Written by 5:03 pm حقیقی کہانیاں, ڈراؤنی کہانیاں, ناولز

کالا جادو

اکثر اوقات ہمارے گھر کا آسیب کسی نہ کسی رشتہ کی شکل میں مجھ سے ملتا اور گھریلو باتیں ہوتیں۔ یہ سلسلہ 2000 عیسوی تک یوں ہی چلتا رہا۔ سنہ 2000 کے بعد میری زندگی میں بہت اہم واقعات ہوئے اور زندگی کے بڑے امتحانوں سے گزرنا پڑا۔

سنہ 1995ء میں میٹرک گورنمنٹ بوائز ہائی سیکنڈری سکول اصغرمال روڈ سے کیا، ایف ایس سی کے بعد بطور ایئرمین PAF سلیکشن ہوئی لیکن میں نے فورس جوائن نہیں کی۔ 1997ء میں ایک نیم سرکاری ادارہ میں جاب ہوئی بعد ازاں ڈگری لی اور اب تک بطور انجینئر وہیں کام کر رہا ہوں۔

سنہ 2000ء میں میں نے نیم سرکاری جاب کے علاوہ ایک اور ادارے کو بھی خدمات دیں اور اس ادارے کے ساتھ 2004 تک منسلک رہا۔

یہ ساری باتیں اس لئے بتائیں کہ 2000 کے بعد زندگی نے خوب امتحان لیا۔ جس میں سر فہرست والد محترم کی اچانک وفات __ جو طبعی نہ تھی۔ یہ 22 مئی 2004 تھا۔ زندگی سخت آزمائش سے گزر رہی تھی، زندگی اور حالات نے مایوسی کی شکل اختیار کر لی۔ دن رات اللہ سے ہمکلام ہوتا اور مدد کی فریاد کرتا۔ پھر ایک دن اللہ نے بندوبست کر دیا۔ میری ملاقات ایک بزرگ سے ہو گئی۔

یہ مغرب کی نماز کا وقت تھا، نماز کے دوران رونے کی وجہ سے میری ہچکی برآمد ہو گئی۔ جس نے نمازیوں کے سکون کو توڑا۔ نماز کے اختتام پر نوافل سے فارغ ہو کر جب اللہ سے فریاد شروع کی تو لوگ متوجہ ہونا شروع ہو گئے۔ یہ بھانپ کر کہ لوگ کہیں رحم نہ کھانا شروع کر دیں خاموشی اختیار کی اور مسجد سے نکلنے کے لئے پر تولے۔ ابھی آٹھ رہا تھا کہ ایک با ریش شخص سفید کپڑوں میں ملبوس پاس آ کر بیٹھ گیا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے بیٹھنے کو کہا۔

اس کی وضع قطع ایک عابد و زاھد کی سی تھی لیکن لہجہ مضبوط اور جسم کسرتی تھا۔ اس کی عمر 50 کے عشرے میں رہی ہو گی۔

میں اس کے مضبوط لہجے کی تاب نہ لاتے ہوئے وہیں بیٹھ گیا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا راجہ صاحب کبھی اللہ کے سوا اپنے قریبی دوستوں سے بھی اپنی پریشانیاں شیئر کریں تو اللہ اسباب پیدا کر دیگا۔ اس کے منہ سے اپنا نام سن کر کچھ حیرت تو ہوئی لیکن خاموش رہا، وہ پھر گویا ہوا_

“آپ کے انا کو ٹھیس نہیں پہنچے گی، دنیا عالم اسباب ہے، اللہ کا حکم۔ ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو، اور برائی کے کاموں سے دوری اختیار کرو”

مجھ پر اس کی بات کا اثر ہوا، اس نے بات آگے بڑھائی

“آپ کو حیرت ہوئی ہو گی کہ میں اپکا نام جانتا ہوں_ لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ کی مشکل نہیں جانتا، کیونکہ غائب کا علم اللہ کو ہے، میں اپ کے لئے اجنبی ہوں مجھ سے بات شیئر کریں یا مجھے اپنے گھر کا ایڈریس بتا دیں”

میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہا_

“جب تک مجھے معلوم نہ ہو کہ آپ کس ارادے سے مجھے سے سوالات کر رہے ہیں _ گفتگو آگے نہیں بڑھائی جا سکتی”

میری بات پر وہ مسکرایا __ کہنے لگا

“آپ فکر مند نہ ہوں _ آپ نہیں بتانا چاہتے نہ بتائیں _ لیکن اتنا تو کر سکتے ہیں کہ مجھے یہ بتا دیں کہ جہاں ہم بیٹھیں ہیں یہاں سے نکل کر اگر آپ کے گھر جائیں تو کونسا راستہ اختیار کرنا ہو گا؟”

نجانے اس کے لہجے میں کیا اعتماد اور رعب تھا کہ میں نے اسکو گھر کا ایڈریس دے دیا۔

اس نے مجھ سے اجازت چاہی _ کہنے لگا

“کل __ اسی وقت اسی مسجد میں اسی جگہ ملاقات ہو گی۔”

یہ کہہ کر وہ ساعت ان میں وہاں سے غائب ہو گیا۔ میں مسجد کے باہر دوڑ کر پہنچا لیکن وہ چھلاوہ تھا، نکل گیا۔

مسجد سے نکل کر میں اپنے دفتر پہنچا _ عشاء بھی وہیں پڑھی لیکن وہ نظر نہ آیا۔ میرا گھر یہاں سے 25 کلومیٹر کی طویل مسافت پر تھا۔

دوسرے دن نجانے کیوں مجھے اس سے ملنے کی بے چینی تھی۔ میں آزان سے پہلے ہی مسجد جا کر بیٹھ گیا لیکن اقامت تک میری نظر اسکو نہ دیکھ سکی۔ وہ کون تھا میں نہیں جانتا تھا لیکن _ ایک سحر تھا اس کی شخصیت اور باتوں کا جس کا میں منتظر تھا۔ جماعت ختم ہوئی __ میں نے نوافل ادا کئے اور پھر مناجات شروع کر دیں لیکن اب یہ خیال تھا کہ اللہ سے ایسے ہمکلام ہوا جائے کہ کوئی ذی روح متوجہ نہ ہو۔

دعا ختم ہوئی تو میرے کندے پر ایک ہاتھ کا بوجھ پڑا __ میں نے جھٹ اپنی دائیں جانب دیکھا تو وہی شخص میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر میرے ساتھ بیٹھ رہا ہے۔

“راجہ صاحب کیسے ہیں؟ یقینا آپ میرے منتظر ہوں گے”

لیکن میں نے منہ سے کوئی جواب نہ دیا اور آنکھوں سے اسے بات کرنے کو کہا۔

“آج میں آپکو بتاونگا کہ میں کون ہوں _ آپ کون ہیں _ ہم کیا ہیں؟ ہمارے ساتھ کیا ہونا ہے؟ مشیت الہی کیا ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟” اسکی باتوں میں ربط تھا لیکن میں سمجھنے سے قاصر تھا۔

“آپ نے کل میرا نام لیا، اپنا تعارف نہیں کرایا مجھے سے میری پریشانی پوچھی، آپ کو مجھ سے کیا انٹرسٹ ہو سکتا ہے؟ یہاں کون کسی کو پوچھتا ہے؟ جبکہ میں کسی کو کچھ بتانا بھی نہیں چاہتا”

آج میرے لہجہ میں اعتماد لوٹ آیا تھا اور باوجود اس کے کہ اس کی شخصیت میں ایک جادو تھا _ میں نے اسے بے اثر کرنا چاہا۔

“ہم سب اللہ کی مخلوقات ہیں_ وہ خالق ہے اور اپنے نیاز مندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا” اس کی بات جاری تھی “بندہ جلد باز ہے _ یہی بندے کی خامی ہے _ کچھ باتیں صرف اسی وقت وقوع پذیر ہوتی ہیں جب ان کا وقت مقررہ آتا ہے، آزمائش کا ایک خاص ٹائم ہوتا ہے، آپ نے پہاڑ دیکھا ہے، اس کی چاروں جانب ڈھلوان ہوتی ہے جبکہ اس کے درمیان اس کا قد ہوتا ہے، آپ سمجھی یہ آزمائش ہے جو اپنی چوٹی پر جا کر پھر ڈھلوان اختیار کرتی ہے اور انسان سہل ہو جاتا ہے” اسکی باتوں میں سحر تھا جو سر چڑھ کر بول رہا تھا _ “پہاڑ کے پہلو اور دامن میں بسنے والی صاف ندیوں کا پانی بھی چوٹیوں سے آتا ہے _ اسی پانی سے اپنی زندگی کو تعبیر کر لیں” _ اس دوران اس نے صرف اپنا نام بھی بتایا۔ “مجھے محمد احمد کہتے ہیں”

میرے جسم کے بال کھڑے ہونا شروع ہو گئے _ میں نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی کوشش کی اور کہا _ “حضرت کام کی بات ہو جائے، لیکچر بعد مین سن لونگا”

وہ مسکرایا اور بتانے لگا۔
“آپکا گھر __ جیسا کہ آپ نے بتایا تھا فلاں جگہ واقعہ ہے، اسکا دروازہ فلاں رنگ کا ہے، صحن میں فلاں فلاں پودے اور درخت موجود ہیں، عقب میں اتنی کمرے ہیں، صحن کے عین بیچ ایک کنواں ہے، فلاں کمرے میں اتنی الماریاں ہیں، فلاں فلاں کانسی کے برتن فلاں فلاں جگہ موجود ہیں”

بات گھر کی لوکیشن یا رنگ تک محدود ہوتی تو شاید مجھے حیرت نہ ہوتی لیکن یہ شخص تو گھر کے برتن اور درختوں اور پودوں کے نام تک بتا رہا تھا۔ اور سب سے حیران کن بات تو یہ تھی کہ کانسی کے برتنوں کی بابت بات ہو رہی تھی جو صرف شو پیس رہ گئے تھے انکا استعمال ترک ہو چکا تھا۔

“آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟” میں نے اپنی حیرانگی پر قابو پاتے ہوئے اس پر سوال داغا۔

“میں کچھ ثابت نہیں کرنا چاہتا، لیکن یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپ کی آزمائش تک پہنچ چکا ہوں، آپ کو فلاں آزمائش کا سامنا ہے” _ وہ اعتماد سے گویا ہوا۔

میرے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے جب اس نے میری آزمائش پر لب کشائی کی، میں اپنا اعتماد کھو بیٹھا اور میری آنکھوں کی نمی نے میرا سارا بھید کھول دیا۔ میں نے جھٹ سے آنکھیں بند کیں اور رب سے التجا کی کی میرا راز کیوں فاش ہوا _ لیکن اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ بندوں سے ہمکلام ہو مگر صرف انبیاء سے _ ہم پر شرح صدر ہونا ہی کمال ہے۔ جو کبھی ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔

میں نے اپنی رہی سہی ہمت اگھٹی کی اور اس سے پوچھا _ “آپ پہلے مجھے یہ بتائیں کہ آپکو یہ ساری باتیں کیسے معلوم ہوئیں؟ کس نے بتائیں اور ان باتوں کو جاننے کا آپ کا مقصد کیا ہے؟”

میرا پوچھنا بنتا تھا _ میں ایک مواحد مسلمان ہوں اور انبیاء کی صفات کو جانتا ہوں لیکن ایک انجانا شخص مجھےایسی باتیں بتائے جو صرف میری زات سے منسوب یوں تو حیرانگی بنتی ہے۔ اس کی شخصیت اور باتوں کا سحر اب بھی میں محسوس کر رہا تھا۔ میں نے دل میں لاحولا ولا قوہ الا باللہ حی العلی یاالعظیم پڑھا لیکن وہ غائب نہ ہوا __ مجھے کچھ اطمنان ہوا کہ یہ شیطان تو نہیں لیکن یہ کون ہے؟ میں اب متجسس تھا۔

اس نے اپنا نام بتا دیا تھا __ اب مجھے اس کی ذات میں اس کو جاننے کی دلچسپی تھی۔

“حضرت _ آپ کون ہیں؟ کہاں سے ہیں اور مقصد کیا ہے ان باتوں کا جو میں پہلے پوچھ چکا ہوں_ یہ بتائیں” میں اب اعتماد میں تھا اور کچھ دیر پہلے کا سحر رفو کر چکا تھا۔

اس شستہ سوال پر اس نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ ایک ریٹائر بنک مینیجر ہے _ اس نے اپنا علاقہ اور مسکن بتانے سے معذرت کی __

“یقینا _ آپ نے مسجد میں بیٹھ کر اپنا نام اور پیشہ درست بتایا ہو گا” _ میری سوال پر اس کے ماتھے پر شکن نمودار ہوئی _ لیکن محبت سے گویا ہوا۔

” ہمیں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں ہے، اور اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں، میں نے جو باتیں چھپانی تھیں، وہ بتانے سے معذرت کر لی”

اس کے جواب میں وزن تھا۔ “اب آپ جب میری آزمائش سے واقف ہو چکے ہیں تو یہ بتانا مناسب سمجھیں گے کہ _ آپ کو یہ باتیں کیسے پتا چلیں؟ بجائے آپ مجھے اور باتوں میں الجھائے رکھیں سیدھی بات نہ کر لیں” میں نے سوال کیا تو وہ آمادہ نظر آیا

“آپ شاید یقین نہ کریں _ یہ کوئی علم غیب نہیں __ بلکہ میرے موکلات کا بتانا ہے۔

میں موکلات سے لا علم تھا کہ یہ کس بلا۔کا نام ہے

“میں پچھلی کئی ایک دنوں سے آپ کو دیکھ رہا تھا یہاں _ میں نے بہت جلد ریٹائرمنٹ لی تھی اور اس کے بعد خدمت خلق پر لگ گیا _ ہم فلاں روحانی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے ذمہ ہے کہ ہم لوگوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان کی آزمائشوں کا روحانی علاج بھی کریں، جو لوگ مستفید ہوں ان پر لازم ہے کہ اچھی باتیں آگے بھی پہنچائے، لوگوں کا بھلا کرے اور لوگوں کی آزمائشوں سے نکلنے میں مدد کرے”

یعنی میری آزمائش کا اس کے پاس کوئی حل تھا۔

اس نے کہا “میں نے فلاں وقت میں کسی کو آپ کا نام پکارتے سنا تھا، جب آپ مارکیٹ میں سیگریٹ خرید رہے تھے، ادھر سے مجھے اپکا نام پتا چلا”

مجھے چنداں حیرت اس بات پر نہیں تھی کہ اسکو میرا نام پہلے سے معلوم تھا لیکن مجھے اس بات پر حیرت تھی کہ وہ مسلسل میرا پیچھا کرتا رہا تھا۔

“پھر _ میرے گھر کا آپکو کیا معلوم __ میری آزمائش کیسے پتا چلی” میں نے دوبارہ پوچھا

“بتاتا ہوں _ ہم خدمت پر معمور ہیں _ خدمت خلق _ اسی دوران ہمیں روحانی طاقتیں ملتی ہیں جس سے ہم موکلات پر قابو پا لیتے ہیں _” اس نے بتایا

مجھے اب موکالت کی سمجھ آ گئی کہ یہ کوئی جنات وغیرہ ہیں _

“جب میں نے آپ سے گھر کا ایڈریس پوچھا تھا _ تو اسی رات میں نے موکلات کو بھیج کر آپ کے گھر کی بابت باتیں پتا کرائیں _ آپ کی آزمائش کی بابت موکلات کو کافی تگ و دو کرنا پڑی _ آپ کے گھر میں رہائش جنات نے آپ کی ذاتی معلومات نہیں دینا چاہتے تھے، وہ آپ سے خاصے مانوس ہیں اور اپ کے ہمدرد ہیں” __اس نے کہا

“جب تک آپ کے گھر کے جنات کو یہ یقین نہیں دلایا گیا کہ اس پوچھ گچھ کے پیچھے نیک نیتی ہے وہ بتانے سے مانع تھے” _ میں اس کی بات سن کر مسکرایا لیکن اس نے بات جاری رکھی

“موکلات نے بتایا کہ آپ کے گھر میں کیا واقعات پیش آئے _ آپ اپنی آزمائش صرف فلاں جن سے ڈسکس کرتے ہیں اور جنات میں فلاں بھی موجود تھی اس نے کہا کہ بچہ پریشان بہت ہے، کہیں خود کشی نہ کر لے” __ مجھے سن کر حیرت ہوئی میں آج تک “اس فلاں” کو اپنا وہم سمجھ رہا تھا جو رات کو ملاقات ہوتی تھی

“میں یقین کر لیتا ہوں، لیکن آپ کو پتا چلنے پر سوائے میری آزمائش آشکار ہونے کے مجھے کیا ملا، آپ سے شناسائی نہ سہی لیکن میرا راز صرف آشکار ہوا ہے اسکا کوئی حل تو نہیں نکلا” __ میرے لہجے میں اب طنز عود آیا تھا

“ایسا نہیں _ میرا مقصد قطعا یہ نہیں تھا کہ صرف آپکو وہ آزمائش بتا کر آپکو شرمندہ کروں جس کی مناجات آپ صرف اللہ سے کرتے ہیں، میں تو اس کے حل کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں” __ اس نے محبت سے کہا تو مجھے تھوڑی ڈھارس بندھی

“لیکن _ جو حیران کن حالات ہیں کہ ہر روز ایک نئی آزمائش مجھ سے آن ٹکراتی ہے اس کا سدباب تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ اب بار بار ایک ہی دن میں 3 مختلف اوقات اور مختلف جگہوں پر میرے ساتھ چھوٹے چھوٹے حادثے ہونا تو تقدیر ہے _ آزمائشوں تقدیر میں لکھی ہیں تو ان کا سدباب تو ممکن نہیں” میں نے ایمان سلامت رکھتے ہوئے محتاط سوال کیا

وہ بولا “بے شک آزمائشیں من جانب اللہ ہوتی ہیں لیکن _ جادو کا وجود بھی ہے جو اچھوں اچھوں کے کس بل نکال دیتا ہے، دنیا عالم اسباب ہے، جب تک تدارک نہ کیا جائے شیاطین کو بھگانا مشکل ہے” _ مجھے حیران ہوا کہ میں کیوں اتنا اہم ہوں کہ کوئی مجھ پر یا میرے گھر پر جادو کرے گا۔

“میں _ معاشرے کا ایک عام سا فرد ہوں جس کے ہونے نہ ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ ناممکن ہے کہ کوئی مجھے اتنی اہمیت دے کہ مجھ پر جادو کرائے” _ میں نے کہا

“کوئی کسی کے لئے کتنا اہم ہے یہ بندہ خود سے اندازہ نہیں لگا سکتا، یہ بات اسے معلوم ہوتی ہے کہ آپ کتنے اہم ہیں جو غلط عملیات کرتے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ کس نے کیا لیکن آپ اور آپکا خاندان کالے جادو کے زیر اثر ہیں اور اسکا حل بھی میں ہی بتاونگا” _ اس کے اس جواب پر میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا کہ شاید وہ مجھ سے پیسے بٹورنے کی نیت سے یہ سب کہہ رہا ہے _ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں تو کہنے لگا

“آپ غلط سمجھ رہے ہیں، شاید میں آپ سے توڑ کے لئے مال کا تقاضہ کروں، ایسا ہر گز نہیں، جس دن میں نے مال کا تقاضہ کیا مجھ سے میری روحانی طاقت سلب کر لی جائیگی اور میں کسی کے کام نہیں آ سکوں گا” _ اس جواب پر میں تھوڑا مطمئن ہوا

“آخری بات _ میں آپ کو عمل بتا کر رخصت چاہوں گا اور شاید زندگی میں ہماری دوبارہ ملاقات نہ ہو، لیکن یاد رہے کہ بغیر لالچ کے آپ لوگوں کے کام آتے رہیں گے، جب آپ آسودہ ہو جائیں” اس نے ملاقات کو ختم کرنے کا عندیہ دیا تو میں نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا

اس نے مجھے ایک کتابچہ دیا جس پر “منزل” جلی حروف میں لکھا تھا _ اور ایک آیت بتائی جو اس مسئلہ و آزمائش کا حل تھا۔

اس نے کہا “صبح فجر کی نماز پڑھ کر منزل پڑھ لینا _ ایک گلاس پانی لیکر دم کر لینا اور ایک ایک گھونٹ گھر کے سب لوگ پی لینا _ تھوڑا پانی بچا کر گھر کے کونوں میں چھڑک دینا انشاءاللہ بہت جلد تمہیں اس جادو کے اثر سے نجات مل جائیگی _ لیکن یہ عمل جب تک جاری رہے گا تب تک کالے جادو کا اثر زائل رہے گا_ اس کو مکمل ختم ہونے میں 2 سال تک لگ سکتے ہیں فلاں آیت جو بتائی اسکو بروز سوموار بکثرت پڑھنا اور اللہ سے مدد طلب کرنا جو کام رکے ہوئے ہیں نکل پڑیں گے۔

میں نے احسان مندی سے اس کی باتیں سنیں اسے چائے کی آفر کی بلکہ بے انتہا کوشش کی لیکن اسکی ضد تھی کہ یہ نذرانے میں آتا ہے اس لئے اس نے رخصت لی اور دوڑ کر مسجد سے نکل گیا _ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے نکلا لیکن پلک جھپکتے وہ کل کی طرح غائب ہو گیا۔

میرے جسم سے بوجھ کم ہونا شروع ہو چکا تھا۔ لیکن شاکی بھی۔

میرا ایک شناسا تھا _ سائیں فلاں جو کالے علم کا ماہر سمجھا جاتا ہے لیکن میں اس کو ایک فراڈ کے سوا کچھ نہیں سمجھتا تھا _

میں نے بزرگ کے دیئے گئے عمل پر صبح ہی وظیفہ شروع کر دیا لیکن پتا نہیں کیوں مجھے خارش ہوئی اور میں تیسرے دن سائیں فلاں کے آستانے پر پہنچ گیا۔ اس کے سیاہ و سفید کو ہم جانتے تھے اس لئے وہ ہماری ہمیشہ ہی آوبھگت کرتا تھا۔ ہم دو دوست اکثر اس کے پاس گپ بازی کے لئے جاتے تھے۔ _ میں اس دن اکیلا ہی اس کے پاس گیا __

اس کے گھر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا اور عین دروازے کے سامنے بڑے تخت پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتا تھا _ اس نے لمبے بال رکھے ہوئے تھے اور انکو پونی کرتا _ بیٹھ بیٹھ کر اور نحس کام کر کر کے اس کے چہرے پر اس کے کرتوتوں کی پھٹکار صاف نظر آتی تھی۔

اس نے مجھے دروازے سے داخل ہوتے دیکھ کر دور سے ہی میرے نام کا شور مچانا شروع کر دیا۔ اور اپنی بیوی کو آوازیں دینے لگا کہ “توا تتا کر بھلئے لوکے، راجہ آیا ای تے روٹی کھا کے جائےگا” _ میرے قریب پہنچنے پر اس نے اعزازی بغل گیری کی کیونکہ اپنے جثہ عظیم کی بنا پر وہ اٹھنے بیٹھنے سے قاصر ہو چکا تھا۔ ہلنا جلنا اس کے لئے محال تھا لیکن وہ آداب میزبانی سے واقف تھا۔

سلام دعا کے بعد _ اس نے کہا “بادشاہو آج سنگی ساتھ لے کے نہیں آئے، کلے ای آ گئے خیر اے”
(آپ اپنے دوست کے بغیر آئے ہیں خیریت ہے)

“ویسے ہی آج اکیلے آنے کا موڈ بنا گیا” میں نے مختصر جواب دیا

“سائیں _ بتاو کالا جادو کیا ہوتا ہے؟ یہ کیسے کام کرتا ہے؟ اور اس کو کیسے کیا جاتا ہے” __ میں نے یک مشت اس پر ایسے سوالات کئے کہ اس کا منہ کھل گیا

وہ نہ بتانے والے انداز میں کہنے لگا “راجہ صاحب آپ پوچھ کر کیا کریں گے؟ دوسرا میں تو سفلی علم دیکھتا ہوں اور علم اعداد کا ماہر ہوں، بھلا میں کالے جادو کے بارے میں علم کہاں رکھتا ہوں؟”

“سائیں، میں کب کہہ رہا ہوں ہوں کہ تم کرتے ہو، میں تو صرف پوچھ رہا ہوں کہ یہ کیسے ہوتا ہے؟” میں نے دھیمے اور مضبوط لہجے میں بات جاری رکھی “سائیں __ میں یہ تو نہیں جانتا کہ تم کونسا عمل کرتے ہو لیکن یہ جانتا ہوں کہ میرے سوالوں کے جواب تمہارے سوا کوئی نہیں دے سکتا، کیا ایسا نہیں ہے؟”

“راجہ صاحب، وہ بات یہ ہے کہ کچھ باتیں صرف اہل علم سے ہی کی جاتی ہیں، لیکن آپ استفسار کرتے ہیں تو جو مجھے معلوم ہے ضرور بتاونگا” __ اس نے آمادگی کا اظہار کر دیا تھا

تو پھر بتاو __ “اب میرا لہجہ تحکمانہ ہو گیا تھا” اس پر اس نے رد عمل دینا چاہا لیکن میرا تعلق جس محکمہ سے تھا وہ آڑے آ گیا۔

اس نے کہا “راجہ صاحب، کالے جادو کی عملیات کے لئے کفر اختیار کرنا پڑتا ہے اور یہ بنیادی بات ہے اس کے عمل کے لئے، عامل نام کا مسلمان تو ہو سکتا ہے لیکن اس علم کے حصول کے لئے اسے شیطان کو خوش کرنا پڑتا ہے اور اس کے نتیجہ میں شیطان اس کی برے کاموں میں بڑھ چڑھ کر مدد کرتا ہے۔ برے جنات کی اس کے ساتھ ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے جو اس کو معلومات فراہم کرتے ہیں اور انسانوں کے ذریعے وہم اور وسوسے ڈال کر لوگوں سے کام کرائے جاتے ہیں، جس پر جادو کیا جاتا ہے، یہ جادو اسکو مور تو نہیں دے سکتا لیکن اس کو بدحال کر کے بیمار ضرور کر دیتا ہے، اسکا سکون برباد ہو جاتا ہے، اکثر لوگ نفیساتی مریض بن جاتے ہیں، کالے جادو کو کالا جادو ہی توڑ سکتا ہے”

اس کے آخری جملہ پر مجھے اعتراض تھا لیکن یہی اس کی مارکیٹنگ تھی _ میں نے اس کو آس دلائی اور بولنے مجبور کیا۔

“تم، میرے بارے اپنا علم استعمال کرو _ ذرا قلم اٹھاو اور دیکھو کہ کہیں میں اس علم کی زد میں تو نہیں” _ میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے اسے دانہ ڈالا

“راجہ صاحب، دنیا میں سب سے پہلے دشمن اپنے ہوتے ہیں، جو دوستی کی آڑ میں حملے کرتے ہیں” _ اب وہ میری نفسیات سے کھیلنا شروع ہو چکا تھا میں نے اسے نہیں روکا

“آگے چلو، بتاو تمہارا علم میرے بارے میں کیا کہتا ہے” _ میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی

اس نے ایک کاپی اٹھائی اور مجھ سے میری والدہ کا نام پوچھا _ سنہ پیدائش اور مقام پوچھا جو میں نے اسے بتا دیا اس کے بعد وہ 14 منٹ تک جمع تفریق کرتا رہا _ میں اس عمل سے نابلد تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔

اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اس کا علم اس کو کچھ اچھی خبریں نہیں دے رہا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں کے نفسیات سے کھیلنے کی یہ ایک ترکیب ہو۔ لیکن وہ کافی پریشان لگ رہا تھا۔

کاپی پنسل ایک سائیڈ پر رکھ کر اس نے ایک گلاس پانی پیا اور چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ کہنے لگا

“راجہ صاحب، میرا علم جس پر مجھے دسترس ہے کبھی جھوٹ نہیں بولتا _ آپ کالے جادو کے زیر اثر ہیں، اور آپ کا گھر بھی” اس کے بعد اس نے وہ ساری باتیں مجھے بتائیں جو وہ انجان بزرگ مجھے بتا چکے تھے۔ لیکن سائیں نے مجھے حل نہیں بتایا شاید وہ مجھ سے اس بات کا سوال کروانا چاہتا تھا۔

میں نے پوچھا “سائیں بتاو اس کا علاج کیا ہے؟ اس کا روحانی علاج ممکن ہے یا پھر اس کی کاٹ کالا جادو ہی ہے”

“میں اس کی کاٹ سفلی علم سے کرنے کی کوشش کرونگا _ کیونکہ میں کالا جادو نہیں کرتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ کالے جادو کو کالا جادو ہی کاٹ کرتا ہے” اس نے کہا

وہ مجھے مجبور کرنا چاہتا تھا کہ میں اس سے کہوں کہ تم کالا جادو کرو _ لیکن میں نے احتیاط کا دامن پکڑا اور کہا کہ تم سفلی علم استعمال کرو اللہ بہتر کریگا _ مجھے آج بھی یہ معلوم نہیں کہ سفلی علم کہتے کس کو ہیں۔

“مجھے کچھ اشیاء کی ضرورت ہو گی سفلی علم کے لئے، میں آپ سے پیسے تو نہیں لونگا اپنے علم کے لیکن اس عمل کے لئے مجھے کچھ اشیاء درکار ہیں وہ مجھے لا دیں _ میں کل ہی سے عمل شروع کر دونگا لیکن آپکو عمل میں میرے ساتھ رہنا ہوگا یا کچھ کام کرنا ہونگے” _ اس نے کہا

میں نے نیم رضامندی ظاہر کی اور اس سے پوچھا وہ کیا سامان ہے جو تمہیں اس عمل کے لئے چاہئے؟ میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ کرتے کیا ہیں؟ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ کالے جادو کو یہ سفلی علم کہہ رہا ہے۔

اس نے کاغذ پر چند سطریں لکھیں اور میرے حوالے کر دیں کہ یہ چیزیں لے آو _ کالے علم کی کاٹ میرے ذمہ ہے۔ میں نے لسٹ پڑھی تو اس میں لکھا تھا۔

ایک فٹ شیر کی کھال
زعفران 10 گرام
تازہ پانی کی زندگی مچھلی [600 گرام تک وزنی]
بکرے کا دل تازہ جس پر چھری کا کٹ نہ ہو
بکرے کی سری جس کا وزن 1 کلو تک ہو

میں نے لسٹ پڑھی اور استفسار کیا کہ ان چیزوں کا تم کیا کرو گے؟ اور مجھے کیا کرنا ہو گا۔ اس نے کہا یہ بعد کی باتیں ہیں پہلے تم یہ اشیاء لیکر آو۔ لیکن میں بضد تھا کہ جب تک مجھے ساری بات معلوم نہ ہو میں یہاں سے نہیں جاؤنگا۔ اسی دوران چائے اور سموسے آ گئے اور بات تھوڑی دیر کو رک گئی، چائے سموسے رکھ کر اس کی بیوی بھی پاس ہی بیٹھ گئی، آج سے 5 برس پہلے وہ اس کی مریدنی تھی پھر یوں ہوا کہ اسکا خاوند داعی اجل کو لبیک کہہ گیا اور پھر وہ سائیں کے 9ویں عقد میں آگئی۔ اولاد دونوں کی نہیں تھی، سائیں کو خادمہ درکار تھی اور خاتون کو چھت _ دونوں کا ملاپ ہو گیا _ سائیں کی پہلی 4 بیویاں فوت ہو گئیں تھیں اور 3 کو سائیں طلاق دے چکا تھا۔ گدی کا فیض تھا کہ سائیں کبھی بھی کنوارہ، رنڈوہ یا مطلقہ نہ رہا __

میں نے پھر سے تکرار پکڑی _ زچ ہو کر سائیں نے بتایا۔

“میں نے شیر کے چمڑے پر تعویذات لکھنے ہیں، جو زعفران سے لکھے جائیں گے۔ اس کے بعد ان تعویذات کو میں نے مچھلی، بکرے کے دل اور سری میں ڈالنا ہے۔ اس کے بعد آپ نے یہ تینوں چیزیں لیکر کسی پرانے قبرستان جانا ہے اور پرانی سے پرانی قبر دریافت کرنی ہے۔ رات کے پچھلے پہر آپ نے وہ قبر کھولنی ہے اور یہ چیزیں آپ نے اس قبر کے اندر پھینک کر قبر کو بند کر دینا ہے، قبر کو بند کرنے کے بعد آپ نے بآواز بلند کہنا ہے کہ اے قبر والے میری مشکلات آسان کر دے میں ترے نام کی نیاز دونگا، اس کے بعد صبح آپ نے 10 کلو جلیبی لیکر محلے میں اس نیت سے بانٹنی ہے کہ قبر والا آپ کے کالے جادو کی کاٹ کرے۔ کام ختم، کالا جادو ٹل جائیگا’

بے اختیار میرے منہ سے نکلا __ “کام اور ایمان دونوں ختم، یہ سفلی علم ہے یا کالا جادو؟”

میرے اس سوال پر سائیں بوکھلا گیا _ راجہ صاحب آپ کچھ بھی کر لیں اس عمل کے بغیر آپ کالے جادو سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے۔

مجھے غصہ آ گیا _ یعنی ایمان اتنا سستا کہ میں اللہ کی بھیجی آزمائش کو دور کرنے کی خاطر شرک کا ارتکاب کروں _

“مجھے رات کو قبرستان جانے اور کھولنے سے خوف نہیں ہے سائیں، اگلے الفاظ پر غور کر _ کیا یہ ایمان کی خرابی نہیں ہوگی؟ کیا اس سے شیطان خوش نہیں ہوگا؟ تم خود بتا چکے ہو کہ شیطان کو خوش کر کے ہی کالا علم کیا جا سکتا ہے”

اب اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا _ “میری صحت اور جسم اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں خود چل کر کہیں جاوں ورنہ میں یہ سب عمل خود کر لیتا اور تمہیں کالے جادو سے بچا لیتا” اس نے آخری پتہ پھینکا اور کہا

مجھے اپنے ایمان کی فکر ہے _ لیکن ایسا بیہودہ عمل میں نہیں کرونگا اور نہ کرنے کا کہونگا۔ غصہ کی حالت میں __ میں یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل آیا۔

گھر پہنچنے تک میرے دماغ میں گھنٹہ گھر بچتا رہا کہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں؟ _ اس کے در کے سوا کیا کوئی اور ہے جو بندے سے برائی دور کرے۔

میں نے عافیت اسی میں جانی کہ اس بزرگ والے عمل کو جاری رکھوں۔ میں وظیفہ کرتا رہا اور میرے حالات بتدریج ٹھیک ہونا شروع ہو گئے۔ آج میں بہت سکھی ہوں اور اس بزرگ کے لئے دعا گو ہوں جس کو اللہ نے مجھ سے ملوایا، میں شاکر ہوں کہ اللہ نے آزمائش میں ایمان بھی سلامت رکھا۔

ختم شد

Visited 47 times, 1 visit(s) today
Last modified: September 29, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!