عادت سے مجبور ہوں
لکھنا مجھے آتا نہیں
لکھتا پھر بھی روز ہوں
کہہ نہیں پاتا جو بات میں
لکھتا ہوں وہ کاغذ پہ
پھر اسے بھی پھاڑ دیتا ہوں
درد نہ ہو جائے عیاں آنکھوں سے
قصہ تمام سنا کہ کاغذ کو
موند کے آنکھیں سو جاتا ہوں
روتے ہیں کاغذ کے ٹکڑے بھی
سن کے انکی آواز
اچانک سے پھر اٹھ جاتا ہوں
مٹا دیتا ہوں درد سارے جب ربر سے
کاغذ کو بھی میں ساتھ سلا لیتا ہوں
روز کچھ لکھتا ہوں روز ہی مٹاتا ہوں
جب ہو بات خوشی کی
وہ بھی میں اسے بتلاتا ہوں
مل کے کرتے ہیں ہم باتیں ساری
میں اسے بے ربط شعر سناتا ہوں
خاموشی سے میرے لفظ کو
وہ پیتا جاتا ہے
جب بہار خوشی کی آتی ہے
جب دل اداس ہوتا ہے
وہ ساتھ میرے ہوتا ہے
ہنستا ہے , تو کبھی روتا ہے
لکھنا تمہیں آتا نہیں
وہ چپکے سے جب کہتا ہے
میں ہو کے خفا اس سے
اسے ہی کورا کر دیتا ہوں
بسا کے خود میں
میری تحریر کے عکس کو
وہ مجھے دھیرے دھیرے سناتا ہے
ہنس ہنس کے جب روتا ہوں
میرے اشک کو پیتا جاتا ہے
تم حسین دوست ہو میرے
میں روز اسے جتلاتا ہوں
لکھنا مجھے آتا نہیں
پر روز لکھتا جاتا ہوں
میں کاغذ کو بھی مناتا ہوں
جب جب میں اسے رولاتا ہوں
میرے غم و خوشی کا ساتھی ہے
میں ہر راز اسے بتاتا ہوں
میرے کاغذ قلم میرے ساتھی ھیں
ان کے بنا میں ادھورا ہو جاتا ہوں
عبدالمنیب