یادِ ماضی کی گلی میں پھر سے آیا ہوں
غموں کی دھند میں خود کو ڈھونڈنے آیا ہوں
وہ لمحے جو گزر گئے تھے خاموشی سے
آج پھر ان کے سائے میں بیٹھنے آیا ہوں
کھو گئی ہیں ہنسی، وہ بچپن کی باتیں
اسی گزرے ہوئے وقت کو سوچنے آیا ہوں
رنگین خواب جو ٹوٹے تھے اک پل میں
ان خوابوں کی کرچیاں پھر جوڑنے آیا ہوں
وہ چہرے، وہ محبتیں جو بچھڑ گئیں
یادوں کے ساحل پر انہیں پانے آیا ہوں
ہر موڑ پہ ایک قصہ درد کا ملا
اسی دکھ کی گلی میں، میں رکنے آیا ہوں
اب دل میں بس یادوں کا شور باقی ہے
منیب اسی خاموش دل کو سننے آیا ہوں
عبدالمنیب
Visited 5 times, 1 visit(s) today
Last modified: October 21, 2024