Written by 5:55 am عمومی کہانیاں, ناولز

تقویٰ

بقلم انابیہ خان

” بس میں نے کہہ دیا ہے ، اس بار میں پنک رنگ کا بکرا لے کے رہوں گی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” تم پاگل تو نہیں ہو گئی ہو ، میں پنک رنگ کا بکرا کہاں سے لاؤں ، اتنی مہنگائی ہے ، بجٹ آسمانوں کو چھو رہیں ہیں ، اتنا خرچا میں افورڈ نہیں کر سکتا ، اوپر سے تم نے بکرے کی رٹ لگا رکھی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آفاق نے ماہین کو گھورتے ہوئے کہا ، جو ہاتھ میں چائے کا کپ لیے آفاق کی بات سن رہی تھی اسکے خاموش ہوتے ہی وہ فوراً بول اٹھی ۔
” دیکھو ناں ہماری ہمسائی زینت نے کتنا خوبصورت بکرا لیا ہے ، وہ روز میرا دل جلانے کے لیے اس بکرے کو باہر کی ہوا کھلانے لے جاتی ہے ، میں دل ہی دل میں جلتی کڑھتی رہتی ہوں ، اس بار تو میں نے بھی اس سے شرط لگا لی ہے ، بکرا تو میں لے کے رہوں گی ، وہ بھی پنک رنگ کا ، میں بھی اسے جلانا چاہتی ہوں ، آپ اتنی سی بھی میری فرمائش پوری نہیں کر سکتے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی ہی دھن میں بولے چلی جا رہی تھی ، جس سے وہ مخاطب تھی ، وہ تو کب کا بنا چائے پیئے ہی چلا گیا تھا
” ہا ہائے کہاں چلے گئے ہو آپ “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے دروازے کی طرف منہ کر کے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا ۔
” میں تیری روز کی جھک جھک سے تنگ آ گیا ہوں ، تو جب بھی بولتی ہے بڑا ہی فضول بولتی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا بالوں میں کنگھی کر رہا تھا ۔
“دیکھو ناں میں نے آپ سے زندگی میں کبھی کوِئی فرمائش نہیں کی ، اس بار ہی تو ضد کر رہی ہوں ، کیا آپ میری اتنی سی بھی ضد پوری نہیں کریں گے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہین نے خوشامد کرتے ہوئے کہا تھا ۔
” یار تم سمجھتی کیوں نہیں ہو ، مہنگائی نے آسمان اٹھا رکھا ہے ، اگر مہینے کا خرچہ گننے لگوں تو تین لاکھ سے بھی اوپر ہو جاتا ہے ، اور تم اپنی فرمائشیں لیے بیٹھی ہو ، کچھ تو خدا کا خوف کرو ، میں کہاں سے اتنے اخراجات پورے کروں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفاق نے جھنجلاتے ہوئے کہا تھا ۔
” کچھ پیسے میں دیتی ہوں ، کچھ پیسے آپ دے دیں ، پر اس عید پر پنک رنگ کا بکرا آنا چاہیے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہین نے دوسری رہ دکھائی تھی ۔
” تم کہاں سے پیسے لاؤ گی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
آفاق نے آبرو چڑھا کر اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔
” آپ جو پیسے مجھے خرچے کے لیے دیتے تھے میں نے ان سے بچا کر ایک کمنٹی بنائی تھی ۔
وہ اس مہینے میری کھلی ہے ، پھر آپ جو پیسے ٹینا اور سنی کو روز خرچی دیتے تھے ، وہاں سے بھی میں پیسے بچا لیتی تھی ، وہ میں گولک میں ڈالتی رہتی تھی ، اب مجھے نہیں پتہ اس گولک میں کتنے پیسے ہو گئے ہوں گے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” اچھا ٹھیک ہے ، لے آو سارے پیسے میں فارغ ہو کر کوشش کرتا ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آفاق نے ہار ماننے والے انداز میں کہا تھا ،
” دیکھو میں پیسے دے رہی ہوں ، اب ہر صورت میں نے بکرا آنا چاہیے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آنکھیں دکھاتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی تھی ، پھر گولک لے کر جب وہ کمرے کے اندر داخل ہوئی تو آفاق جانے کے لیے جوگرز پہن رہا تھا ۔۔۔۔
” ابھی فل حال اس کو مت توڑو ، میں ابھی آفس کے لیے لیٹ ہوں ، واپس آ کر دیکھتا ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے جوگرز پہن کر ٹاٹی لگاتے ہوئے سرسری سے لہجے میں کہا ، اور کمرے سے باہر چلا گیا تھا ۔
وہ کندھےاچکاتے ہوئے گولک کو الماری میں رکھنے لگی تھی
🏵🏵🏵🏵🏵🏵🏵

” ارے واہ اتنا خوبصورت بکرا لے آئے ہیں آپ “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے بکرے کو دیکھ کر خوشی سے چہکتے ہوئے کہا تھا
” واوّ لکنگ سو گڈ “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بکرے پر ہاتھ پھیر کر مسکراتے ہوئے کہا ۔۔
اس نے فوراً اپنی آنکھوں پر لگے سن گلاس اتار کر وہی اپنے بکرے کی آنکھوں پر چھڑھا دیے تھے
” ارے واہ مجھ سے بھی زیادہ کیوٹ اور خوبصورت لگ رہے ہو ، ماہین تو تجھ پر دل و جان سے فدا ہو گئی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بکرے کو دیکھ کر دل ہی دل میں سوچتے ہوئے بکرے کی بلائیں لے رہی تھی ۔۔۔۔
” آج سے یہ چشمہ تمھارا ہوا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بکرے کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے دھیمی آواز میں بولی تھی ۔
بکرے نے ایسی وقت میں میں کی آواز نکالی تھی
” ابے یار چشمہ دے تو دیا ہے ، اور کیا چاہیے تجھے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بکرے کے کانوں کے قریب آ کر منہ بسورتے ہوئے اسے گھور کر بولی تھی ۔
بکرے نے ایسی پل اسے اپنے سنگھ دے مارے تھے ، وہ اس سے دور جا کر گری تھی ۔۔۔۔۔
” اوئی ماں ، یہ تو مارتا بھی ہے ، دیہاتی کہیں کا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی ٹانگ مسلتے ہوئے رونے والے انداز سے بولی تھی ، وہ ابھی تک زمین پر ہی بیٹھی تھی ابھی وہ سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ ، وہ بکرا بھاگتے ہوئے اس کے پاس آ کر ایک بار پھر سے سنگھ اس کے پیٹ کی سائیڈ پر مارے تھے ، اس نے فوراً اسکے سنگھ کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا ۔
وہ سر کو جھٹک جھٹک کر اپنے سنگھ چھڑانے کی کوشش کرنے لگا تھا ۔
وہ تھی کہ اسے چھوڑنے کا نام بھی نہ لے رہی تھی ، ایسی کھنچا تانی میں اس کا ہاتھ ابلتی ہوئی چائے میں جا گرا تھا ۔
“ہائے اللہ جی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی درد بھری آواز لاوّئج میں بیٹھے آفاق نے سنی تو وہ بنا چپل پہنے بھاگتے ہوئے کچن کے اندر داخل ہوا تھا ۔۔۔۔
” ارے یار کیا ہوا تجھے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے قریب آ کر اس کا لال ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا ؟ اس کا ہاتھ انگاروں کی طرح سرخ سرخ ہو رہا تھا ، شاید اس پر آبلہ بنے ہوئے تھے
” کیا ہوا تجھے اور تو نے اپنا ہاتھ کیسے جلا لیا ، یار تیرا دھیان کدھر ہوتا ہے ، تو اپنا خیال بلکل بھی نہیں رکھتی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اس بار کچھ غصیلے لہجے میں کہا تھا ۔۔۔۔
درد کی ٹیسیں دباتی ہوئی ماہین رونے کے قریب تر تھی ، ایک دم آنسووّں کا گولہ اسکے حلق میں اٹک گیا ۔۔۔۔
درد کی شدت کے آگے وہ بے بسی سے رو پڑی تھی ، اسکی آنکھوں میں درد رقم تھا
” کیا بہت درد ہو رہا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ اپنا غصہ بھول کر کچھ پریشان ہو اٹھا تھا ۔۔۔۔
ماہین نے اثبات میں سر ہلایا ۔
“میرا بکرا کہاں ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنا درد بھلا کر دائیں بائیں دیکھتے ہوئے پوچھا ؟
” بکرا کیا مطلب ہے تمھارا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ آفاق کے ماتھے پر ڈھیروں بل کا اضافہ ہو چکا تھا ۔۔۔۔
” یہی تو تھا میرا بکرا ، جس نے مجھے سنگھ مارا تھا اور میرا ہاتھ “۔۔۔۔۔۔۔؟ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ اچانک یاد آیا کہ وہ تو جاگتی آنکھوں سے سپنا دیکھ رہی تھی ، اس نے جلدی سے اپنی زبان دانتوں تلے دبا لی تھی ۔
” ماہین تم پاگل ہو جاؤ گی ، لوگ تو راتوں میں خواب دیکھتے ہیں ، تم نے دن میں بھی دیکھنے شروع کر دیے ہیں ، ماہین انسان بن جاؤ انسان ، کیا ہو گیا ہے یار تمھیں ، کیوں مجھے پریشان کرتی ہو ، میں گھر دیکھوں یا اپنا بزنس سنبھالوں ، مجھے سمجھ نہیں آتا آخر تمھیں ہو کیا گیا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آفاق اسے غصے سے گھورتے ہوئے بولے جا رہا تھا ، اور وہ اپنا دوپٹہ انگلیوں پر موڑے ، آنکھیں مٹکا کر جھولتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی ، کبھی وہی دوپٹہ دانتوں تلے دبا لیتی تھی ۔
” مجھے سمجھ نہیں آ رہا ، تمھارے دماغ میں یہ بکرے کا خناس کس نے بھرا ہے “۔۔۔۔۔ اس نے واش بیس پر لگے جار سے ٹوتھ پیسٹ لاتے ہوئے کہا تھا ۔
” اسکے ہاتھوں پر بنے آبلے دیکھ کر آفاق کا دل بھر آیا تھا ، وہ صدمے سے کنگ بس اسے ہی دیکھے جا رہا تھا
“جلن تو نہیں ہو رہی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے نرم اور دھیمی آواز سے پوچھا ماہین نے سر نفی میں ہلایا ۔
” تمھیں درد تو نہیں ہو رہا “۔۔۔۔۔؟ کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے ایک اور سوال پوچھا ۔
” اگر ہو بھی رہا ہو ، تو آپکو اس سے کیا ، زخم میرا ہے ، اور درد بھی میرا ہی ہے “۔۔۔۔۔۔ اس نے نروٹھے پن سے کہا تھا ۔
” یار اب کیا مسئلہ ہے تمھارا آخر “۔۔۔۔۔ آفاق نے ماہین کا ہاتھ کھنچتے ہوئے اس پر پیسٹ لگائی ۔
” تجھے تو پتہ ہے ، میں تیری ناراضگی سہہ نہیں سکتا ، اور تو ہے کہ ہر وقت ناراض ہی رہتی ہے مجھ سے “۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے اسے کرسی پر بیٹھا کر اپنے بازو اسے کے کندھے پر حمائل کرتے ہوئے ہیار سے کہا تھا ۔
” ایک ہی تو فرمائش کی تھی ، وہ بھی آپ پوری نہیں کر سکے ، ہماری شادی کو کتنا عرصہ ہو چکا ہے ، کبھی کسی چیز کی فرمائش کی میں نے ، یا کبھی کسی چیز کی ضد کی آپ سے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے روہانسے لہجے میں کہہ کر اسکی جانب دیکھا جو سر کو نفی میں ہلا رہا تھا ، جیسے اسکی بات پر محظوظ ہو رہا ہو
” اچھا بابا میں پوری کوشش کروں گا ، لے آؤں گا بکرا ، اب منہ تو مت پھلاو ، ایک بار ہنس کے میری طرف دیکھو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” کیا سچی آپ بکرا لے آئیں گے “۔۔۔۔ اس نے کسی چھوٹے بچے کی طرح خوشی سے چہکتے ہوئے کہا تھا ، اسکے ہونٹ تو ہونٹ اسکی آنکھیں بھی مسکرا رہیں تھیں ۔
” ہاں یار لے آؤں گا ، آج جاوّں گا ، دیکھتا ہوں کچھ پسند آئے تو ، تم گولک لے آؤ ، دیکھوں کتنے پیسے ہیں تمھارے پاس “۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ فوراً دوسرے کمرے سے گولک لے آئی تھی ۔
اس کے سامنے ہی ماہین نے گولک توڑ دی تھی گولک کے ٹوٹتے ہی کافی سارے سبز سبز رنگ کے نوٹ ہر اطراف بکھر گئے تھے ، ماہین نے وہ سارے پیسے اٹھا کر آفاق کے حوالے کر دیے تھے ،
” آپ خود گن لیں “۔۔۔۔۔۔۔ آفاق نے وہ نوٹ گنے تو وہ پورے سات ہزار تھے ،
” یہ تو بس سات ہزار ہیں ، اور سات ہزار کا کون سا بکرا ملے گا “۔۔۔۔۔۔۔
” ٹھہریں تو صحیح میں کمنٹی والے پیسے بھی لے اتی ہوں ، وہ بھی ان میں شامل کر لیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمنٹی والے پیسے لینے دوسرے کمرے میں چلی گئی تھی ، جب واپس آئی تو اسکی مٹھی میں کچھ پیسے دبے ہوئے تھے ۔
” یہ تو صرف پانچ ہزار ہیں ، بارہ ہزار میں بھلا کون سا بکرا آئے گا “۔۔۔۔۔۔ اس نے ماتھے پر ڈھیروں بل لاتے ہوئے تھوڑا غصیلے لہجے میں پوچھا تھا ۔
” تو باقی آپ شامل کریں ناں ، میرے پاس جتنے تھے سب دے دیے ہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ڈرتے ہوئے کہا ، آفاق نے اسے گھورتے ہوئے ، وہ سارے پیسے اپنی پاکٹ میں رکھ کر ،_ باہر کی جانب قدم بڑھا لیے تھے ۔
🏵🏵🏵🏵🏵🏵🏵

” آ جا تینوں اکھیاں اڈیکدیاں ،
بکرا تینوں اکھیاں اڈیکدیاں ،
دل واجاں مار دا ، آ جا بکرا تینوں واسطہ ہی پیار دا “۔۔۔۔۔۔ وہ لہک لہک کر جھوم جھوم کر گیت گا رہی تھی ، ابھی آفاق نے کال کر کے بتایا تھا ، کہ اسے ایک بکرا پسند آ گیا ہے ، وہ اسے لیتے ہوئے ہی آئے گا ، اس لیے وہ بہت خوش تھی ۔۔
” بے پناہ پیار ہے آ جا ، بکرے تیرا انتظار ہے آ جا ، سونا سونا لمحہ لمحہ ، میری راہیں تیرے بنا ،
وہ ایک ہاتھ گال پر رکھے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی ، انتظار کی گھڑیاں کچھ زیادہ ہی تاویل ہو گئیں تھیں ۔
” مما آج آپ کیوں اتنی خوش ہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹینا کانوں پہ ہینڈ فری لگائے ماں کے پاس کچن میں پانی پینے کے لیے آئی تھی ۔۔۔۔۔۔
” کیونکہ آج تیرا بابا بکرا لینے گئے ہیں ، ابھی آتے ہی ہوں گے ، تم ایسا کرو ایک بڑی سی چادر لے کر چارپائی پر بچھا دو ، وہ بچارا تھکا ہوا آئے گا ، کم سے کم دو گھڑی سکون سے بیٹھے تو صحیح “۔۔۔۔۔ وہ چائے کپ میں ڈالتے ہوئے بنا ٹینا کو دیکھے بولی ۔
ٹینا حیرت سے خاموش کھڑی ماں کو دیکھ رہی تھی ، جس کی ایک ایک حرکت سے خوشی جھلک رہی تھی ۔
” بیٹا میں تم سے کہہ رہی ہوں ، تم نے سنا نہیں ، کیا کہا ہے میں نے تجھ سے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہین نے ٹینا کی طرف ناگواری سے دیکھتے ہوئے چھبتے لہجے میں کہا ۔
” مما وہ کوئی انسان ہے ، جس کے لیے میں چارپائی پر چادر بچھاؤں ، کہ کہیں وہ صاحب ناراض نہ ہو جائے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹینا نے ایک متفکر نگاہ ماں کی پشت پر ڈالی تھی ، نظروں میں اداسی اور حیرت بھرے تاثرات تھے ۔۔۔
” زیادہ بکواس مت کرو ، جو کہا ہے بس اس پر عمل کرو ، تم کچھ زیادہ ہی بدتمیز ہو گئی ہو ، میں تمھیں کچھ نہیں کہتی اس کا یہ مطلب نہیں تم ہر حد پھلانگ جاو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہین نے غصیلے لہجے میں کہا ، ٹینا نے ایک ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے دکھی لہجے میں اپنی بات پھر سے شروع کی
” مما ہم یہ سب انسانوں کے لیے کیوں نہیں سوچتے ، کہ ہماری کسی بھی غلط بات سے کسی کا دل ٹوٹ سکتا ہے ، کوئی ہماری بات سے ہرٹ بھی ہو سکتا ہے ، کوئی ہم سے ناراض بھی ہو سکتا ہے “…

Visited 14 times, 1 visit(s) today
Last modified: February 10, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!