہیں آنا چاہئے تھا۔ یوں تلخ کلامی پر نہیں اتر آنا چاہئے تھا۔ لیکن اب تو جو ہوتا تھا، ہو چکا تھا۔
وہ کس قدر گریس فل لگ رہا تھا۔ ایسے پر کشش مرد کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں، پھر اسے ایک دم جھٹکا سا لگا۔ جیسے اسے ہوش آگیا۔ یہ کیا فضول بات وہ سوچنے لگی۔ اسے اپنے رویئے پر بڑی حیرت ہوئی۔ تانیہ بڑی محویت سے اپنی پینٹنگ مکمل کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ اس کے جانے کے بعد اس نے پھر سے برش ہاتھ میں لیا اور اسٹروک لگانے لگی لیکن اس کا انہماک ختم ہو چکا تھا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی چیز گم ہو گئی ہے لیکن کیا چیز گم ہو گئی ہے۔ اس بارے میں وہ باوجود کوشش کے کچھ
نہ جان سکی وہ دن بھر کھوئی کھوئی سی رہی۔ رات کو کھانے کی میز پر بھی اس کے ہاتھ بہت بے دلی سے اٹھ رہے تھے۔ محسن راؤ اسے بغور دیکھ رہا تھا۔ بالآخر اس سے رہا نہ گیا۔
اس نے پوچھا۔ ”تانیہ ،تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے۔ ؟؟” “جی، بھائی جان ۔ “
“پھر کیا بات ہے، کھانا کیوں نہیں کھا رہیں۔ “
“کھا تو رہی ہوں ۔ “
“کیا کھا رہی ہو خاک۔ ایسے کھاتے ہیں کھانا۔ ایک نوالہ منہ میں رکھ لیا پھر سو گئے۔ “
” بھائی جان بھوک نہیں لگ رہی ۔ “
“خیر تو ہے آج تمہاری بھوک کیسے اڑ گئی۔ “
” بھائی جان، ایک بات آپ کو بتاؤں ۔ ؟” تانیہ نے محسن راؤ کے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا۔
”ہاں، بتاؤ۔ “
“بھائی جان، گیلری میں اعتبار راؤ آئے تھے۔ “

تانیہ کا خیال تھا کہ محسن راؤ اس کی بات سن کر اچھل پڑے گا۔ اسے بڑی حیرت سے دیکھے گا۔ اس کی آمد پر تعجب کا اظہار کرے گا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ “اچھا۔ ” یہ کہہ کر وہ پورے انہماک سے کھانا کھاتا رہا۔ پھر اس نے ایک نظر تانیہ کے چہرے پر ڈالی اور پر سکون انداز میں بولا۔ “اچھا پھر ۔ “

“کمال ہے بھائی جان ۔ آپ کو اس کی آمد پر حیرت نہیں ہوئی۔ “

“حیرت اس لئے نہیں ہوئی کہ میں جانتا تھا کہ وہ تم تک پہنچے گا۔ ” عجب انکشاف ہوا۔
“وہ کیوں ۔ ؟ ” تانیہ پریشان ہو گئی۔
“اصل میں، میں نے ہی اس سے کہا تھا کہ وہ تم سے مل لے۔ “
“آخر کس لئے۔ “
“کیا اس نے تم سے کوئی بات نہیں کی ۔ “

“میں نے اس کی نوبت ہی نہیں آنے دی۔ ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی واپس چلتا کردیا..”
“تم نے کوئی بد تمیزی تو نہیں کی۔ “ محسن راؤ کو فکر ہوئی۔
“بد تمیزی تو نہیں کی البتہ تھوڑی سی بدسلوکی ضرور کی ہے۔ ” تانیہ نے بتایا۔
“ہوا کیا آخر ۔ ؟ پوری بات بتاؤ ۔ ” محسن راؤ نے پوچھا۔

تانیہ نے جواب میں جو کچھ ہوا تھا، وہ محسن راؤ کے گوش گزار کر دیا۔ تانیہ کی بات سننے کے بعد محسن راؤ اسے بھنویں اچکا کر اور منہ بگاڑ کر دیکھنے لگا۔

“بتائیں نہ بھائی جان، وہ میرے پاس کیوں آئے تھے۔ “
“اعتبار راؤ نے تمہیں پرپوز کیا ہے۔ ” محسن راؤ نے بڑی معصومیت سے کہا۔
“یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بھائی جان ۔ ” تانیہ کو جیسے سکتہ ہو گیا۔
“اس میں اس قدر پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس نے ابھی پر پوز کیا ہے۔ رشتہ منظور کرنا یا نہ کرنا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ بلکہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ “
” میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ ” تانیہ الجھ کر رہ گئی۔
“فی الحال تم اطمینان سے کھانا کھاؤ۔ “ محسن راؤ نے مشورہ دیا۔
” بس میں کھا چکی۔ ” یہ کہہ کر وہ اٹھنے لگی۔
“تانیہ، ایک بات سنو۔ “
” جی، بھائی جان ۔ ” تانیہ جاتے جائے رک گئی۔
“میں چاہتا ہوں کہ تم اعتبار راؤ کے بارے میں غور کر لو۔ تمہارا جو بھی فیصلہ ہو، مجھے صبح بتا دینا۔ ” محسن راؤ نے سنجیدگی سے کہا۔
” جی اچھا۔ ” تانیہ جلدی سے واش روم میں چلی گئی۔ اس نے صابن سے ہاتھ دھوتے ہوئے آئینے میں اپنی شکل دیکھی۔ اسے اپنا چہرہ کچھ بدلا بدلا سا دکھائی دیا۔ جب سے وہ لاہور آئی تھی۔ خالہ فرزانہ کو نہیں بھولی تھی۔ کبھی روز اور کبھی دوسرے تیسرے دن، انہیں فون ضرور کر لیتی تھی۔ کچھ اپنی سناتی تھی، کچھ ان سے سنتی تھی۔ اس وقت جانے کیوں خالہ فرزانہ بڑی ٹوٹ کر یاد آئی تھیں۔ اس نے اپنے کمرے میں جاکر ٹیلیفون اٹھایا۔ بیڈ پر بیٹھ کر اس نے ٹیلیفون اپنی گود میں رکھا اور خالہ فرزانہ کا نمبر ملانے لگی۔ نمبر ملتے ہی خالہ فرزانہ نے ریسیور اٹھایا اور اپنے مخصوص انداز میں ”ہیلو“ کہا۔

“ہاں، خالہ کیا ہو رہا ہے ۔ ؟ ” تانیہ نے سلام دعا کئے بنا براہ راست سوال کیا۔
” اوہ، اچھا، یہ تم ہو۔ ” خالہ فرزانہ کے لہجے میں ایک دم خوشی بھر گئی۔ ”ہاں، میری جان کیسی ہو ؟؟

“خالہ ، میں ٹھیک نہیں ہوں ۔ ” تانیہ کے لہجے میں افسردگی تھی۔
” ارے، کیا ہوا ؟ ” خالہ فرزانہ نے پریشان ہو کر پوچھا۔

“خالہ، مجھے آپ شدت سے یاد آرہی ہیں۔ ؟” وہ تڑپ کر بولی۔
” تم دو چار دن کے لئے کراچی آجاؤ ۔ “
“میرا تو جی چاہ رہا ہے کہ اسی وقت آپ کے پاس اڑ کر پہنچ جاؤں ۔ “
“تم پریشان ہو آخر کیوں ؟؟
“آپ کو نہیں معلوم یہاں کیا ہو گیا ہے۔ ؟”
” کچھ بتاؤ تو پتہ چلے۔ “
“آج اعتبار راؤ میری آرٹ گیلری میں مجھ سے ملنے آئے تھے۔ “
” کیا کہہ رہا تھا وہ ۔ ؟”
“ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی میں نے انہیں بھگا دیا۔ ” تانیہ نے ساری بات تفصیل سے بتائی، پھر بولی۔
” ابھی تھوڑی دیر پہلے جب میں نے بھائی جان کو ان کی آمد کی اطلاع دی تو انہوں نے جواب میں کہا کہ اعتبار راؤ کو انہوں نے خود میرے پاس بھیجا تھا۔ دراصل خالہ انہوں نے مجھے پرپوز کیا ہے۔ اب آپ بتائیں خالہ میں کیا کروں۔ یہ سب ہو رہا ہے۔ “
“اے تو اس میں پریشانی کی کونسی بات ہے۔ جہاں بیری ہوتی ہے، وہاں پتھر آتے ہی ہیں۔”
“خالہ، میں بیری نہیں ہوں ۔ ” تانیہ نے احتجاج کیا۔
”ہاں، تم بیری نہیں ہو لڑکی ہو، اسی لئے پتھر نہیں، رشتہ آیا ہے۔ “ خالہ نے ہنس کر کہا۔
” بھائی جان نے صبح تک فیصلہ مانگا ہے۔ ” وہ اپنی الجھن میں گرفتار تھی۔
“تو پھر دیدو فیصلہ۔”
“خالہ مجھے تو رونا آرہا ہے ۔ “
“تو رولو….. رونے میں تو کوئی حرج نہیں۔ ویسے جب پہلا رشتہ آتا ہے تو لڑکیوں کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔
سنا ہے اعتبار راؤ زبردست شخصیت کا مالک ہے۔ ” خالہ فرزانہ نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
” الله …. خالہ بس آپ”
“تمہیں کیسا لگا۔ ؟ “
” اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان میں بلا کی کشش ہے۔ پھر وہ بڑے سوبر سے ہیں۔ “ تانیہ نے اپنی رائے پیش کی، پھر بولی۔۔ لیکن خالہ آپ کو ان کے بارے میں کس نے بتایا۔ ؟“
“مجھے عامر نے بتایا۔ دراصل وہ پہلے رشتے کے سلسلے میں عامر سے ملا تھا۔ پھر عامر نے محسن راؤ سے بات کی۔ دونوں سر جوڑ کر بیٹھے۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر کوئی شخص ان کی طرف محبت سے ہاتھ بڑھا رہا ہے تو اس کا ہاتھ جھٹکنا نہیں چاہئے۔ “
“خالہ، یہ کہیں سب کچھ فراڈ نہ ہو۔ ؟ “
“کیا تم محسن راؤ اور اپنے انکل عامر کو بے وقوف سمجھتی ہو ۔ “
” بے وقوف تو نہیں سمجھتی البتہ دونوں کو سیدھا ضرور سمجھتی ہوں ۔ “
محسن کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی البتہ عامر کے بارے میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ سیدھے ہر گز نہیں ہیں۔ “
“خالہ، میں کیا کروں ۔ “
“لڑکے سے ملاقات کر لو… اچھا لگے تو ہاں کر دو۔ “
” وہ لڑکے نہیں ہیں۔ “

“چلو مرد کہہ لو، تمہارے مقابلے میں اس کی عمر ضرور زیادہ ہے لیکن مرد کی عمر کیا دیکھنا۔ ؟”
خالہ فرزانہ نے ہنس کر کہا۔

“اس کا مطلب ہے، آپ کو یہ رشتہ پسند ہے۔ “
“عامر کو پسند ہے، محسن راؤ کو پسند ہے تو پھر مجھے کیوں نہ پسند ہو گا۔ “
“چاہے مجھے پسند ہو یا نہ ہو۔ “
اگر تم انکار کروگی تو پھر تمہیں کوئی مجبور نہیں کرے گا۔ ” خالہ فرزانہ نے فوراً کہا۔ لیکن میں ایک مشورہ ضرور دوں گی کہ اعتبار راؤ سے ملاقات کئے بنا انکار مت کرنا۔” ” اچھا خالہ ٹھیک ہے ۔ ” تانیہ نے ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔
پھر دو چار ادھر ادھر کی باتیں کر کے اس نے ریسیور رکھ دیا۔

وہ رات تانیہ نے تقریباً آنکھوں میں کاٹی۔ اسے نیند نہ آئی۔ وہ ساری رات سوچتی رہی اور سوچ سوچ کر پریشان ہوتی رہی۔ وہ کبھی کروٹیں بدلتی۔ کبھی اٹھ کر بیٹھ جاتی اور کبھی اٹھ کر ٹہلنے لگتی۔ بار بار اس کی نظر گلاب کی کلی پر ٹھہر جاتی تھی۔ گلاب کی کلی پر نظر پڑتی تو دل میں خلش کی ایک لہر سی دوڑ جاتی۔ وہ گلاب کی کلی اسے کچھ مرجھائی مرجھائی سی دکھائی دیتی۔ اسی صبح ناشتے کی میز پر محسن راؤ تانیہ کا انتظار ہی کرتا رہا۔ آج تک ایسا نہیں ہوا تھا کہ دونوں بھائی بہنوں نے ایک ساتھ ناشتہ نہ کیا ہو۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد اس نے رفیق سے تانیہ کے بارے میں پوچھا۔

“تانیہ بی بی کہاں ہیں۔ ؟ “
“صاحب جی، ان کے کمرے کا دروازہ بند ہے۔ شاید وہ ابھی اٹھی نہیں۔ “
“اچھا، میں دیکھتا ہوں۔ “ وہ ناشتہ چھوڑ کر اٹھ گیا۔
اس نے اس کے کمرے کا دروازہ پہلے آہستہ پھر زور سے بجایا۔ لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ پھر اس نے دروازہ بجا کر زور سے آوازیں دیں۔ تانیہ نے فوراً دروازہ کھول دیا۔
“کیا ہوا تانیہ تم ابھی تک سو رہی تھیں۔ “
محسن راؤ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ تانیہ کے بال بکھرے ہوئے تھے اور آنکھیں سرخ اور نیند سے بوجھل تھیں۔ کمرے کی لائٹ بھی روشن تھی۔
” جی بھائی جان ۔ “
“تمہارے کمرے کی بتی بھی جل رہی ہے۔ کیا تم رات بھر جاگتی رہی ہو۔ “
“جی بھائی جان ۔ ” اس نے آہستہ سے کہا۔ پھر وہ بیڈ پر بیٹھی اور دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر رو پڑی۔
“ارے، تانیہ، یہ کیا؟ تم رو رہی ہو۔ رونے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ منہ ہاتھ دھو کر باہر آجاؤ۔ ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ “

اس نے تانیہ کا سر تھپتھپایا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ کچھ دیر کے بعد تانیہ ناشتے کی میز پر آئی تو وہ اپنے آپ کو خاصا سنبھال چکی تھی۔ وہ خاموشی سے ناشتہ کرنے لگی۔ محسن راؤ نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا، پھر بولا۔ ”ہاں، تانیہ ، کیا میں اعتبار راؤ کو انکار کر دوں ۔ “
تانیہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ صرف اپنا سر جھکا لیا۔
“تانیہ میں تمہارا جواب سننا چاہتا ہوں ۔ “
“میں یہ اختیار آپ کو دیتی ہوں۔ آپ خود فیصلہ کرلیں۔ مجھے آپ کا ہر فیصلہ منظور ہوگا۔ “
تانیہ نے سعادت مندی سے کہا۔

“مجبوراً ؟؟”
” نہیں خوشی ہے۔ “
“کیا آج رات میں اسے کھانے پر بلالوں ۔ “
” شوق سے بلائیے۔ ” تانیہ نے نظریں جھکائے جھکائے کہا۔
“اگر اجازت ہو تو نادرہ کو بھی بلالوں ۔ ؟ ” محسن راؤ نے اجازت چاہی۔
“اجازت ہے۔ ” تانیہ نے ایک دم اپنی نظریں اٹھا کر کہا۔ “جی بہت شکریہ ۔ ” محسن راؤ نے اپنی گردن جھکا کر کہا۔
“بھائی جان، آج میں صائمہ کی طرف جاؤں گی اور دوپہر کا کھانا وہیں کھاؤں گی ۔ “
” ہاں، ٹھیک ہے چلی جانا . لیکن سیکورٹی گارڈ کو اپنے ساتھ ضرور لے جانا۔ “
” سیکورٹی گارڈ کے ساتھ جانا بڑا عجیب سا لگتا ہے۔ لوگ بڑی حیرت سے دیکھتے ہیں۔ بڑی الجھن ہوتی ہے۔ ان گارڈوں سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔ “
” مجبوری ہے۔ ” محسن راؤ نے کہا۔ “آدمی کو اپنی حفاظت سے غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ “

محسن راؤ کے جانے کے بعد تانیہ نے صائمہ کو فون کر کے اپنے آنے کی اطلاع دی۔ پھر وہ تیار ہو کر راوی روڈ کی طرف چل دی۔ وہ گاڑی خود ڈرائیو کر رہی تھی۔ گاڑی کے پیچھے موٹر سائیکل پر گارڈ چل رہا تھا۔
جب اس کی گاڑی راوی روڈ کے پل پر پہنچی تو اس نے فٹ پاتھ پر ایک تماشا دکھانے والی کو جاتے ہوئے دیکھا۔ اس کے ساتھ ایک بندر اور ریچھ تھا۔ تانیہ نے فوراً اپنی گاڑی آہستہ کرلی ۔ پھر اس نے مڑ کر اس عورت کی طرف دیکھا۔ وہ ایک پکی عمر کی خوبصورت عورت تھی۔ اس کی عمر پینتیس سے اوپر رہی ہوگی لیکن وہ اپنی صحت کے اعتبار سے تیس کی دکھائی دے رہی تھی۔ وہ قمیص اور گھاگرا پہنے ہوئے تھی۔
اس عورت کو دیکھ کر تانیہ کے دماغ میں ایک خیال بجلی کی طرح کو ندا۔ اس نے فوراً ہی اپنی گاڑی روک لی۔ اور گاڑی سے اتر کر اس کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگی۔
جب ریچھ والی عورت نے ایک گاڑی والی عورت کو اپنے انتظار میں دیکھا تو اس نے جلدی جلدی قدم اٹھائے اور نزدیک جاکر بولی۔
“جی، میم صاحب۔ “
” یہ بتاؤ، تم تماشا دکھانے کا کیا لیتی ہو۔ ؟ ” تانیہ نے مسکرا کر پوچھا۔
یہاں پل پر دیکھو گی تماشا۔ “ وہ حیران ہو کر بولی ۔ “نہیں، اپنے گھر پر ۔ تم یہ بتاؤ کہ پورے دن میں کیا کما لیتی ہو۔ “
کبھی سو کبھی پچاس ۔ ” اس عورت نے بتایا۔

تانیہ نے اپنے پرس سے سو روپے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھے اور بولی ۔ “فی الحال یہ سو وپے رکھ لو، کل صبح میرے گھر آجانا میں تمہیں پانچ سو روپے اور دوں گی لیکن تمہیں میرے گھر پر دو چار گھنٹے گزارنے ہوں گے۔ ” “میم صاحب۔ تم نے میرا کیا کرنا ہے۔ “
“میں تمہاری تصویر بناؤں گی۔ اپنے ساتھ ریچھ اور بندر کو لانا نہ بھولنا۔ “
نہیں جی۔ ان کو میں کہاں چھوڑ سکتی ہوں بھلا۔ یہ میرے ساتھ ہوں گے۔ پر جی آؤں کہاں؟؟”
“ماڈل ٹاؤن آنا ہو گا۔ ” تانیہ نے ایک کاغذ پر اسے اپنے گھر کا پتہ لکھ کر تھمایا۔ ” اس کاغذ پر میرے گھر کا پتہ لکھا ہے۔ کسی سے پوچھ کر آجانا۔ میں صبح دس بجے تمہارا انتظار کروں گی ۔ “
‘ٹھیک ہے۔ میم صاحب میں آجاؤں گی۔ “
یہ کہہ کر اس نے وہ کاغذ اور سو روپے کا نوٹ بہت احتیاط سے اپنی قمیص میں رکھ لیا۔ تانیہ کو بات کرتے دیکھ کر پل سے گزرنے والے لوگ وہاں رکنے لگے تھے۔ تانیہ اس سے بات کر کے جلدی سے گاڑی میں بیٹھی اور گاڑی تیزی سے نکال لے گئی۔ دوسرے دن وہ وقت مقررہ پر ماڈل ٹاوئن تانیہ کی کوٹھی کے گیٹ پر پہنچ گئی۔ رفیق نے دروازہ کھولا اور اپنے سامنے ریچھ والی کو پاکر اسے ڈانٹتے ہوئے بولا۔
” او چل آگے بڑھ، یہاں کوئی نہیں دیکھ رہا تیرا تماشا۔ ” “او بیل کے سے منہ والے اندر جاکر میم صاحب کو بول کہ تماشے والی آئی ہے۔ “
” میم صاحب کون میم صاحب، ادھر کوئی میم صاحب نہیں رہتی۔ “

تانیہ کو اس ریچھ والی کا انتظار تھا۔ وہ بیل کی آواز سن کر رفیق کے ساتھ خود بھی باہر نکل آئی۔ رفیق کو اس نے گیٹ پر کسی سے الجھتے ہوئے دیکھا تو وہ تیزی سے گیٹ کی طرف آگئی۔ سامنے اسے ریچھ والی نظر آئی۔ ریچھ والی نے بھی اسے آتے ہوئے دیکھ لیا۔ وہ رفیق کو غصے سے دیکھتے ہوئے بولی۔
”جھوٹ بولتا ہے۔ وہ کیا آرہی ہیں میم صاحب۔ ” رفیق نے پیچھے پلٹ کر دیکھا۔ تانیہ نے اشارے سے کہا۔
”اسے اندر آنے دو۔ “
“جی بی بی۔ ” رفیق کو بڑی حیرت ہوئی۔ بہرحال اس نے گیٹ کھول دیا۔
وہ اپنے ریچھ اور بندر کے ساتھ اندر آگئی اور بولی۔ ”میم صاحب، مجھے دیر تو نہیں ہوئی۔ “
“تم نے کمال کر دیا۔ بڑے ٹھیک وقت پر آئی ہو۔ ” تانیہ نے خوش ہو کر کہا۔
تانیہ نے پہلے اپنے کیمرے سے اس کی مختلف انداز میں تصویریں اتاریں۔ پھر اس نے اسے ایک درخت کے نیچے اسٹول پر بٹھا دیا۔ اور ایزل پر لگے کاغذ پر اس کو اسکیچ کرنے لگی۔ محسن راؤ کا معمول تھا کہ وہ دوپہر کا کھانا گھر پر کھاتا تھا۔ کھانا کھا کر وہ آرام کرتا تھا اور پھر شام کی چائے پی کر ریستوران کا رخ کرتا تھا۔ آج بھی وہ ٹھیک ایک بجے گھر پہنچ گیا۔
گاڑی کا ہارن سن کر رفیق نے کوٹھی کا گیٹ کھولا۔ محسن راؤ گاڑی اندر لے آیا۔ گاڑی کی پچھلی نشست پر اس کا گارڈ بیٹھا تھا۔ جبکہ دوسرا گارڈ کوٹھی کے اندر الرٹ کھڑا تھا۔
محسن راؤ نے گاڑی سے اتر کر تانیہ کی طرف بڑی دلچسپی سے دیکھا جو بڑے انہماک سے تصویر بنارہی تھی۔ ریچھ والی پر ابھی اس کی نظر نہیں پڑی تھی۔ لیکن ریچھ والی نے اسے گاڑی سے اترتے دیکھ لیا تھا۔ اسے دیکھتے ہی اچانک اس میں بجلی سی دوڑ گئی۔ وہ بڑی برق رفتاری سے اٹھی۔ اس نے پلک جھپکتے اپنی قمیص سے چاقو نکالا اور قریب آتے ہوئے محسن راؤ کا بڑی مہارت سے نشانہ لیا۔ محسن نے اسے اپنی طرف چاقو پھینکتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ وہ فوراً ایک طرف کو ہو گیا۔ اس طرح وہ چاتو جسے دل میں پیوست ہو جانا چاہئے تھا، دل میں پیوست نہ ہو سکا۔ البتہ اس کے بازو میں ضرور گھس گیا۔ دونوں گارڈوں نے فوراً اپنی کلاشنکوف سیدھی کرلیں۔ لیکن محسن راؤ نے زور سے نیچ کر کہا۔
“نہیں۔ “
محسن راؤ نے اس ریچھ والی کو پہچان لیا تھا۔ وہ راکھی تھی، راج مداری کی بیٹی۔ چند لمحوں میں جانے کیا سے کیا ہو گیا تھا۔ اگر وہ اپنے گارڈوں کو منع نہ کرتا تو اب تک راکھی کی لاش زمین پر پڑی تڑپ رہی ہوتی۔ چاقو کا وار کرنے کے بعد راکھی نے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔ وہ اپنے ریچھ اور بندر کے ساتھ تیزی سے بھاگتی ہوئی گیٹ سے نکل گئی۔
رفیق ابھی گیٹ پر موجود تھا۔ وہ گیٹ بند کر رہا تھا۔ اس نے راکھی کو محسن راؤ پر چاقو پھینکتے ہوئے دیکھ
لیا تھا۔ اس نے چاہا کہ گیٹ بند کر کے بھاگتی ہوئی راکھی کو روک دے۔ ادھر سے گارڈ بھی اسے اپنی
گرفت میں لینے کے لئے آگے بڑھے۔ تب محسن راؤ نے پھر انہیں تنبیہ کی۔ ”اسے جانے دو۔ “

رفیق اور گارڈ ہاتھ ملتے رہ گئے۔ تانیہ ششدر کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ دل دھاڑ دھاڑ کر رہا تھا۔ اور ٹانگیں لرز رہی تھیں۔ اسے کیا معلوم تھا کہ وہ خود ہی اپنے بھائی کے قتل کا سامان کر رہی ہے۔ خود ہی قاتل کو گھر بلا رہی ہے۔ کیا عجب تماشا تھا۔

وہ چاقو اس کے بازو میں پیوست تھا لیکن آر پار نہیں ہوا تھا اور ہڈی بھی مضروب نہیں ہوئی تھی۔ کوٹ
پہنے ہوئے تھا، اس لئے بچت ہو گئی تھی۔ محسن راؤ نے اس چاقو کو ہتھے سے پکڑ کر کھینچ لیا۔ اور خون آلود چاقو رفیق کی طرف بڑھا کر بولا۔ ”اسے دھو کر اپنے پاس رکھو۔ “
پھر اس نے گارڈ کی مدد سے کوٹ اتارا، زخم پر رومال باندھا۔ اور گاڑی کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔
“چلو، اسپتال چلو۔ “
تانیہ پچھلی سیٹ پر فوراً اس کے برابر بیٹھ گئی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے بھائی کو دیکھے جارہی تھی۔ ۔
“تانیہ، مجھے کچھ نہیں ہوا۔ معمولی زخم ہے ٹھیک ہو جائے گا۔ تم بالکل فکر مت کرو۔ ” اس نے حوصلہ دیا۔
تانیہ نے کچھ کہے بغیر اس کے کندھے پر سر رکھ دیا۔ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے

اسپتال میں ضابطے کی کارروائی کے بعد فوری طور پر طبی امداد فراہم کی گئی۔ زخم گہرا تھا لیکن مہلک نہیں تھا۔ اوپر والے نے اسے بچالیا تھا۔ راکھی نے اسے مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اس نے براه راست دل پر وار کیا تھا۔ اگر یہ وار کارگر ہو جاتا تو محسن راؤ کی موت یقینی تھی۔ جس چاقو سے اس پر وار کیا گیا تھا، اس چاقو کو محسن راؤ اچھی طرح پہچانتا تھا، وہ راج مداری کا چاقو تھا۔ یہ چاقو ہمیشہ اس کے پاس رہتا تھا۔ راج مداری دھوکے میں مارا گیا تھا۔ وہ محسن راؤ پر اپنا جادو کر کے اسے ہمیشہ کے لئے اپنی قید میں لے لینا چاہتا تھا۔ اور اپنے اس مقصد میں اس نے خاصی کامیابی حاصل کرلی تھی۔ لیکن وہ اماوس کی رات، سیاہ تاریک شب خود اس کی زندگی کو موت کی آغوش میں قید کر آئی تھی۔ جوگی رام پال نے راج مداری پر ایسا مہلک وار کیا تھا کہ اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہ رہا۔ راج مداری خود کو بڑا ز بردست جادوگر سمجھتا تھا۔ اور یہ زعم ہی اسے لے ڈوبا تھا۔ وہ محسن راؤ کو قید کرتے ہوئے خود موت کی گرفت میں آگیا تھا۔ اگرچہ آخری لمحوں میں اس پر سارے راز فاش ہو گئے تھے۔ وہ جان گیا تھا کہ کس نے کیا کیا ہے، لیکن اس وقت کچھ ہو نہیں سکتا تھا۔ وہ تڑپ تڑپ کر مرگیا تھا۔ دوسرے دن جب جنگل سے اس کا باپ گھر نہ پہنچا تو راکھی فکرمند ہو گئی۔ ایک دن اس نے اس کے آنے کا اور انتظار کیا۔ جب وہ تیسرے دن بھی گھر نہ آیا تو وہ اپنے ریچھ اور بندر کو لے کر جنگل کی طرف گئی۔ بالآخر اس نے اپنے باپ کی لاش تلاش کرلی ۔ اس کے باپ کی لاش اگر چہ نا قابل شناخت تھی لیکن وہاں موجود دوسری چیزوں سے اس نے اندازہ کر لیا کہ یہ راج مداری کی لاش ہے۔ وہاں محسن راؤ بھی موجود نہ تھا۔ اس نے ریچھ کی کھال میں گڑا ہوا چاقو کھینچ لیا۔ اور اسی لمحے اپنے باپ کی قسم کھائی کہ وہ محسن راؤ سے اس قتل کا انتقام لے کر رہے گی، وہ جب بھی جہاں بھی اسے نظر آگیا، اسے مار دے گی۔ وہ اگر اس کا نہیں ہوا تو وہ پھر کسی کا بھی نہیں ہو سکے گا۔ کچھ دن کے بعد اس نے لاہور کا رخ کیا۔ چاقو پھینک کر مارنے کا فن اس کے باپ نے اسے سکھا رکھا تھا۔ اس نے اپنے باپ کے اس چاقو سے مزید مشق کی، یہاں تک کہ وہ چاپو پھینک کر وار کرنے کے فن میں طاق ہو گئی۔ قبیلے کے کئی نوجوان اس پر فریفتہ تھے اور اس سے شادی کرنے کے خواہاں تھے۔ لیکن اس نے اپنے قبیلے والوں سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ جب تک وہ اپنے دشمن سے انتقام نہیں لے لے گی، کبھی کسی خوشی کا منہ نہ دیکھے گی۔ چاہے اپنے دشمن کو تلاش کرنے میں عمر ہی کیوں نہ بیت جائے
عمر رائیگاں کا سفر جاری تھا۔ اس کی زندگی ایک تماشا بنی ہوئی تھی۔ وہ یہاں وہاں بھٹک رہی تھی کہ اچانک ہی اس کی منزل اس کے سامنے آگئی۔ محسن راؤ کو اچانک اپنے سامنے پاکر اس کے جسم میں بجلی سی بھر گئی۔ اس نے آنًا فانًا وہ کر دیا جس کی اس نے اپنے باپ کی لاش پر قسم کھائی تھی۔ جائے وار کر کے وہ ایک لمحہ بھی وہاں نہیں رکی تھی۔ اس نے یہ بھی نہیں دیکھا تھا کہ اس کا وار کارگر ہوا ہے یا نہیں۔ وہ زندہ ہے یا مرگیا۔ اسے اپنے وار پر یقین تھا، وہ جانتی تھی کہ اس کے ہاتھ سے نکلا ہوا چاقو کبھی بے نشانہ نہیں ہوا۔ پر اس کا کیا کیجئے کہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے۔ نادرہ کو جب علم ہوا کہ اس پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے تو وہ بھاگ کر اسپتال پہنچی۔ یہ اتفاق تھا کہ وہ اس وقت لاہور میں تھی۔ جب وہ اسپتال کے کمرے میں پہنچی تو وہاں ایک میلہ لگا ہوا تھا۔
نادرہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ تانیہ نے نادرہ کو اسپتال ہی سے فون کیا تھا۔ اس وقت محسن راؤ آپریشن تھیٹر میں تھا۔ بہت چھوٹا سا آپریشن تھا۔ زخم صاف کر کے ٹانکے لگا دیئے گئے تھے۔ تانیہ نے نادرہ کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ بس اتنا ہی کہا تھا کہ بھائی جان زخمی ہیں۔ وہ فوراً اسپتال جائے۔نادرہ کو دیکھ کر تانیہ نے اسے گلے سے لگالیا اور بولی۔
” پریشان نہ ہوں ۔ بھائی جان اب بالکل ٹھیک ہیں”

محسن راؤ تکیوں سے ٹیک لگائے، نیم دراز تھا۔ نادرہ کو دیکھ کر مسکرایا اور بولا۔
” آؤ، نادرہ ۔ ” کمرے میں اس وقت محسن راؤ کا بچپن کا دوست آصف صدیقی، انکل عامر اور ان کی فیملی اور تانیہ تھی نادرہ کو دیکھ کر آصف صدیقی نے جانے کی اجازت چاہی۔ اس کے جانے کے بعد کمرے میں گھر کے لوگ رہ گئے۔ ان سب لوگوں سے اس کا تعارف تھا۔
” یہ کیسے ہوا ؟ ” نادرہ کی آواز میں بڑی تڑپ تھی۔
“تمہیں تانیہ نے کچھ نہیں بتایا۔ “
“نہیں بھائی جان، میں نے جان کر نہیں بتایا تھا کہ پریشان ہوں گی ۔ “
” تم نے بہت اچھا کیا۔ ” اس مرتبہ انکل عامر بولے۔ پھر وہ نادرہ سے مخاطب ہوئے۔ محسن راؤ نے یہ زخم ہنس کر کھایا ہے۔ “
“کیا مطلب؟” نادرہ نے کہا۔ ” انکل عامر میں سمجھی نہیں۔ آپ کی بات ۔ “
” قاتلہ سے انہوں نے پورا پورا تعاون کیا۔ اسے پورے اطمینان سے فرار ہونے کا موقع عنایت کیا”

قاتلہ،؟؟ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، انکل عامر ۔ کیا محسن پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے ؟ “
جی، محسن صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے اور وہ بھی کسی خاتون نے کیا ہے ؟ “
“کون تھی وہ ؟ ” نادرہ الجھن میں گرفتار ہو گئی۔
“تمہاری دوست۔ ” اس مرتبہ محسن راؤ بولا اور بول کر ہنس دیا۔
” میری دوست ؟ ” نادرہ نے حیران ہو کر پوچھا۔

” بھائی جان، کیوں پریشان کر رہے ہیں، نام بتا کیوں نہیں دیتے۔ “
” تانیہ تم بتاؤ، وہ کون تھی؟۔ “
“انہیں بوجھنے دونا۔ “
“راکھی تھی وہ اور اس کمینی کو میں نے خود گھر بلوایا تھا ۔ ” تانیہ کے لہجے میں پچھتاوا تھا۔
“تم کیوں نادم ہو رہی ہو، تمہیں کیا معلوم تھا کہ وہ تمہارے بھائی کی جان کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ وہ راکھی تھی، راج مداری کی بیٹی۔ اتنے برسوں کے بعد وہ یہاں کہاں آگئی تانیہ ذرا مجھے تفصیل سے ساری بات بتاؤ ۔ “

پھر تانیہ نے راکھی سے ملاقات اور اسے گھر بلانے کی ساری تفصیل سے آگاہ کر دیا۔

“محسن آپ نے یہ کیا کیا ۔ ” نادرہ نے سارا واقعہ سن کر محسن کی طرف رخ کیا۔
“میں نے کیا کیا ہے۔ میں نے تو کچھ نہیں کیا۔ “
“اس کتیا کی لاش کیوں نہیں گرائی، اسے فرار ہونے کا موقع کیوں دیا ؟ ” نادرہ کے لہجے میں غصے کی جھلک تھی۔

محسن راؤ نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ کیا جواب دیتا۔ اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اسے خود معلوم نہ تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ اسپتال سے گھر آجانے کے بعد زخم بھر جانے تک، نادرہ نے اس سے بار بار یہ سوال کیا کہ اس نے قاتلانہ حملے کے باوجود راکھی کو کیوں چھوڑ دیا۔ لیکن ہر بار محسن راؤ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ ویسے وہ اپنے اس رویے کے بارے میں مسلسل سوچتا رہا۔

پھر ایک دن تانیہ نے اس سوال کو دہرایا۔ وہ بولی۔ “بھائی جان، یہ خلش تو زندگی بھر میرے دل میں رہے گی کہ میری حماقت سے میرے بھائی پر قاتلانہ حملہ ہوا لیکن یہ بات بھی میرے دل میں پھانس بن کر چبھی ہوئی ہے کہ آپ نے اس کمینی کو پورے اطمینان سے نکل جانے دیا۔ آخر بھائی جان کچھ بتائیں تو آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ “
“یہ سوال نادرہ بھی مجھ سے کئی مرتبہ پوچھ چکی ہے۔ پھر جو سنتا ہے، اس کے دماغ میں پہلا سوال میں آتا ہے کہ میں نے راکھی کو جانے کیوں دیا۔ میں خود بھی اپنے اس رویے پر مسلسل غور کرتا رہا ہوں ۔ میں اب اس نتیجے پر پہنچا ہوں اور شاید یہ بات میں نادرہ سے نہ کہہ سکوں لیکن تم کیونکہ میری زندگی کے ہر راز سے واقف ہو اس لئے تمہیں بتاتا ہوں کہ میں نے اسے اس لئے چھوڑ دیا کہ شاید میں اسے کوئی خوشی دینا چاہتا تھا۔” اس نے عجیب بات کہی۔
” خوشی دینا چاہتے تھے، ایک قاتلہ کو خوشی ؟ میرا خیال ہے کہ آپ دنیا کے سب سے انوکھے زخمی ہیں۔ آپ نے زخم اس لئے کھایا کہ زخم لگانے والا خوش ہو سکے ۔ واہ بھائی جان جواب نہیں آپکا”

“دیکھو تانیہ، راکھی کا باپ میرا محسن تھا، اس نے مجھے قتل ہونے سے بچایا تھا لیکن پھر وہ میرے ہی ہاتھوں مارا گیا۔ تم یہ بھی جانتی ہو کہ وہ مجھے ٹوٹ کر چاہتی تھی لیکن میں نے کبھی اس کی محبت کا جواب محبت سے نہیں دیا۔ جبکہ میں نادرہ کا اسیر ہو گیا، میرا خیال ہے کہ وہ ہماری ان ملاقاتوں سے واقف تھی۔ اس کے باوجود اس نے کبھی ضبط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔ اب تم اندازہ کر سکتی ہو کہ جب اس نے
اپنے باپ کی مسخ شدہ لاش جنگل میں پائی ہوگی اور مجھے وہاں سے غائب پایا ہو گا تو اس کے دل میں اچانک انتقام کا شعلہ بھڑک اٹھا ہو گا بات اصل میں یہ ہے تانیہ کہ میں راکھی کے بارے میں ہمیشہ ایک مجرمانہ احساس میں مبتلا رہا ہوں ۔ راکھی کے قاتلانہ حملے نے اس مجرمانہ احساس کو مٹا دیا ہے۔ اب میں ظالم نہیں مظلوم بن گیا ہوں ۔ میرا خیال ہے کہ اب تم میری بات اچھی طرح سمجھ گئی ہوگی ۔ ” محسن راؤ نے اپنی بات اسے وضاحت سے سمجھائی۔
پتہ نہیں تانیہ اس کی بات سمجھی یا نہیں۔ بس وہ اتنا کہہ کر چپ ہو گئی۔ ”اللہ، آپ پر رحم کرے بھائی ۔ “

اللہ نے اس پر واقعی رحم کر دیا تھا۔ راکھی کے جان لیوا وار سے وہ صاف طور پر بچ نکلا تھا۔ اس دن شام تک اسے اسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔ جب وہ اسپتال سے گھر جا رہا تھا تو اسپتال کے احاطے میں اسے اعتبار راؤ مل گیا۔ اگر چہ آصف صدیقی نے محسن راؤ پر قاتلانہ حملے کی اطلاع سینما کے منیجر کو دے دی تھی لیکن اعتبار راؤ اس وقت گھر پر تھا نہ سینما پر۔ وہ کسی کام سے نکلا ہوا تھا۔ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر سینما پہنچا تو منیجر نے فوراً اسے آصف صدیقی کا پیغام دیا۔ وہ پیغام سنتے ہی الٹے قدموں سینما سے نکلا اور گاڑی لے کر اسپتال پہنچ گیا۔ وہ بے حد فکر مند تھا۔ اس کے منیجر نے اسے صرف اتنا ہی بتایا تھا کہ محسن صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے اور وہ فلاں اسپتال میں ہیں، وہ اس حملے کو راؤ احمد علی کی جانب سے گھناؤنی کارروائی سمجھ رہا تھا۔ اسی لئے وہ فکر مند ہونے کے ساتھ، شرمندہ شرمندہ سا بھی تھا۔

“محسن، کیا ہوا؟ خیر تو ہے۔ کسی نے حملہ کیا ہے تم پر ؟””ہاں، سب خیر ہے۔ بازو میں معمولی سا زخم آیا ہے۔ مرہم پٹی کر دی گئی ہے۔ اور مجھے اسپتال چھوڑ دینے کا حکم ہوا ہے۔ اعتبار تم ہمارے ساتھ گھر چلو ، وہاں بیٹھ کر باتیں ہوں گی۔ “ محسن راؤ نے خوش مزاجی سے کہا۔

تانیہ اور نادرہ ساتھ تھیں۔ انکل عامر اپنے گھر جا چکے تھے۔ وہ دونوں محسن راؤ کے ساتھ بیٹھ گئیں
جبکہ اعتبار راؤ اپنی گاڑی میں ان کے پیچھے پیچھے ہولیا۔
گھر پہنچ کر تانیہ اور نادرہ تو اندر کوٹھی میں چلی گئیں۔ محسن راؤ، اعتبار کو لے کر ڈرائنگ روم میں بیٹھ گیا۔ اعتبار راؤ اس حملے کا پس منظر سمجھنے کے لئے بے تاب تھا۔ جب محسن راؤ نے اس قاتلانہ حملے کا پس منظر سمجھایا تو اعتبار راؤ نے اندر ہی اندر اطمینان کا سانس لیا۔ وہ محسن راؤ کے سامنے مزید شرمندہ ہونے
سے بچ گیا تھا۔
چائے پینے کے بعد جب اعتبار راؤ نے جانے کی اجازت چاہی تو محسن راؤ نے اسے زبر دستی روک لیا۔ اس نے کہا۔
” اعتبار راؤ تم کھانا کھائے بغیر یہاں سے نہیں جاسکتے ۔” اعتبار راؤ رک گیا۔
تانیہ کو جب معلوم ہوا کہ اعتبار راؤ کو محسن راؤ نے کھانے پر روک لیا ہے تو اس نے اپنی خصوصی نگرانی میں کھانے کی تیاری شروع کر دی۔ وقفے وقفے سے وہ ڈرائنگ روم میں بھی جاتی رہی۔
نادرہ بھی اس کے ساتھ ہی ہوتی۔ محسن راؤ اپنی آپ بیتی اسے سنارہا تھا۔ اور وہ بڑی دلچسپی سے سن رہا تھا۔ جب محسن راؤ کا قصہ ختم ہو گیا تو نادرہ اور تانیہ نے بھی وہاں ہونے والی گفتگو میں حصہ لیا۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ محسن راؤ اس سے باتھ روم جانے کی اجازت لے کر وہاں سے اٹھا۔ کچھ دیر کے بعد ہی نادرہ بھی اٹھ کر باہر چلی گئی۔ اب ڈرائنگ روم میں تانیہ اکیلی رہ گئی۔
خود کو تنہا محسوس کر کے اس کی عجیب سی کیفیت ہو گئی۔ اسے نادرہ پر بڑا غصہ آیا کہ وہ اچانک ہی کچھ کہے بغیر ڈرائنگ روم ۔ سے نکل گئی۔۔
اب تانیہ چاہتی بھی تو ڈرائنگ روم سے نہیں اٹھ سکتی تھی کیونکہ اعتبار راؤ کو ڈرائنگ روم میں تنہا چھوڑ دینا کسی طور مناسب نہ تھا۔ وہ ہمت کر کے بیٹھی رہی۔ اعتبار راؤ جو ابھی نادرہ سے بے تکلفی سے باتیں کر رہا تھا۔ اچانک خاموش ہو گیا۔ جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔
کچھ دیر خاموشی سے وہ تانیہ کی طرف دیکھتا رہا جو نظر میں جھکائے بیٹھی تھی۔ اس کی نگاہوں میں آرٹ گیلری والا منظر گھوم رہا تھا جب اعتبار راؤ اس سے ملنے آیا تھا اور اس نے ناپسندیدگی کا اظہار کر کے اسے واپس جانے پر مجبور کر دیا تھا اور یہ شریف آدمی کتنی خاموشی سے واپس چلا گیا تھا۔ اچانک تانیہ نے نظریں اٹھائیں اور اسے دیکھا۔ وہ صوفے پر بڑے اطمینان سے بیٹھا تھا۔ اس وقت اس نے بھی تانیہ کو دیکھا۔ نظروں سے نظریں ملیں اور پھر دونوں پلکیں جھپکانا بھول گئے۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی بات ہوئی ۔ اور نظروں کے یہ تیر دونوں کے دلوں میں اترتے چلے گئے۔ نہ کسی نے کچھ کہا۔ نہ کسی نے کچھ سنا۔ پھر بھی بہت کچھ کہا گیا، بہت کچھ سنا گیا۔
چند لمحوں بعد نادرہ واپس آگئی۔ وہ دونوں کو خاموش دیکھ کر بولی ۔
” اس قدر سناٹا۔ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے وقت میں سوچ رہی تھی، شاید یہاں کمرے میں کوئی ہے ہی نہیں۔ ” “اب تو یقین آگیا کہ ہم دونوں کمرے میں ہی ہیں۔ ” اعتبار راؤ بولا ۔
”ہاں، یہ یقین تو آگیا۔ لیکن ایک بات پر پھر بھی حیرت ہے۔ ” وہ کیا؟ ” اعتبار راؤ نے پوچھا، تو تانیہ نے چونک کر نادرہ کو دیکھ کر کہا
” اس قدر خاموشی … کیا آپ دونوں کو کسی نے بات کرنے سے منع کر دیا تھا۔ ؟ ” نادرہ نے پوچھا
“نہیں جس طرح ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی، ویسے ہی یک طرفہ گفتگو بھی نہیں ہوتی ۔ ” اعتبار راؤ نے مسکرا کر کہا
“کیا آپ کی بات کا تانیہ نے جواب نہیں دیا۔ ؟” نادرہ نے تانیہ کی طرف دیکھا۔
” نہیں، میں نے کوئی بات ہی نہیں کی۔ اصل میں ہوا یہ کہ یہ سر جھکا کے کچھ سوچ رہی تھیں۔ میں انہیں ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا۔ ویسے نادرہ میں آپ کو ایک بات بتاؤں، کبھی خاموشی بھی زبان بن جاتی ہے۔ اور ایسی خاموشی پر ہزار جملے قربان کئے جاسکتے ہیں۔”

“جب لب خاموش ہوں تو آنکھوں آنکھوں میں بات ہوتی ہے۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بات نظروں نظروں میں ہو رہی تھی۔ ” نادرہ نے اس کی بات کو ایک نیا رنگ دے دیا۔
“میں ابھی آتی ہوں ۔ ” تانیہ ایک دم ہڑبڑا کر اٹھی۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے نادرہ نے اس کی چوری پکڑ لی ہو۔ وہ محجوب سی ہو گئی۔ اس سے وہاں بیٹھا نہ گیا۔
“کہاں جارہی ہو ؟ ” نادرہ نے اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی۔
“کچن میں۔ “ یہ کہہ کر وہ تیزی سے ڈرائنگ روم سے نکل گئی۔ اعتبار راؤ اور نادرہ ایک دوسرے کو دیکھ کر بے اختیار مسکرا پڑے۔
اور پھر ایک دن جب تانیہ حسب معمول اپنی آرٹ گیلری کے دفتر میں ایک پینٹنگ پر کام کر رہی تھی تو دروازے پر کسی کی دستک سے چونکی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو دروازے پر اعتبار راؤ کھڑا اس سے اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا تھا وہ کہہ رہا تھا۔
”میں اندر تو آسکتا ہوں نا۔ “
اسے دیکھ کر نہ جانے تانیہ کے حواس کیوں گم ہو جاتے تھے۔ وہ اندر ہی اندر سمٹنے لگتی تھی۔ اسے حجاب آنے لگتا تھا۔ اس وقت بھی یہی ہوا، وہ اسے دیکھ کر گڑ بڑا گئی۔ برش ٹھیک طرح سے رکھا نہ گیا۔وہ الٹ کر اس کے کپڑوں پر گرا اور اس کے رنگین کپڑوں کو مزید رنگین کر گیا۔
“جی، آئیے۔ ” اس نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
وہ پورے اطمینان سے اندر آیا اور کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ تانیہ نے تولیہ سے اپنے ہاتھ اور کپڑے صاف کئے اور اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گئی۔ اس کی نظریں میز پر تھیں۔

“تانیہ ” اعتبار راؤ نے بہت دھیرے سے پکارا۔
اس کی زبان سے اپنا نام سن کر اسے ایک خوشی کا سا احساس ہوا۔ اس نے اپنی گھنیری پلکوں کی چلمن اٹھائی اور اپنی کالی خوبصورت آنکھوں سے اسے دیکھا۔
”جی۔ “
“میں نے آپ کے بڑوں سے ایک بات کی تھی، اس کا جواب میں آپ کی زبانی سننا چاہتا ہوں۔ چاہے یہ جواب انکار میں ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن انکار کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیجئے گا کہ میں پھر زندگی بھر شادی نہیں کروں گا ۔ ” اعتبار راؤ نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
“میں نے اس کا فیصلہ اپنے بڑوں پر ہی چھوڑ دیا ہے۔ ” تانیہ نے آہستگی سے جواب دیا۔
”اچھا، لیکن آپ کے بڑوں کا فیصلہ کیا ہے۔ ؟؟ ” اعتبار راؤ نے سوال کیا۔
” یہ آپ بڑوں سے ہی معلوم کریں لیکن ایک بات میں آپ سے ضرور کہنا چاہوں گی۔ “
“ہاں، ضرور کہئے، میں آپ کی باتیں سنتے ہی یہاں آیا ہوں ۔ “
“اگر آپ یہ سب جائداد حاصل کرنے کے لئے کر رہے ہیں تو میں اپنے حصے کی جائداد ویسے ہی آپ کے نام کر دوں گی۔ آپ کو میری زندگی برباد کرنے کی ضرورت نہیں۔ ” تانیہ نے اپنے دل کی بات صاف صاف کہہ دی۔
” آپ کو شاید پوری بات معلوم نہیں، اس لئے آپ نے ایسی بات کہہ دی ہے۔ میں نے یہ بات طے کی ہے اور اس کا اظہار محسن بھائی اور انکل عامر دونوں سے کر دیا ہے کہ شادی سے پہلے میں اپنی تمام جائداد آپ کے نام منتقل کر دوں گا۔ مہر آپ کی مرضی کا ہو گا چاہے وہ ایک کروڑ کا ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے علاوہ طلاق کا حق بھی آپ کو حاصل ہو گا۔ اب بتائیے، اب تو کوئی خدشہ نہیں۔ اگر آپ مزید کوئی مضبوطی چاہتی ہوں تو اس کے لئے بھی حاضر ہوں ۔ ” اعتبار راؤ نے پر خلوص لہجے میں کہا۔ .
‘حیرت ہے، آپ یہ سب کس لئے کر رہے ہیں۔ ؟؟” تانیہ کو واقعی حیرت تھی۔
“تمہیں، حاصل کرنے کے لئے ۔ ” اعتبار راؤ نے اسے گہری نظروں سے دیکھا۔
“مجھ میں ایسا کیا ہے۔ میری جیسی لڑکیاں آپ کو بےشمار مل جائیں گی ۔ “
” مجھے بے شمار لڑکیاں نہیں چاہئیں، مجھے صرف ایک لڑکی چاہئے اور وہ بھی تانیہ اور یہ بات میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تانیہ جیسی لڑکی اس روئے زمین پر دوسری کوئی اور نہیں۔ “
” یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ “
“تانیہ تم بے حد حسین ہو، اس بات میں کوئی شبہ نہیں لیکن اگر تم حسین نہ بھی ہوتیں محض قبول صورت ہوتیں تو بھی میں تم ہی سے شادی کرتا ۔ “
“اچھا . اس کی وجہ ۔ “
“میں اپنے باپ کے پاپ کو دھونا چاہتا ہوں ۔ دونوں خاندانوں کو ایک کرنا چاہتا ہوں اور خدا کا شکر ہے کہ محسن بھائی بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔ ورنہ بڑی مشکل ہو جاتی۔ میں آپ دونوں کی وسعت قلبی کی داد دیتا ہوں ورنہ میرے باپ نے جو کیا ہے وہ قابل معافی تو نہیں ۔ ” اعتبار راؤ نے صاف گوئی سے کہا۔
” آپ کے لئے کیا منگواؤں ۔ چائے یا ٹھنڈا؟” یہ کہہ کر اس نے گھنٹی بجائی۔
” تانیہ تم نے ایک قاتل کے بیٹے سے اچھی طرح بات کرلی، یہی میرے لئے کافی ہے۔ “
“اچھا، اب مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اس دن میں نے آپ کے ساتھ بد سلوکی کی، میں معذرت چاہتی ہوں ۔ ” تانیہ نے التجا آمیز لہجے میں کہا۔
“تمہاری جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو وہ سخت بے عزتی کرتی، تم نے تو پھر بھی ہاتھ سے ضبط کا دامن نہ چھوڑا۔ میں تمہاری عظمت کو سلام کرتا ہوں ۔ “
“اچھا، بس بس۔ “
اتنی دیر میں چپراسی اندر داخل ہوا۔ اسے دیکھ کر تانیہ نے اعتبار راؤ سے پوچھا۔ ”ہاں، کیا؟”

/”کافی مل جائے گی۔ “
“ہاں کیوں نہیں۔ ” تانیہ نے کہا، پھر وہ چپراسی سے مخاطب ہو کر بولی۔
” کافی بناؤ، اچھی سی”

” تانیہ، کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم کہیں باہر چل کر کافی پی لیں۔ “ اعتبار راؤ نے جھجھکتے ہوئےفرمائش کی
“بالکل ممکن ہے۔ ” تانیہ نے خوش دلی سے کہا۔
“تو پھر چلیں کسی اچھے سے ہوٹل میں چل کر کافی پیتے ہیں۔ “
چپراسی جاتے جاتے رک گیا تھا۔ اور تانیہ کے جواب کا منتظر تھا۔ اسے دیکھ کر تانیہ نے کہا۔
“بس ٹھیک ہے کافی کی ضرورت نہیں، میں باہر جارہی ہوں۔ “

پھر دو چار ملاقاتوں میں بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ دونوں ایک دوسرے پر اعتبار کرنے لگے اعتبار راؤ کو تو خیر تانیہ پر اعتبار تھا لیکن تانیہ اس کی طرف سے مشکوک تھی۔ اب یہ شک بھی جاتا رہا۔ اعتبار راؤ نے اپنے قول کے مطابق تمام کاغذات وکیل سے تیار کروا کے اس کے سامنے رکھ دیئے۔ وہ سچا تھا، اب اس میں کوئی شبہ نہ رہا۔
اعتبار راؤ نے اپنے سچے جذبے، پر خلوص رویئے اور اپنی ثابت قدمی سے تانیہ کے دل میں جگہ بنالی۔ اب وہ اس کی راہ دیکھنے لگی۔ وہ اگر ایک دن نہ ملتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے آج کا دن طلوع ہوا ہی نہیں۔ ایک دوسرے کو دیکھے بغیر چین نہ آتا۔ پھر رات کو اپنے بستروں پر لیٹے ٹیلیفون کے تاروں کے ذریعے اپنے نیک جذبات کا اظہار کرتے۔
یہی حال کچھ اس طرف بھی تھا۔ اعتبار اور تانیہ کی محبت تو نئی نئی تھی لیکن نادرہ اور محسن راؤ تو ایک عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ ہاں یہ اور بات کہ ایک طویل عرصے کے بعد تجدید محبت ہوئی تھی۔ اب حال یہ تھا کہ جب تک وہ ایک دوسرے سے مل نہ لیتے، بے قرار دلوں کو چین نہ آتا۔۔۔”

“پھر ایک دن سوال پیدا ہوا۔ آخر کب تک؟” اور یہ سوال تانیہ نے اعتبار راؤ سے کیا تھا، نہ نادرہ نے محسن راؤ سے….. یہ سوال انکل عامر نے کیا تھا۔ اس سوال کو سن کر محسن راؤ کو جیسے ہوش آگیا تھا۔ انکل عامر نے بہت صحیح وقت پر یہ سوال اٹھایا تھا۔ وہ دونوں کو ایک دوسرے سے ملتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ دو کہانیوں کی ابتداء ہو چکی تھی اور اب اتنا وقت بیت چکا تھا کہ ان کہانیوں کا انجام ضروری تھا۔ انجام با لآخر شادی تھا۔ لیکن انکل عامر اور خالہ فرزانہ اس فریضے کو بہت دھوم دھام سے انجام دینا چاہتے تھے۔ تب طے یہ ہوا کہ پہلے منگنی کی جائے۔ اور رسم منگنی بھی کسی بڑے ہوٹل میں انجام پائے۔ کسی بھی طرف پیسے کی کمی نہ تھی لہٰذا اعتبار راؤ اور محسن راؤ کی منگنیاں ایک ہی ہوٹل میں ایک ہی وقت طے ہونا قرار پائیں۔

نادرہ کے والدین نہ تھے، وہ تنہا تھی۔ لے دے کے اس کے رشتے کے چچازاد بھائی تھے۔ ادھر اعتبار راؤ کے پس منظر میں کوئی نہ تھا۔ پس منظر میں تو خیر اس کا باپ راؤ احمد علی اور اس کے بھائی موجود تھے لیکن یہ پس منظر بہت بھیانک تھا۔ اعتبار راؤ اس منگنی کی ان لوگوں کو ہوا بھی لگنے دینا نہیں چاہتا تھا۔ محسن راؤ اور تانیہ کے والدین بھی موجود نہ تھے۔ تانیہ کے سر پر اگر چہ محسن راؤ موجود تھا لیکن محسن راؤ کے سر پر کوئی نہ تھا۔ لے دے کے ایک انکل عامر تھے ۔ اس لئے سب نے انہیں اپنا سر پرست بنا لیا تھا۔ وہ لڑکی والے بھی تھے اور لڑکے والے بھی۔ یوں انہیں مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ خالہ فرزانہ کو کراچی سے بلوالیا گیا تھا۔ ایک ہفتے کے بعد منگنیاں ہونے والی تھیں۔ لہٰذا افضل نہیں
آیا تھا۔ اس کا پروگرام ایک دن پہلے آنے کا تھا۔ خالہ فرزانہ ایک طویل عرصے کے بعد اپنے شہر آ آئی تھیں۔ یہاں آکر انہیں اپنی جوانی یاد آگئی تھی۔

تانیہ، خالہ فرزانہ کی آمد سے بہت خوش تھی۔ وہ بار بار ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر تنبیہہ کر رہی تھی۔
“خالہ، میں اب آپ کو جانے نہیں دوں گی۔ “
“کیا مطلب ہے تیرا کیا تو یہیں بیٹھی رہے گی ۔ ؟” انہوں نے الٹا سوال ٹانک دیا۔
”اوہ خالہ ۔ ” وہ ہنس کر بولی۔ میرا مطلب یہ تھا کہ آپ کو شادی سے پہلے نہیں جانے دوں گی ۔ ”
” ابھی تو تمہاری شادی میں دو ماہ باقی ہیں۔ منگنی کے بعد میں چلی جاؤں گی۔ افضل وہاں اکیلا ہے۔ پھر میں شادی سے پہلے آجاؤ گی۔ ” خالہ فرزانہ بولیں۔
“بھائی افضل کی تو آپ کو فکر ہے۔ یہاں کوئی اور بھی اکیلا ہے۔ اس کی فکر نہیں آپ کو ؟ “

خالہ فرزانہ نے ایک دم چونک کر تانیہ کو دیکھا۔ انہیں ایسے جملے کی توقع نہ تھی۔ تانیہ کا اشارہ توان کی سمجھ میں آگیا تھا۔ پھر بھی انہوں نے اپنا شک دور کرنے کے لئے پوچھا۔ “کس کی بات کر رہی ہو؟”
“اس کی جو ساری رات تنہا کھڑا بارش میں بھیگتا رہا۔ ” تانیہ نے بتایا۔
“نہیں تانیہ نہیں۔ ” خالہ فرزانہ نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ ”مجھ سے ایسی باتیں نہ کرو۔ “
“میں نے اگر چہ انکل عامر سے کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی لیکن یہ بات میں بہت اچھی طرح جانتی ہوں کہ وہ بہت اکیلے ہیں، وہ آپ کو بہت مس کرتے ہیں۔ “
“جو ہونا تھا۔ وہ ہو چکا۔ “
خالہ فرزانہ نے آنکھیں کھولیں تو ان کی آنکھوں سے دو آنسو نکل کر رخساروں پر لڑھکتے لگے۔
” اگر چہ آپ سے بھی، میں نے کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی لیکن یہ بات میں بہت اچھی طرح جانتی ہوں کہ آپ خود بھی بہت اکیلی ہیں۔ آپ آج تک انہیں مس کرتی ہیں۔ “
“بس کر تانیہ بس ۔ ” ان کی آواز گلے میں بندھنے لگی۔
” بھولی ہوئی داستان کو اب یاد نہ دلا۔ “
آپ شادی کیوں نہیں کر لیتیں، انکل عامر سے ۔ ” تانیہ کسی طور چپ ہونے کو تیار نہ تھی۔
بالآخر وہ دل کی بات زبان پر لے ہی آئی۔
“ایسا نہیں ہو سکتا، ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ “
یہ کہہ کر وہ تانیہ کے کمرے سے چلی گئیں۔ اس نے انہیں روکنے کی کوشش نہ کی۔ آج کے دن اتناہی بہت تھا۔ اس نے ماہ و سال کی راکھ میں دبی چنگاری کو۔اچھی طرح کرید دیا تھا۔ اب اس دبی چنگاری کو باہر نکال کر ہوا دینے کی ضرورت تھی تاکہ وہ بھڑک اٹھے ۔ اور یہ کام وہ پوری احتیاط سے کرنا چاہتی تھی ۔
خالہ فرزانہ کے جانے کے بعد وہ اپنے کمرے سے نکل کر کچن میں پہنچی، وہاں رفیق شام کی چائے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ تانیہ نے رفیق سے پوچھا۔
” صاحب، کہاں ہیں؟”

“صاحب ابھی اٹھے ہیں، شاید باتھ روم میں ہیں ؟ “
اس نے بتایا۔
“اچھا تم یوں کرو، میں باہر لان میں جارہی ہوں۔ ہم چائے وہیں پئیں گے صاحب سے کہ دینا۔ “
“جی اچھا۔ ” رفیق نے مودبانہ انداز میں کہا۔

تانیہ ٹہلتی ہوئی اس درخت کے نیچے پہنچی جہاں اس نے راکھی کو بٹھا کر اس کی تصویر بنانا شروع کی تھی تو ایک دم اس کی نگاہوں میں سارا منظر گھوم گیا۔ اگرچہ محسن راؤ کا زخم بالکل ٹھیک ہو گیا تھا لیکن وہ آج بھی اپنی اس حماقت پر شرمندہ ہوتی تھی کہ وہ خواہ مخواہ ایک تماشے والی کو اپنی کوٹھی پر مدعو کر بیٹھی۔ خدا نخواستہ اگر اس کا چاقو ٹھیک نشانے پر لگ جاتا تو وہ یقینا اس صدمے سے پاگل ہو جاتی ۔
راکھی بھی عجیب عورت تھی۔ اس کی محبت نفرت میں تبدیل ہو گئی تھی۔ وہ کسی زخمی ناگن کی طرح محسن کو تلاش کر رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی اس نے ڈسنے کی کوشش کی۔ وہ تو اوپر والے نے محسن کو بچالیا۔۔ ورنہ راج مداری کی بیٹی تو اپنا ہاتھ دکھا چکی تھی۔

محسن راؤ نے اس چاقو کو اپنے پاس بہت احتیاط سے رکھ لیا تھا۔ یہ راج مداری کا چاقو تھا۔ اس چاقو کو وہ اچھی طرح پہچانتا تھا۔ اسی چاقو نے اسے بچپن میں قتل ہونے سے بچایا تھا۔ اور وہ چاروں قاتل محسن کے کٹ کٹ کر گرتے اعضا دیکھ کر دہشت زدہ ہو کر بھاگ گئے تھے۔
تانیہ نہیں چاہتی تھی کہ اس چاقو کو گھر میں رکھا جائے لیکن محسن راؤ نے اس چاقو کو اپنے بیڈ روم میں سجا لیا تھا۔ وہ چاقو اس نے ایک خوبصورت پلیٹ میں، سائیڈ ٹیبل پر رکھ لیا تھا۔ اٹھتے بیٹھتے اس پر اس کی نظر پڑتی رہتی تھی۔ تانیہ اعتراض کیسے کرتی ؟ اس نے خود ایک کرسٹل کے خوبصورت گلدان میں کلی سجائی ہوئی تھی۔ جس پر اٹھتے بیٹھتے اس کی نظر پڑتی رہتی تھی۔ اگر یہ محبت کی نشانی تھی تو وہ چاقو بھی کسی کی نشانی تھا، اسے بہت کچھ یاد دلاتا تھا۔ درخت کی شاخ پکڑے، تانیہ اپنے خیالوں میں گم تھی کہ پیچھے سے محسن راؤ آگیا اور اس کے نزدیک آکر خاموشی سے کھڑا ہو گیا۔ کسی کے نزدیک کھڑے ہونے کا احساس ہوا تو تانیہ نے فوراً پلٹ کر دیکھا۔

ذ”خیریت تو ہے، کہاں گم تھیں ؟ ” محسن راؤ لان میں بچھی میز کی طرف بڑھتا ہوا بولا ۔
رفیق اس میز کو چائے کے لوازمات سے سجا رہا تھا۔
“مجھے وہ کمینی یاد آگئی تھی۔ “
“راکھی ۔ ” محسن راؤ ہنسا۔

” اس منحوس کا نام نہ لیا کریں، اسے راکھ کہا کریں ۔ ” تانیہ جل کر بولی ۔
” تانیہ، اب اس بات کو بھول بھی جاؤ، اب تو میرا بازو بھی ٹھیک ہو گیا۔ “
” میں اسے بھولی نہیں ہوں، مجھے وہ جس دن بھی نظر آگئی، اپنے گارڈ سے کہہ کر اسے گولیوں سے چھلنی کروادوں گی۔ ” تانیہ نے غصے میں کہا۔
” اچھا جو مرضی آئے کرنا، چلو اب چائے پی لو۔ ” محسن راؤ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اور اپنے ساتھ لے چلا۔
” ہاں ، وہ خالہ فرزانہ کہاں ہیں، انہیں نہیں بلایا باہر ۔ “
‘نہیں ۔ میں ان کی چائے خود لے کر کمرے میں جاؤں گی، مجھے ذرا آپ سے ایک بات کرنا تھی۔”
” ایسی کیا بات ہے جو ان کے سامنے نہیں کی جاسکتی۔ “ محسن راؤ نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
” ہے نا، ایک ایسی بات ؟ ” تانیہ بولی ۔
“وہ کیا؟ ” محسن نے پوچھا۔
” ان کی شادی کی بات۔ “
” ان کی شادی کی بات۔ ” محسن راؤ نے حیرت سے دہرایا۔ پھر تصدیق چاہتے ہوئے بولا۔ یعنی خالہ فرزانہ کی شادی کی بات۔ “
“جی۔ ” تانیہ نے بڑے یقین سے کہا۔
“کس ہے ؟۔ “
“آپ پھر پریشان ہوں گے۔ ” تانیہ نے ہنس کر کہا۔ ”انکل عامر سے۔ “
” ہیں۔ ” وہ واقعی پریشان ہو گیا۔

اور جب تانیہ نے ان دونوں کے عشق کی داستان سنائی تو وہ مزید حیرت میں مبتلا ہو گیا۔ پھر وہ دونوں بہت دیر تک ان کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ تانیہ نے بار بار اپنے اس عزم کو دہرایا کہ وہ ہر قیمت پر ان دونوں کی شادی کروا کر رہے گی۔ خالہ فرزانہ کا معاملہ ابھی دور تھا ابھی تو خود تانیہ کی منگنی سر پر تھی۔ جب منگنی کا دن آیا تو وہ ہو گیا جس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ اس دن ، اس بڑے ہوٹل کا شادی ہال مہمانوں سے پر تھا۔ ہر طرف رنگ و نور کی بارش تھی۔ نقرئی قہقے بکھر رہے تھے۔ نادرہ، تانیہ اور محسن راؤ اسٹیج پر بیٹھ چکے تھے۔ اعتبار راؤ ابھی نہیں پہنچا تھا، حالانکہ، اب تک اسے پہنچ جانا چاہئے تھا۔
تانیہ کی نظریں بار بار اٹھتی تھیں اور پھر مایوس ہو کر لوٹ آتی تھیں۔ محسن راؤ کے چہرے پر بھی فکر کے آثار نمودار ہوتے جاتے تھے۔
جب وقت مقررہ سے ایک گھنٹہ اوپر ہو گیا تو چاروں طرف کھلبلی مچ گئی۔
انکل عامر محسن راؤ کے پاس آئے اور بولے۔
” محسن سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا معاملہ ہے۔ اعتبار راؤ نہ گھر پر ہے اور نہ سینما پر, گھر کی گھنٹی مسلسل بج رہی ہے، کوئی اٹھاتا نہیں۔ سینما پر منیجر نے بتایا کہ وہ آج سینما آئے ہی نہیں۔ “
” اوہ ۔ ” محسن راؤ یہ سن کر کھڑا ہو گیا۔
اس نے آصف صدیقی کو اشارے سے اپنے پاس بلایا اور ساری صورت حال بتائی۔
معاملے کی نزاکت سمجھ کر آصف صدیقی نے کہا۔ “اچھا تم پریشان نہ ہو، میں اس کے گھر جا کر دیکھتا ہوں ۔ ابھی بلا کر لاتا ہوں ۔ شادی بیاہ کے موقع پر دیر ہو ہی جاتی ہے۔ کہیں وہ بیوٹی پارلر نہ چلا گیا ہو۔ “

آصف صدیقی نے بات پر مزاح انداز میں کر کے معاملے کی سنگینی کم کرنا چاہی اور پھر وہ فوراً ہی ہال سے باہر چلا گیا۔
مهمان پریشان ہو رہے تھے کہ آخر منگنی کی رسم کب ادا کی جائے گی۔ جب دو گھنٹے گزر گئے اور آصف صدیقی بھی پلٹ کر نہ آیا۔ اور نہ ہی فون پر کوئی اطلاع ملی تو انکل عامر نے محسن راؤ سے کہا۔
” تمہاری اور نادرہ کی رسم ادا کر دیتے ہیں۔ سارے مہمان پریشان ہو رہے ہیں۔ ” .
“نہیں انکل، اپنی منگنی سے پہلے، میں اپنی بہن کی منگنی کی رسم ادا کرنا چاہوں گا۔ “
“اور اگر کسی وجہ سے اعتبار راؤ نہ آیا تو ۔ ” انکل عامر نے خدشہ ظاہر کیا۔
” تو مہمانوں کو بغیر منگنی کے ہی کھانا کھلا دیا جائے گا۔ ” محسن راؤ نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ آصف صدیقی سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ اس کا منہ لٹکا ہوا تھا۔ وہ یقیناً کوئی اچھی خبر نہیں لایا تھا۔

” کیا ہوا ؟ ” محسن راؤ نے آگے بڑھ کر بے قراری سے پوچھا۔
” اعتبار راؤ کو اغواء کر لیا گیا ہے ۔ ” آصف صدیقی نے پریشان کن خبر سنائی۔
” اغواء کر لیا گیا ۔؟ ” یہ خبر بجلی بن کر محسن راؤ پر گری۔ پھر اس نے اپنے ہوش و حواس قابو میں کرتے ہوئے پوچھا۔ کس نے کیا ہے اغواء ؟”
“یہ نہیں معلوم ہو سکا۔ ” آصف صدیقی نے کہا۔
” کہاں سے کیا گیا ہے اغواء “
گھر کے باہر سے۔ ” آصف صدیقی نے بتایا۔

“تمہیں کیسے معلوم ہوا ۔ ؟”

“میں جب اسے ڈھونڈتا ہوا، اس کے گھر پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اس کے گھر کی لائٹیں تو جلی ہوئی ہیں لیکن گیٹ پر تالا پڑا ہوا تھا۔ میں نے یہ سوچ کر کہ شاید پڑوس کے لوگوں کو کچھ معلوم ہو، برابر والی کوٹھی کی کال بیل بجائی۔ باہر آنے والے شخص سے جب میں نے اعتبار راؤ کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ اعتبار راؤ نے ہمیں اپنی منگنی میں مدعو کیا تھا۔ جب میں اپنی بیوی کے ساتھ ہوٹل جانے کے لئے باہر نکلا تو اعتبار راؤ اپنے ملازم کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں دیکھ کر اپنی گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ہم دونوں ان کی گاڑی کی طرف بڑھے۔ تبھی ایک جیپ آندھی طوفان کی طرح سر پر آگئی۔ کھٹا کھٹ کئی مسلح افراد باہر آئے۔ اور انہوں نے اسلحہ کے زور پر اعتبار راؤ کو اپنی جیب میں بٹھا لیا۔ جبکہ دو افراد ان کی گاڑی میں سوار ہو گئے جس میں ان کا ملازم شہباز بیٹھا ہوا تھا۔ اور پھر وہ دونوں گاڑیاں آنًا فانًا نظروں سے اوجھل ہو گئیں ہم دونوں گھبرا کر اپنے گھر میں داخل ہو گئے اور۔۔۔۔۔۔۔ “
“کیا اس شخص نے پولیس کو اطلاع دی۔ ؟ ” محسن راؤ نے جلدی سے اس کی بات کاٹی۔
“نہیں۔ ” آصف صدیقی نے بتایا۔
” آؤ پھر چلو، سب سے پہلے متعلقہ تھانے میں اس واردات کی رپورٹ درج کراتے ہیں، اس کے بعد آگے کی سوچیں گے ۔ ” محسن راؤ نے آصف صدیقی سے مخاطب ہو کر کہا۔
” لیکن محسن تمہاری منگنی کا کیا ہو گا ۔ ؟” انکل عامر نے فوراً مداخلت کی۔
” اپنی بہن کی منگنی سے پہلے میں اپنی منگنی بھلا کس طرح کر سکتا ہوں ۔ “ محسن راؤ نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
” اور یہ مہمان ۔ ؟” انکل عامر نے فکر مند ہو کر پوچھا۔ ” کوئی مہمان کھانا، کھائے بغیر یہاں سے نہ جائے، یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ ” محسن راؤ نے انکل عامر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ”میں آصف کے ساتھ تھانے جارہا ہوں۔ “

یہ کہہ کر وہ دونوں تیزی سے باہر نکل گئے۔ منگنی ملتوی کرنے کے سوا اب کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ ویسے بھی یہ بات چھپنے والی نہ تھی، اور اس بات کو چھپانے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ جلد ہی سب کو معلوم ہو گیا۔

اس واردات نے تانیہ کو بہت متاثر کیا۔ وہ ہنستی ہنستی ایک دم خاموش ہو گئی۔ وہ اس وقت خالہ فرزانہ سے بات کر رہی تھی۔ وہ انہیں چھیڑ رہی تھی۔ بار بار ان کی توجہ انکل عامر کی طرف مبذول کرارہی تھی جو سوٹ پہنے ادھر سے ادھر گھومتے پھر رہے تھے۔ وہ اچھے لگ رہے تھے۔۔ تبھی یہ روح فرسا اطلاع آئی ۔ تانیہ ایک دم ساکت ہو گئی ۔ نادرہ اس کے برابر ہی بیٹھی تھی، اس نے فوراً اسے سنبھالا نادرہ کو ایسی خوبصورت تقریب ملتوی ہو جانے کا بےحد افسوس تھا لیکن وہ اتنی خود غرض نہ تھی کہ اپنی انگلی میں منگنی کی انگوٹھی پہن کر بیٹھ جاتی۔ تانیہ کو ویسے بھی وہ بہت چاہنے لگی تھی۔ اس کا دکھ اب اپنا دکھ تھا۔
انکل عامر نے تانیہ، نادرہ اور خالہ فرزانہ کو افضل کے ساتھ گھر روانہ کر دیا اور وہ خود وہیں رہ گئے۔ اس وقت وہ شدید صدمے سے دوچار تھے۔ خدا خدا کر کے تو یہ وقت آیا تھا۔ محسن اور تانیہ کو ایک طویل عرصے کے بعد خوشیاں میسر آئی تھیں۔ اعتبار راؤ سے منگنی کرانے میں انکل عامر نے بھی کوشش کی تھی۔ وہ دل سے چاہتے کہ یہ خاندان کسی طرح ایک ہوجائے اگر خاندان ایک نہ ہو تو دشمنوں کا کوئی ایک فرد ہی دوست ہو جائے۔ اعتبار راؤ خود ہی دشمنوں کی صف سے نکل آیا تھا اور ان لوگوں نے اسے دھتکارا نہیں تھا،
اسے اپنا لیا تھا اپنا بنا لیا تھا لیکن یہ بات دشمنوں کو اچھی نہ لگی تھی۔ اور عین اس وقت جب وہ منگنی کی انگوٹھی پہننے جا رہا تھا۔ اسے اس کے باپ نے اغواء کروالیا تھا۔
راؤ احمد علی اس وقت حویلی کے برآمدے میں بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ بار بار اس کی نظر کلائی کی گھڑی پر پڑ رہی تھی۔ آفتاب اور اقبال راؤ بھی اپنے کمروں سے نکل آئے تھے۔ وہ بھی اعتبار راؤ کی آمد کے منتظر تھے۔
۔تھوڑی دیر کے بعد ہی حویلی کا گیٹ کھلنے کی آواز آئی۔ اور اس کے بعد دو گاڑیاں اندر داخل ہوئیں۔ گاڑیوں کو دیکھ کر راؤ احمد علی حویلی کے اندر چلا گیا۔ اور اپنے کمرے میں جاکر اس اونچی کرسی پر بیٹھ گیا، جس پر بیٹھ کر وہ انسان نہیں رہتا تھا۔ کچھ دیر کے بعد راہداری میں بھاری قدموں کی آواز آئی۔ پھر کھلے دروازے سے سب سے پہلے اعتبار راؤ داخل ہوا اس کے پیچھے دو مسلح بندے تھے۔ جو دروازے پر ہی رک گئے۔ اعتبار راؤ سینہ تانے پر وقار چال چلتا ہوا باپ کے سامنے آکھڑا ہوا۔ آفتاب راؤ اور اقبال راؤ، اپنے باپ کے دائیں بائیں کھڑے
ہوگئے
” آئیے، آئیے، دولہا میاں تشریف لائیے ۔ “
راؤ احمد علی نے اپنی بڑی بڑی خونی آنکھوں سے اسے
دیکھا اور اپنی بھاری مونچھیں مروڑنے لگا۔
” آپ کو منگنی مبارک ہو ۔ “
“اباجی، یہ آپ نے اچھا نہیں کیا۔ ” اعتبار راؤ نے غصے سے کہا۔ کہا۔
” اور یہ تو نے اچھا کیا ہے کہ باپ سے پوچھے بغیر منگنی طے کرلی ۔ ” راؤ احمد علی نے سخت لہجے میں
“میں اپنا اچھا برا خوب سمجھتا ہوں ۔ “
” تبھی ایک ایسی لڑکی سے شادی کرنے چلا ہے، جس کے باپ کا بھی پتہ نہیں۔ ” راؤ احمد علی نے الزام لگایا۔ ”تانیہ، میرے تایا راؤ شمشاد علی کی بیٹی ہے ۔ ” اعتبار راؤ نے بڑے یقین سے کہا۔
” اوہ، تایا۔ ” راؤ احمد علی نے طنزیہ انداز میں کہا۔
” تجھے شاید معلوم نہیں کہ اس کے یہاں جو بیٹی ہوئی تھی اس کا انتقال ہو گیا تھا۔ ہمارے پاس اس کا ثبوت موجود ہے۔ “
میں سب جانتا ہوں ۔ “
“پھر جانتے بوجھتے مکھی نگل رہا ہے۔ اپنے خاندان کے نام پر بٹہٌ لگا رہا ہے۔ “
” میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے تایا کو قتل کس نے کیا۔ ؟ “
“اچھا۔ ” راؤ احمد علی نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔ ” اور تو کیا کیا جانتا ہے ۔ ؟؟”
“میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اب سے بیس بائیس سال پہلے محسن راؤ کو قتل کروانے کی سازش کس نے کی تھی ” اعتبار راؤ نے اپنے باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
” آفتاب …… اقبال سن رہے ہو بھئی۔ ” راؤ احمد علی دونوں سے مخاطب ہونے کے بعد اعتبار راؤ کی طرف مڑا۔ ” وہ کس نے کی ۔ ؟؟”
” ابا جی ۔۔۔ آپ نے ۔ ” اعتبار راؤ نے بڑے وثوق سے کہا۔ ”آپ نے بڑے ظلم کئے ہیں ان لوگوں پر ۔ “

“سن رہے ہو، تم دونوں ۔ ” راؤ احمد علی نے آفتاب راؤ اور اقبال راؤ کی طرف دیکھا۔ ہم نے بڑے ظلم کئے ہیں، ان لوگوں پر یہ تو مجھے اپنا بیٹا لگتا ہی نہیں۔ پتہ نہیں کسی وقت کی پیدائش ہے۔ اس میں زمینداروں والی کوئی بات نہیں، یہ بات میں تم دونوں سے ہمیشہ کہتا آیا ہوں۔ اسی لئے میں نے اس مصیبت کو کچھ دے دلا کر یہاں سے نکال دیا تھا مجھے خدشہ تھا کہ کہیں یہ تمہیں اپنے رنگ میں نہ رنگ لے مجھے اگر یہ معلوم ہوتا کہ لاہور جاکر یہ ہمارے دشمنوں سے مل جائے گا تو میں اسے کبھی وہاں نہ جانے دیتا۔ بھئی یہ تو بہت ہی بے وقوف ثابت ہوا ۔ “
” ابا جی، شادی کرنا کوئی بے وقوفی کی بات نہیں۔ سبھی کرتے ہیں۔ آپ نے بھی کی تھی۔ “
” گدھے کے بچے ۔ میں نے شادی کی تھی تو اپنے ہاتھ سے کچھ گنوایا نہیں تھا۔ لیا ہی لیا تھا۔ ” وہ بھٌنا کر بولا۔

“میں شادی کو دو زندگیوں کا بندھن سمجھتا ہوں، آپ کی طرح تجارت نہیں۔ “ وہ راو احمد علی کی ڈانٹ ڈپٹ سے متاثر ہوئے بغیر پورے اطمینان سے بولا۔
” اوخچر،ں اب مجھے معلوم ہو گیا کہ تو بہت بڑا الو ہے ۔ اگر الو نہ ہوتا تواپنی موت کے پروانے پر کبھی دستخط نہ کرتا۔ ” راؤ احمد علی نے اسے اپنی بڑی بڑی خونی آنکھوں سے دیکھا۔
“میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ “
“اور وہ کاغذ جو تو نے تیار کروا کر اپنے پاس رکھ چھوڑا ہے۔ جس میں تو نے اپنے حصے کی جائداد، ایک کروڑ تک کا مہر اور طلاق کا حق لڑکی کے نام منتقل کر دیا ہے۔ وہ سب کیا ہے۔ “
“میں نے ایسا کوئی کاغذ نہیں تیار کروایا۔ “
” اچھا، ایک تو حماقتیں کرتا پھرتا ہے اور اوپر سے جھوٹ بھی بولتا ہے ۔ ” راؤ احمد علی نے غصے سے کہا۔
پھر وہ اقبال راؤ سے مخاطب ہو کر بولا۔ “اقبال راؤ، اس کاغذ کی فوٹو اسٹیٹ تو دکھا اس بدبخت کو”

اقبال راؤ نے میز کی دراز سے ایک کاغذ نکالا اور راؤ احمد علی کے ہاتھ میں تھما دیا۔ راؤ احمد علی نے اس کاغذ پر ایک نظر ڈالی اور اس کی طرف اچھالتے ہوئے بولا۔ ”لے دیکھ اسے اور اب کر انکار ۔ “
وہ کاغذ اعتبار راؤ کے قدموں میں گرا۔ اس نے جھک کر اسے اٹھایا اور جب اس پر نظر ڈالی تو اس کے ہاتھوں میں لرزش پیدا ہو گئی۔ یہ اسی کاغذ کی فوٹو کاپی تھی جو اس نے تیار کروا کر رکھا تھا۔ لیکن اس کاغذ کی نقل یہاں کیسے پہنچی۔ کیا اس کا ملازم شہباز نمک حرام ہے۔ وہ راؤ احمد علی سے ملا ہوا ہے۔ یہ کام یقینی طور پر شہباز کے ذریعے ہوا ہے۔ انسان کو بکتے کیا دیر لگتی ہے۔ یہ کاغذ آپ کو کس نے فراہم کیا ؟ ” اعتبار راؤ نے دھیرے سے پوچھا۔
” کالے چور نے ۔ ” راؤ احمد علی نے غصے سے کہا۔ “کسی نے بھی دیا ہو۔ تجھے اس سے کیا، تو یہ بتا کہ یہ غلط ہے۔ “
“نہیں، یہ بالکل صحیح ہے، یہ کاغذ میں نے ہی تیار کروایا ہے۔ ” اعتبار راؤ نے بالآخر اقرار کر لیا۔
“راؤ احمد علی کا بیٹا اور اس قدر گدھا … اے احمق یہ تو کیا کرنے جارہا تھا۔ تجھے کچھ اندازہ ہے۔ ایسا اس لڑکی میں کیا ہے۔ کچھ ہیرے ویرے لگے ہیں اس میں …. اس سسری کے تو باپ کا بھی پتہ نہیں۔ اعتبار راؤ تو نے تو لٹیا ہی ڈبو دی۔ اب بتا، میں تیرا کیا کروں ۔ “
“میں لاہور جاؤں گا اور ہر قیمت پر شادی کروں گا۔ ” اعتبار راؤ نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
“شادی تو تو بعد میں کرے گا، پہلے تو لاہور جاکر دکھا۔ ” راؤ احمد علی غصے سے کھڑا ہو گیا اور پھر اقبال راؤ سے مخاطب ہو کر بولا۔
”اقبال، اس بے وقوف کو کچھ عقل سکھا۔ اور جب تک اسے عقل نہ آجائے۔ اسے حویلی میں قید رکھ ۔ جا، اس اُلو کو میرے سامنے سے لے جا۔ کہیں یہ میرے ہاتھوں
مارا نہ جائے۔ ” یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا۔
” آؤ، چلو بھائی ۔ ” اقبال راؤ اس کے نزدیک آکر بولا۔
” اقبال میں کہیں نہیں جاؤں گا۔ “
” بھائی آپ نے کہیں نہیں جانا، صرف اپنے کمرے تک جاتا ہے۔ وہاں چل کر آپ آرام سے رہیں۔ “
” نہیں، ہرگز نہیں، میں اس منحوس حویلی میں ایک لمحہ بھی نہیں رکوں گا۔ میں اسی وقت لاہور جاؤں گا۔ ” اعتبار راؤ نے قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔

تب اقبال تیزی سے قدم بڑھا کر اس کے سامنے آگیا۔ اس نے اپنے ہاتھ پھیلا کر اس کا راستہ روک لیا۔ اور آفتاب راؤ کو کوئی اشارہ کیا۔
آفتاب راؤ نے اس کا اشارہ سمجھتے ہی زور سے آواز لگائی۔
”کالو، بندے، شاہ ۔ ” اس کی آواز سن کر پلک جھپکتے ہی تین خونخوار بندے اندر داخل ہوئے۔ وہ تینوں مسلح تھے۔ وہ تینوں اندر آکر اقبال راؤ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ ان میں سے ایک بولا۔ ‘حکم سرکار ۔ “
“اب کیا کہتے ہو بھائی ۔ ” اقبال راؤ نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
” تم مجھ پر ظلم کر رہے ہو، اقبال۔ “
“نہیں بھائی، یہ سب آپ کے بھلے کے لئے ہے۔ ہم آپ کو اندھے کنویں میں نہیں گرنے دیں گے، آپ بہت سیدھے آدمی ہیں۔ وہ لوگ آپ کو لوٹ لینا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے بھائی کو لٹنے نہیں دیں گے۔ ” اقبال راؤ نے کہا۔
اعتبار راؤ جواب میں کچھ نہیں بولا۔
اس نے خاموشی سے آگے قدم بڑھا دیئے۔ اور سوچتا ہوا اپنے کمرے میں آگیا۔ اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی دروازہ بند ہو گیا، اور اعتبار راؤ نے تالا ڈالے جانے کی آواز سنی۔ اعتبار راؤ نے کمرے میں چاروں طرف نگاہ گھمائی۔ اور پھر ایک کرسی پر ڈھیر ہو گیا۔ یہ اسی کا کمرہ تھا۔ اس کمرے کو چھوڑے ہوئے اسے ایک طویل عرصہ ہو گیا تھا۔ اس کی ساری چیزیں جوں کی توں تھیں۔ طویل عرصے تک کمرہ بند رہنے کی وجہ سے یہاں گرد و غبار ہونا چاہئے تھا، لیکن ایسا نہیں تھا۔ کمرے کی ہر چیز آئینے کی طرح چمک رہی تھی۔ اس کی آمد سے پہلے یہاں کی صفائی کر دی گئی تھی۔ گویا ان کو اعتبار راؤ کے اغواء کا یقین تھا۔
اعتبار راؤ کو یکا یک لاہور کی یاد آئی۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ وقت مقررہ پر ہوٹل نہ پہنچنے پر جانے وہاں کیا ہوا ہو۔ تانیہ تو اس کی طرف سے پہلے ہی مشکوک تھی، اب عین وقت پر غائب ہو جانے کی وجہ سے اس کا شبہ یقین میں بدل گیا ہو گا۔ اس پر سے اس کا اعتبار اٹھ گیا ہو گا۔ وہ اس کے سامنے کیا منہ لے کر جائے گا۔
وہ پریشانی کے عالم میں اٹھ کر ٹہلنے لگا۔
کوئی پندرہ منٹ کے بعد دروازے پر کھڑ کھڑاہٹ محسوس ہوئی جیسے قفل کھولا جا رہا ہو۔ پھر دروازہ کھلا اور ایک ملازمہ کھانے کی ٹرے لے کر اندر آئی۔ اس نے وہ ٹرے میز پر رکھی اور پھر بڑے مودبانہ انداز میں بولی۔ ” کھانا کھالیں سرکار ۔ “
اعتبار راؤ نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ ملازمہ واپس چلی گئی اور دروازہ پھر سے مقفل ہو گیا۔ دوسرے دن صبح کو جب اقبال راؤ ایک ملازم کے ساتھ ناشتہ لے کر آیا تو اس نے دیکھا کہ اعتبار راؤ سوٹ پہنے بیڈ پر پڑا سو رہا ہے۔ اقبال راؤ نے اسے ہلایا۔
”بھائی ناشتہ کر لو، اٹھ جاؤ، صبح ہو گئی۔ “
اعتبار راؤ نے آنکھیں کھول دیں اور پھر فوراً ہی اٹھ کر بیٹھ گیا اور بولا۔ ” اقبال مجھے ٹیلیفون چاہئے۔ “
” بھائی کیا پولیس کو فون کرنا ہے ۔ ؟ ” اقبال راؤ نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔
” فضول باتیں مت کرو، میں تانیہ سے بات کرنا چاہتا ہوں ….. بے شک تم مجھے نمبر ملا کر دے دینا۔ “
” اباجی سے پوچھنا پڑے گا۔ ” اقبال راؤ بولا ۔
“کیا تم سارے کام اباجی سے پوچھ کر کرتے ہو۔ تم اتنے فرمانبردار کب سے ہو گئے۔ “
” جب سے بھائی تم یہاں آئے ہو ۔ ” اقبال راؤ نے ہنس کر کہا۔ ” بھائی ایک بات بتاؤ۔ تم تانیہ کے چکر میں کس طرح پڑ گئے۔ “
“تم لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے ۔ ” اعتبار راؤ نے صاف گوئی اختیار کی۔
” اچھا بھائی، اب خدا کے لئے عذاب ثواب پر تقریر شروع نہ کر دینا۔ ہم دنیا میں اس لئے نہیں آئے کہ عذاب ثواب کا حساب لے کر بیٹھ جائیں۔ دو دن کی زندگی ہے۔ اگر وہ بھی عیش میں نہ گزاری تو پھر ایسی زندگی کا کیا فائدہ ۔ “
” جس طرح کی زندگی تم لوگ گزار رہے ہو بالآخر اس کا ایک دن خمیازہ بھگتو گے۔ “
” بھائی ہم تو خود مظلوم ہیں، دیکھتے نہیں اباجی جائداد پر سانپ بنے بیٹھے ہیں۔ بندھی کی رقم ملتی ہے۔ تم تو پھر خوش قسمت ہو کہ لاہور میں عیش کرتے ہو۔ اباجی نے تمہیں اتنا کچھ دے دیا۔ “
” مجھے جو کچھ انہوں نے دیا ہے، وہ میرے حصے کی جائداد کا ایک فیصد بھی نہیں اور یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو۔ “
“لیکن بھائی تم تو درویش آدمی ہو، تمہیں جائداد کی طلب ہی نہیں۔ تم نے اپنے حصے کی جائداد بھی اس لڑکی کے نام کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بھائی کیا تانیہ سے تمہیں بہت محبت ہے۔ “
” میں تم سے محبت کے موضوع پر کیا بات کروں، تم کیا سمجھو گے۔ تمہاری جان تو صرف پیسے میں ہے۔ “
” تانیہ کو فون کر کے کیوں نہ تاوان طلب کیا جائے۔ یہ خیال ابھی آیا ہے۔ “ وہ ڈھیٹ پن سے بولا
” اسے کیا ضرورت پڑی ہے تاوان دینے کی۔ ” اعتبار راؤ نے جواب دیا۔
” کیوں وہ تمہاری ہونے والی بیوی ہے، تمہاری محبت ہے۔ اگر وہ تاوان نہیں دے گی تو اور کون دے گا۔؟؟ “

“تمہیں تاوان چاہئے ۔ ” اعتبار راؤ نے اسے گھور کر دیکھا۔

“بھائی تمہیں آزادی چاہئے ۔ ” اس نے اس سے الٹا سوال کیا۔

”ہاں، مجھے تو آزادی چاہئے ۔ ” اعتبار راؤ نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔
“اچھا، پھر کچھ سوچتے ہیں۔ “
“فی الحال ٹیلیفون کے بارے میں سوچو۔ “
“بھائی تم کپڑے تبدیل کر کے منہ ہاتھ دھولو، ناشتہ کر لو، پھر میں حویلی کا ایک چکر مار کر آتا ہوں۔ اس کمرے میں ٹیلیفون نہیں آسکتا۔ میں تمہیں اپنے کمرے سے ٹیلیفون کرواؤں گا لیکن اس معاملے کی ہوا آفتاب بھائی یا اباجی کو نہیں لگنا چاہئے۔ میری بات سمجھ میں آگئی نا۔ ” اقبال راؤ نے راز داری سے کیا۔
“ٹھیک ہے۔ “
اعتبار راؤ فوراً کھڑا ہو گیا اور کپڑے لے کر ہاتھ روم میں گھس گیا۔ وہاں سے وہ نہا دھو کر نکلا۔ اسے بہت زور کی بھوک لگی تھی خوب ڈٹ کر ناشتہ کیا۔ اور اقبال راؤ کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔
دوپہر کو ایک ملازمہ کھانا لے کر آئی اور اقبال کا پیغام دے گئی کہ وہ چار بجے تک آئے گا۔ اقبال راؤ پنے وعدے کے مطابق اس کے کمرے میں آپہنچا۔ یہ وہ وقت تھا جب راؤ احمد علی آرام فرمایا کرتے تھے۔ آرام تو آفتاب راؤ بھی کرتا تھا لیکن وہ آج صبح ہی سے کہیں گیا ہوا تھا۔ لائن کلیئر تھی لیکن اقبال راؤ اپنا اطمینان کر لینا چاہتا تھا۔ اس نے اعتبار راؤ سے پوچھا۔ ”بھائی، آپ نے تانیہ سے کیا بات کرنی ہے۔ “
“صرف یہ کہنا ہے کہ میں خیریت سے ہوں ۔ “
” آپ کے خیال میں کیا اسے آپ کے اغواء کی اطلاع ہو گئی ہوگی ۔ “
” ہاں بالکل اس لئے کہ میرے پڑوسی نے مجھے اغواء ہوتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ “
” لیکن آپ ایک بات کا خیال رکھئے گا کہ اسے یہ مطلع کرنے کی کوشش مت کیجئے گا کہ آپ اس وقت کہاں ہیں اور آپ کو کس نے اغواء کروایا ہے۔ اگر بھائی آپ نے ایسا کیا تو پھر مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ “
“ٹھیک ہے، میں وعدہ کرتا ہوں ۔ “
“میں آپ کو ایک جملے سے زیادہ نہیں بولنے دوں گا۔ ” ” ٹھیک ہے۔ ” اعتبار راؤ نے یہ بات بھی مان لی۔
“آجائیں پھر ۔ ” اقبال راؤ اٹھتا ہوا بولا۔
وہ اسے اپنے ڈرائنگ روم میں لے آیا اور اپنی گود میں ٹیلیفون رکھ کر بولا۔
”ہاں، بھائی نمبر بتاؤ ۔ “
اعتبار راؤ نے نمبر بتایا ۔ اس نے نمبر ڈائل کیا۔ لائن فوراً مل گئی دو گھنٹیاں بجنے کے بعد ادھر سے رفیق نے فون اٹھایا۔ ”ہیلو۔ “
” مجھے تانیہ بی بی سے بات کرنی ہے۔ انہیں جلدی بلائیں۔ ” اقبال راؤ بولا۔
“اچھا جی، آپ ایک سیکنڈ ہولڈ کریں ۔ ” یہ کہہ کر رفیق نے ریسیور رکھ دیا۔ کسی مرد نے ٹیلیفون اٹھایا تھا، اب وہ تانیہ کو بلانے گیا ہے۔ “ اقبال راؤ نے ریسیور پر ہاتھ رکھتے ہوئے اعتبار راؤ کو اطلاع دی۔
“فورا ہی ایک نسوانی آواز سنائی دی۔ ”ہیلو۔ “
“آپ کون ہیں؟ کیا آپ تانیہ ہیں۔ ” اقبال راؤ نے پوچھا۔
“جی ، جی … میں تانیہ بول رہی ہوں ۔ ” ادھر سے گھبرا کر کہا گیا۔
“لیجئے اعتبار راؤ سے بات کیجئے ۔ “
یہ کہہ کر اقبال راؤ نے ریسیور اس کی طرف بڑھا دیا۔ اور ٹیلیفون اپنی گود میں ہی رہنے دیا۔ اور اپنی انگلی ٹیلیفون کی لائن کاٹنے کے لئے تیار کرلی۔
” تانیہ میں جہاں بھی ہوں، بالکل ٹھیک ہوں ۔ انشاء اللہ جلد تم تک پہنچوں گا، کسی قسم کی فکر نہ کرنا”
” بس۔ ” یہ کہہ کر اقبال راؤ نے لائن کاٹ دی۔ ادھر سے وہ تانیہ کا جواب بھی نہ سن پایا۔

“بھائی تانیہ سے بات ہو گئی، اب تو خوش ہو ۔ ” اقبال راؤ نے ریسیور رکھتے ہوئے کہا۔
“اقبال میں تمہارا شکر گزار ہوں ۔ ” اعتبار راؤ نے کہا۔
“یہ کام میں نے زبردست رسک لے کر کیا ہے۔ اگر “جیلر صاحب” کو یہ معلوم ہو گیا کہ میں نے ان کے قیدی کو ٹیلیفون کی سہولت فراہم کی ہے تو وہ میری گردن اڑوا دیں گے ۔ ” اقبال نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“تم اباجی سے اس قدر ڈرتے کیوں ہو؟”
“بھائی آپ اباجی کو نہیں جانتے۔ “
“میں جتنا انہیں جانتا ہوں، اس سے زیادہ جاننے کی خواہش بھی نہیں۔ “ اعتبار راؤ نے بے نیازی سے کہا۔ لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ ظلم کی رسی کھنچنے میں اب زیادہ دیر نہیں ہے۔ “
“میرا خیال ہے کہ اباجی سنچری بنائے بغیر وکٹ نہیں چھوڑیں گے۔ “ اقبال راؤ نے ہنس کر کہا۔ آؤ، بھائی چلو اپنے کمرے میں۔ آپ کی ملاقات کا وقت ختم ہو گیا۔ “

اعتبار راؤ خاموشی سے اٹھا اور اپنے کمرے میں آگیا۔
اقبال راؤ رات کو آنے کا وعدہ کر کے، دروازہ مقفل کر کے چلا گیا۔
وہ پتہ نہیں رات کا کونسا پہر تھا کہ اچانک اعتبار راؤ کی آنکھ کھل گئی۔ اس کا گلا خشک ہو رہا تھا۔ اس نے اٹھ کر پانی پیا، گلا تر ہونے پر اس کے کچھ حواس بحال ہوئے۔ اس نے تکئے کے نیچے سے اپنی کلائی کی گھڑی نکالی۔ اور وقت دیکھا۔ اس وقت ایک بج رہا تھا۔
وہ اٹھ کر کھڑکی کی طرف آیا۔ اس نے کھڑکی کھولی تو ایک دم پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سنائی دی۔ جیسے کوئی بڑا پرندہ نزدیک کے درخت سے اڑا ہو۔ رات تاریک تھی۔ سردی کا موسم دم توڑ رہا تھا۔ پھر بھی ہلکی سی خنکی تھی۔ اعتبار راؤ نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر باہر دیکھا لیکن اندھیرے میں کچھ نظر نہ آیا۔ کھڑکی میں سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ اس نے دو سلاخوں کو پکڑ کر زور زور سے ہلایا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں۔
وہ ابھی کھڑکی بند کر ہی رہا تھا کہ پروں کی پھڑ پھڑاہٹ پھر سنائی دی۔ یوں محسوس ہوا جیسے کوئی پرندہ درخت پر آکر بیٹھا ہو۔ چند لمحوں بعد آواز آنی شروع ہو گئی۔ یہ آلو کے بولنے کی آواز تھی۔ بڑی عجیب
اور پر اسرار سی۔ اس نے سامنے نظر ڈالی تو اسے دو گول گول آنکھیں چمکتی دکھائی دیں۔ اس نے فوراً کھڑکی بند کر دی کھڑکی بند کرتے ہی اسے یوں محسوس ہوا جیسے بہت سے اُلووں نے ایک ساتھ چیخنا شروع کر دیا ہو۔ اعتبار راؤ بیڈ پر آکر بیٹھ گیا۔ وہ نحوست بھری آوازیں مسلسل آرہی تھیں۔ وہ سوچنے لگا کہ جس جگہ الو بولنے شروع ہو جائیں۔ وہاں ویرانی اور وحشت برسنا شروع ہو جاتی ہے۔ کیا اس حویلی کا آخری وقت آگیا؟؟
وہ ابھی اس طرح کی باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ دروازے پر کھڑکھڑاہٹ محسوس ہوئی۔ اعتبار راؤ دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔ یہ اس وقت اس سے کون ملنے آرہا ہے۔ اگر چہ اقبال راؤ نے رات کو آنے کو کہا تھا لیکن وہ ابھی تک نہیں آیا تھا۔ کیا وہ آرہا ہے۔ رات کے ایک بجے جب چاروں طرف گھور اندھیرا چھایا ہوا ہے اور الو اپنی نحوست بھری آوازوں میں بول رہے ہیں، یہ ملاقات کا
کونسا وقت ہے بھلا۔
دروازہ کھلا تو وہ چونک اٹھا۔ اقبال راؤ کی بیوی مسکراتی ہوئی اندر داخل ہو رہی تھی لیکن وہ اکیلی نہ تھی۔ فوراً ہی اقبال راؤ کا چہرہ دکھائی دیا، اس نے اندر آکر کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔

”بھیا، جاگ رہے تھے ؟ ” کامنی مسکراتی ہوئی اس کی طرف بڑھی۔
“بھائی، کامنی آپ سے ملنے کی ضد کر رہی تھی، میں نے کہا کہ دن کی روشنی میں تو یہ ممکن نہیں، رات کو چلیں گے۔ سو یہ مجھے اٹھالائی ۔ ” اقبال راؤ نے بساط بچھائی۔
” ہاں، آؤ کامنی، بیٹھو۔ ” اعتبار راؤ نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ بس ابھی تھوڑی دیر پہلے میری آنکھ کھلی تھی۔ اٹھ کر پانی پیا تو باہر سے اُلوؤں کے بولنے کی آوازیں آنے لگیں۔ یہ بڑی نحوست کی نشانی ہے۔ جہاں اُلو بولنے شروع ہو جائیں، اس جگہ کو ویران ہوتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ “
“او بھائی آپ بھی کیا عورتوں کی طرح باتیں لے کر بیٹھ گئے۔ یہ کامنی تو مجھے کئی روز سے کہہ رہی ہے۔ کہ رات کو الو بولنے لگے ہیں۔ میں کہتا ہوں ، یہ کونسی نئی بات ہے۔ الو تو رات میں ہی بولتےنہیں۔”
بھیا، الو کی آوازیں سن کر میرا دل بہت ڈرتا ہے۔ یہ بڑا منحوس پرندہ ہے لیکن انہیں کسی بات کی پرواہی نہیں۔” کامنی نے شکایت بھرے لہجے میں کہا ۔
” کیا بے وقوفوں جیسی بات کر رہی ہے۔ میں بھلا کیا کروں، انہیں بولنے سے کیسے روکوں۔ “
” اچھا، چھوڑو، فضول باتیں، مجھے بھیا سے باتیں کرنے دو، ہاں بھیا آپ سنائیں۔ سنا ہے آپ نے کوئی لڑکی پسند کرلی ہے۔ ” کامنی نے ایک ادائے خاص سے کہا۔
” تمہیں کوئی اعتراض ہے۔ ” اعتبار راؤ نے تیکھے لہجے میں کہا۔
” لو بھلا، میں کیوں کروں گی، اعتراض … مجھے تو خوشی ہے۔ آپ اپنی شادی میں مجھے تو بلائیں گے نا “
“شادی میں تو اس وقت بلاؤں گا جب تم لوگوں کی قید سے آزاد ہوں گا۔ “
” تو بھیا، یہ کونسی مشکل بات ہے۔ آپ زمینوں کے کاغذ پر دستخط کر دیں۔ پھر آزادی ہی آزادی ہے۔ “
“بھائی، بات یہ ہے کہ آپ کو زمین جائداد سے کوئی دلچسپی تو ہے نہیں۔ آپ نے ویسے ہی اپنے حصے کی زمین جائداد تانیہ کے نام منتقل کرنے کے کاغذات تیار کروا کر رکھے ہوئے ہیں۔ بھائی آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ.……” اقبال راؤ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
پھر اس نے اپنی بیوی کامنی کی طرف دیکھا اور بولا۔
” تو بول نا۔ “
کامنی کا اصل نام کوکب تھا۔ ایک بدصورت سی موٹی بھدی عورت تھی۔ اس کے گھر والے اسے پیار سے کامنی کہتے تھے۔ اس حویلی میں بھی آکر اس نے خود کو کامنی کہلوایا۔ وہ ایک بڑے زمیندار کی بیٹی تھی اور جہیز میں بہت کچھ لائی تھی۔ بنیادی طور پر وہ ایک لالچی عورت تھی۔ اس کا شوہر بھی ہوس کا مارا تھا۔ دونوں ایک جیسے مل گئے تھے اور اب ایک ہو کر اعتبار راؤ پر داؤ چلانے آئے تھے۔
” بات یہ ہے بھیا کہ یہ دنیا کچھ لو، کچھ دو کے اصولوں پر چل رہی ہے، آپ کو آزادی چاہئے، ہمیں آپ کا حصہ چاہئے۔ آپ اپنے حق سے دستبردار ہو جاؤ ۔ ہم آپ کو آزادی دیتے دیتے ہیں۔ “
واہ، کامنی بہت خوب، تم تو اپنے شوہر سے بھی دو ہاتھ آگے نکلیں۔ “
کیا کروں، بھیا، بچوں کے لئے آخر کچھ سوچنا ہی پڑتا ہے۔ انہیں تو اپنے بچوں کے مستقبل کی کوئی فکر ہے نہیں۔ ” کامنی نے بڑی ڈھٹائی سے جواب دیا۔
“مجھے منظور ہے۔ ” اعتبار راؤ نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ “ایں, کیا کہا ؟ ” اقبال راؤ کو اس کا جواب سن کر یقین نہ آیا۔ اسے توقع نہ تھی کہ محسن راؤ اس قدر جلد مان جائے گا۔
“میں یہ کہہ رہا ہوں کہ مجھے منظور ہے۔ مجھے واقعی زمین جائداد سے کوئی دلچسپی نہیں۔ نہ تانیہ کو ہے۔ وہ جب سنے گی کہ میں اپنے حق سے دستبردار ہو گیا ہوں تو وہ یقیناً خوش ہوگی ۔ “
“خوش ہوگی، ہائے کیسی لڑکی ہے وہ .. کیا ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ دنیا میں۔ ” کامنی حیرت سے بولی۔
“ہاں، یہ دنیا عجائب خانہ ہے۔ یہاں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک ایک پیسے پر جان دینے والے اور کروڑوں روپوں کو ٹھکرا دینے والے بھی۔ ” اعتبار راؤ نے ہنس کر کہا۔ ”لیکن ایک بات یاد رکھنا اقبال راؤ، اپنے حق سے دستبردار ہونے والے کاغذات پر میں یہاں دستخط نہیں کروں گا۔ “
“پھر کہاں کرو گے بھائی۔ “ اقبال راؤ نے پوچھا۔
” لاہور میں، اپنے گھر میں بیٹھ کر ۔ ۔۔ میری یہ شرط منظور ہو تو ٹھیک ہے ورنہ جو مرضی آئے کرو۔”
” کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں تم سے کاغذات پر بھی دستخط کروالوں گا اور یہاں سے جانے بھی نہیں دوں گا؟؟ “
”ہاں، میں یہی سمجھتا ہوں ۔ ” اعتبار راؤ نے صاف لہجے میں کہا۔
” اور بھائی تم اپنے علاقے میں جاکر بدل گئے۔ تم نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر کیا ہو گا ؟ “
“اقبال راؤ، تم جانتے ہو کہ میں ایسا نہیں کروں گا۔ زبان سے ایک مرتبہ جو بات کہہ دی تو کہہ دی۔ میں اپنے عہد سے پھرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔ “
ہاں، یہ میں جانتا ہوں۔ تو پھر بات پکی۔؟؟ ” اقبال راؤ نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
“سو فیصد پکی۔ ” اعتبار راؤ نے بے نیازی سے کہا۔
” اچھا، پھر میں چلتا ہوں ۔ صبح چار بجے آؤں گا۔ تیار رہنا۔ یہاں سے نکل چلیں گے۔ “

پھر اقبال راؤ ٹھیک چار بجے آپہنچا۔ وہ دونوں حویلی کے ایک خفیہ دروازے سے باہر نکلے۔ دروازے پر جیپ موجود تھی۔ وہ دونوں اس میں سوار ہو گئے۔ اعتبار راؤ نے دیکھا کہ ڈرائیور کے برابر ایک مسلح آدمی بیٹھا ہے۔ جیپ چل پڑی۔

“اقبال راؤ کیا اباجی کو ہمارے یہاں سے جانے کا علم ہے۔ ؟ ” اعتبار راؤ نے پوچھا۔
“ہرگز نہیں۔ اگر انہیں علم ہوتا تو ہمیں خفیہ دروازے سے نکلنے کی کیا ضرورت تھی۔ “
” ظاہر ہے۔ یہ بات چھپی تو نہیں رہ سکتی۔ انہیں معلوم ہوا تو پھر کیا ہو گا۔ “
تم بے فکر رہو ۔ ” اقبال راؤ نے بڑے اطمینان سے کہا۔ ”ابا جی کو اب میں دیکھ لوں گا۔ ان سے اب دو دو ہاتھ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ “
“باپ سے لڑو گے؟”
“جب کوئی باپ حق نہ دے تو پھر حق چھینا پڑتا ہے۔ بہت فرمانبرداری ہو گئی بھائی ۔ ؟”
اقبال راؤ صبح چار بجے حویلی سے نکلا تھا، اسی دن مغرب سے پہلے وہ حویلی واپس پہنچ گیا۔ وہ اپنی بیوی کو سمجھا کر نکلا تھا کہ اگر راؤ احمد علی اس کے بارے میں پوچھیں تو کیا جواب دینا ہے۔ آفتاب راؤ کی طرف سے اسے کوئی فکر نہ تھی کیونکہ وہ اسلام آباد گیا ہوا تھا۔ اسے سیاست کا چسکا تھا۔ الیکشن ہونے والے تھے لہٰذا
وہ پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے گھر سے نکلا ہوا تھا۔ ایک ہفتے سے پہلے اس کی آمد ممکن نہ تھی۔ یہ بهترین وقت تھا۔ اقبال راؤ اس وقت سے فائدہ اٹھا لینا چاہتا تھا۔ وہ لاہور سے راؤ احمد علی کا تختہ الٹنے کا پورا پورا انتظام کر کے آیا تھا۔ آج کی رات بڑے معرکے کی رات تھی۔ اقبال راؤ حویلی پہنچتے ہی سیدھا اپنی بیوی کے پاس پہنچا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرائی اور بولی ۔

“سب خیر ہے ؟؟
”ہاں، میری طرف تو سب خیر ہے تو یہاں کی بتا۔ ” اس نے پوچھا۔
” ادھر بھی سب خیر ہے۔ اباجی آج اپنے ہی چکروں میں لگے ہوئے ہیں۔ “ کامنی معنی خیز لہجے میں بولی۔
“چلو یہ تو اچھا ہوا ۔ ” اقبال راؤ خوش ہو کر بولا۔

اسے اپنے باپ کے سارے “چکروں” کا پتہ تھا۔ اسے یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ ہر پندرھویں دن اباجی کے خاص کمرے میں کیا ہوتا ہے۔ تھرکتے بدن، طبلے کی تھاپ، گھنگھروؤں کی جھنکار، مہ رخوں کے جلوے، مینا کی قلقل، جاموں کی کھنک، رات گئے تک چلتا تھا یہ سلسلہ اقبال راؤ سب جانتا تھا، اسے کیا معلوم نہیں تھا۔

رات کے ساڑھے تین بجے جب یہ محفل ختم ہوئی اور راؤ احمد علی کمرۂ خاص سے اپنے بیڈ روم میں آکر کپڑے تبدیل کر رہا تھا۔ تو اقبال راؤ کمرے میں داخل ہوا۔ راؤ احمد علی سلیپنگ گاؤن کی ڈوریاں کستا اور اپنی بھدی آواز میں گنگناتا باتھ روم سے بر آمد ہوا۔

اس نے اقبال راؤ کو اپنے کمرے میں مودبانہ کھڑے دیکھا تو ایک لمحے کو چونکا۔ پھر وہ مسکراتا ہوا آگے بڑھا اور بولا ۔ “اقبال کیا ہوا ؟ “

“کچھ نہیں اباجی، بس ذرا آپ سے بات کرنا تھی۔ کافی دیر سے آپ کے فارغ ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ جیسے ہی اطلاع ملی کہ آپ اپنے بیڈ روم میں چلے گئے ہیں، میں آپ سے ملنے آگیا۔ “
‘ ایسی کیا ایمر جنسی ہو گئی، صبح آجاتا ۔ ” راؤ احمد علی اس وقت بات کرنے کے موڈ میں نہ تھا، اس نے ٹالنا چاہا۔
“صبح ہی ہو رہی ہے ابا جی۔ یہ کونسی رات ہے۔ ذرا وقت تو دیکھیں۔ “
” اچھا، بات کر جلدی … مجھے نیند آرہی ہے ۔ ” راؤ احمد علی نے اپنے روایتی اکھڑ پن سے کہا۔
“اباجی، آپ کے دستخط لینے ہیں۔ ” اقبال راؤ نے سازش کی پٹاری کھولی ۔
“دستخط …. وہ کس لئے ؟ ” راؤ احمد علی کے لہجے میں بدستور غصہ تھا۔
” اباجی، یہ آپ کے یادگار دستخط ہوں گے، ان دستخطوں کے بعد مجھے پھر آپ کے دستخطوں کی کبھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ “

ل”کیا بکواس کر رہا ہے۔ کھل کر بات کر ۔ ” راؤ احمد علی نے بڑی بڑی خونی آنکھوں سے گھورا۔
‘ اباجی ” اقبال راؤ نے کہا۔
وہ ابھی تک کھڑا ہوا تھا۔ اور اس کے دونوں ہاتھ پیچھے تھے۔ اب اس نے دونوں ہاتھ آگے گئے۔ اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی۔ اس فائل میں کاغذات تھے۔ وہ فائل لے کر آگے بڑھا۔ راؤ احمد علی اپنی اس کرسی پر بیٹھ چکا تھا، جس پر بیٹھ کر وہ انسان نہیں رہتا تھا۔

“اباجی کا غذات پر نظر ڈال لیں ۔ ” اقبال راؤ نے بڑے مودبانہ انداز میں کہا۔
“کس قسم کے کاغذات ہیں یہ ۔ ” راؤ احمد علی نے فائل لے کر ، فائل کھولے بغیر پوچھا۔
‘ اعتبار راؤ اپنے حق سے دستبردار ہو چکا ہے۔ محسن راؤ اور تانیہ نے بھی اسی قسم کے کاغذات پر دستخط کر دیئے ہیں تیسرا مختار نامہ ہے۔ اس پر آپ نے دستخط کرنے ہیں، کیونکہ اب آپ بوڑھے ہو چکے ہیں، زمین جائداد کا انتظام سنبھالنا اب آپ کے بس کا نہیں رہا۔ آج کے بعد سے یہ انتظام میں سنبھالوں گا۔ “
“اچھا تو تو نے میرے اعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھا کر یہ کھیل کھیل لیا۔ چلو اچھا ہوا کہ تیری حقیقت بھی میرے سامنے آگئی۔ میں تو تجھ پر بہت بھروسہ کرنے لگا تھا۔ ” راؤ احمد علی کی آواز اچانک دھیمی ہو گئی۔
“اباجی، میرے پاس وقت کم ہے۔ آپ براہ کرم اس مختار نامے پر دستخط فرمادیجئے۔ ” اقبال راؤ بولا۔
“یہ دستخط تو میں نہیں کروں گا ۔ ” راؤ احمد علی کا چہرہ سرخ ہونے لگا۔
“ابا جی، دستخط تو آپ کو کرنے پڑیں گے ۔ ” یہ کہہ کر اس نے اپنے کوٹ کی جیب سے ریوالور نکال لیا اور راؤ احمد علی کی طرف تانتے ہوئے بولا۔ “جلدی اباجی ۔ ” “اوہ ۔ “
راؤ احمد علی نے پہلے ریوالور پھر اقبال راؤ کو دیکھا۔ “اچھا کرتا ہوں دستخط ۔ اپنا چشمہ اور قلم تو دراز سے نکال لوں ۔ “
“ٹھیک ہے۔ ” اقبال راؤ نے اتنی مہلت دے دی۔

راؤ احمد علی اپنی اونچی کرسی سے اٹھا۔ اپنے بیڈ کے نزدیک آیا۔ سائیڈ ٹیبل کی پہلی دراز کھول کر جھک کر اندر ہاتھ ڈالا۔ دراز کے اندر لگے ہوئے ایک بٹن کو تین بار جلدی جلدی دبایا۔ پھر اسی دراز میں رکھا، چشمہ اور پین لے کر وہ پھر اپنی اسی اونچی کرسی پر آبیٹھا جس پر بیٹھ کر وہ انسان نہیں رہتا تھا۔ اقبال راؤ ابھی تک ریوالور تانے ہوئے تھا۔ باپ کو عینک آنکھوں پر لگا کر پین کھولتے دیکھ کر اس نے ریوالور اپنی جیب میں ڈال لیا۔ جیسے اب کوئی خطرہ نہ رہا ہو۔

راؤ احمد علی نے فائل کھول کر پوچھا۔ ” کہاں کروں دستخط ۔ ؟”
“میں بتاتا ہوں اباجی ۔ ” یہ کہہ کر وہ خوشی سے جھومتا آگے بڑھا۔ کامیابی دو قدم کے فاصلے پہ کھڑی مسکرا رہی تھی۔
تبھی دھاڑ سے بیڈ روم کا درواز کھلا۔ اقبال راؤ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کے چھکے چھوٹ گئے۔ وہ چار تھے۔ اور چاروں جدید آٹو میٹک ہتھیاروں سے لیس تھے۔ وہ تربیت یافتہ کمانڈوز کی طرح آگے بڑھے اور چشم زدن میں اقبال راؤ کو گھیرے میں لے لیا۔
راؤ احمد علی نے پین بند کر کے چشمہ آنکھوں سے اتارا۔ اسے پورے اطمینان سے کیس میں رکھا۔
فائل بند کی۔ اور مسکرا کر اقبال راؤ کی طرف دیکھا۔ اور بولا ۔
” اقبال تیری جیب میں ریوالور موجود ہے۔ چاہو تو شوق پورا کر لو ۔ لیکن ایک بات کا خیال رکھنا کہ تمہارے ریوالور سے ایک گولی نہیں نکلے گی، اتنی دیر میں کم از کم سو گولیاں تمہارے جسم میں پیوست ہو جائیں گی۔ “

اقبال راؤ نے ان چاروں کو دیکھتے ہی جیب میں ہاتھ ڈالا تھا۔ لیکن اب جیب سے ریوالور نکالنا فضول تھا، اس نے اپنے ہاتھ باہر نکال لیا، وہ ہاتھ کانپ رہا تھا۔ جو کچھ ہوا تھا خلاف توقع ہوا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ راؤ احمد علی نے کسی آڑے وقت کے لئے یہ “ریزرو فورس ” رکھی ہوئی ہے، وہ یہ بھی اندازہ نہ کر پایا کہ یہ ” ریزرو فورس” اچانک ایکشن میں کس طرح آگئی۔ بہر حال پانسہ پلٹ گیا تھا۔ ساون پور پر اس کی حکمرانی کا خواب چکنا چور ہو گیا تھا۔
راؤ احمد علی نے وہ فائل اقبال راؤ کے منہ پر دے ماری۔ اس کے کاغذات ادھر ادھر بکھر گئے۔

” تم نے کیا سمجھا تھا کہ تم ریوالور کے زور پر مجھ سے مختار نامے پر دستخط کر والو گے۔ تم شاید یہ بھول گئے کہ میں تمہارا باپ ہوں۔ میں بوڑھا ہو گیا تو کیا ہوا لیکن میرا دماغ ابھی بوڑھا نہیں ہوا ہے۔ “
” اباجی مجھ سے غلطی ہو گئی، مجھے معاف کر دیجئے۔ ” اقبال راؤ یہ کہہ کر راؤ احمد علی کے پاؤں پر گرنے لگا۔
“نہیں۔ “
راؤ احمد علی اتنے زور سے چیخا کہ وہ قدموں میں جھکتا جھکتا سیدھا کھڑا ہوا اور پھر ڈر کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
“اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ ” راؤ احمد علی نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ پھر وہ ان چاروں میں سے ایک سے مخاطب ہو کر بولا۔
” اس منحوس کو میرے سامنے سے لے جاؤ۔ ابھی مجھے نیند آرہی ہے۔ اس کا فیصلہ میں صبح کروں گا۔ جاؤ لے جاؤ اسے۔ ہاں ایک بات کا خیال رکھنا یہ بہت شریر ہے۔ اگر کوئی شرارت کرے تو اس کے جسم میں اتنی گولیاں اتار دینا کہ سانس لینا مشکل ہو جائے ۔ “
” پلیز، اباجی، مجھے معاف کر دیں۔ ” اقبال راؤ نے ہاتھ جوڑے۔
راؤ احمد علی نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ تب وہ چاروں اپنے ہتھیاروں سمیت بڑے خونخوار انداز میں آگے بڑھے۔ اقبال راؤ کمرے سے نکلنے پر مجبور ہو گیا۔ اقبال راؤ کے جانے کے بعد راؤ احمد نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا اور گاؤن کی ڈوریاں کھولتے ہوئے بیڈ کی طرف بڑھا۔ بیڈ پر بیٹھ کر اس نے ایک زور دار جماہی لی اور نرم ملائم کمبل اوڑھ کر پر سکون انداز میں ٹانگیں پھیلا لیں۔
دو منٹ کے بعد اس کے خوفناک خراٹے کمرے میں گونجنے لگے۔

°°°°°°°°°°°°°°÷÷÷°°°°°°°°°°°°°°°°°÷÷÷°°°°°°°°°°°°°°°÷÷÷°°°°°°°°°

اپنی زمین جائداد اقبال راؤ کے نام کرتے ہوئے اسے ذرا بھی افسوس نہ ہوا تھا۔ اسے پیسے کی ہوس نہ تھی۔ اس کے پاس جو کچھ تھا، وہ ایک اچھی زندگی گزارنے کے لئے کافی تھا۔ ایک چلتا ہوا سینما ہال، ترقی کرتا ہوا تقسیم کار ادارہ ۔ اپنا گھر اور گاڑی۔ کیا کچھ نہیں تھا اس کے پاس … پھر ایسی زمین کا وہ کیا کرے۔ جس پر اقبال راؤ جیسے اژدھے اپنی زبان لپلپاتے ہوئے پھر رہے ہوں۔ زندگی ہر وقت خطرے میں ہو۔ اسی لئے اعتبار راؤ نے زمین جائداد دے کر سکون خرید لیا تھا۔ وہ تانیہ کی زندگی میں کسی قسم کا زہر نہیں گھولنا چاہتا تھا۔ وہ اس کے ساتھ ایک بھر پور اور خوشیوں بھری زندگی گزارنے کا خواہشمند تھا اور یہ پرسکون زندگی اسی وقت ممکن تھی جب وہ زمین جائداد سے دستبردار ہو جائے۔
اقبال راؤ سورج نکلتے ہی لاہور پہنچ گیا تھا۔ وہ اعتبار راؤ کو اپنے ایک شناسا وکیل کے یہاں لے گیا۔ وہاں بیٹھ کر اس نے کاغذات تیار کروائے۔ اعتبار راؤ کی طرح اس نے محسن راؤ اور تانیہ کی طرف سے بھی کاغذات تیار کروا لئے۔ اور اعتبار راؤ کو بتا بھی دیا کہ وہ ان دونوں کے جعلی دستخط کروا کے اباجی کے سامنے رکھے گا۔
پھر اس نے ایک مختار نامہ تیار کروایا۔ اس مختار نامے میں اس نے ہر طرح کا اختیار اپنے نام لکھوالیا اور یہ بات بھی اس نے اعتبار راؤ کو بتادی کہ وہ اس مختار نامے پر اباجی کے دستخط کروائے گا۔
“مجھے امید نہیں کہ ابا جی اپنی موت کے پروانے پر اس قدر آسانی سے دستخط کر دیں گے ۔ ” اعتبار راؤ نے خدشہ ظاہر کیا۔
” آسانی سے نہ کئے تو مشکل سے کریں گے۔ دستخط انہیں ہر حال میں کرنا پڑیں گے۔ چاہے ریوالور کے زور پر ہی کیوں نہ کریں ۔ ” اقبال راؤ نے بڑی سفاکی سے کہا۔
” اور بھائی آفتاب کا کیا ہو گا ۔ ؟” اعتبار راؤ نے پوچھا۔
” انہیں سیاست کا چسکا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں سیاست آتی نہیں ہے۔ انہیں میں بہت آسانی سے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکوں گا۔ جب زمین جائداد کی ساری پاور میرے پاس ہوگی تو انہیں میرے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے سوا اور کونسا راستہ ہو گا۔” اقبال راؤ نے ہنستے ہوئے کہا۔
جب کاغذات وغیرہ تیار ہو کر آگئے تو اعتبار راؤ نے وکیل کے یہاں ہی حق دستبرداری پر دستخط کر دیئے اور اپنے گھر جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ اقبال راؤ اسے باہر تک چھوڑنے کے لئے آیا۔ جب اعتبار راؤ نے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اقبال راؤ سے ہاتھ ملایا تو اقبال راؤ بڑے شاطرانہ انداز میں مسکرایا اور راز دارانہ لہجے میں بولا۔ ” بھائی آپ کو تانیہ مبارک ہو، دیکھیں ہمیں اپنی شادی میں بلانا نہ بھولیں۔ “
“اچھا۔ ” اعتبار راؤ نے گہرا ٹھنڈا سانس لے کر کہا اور گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ اور پیچھے پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ اس منحوس کو وہ کیا دیکھتا جس نے بھائی ہو کر انتہائی ظالمانہ سلوک کیا تھا۔
پہلے اس نے سوچا کہ اپنے گھر سمن آباد جائے۔ پھر اس نے ارادہ بدل دیا۔ نہیں تانیہ کے پاس جانا چاہئے۔ اس نے ماڈل ٹاؤن کا رخ اختیار کر لیا۔ اس نے سوچا اگر تانیہ گھر پر نہ ملی تو پھر آرٹ گیلری کا رخ کرے گا۔ وہ اچانک اس کے سامنے پہنچنا چاہتا تھا، اسے سرپرائز دینا چاہتا تھا۔
جب وہ ماڈل ٹاؤن پہنچا تو ساڑھے بارہ بجے کا وقت تھا۔ اس نے گاڑی سے اتر کر بیل بجائی اور پھر اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کے بعد رفیق نے گیٹ کھولا اور اعتبار راؤ کو گاڑی میں بیٹھا دیکھ کر ایک دم خوش ہو گیا۔ وہ واپس پلٹ کر جانے لگا تو اعتبار راؤ نے اسے آواز دی۔ ” رفیق۔ “
” جی صاحب۔ “
” کہاں بھاگے جارہے ہو۔ ؟؟
” تانیہ بی بی کے پاس جارہا ہوں۔ انہیں خوشی کی خبر سنانے۔ “
” نہیں رفیق یہ کام تم نہیں کرو گے خود میں کروں گا۔ مجھے یہ بتاؤ تانیہ بی بی کہاں ہیں۔ ؟ “
” اپنے کمرے میں ہیں جی وہ ۔ “
” اچھا ٹھیک ہے۔ تم گیٹ کھولو۔ “

رفیق نے گیٹ کے دونوں پٹ کھول دیئے، اعتبار راؤ اپنی گاڑی اندر لے گیا۔ ایک گارڈ اندر الرٹ کھڑا تھا۔ اس نے آنے والی گاڑی کو غور سے دیکھا، پھر اعتبار راؤ کو پہچان کر اطمینان سے کھڑا ہو گیا۔ اعتبار راؤ گاڑی بند کر کے اندر پہنچا۔ تانیہ کے کمرے کا دروازہ نیم وا تھا۔ اعتبار راؤ نے کھڑے ہو کر ایک نظر اندر ڈالی ۔ تانیہ بیڈ پر سر ٹکائے اداس بیٹھی تھی۔ وہ کسی گہری سوچ میں تھی۔ اس نے دروازہ تھوڑا اور کھول دیا لیکن تانیہ نے نظریں اٹھا کر نہ دیکھا۔ تب اعتبار راؤ نے دروازے پر آہستہ سے دستک دی اور پر مسرت لہجے میں پوچھا۔
”کیا میں اندر سکتا ہوں ۔؟؟ “
تانیہ نے آواز سن کر ایسے ہی بے خیالی میں دروازے کی طرف دیکھا۔ اس کی تو دنیا ہی بدل گئی۔ اداسی ایک دم مسرت میں تبدیل ہو گئی۔ ہرطرف رنگ ہی رنگ بکھر گئے۔ یہ کون آیا ؟ وہ بے اختیار ہو کر اٹھی اور دوڑ کر اعتبار راؤ سے لپٹ گئی۔ پھر فوراً ہی اسے اپنے اس اضطراری عمل پر حجاب آیا۔ وہ ایک دم پیچھے ہٹی لیکن اعتبار راؤ نے اسے پیچھے ہٹنے نہ دیا۔ اسے اپنی بانہوں کے حصار میں جکڑ لیا۔

” اعتبار ، کیا ہوا تھا ۔ ؟ ” تانیہ نے اس کے سینے میں منہ چھپائے ہوئے پوچھا۔
” مجھے اغواء کر لیا گیا تھا ۔ ” اعتبار راؤ نے اسے اپنی بانہوں کی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے کہا۔
” کون تھے وہ لوگ ۔ ؟ “
” یہ دنیا کا سب سے انوکھا اغواء تھا۔ باپ نے بیٹے کو اغواء کروایا تھا۔ ” اعتبار راؤ کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا۔
“راؤ صاحب نے؟؟ حیرت ہے۔ پھر انہوں نے چھوڑ کیسے دیا ؟ “
” ابا نے نہیں، مجھے اقبال راؤ نے آزاد کیا ہے۔ اور آزاد بھی یوں ہی نہیں کر دیا۔ مجھے اپنی زمین جائداد کے حق سے دستبردار ہونا پڑا ہے۔ ” اعتبار راؤ نے بتایا۔ ل
” عنت بھیجیں زمین جائداد پر، وہ آپ کی زندگی سے قیمتی نہیں، بس آپ آگئے۔ مجھے اور کچھ نہیں چاہئے۔ ” تانیہ نے بڑی محبت سے کہا۔
” میں جانتا تھا کہ تم یہی کہوگی، اس لئے میں بڑے اطمینان سے کاغذ پر دستخط کر آیا۔ ” اعتبار راؤ نے اس کی بات سن کر سکون کا سانس لیا۔
” میں بھائی کو اطلاع کر دوں۔ ویسے وہ آنے ہی والے ہوں گے۔ ” تانیہ نے گھڑی پر نظر ڈال کر کہا
“خالہ فرزانہ کہاں ہیں۔ ؟ “
” یہیں ہیں۔ وہ بہت پریشان تھیں۔ ” تانیہ نے بتایا۔
” کیا تم سے بھی زیادہ ۔ ؟ ” اعتبار راؤ نے پوچھا۔
” ہاں، مجھ سے بھی زیادہ ۔ ” تانیہ نے کہا اور اسے گہری نگاہوں سے دیکھ کر مسکرا دی۔
پھر جیسے جیسے اعتبار راؤ کی آمد کی اطلاع ہوتی گئی، ویسے ویسے لوگ آتے گئے۔ شام کی چائے پر سب لوگ اکٹھا ہو چکے تھے۔ مٹھائی منگوائی گئی، مٹھائی کھائی گئی۔ اعتبار راؤ نے نادرہ سے خاص طور پر معذرت کی، وہ بولا
” نادرہ صاحبہ، میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں، میری وجہ سے آپ کی منگنی بھی رک گئی ۔ “
” تو پھر کیا ہوا ۔ ” نادرہ نے بے نیازی سے کہا۔ ” نہ ہم کہیں گئے ہیں اور نہ محسن کہیں گئے ہیں۔ پھر ہو جائے گی منگنی۔ “
“اے نادرہ ! خیر سے منگنی تو پھر ہو جائے گی لیکن تم ذرا اعتبار راؤ سے وعدہ لے لو، کہیں یہ پھر تو اغواء نہیں ہو جائیں گے ۔ ” خالہ فرزانہ نے ہنستے ہوئے کہا۔

ان کی اس بات پر سارے لوگ ہنس پڑے۔ رات گئے تک یہ ہنگامہ جاری رہا۔ رات کو تانیہ جب بیڈ پر لیٹی تو وہ بہت خوش تھی۔ ورنہ پچھلی دو راتیں تو اس پر قیامت بن کر گزری تھیں۔ دونوں راتیں آنکھوں میں کٹی تھیں۔ وہ مستقل روتی رہی تھی۔
اور انہی آنسوؤں کے درمیان اسے کالا چراغ یاد آگیا تھا۔ وہ کس قدر مہربان شخص تھا۔ اس نے تانیہ کی کس قدر مدد کی تھی۔ اگر وہ نہ ہوتا تو تانیہ اور محسن راؤ کا صحرا سے واپس آنا ممکن نہ تھا۔ روتے روتے اس نے کئی بار سوچا تھا کہ کیا وہ دوبارہ اس کی مدد کو نہیں آسکتا۔ اس کی گفتگو سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس دنیا میں متعدد بار آچکا ہے۔ اور یہاں کے تمام علاقوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ لیکن شاید اب آنا ممکن نہ تھا۔
آج رات وہ بستر پر لیٹی تو خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔ اب جبکہ اعتبار راؤ آزاد ہو کر آگیا تھا تو جانے کیوں تانیہ کو یہ محسوس ہو رہا تھا جیسے اس رہائی میں کہیں نہ کہیں کالے چراغ کا ہاتھ ہے۔ یہ خیال اسے کیوں آیا تھا۔ اس بارے میں وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔
جب اس نے کروٹ بدلی تو اس کی نظر کرسٹل کے نازک گلدان میں لگی گلاب کی کلی پر پڑی۔ وہ پوری طرح ترو تازہ تھی اور خوب مہک رہی تھی۔ تانیہ اس کلی کو غور سے دیکھنے لگی اور دیکھتے دیکھتے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ بالآخر وہ سو گئی۔ صبح ناشتے کی میز پر جب وہ پہنچی تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ رات کو وہ جس قدر خوش تھی اس وقت اس قدر پریشان تھی۔ محسن نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھا تو وہ خود بھی پریشان ہو گیا۔ یہی حال خالہ فرزانہ کا ہوا۔

” کیا ہوا تانیہ ؟ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
“بھائی رات کو میں نے دادا اعظم کو خواب میں دیکھا ہے۔ “
“اے دادا اعظم کو ۔ ” خالہ فرزانہ دادا اعظم کا نام سنتے ہی فکر مند ہو گئیں۔ ”کیا کہہ رہے تھے
” خالہ، وہ، ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ جب میں ان کے سامنے پہنچی تو انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔
” ارے اس نحوست کو نکالو گھر سے ورنہ بہت نقصان اٹھاؤ گی . اس سے پہلے کہ میں اس نحوست کا نام ان سے پوچھتی کہ اچانک ایک بہت بڑار کچھ کہیں سے نمودار ہوا اور میری طرف لپکا۔ اسے دیکھ کر چیختی ہوئی بھاگی مجھے ٹھوکر لگی۔ تبھی میری آنکھ کھل گئی۔ ” تانیہ نے بتایا۔
پھر وہ پریشان ہوکر بولی ۔” اللہ رحم کرے بھائی جان۔ ضرور کچھ ہونے والا ہے۔ “
“ارے کچھ نہیں ہو گا تانیہ تم پریشان مت ہو ؟ ” محسن راؤ نے تسلی دی لیکن یہ جھوٹی تسلی تھی۔

محسن راؤ اندر سے خود پریشان ہو گیا تھا۔
“نہیں بھائی جان، ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ ” وہ فکر مند ہو کر بولی ۔
” میری یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ ہمارے گھر میں ایسی کیا منحوس چیز ہے جسے نکالا جائے۔ وہ کمبخت ریچھ جانے کہاں سے آگیا۔ ورنہ میں دادا سے اس چیز کا نام ضرور پوچھ لیتی۔ “
اوہ ۔ ” محسن راؤ کا منہ اچانک کھلا کا کھلا رہ گیا۔ یوں محسوس ہوا جیسے اس کی سمجھ میں کچھ آگیا ہو۔
“آپ کو کیا ہوا ؟ “
“تم یہ بتاؤ، تم پر ریچھ جھپٹا تھا نا؟ ” محسن راؤ نے تصدیق چاہی ۔
“جی اس کی وجہ سے تو بات ادھوری رہ گئی۔ “
“بات میری سمجھ میں آگئی ۔ ” محسن راؤ نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔ ” میں ابھی آتا ہوں ۔ “
یہ کہہ کر محسن راؤ فورا اٹھ گیا۔ وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں گیا۔ اس نے اپنے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر ایک خوبصورت پلیٹ میں کھلا ہوا چاقو رکھا ہوا تھا۔ یہ چاقو راج مداری کا تھا۔ اور راج مداری کے جسم پر اس قدر بال تھے کہ وہ انسان کم بھالو زیادہ لگتا تھا۔ دادا اعظم نے خواب میں جو اشارے دیئے تھے۔ وہ واضح طور پر اس چاقو کی نشاندہی کر رہے تھے۔
محسن راؤ نے اس چاقو کو اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو اس پر نظر پڑتے ہی اس کا ہاتھ خود بخود رک گیا۔ چاقو کے پھل پر تازہ تازہ خون لگا ہوا تھا جیسے ابھی ابھی اس سے کسی کو ذبح کیا گیا ہو۔
اس نے وہیں کھڑے کھڑے رفیق کو آواز دی۔
” رفیق، جلدی آؤ ۔ ” رفیق ڈائننگ ٹیبل کے نزدیک ہی کھڑا تھا، وہ محسن راؤ کی آواز سن کر فوراً اس کے کمرے کی طرف بھاگا۔
” جی صاحب ” اس نے کمرے میں پہنچ کر پوچھا۔
” محسن کیا ہوا، خیر تو ہے ۔ ” خالہ فرزانہ اور تانیہ بھی پیچھے پیچھے آگئیں۔
” رفیق، تم نے اس چاقو سے مرغی وغیرہ تو ذبح نہیں کی۔ “ محسن راؤ نے چاقو کی طرف اشارہ کیا۔
” نہیں صاحب۔ میں بھلا ایسا کیسے کر سکتا ہوں۔ کچن میں کئی چاقو موجود ہیں۔ “
” پھر اس پر خون کیسے لگ گیا۔ “

” خون ۔ ” خالہ فرزانہ خوفزدہ ہو کر دو قدم پیچھے ہٹ گئیں۔ تانیہ نے دو قدم آگے بڑھ کر چاقو کو دیکھا۔
” ہاں واقعی اس پر تو خون لگا ہوا ہے۔ یہ خون کیسے لگا۔ “ وہ رفیق کی طرف مڑ کر بولی ۔
“مجھے نہیں معلوم بی بی ۔ ” رفیق نے سیدھے اور صاف لہجے میں کہا۔
” رفیق اسے پلیٹ سمیت یہاں سے اٹھا کر لے جاؤ۔ اور اسے دھو کر اپنے کمرے میں رکھ لو۔ “
“محسن راؤ نے ہدایت کی۔ جی ٹھیک ہے صاحب۔ ” یہ کہہ کر اس نے پلیٹ اٹھالی اور اس خون آلود چاقو کو غور سے دیکھتا ہوا باہر نکل گیا۔

” مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دادا اعظم نے اس چاقو کی طرف اشارہ کیا ہو ۔ “
” مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ آپ نے اسے کیوں دے دیا۔ اسے کہیں باہر کیوں نہیں پھنکوا دیا۔ “
” ایک رات اور دیکھنا چاہتا ہوں ۔ ” محسن راؤ نے کہا اور پھر ناشتے کی میز پر آگیا۔
بیٹھے بٹھائے یہ ایک اور مصیبت گلے پڑ گئی تھی۔ دادا اعظم نے بھی کوئی بات کھل کر نہیں کی تھی۔ حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ جب بھی خواب میں نظر آئے تھے۔ انہوں نے بڑی وضاحت سے ہر بات سمجھائی تھی۔ اب پتہ نہیں اسی چاقو کو انہوں نے منحوس قرار دیا تھا، یا گھر میں کوئی اور چیز تھی جس پر ہماری اب تک نظر نہیں گئی تھی۔
پھر یہ معاملہ زیادہ دیر تک معمہ نہ رہا۔ دوپہر کا کھانا کھا کر وہ کچھ دیر کے لئے لیٹی تو اس کی آنکھ لگ گئی۔ خواب میں پھر اس نے دادا اعظم کو دیکھا وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ یہ کوئی ہرا بھرا باغ تھا۔ چاروں طرف پھول کھلے تھے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ تانیہ بھی اس باغ میں ٹہلتی ہوئی وہاں جانکلی تھی
جہاں وہ بیٹھے تھے۔
تانیہ کو دیکھتے ہی انہوں نے اسے ڈانٹا۔
” ارے کیا بے وقوفی کر رہے ہو تم لوگ … اس نحوست کو نکالو گھر سے، نہیں تو خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔”
“دادا کیا آپ کا اشارہ چاقو کی طرف ہے؟۔ ” تانیہ نے فوراً پوچھا۔
” ہاں اسے فورا گھر سے نکالو۔ “
“پر دادا کیا کریں اس کا … اسے توڑ کر پھینک دیں ۔ یا دریا میں ڈلوادیں۔ کیا کریں۔ “
اسے جلد از جلد کسی ٹوٹی قبر میں پھنکوادو اور یہ کام خود محسن کرے۔ ” دادا اعظم نے ہدایت کی۔
تانیہ کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ چاقو پر کیا پڑھ کر پھونکنا اور ٹوٹی قبر میں اسے کس طرح ڈالنا ہے۔ تبھی اس کے کانوں میں، تانیہ، تانیہ کی آوازیں آنے لگیں کوئی اسے اٹھا رہا تھا۔ ایک دم اس کی آنکھ کھل گئی اس کے سامنے خالہ فرزانہ کھڑی تھیں۔

“جی خالہ ۔ ” تانیہ نے آنکھیں کھول کر ان کی طرف دیکھا۔
” وہ اعتبار راؤ آئے ہیں۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں۔ “
“اچھا خالہ … میں اٹھتی ہوں ۔ ” تانیہ نے بستر چھوڑتے ہوئے کہا۔ ”بھائی جان ہیں گھر میں۔ “
“ہاں، وہ اعتبار راؤ کے پاس بیٹھے ہیں۔ ” خالہ فرزانہ نے بتایا۔
“خالہ، میں نے پھر دادا اعظم کو خواب میں دیکھا۔ “
“اچھا کچھ مسئلہ حل ہوا ۔ ؟؟
“ہاں، ساری بات تفصیل سے ہو گئی۔ “
یہ کہہ کر اس نے ساری تفصیل بیان کر دی۔خالہ نے خدا کا شکر ادا کیا کہ یہ گمبھیر مسئلہ کسی طرح حل تو ہوا، اب بس اس کی تدفین باقی تھی۔

تانیہ نے محسن راؤ کو بھی اس خواب سے آگاہ کر دیا، پھر وہ اور اعتبار راؤ اس چاقو کو لے کر قبرستان چلے گئے۔ کافی ڈھونڈ تلاش کے بعد انہیں ایک قبر ٹوٹی ہوئی نظر آئی۔ اس میں کافی بڑا سوراخ تھا۔ محسن راؤ اور اعتبار راؤ نے اس قبر میں جھانکنے کی کوشش نہ کی۔ محسن راؤ نے دادا اعظم کی ہدایت کے مطابق پڑھ کر اس چاقو پر پھونکا۔ اور اسے بند کر کے اپنی مٹھی میں جکڑا پھر اس نے زمین پر بیٹھ کر اپنا ہاتھ قبر میں ڈالا اور کچھ پڑھ کر چاقو ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ اور فوراً پیچھے
ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
چاقو کے قبر میں گرتے ہی، سوراخ سے دھویں کا ایک مرغولہ سانکلا۔ اور فضا میں تحلیل ہو گیا۔ اس کام کو ختم کر کے وہ قبرستان سے نکل کر باہر کھڑی گاڑی میں بیٹھے اور ریستوران کی طرف چلے گئے۔ ریستوران پہنچ کر محسن نے تانیہ کو فون کر دیا۔ اسے بتا دیا کہ وہ پریشان نہ ہو، اس چاقو کی ” تدفین ” بخیر و خوبی کردی گئی ہے۔
تانیہ نے یہ سن کر سکون کا سانس لیا۔ اس کے گھر میں رہنے سے جانے کیا سے کیا ہو جاتا ۔ دادا اعظم نے بروقت مدد کر کے اس گھر کو آنے والی تباہی سے بچالیا تھا۔ محسن راؤ کا فون سن کر اس نے انکل عامر کو رنگ کیا۔ اور چاقو سے متعلق ساری بات تفصیل سے بتائی
اور پھر ان سے آج رات آنے کی درخواست کی اور وہ بھی اکیلے۔

“تانیه، خیر تو ہے نا۔ ” انکل عامر نے پوچھا۔
“ہاں، انکل خیر ہی خیر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ بہت یاد آرہے ہیں۔ ” تانیہ شرارت سے ہنسی
ادھر سے کوئی سوال نہ ہوا تو وہ فوراً بولی
“پوچھیں گے نہیں، آپ کسے یاد آرہے ہیں۔ “
” بھئی ظاہر ہے تمہیں یاد آرہا ہوں گا۔ ” انکل عامر نے چہکتے ہوئے کہا۔
“جی نہیں۔ ” تانیہ نے فوراً تردید کر دی۔
“تو پھر ۔ ” وہ حیران ہوئے۔
“ہماری خالہ فرزانہ کو، وہ کہہ رہی تھیں کہ بہت دن سے تمہارے انکل نہیں آئے۔ ” تانیہ نے سفید جھوٹ بولا۔
” بہت دن ہو گئے۔؟؟ بھئی میں کل ہی تو آیا تھا۔ ” انکل عامر نے تانیہ کی بات کو سرسری لیا
” چوبیس گھنٹے تو ہو ہی گئے ۔ ” تانیہ ہنسی۔ ” یاد آنے کے لئے یہ وقفہ اچھا خاصا ہے۔ “
” تانیہ، آخر تم اس قسم کی باتیں کیوں کرنے لگی ہو، تم کیا چاہتی ہو ۔ ؟ ” انکل عامر نے سنجیدگی اختیار کی۔
” میں جو چاہتی ہوں، اگر وہ بتادوں تو کیا آپ مان جائیں گے ۔ “
” اگر ماننے والی بات ہوگی تو ضرور مان جاؤں گا ۔ ” انکل عامر نے یقین دلانے والا لہجہ اختیار کیا۔
” بات تو خیر سے سو فیصد ماننے والی ہے۔ ” تانیہ نے انہیں الجھانے کی کوشش کی۔
“پھر کہو۔ ” انہوں نے وضاحت طلب کرلی۔
“آپ رات کو گھر آئیں گے تو پھر کہوں گی اور جو کہوں گی، وہ آپ سے منوا بھی لوں گی ۔ “
” تم مجھے بہت پیاری ہو، یہ بات تم اچھی طرح جانتی ہو، مجھ سے کوئی ایسی بات نہ کرنا جس سے یہ بھرم
ٹوٹ جائے۔ “
“اچھا، آپ آئیں تو پھر ہو گی بات۔ “

رات کو انکل عامر آئے تو وہ خاصے سجے سنورے تھے۔ وہ ہمیشہ اچھا لباس پہننے کے عادی تھے لیکن آج انہوں نے نیا اور قیمتی سوٹ پہنا ہوا تھا۔ شام کو ہی دل لگا کر شیو کیا تھا۔ نہا دھو کر خود کو پرفیوم میں بسایا تھا۔ تانیہ نے ان کی آمد پر خود جاکر گیٹ کھولا۔ وہ ایک لمحے کو انہیں دیکھتی رہ گئی۔ خوشبو کے جھونکے نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

” واہ، انکل آج تو آپ دھماکہ خیز لگ رہے ہیں ۔ ” تانیہ نے خوش ہو کر جملہ کسا۔
“تانیہ میں انسان ہوں، بارود سے بھری بوری نہیں ہوں ۔ ” انکل عامر نے اس کے سر پر چپت لگاتے ہوئے کہا۔
“محسن کہاں ہیں۔ ؟ “
“خالہ اپنے کمرے میں ہیں۔ ” سوال کچھ جواب کچھ۔
” ارے، تانیہ تم کچھ اونچا سننے لگی ہو، اس طرح تو بچارے اعتبار راؤ کو بڑی پریشانی ہو جائے گی۔ وہ بیچارا کوٹ مانگے گا، تم اس کے ہاتھ میں لوٹا پکڑا دوگی۔ میں پوچھ رہا ہوں محسن کہاں ہیں۔ تم جواب دے رہی ہو، خالہ اپنے کمرے میں ہیں۔ بھائی تم اپنے کان کی صفائی کرواؤ ۔ “
“ہاں تو آپ نے بات ہی غلط پوچھی۔ آپ کو اس وقت خالہ فرزانہ کے بارے میں پوچھنا چاہئے تھا۔ “
“تم شرارت سے باز نہیں آؤ گی۔ ” انکل عامر نے ڈرائنگ روم کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
” بھائی جان کے کمرے میں چلیں، وہ وہاں موجود ہیں ۔” تانیہ نے انکل عامر کا راستہ روکا۔
“وہ کون ؟ ” انکل عامر نے وضاحت چاہی۔
“بھائی جان ….. اور کون ؟ ” تانیہ نے ہنس کر کہا۔ ” انکل عامر آپ میری طرف سے اس قدر مشکوک کیوں ہو گئے ہیں۔ “
“بھئی مجھے تو اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے ۔ ” انکل عامر نے محسن راؤ کے کمرے میں قدم رکھتے ہوئے کہا۔
“اچھا، انکل عامر آئے ہیں۔ انکل آپ کو کون ڈرا رہا ہے۔ ” محسن راؤ نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔
“بھئی، یہ تمہاری بہن … آج کل شرارت پر اتری ہوئی ہے۔ ” انکل عامر کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولے۔
” اچھا” محسن راؤ تانیہ کی طرف مڑا۔ کیوں بھئی تانیہ ۔”
“بھائی جان، ایک بات پوچھوں ؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا
۔۔۔۔۔۔۔ ” تانیہ کچھ کہتے کہتے چپ ہو گئی۔
” کیا نہیں ہو سکتا؟ ” محسن راؤ نے پوچھا۔
” کہ انکل عامر ہماری خالہ فرزانہ کو معاف کر دیں ۔ ” تانیہ نے انکل عامر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“ارے، یہ کیا بات کر رہی ہو تم , فرزانہ نے کیا کیا ہے ؟” انکل عامر پریشان ہو کر بولے۔
” بہت عرصہ پہلے ان سے ایک قصور ہو گیا تھا۔ جس کی انہوں نے آپ سے معافی بھی مانگ لی تھی اور آپ نے انہیں معاف بھی کر دیا تھا لیکن میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ آپ نے انہیں آج تک معاف نہیں کیا ہے ۔ “
“یہ بات تم کس بنیاد پر کہہ رہی ہو ۔ “
“خالہ کی ایک وعدہ خلافی جو ان کی مجبوری تھی نے آپ کے دل میں گرہ ڈال دی۔ یہ ٹھیک ہے کہ آپ نے آج تک شادی نہیں کی لیکن پھر کبھی آپ نے خالہ سے شادی کی بات بھی نہیں کی۔ “
” چھوڑو، اس بات کو ۔ ” انکل عامر کچھ الجھ سے گئے۔ ”یہ تم نے کیا شروع کر دیا۔ “
آپ یہ بات مان کیوں نہیں لیتے کہ آپ نے انہیں آج تک معاف نہیں کیا ہے۔ “
” یہ جھوٹ ہے، میں تو انہیں کب کا معاف کر چکا۔ “
“اگر معاف کر چکے ہیں تو ان سے شادی کیوں نہیں کر لیتے ۔ ” تانیہ نے بڑے سادہ انداز میں بڑی پیچیدہ بات کہہ دی
“بے وقوف ہوئی ہو، اب میری شادی کی عمر ہے۔ “
“واہ انکل ….. یہ کیا بات کی آپ نے … لوگ تو ستر سال کی عمر میں شادی کر لیتے ہیں، آپ تو مشکل سے ابھی پینتالیس سال کے ہوں گے ۔ “
” جی نہیں، میری عمر اس وقت تریپن برس ہے ۔ “
“یہی تو شادی کی صحیح عمر ہے۔ ” محسن راؤ نے بڑے یقین سے کہا۔
“محسن مذاق چھوڑو . لوگ کیا کہیں گے ۔ “
“لوگوں سے ہم نے کیا لینا ہے۔ “
“تانیه، تمہارا کیا خیال ہے کیا فرزانہ مان جائیں گی۔ ” انکل عامر نے سوال کیا۔
” نہ ماننے کی، بھلا کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ ” تانیہ نے مسکرا کر کہا۔
“کیا تم نے ان سے بات کی ہے۔ ” انہوں نے پوچھا۔
” انکل عامر ۔ اس وقت آپ اپنی بات کریں۔ ان سے اقرار کروانا میری ذمہ داری ہے۔ “
پھر یہ ذمہ داری میری طرف سے بھی قبول کر لو ۔ ” بالآخر انکل عامر نے ہتھیار ڈال دیئے۔
“انکل عامر ” محسن راؤ نے نعرہ لگایا۔
زنده باد ” تانیہ نے نعرے کا جواب دیا۔
نعرے کی آواز سن کر خالہ فرزانہ کمرے میں داخل ہوئیں اور حیران ہو کر بولیں۔ ”ارے، بھئی یہ کیا ہو رہا ہے۔ ؟ ” ”اوہ خالہ ۔ “
تانیہ اتنی خوش تھی کہ اس نے ان کے اندر آنے کا انتظار بھی نہ کیا، دوڑ کر ان سے لپٹ گئی۔ اور ان کا رخسار چوم کر بولی۔ “خالہ شادی مبارک ہو۔ “

00000000°°°°°°°°°00000000000°°°°°°°°°°00000000°°°°°°°°

راؤ احمد علی کرسی پر بڑی تمکنت سے بیٹھا تھا۔ اس کی گردن اکڑی ہوئی تھی۔ کمر اکڑی ہوئی تھی۔ پورا جسم اکڑا ہوا تھا۔ مونچھیں اوپر اٹھی ہوئی تھیں۔ ہاتھ میں چھڑی تھی۔ ہاتھ سیدھا تنا ہوا تھا۔ غرض اس کی کوئی چیز ایسی نہ تھی جس میں تناؤ نہ ہو اکڑاؤ نہ ہو اور ایسا کیوں نہ ہوتا، وہ اس کرسی پر بیٹھا ہوا تھا جس پر بیٹھ کر وہ انسان نہیں رہتا تھا۔
اس کے نزدیک ہی ایک ملازم سر جھکائے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ کچھ دیر کے بعد ایک اور ملازم بڑے مودبانہ انداز میں اندر داخل ہوا۔ اور نزدیک آکر سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔

” کیا خبر لائے ہو ۔ ؟ ” راؤ احمد علی نے بھاری آواز میں سوال کیا۔
“سر کار، وہ سپیرا آیا ہے۔ سرخ موتی ۔ ” ملازم نے مودبانہ انداز میں جواب دیا۔
” اوہ ۔ کیا بے وقوفانہ نام رکھا ہے اس نے سرخ موتی۔۔ بلاؤ اسے ۔ “
“جی بهتر سر کار ۔ ” یہ کہہ کر وہ ملازم دروازے کے باہر نکل گیا۔ چند لمحوں بعد ہی واپس آیا تو وہ اکیلا نہ تھا اس کے ساتھ ایک اور شخص تھا، وہ بڑی لاپروائی سے چلتا ہوا اندر آیا۔
راؤ احمد علی نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ ایک سانولے رنگ کا شخص تھا۔ اونچے لمبے قد کا مالک
بال بڑے بڑے کندھوں پر پھیلے ہوئے۔ ایک کان میں بالی ۔ ایک ہاتھ میں لوہے کا ٹکڑا۔ سیاہ کپڑے ، ہاتھ میں بین، کندھے پر جھولی۔ سرخ موتی نے اپنے کندھے سے جھولی اتار کر زمین پر رکھنا چاہی مگر راؤ احمد علی نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔

“تمہاری بات ہو گئی ۔ ” راؤ احمد علی نے پوچھا۔
“ہاں جی … میری بات ہو گئی۔ ” سرخ موتی نے جواب دیا۔
“تم نے ساری بات اچھی طرح سمجھ لی ۔ “
“ہاں جی ۔ میں نے ساری بات اچھی طرح سمجھ لی ۔ “
“تو پھر جاؤ ۔ “
راؤ احمد علی نے اس کی چمکتی کالی آنکھوں میں دیکھا۔
” اور دیکھو کام ہو شیاری سے کرنا۔ کسی قسم کی غلطی تمہیں موت سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ میں غلطی معاف کرنے کا عادی نہیں ہوں، س بات کا خاص طور سے خیال رکھنا۔ “
“سرخ موتی سے آج تک کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ آج بھی کوئی غلطی نہیں ہوگی۔ آپ بے فکر ہو جائیں۔ “
” ٹھیک ہے۔ پھر جاؤ۔ میں خبر کا منتظر رہوں گا۔ ” راؤ احمد علی نے کہا۔
وہ ملازم اور سرخ موتی کمرے سے باہر نکل گئے ۔

                 00000°°°°°00000°°°°°00000°°°°

اقبال راؤ کو آج تین دن کے بعد تہہ خانے سے باہر لایا گیا، ان تین دنوں میں اس کے ساتھ کسی قسم کی بد سلوکی نہیں کی گئی۔ وقت پر بہترین کھانا، چائے پانی، کسی چیز کی کوئی کمی نہ تھی۔ البتہ قید تنہائی ضرور تھی۔

جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا، اس کی فکر میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ وہ اپنے باپ کو اچھی طرح جانتا تھا۔ اس نے کبھی کسی کو معاف کرنا تو سیکھا ہی نہ تھا۔ پھر اقبال راؤ جیسے مجرم کو تو وہ بھول کر بھی معاف نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے نہ صرف جائداد پر قبضہ جمانے کی کوشش کی تھی بلکہ ریوالور بھی تان لیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی سزا میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اقبال راؤ کو یقین ہو چلا تھا کہ وہ اب کسی صورت زندگی کو گلے نہیں لگا سکے گا۔
پھر تیسرے دن کا سورج طلوع ہوا، یہ سورج اس کے لئے بلیک وارنٹ لے کر نکلا۔
دو مسلح افراد تہہ خانے میں داخل ہوئے۔ اسے باہر چلنے کا اشارہ کیا گیا۔
” چھوٹے سرکار، باہر چلئے۔ “
وہ خاموشی سے سیڑھیاں چڑھتا تہہ خانے سے باہر نکل آیا۔ پھر اسے جیپ میں بٹھا کر حویلی کے گیٹ پر لے جایا گیا۔ گیٹ پر ایک گھوڑا کسا ہوا تیار کھڑا تھا۔ ایک مسلح فرد نے اسے گھوڑے پر سوار ہونے کا اشارہ کیا۔ جب اقبال راؤ گھوڑے پر سوار ہو گیا تو اسں مسلح شخص نے کہا۔
” بڑے سرکار، بوڑھے برگد کے نیچے گھوڑے پر سوار آپ کے منتظر ہیں۔ شاید وہ آپ کو شکار پر لے جانا چاہتے ہیں۔ “
“اچھا۔ ” اقبال راؤ نے گھوڑے پر سنبھل کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
“ایک بات کا اور خیال رکھئے گا چھوٹے سرکار ۔ سیدھے بوڑھے برگد کی طرف ہی جائیے گا۔ اگر ادھر ادھر بھٹکنے کی کوشش کی تو بھٹک نہ پائیں گے، ہر طرف شکاری کتے موجود ہیں۔ “
اقبال راؤ نے اثبات میں گردن ہلائی۔ ” جانتا ہوں ۔ “
” تو پھر جائیے چھوٹے سرکار … اللہ حافظ ۔ “

اقبال راؤ نے فوراً گھوڑے کو ایڑ لگائی اور بوڑھے برگد کی جانب چل دیا، یہ بوڑھا برگر حویلی سے کوئی ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ اس برگد کے چاروں طرف کھیت ہی کھیت تھے۔
جب اقبال راؤ ایک پگڈنڈی پر اپنا گھوڑا دوڑا رہا تھا تو ایک کالے کپڑوں میں ملبوس اونچے قد کا شخص جس کے ہاتھ میں بین تھی، اچانک کھیتوں سے نکل کر اس کے سامنے آگیا۔ وہ اسے ہاتھ پھیلا کر رکھنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ اقبال راؤ نے فوراً اپنے گھوڑے کی لگام کھینچ لی۔ یہ شخص اس کے لئے قطعاً اجنبی تھا۔ ہاتھ میں بین ہونے کی وجہ سے وہ سمجھ گیا کہ یہ کوئی سپیرا ہے۔ جب اقبال راؤ اس کے نزدیک پہنچ گیا تو اس نے اسے گھوڑے سے نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ اقبال راؤ خاموشی سے گھوڑے سے کود آیا۔ تب اس کالے لباس والے نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ کھیتوں میں کھینچتا ہوا لے گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ کھیتوں سے برآمد ہوا تو اقبال راؤ اس کے ساتھ نہ تھا۔ وہ کھیت میں بے سدھ پڑا ہوا تھا۔ سرخ موتی اپنی جھولی کندھے پر ڈالے اور بین ہاتھ میں لئے کھیتوں سے نکل کر پگڈنڈی پر آیا تو دو گھڑ سوار تیزی سے اس کے پاس آکر رک گئے۔

“کیا ہوا ؟ ” ان میں سے ایک بولا۔
“وہ سامنے کھیت میں اس کی لاش پڑی ہے۔ جاکر بڑے سرکار کو اطلاع کر دو۔ “
“ٹھیک ہے۔ اب تم جلد از جلد بوڑھے برگد کے نیچے پہنچ جاؤ ۔ وہاں ایک جیپ کھڑی ہے وہ تمہیں تمہارے ٹھکانے تک پہنچا دے گی۔ “

سرخ موتی خاموشی سے بوڑھے برگد کی طرف چل پڑا، جب وہ دونوں گھڑ سوار ایک نظر اقبال راؤ کی لاش پر ڈال کر واپس حویلی کی طرف چلے گئے تو سرخ موتی نزدیک ہی ایک درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کے بعد ایک جیپ کھیتوں کو روندتی ہوئی اس کھیت کے نزدیک آکر رک گئی جہاں اقبال راؤ کی لاش پڑی تھی۔ جیپ سے راؤ احمد علی بر آمد ہوا۔ اس نے ایک نظر پیچھے ڈالی تو اسے دور ساون پور کے لوگ اپنی طرف دوڑ کر آتے ہوئے دکھائی دیئے، وہ کیسے بھاگ کر نہ آتے۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ اقبال راؤ کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ ساون پور کے جس شخص نے بھی اس خبر کو سنا، وہ کھیتوں کی طرف دوڑ پڑا
راؤ احمد علی نے اطمینان کا سانس لیا۔ اور اس کھیت میں داخل ہو گیا جہاں اقبال راؤ کی لاش پڑی تھی۔
اور ابھی راؤ احمد علی نے ” میرے بیٹے ” کہہ کر بین شروع کیا ہی تھا کہ وہ لاش ” بڑی تیزی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اس لاش کے ہاتھ میں ایک چمکتی ہوئی کلہاڑی تھی۔ اقبال راؤ کو زندہ اور اس کے ہاتھ میں چمکتی ہوئی تیز دھار کی کلہاڑی دیکھ کر راؤ احمد علی کی سٹی گم ہو گئی۔ وہ تو بڑا خوش خوش لمبے لمبے ڈگ بھرتا، کھیت میں پہنچا تھا۔ بس اس ڈرامے کا آخری سین رہ گیا تھا، اس سین کو اس نے ساون پور کی رعایا کے سامنے پیش کر کے اپنے فن کی داد لینا تھی۔ لیکن یہاں تو
معاملہ ہی الٹا ہو گیا تھا۔
راؤ احمد علی نے حسب معمول عیاری دکھاتے ہوئے کچھ اس طرح منصوبہ بندی کی تھی کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اقبال راؤ کو موت سے ہمکنار کر دیا جائے اور اس قتل کا الزام بھی اس کے سر نہ آئے۔

ایک سپیرے کو بھاری رقم دے کر اچھی طرح سمجھا دیا گیا کہ کیسے کرنا ہے، کیا کرنا ہے۔ پھر اقبال راؤ کو جھوٹ بول کر سر مقتل بھیجا گیا۔ سپیرے نے کھیتوں سے نکل کر اسے روکا۔ اور ہاتھ پکڑ کر اسے دوبارہ کھیت میں لے گیا۔ اس سپیرے نے جسے اس کے قتل پر مامور کیا گیا تھا، اس نے ساری صور تحال صاف صاف بتادی کہ کچھ دیر کے بعد یہاں کیا ڈرامہ ہونے والا ہے۔
اقبال راؤ کو اپنے قتل کے منصوبے کے انکشاف پر کوئی حیرت نہ ہوئی۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کا سفاک باپ اسے کبھی زندہ نہیں چھوڑے گا اور قتل بھی اس طرح کرے گا کہ وہ صاف بچ کر نکل جائے۔ لہٰذا اس کا یہ منصوبہ بے داغ اور اسے معصوم ثابت کرنے کے لئے لاجواب تھا۔ اقبال راؤ کو حیرت اس بات پر ہوئی کہ سپیرے نے بھاری رقم لے کر کیوں پلٹا کھایا۔ اس نے اس منصوبے کا انکشاف کیوں کیا۔

” جوگی، ایک بات بتا، میرے باپ نے تو اپنی فطرت کے مطابق جو کچھ کیا ٹھیک کیا ۔ لیکن تو نے رقم لینے کے باوجود وعدہ خلافی کی، آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ ” اقبال راؤ نے پوچھا۔
وہ کالے کپڑے والا سپیرا اس کا سوال سن کر مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ بڑی پر کشش تھی۔ اس نے کہا۔
” اقبال راؤ پہلی بات تو یہ کہ میں وہ سپیرا نہیں ہوں جس نے رقم وصول کی ہے۔ وہ سپیرا تو اپنی جھونپڑی میں مرا پڑا ہے۔ ویسے بھی راؤ احمد علی نے تمہارے قتل کے بعد اسے مروا دینا تھا۔ رہ گئی یہ بات کہ میں نے تمہیں اس سازش سے کیوں آگاہ کیا، اس کے پیچھے ایک راز ہے۔ میں وہ نہیں ہوں جو تمہیں نظر آرہا ہوں ۔
نہیں، کوئی سوال مت کرو، وقت بہت کم ہے۔ میرے پاس بھی اور تمہارے پاس بھی۔ یہ کلہاڑی پکڑو اور اس کے اوپر لیٹ جاؤ ۔ جب تمہارا باپ تمہاری لاش پر رونے آئے تو لاٹھی کی طرح سیدھے کھڑے ہو جانا۔ اگر تم وار کرنے سے ایک لمحہ بھی چوک گئے تو پھر تمہاری زندگی کی ضمانت ختم ہو جائے گی۔ لو یہ کلہاڑی پکڑو۔ اس سفاک شخص کے جتنے بھی ٹکڑے کئے جاسکیں کر دینا۔ “

اقبال راؤ نے پھر اس سے کوئی سوال نہ کیا۔ اب سوال کی کوئی گنجائش بھی نہ رہی تھی۔ اس نے کلہاڑی زمین پر ڈالی اور اس پر لیٹ کر اسے اپنے جسم کے نیچے چھپالی۔
راؤ احمد علی جس جیپ میں یہاں تک پہنچا تھا، اسے آفتاب راؤ ڈرائیو کر رہا تھا۔ وہ کل رات ہی اسلام آباد سے واپس آیا تھا۔ اسے پارٹی کا ٹکٹ نہیں مل سکا تھا۔ ساون پور پہنچ کر آفتاب راؤ کو ایک مختلف ہی کہانی سننے کو ملی۔ جو رنج اسے ٹکٹ نہ ملنے پر ہوا تھا، وہ رنج اچانک خوشی میں تبدیل ہو گیا تھا کیونکہ مستقبل میں ساون پور کا سب کچھ اس کا ہونے والا تھا ساون پور کا حکمران ہونے کی صورت میں ہر پارٹی اسے ٹکٹ دینے پر مجبور ہو جائے گی۔
راؤ احمد علی کے پیچھے وہ اترا۔ وہ اپنے باپ سے دس پندرہ قدم پیچھے تھا۔ اس کے دل میں بھی لڈو پھوٹ رہے تھے۔ بس اب آخری منظر رہ گیا تھا۔ کچھ دیر کے بعد ساون پور کے لوگ اپنے چھوٹے سرکار کی لاش دیکھیں گے جنہیں کسی سانپ نے ڈس لیا تھا۔ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر اپنی جاگیر کی سیر کو نکلے تھے کہ ایک کھیت میں انہوں نے خوبصورت لڑکی دیکھی ۔ وہ گھوڑے سے اتر کر لڑکی کے پیچھے گئے۔ کھیت میں ایک کالا ناگ موجود تھا، اس نے انہیں ڈس لیا۔

اقبال راؤ کی موت کی یہ کہانی گھڑی گئی تھی۔ اس ڈرامے کا ہر کردار اپنی جگہ مستعد تھا۔ اور اپنی باری آنے پر مکالمے بولنے کا منتظر . لیکن یہاں تو بساط ہی الٹ گئی تھی۔ وہ کالے لباس والا سپیرا اس بساط کو الٹ گیا تھا۔”

“اقبال راؤ کے کانوں میں ابھی ” میرے بیٹے ” کی آواز ہی آئی تھی کہ وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا، اور پھر اس نے وقت ضائع کئے بنا کلہاڑی تلوار کی طرح گھمائی ۔ راؤ احمد علی کا سر پرغرور اس کے تن سے جدا ہو کر زمین پر جا پڑا ۔ پھر بغیر سر کا جسم کسی شہتیر کی طرح زمین پر آرہا۔
اقبال راؤ پر جنون سوار ہو چکا تھا۔ اس نے تیز کلہاڑی کے ذریعے راؤ احمد علی کے جسم کو لکڑی کی طرح چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ آفتاب راؤ جب کھیت میں داخل ہوا تو اقبال راؤ کو زندہ دیکھ کر اس کے جسم میں سنسنی پھیل گئی۔ وہ خون میں نہایا ہوا تھا اور دھڑا دھڑ کلہاڑی برسا رہا تھا۔ آفتاب راؤ نے فورا ریوالور نکال لیا، اور اس سے پہلے کہ اقبال راؤ کی طرف متوجہ ہوتا، اس نے ریوالور کی تمام گولیاں اس کے سر اور پیٹھ پر خالی کردیں۔ اقبال راؤ اپنے اوپر گولی چلانے والے کو نہ دیکھ سکا۔ وہ اپنے باپ کی لاش کے ٹکڑوں پر گرا اور جاں بحق ہو گیا زمین پر جا پڑا ۔
املی کے گھنے درخت پر بیٹھا وہ شخص اس منظر کو دیکھ کر مسکرایا۔ بالآخر ظلم اختتام کو پہنچا۔ ہر ظلم کی ایک حد ہوتی ہے جب وہ حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ ظلم کے دو نشان صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔
بس ایک ظالم باقی بچا تھا، اس کا انجام بھی زیادہ دور نہیں تھا۔
وہ کالے کپڑے والا سپیرا جس نے اپنا نام سرخ موتی بتایا تھا، درخت پر ایک خالی پنجرہ لئے بیٹھا تھا۔ جیسے ہی آفتاب راؤ نے اقبال راؤ کا بدن چھلنی کیا، اس نے خالی پنجرے کا بڑا سا دروازہ کھول دیا۔
دروازہ کھلنا تھا کہ پروں کی پھڑ پھڑاہٹ شروع ہو گئی۔ اس خالی پنجرے سے بڑے بڑے اُلو نکل کر فضا میں اڑنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں اُلووں نے اس کھیت کو اپنے حصار میں لے لیا جس میں راؤ احمد علی کے جسم کے ٹکڑے اور اقبال راؤ کی لاش پڑی تھی۔
ان الوؤں کو دیکھ کر آفتاب راؤ کی سٹی گم ہو گئی تھی۔ وہ بھاگ کر اپنی جیپ میں پہنچا اور شیشے چڑھا کر بیٹھ گیا۔ ساون پور کے لوگ جو اب نزدیک آگئے تھے۔ وہ بھی پیچھے ہی رک گئے۔
ان اڑتے ہوئے بے شمار الوؤں نے ہر شخص کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ پھر ساون پور کے عوام اور آفتاب راؤ نے عجیب منظر دیکھا۔ وہ اُلو راؤ احمد علی کے جسم پر جھپٹے اور اس کے مختلف اعضاء اپنے پنجوں میں دبا کر اڑنے لگے وہ الو بہت جسیم تھے۔ راؤ احمد علی کی لاش کے ٹکڑے لے کر اڑنا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہ تھا۔
آفتاب راؤ نے ایک اُلو کو اپنے باپ کے سر کو پنجوں میں دبائے اڑتے دیکھا۔ اس اُلو کا رخ حویلی کی جانب تھا۔ آفتاب راؤ نے اسے کچھ دور تو اڑتے دیکھا، پھر وہ اچانک ہی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ یہی حال دوسرے الوؤں کا بھی ہوا۔ وہ جس تیزی سے نمودار ہوئے تھے، اسی تیزی سے غائب ہو گئے۔ ان کے چلے جانے کے بعد آفتاب راؤ جیپ سے اترا، نیچے اتر کر اس نے چاروں طرف دیکھا۔ اب دور تک کوئی الو اڑتا ہوا نظر نہیں آرہا تھا۔
وہ بھاگ کر کھیت میں پہنچا، اقبال راؤ کی لاش موجود تھی لیکن ان الووں نے اس کا حال کچھ اس طرح کر دیا تھا کہ وہ پہچانی نہیں جارہی تھی اور راؤ احمد علی کے جسم کا ایک ٹکڑا بھی زمین پر موجود نہ تھا۔ وہ گدھ نما الو اس کے اعضاء کو جانے کہاں لے اڑے تھے۔ اور گھنی املی کے درخت پر بیٹھا، وہ کالے لباس والا، وہ سرخ موتی بھی غائب ہو چکا تھا۔ اب درخت پر نہ جھولی تھی، نہ بین تھی اور نہ خالی پنجرہ تھا۔ .

              000000000°°°°°°°°°0000000000

اعتبار راؤ عموماً سیکنڈ شو، شروع کروا کر سینما سے اٹھ جاتا تھا۔ آج صبح سے ہی اس کی طبیعت کچھ عجیب سی ہو رہی تھی۔ ایک بےکلی اور بے چینی کی سی کیفیت اس پر طاری تھی۔ لہٰذا وہ فرسٹ شو شروع ہوتے ہی سینما سے اٹھ آیا تھا۔ سات بجے تک وہ اپنے گھر پہنچ گیا تھا۔ اس نے ایک نیا ملازم رکھ لیا تھا۔ یہ ایک ادھیڑ عمر کا تجربہ کار شخص تھا، یہ پہلے جن لوگوں کے پاس تھا، وہ فیملی مستقل امریکہ شفٹ ہو گئی تھی۔ اس ملازم کو اعتبار راؤ نے ان سے مانگ لیا تھا۔ اس طرح اس ملازم کا مسئلہ بھی حل ہو گیا تھا اور وہ لوگ بھی مطمئن ہو گئے تھے کہ ان کا ملازم جو ان کے گھر کے فرد کی طرح تھا ایک ایسے شخص کے پاس چلا گیا تھا جو اسے گھر کے فرد ہی کی طرح رکھے گا۔ اس ملازم کا نام مجید تھا لیکن سب اسے مجو بھائی کہتے تھے۔ مجو اس وقت کھانا تیار کرنے میں لگا ہوا تھا۔ اس نے گیٹ کھولا تو اعتبار راؤ خاموشی سے اپنے بیڈ روم میں چلا گیا اور بستر پر نڈھال ہو کر پڑ گیا۔ اعتبار راؤ کو خاموش دیکھ کر مجو اس کے پیچھے پیچھے گیا۔ جب وہ بے سدھ ہو کر بیڈ پر لیٹ گیا تو مجو نے دھیرے سے پوچھا۔
” سرجی، آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔ “
نہیں مجو۔ کچھ گڑ بڑ ہے۔ تم ایسا کرو کہ چائے بنا لاؤ ۔ “
” سرجی، اگر آپ کو تھکن محسوس ہو رہی ہے تو جوس نہ دے دوں ۔ ” مجو نے تجویز پیش کی۔
” نہیں بھائی، مجھے چائے چاہئے ۔ “
“ٹھیک ہے سرجی۔ ” یہ کہہ کر باہر جانے لگا تو گھر کی بیل بجی۔
“مجو دیکھو کون ہے، دروازے پر ۔ ” اعتبار راؤ نے سیدھا ہو کر لیٹتے ہوئے کہا۔
مجو تھوڑی دیر کے بعد اندر آیا اور بولا۔
“سرجی، گاڑی میں ایک بیگم صاحبہ بیٹھی ہیں، وہ کہتی ہیں ساون پور سے آئی ہیں اور اپنا نام کامنی بتاتی ہیں۔ “
“کامنی ۔ “
اعتبار راؤ بستر سے کچھ اس طرح اٹھا جیسے اسے کسی بچھونے کاٹ لیا ہو، پھر وہ تیزی سے اٹھ کر باہر پہنچا، جیپ میں واقعی کامنی ہی تھی۔ وہ اسے دیکھتے ہی نیچے اتر آئی۔
” کامنی کیا ہوا ؟… خیر تو ہے۔ “
“خیر کہاں بھیا ہمارا سب کچھ برباد ہو گیا۔ ” یہ کہہ کر وہ اعتبار راؤ سے لپٹ گئی اور سک سک کر رونے لگی۔
اعتبار راؤ نے بمشکل اسے اپنے سے الگ کیا اور اسے سہارا دے کر اپنے کمرے میں لایا۔ مجو سے پانی لانے کو کہا اور اس سے مخاطب ہوا۔
”ہاں، کامنی بتاؤ، کیا ہوا ؟ “
کامنی نے پھر رونا شروع کر دیا۔ وہ دھاڑیں مار کر رو رہی تھی اور ساتھ میں سینہ کوبی بھی کرتی جاتی تھی۔ مجو پانی لے آیا تو اعتبار راؤ نے بمشکل اس کے ہاتھ میں گلاس تھایا اور بولا۔ ”کامنی، پانی پی لو۔ “

کامنی نے بڑی مشکل سے پانی پیا، پھر وہ بڑی مشکل سے چپ ہوئی ۔ وہ بڑی موقع شناس اور شاطر چیز تھی۔ سسر اور شوہر کے انتقال کے بعد آفتاب راؤ حویلی میں بچا تھا۔ آفتاب راؤ کی بیوی سے کامنی کی بنتی نہ تھی۔ ایسی صورت میں زمین جائداد ساری کی ساری آفتاب راؤ نے ہڑپ کر جانی تھی۔ کامنی نے اعتبار راؤ کو پرکھ لیا تھا۔ وہ ایک درویش صفت انسان تھا۔ لالچ، حرص و ہوس سے کوسوں دور ۔ بے نیاز اور قناعت پسند ۔ اب وہی اسے انصاف مہیا کر سکتا تھا۔ اعتبار راؤ سے اگرچہ کامنی اور اقبال راؤ نے مل کر اس کی جائداد ہضم کرنے کے لئے دستخط کروا لئے تھے۔ اس کے باوجود کامنی کو امید تھی کہ وہ جب آنسو بہا کر اس کے قدموں میں گرے گی تو وہ یقیناً اسے معاف کر دے گا۔ اسی لئے وہ سیدھی ساون پور سے لاہور آئی تھی۔ وہ اپنا دکھ بیان کر کے اس کی ہمدردی سمیٹ لینا چاہتی تھی۔ اور ہوا بھی یہی وہ اپنی شاطرانہ چال چل کر اس کی ہمدردی سمیٹنے میں کامیاب ہو گئی۔ ساون پور سے وہ ایک بڑی اور بری خبر لے کر آئی تھی۔ اعتبار راؤ کا باپ اور بھائی دونوں ایک ساتھ ہی چل بسے تھے۔ یہ ایک پاگل کر دینے والا حادثہ تھا۔ لیکن اعتبار راؤ نے جب دونوں کی موت کے بارے میں سنا تو اس کے چہرے سے ذرا سا بھی دکھ ظاہر نہ ہوا۔
دو ظالم اپنے ہی ہاتھوں مارے گئے تھے۔ وہ اگرچہ باپ بھائی تھے لیکن ان کی زندگی میں ہی یہ رشتے دفن ہو گئے تھے۔ وہ کسی کے باپ بھائی نہ تھے۔ پیسہ ان کا باپ اور سرمایہ ان کا بھائی تھا۔ ایسے لوگوں کی موت پر کیا دکھ کا اظہار کرنا، کیوں خواہ مخواہ آنسو بہانا۔
کامنی اگرچہ تنہا واپس جانے کو تیار نہ تھی۔ وہ اعتبار راؤ کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھی لیکن اعتبار راؤ نے اسے جھوٹے دلاسے دے کر اسی رات ساون پور کے لئے روانہ کر دیا۔ جن لوگوں کے چہرے وہ جیتے جی دیکھنا گوارا نہیں کرتا تھا، مرنے کے بعد بھلا انہیں کیا دیکھتا۔ اور کیوں دیکھتا۔ کامنی کے جانے کے بعد اعتبار راؤ نے ٹیلیفون اٹھایا اور اپنے بیڈ پر بیٹھ کر ماڈل ٹاؤن کا نمبر ڈائل۔کرنے لگا۔ ادھر گھنٹی بجنا شروع ہوئی تو اعتبار راؤ نے دیوار گیر گھڑی پر نظر ڈالی اس وقت رات کے نوبج
رہے تھے۔ تیسری گھنٹی کے بعد ادھر سے کسی نے فون اٹھایا اور جب ”ہیلو“ کی آواز آئی تو وہ آواز اعتبار راؤ نے
پہچان لی ۔ وہ محسن راؤ کے ملازم رفیق کی آواز تھی۔

“ہاں، رفیق میں اعتبار راؤ بول رہا ہوں ۔ ” اعتبار راؤ نے کہا۔ ” سب لوگ کہاں ہیں۔ ؟ “
“صاحب جی، سب لوگ کھانا کھا رہے ہیں ؟ ” رفیق نے بڑے مودبانہ لہجے میں کہا۔ پھر بولا۔ صاحب جی آپ ہولڈ کیجئے۔ میں جاکر بتاتا ہوں ۔ “
” ٹھرو رفیق۔ میری بات غور سے سنو میں فون بند کر رہا ہوں، آدھے گھنٹے کے بعد دوبارہ کروں گا، تم نے ہرگز میرے فون کے بارے میں نہیں بتاتا ہے۔ میری بات سمجھ گئے نا۔ “
“جی صاحب سمجھ گیا۔ ” رفیق نے کہا۔

رفیق نے کھانے کے دوران تو نہ بتایا لیکن جیسے ہی یہ لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو اس نے تانیہ کو ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا۔ تانیہ فوراً فون کی طرف بڑھی۔ اس نے جلدی جلدی اعتبار راؤ کا نمبر ڈائل کیا اور اس کے فون اٹھاتے ہی بہت نرم لہجے میں بولی۔
” آپ نے فون کیا تھا۔ “
“جی، کیا تو تھا۔ ” اعتبار راؤ نے سنجیدگی سے کہا۔
” رفیق کو منع کیوں کیا تھا۔ آخر آپ اتنی غیریت کیوں برتتے ہیں۔ کیا میں کھانا چھوڑ کر آپ کا فون بھی نہیں سن سکتی۔ ” تانیہ کے لہجے میں شکایت تھی۔
“تانیہ ایک خبر سنو، تمہارے باپ کا قاتل، اس دنیا سے اٹھ گیا۔ ” اعتبار راؤ نے اس کی بات نظر انداز کر کے اپنی خبر سنائی۔ یہ خبر سناتے ہوئے اس کا لہجہ ایک دم سپاٹ تھا۔
” یہ کیا کہ رہے ہیں آپ؟”
“اور تمہارے بھائی کے قتل کی سازش میں شریک ہونے والا شخص بھی چل بسا۔ “
” اعتبار میری سمھ میں کچھ نہیں آرہا، آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ ٹھہریں میں بھائی جان کو بلاتی ہوں ۔ “
محسن راؤ کو جب اعتبار راؤ نے کھل کر سارا واقعہ بیان کیا تو اس نے فوراً کہا۔
” اعتبار راؤ، میں ابھی تمہارے پاس آرہا ہوں ۔ ” یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ پھر فوراً ہی ریسیور اٹھایا اور انکل عامر کے گھر کا نمبر ملایا۔
انکل عامر کو اس نے سارا واقعہ بتایا تو انہوں نے کہا۔ “محسن، وہ لوگ جیسے بھی تھے، بالآخر اعتبار کے باپ بھائی تھے، ہمیں فوراً اس کے پاس تعزیت کے لئے جانا چاہئے ۔ “
“جی انکل۔ میں تانیہ کو لے کر وہیں جا رہا ہوں۔ آپ بھی وہاں پہنچ جائیں ۔ “

جب محسن راؤ تانیہ کے ساتھ اس کی کوٹھی پر پہنچا تو اعتبار راؤ اسے دیکھتے ہی بے اختیار لپٹ گیا اور رونے لگا۔ محسن راؤ نے اسے زور سے بھینچ لیا اور پھر آہستہ آہستہ اس کا کندھا تھپکتا رہا۔ بولا کچھ نہیں۔
کچھ دیر کے بعد اعتبار راؤ اس سے الگ ہوا، اور اپنی آنسو بھری آنکھوں کو پونچھتا ہوا بولا ۔
” یہ مت سمجھئے گا کہ میں اپنے باپ بھائی کی موت پر آنسو بہا رہا ہوں ۔ مجھے تو اس بات پر رونا آرہا ہے کہ میں ایک شیطان باپ کا بیٹا اور ظالم بھائی کا بھائی ہوں ۔ اس کلنک کے ٹیکے کو میں اپنی پیشانی سے ہٹانا چاہوں بھی تو نہیں ہٹا سکتا۔ “
“اعتبار مت کرو، ایسی باتیں . میں نے اپنے باپ کے قاتل کو معاف کیا … میں نے اپنے قتل کی سازش کرنے والے کو بھی معاف کیا۔ کیوں تانیہ تم کیا کہتی ہو ؟ “
“میں بھی وہی کہتی ہوں، جو آپ نے کہا ہے ۔ ” تانیہ نے تائید کی۔
” آؤ اعتبار راؤ ساون پور چلیں . ہمیں وہاں جانا ہو گا۔ “

جب وہ ساون پور پہنچے تو صبح ہو رہی تھی۔ گاڑی محسن راؤ ڈرائیو کر رہا تھا۔ محسن کے برابر اگلی سیٹ پر انکل عامر بیٹھے تھے اور پچھلی سیٹ پر اعتبار راؤ اور تانیہ تھے۔ تین چار گھنٹے کا یہ سفر تقریبا خاموشی میں کٹا تھا۔ ہر شخص اپنی جگہ سوچوں میں گم تھا۔
محسن راؤ کو اپنا بچپن یاد آرہا تھا۔ انکل عامر کی نگاہوں میں اپنا دوست راؤ شمشاد علی گھوم رہا تھا۔ تانیہ کو وہ تنہائیاں وہ محرومیاں یاد آرہی تھیں جو اسے راؤ احمد علی کی وجہ سے ملیں۔ اعتبار راؤ مستقبل کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اب آفتاب راؤ اس کے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کرے گا۔
جب وہ لوگ حویلی پہنچے تو سورج مشرق سے اپنا سر ابھار رہا تھا۔ ساون پور کی فضا میں یہ ایک نیا سورج تھا جس کی نرم کرنیں حویلی کے اونچے دروازے کو روشن کر رہی تھیں، ظلم کا اندھیرا دور ہو رہا تھا۔ ایک نئی چمکیلی صبح کا آغاز تھا۔
حویلی کے دو کالے سورج غروب ہو چکے تھے۔ ایک آفتاب رہ گیا تھا، اس کے بارے میں بھی ایک بری خبر حویلی میں ان کی منتظر تھی۔
حویلی کا آخری کالا سورج بھی چل بسا تھا۔ آفتاب راؤ جب اقبال راؤ کو قتل کرنے کے بعد جیپ میں بیٹھا تو بے شمار الو اس کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ راؤ احمد علی کی لاش کے ٹکڑے غائب ہوئے، اقبال راؤ کی صورت مسخ ہوئی۔ اب آفتاب راؤ کے لئے میدان صاف تھا، وہ اندر سے بہت خوش تھا۔ اب اس کو لیڈر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔
وہ خوش خوش حویلی کی طرف چلا۔ ابھی وہ زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ اچانک اسے پھنکار کی آواز سنائی دی۔ اس کے برابر والی سیٹ پر ایک بے حد خطرناک کالا ناگ کنڈلی مارے بیٹھا تھا، وہ اچانک ہی کہیں سے نمودار ہوا تھا۔ اس ناگ نے آفتاب راؤ کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا۔ اس نے تیزی سے سیٹ پر چڑھ کر اس کی گردن میں دانت گاڑ دیئے۔
پھر چلتی گاڑی خود ہی رک گئی۔ اور کیوں نہ رکتی خود آفتاب راؤ کی زندگی کی گاڑی جو تباہ ہو چکی تھی۔

      00000000000  °°°°°°°°°°°      00000000000

وقت نے ایک نئی کروٹ لی۔ ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ظلم کے بادل، انصاف کی ہوائیں لے اڑیں۔ گھور اندھیرا چھٹ گیا۔ ہر طرف خوشبو بھری ہوائیں چلنے لگیں۔ شگوفے پھوٹنے لگے ۔ بہار کا موسم انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھا۔ ٹنڈ منڈ درخت پھولوں کا لباس پہنے لگے ۔ بھنورے نکل آئے۔ وہ ڈال ڈال گھومنے لگے ۔ تتلیاں اپنے شوخ رنگوں سے دل لبھانے لگیں۔ ہر طرف حسن ہی حسن بکھر گیا۔ اب بھلا کیا رکاوٹ ہو سکتی تھی۔ سب سے پہلا مرحلہ تو خالہ فرزانہ اور انکل عامر کی شادی کا تھا۔
تانیہ کو انہیں یکجا دیکھنے کی بڑی خواہش تھی، اس نے طے کر لیا تھا کہ چاہے کچھ ہو جائے، وہ دونوں کو ایک کرکے رہے گی۔ اور یہ اس کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ بالآخر ایک ہونے پر راضی ہو گئے تھے۔
تانیہ چاہتی تھی کہ ان کی شادی دھوم دھام سے ہو لیکن اس بات پر وہ دونوں راضی نہ تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اب خاموشی سے نکاح ہو جائے اور یہ نکاح بھی انکل عامر ان دونوں کی شادی کے بعد کرنا چاہتے تھے۔ ادھر محسن راؤ کی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنی شادی سے پہلے تانیہ کو رخصت کرے۔
اور تانیہ چاہتی تھی کہ وہ پہلے بھابھی گھر میں لائے پھر اس گھر سے جائے۔
بحث و مباحثہ ہوتا رہا۔ بالاخر اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا کہ “پہلے آپ پہلے آپ ” کی بجائے ہم سب ایک ساتھ ، پر عمل کیا جائے۔ ایک بڑے ہوٹل میں اس کا شادی ہال بک کروا لیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی تین سوئٹ ریزرو کئے گئے تھے۔ یہ تینوں کمرے برابر برابر تھے اور دس دن کے لئے بک کئے گئے تھے۔
اسٹیج پر تین دولہا اور تین دلنیں موجود تھیں، سب سے دلچسپ جوڑی خالہ فرزانہ اور انکل عامر کی تھی۔ خالہ فرزانہ کو بیوٹی پارلر والوں نے بڑے سلیقے سے سنوارا تھا۔ اس عمر میں بھی ان کے چہرے پر دلہنوں والا روپ آگیا تھا۔ وہ بہت پیاری لگ رہی تھیں۔
تانیہ اور نادرہ تو خیر تھی ہی حسین۔ لیکن میک اپ نے نادرہ کی عمر کچھ اور گھٹا دی تھی۔ ان تینوں میں سب سے کم عمر دلہن تانیہ تھی۔ اسے خیر سے کسی میک اپ کی ضرورت نہ تھی۔ بیوٹی پارلر والوں نے پھر بھی اس پر طبع آزمائی کی تھی اور اس کے حسن کو مزید چمکانے کی کوشش کی تھی۔ تینوں دلہنوں کے ایک جیسے ڈریسز تھے۔ یہی حال دولہاؤں کا تھا۔ ان کے سوٹ بھی ایک رنگ کے تھے۔۔
جس طرح تانیہ دلہنوں میں نمبر ون تھی اسی طرح محسن راؤ دولہوں میں نمبر ون تھا۔۔ اسکے بعد اعتبار راؤ اور پھر انکل عامر۔۔
بالآخر شادی کی تقریب اختتام کو پہنچی اور رخصتی کا وقت آیا سب سے پہلے محسن راؤ نے اپنی بہن کو رخصت کیا۔ پھر انکل عامر نے محسن راؤ اور نادرہ کو الوداع کہا۔ آخر میں وہ رہ گئے۔ انکل عامر اور خالہ فرزانہ کو آصف صدیقی نے ان کے کمرے تک پہنچایا۔
وہ ایک بے حد حسین رات تھی۔ اور کیوں نہ ہوتی ۔ وہ چھ دلوں کے ملاپ کی رات تھی۔ دھیمی آنچ دیتی ہوئی سرگوشیاں، سانسوں کی مہک، مسکراہٹ، نیچی نگاہوں کی گل کاریاں ، کھنکتی چوڑیاں، کھلتی ہوئی زلفیں، خوشبو بھرے بدن، سنسنی پھیلاتی ہوئی خواہشیں۔ بکھرتے ہوئے ارمان، جذبات کی آسود گیاں۔ کیا نہیں تھا وہاں ۔ وہ ایک بہت حسین رات تھی۔

                 .00۔ 00. 00۔       

پر وہ رات راکھی پر قیامت بن کر گزری۔ اسے کسی کروٹ چین نہ تھا۔ بالآخر وہ اپنی جھونپڑی سے باہر نکل آئی۔ اس پر وحشت سی طاری تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی اس کا گلا دبا رہا ہو۔ دل بند ہوا جارہا تھا۔ اسی وحشت میں اس نے اپنے ریچھ کو کھول لیا۔ قریب ہی بندر سورہا تھا۔ وہ راکھی کو قریب پاکر فوراً اٹھ گیا۔ اور “کوں کوں ” کر کے قلابازیاں کھانے لگا۔ راکھی نے اس کی بھی رسی کھول لی اور ان دونوں سے مخاطب ہو کر بولی۔ چلو رے میرے ساتھ ۔ “

وہ دونوں بڑی سعادت مندی سے اس کے ساتھ ہو لئے۔ کھڑ پڑ کی آواز سن کر پڑوس کی جھونپڑی میں رہنے والی شاداں کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اتنی رات گئے راکھی کو اپنے جانوروں کے ساتھ نکلتے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ فوراً اٹھ کر باہر آئی اور راکھی سے مخاطب ہو کر بولی۔ “ری کاں جاوے ہے ری راکھی اتی رات ماں ۔ “
“کہیں نہیں موسی تو سو جا۔ ” راکھی نے بے نیازی سے جواب دیا۔
“اری پھر بھی کچھ بتا تو ۔ ” موسی شاداں فکر مند ہو گئی۔
“کیا بتاؤں موسی، مجھے تو خود بھی کچھ معلوم نہیں۔ ” راکھی پر جانے کیا بیت رہی تھی۔
” ری تو پگلی ہوئی ہے گئی۔ ” موسی شاداں نے اسے ڈانٹا۔ “ہاں، موسی، پاگل ہو گئی ہوں۔ میں جارہی ہوں موسی، مجھے اب مت ڈھونڈنا، میں کسی کے ڈھونڈے سے نا ملوں اب ۔ ” اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا، یہ کہتے ہوئے اس کا گلا رندھ گیا
پھر وہ رکی نہیں۔ اپنے ریچھ اور بندر کے ساتھ چل پڑی ۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ کہاں جانا ہے۔ بس قدم اٹھ رہے تھے اور وہ چلی جا رہی تھی۔
جانے وہ کب تک چلتی رہی۔ اسے کچھ ہوش نہیں تھا۔ دل پر وحشت طاری تھی اور وحشی دل اسے لئے جاتا تھا۔ اب وہ اپنی بستی سے بہت دور نکل آئی تھی اور ریل کی پڑی کے ساتھ ساتھ چلی جاتی تھی۔
اس کی نگاہوں میں محسن گھوم رہا تھا۔ بیتی ہوئی زندگی اس کی آنکھوں کے سامنے جاگ رہی تھی۔ اور اس کا ذہن ارد گرد سے بیگانہ ہوتا جارہا تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا، وہ کہاں چل رہی ہے، کیوں چل رہی ہے۔
وہ ٹرین اچانک ہی اس کے سر پر آپہنچی تھی۔ وہ پٹریوں کے درمیان چل رہی تھی۔ اس کے ساتھ ریچھ تھا اور ریچھ کی پیٹھ پر بندر بیٹھا ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ اسے کچھ ہوش آتا۔ پوری ٹرین اس پر سے گزر گئی۔
ان تینوں میں سے کوئی زندہ نہ بچا۔

                 00000000.......000000000

اس خبر کو سب سے پہلے آصف صدیقی نے دیکھا تھا۔ اگرچہ وہ راکھی کی صورت سے واقف نہ تھا لیکن اس کی تصویر دیکھ کر اور اس کا نام پڑھ کر جانے اسے یہ کیوں احساس ہوا کہ یہ محسن راؤ والی ہی راکھی ہے۔ ٹرین کے حادثے نے اسے دو حصوں میں منقسم کر دیا تھا، اس کا چہرہ بالکل صاف تھا، کوئی چوٹ وغیرہ کا نشان نہ تھا۔ وہ موقع پر ہی دم توڑ گئی تھی۔ اس کی خوبصورت آنکھیں پوری طرح کھلی تھیں۔ حادثے کے باوجود چہرے پر کسی کرب کے آثار نمایاں نہ تھے البتہ انتظار کی کیفیت ضرور جھلکتی تھی۔ اس کے خبر پڑھنے کے بعد آصف صدیقی نے چاہا کہ محسن راؤ کو فون پر اس حادثے کا بتائے لیکن پھر وہ رک گیا۔ خواہ مخواہ انہیں کیوں ڈسٹرب کرے۔ اس نے اس اخبار کو سنبھال کر رکھ لیا۔ تیسرے دن آصف صدیقی نے ان تینوں جوڑوں کی دعوت کی، جب رات کو سب لوگوں نے کھانا وغیرہ کھا لیا اور گپیں شروع ہو گئیں تو آصف صدیقی سنبھالا ہوا اخبار نکال لایا۔ اور محسن راؤ کے قریب بیٹھ کر اس نے اس حادثے کی تصویر دکھائی۔
ساتھ ہی اس کے دونوں وفادار جانور بھی چل بسے تھے۔

” یار، یہ دیکھنا ۔ “
محسن راؤ نے اس کے ہاتھ سے اخبار لے کر جیسے ہی اس تصویر پر نظر ڈالی، اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، وہ بولا۔ ”ارے یہ تو راکھی ہے۔ “
راکھی کا نام سن کر نادرہ ایک دم چونکی ۔ وہ فوراً اٹھ کر محسن راؤ کے پاس آگئی۔
تانیہ نے اٹھنے کے بجائے دور سے بیٹھے بیٹھے پوچھا۔ “کیا ہوا راکھی کو۔ “
“وہ ریل کے نیچے آکر کٹ گئی۔ ” آصف صدیقی نے زور سے کہا۔
“چلو اچھا ہوا ، ورنہ وہ میرے ہاتھوں ماری جاتی۔ ” تانیہ نے بڑے جوش سے کہا۔
اس کی اس بات پر محسن راؤ نے اسے گھور کر دیکھا، لیکن بولا کچھ نہیں۔
“یار محسن، وہ شادی والی رات ہی مری ہے۔ واہ کیا سچویشن تھی۔ ایک طرف ہیرو اپنے حجلہ عروسی نئی زندگی کا آغاز کر رہا ہے تو دوسری طرف اندھیری رات میں ریل کی پٹڑی پر ایک ٹھکرائی ہوئی عورت اپنی زندگی کا اختتام کرنے جارہی ہے۔ واہ، واہ کیا سچویشن ہے۔ کٹ ادھر، کٹ ادھر ۔ ایک طرف روشنی، ایک طرف اندھیرا ۔ ” آصف صدیقی اپنی دھن میں مگن فلم کی شوٹنگ کئے جا رہا تھا۔ پھر وہ یکایک سنجیدہ ہو کر بولا۔ ” یار محسن، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اس کی موت کا وقت وہی ہے جو تمہاری شادی کا ہے۔ کیا وہ تمہاری شادی برداشت نہ کر سکی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسے تمہاری شادی کا کیسے پتہ چلا۔ پھر اپنے تئیں تو وہ تمہیں قتل کر چکی ہے۔ یار یہ کیا گورکھ دھندا ہے، میرا خیال ہے کہ اس نے اپنے باپ کا بدلا لینے کے لئے تم پر حملہ ضرور کیا لیکن قاتلانہ نہیں۔ “

آصف صدیقی جانے کیا کیا کہتا رہا لیکن محسن راؤ اس کی بات توجہ سے نہیں سن پارہا تھا۔ وہ اخبار پکڑے راکھی کی تصویر کو بغور دیکھے جا رہا تھا۔ اور دھیرے دھیرے اس کے چہرے پر ایک اداسی کا تاثر ابھرتا آرہا تھا۔
پھر اسی طرح کی اداسی سے تانیہ کو بھی واسطہ پڑا۔
ہوٹل میں خوشیوں کے دس دن گزارنے کے بعد اعتبار راؤ نے سمن آباد، محسن راؤ نے ماڈل ٹاؤن اور انکل عامر نے راوی روڈ کا رخ اختیار کیا۔ تینوں اپنی اپنی دلہنوں کو اپنے اپنے ٹھکانوں پر لے گئے۔ یہ دس دن جیسے پلک جھپکتے میں گزر گئے۔ تینوں کے کمرے کیونکہ برابر برابر تھے لہذا خوب ہلا گلا رہا۔ انہیں تنہائی بھی میسر تھی اور باہر نکلتے تو اپنے لوگوں کی صورتیں دکھائی دیتیں۔ تینوں نے طے کیا تھا کہ یہ دس دن ہوٹل میں ہی گزاریں جائیں گے کوئی شخص شہر سے باہر نہیں جائے گا۔ اور یہ انہوں نے اچھا فیصلہ کیا تھا۔
ایسے یادگار دن بھلا کہاں نصیب ہوتے ہیں۔ ہنی مون پر تو آدمی کبھی بھی جاسکتا ہے۔ بارہویں دن محسن راؤ نے اپنے گھر پر سب کو مدعو کیا۔ تانیہ گھر پہنچتے ہی سیدھے اپنے بیڈ روم کی طرف گئی۔ اس کا بیڈ روم مقفل تھا۔ رفیق نے تالا کھولا ۔ بیڈ روم میں داخل ہو کر اس نے دروازہ بند کر لیا۔ اس کے کمرے میں ایک عجیب سی اداسی پھیلی ہوئی تھی جیسے کمرے کی ہر شے اس کی یاد میں اداس ہو۔
بیڈ پر پرس پھینک کر وہ سب سے پہلے کرسٹل کے اس نازک گلدان کی طرف متوجہ ہوئی جس میں راشمون کی دی ہوئی کلی بھی رہتی تھی، جو ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بالکل تروتازہ تھی اور ہر وقت مہکتی رہتی تھی۔ لیکن اب جو اس نے اس پر نظر ڈالی تو وہ گلدان پر لٹکی ہوئی نظر آئی۔ وہ مرجھا چکی تھی۔ اس کی خوشبو بھی ختم ہو چکی تھی۔ راشمون نے اس کلی کو دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب یہ کلی مرجھا جائے تو سمجھ لینا، میں اس دنیا میں نہیں رہا۔
اوہ تانیہ کے دل سے ایک ہوک سی اٹھی۔ یہ کیا ہو گیا۔ وہ کیوں مر گیا۔ اس کلی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا جیسے اسے مرجھائے ہوئے دس بارہ دن ہو چکے ہوں ۔ اوہ تو کیا، راشمون، تانیہ کو کسی اور کی بنتی دیکھ کر برداشت نہ کر سکا۔ یہ دو دنیاؤں کا مسئلہ تھا، اگر وہ اس کے دل کی دنیا میں نہیں رہ سکتا تھا تو پھر جینے کا فائدہ کیا تھا۔ وہ اپنی دنیا سے ہی اٹھ گیا۔

“راشمون مجھے معاف کر دینا۔ تانیہ نے اس سوکھی کلی کو گلدان سے نکال کر آہستہ سے اپنے نازک لب اس پر رکھ دیئے۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ دو آنسو آنکھوں سے نکل کر اس کے رخساروں پر بہہ گئے۔
اس نے وہ سوکھی کلی اپنے پرس میں ڈال لی۔ تب اچانک اس کی نظر گلدان پر پڑی۔ گلدان کے نیچے اسے ایک کاغذ دبا ہوا نظر آیا، اس نے وہ کاغذ اٹھا لیا۔
کاغذ کھول کر دیکھا تو اس پر کچھ لکھا ہوا نظر آیا، وہ جلدی جلدی ان چند سطروں کو پڑھنے لگی۔
” منگنی والی رات جب اعتبار راؤ اغواء ہوا تو وہ رات تم پر قیامت کی طرح ٹوٹی ۔ اس رات تم نے مجھے رو رو کر یاد کیا۔ تم جانتی ہو کہ میں تمہیں دکھ میں نہیں دیکھ سکتا۔ میں تمہاری مدد کو پہنچ گیا۔ میں نے تمہاری زندگی کے کانٹے اپنی آنکھوں سے چن لئے۔ تمہارے دشمنوں کو چن چن کر مار دیا۔ اب تمہاری اور تمہارے بھائی کی زندگی میں کوئی دشمن نہیں۔ میں تمہیں خوشیوں بھری زندگی کی نوید دیتا ہوں ۔ سدا خوش رہو، میں دعا کر سکتا ہوں ۔
تمہارا اپنا : کالا چراغ”
خط پڑھتے پڑھتے وہ لفظ دھندلانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ کورا کاغذ رہ گیا۔ اس نے سادہ کاغذ کو مٹھی میں بھینچ لیا۔
” آپ بہت عظیم ہیں کالا چراغ ۔ میری زندگی کی تمام خوشیاں آپ کے دم سے ہیں۔ آپ میرے محسن ہیں۔ میں آپ کو سلام کرتی ہوں۔ میرے دل میں آپ کسی روشن چراغ کی طرح سدا جگمگاتے رہیں گے۔”

                         〇〇〇O. .00

اب سب کچھ اعتبار راؤ کے ہاتھ میں آگیا تھا۔ اعتبار راؤ نے سب کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا۔ اس نے آفتاب اور اقبال کے بیوی بچوں کو جو ان کا حق بنتا تھا، وہ تو دیا ہی، اس کے علاوہ بھی اس نے انہیں بہت کچھ بخش دیا۔ محسن راؤ کو مناظر فطرت سے فطری لگاؤ تھا۔ دیہات کی زندگی اسے بہت پسند تھی۔ وہ حویلی کو نئے سرے سے بنوانے کا خواب دیکھا کرتا تھا۔ آج اس کا یہ خواب پورا ہو گیا تھا۔ اس نے یہ حویلی خرید لی تھی۔ اس حویلی میں جس کا جتنا حصہ بنتا تھا، وہ اس نے ادا کر دیا تھا۔
ظلم کی اس حویلی کو توڑا جا رہا تھا۔ ظلم کو مسمار کیا جا رہا تھا تا کہ نئی بنیادیں اٹھا کر انصاف کا بول بالا کیا جائے۔ ساون پور کے لوگوں نے آج تک ظلم ہی سے تھے۔ اب انہیں بتایا جائے ظلم کی طویل رات ختم ہوئی۔ اب انہیں کوئی نہیں ستائے گا۔ اب ہر طرف خوشیاں ہوں گی اور وہ ہوں گے۔

محسن راؤ نے طے کر لیا تھا کہ وہ ساون پور کے لوگوں کا اس قدر خیال رکھے گا کہ لوگ راؤ احمد علی کے ظلم کو بھول جائیں گے۔ یہ راؤ احمد علی بھی بڑا عجیب شخص تھا، روپے پیسے کی ہوس نے، زمین جائداد کی طلب نے اسے اندھا کر دیا تھا۔ اس کے کان کوئی اچھی بات سننا نہ چاہتے تھے۔ دل سے پیسے کی محبت کے سوا ہر محبت نکل گئی تھی۔ بھائی کو اگر قتل کر کے جائداد حاصل کی جاسکتی ہے تو کر لی جائے۔ بیٹا اگر اپنا حق مانگنے کے لئے کھڑا ہو جائے تو اس گستاخی کی سزا، اسے موت کی صورت میں دی جائے۔ دوسروں کے لئے موت خریدنے والا بالآخر خود موت کے منہ میں چلا گیا تھا اور موت بھی کیسی عبرت ناک۔ لاش بھی ثابت نہ رہی۔ وہ زمین کے ٹکڑے نہیں ہونے دینا چاہتا تھا لیکن اپنے جسم کو ٹکڑے ہونے سے نہیں بچا سکا۔ کس قدر بے کسی کی موت تھی اس کی۔ جس زمین کو وہ اپنے سینے سے لگا کر رکھنا چاہتا تھا، اس زمین میں وہ دفن بھی نہ ہو سکا، جس حویلی کے بارے میں اس کا یقین تھا کہ اس کی قلعہ نما دیواریں ہمیشہ اس کی حفاظت کریں گی، اب وہی دیواریں توڑی جارہی تھیں۔
پر وہ بھی راؤ احمد علی تھا۔ ایک داؤ ہمیشہ بچا کر رکھتا تھا۔ اور اس داؤ سے وہ اچانک پانسہ پلٹ دیا کرتا
تھا۔ انسان تو وہ تھا ہی نہیں۔ شیطان کی کھوپڑی تھی اس کے پاس۔
جس ٹھیکیدار کو حویلی توڑنے کا کام دیا گیا تھا، اس کے لئے یہ کام جاری رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ جوں جوں یہ واقعہ تواتر سے پیش آرہا تھا توں توں مزدور بھاگتے جارہے تھے۔ پہلے ٹھیکیدار کو بھی اس بات کا یقین نہ تھا لیکن جب اس نے اپنی آنکھ سے سب کچھ دیکھ لیا تو پھر اسے بھی مزدوروں کی بات کا یقین کرنا پڑا۔ اور اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا تھا کہ وہ لاہور جا کر محسن راؤ کو ساری صورتحال بتا دے کیونکہ اس منظر کی دہشت سے ایک کمزور دل مزدور بخار میں مبتلا ہو کر چل بسا تھا۔ ہو یہ رہا تھا کہ جیسے ہی حویلی کا کوئی نیا کمرہ توڑا جاتا تو اس کمرے میں راؤ احمد علی کی وہ اونچی کرسی موجود ہوتی جس پر بیٹھ کر وہ انسان نہیں رہتا تھا اور اس کرسی پر ایک بھیانک کھوپڑی رکھی ہوتی ۔ جب دروازہ کھولنے والے مزدور خوف کے مارے بھاگ کر حویلی میں کام کرتے ہوئے دوسرے مزدوروں کو اکٹھا کرتے تو وہ کرسی اور کھوپڑی غائب ہو جاتی۔ ٹھیکیدار نے جب ساری روداد محسن راؤ کو سنائی تو وہ فوراً ہی ساون پور جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ ساون پور کے نزدیک بارش نے آگھیرا۔ تیز ہوا اور موسلا دھار بارش۔ ساون پور کی کچی سڑک۔ محسن راؤ بڑی سنبھال کر جیپ چلا رہا تھا۔ اس کے برابر والی سیٹ پر ٹھیکیدار موجود تھا۔ ایک گھنٹے پہلے تک موسم اچھا خاصا خوشگوار تھا۔ بس جیسے جیسے وہ آگے بڑھتے گئے۔ کالی گھٹاؤں نے سہ پہر کے چمکتے سورج کو اپنے آغوش میں لے لیا۔ دن ہونے کے باوجود ہر سو اندھیرا چھا گیا اتنا اندھیرا کہ محسن راؤ کو جیپ کی ہیڈ لائٹس آن کرنا پڑیں۔ اور ابھی وہ تھوڑا سا ہی آگے بڑھے تھے کہ انہیں ہیڈ لائٹس کی روشنی میں کچی سڑک کے درمیان ایک سفید پوش بزرگ دکھائی دیئے جو اپنے دونوں بازو پھیلائے کھڑے تھے۔
محسن راؤ نے فوراً اپنی گاڑی روک لی ، اور کھڑکی کا شیشہ اتار کر پوچھا۔ ”کیا بات ہے۔ ؟”
” کوئی بات نہیں بیٹا۔ میں تمہارا انتظار کر رہا تھا کہ تم آجاؤ تو تمہارے ساتھ ساون پور چلوں ۔ ” محسن راؤ ان بزرگ کی بات نہ سمجھ سکا۔ تاہم اس نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول دیا اور بولا۔
” آجائے بیٹھ جائیے ۔ “
وہ بزرگ بڑے اطمینان سے گاڑی میں بیٹھ گئے گاڑی اسٹارٹ کرنے سے پہلے محسن راؤ نے گردن؛گھما کر ان بزرگ پر ایک نظر ڈالی ۔ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ بارش میں کھڑے ہونے کے باوجود ان کے کپڑے بالکل سوکھے تھے۔ محسن راؤ نے ان کا چہرہ غور سے دیکھنے کے لئے آئینہ کا زاویہ ٹھیک کیا۔ وہ ایک عمر رسیدہ بزرگ تھے۔ سفید لباس سر پر سفید ٹوپی۔ بھنویں تک سفید۔ لیکن چہرے پر سرخی۔ ایک عجیب طرح کا نور ۔ ان کے بیٹھتے ہی جیپ میں بڑی مسحور کن خوشبو پھیل گئی تھی۔

“بیٹا، اب مجھے دیکھتے ہی رہو گے یا گاڑی بھی آگے بڑھاؤ گے۔ تم اس شیطان کے بچے کو نہیں جانتے۔ آج اس نے خون خرابہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ “
انہوں نے ایک عجیب بات کی۔ محسن راؤ نے گھبرا کر گاڑی اسٹارٹ کر دی اور گھبرا کر ہی پوچھا۔ ” آپ کس کی بات کر رہے ہیں ؟”
اس کھوپڑی والے کی جو مرنے کے بعد بھی کرسی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ میری بات سمجھ گئے ہو یا اس خبیث کا نام بھی بتاؤں ۔ ??”
بزرگ نے آگے جھک کر کہا۔
اب کچھ کہنے سننے کی ضرورت کہاں رہی تھی۔ اب تو وہ جلد سے جلد حویلی پہنچ جانا چاہتا تھا۔ حویلی پہنچتے پہنچتے بارش بند ہو چکی تھی۔ بادل چھٹ گئے تھے اور سورج پھر سے نکل آیا تھا۔ ان بزرگ نے محسن راؤ سے راؤ احمد علی کے بیڈ روم کی طرف لے جانے کو کہا۔ راؤ احمد علی کا بیڈ روم توڑا جاچکا تھا، البتہ اس کی بنیادیں باقی تھیں، محسن راؤ نے ان بزرگ کو بیڈ روم کے پاس چھوڑا۔ پھر اس نے جلد از جلد ان بزرگ کے حکم کے مطابق بے شمار سوکھی لکڑیوں سے اس کمرے کو بھروا دیا۔ وہ بزرگ لکڑیوں کے ڈھیر سے ذرا فاصلے پر ایک پتھر پر بیٹھ گئے۔ وہ کچھ پڑھنے لگے۔ پھر انہوں نے پڑھتے پڑھتے محسن راؤ کو اشارہ کیا، ان لکڑیوں پر مٹی کا تیل چھڑ کا جاچکا تھا، محسن راؤ نے لکڑیوں کے اس ڈھیر کو آگ دکھا دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے ۔ حویلی سے شعلے اٹھتے دیکھ کر ساون پور کے لوگ حویلی کی طرف بھاگنے لگے۔
پھر محسن راؤ نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ اس نے ایک کرسی آگ کے شعلوں پر اترتی دیکھی۔ اس کرسی پر ایک بھیانک کھوپڑی رکھی ہوئی تھی۔ وہ کرسی دیکھتے ہی دیکھتے شعلوں میں گری۔ تب ایک دلدوز چیخ سنائی دی۔
پھر کچھ باقی نہ بچا۔ نہ وہ کرسی رہی، نہ اقتدار رہا اور نہ وہ اقتدار والا رہا، سب کچھ جل کر بھسم ہو گیا۔
محسن راؤ فوراً پلٹ کر ان بزرگ کے نزدیک پہنچا لیکن وہاں کچھ نہ تھا۔ وہ پتھر خالی پڑا تھا جس پر وہ بزرگ بیٹھے تھے۔
بعد میں لاہور پہنچ کر جب محسن راؤ نے پورا واقعہ تانیہ اور اعتبار راؤ کو سنایا تو تانیہ نے ان بزرگ کا حلیہ

پوچھا۔ محسن راؤ نے ان کا حلیہ پوری تفصیل سے بتایا۔ ان بزرگ کا حلیہ سننے کے بعد تانیہ خوشی سے چیچنی۔ ”ارے، وہ تو دادا اعظم تھے۔ “

(ختم شد )

Visited 323 times, 1 visit(s) today
Last modified: March 16, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!