اس افسانے کا کبھی زکر نہ کرتے
جی لیتے اگر محبت نہ کرتے
تمہاری نظروں کے چند سوال تھے
کیسے ممکن تھا کہ اب ہم سنبھلتے
دھڑکنیں ہماری رکنے کو تھیں
اور تمہارے سب سوال مچلتے
برسوں سے چھپا رکھا تھا ایک آگ کا شعلہ
اور ہم اسی آگ میں جاتے جا رہے تھے پگھلتے
یوںہی بے سبب تیرے دل میں نہ اترتے
تیری آنکھوں سے ہوئی محبت کیسے نہ کرتے؟
میرے اشک ہیں تمہارے واسطے
تم آخر ان میں کیوں ہو پھسلتے
میں تو اُن لوگوں سے بھی جا لڑا
جو لوگ تھے باغوں کے پھول کچلتے
اب تو میسر ہی نہیں کھلی فضا ہمیں
وگرنہ وبا کے دنوں میں بھی باغوں میں ٹہلتے
جو پالے تھے آستینوں میں کبھی
وہ سانپ زہر نہیں. تھے خشبو اگلتے
میں ٹھہرا فقد ایک باغ کا مالی
تم ہو جیسے گلاب کھلتے.
ہمارا تناسب تھا بھی کہ نہیں سوچتا ہوں
منیب میں ایک ٹوٹا سا تارا تم تو ہو چاند چمکتے
عبدالمنیب