مصنف : راجہ نذیر احمد خان
یہ برسات کے دن تھے۔ میرا دفتر F-11 اسلام آباد کے سیکٹر 4 میں تھا۔ جنوب کی جانب G-11 تھا جو ابھی آباد ہو رہا تھا۔ یہاں ابھی جھاڑیاں __ اور جنگل۔کے آثار موجود تھے۔
2001 جولائی، درمیانی ساون مغرب کا وقت تھا اور بارش اپنے جوبن پر تھی۔
گھٹاٹوب اندھیرے میں بجلی چمکتی تو مارگلہ کہ پہاڑیاں کسی آسیب کی مانند نظر آتیں۔ بارش شروع ہوئے 3 گھنٹے گزر چکے تھے۔
میں G11 کے ایک سٹاپ پر ویگن سے اترا _ اور ساتھ ہی ایک مسجد میں داخل ہو گیا۔ مغرب پڑھ کر ہی میں نے آفس جانے کا ارادہ کیا_ میرا گمان تھا کہ نماز پڑھ کر نکلوں گا تو شاید بارش ختم ہو جائے اور مجھے دفتر تک رسائی میں آسانی ہو۔
نماز پڑھ کر نکلا تو بارش زور و شور سے جاری تھی۔ دفتر سے بھی لیٹ ہو رہا تھا، سو لگی بارش میں چھتری لئے چل پڑا۔ میری جاب شام پانچ بجے سے رات 2 بجے تک تھی۔ مجھے دفتر کی گاڑی لیکر آتی تھی اور رات کو گھر ڈراپ کرتی تھی۔ میں ایک سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ ایک جز وقتی شام والی جاب بھی کرتا تھا۔
آج میں اپنے پہلے دفتر سے کسی وجہ سے نکلتے لیٹ ہو گیا __ اور میری شام کے دفتر کی گاڑی نکل گئی اس کے نتیجہ میں اب میں چھتری لئے آہستہ آہستہ دفتر کی جانب نکل رہا تھا۔
بارش تھوڑی ہلکی ہوئی تو میں دونوں سیکٹر کے درمیان گرین بلٹ تک پہنچ چکا تھا۔ اب 200 گز گرین بیلٹ کراس کر کے سامنے گلی میں ایک کوٹھی تک رسائی رہتی تھی۔ یہی میرا دفتر تھا جہاں میں بطور اسسٹنٹ انجینئر ایک سائنسدان کے ساتھ کام کرتا تھا۔
گرین بیلٹ پر گھاس تھی اور پیدل چلنے والوں نے دونوں سیکٹر کی روڈز کو ملانے کے لئے ایک پگڈنڈی بنا دی تھی جہاں گھاس کچل کر بیٹھ چکی تھی۔ روشنی نہ ہونے کے برابر تھی، بجلی چمکتی تو راستہ نظر آتا، تھوڑا چلتا _ پھر بجلی چمکتی اور پھر چلتا۔ بارش ہوا کے ساتھ اب چھتری کے ہوتے ہوئے بھی میرے لباس کو گیلا کر رہی تھی۔ گہرے بادلوں نے آدھی رات کا سماں باندھ رکھا تھا۔ بادلوں کی گرج چمک نے ماحول کو آسیب زدہ بنا دیا۔
گرین بیلٹ پر 100 گز پگڈنڈی چلا ہونگا، کہ اچانک میرا پاوں زمین پر پڑتے پڑتے رک گیا۔ میں نے مشکل سے ہی پاوں کو روکا ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ چلنے کے دوران _ کوئی ایک پاوں ہوا میں معلق کر کے کھڑا ہو جائے _ لیکن جان پیاری ہوتی ہے۔ بجلی بروقت چمک کر مجھے آگاہی دے گئی تھی ورنہ اندھیرے میں اٹھا قدم شاید میرے لئے موت کا پیغام ہوتا_ میرے پاوں کے نیچے سے ایک کالا سانپ رینگ کر پگڈنڈی عبور کر رہا تھا۔ میرے روئیں روئیں سے خوف نے پسینہ بہانا شروع کر دیا۔ نجانے اس عالم میں _ مجھے کتنا وقت بیت گیا۔ بجلی کی چمک نے دوبارہ انگڑائی لی تو سانپ بدستور رینگ کر ایک گھاس سے دوسری گھاس میں داخل ہو رہا تھا۔ معلوم پڑتا تھا مجھے اس پوزیشن میں رکے صدیاں بیت گئیں ہوں پاوں منوں بھاری ہو رہا تھا۔ اگر بجلی بروقت چمک کر مجھے آگاہ نہ کرتی تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
اسی اثنا میں ایک تیز روشنی کا جھماکا ہوا_ ساتھ بادلوں گرجے _ میں دم سادھے پاوں کے نیچے عفریت کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہا تھا _ روشنی نے بتایا کہ خطرہ ٹل گیا _ جان بچ گئی _ اور وہ کالی میل بھر رسی اب راستہ میں موجود نہ تھی _ ڈھم سے پاوں نے زمین چھوئی _ اگلے ہی لمحے _ میں بارش سے بے نیاز _ چھتری اٹھائے دوڑ پڑا _
چند سیکنڈ کے ان لمحوں نے مجھے یہ بتا دیا کہ زندگی کتنی پیاری چیز ہے۔