Written by 3:17 pm عمومی کہانیاں, ناولز

بددعا

انابیہ خان

( حال ))
” میں آج تمھیں دل سے بددعا دیتی ہوں ، تم کبھی سکون کی نیند نہیں سو سکو گے ، جس طرح تم نے مجھے برباد کیا ہے ، میرا خدا تمھارے اپنوں کو ایسے ہی برباد کرے گا ، تب تم دیکھنا اپنوں کی بربادی اپنی ہی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے ، تمھاری موت پر رونے والا کوئی نہیں ہوگا ، تمھاری قبر پر فاتح پڑھنے والا ، اور تمھاری قبر پر پانی ڈالنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا ، تم دیکھنا میرے دل سے نکلی ہر بددعا پر میرا رب کن کہے گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے روتے ہوئے سامنے کھڑے فرعون نما شخص کو دل سے بد دعا دی تھی ، جو ہونٹوں پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ سجائے اسے روتے چیختے بلکتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے جو اسکی جھوٹی محبت رہ چکی تھی ، جس کے بنا اسکا جینا مشکل تھا ۔۔۔۔
” تو کیا سمجھتی ہے تیری بددعائیں مجھ پر اثر کریں گی ، اگر واقعی بددعاوّں میں اتنا اثر ہوتا ، تو آج اس دنیا میں کوئی شخص زندہ نہ ہوتا ، سب ایک دوسرے کی بددعاوّں کی بھینٹ چھڑھ چکے ہوتے ، تو ایک بار نہیں ، ہزار بار بددعا دے ، مجھے کچھ نہیں ہونے والا ، میں جب تک اپنا برا آپ نہ چاہوں گا ، تیری دی ہوئی بددعا بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ، تم نے بھی تو خود کو خود ہی برباد کیا ہے ناں ، جھوٹی محبت کے لیے اندھی ہو کر میرے پیچھے چلی آئی تھی ، میں نے تجھے کبھی نہیں کہا تھا کہ میرے پیچھے آو ، میری محبت پر یقین کرو ، تو خود ہی میرے پیچھے چل پڑی تھی تو میں کیسے تجھے چھوڑ دیتا ، جب تم خود ہی برباد ہونا چاہتی تھی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا ۔۔۔ اس نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا تھا ۔
” بکواس بند کرو ، جھوٹے انسان ، محبت جھوٹی نہیں ہوتی ، جھوٹے تو انسان ہوتے ہیں ، جو سچی محبت کو بھی جھوٹ کے ترازو میں تولتے ہیں ، محبت تو شروع سے ہی سچی تھی ، اس نے خود کو منوایا ہے ، نہیں یقین تو دیکھ لو شریں فرہاد ، لیلی مجنوں ، رومیو جولیٹ کے قصے ، وہ سب جھوٹ نہیں ہو سکتے ، اور میری ایک بات تم ہمیشہ یاد رکھنا ،
ہر فرعون کے پیدا ہونے پر ایک موسیٰ بھی پیدا ہوتا ہے ، تو فرعون ہے تجھے موسیٰ تباہ کرے گا ، تو اپنا انجام دیکھنا ، لوگ تجھ سے عبرت حاصل کریں گے ، تو کتے کی موت مرے گا جس طرح فرعون کو نہ تو دریا نے قبول کیا اور نہ ہی مٹی نے ، ٹھیک ایسی طرح تجھے تو موت بھی قبول نہیں کرے گی ، تو روز مرنے کی آرزو کرے گا ، لیکن موت بھی تجھے نہیں آئے گی ، تو سسک سسک کر مرے گا ، میرا خدا میری بددعا ضرور سنے گا ، اے میرے رب اسے فرعون سے بھی بدترین موت دینا ، اسکی موت ان سب کے لیے جو ان جیسے ہیں عبرت کا نشان بن جائے ، اسے خود پر بڑا فخر ہے ، تو اس کا یہ فخر مٹی میں رول دینا ، تو کہتا ہے ناں ، بددعا سے کچھ نہیں ہوتا ، اب سے الٹی گنتی گننی شروع کر دے ، تو دیکھتا جا میری بددعا میں کتنا اثر ہے ، تو نست و نابود ہو گا ، إنشاءاللّٰه
تو برباد ہوگا ، ایک دن ایسا آئے گا ، تو رونا بھی چاہے گا ، لیکن رو نہیں پائے گا ، تب تمھیں میری دی ہوئی بددعائیں یاد آئیں گی ، ہاں ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب تو مجھے یاد کرے گا ، معافی مانگنے کے لیے مجھے دن رات ڈھونڈے گا “۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ اسے بددعائیں دیتے اور روتے ہوئے وہاں سے چل پڑی تھی

🌸🌸🌸🌸🌸🌸
( ماضی ))

” عانیہ اپنی دونوں آنکھیں بند کرو ، میں تمھارے لیے کچھ لایا ہوں ، تب تک اپنی آنکھیں نہ کھولنا جب تک میں نہ کہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے عانیہ کی آنکھوں پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا
” پہلے بتائیں کیا لائیں ہیں آپ میرے لیے ، پھر اپنی آنکھیں بند کروں گی “۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ نے بے صبری سے شاہد کا ہاتھ اپنی آنکھوں سے ہٹاتے ہوئے پوچھا ؟
” یار دو پل کے لیے اپنی آنکھیں بند رکھو گی تو ہی دکھاوّں گا ورنہ نہیں دکھاوّں گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے وہ خوبصورت سا ایک چھوٙٹا سا پیکٹ اپنی کوٹ کی جیب میں واپس رکھتے ہوئے کہا ۔
” اچھا ناں غصہ تو نہ کریں ، کر رہی ہوں میں اپنی آنکھیں بند “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بار عانیہ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ دیا تھا ۔
” عانیہ تم گیس کرو وہ گفٹ کیا ہو سکتا ہے ، اگر تم ٹھیک سے کیس کر سکی تو میرا وعدہ ہے ایک اور گفٹ بھی دوں گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے عانیہ کے کانوں کے پاس سرگوشی کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔۔
” آپ بتائیں ناں میں گیس نہیں کر پا رہی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ نے لجاجت سے کہا ۔
شاہد نے ایک مخملی ڈبیہ اپنے کوٹ کی جیب سے واپس نکلا کر اسے کھولا تھا ۔
اب کھولوں اپنی آنکھیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ نے چند سیکنڈ بعد پوچھا ؟
” نہیں یار ابھی مت کھولنا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے خالی ڈبی پاس رکھی ڈسٹ بن میں ڈالتے ہوئے کہا ۔
” اف ایسا بھی کیا لائے ہیں آپ میرے لیے ، جو پیک کھل ہی نہیں رہا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دیکھنے کو بے قرار تھی ۔
شاہد نے اٹھ کر سونے کی چین اسکے گلے میں بہت ہی آہستگی سے ڈالی تھی
” اب اپنی دونوں آنکھیں کھول دیں جناب “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید نے اسے شانے سے پکڑ کر کھڑا کرتے ہوئے کہا ۔
” واوّ اٹ از بیوٹی فل ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے آنکھیں کھول کر سر کو جھکاتے ہوئے چین پر ہاتھ پھیر کر کہا تھا ، چین واقعی میں بہت ہی خوبصورت تھی ۔ اس چین کے ساتھ ایک خوبصورت سا لاکٹ بھی تھا جس پر ( $ ۔ A ) لکھا تھا ، یعنی عانیہ شاہد ۔۔
“اتنے مہنگے اور خوبصورت گفٹ کی کیا ضرورت تھی “۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی ۔۔۔
” پگلی تمھاری خوشی سے بڑھ کر میرے لیے اور کوئی قیمتی گفٹ نہیں ہو سکتا ، تمھارے چہرے پر جو اس وقت خوشی رقص کر رہی ہے ، اس سے بڑھ کر تو میرے آگے ڈائمنڈ نے بھی اپنی وقعت کھو دی ہے ، یہ چین تو پھر بھی گولڈ سے بنی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسکی خوشی کو دل سے محسوس کرتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔
“بہت بہت شکریہ ، آج میں بہت ہی خوش ہوں ، یہ نہیں کہ آپ نے مجھے اتنا مہنگا گفٹ دیا ہے ، اور ایسا بھی نہیں کہ اتنے مہنگے گفٹ میں نے پہلے کبھی استمعال نہیں کیے ، بلکہ اس لیے کہ آج آپ نے مجھے میری اہمیت بتائی ہے ، کہ میں اپکے لیے کتنی اہم ہوں ، یہ بات مجھے بے حد خوشی دے گئی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ نے نم آنکھوں اسے دیکھ کر ہلکا سا مسکراتے ہوِئے کہا تھا ۔۔۔۔
” پگلی تمھاری اہمیت میرے دل میں میری دھڑکن جتنی ہے ، اور تم یہ جانتی ہو دھڑکن کے بغیر انسان مردہ ہوتا ہے ، تم میری محبت کے ساتھ ساتھ میری ضرورت بھی ہو ، کچھ دن تک میں آوّں گا ، اپنے مما اور ڈیڈ کے ساتھ ، اپنی دھڑکن کو اپنے دل میں رکھنے کے لیے ، تمھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے گھر لے جانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸
( حال ))
“عانیہ یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے ، اگر کوئی مسئلہ ہے تو مجھ سے شئیر کرو ، میری جان تم ایسی تو نہیں تھی ، آخر تم بتاتی کیوں نہیں ہو کہ آخر تمھیں ہوا کیا ہے ، کیوں تمھاری ایسی حالت ہو گئی ہے ، مجھے اتنا تو بتا دو کہ تم اتنی کیوں پریشان ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلم جو اسکی بسٹ فرینڈ ہونے کے ساتھ ساتھ اسکی خالہ کی بیٹی بھی تھی ، وہ اسکے ہر معاملے سے واقف تھی ، اگر پتہ نہیں تھا تو بس اسی معاملے کا پتہ نہیں تھا ، ورنہ وہ اسکے روز و شب کے ہر معاملے سے آگاہ تھی ، وہ اسے اس حالت میں دیکھ کر کڑھنے کے سوا اور کچھ بھی نہ کر سکتی تھی ۔
” مجھے بددعا دو کہ میں مر جاوّں ، مجھے اب زندگی سے ڈر لگتا ہے ، تم اللہ کی بہت نیک ہو ، میرے لیے بس بددعا کر دو ، میں اس زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہوں ، بہت تھک گئی ہوں اس زندگی سے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ کا لہجہ اتنا عیجب تھا کہ پاس بیٹھی نیلم کا دل ہول اٹھا تھا ۔۔۔
” اللہ نہ کرے یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو ، کچھ بتاو تو سہی کہ آخر تمھارے ساتھ ہوا کیا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلم نے عانیہ کا ہاتھ نرمی سے دباتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا ، جس پر وہ بلک بلک کر رو پڑی تھک ۔۔۔
اس کی سفید رنگت ہلدی کی طرح پیلی پڑ چکی تھی ، آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقوں نے گھر بنا لیا تھا ، کھلے بے ترتیب بال ، ایسا لگتا تھا جیسے وہ کئی مہینوں سے سلجھانا بھول چکی تھی ، ملگجے سے کپڑے ، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ کئی ہفتوں سے نہائی نہیں ہو ، پہلے کی عانیہ اور اب کی عانیہ میں زمین و آسمان کا فرق تھا ، پہلے والی عانیہ کا روز بیوٹی پارلر جانا پسندیدہ مشغلہ تھا ، وہ روز نیا سوٹ پہنا کرتی تھی ، دن میں دو بار وہ اپنے بالوں میں کنگھی کرنے کی عادی تھی ، کپڑوں میں شکن سے بھی اسے الجھن ہوتی تھی ، اسکا رات کے لیے سونے کا ڈریس الگ تھا ، وہ ایک دن میں دو ڈریس پہنتی تھی ، رنگت سفید دودھ کی طرح اجلی تھی ، موٹی موٹی سرمگیں آنکھیں ، پنکھڑی جیسے گلابی ہونٹ ، نرم و ملائم گلابی گال ، اور گالوں کے پاس ہونٹوں کے قریب دونوں اطراف خوبصورت سے بنتے ڈمپل ،
ستون جیسی مغرور کھڑی ناک ، صراحی دار گردن ، اور گردن پر پڑتے تین خوبصورت سے بل جو اسے خوبصورت لوگوں میں بھی ممتاز بنانے میں ثابت قدم تھے ،
اور اب کی عانیہ تو کچھ بھی نہیں تھی ، نہ اس میں کوئی ادا تھی ، روز بیوٹی پارلر جانے کی وجہ سے چہرے پر عمر سے بھی پہلے جھریاں نمایاں ہونے لگیں تھیں
نہ ہی چہرے پر وہ بشاشت تھی ، ہر وقت چہرے پر ہنوز چھائی اداسی ہی ملتی تھی

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
( ماضی ))

“یار بہت جلد میرے والدین تمھارے گھر تمھارا رشتہ لینے آ رہے ہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے خوش ہوتے ہوئے عانیہ کو بتایا تھا ،
” کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں ، لیکن ہماری فمیلی تو کافی غریب ہے ، اور آپکی فیملی کافی امیر ہے ، تو آپ نے اپنے بابا کو کیسے اتنا جلدی منا لیا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ نے خوشی محسوس کرتے ہوئے قدرے حیرت سے پوچھا ؟
” دیکھ لو میں اپنے والدین سے کہوں اور وہ نہ مانیں ایسا تو کبھی نہیں ہوا نہ ہی میں ہونے دے سکتا ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اتراتے ہوئے اپنے کالر کو تھوڑا کھڑا کرتے ہوئے کہا ۔
” واقعی مان گئی ہوں میں آپکو اور آپکی محبت کو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ دل سے مسکراتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔۔۔
” اچھا سنو میرا ایک دوست ہے کل تم نے انکے گھر چلنا ہے ، وہ تم سے مل کر بہت خوش ہو گا “۔۔۔۔۔۔۔۔
” لیکن کیوں “۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ نے کافی حیرانی سے کہا ۔
” سرپرائز ہے یار ، وہاں تم چلو گی تو خود ہی جان جاو گی ، مجھے سرپرائز دینے کا شوق ہے ، اور تجھے جلد جاننے کا تجسس ، لیکن میں پھر بھی پہلے نہیں بتاوّں گا ، ورنہ میرا سرپرائز ختم ہو جائے گا ، اور تیرا تجسس ، بیچ میں سات آٹھ گھنٹے کا وقت ہے ، تب تک میں بھی خوش ہو لیتا ہوں ، اور آپ بھی سوچیں گیس کریں وہ سرپرائز کیا ہو سکتا ہے ، کل ان شاء اللہ آپکو آپکا سرپرائز مل جائے گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے مسکراتے ہوئے اسکے سر پر چیٹ ماری تھی ،
” گیس کرنے کے بارے میں ، میں بلکل ڈل ہوں ، ٹھیک ہے کل میں یونیورسٹی نہیں جاوّں گی آپکے ساتھ آپکے دوست کے گھر چلیں گے ۔
” اوکے جان کل میں تمھارا انتظار کروں گا ۔۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

” ارے آپکے دوست کی فیملی تو نہیں ہے ، گھر تو خالی پڑا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی تو گھر بھانت بھانت کر رہا تھا ۔
” تم کو کس نے کہا میرا دوست بھی ہوگا وہاں ، آج کے دن ہم دونوں اپنی لائف انجوائے کریں گے ، میرے دوست کی فیملی یہاں نہیں رہتی ۔
عانیہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو شاہد دروازے پر کنڈی لگا کر اس پر تالا لگا رہا تھا ۔۔۔۔
یہ آپ کیا کر رہے ہیں “۔۔۔ اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا ۔
یار تالا لگا رہا ہوں تاکے آج کے دن ہمیں کوئی ڈسٹرب نہ کر سکے ، ہم اپنی لائف خوب انجوائے کریں گے ، پھر تو ہم دونوں کی شادی ہو جائے گی پھر ایسے خوبصورت دن کہاں نصیب ہوں گے ، وہ اسے شانوں سے تھامے کمرے میں لے گیا تھا ، جہاں شیطان بیٹھا ان دونوں کو ویلکم کر رہا تھا ، پھر ان دونوں کے بیچ وہ ہو گیا تھا جو نہیں ہونا چاہیے تھا ۔۔
” یہ کیا ہو گیا مجھ سے ، ایسا تو نہیں ہونا چاہیے تھا ، اب ایسا کرو جلدی سے اپنے والدین کو ہمارے گھر بھیجو ، تاکے جلدی سے ہماری شادی ہو سکے ، کہیں ایسا نہ ہو دیر ہو جائے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ نے روتے ہوئے شاید سے کہا ۔
” یار میں خود بھی کافی پریشان ہوں ، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ، لیکن تم فکر مت کرو میں جلد ہی اپنے والدین کو آپکے گھر بھیجتا ہوں رشتے کے لیے ، باقی ہم سے گناہ ہوا ہے اسکے لیے ہم الله سے توبہ کر لیں گے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بھی آنکھوں میں آئے آنسو اپنے کف سے پونچھتے ہوئے کہا تھا ، پھر اس نے ٹائم کا اندازہ لگانے کے لیے گلی کو کھلتی ونڈو کی طرف حیرت سے دیکھا ، جہاں اسے ہلکا ملگجا سا اندھیرا محسوس ہوا تھا ، اس نے جلدی سے بیڈ سے نیچے اتر کر ونڈو سے ہکا سا پردہ کھسکا کر باہر دیکھا تو ایک لمحے کے لیے اسکا دل تیزی سے دھڑکا تھا ، واقعی باہر تو ہلکا ہلکا سا اندھیرا تھا ، جیسے عصر کا ٹائم ہو ،
شاہد نے اضطرابی کیفیت میں اپنے ہاتھوں پر بندھی واچ کو دیکھا ، جہاں گھڑی کی سوائیاں دن کے پانچ بجا رہی تھی ، مطلب ان کو اس گھر میں آئے آٹھ گھنٹے بیت چکے تھے ، یہ آٹھ گھنٹے کیسے گزرے کچھ پتہ ہی نہیں چلا ، وہ بے یقینی سے آنکھیں پھاڑے اپنی واچ کو دیکھ رہا تھا ، جیسے اسے یقین ہی نہیں ہو کہ واقعی میں اتنا ٹائم بیت چکا ہے ،
” عانیہ ذرا اپنے موبائل پر وقت دیکھ کر بتاو کہ کیا ٹائم ہوا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے حیرت بھرے لہجے میں عانیہ سے کہا پھر اسکی طرف گردن موڑے اسے دیکھا ، جو کب سے سر جھکائے آنسو بہا رہی تھی ۔۔۔۔ شاہد کی آواز نے اسکا تسلسل توڑا تو اس نے حیرت سے پہلے شاہد کو دیکھا ، پھر اپنے بیڈ پر پڑے موبائل کو اٹھا کر اس پر ٹائم دیکھا تھا ، اسکی آنکھیں بھی ایک لمحے کے لیے ساکت ہوئیں تھیں ، دل یکباری سے دھڑکا تھا ، وہ آنکھیں پھاڑے موبائل کی جانب دیکھ رہی تھی ، اسے تو جیسے ہوش ہی نہ ہو
” پانچ ، 5 “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کافی لمحوں بعد جواب دینے کے قابل ہوئی تھی ، اس نے مختصر جواب دے کر اپنے موبائل کو دوبارہ بیڈ پر اچھال کر ایک بار پھر سے سر جھکائے اپنے پسندیدہ کام یعنی رونے میں مشغول ہوگئی تھی
” پہلے تو تم یہ رونا بند کرو ، اکتا گیا ہوں میں تمھارے اس رونے کے ڈرامے سے ، میں بھی نادم ہوں ، شرمندہ ہوں اپنے کیے پر ، جو ہوا ہے وہ بلکل غلط ہوا ہے اسے نہیں ہونا چاہیے تھا ، میں بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہوں ، لیکن اب کیا ہو سکتا ہے ، جو ہونا تھا ، وہ تو ہو گیا ناں ، اب رونے سے کیا فائدہ
ایسا کرو جلدی سے اٹھو میں تمھیں تمھاری امی کے گھر چھوڑ آتا ہوں ، ٹائم بھی کافی ہو گیا ہے ، وہ تمھاری رہ دیکھ رہے ہوں گے ، تم روز تین بجے گھر جاتی ہو ، اور اب پانچ بج چکے ہیں ، دو گھنٹے تم لیٹ ہو چکی ہو ، کہیں اور دیر نہ ہو جائے ، سب گھر والے بھی پریشان ہوں گے ، تم فکر مت کرو ، میں ایک دو دن کے اندر ہی اندر میں اپنے والدین کو بھی رشتے کے لیے لے کر آتا ہوں ، پھر سب ٹھیک ہو جائے گا ، ان شاء اللہ “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے چپل اپنے پیروں میں اڑاستے ہوئے کہا ۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸
پھر کافی سارے دن گزر گئے تھے وہ رشتے کے لیے آنا تو دور کی بات وہ تو شاید اس بات کو ہی بھول چکا تھا ۔۔ عانیہ کافی پریشان تھی جوں جوں دن بڑھتے جا رہے تھے اسکی مصیبتوں میں بھی اضافہ کرتے جا رہے تھے ، بیٹھے بیٹھے سر چکرانے لگتا تھا ، کچھ کھاتی تو الٹی آنے لگتی تھی ، ہر جیز سے سمیل آنے لگتی ، عانیہ کی مستقل ایسی حالت دیکھ کر اسکی امی (( حمیدہ )) اسے ہسپتال لے گئیں تھیں ، جب لیڈی ڈاکٹر نے اسے ماں بننے کی مبارک باد دی تو حمیدہ کے سر پر جیسے ہسپتال کی ساری عمارت آ گری تھی ، وہ تو ہوش سے بھی بیگانی ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔ وہ ہونق بنی ڈاکٹر کی باتیں سننے لگیں ، جو عانیہ کو مکمل بیڈ ریسٹ کا بول رہی تھی ، حمیدہ کے صبر کا جب پیمانہ لبریز ہوا تو اس نے لیڈی ڈاکٹر کی بات تیزی سے کاٹتے ہوئے غصیلے لہجے میں کہا ۔۔۔۔
” ارے ڈاکٹر صاحبہ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ، میری بچی ماں بننے والی ہے ، ایسا کیسے ہو سکتا ہے ، میری بچی تو بہت معصوم ہے ، آپ جھوٹ کیوں بول رہی ہیں ، میری بچی ایسا کچھ نہیں کر سکتی یہ تو ابھی کنواری ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے حیرت بھرے تاثرات لیے دھڑکتے دل کے ساتھ قدرے غصیلے لہجے میں ڈاکٹر کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔
” بی بی یہ کیسے ہو سکتا ہے ، ریپورٹ میں صاف آ چکا ہے ، شی از پریگنٹ ، اور آپ کہہ رہی ہیں آپکی بچی کنواری ہے ، ماں باپ کے لیے ہر بچہ معصوم ہی ہوتا ہے ، چاہے وہ کتنا بد چلن ہی کیوں نہ ہو ، آپکی اس معصوم بیٹی نے جو کام کیا ہے ، وہ اس ریپورٹ میں بھی آ چکا ہے کہ وہ کتنی معصوم ہے ، اور دوسری بات میں ڈاکٹر ہوں آپ سے کیوں جھوٹ بولوں گی ، میری کیا دشمنی ہے آپکے ساتھ یا آپکی بیٹی کے ساتھ “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے غصیلے لہجے میں طنز کے تیر چلاتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ سر جھکائے رونے میں مصروف تھی ۔۔۔۔۔
” تم کچھ بولتی کیوں نہیں ہو جو یہ ڈاکٹر کہہ رہی ہے کیا یہ سچ ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حمیدہ کے صبر کا پیمانہ واقعی میں لبریز ہو چکا تھا ، دوسرا عانیہ کا رونا اور خاموش رہنا اسے مزید سلگانے کے لیے کافی تھا ۔۔۔
” بول کلموہی ، تو نے کس کے ساتھ منہ کالا کیا ہے ، یہ دن دکھانے کے لیے تو پیدا ہوئی تھی ، تو پیدا ہوتے ہی مر کیوں نہیں گئی تھی ، اگر مجھے پتہ ہوتا تو بڑی ہو کر یہ دن دکھائے گی ، تو خدا کی قسم ، اسی وقت تیری گردن اپنے ہاتھوں سے دبا لیتی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی ماں نے روتے ہوئے ڈاکٹر کے سامنے ہی اسے مارنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
” ارے یہ آپ کیا کر رہی ہیں ، کوئی جوان بچوں پر بھی ہاتھ اٹھتا ہے کیا ، چھوڑیں اسے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے آ کر اس کا ہاتھ روکتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
” میں کس کس کے منہ پر ہاتھ رکھوں گی ، کس کس سے کہوں گی ، میری بچی معصوم ہے ، تو پیدا ہی کیوں ہوئی تھی ، کاش تجھے پیدا ہوتے ہی موت آ جاتی تو آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ، تو یہ دن دکھانے کے لیے پیدا ہوئی تھی ، تو پیدا ہوتے ہی مر کیوں نہیں گئی تھی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بین کرتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اسے مار بھی رہی تھی ۔۔۔۔۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
وہ صبح ہی صبح اٹھی آج اس نے ہر حال میں شاہد سے ملنا تھا ، چاہے اس کے لیے اسے اپنی جان سے ہی کیوں نہ کھیلانا پڑے ، اس سے پوچھنا تھا کہ وہ رشتہ لے کر ابھی تک کیوں نہیں آیا ، وہ چوری چھپے گھر سے نکل کر انکے گھر چل پڑی تھی ، وہ جیسے ہی انکے گھر پہنچی تو صبح ہی صبح انکے گھر کافی گہما گہمی تھی ، کوئی آ رہا تھا تو کوئی جا رہا تھا ، وہ سب سے نظریں بچاتے ہوئے انکے گھر کے اندر داخل ہو گئی تھی ۔۔۔۔
” ارے ارے کون ہو تم ، اور بنا کسی سے پوچھے گھر میں کیوں گھسے چلی جا رہی ہو”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچن میں کھڑی ایک عورت نے اسکا راستہ روکا تھا ۔۔۔
” دیکھیں میں اس وقت کافی پریشان ہوں ، مجھے شاہد سے ملنا ہے ، اسکا پتہ بتا دیں ، آپکی بڑی مہربانی ہو گی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے روتے ہوئے سامنے کھڑی اس عورت سے کہا ۔۔۔۔
” ارے تم میرے بیٹے کو کیسے جانتی ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔ اس عورت نے حیرت بھرے تاثرات لیے عانیہ سے پوچھا ؟
پھر عانیہ نے وہی کھڑے کھڑے اپنی اور شاہد کے درمیان ہونے والی ساری باتیں اسکی ماں سے کہہ دیں تھیں ۔۔۔۔
” ارے تم ہو کون اور کیوں اس طرح جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہی ہو ، میں تو تمھیں جانتا بھی نہیں ہوں ، اور یہ کیسی بکواس کر رہی ہو ، کل میری اپنی پسند سے شادی ہو چکی ہے ، اور آج تم بد شگونی پھیلانے آ گئی ہو ، تمھاری ہمت کیسے ہوئی میرے گھر کی دہلیز پار کرنے کی ، ہماری روایایت نہیں گھر میں آئے مہمان کی بے عزتی کرنا ، اس سے پہلے کہ میں اپنی روایایت بھول جاوّں اور تمھیں دھکے دے کر اس گھر سے نکال دوں ، جس طرح تم نے اس گھر کی دہلیز پار کی ہے ، اسی طرح خاموشی سے خود ہی یہاں سے چلی جاو ، یہ تمھارے لیے بہتر ہوگا “۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے عانیہ کی بات سن کر پتھرائے ہوئے لہجے میں بڑی ہی کرختگی سے کہا ۔۔۔
” شاہد تم جھوٹ کیوں بول رہے ہو ، تم نے مجھ سے پرامس کیا تھا ، کہ تم اپنے والدین کو ہمارے گھر رشتے کے لیے لاوّ گے ، اور ہم بہت جلدی شادی کر لیں گے اپنے والدین کی موجودگی میں ، اور آج تم کہہ رہے ہو یہ سب جھوٹ ہے ، تم ایسا کیوں کر رہے ہو ، اگر تم مجھ سے ناراض ہو ، تو بتاو میں تم سے معافی مانگ لیتی ہوں ، لیکن ایسا نہ کرو میرا اور کوئی نہیں ہے تمھارے سوا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ نے فورا اپنے دونوں ہاتھ اسکے سامنے جوڑتے ہوئے بے بسی سے کہا ۔۔۔
” زیادہ بکواس نہیں کرو ، میں تمھیں جانتا تک نہیں ہوں ، اور تم بکواس پر بکواس کر رہی ہو ، اس سے پہلے میں تمھیں دھکے دے کر نکال دوں ، خود ہی چلی جاو ، تم ایک نا محرم عورت ہو اور میں نہیں چاہتا کہ ایک نا محرم عورت کو ہاتھ بھی لگاوّں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے اسکی طرف پشت کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
” دیکھو شاہد خدا کے لیے ایسا مت کرو ، میں تمھارے بچے کی ماں بننے والی ہوں ، مجھ پر نہیں تو کم سے کم اپنے ہونے والے بچے پر ہی ترس کھا لو ، اگر تم نے بھی اسے نہیں اپنایا تو دنیا والے اسے جینے نہیں دیں گے ، میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ، خدا کے لیے اپنے بچے کو اپنا لو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں ہاتھ باندھے ضبط کی آخری سیڑھی پر کھڑی تھی ۔۔۔
” تم ایسے نہیں مانو گی ، تمھیں دھکے دے کر گھر سے نکالنا ہی پڑے گا “۔۔۔۔۔۔
پھر شاہد نے عانیہ کو دھکے دیتے ہوئے گھر سے نکل کر دروازہ بند کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اسکی ماں افسوس بھری نظروں سے اسے دیکھتی رہی ۔۔۔
” میری بددعا ہے تمھیں اولاد کا سکھ کبھی نصیب نہیں ہوگا ، تم نے اپنی اولاد کو ماننے سے انکار کر دیا ہے ناں جو میرے پیٹ میں پل رہی ہے ، میرا رب تمھیں کسی اور کے پیٹ سے بھی اولاد کبھی نہیں دے گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دروازے کے باہر کھڑی گڑگڑا رہی تھی
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
(( بہت سالوں بعد ))
” سوری آپکی بیوی کبھی ماں نہیں بن سکتی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکمل چیک اپ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے جو انکشاف انہیں بتایا تو اسکے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی تھی ، پھر اس نے اسی اولاد کے لیے غیر ممالک تک سے علاج کروایا تھا لیکن اسے اولاد نہیں ہوئی ، پیروں فقیروں سے منت مانگی ، پھر بھی اسے اولاد کا سکھ نصیب نہیں ہوا ، پھر کسی کے ریفرنس سے ایک الله والے بابا سے پتہ کیا تو اس نے کہا تم پر کسی کی بددعا کا اثر ہے ، تم کسی کی بددعا کے زیر اثر ہو ، تب ہی کئی سالوں پہلے والا واقعہ شاہد کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا تھا ، اسے تو عانیہ کی بددعا کھا گئی تھی ، وہ تو بددعا کو مانتا ہی نہیں تھا ، یہ کیسا اثر چل رہا تھا اس پر ، تب ہی اس نے فیصلہ کیا کہ عانیہ کو ڈھونڈ کر اس سے معافی مانگے گا ، اور اسے ہمیشہ کے لیے اپنا لے گا ، اب اسے ڈھونڈنا اس کا مشن بن گیا تھا ، اسکی ماں کے گھر گیا تھا اسے ڈھونڈنے ، وہاں سے بھی کوئی سراغ نہ مل سکا تھا ، اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک سال بیت گیا تھا ، اسکی راتوں کی نیند اڑ چکی تھی ، وہ الله سے گڑگڑا کے توبہ کرتا تھا ، بیٹھے بیٹھے رونے لگ جاتا تھا ، عانیہ عانیہ چیخنے لگتا تھا ، اسکی اس حالت ایک دیوانے جیسی بن گئی تھی ، کھانے پینے کا ہوش تک بھول چکا تھا ، یاد تھی تو بس عانیہ یا اسکی بددعائیں ، اسکے سب گھر والے اسکی وجہ سے کافی پریشان تھے ، اسکی ماں نے جب اسکی یہ حالت دیکھی تو عانیہ کو اپنے خیفہ ٹھکانے سے اپنے گھر لے کر آئی تھی ۔۔۔۔۔
” لو سنبھالو اپنی عانیہ کو ، اب اسے کہیں مت جانے دینا ، میں تیرے نکاح کا بندوبست کرتی ہوں ، میری جان اگر تم نے اسی دن اسے اپنا لیا ہوتا تو آج تم ایسے ریشان نہ ہوتے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ارے مما آپکو یہ کہاں سے ملی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے حیران ہوتے ہوئے ماں سے پوچھا ۔۔۔۔۔
” میری جان میں تمھاری ماں ہوں ، تجھے نو ماہ اپنے پیٹ میں رکھا ، جب تم کو پیٹ کے اندر بھوک لگتی تھی اس وقت مجھے بھی پتہ چل جاتا تھا کہ میرے بچے کو بھوک لگی ہے ، اب تم ماشاءاللّٰه جوان ہو گئے ہو تو کیا اب مجھے پتہ نہیں چلے گا ، کہ تم جھوٹ بول رہے ہو یا سچ ، جس دن وہ لڑکی تیرے پاس آئی تھی اپنا حق مانگنے اسکی اور تیری باتوں سے ہی مجھے پتہ چل گیا تھا ، کہ وہ لڑکی سچ اور تم جھوٹ بول رہے ہو ، میں اس ٹائم بلکل خاموش رہی تھی پتہ ہے کیوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے شاہد اور عانیہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا ، شاہد بھی حیران نظروں سے ماں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
” کیوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کچھ لمحوں بعد مختصر کہا
” کیوں کہ تمھیں بددعاوّں پر یقین نہیں تھا ، ارے میرے بچے مظلوموں کی بددعا میں بڑی طاقت ہوتی ہے ، وہ تو عرش چیر کر رب کے پاس جاتیں ہیں ، اور رب مظلوموں کی بڑی جلدی سنتا ہے ، اب تمھیں بھی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ بددعا میں کتنا اثر ہوتا ہے ، سچائی میں دی ہوئی بددعا میں بڑا اثر ہوتا ہے ، وہ لڑکی سچی تھی اسکی بددعا نے تمھاری زندگی برباد کر دی ہے ، مجھے اسکی آنکھوں میں آئے آنسو نے ساری سچائی بتا دی تھی ، اس لیے تیرے نکالنے کے بعد میں اسکے پاس گئی تھی ، اسے بہو نہیں بلکہ بیٹی سمجھ کر اپنے دوسرے گھر میں رہنے کے لیے جگہ دے دی تھی ، اور ہر مہینے اسکی ہر ضروریات کی اشیاء اسے لے کر دیتی تھی ، اسے ہر مہینے اچھی خاصی رقم بھی دیتی تھی ، اسے اس گھر میں رہتے ہوئے شاید پانچ سال ہو چکے ہیں ، یا اس سے بھی کچھ زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں نے مسکراتے ہوئے اپنی بہو اور اپنے بیٹے کو دیکھا ۔
” مما آئی لو یو ، مجھے اب احساس ہوگیا ہے اور بددعا پر یقین بھی “۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے ماں کو گلے لگاتے ہوئے کہا ۔
” آئی لو یو ٹو میری جان ،
اب جلدی سے نکاح کی تیاری کرو ، تمھاری پہلی بیوی اس گھر میں رہے گی ، اور دوسری اس گھر میں جہاں وہ اب تک رہ رہی تھی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اس کا دو دن کے بعد نکاح کر دیا گیا تھا ، تب اللہ نے شاہد پر رحم کیا تھا ، اب پہلی بیوی کو بھی الله نے اولاد دی ہے ، دوسری بھی پریگنٹ تھی ۔۔۔

ختم شد

Visited 12 times, 1 visit(s) today
Last modified: February 10, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!