محمد وسیم
یہ کائنات قدرت کے شاہکاروں / کرشمات سے بھری ہوئی جو انسانی عقل سے ماورا ہیں۔ اسی طرح ہماری کره ارض پر بھی اتنے عجیب و غریب کرشمات ہیں جن کو دیکھ کر ہم خدا کی بنائی ہوئی تخلیق کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور انسانی نفسیات ہے جب وہ کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں اس پر تحقیق کرتے ہیں یہی انسانی دماغ کا حسن ہے۔چلئے میں آپ کو آج ایک ایسے قدرت کے کرشمہ کے بارے میں بتاتا ہوں جس کے بارے میں پڑھ کر آپ خود سوچنے پر مجبور ہو جائینگے کیا یہ واقعی میں ہو سکتا ہے ۔ ویسے تو ہم قصہ و کہانی اور فلموں میں دیکھا ہے کہ ایک ایسا درخت جو انسانوں اور جانوروں کو نگل جاتا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں حالانکہ ایک ایسے درختوں کی نسل ضرور موجود ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کر سکتے ہیں ۔ آخر یہ واقعی ہو سکتا ہے؟جی ہاں خدا وند نے ہماری دنیا میں ایک درخت کو تخلیق کیا ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتا ہے ۔ یہ درخت وسطی اور جنوبی امریکہ کے برساتی جنگلات میں پایا جاتا ہے۔ اس درخت کو سوکریتیا یا ایکزورانزیا بھی کہا جاتا ہے ۔ پہلی بار ان درختوں کا ذکر 1980 میں ماہر حیاتیات ڈاکٹر بودلے نے کیا تھا ۔ یہ درخت عام درختوں کے مقابلے میں کا منفرد ہوتا ہے جیسا کہ اس کی جڑیں عام درختوں کی طرح زمین کے نیچے نہیں بلکہ زمین کی سطح سے بھی تقریبا دو سے پانچ فٹ اوپر ہوتی ہیں یہ درخت اپنی جڑیں سطح سے اوپر ہونے کی وجہ سے کافی اونچے ہوتے ہیں ۔ ان کی جڑیں روز دو سے تین سینٹی میٹر تک پھیلتی ہیں اور سالانہ تقریبا بیس میٹر تک یہ جڑیں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک چلی جاتی ہیں ۔ ماہر حیاتیات کے مطابق یہ درخت ایک جگہ سے دوسری جگہ اس وقت حرکت کرتے جب ان کی جڑوں پر سورج کی روشنی پڑتی ہے اس درخت کی جڑیں اسی سمت میں پھیلانا یا چلنا شروع ہو جاتی ہیں اور وہیں جن جڑوں پر سورج کی روشنی نہیں پڑتی وہ جڑیں مردہ ہو کر ختم ہو جاتی ہیں۔ ماہر حیاتیات کہتے ہیں ہم ان درختوں کو یہ نہیں کہہ سکتے یہ چل رہے ہیں لیکن یہ اپنے روزمره کے عمل کے سبب ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کر سکتے ہیں۔ اس درخت کی انوکھی خاصیت پر آج بھی تحقیق کی جاری ہے کہ یہ حرکت کی خاصیت صرف جڑوں پر سورج کی روشنی سے ہے یا کوئی اور بھی سبب ہو سکتا ہے۔<
So strange 🙄